https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 18 May 2021

کورونا ویکسین لگوانا شرعی طور پر درست ہے

 موجودہ حالات میں کرونا وائرس کا جو  انجیکشن مرض سے  بچاؤ کے لیے بطور ویکسین  لگایا جارہا  ہے ، چوں کہ  یہ ویکسین  احتیاط کے طور پر مبینہ بیماری سے بچاؤ اور پیشگی علاج کے طور پر  لگائی  جارہی ہے ، یقینی بیماری  کا علاج مقصود نہیں ؛اس لیے اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کوئی ماہر دین دار ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کردے کہ  یہ مضر صحت نہیں اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے ، نیز  اس میں کوئی  حرام  یا ناپاک چیز  ملی ہوئی ہونے کا یقین یا ظن غالب نہ ہو تو اس کا لگانا جائز ہے متعدد ممالک کے علماء نے کوروناویکسین کے جواز کافتوی ڈھائے نیز حرام اشیاء کی آمیزش سے بالکل پاک ہونے کی معتبر سائنسدانوں نے تصدیق کی ہے،حرام چیز کی آمیزش کے صرف شک وشبہ کی وجہ سے اس کو حرام نہیں کہا جائے گا ، اور اگر حرام اجزاء یا ناپاک چیز ملی ہوئی  ہونے کا یقین یا ظن غالب ہو  تو اس صورت میں پیشگی علاج کے طور پر اس کا استعمال اس وقت تک  جائز نہیں جب تک کہ ماہردین دارڈاکٹر اس کی تصدیق نہ کردے کہ اسی سے علاج ممکن ہے ۔

البتہ اگر  کرونا کے کسی مریض کو بطورِ  دوا  یہ انجیکشن لگایا جائے تو اس صورت میں اگر اس میں حرام اجزاء کی آمیزش کا یقین یا غالب گمان  نہیں تو استعمال جائز ہے،  لیکن اگر حرام کی آمیزش کا قرائن سے معلوم ہوجائے تو یقینی بیماری کی صورت  میں بھی  اس کا استعمال  اس وقت تک جائز نہیں جب تک  مسلمان  ماہر دین دار طبیب یہ نہ  کہہ دے کہ   اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے،  بلکہ یہی حرام اجزاء ملی دوا ضروری ہے  اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے تو مجبوراً بطورِ دوا و علاج بقدرِ ضرورت حرام اجزاء ملی انجیکشن  استعمال کی گنجائش ہوگی۔

" فتاوی شامی" میں ہے:

"الْأَصْلُ فِي الْأَشْيَاءِ الْإِبَاحَةُ، وَأَنَّ فَرْضَ إضْرَارِهِ لِلْبَعْضِ لَا يَلْزَمُ مِنْهُ تَحْرِيمُهُ عَلَى كُلِّ أَحَدٍ، فَإِنَّ الْعَسَلَ يَضُرُّ بِأَصْحَابِ الصَّفْرَاءِ الْغَالِبَةِ، وَرُبَّمَا أَمْرَضَهُمْ مَعَ أَنَّهُ شِفَاءٌ بِالنَّصِّ الْقَطْعِيِّ، وَلَيْسَ الِاحْتِيَاطُ فِي الِافْتِرَاءِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى بِإِثْبَاتِ الْحُرْمَةِ أَوْ الْكَرَاهَةِ اللَّذَيْنِ لَا بُدَّ لَهُمَا مِنْ دَلِيلٍ، بَلْ فِي الْقَوْلِ بِالْإِبَاحَةِ الَّتِي هِيَ الْأَصْلُ".

(6 / 459، کتاب الاشربہ، ط: سعید)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 210):

"اختلف في التداوي بالمحرم، وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل: يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان، وعليه الفتوى."

مطلب في التداوي بالمحرم: (قوله: اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة: يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم»، كما رواه البخاري: أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لورعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، ... وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبدالغني أنه لايظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لاينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله: لاللتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ. أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لايحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم، تأمل. (قوله: وظاهر المذهب المنع) محمول على المظنون كما علمته (قوله: لكن نقل المصنف إلخ) مفعول نقل قوله: وقيل: يرخص إلخ والاستدراك على إطلاق المنع، وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك. ونص ما في الحاوي القدسي: إذا سال الدم من أنف إنسان ولاينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلايرخص له فيه؛ وقيل: يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة، وهو الفتوى. اهـ (قوله: ولم يعلم دواء آخر) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي، إلا أنه يفاد من قوله: كما رخص إلخ؛ لأن حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط. قال: ونقل الحموي أن لحم الخنزير لايجوز التداوي به وإن تعين، والله تعالى أعلم".

ائمہ وموذنین اور ان کی تنخواہوں کامعیار

 مساجد کے ائمہ ،مؤذنین اور خدام کے وظائف  ان کی صلاحیتوں ، معاشی ضروریات اور مہنگائی کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئے  طے کرنے چاہئیں اور ان ہی امور کو مدنظر رکھ کر وقتاً فوقتاً ان وظائف میں معقول اضافہ بھی کرنا چاہیے ۔

اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ فتاوی رحیمیہ میں لکھتے ہیں :

امامت کی تنخواہ اور اس کا معیار:

(الجواب)اسلام میں منصب امامت کی بڑی اہمیت ہے، یہ ایک باعزت باوقار اور باعظمت اہم دینی شعبہ ہے ، یہ مصلّٰی رسول اﷲﷺکا مصلّٰی ہے ، امام نائب رسول ہوتا ہے اور امام اﷲ رب العزت اور مقتدیوں کے درمیان قاصد اور ایلچی ہوتاہے ،اس لئے جو سب سے بہتر ہو اسے امام بنانا چاہئے ، حدیث میں ہے : اگر تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہاری نماز درجہ مقبولیت کو پہنچے تو تم میں جو بہتر اور نیک ہو وہ تمہاری امامت کر ے کہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان قاصد ہے:"ان سرکم ان تقبل صلوتکم فلیؤ مکم علماء کم فانھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، رواہ الطبرانی وفی روایۃ الحاکم فلیؤ مکم خیارکم وسکت عنہ "(شرح نقایہ ۱/۸۶ والاولی بالا مامۃ الخ )

دوسری حدیث میں ہے کہ تم میں جو سب سے بہتر ہو ا س کو امام بناؤ کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان ایلچی ہے (حوالۂ بالا)

فقہ کی مشہور کتاب نور الا یضاح میں ہے :

"فالا علم احق بالا مامۃ ثم الا قرأ ثم الاورع ثم الا سن ثم الا حسن خلقاً ثم الا حسن وجھا ثم للاشراف نسباًثم الا حسن صوتا ثم الا نظف ثوباً "۔(۸۳،۸۴ باب الامامۃ)

 امامت کا زیادہ حق دار وہ ہے جو دین کے امور کا زیادہ جاننے والا ہو (خصوصاً نماز سے متعلق مسائل سے سب سے زیادہ واقف ہو ) پھر وہ شخص جو تجوید سے پڑھنے میں زیادہ ماہر ہو، پھر جو زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو ، پھر وہ جو عمر میں بڑا ہو ، پھر وہ جو اچھے اخلاق والا ہو ، پھر وہ جو خوبصورت اورباوجاہت ہو ، پھر وہ جونسباً زیادہ شریف ہو پھر وہ جس کی آواز اچھی ہو پھر وہ جو زیادہ پاکیزہ کپڑے پہنتا ہو۔۔۔فی زماننا یہ ذمہ داری متولیان مساجد اور محلہ وبستی کے بااثر لوگوں کی ہے ، ان کو اس اہم مسئلہ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے ،ائمہ مساجد کے ساتھ اعزاز و احترام کا معاملہ کریں ، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں ، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصب امامت کی سخت توہین ہے ، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے ، پیشہ ورملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے ، جانبین سے اس عظیم منصب کے احترام، وقار، عزت اور عظمت کی حفاظت ضروری ہے۔۔۔امام مسجد اگر حقیقتاًضرورت مند اور معقول مشاہرہ کے بغیر اس کا گذر بسر مشکل ہورہا ہو تو مناسب انداز سے متولیان مسجد اور محلہ کے با اثر لوگوں کے سامنے اپنا مطالبہ بھی پیش کرسکتا ہے اور ذمہ داران مساجد اور بااثر لوگوں پر ہمدردی اور شفقت کے ساتھ اس طرف توجہ دینا بھی ضروری ہے ، اس صورت میں اماموں کو ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے منصب امامت کی توہین لازم آتی ہو ہرگز جائز نہ ہوگا، امام منصب امامت کے وقار عظمت اور قدرو قیمت کا محافظ اور امین ہے، ایسا طریقہ جس سے منصب امامت کی تذلیل تنقیص لازم آتی ہو ہر گز اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی .....الخ ۔

فقط واﷲ اعلم بالصواب ۔احقر الا نام سید عبدالرحیم لا جپوری ثم راندیری غفرلہ‘ ۱ شوال المکرم۱۴۱۵؁ھ۔(فتاوی رحیمیہ 9/292دارالاشاعت)"

نیز ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

امام کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کی تنخواہ کتنی ہونی چاہئے ؟

(الجواب)اقول وباﷲ التوفیق۔

حدیث شریف میں ہے :اعطوا الا جیر قبل ان یجف عرقہ (ابن ماجہ ،مشکوٰۃ شریف ص: ۲۵۸ ،باب الاجارۃ )

یعنی مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔آنحضرتﷺنے فرمایا قیامت کے روز جن تین آدمیوں کے خلاف میں مدعی ہوں گا،ا ن میں سے ایک ’’رجل استاجراجیراً فاستوفی منہ ولم یعطہ اجرہ‘‘ وہ شخص ہے جو کسی کو مزدوررکھے اور اس سے پور اکام لے لے مگر مزدوری پوری نہ دے (بخاری شریف ، بحوالہ مشکوٰۃ شریف ص ۲۵۸ ایضاً)

مزدوری پوری نہ دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ اس کی مزدوری مار لے اور پوری نہ دے بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جتنی اجرت اس کا م کی ملنی چاہئے اتنی نہ دے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے کہ کم سے کم اجرت پر کام لے لے۔فقہاء کرام رحمہم اﷲ نے تصرح کی ہے ۔" ویعطی بقدر الحاجۃ والفقہ والفضل ان قصر کان اﷲ علیہ حسیباً"۔ یعنی متولی اور مدرسہ کے مہتمم کو لازم ہے کہ خادمان مساجد و مدارس کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ وصلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں ۔ باوجود گنجائش کے کم دینا بری بات ہے ۔ اور متولی و مہتمم خدا کے جواب دہ ہوں گے 

دارالعلوم دیوبند  کافتوی حسب ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحيم

  • Fatwa:872-762/sd=11/1440

    امام کی تنخواہ اتنی ہونی چاہیے کہ جس سے اُس کی ضروریات تنگی اور محتاجگی کے بغیر پوری ہوجائیں اور اس کو یکسوئی حاصل رہے، علاقے کی نوعیت کے اعتبار سے اس کی مقدار مختلف ہوسکتی ہے اورتنخواہ کے نظم کی ذمہ داری جس طرح مسجد کمیٹی کی ہے، اسی طرح مصلیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ تنخواہ کے اخراجات کے لیے حسب وسعت تعاون کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند


لاک ڈاؤن یاایام تعطیل میں قاضی ,ائمہ اورمدرسین کی تنخواہ کامسئلہ

  مدارس کے مدرسین کے ساتھ تدریس کا جو معاہدہ  عموماً ہوتا ہے، اس کی تین ممکنہ صورتیں ہوتی ہیں: الف:… معاہدہ میں یہ طے ہواہو کہ مدرسین کے ساتھ یہ عقد سالانہ بنیادوں پر ہے، اس صورت میں حکم واضح ہے کہ انہیں ایامِ تعطیلات یعنی شعبان ورمضان کی تنخواہ بھی ملے گی، کیوں کہ ایامِ تعطیلات، ایامِ پڑھائی کے تابع ہیں۔ مدرسین کو اُن میں آرام کا موقع دیاجاتاہے، تاکہ اگلے سال پورے نشاط کے ساتھ تعلیم وتدریس کا سلسلہ برقرار رکھ سکیں۔

ب:… معاہدہ میں کسی بات کی وضاحت نہ ہو کہ اس عقد کی مدت کتنی ہے! تو ایسی صورت میں عرف کا اعتبار کرتے ہوئے اس معاہدہ کو  سال بھر کے لئے شمار کیا جائے گا، کیوں کہ مدارس کے عرف میں تدریس کا معاہدہ سالانہ  ہوتا ہے۔

ج:… معاہدہ میں اس بات کی شرط ہو کہ یہ معاملہ شوال سے رمضان تک ہوگا، اگلے سال معاہدہ کی تجدید ہوگی، اور مدرسین بھی اس بات پر راضی ہوں تو ایسی صورت میں یہ معاملہ سالانہ نہیں ہوگا، بلکہ تصریح کے مطابق شوال سے رمضان تک شمار ہوگا اور مذکورہ مدرسین رمضان کی تنخواہ کے مستحق نہ ہوں گے۔

الاشباہ والنظائرمیں ہے:

 " ومنها البطالة في المدارس کأیام الأعیاد ویوم عاشوراء وشهر رمضان في درس الفقه لم أرها صریحة في کلامهم. والمسألة علٰی وجهین: فإن کانت مشروطةً لم یسقط من المعلوم شیئ وإلا فینبغي أن یلحق ببطالة القاضي وقد اختلفوا في أخذ القاضي مارتب له من بیت المال في یوم بطالته ، فقال في المحیط: إنه یأخذ یوم البطالة لأنه یستریح للیوم الثاني، وقیل: لایأخذ، انتهى. وفي المنیة: القاضي یستحق الکفایة من بیت المال في یوم البطالة في الأصح، واختاره في منظومة ابن وهبان وقال: إنه الأظهر، فینبغي أن یکون کذلک في المدارس؛ لأن یوم البطالة للاستراحة، وفي الحقیقة یکون للمطالعة والتحریر عند ذی المهمة". (الأشباه والنظائر، الفن الأول، القاعدة السادسة: العادة محکمة، ص:۹۶،ط:قدیمی

اس سلسلے میں  دارالعلوم دیوبند  فتوی درج ذیل ہے

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa : 792-657/D=10/1441
اگر وہ لوگ مدرسہ کے مستقل ملازم ہیں تو وہ ایام رخصت کی تنخواہ کے حق دار ہوتے ہیں اسی طرح لاک ڈاوٴن کی وجہ سے جو پابندی عاید ہوگئی جس کی وجہ سے ملازمین اور مدرسین مدرسہ کا کام نہ کر سکے تو اجارہ کا معاملہ برقرار رہنے کی وجہ سے وہ تنخواہ کے حقدار ہوں گے؛ البتہ مہینہ پورا ہونے پر فوری مطالبہ تنخواہ کا نہ کیا جائے بلکہ مدرسہ میں رقم فراہم ہونے تک مہلت دیدی جائے تاکہ اہل مدرسہ کو بھی ادا کرنے میں گنجائش اور سہولت حاصل رہے۔
ہاں اگر مدرسہ کے ذمہ داروں نے مدرسہ میں پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے ملازم کو اجارہ ختم کرنے کی اطلاع کردی ہوتو پھر آئندہ دنوں کی تنخواہ بذمہ مدرسہ لازم نہ ہوگی۔
قال فی الدر: تفسخ بالقضا او الرضا ․․․․․․ وبعذر افلاس مستاجر دکان لیتجر الخ (الدر مع الرد: ۹/۱۱۲)
اس عبارت سے واضح ہے کہ مستاجر کا مفلس ہو جانا اجارہ کے ختم ہونے کے اعذار میں سے ہے۔


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

فلسطین پراسرائیلی مظالم, امریکہ, اقوام متحدہ اورعالم اسلام کی بے بسی


 فلسطینی شہر غزہ پراسرائیل کی جانب سے مسلسل بمباری جاری ہے. جس میں دوسو سے زیادہ بے گناہ لوگ معصوم بچے اورخواتین ہلاک ہوچکے ہیں زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے. مسلم ممالک بالخصوص عرب  خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں. ان کی رگ حمیت قومی وملی پنجۂ اسرائیل وامریکہ میں اس طرح جکڑی ہوئی ہے کہ وہ صرف دبے الفاظ میں مذمت کررہے ہیں صرف ایک ایران ہے جس کے تعاون کااعتراف فلسطینی اتھارٹی نے کیا ہے.سعودی عرب یمن میں تو حوثیوں سےبے مقصدجنگ لڑرہاہے.لیکن مسئلۂ فلسطین پر بولنے کے لئے اس  میں ہمت نہیں کیونکہ اس کاسب سے قریبی حلیف امریکہ ہی اسرائیل اور سعودی عرب کاحقیقی سرپرست ہے. حالاں کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل امریکہ کاپروردہ ہے اور اس کی دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے ہی مسئلۂ فلسطین اب تک حل نہ ہوسکا. عالم اسلام کو چاہئے کہ وہ اپنی فوج تشکیل دے فلسطین کوبھی اس کارکن بنائے  جس کامقصد عالم اسلام کی حفاظت ہو اور کسی بھی رکن ملک پرحملہ کی صورت میں یہ فوج دفاع کرے .

آج اسرائیل و امریکہ نے اقوام متحدہ, بین الاقوامی قوانین ,اور انسانیت کو شرمسارہی نہیں بلکہ بے معنی کردیا ہے. فلسطینی اپنے دفاع کے لئے راکٹ داغیں تو دہشت گردی اوراسرائیل بمباری کرے تواپنادفاع. ببیں تفاوت رہ ازکجا ست تابکجا . 

Monday 17 May 2021

کورونا وائرس کی وجہ سے ماسک لگاکر نماز پڑھنا

 بغیر کسی عذرکے  ناک اور منہ  کپڑے وغیرہ میں لپیٹ کر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، لہذا عام حالات میں فیس ماسک لگا کر نماز پڑھنا مکروہ ہے،  البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے نماز میں چہرہ کو ڈھانپا جائے یا ماسک پہنا جائے تو  نماز بلاکراہت درست ہو گی، کرونا وائرس کی وبا کے دنوں میں حفظانِ صحت کے اصولوں کی رو سے حکومتی احکامات  اور مسلمان دین دار، تجربہ کا رڈاکٹر وں کے مشوروں کے مطابق اگر اس پر عمل کیا جائے تو نماز بلاکراہیت درست ہے ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 652):

"يكره اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وكل عمل قليل بلا عذر".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 652):

"(قوله: والتلثم) وهو تغطية الأنف والفم في الصلاة؛ لأنه يشبه فعل المجوس حال عبادتهم النيران، زيلعي. ونقل ط عن أبي السعود: أنها تحريمية".

Wednesday 12 May 2021

مسئلۂ فلسطین

 فلسطین کا قضیہ دنیاکے قدیم ترین مسائل میں سے ایک ہے. یہ کوئی ایسامسئلہ نہیں جوبہت مشکل یاناقابل حل ہو. بلکہ اس کے مداخلت کار بالخصوص امریکہ اسے حل کرنا نہیں چاہتا . امریکہ نے ہی اس مسئلہ کو اب تک زندہ رکھاہے .موجودہ صدرمسٹر جو بائیڈن سے


سابق صدرکے بننسبت زیادہ امید ہے .سابق صدرکے بعض احمقانہ فیصلے بتاتے ہیں کہ امریکہ دوسرے ممالک سے ضوابط کی پاسداری کا خواہشمند ہے. لیکن خود اقوام متحدہ کے رزولیوشنس کی دھجیاں اڑا تارہتاہے. 1967میں اسرائیل نے  بزور طاقت فلسطین کے جن علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا مسڑ ٹرمپ کی انتظامیہ اسے درست قراردیتی تھی. یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون پر عمل پیراتھی. جبکہ اقوام متحدہ اس کوغاصبانہ قبضہ گردانتی ہے.1948یعنی قیام اسرائیل  سے پہلے  فلسطین میں یہودی آبادی 6000تھی.دنیاکے دیگرممالک سے یہودیوں کوفلطسینی سرزمین غصب کرکے بسایاگیا ان کے گھراب بھی آئے دن مسمارکئے جاتے ہیں لیکن امریکہ اس پر خاموش رہتا ہے .اس سے ہٹلر کی یہوددشمنی اور ہولوکوسٹ کی معنویت سمجھنے میں بہت مددملتی ہے. بے گناہوں کاقتل ان کے گھروں کومسمار کرناانہیں خانماں برباد کرکے چھوڑ دینا اور قبیح عمل کوجواز فراہم کرنے والے ممالک بھی اس دنیا میں موجودہیں.ان سب کاسرغنہ امریکہ ہے. عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب ,مصر سوڈان اردن,متحدہ عرب امارات اپنے ضمیر کاسوداکرچکے ہیں. ترکی اورایران حق گوئی اور بےباکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر بروقت لب کشائی کردیتے ہیں جس کی حیثیت نقارخانہ میں طوطی کی آواز سے زیادہ نہیں. 

اسرائیل  کے قیام کو منظور کرتے ہوئے 

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ساڑھے بارہ لاکھ فلسطینی عربوں کے لیے تو فلسطین کا ۴۵ فیصد رقبہ مخصوص کیا، مگر ۶ لاکھ یہودیوں کے لیے ۵۵ فیصد علاقہ دے دیا۔۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے فلسطین کے ۷۵ فیصد رقبہ پر قبضہ کرلیا اور پھر دوسری عرب اسرائیل جنگ ۱۹۷۳ء میں پورا فلسطین اور بیت المقدس یہودیوں کے تسلُّط میں آگیا۔ آج کا اسرائیل ۱۹۴۸ء کے اسرائیل سے تین گنا بڑا ہے۔ اسرائیل محض فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ اور ناجائز قبضہ کرنے پر قانع نہیں ہے،بلکہ اسرائیل کی اپنی پارلیمنٹ میں صہیونی عزائم پر مشتمل جو ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا نقشہ ہے، اس میں اُردن، مصر، شام، عراق، سوڈان اور آدھا سعودی عرب جس میں مدینہ منورہ بھی ہے ‘ شامل ہے، یہ سارا علاقہ اسرائیل اپنی گرفت میں لینے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ 
عالمِ اسلام نے اس تقسیم کو بالکل قبول نہیں کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے اصل باشندوں کو ان کی زمین سے محروم کرکے وہ زمین یہود کو دے دی گئی، دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ مقامی اور اصل حق داروں کوبے دخل کرکے ان کے علاقے پر مختلف ملکوں سے آنے والوں کو بسادیا جائے، اور پھر اُن کی ریاست بھی قائم کردی جائے۔

 ١۹٦۷میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے مصر کے صحرائے سینا، شام کی گولان کی پہاڑیاں اور بیت المقدس کے علاقہ پر قبضہ کرلیا، جو کہ اس وقت اُردن کے پاس تھا۔ اقوامِ متحدہ نے ۱۹۶۷ء کے بعد اسرائیل کے قبضہ شدہ علاقہ پر اس کے حق کو تسلیم نہیں کیا اور اس کی ابھی تک یہ قراردادیں چلی آرہی ہیں کہ اسرائیل کو ۱۹۶۷ء سے پہلے والی پوزیشن میں چلے جانا چاہیے، کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون ہے کہ کوئی ملک کسی ملک کی زمین کو طاقت کی بنیاد پر قبضے میں نہیں لے سکتا۔
اس کے بعد کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ ہوا، جس میں عربوں سے کہا گیا کہ آپ اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو اسے ۱۹۶۷ء سے پہلے والی پوزیشن پر جانے کے لیے ہم مجبور کرسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں مصر، شام اور چند دیگر عرب ممالک نے اسے تسلیم کیا، لیکن آج تک اقوامِ متحدہ اسرائیل سے یہ علاقے آزاد کرانے اور اسے ۱۹۶۷ء سے پہلے والی پوزیشن پر لے جانے میں ناکام رہی۔ 

آج شام ایران اور مصر کو ایٹمی پاور کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل سے اس کی  آنکھ میں آنکھ ڈال کربات کرسکیں. اور انیس سو سڑ سٹھ سے پہلے کی اسرائیلی پوزیشن پر اسے بھیجا جاسکے. 

تہران ہو گرعالم مشرق کا جنیوا 

شایدکرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے 

لیکن آج یہ ایک ناگفتہ بہ حقیقت ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں مجموعی طورپر سب سے طاقتور اور سب سے ترقی یافتہ اور خوشحال ملک ہے اگرچہ اس کی ترقی اور خوشحالی میں عربوں کا خون پسینہ شامل ہے جو کبھی رائیگاں نہیں جائے گا ایک دن فلسطین اپنی مطلوبہ حدود کے ساتھ مستقل اورآزاد مملکت کی حیثیت سے منصۂ شہود پر جلوہ گر ہو گا.  

رندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت
پر ہے مئے گل رنگ سے ہر شیشہ حلب کا
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ کیوں حق نہیں  اہلِ عرب کا
مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد و عنب کا

Saturday 1 May 2021

سابق رکن پارلیمنٹ جناب شہاب الدین صاحب کی وفات

 شہاب الدین. بہار کے شیر صفت ممبرپارلیمنٹ اور غریبوں کے مسیحاتھےان کی موت ہندوستان کے عظیم مرد مجاہد  کاسانحۂ ارتحال ہے. اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے .پسماندگان کوصبرجمیل عطافرمائے اور مسلمانان ہند کو ان کے نعم البدل سے نوازے. . وہبہار کی ہم عصرمسلم سیاست کےسب سے مضبوط و بے باک لیڈراورشیر دل قائد تھے. یقیناً  ان کی وفات سماج و سیاست کا بڑا خسارہ ہے . پسماندہ طبقات کے لئے ان کی حیثیت ایک عظیم مسیحا کی  تھی .

برا ہو زعفرانی گودی میڈیا کا جس نے ان کی ایسی کردار کشی  جیسے وہ کوئی خونخوار  رہزن ہوں حالانکہ مرحوم اقلیتوں ،پسماندہ طبقات اور کمزوروں کے لئے امید کی ایک کرن تھے ان سے منسوب قتل اور جرائم کےبیشتر قصے بے سروپا  ہیں).

بہار کے سیوان سے اٹھا یہ شہاب  اغیار کی سازش کے باوجود طویل عرصہ تک ریاست کامحور و مرکز بنا رہااور یہاں کی ہوائیں ان کے ابرو کے اشاروں کی منتطر رہیں. جب چاہا جیسا چاہا ویسا ہوا ان کی کرشماتی شخصیت کا ہر پہلو قابل رشک تھا یہی ایک بات تھی جس سے آسماں سیاست ان کا دشمن بن بیٹھا تھا

سیاست کے ذریعہ انہوں نے عوام  کی خوب خدمت کی. عوامی خدمات اور فلاح و بہبود کے کاز نےانہیں سیوان کا ہی نہیں ریاست کا بانکا ہیرو بنادیا اورعوام انہیں خوف و دہشت نہیں بلکہ لاڈ،پیار،ناز اور محبت میں'صاحب' کہنے لگے صاحب کی کرشماتی شخصیت کا کمال تھا انہوں نے کئی دہائیوں تک استحصالی ذہنیت اور خودساختہ سیاسی بازیگروں کی ناک مین نکیل ڈال  دی تھی. ان کی بے باکی ضرب المثل تھی.  وہ ایک اصول پسند شخص تھے جس نے کبھی فرقہ پرستوں سے سمجھوتہ نہیں کیا پسماندہ افراد کے حقوق کے لئے وہ ہمیشہ ایک جنگجو کی طرح کھڑا رہا اور جاتے  ہوئےسب کو رلا گیا غم کی اس گھڑی میں مسلمانان ہندان کے کنبہ کے ساتھ ہیں. شہاب الدین کے شاندار سیاسی سفر کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری اب ان کی شریک حیات محترمہ حنا شہاب اور جواں سال بیٹے اسامہ شہاب پر  ہے 

Monday 26 April 2021

جناب شاہداحمدخان صاحب رحمہ اللہ کی وفات

 اب سے دوگھنٹہ قبل رفیق محترم جناب شاہد صاحب کی وفات ہوگئی. شروع میں کئ روزتک وہ تھکن محسوس کرتے تھے اتنی شدید کے چلنے پھرنے سے عاجز بالآخر ہسپتال میں داخل کیا گیا دودن آکسیجن پر رہے آج شام انتقال ہوگیا.انہوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انجنئیر نگ کی ڈگری لی.کویت, امریکہ, اورکناڈامیں سروس کی. کناڈاہی میں رہائش اختیارکرلی تھی. باقاعدہ شہریت بھی حاصل تھی. عرصۂ دراز سے علی گڑھ میں ہی مقیم تھے. اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرما ئے  اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے. 

آنے جانے پہ سانس کے ہے مدار 

سخت ناپائدار  ہے دنیا.  

ایک مرتبہ اردن گئے  تو میرے  لئے .بیروت  کی چھپی  ہوئی  نہایت دیدہ زیب  فتح الباری عربی شرح صحیح بخاری ,اورالموردعربی انگلش لغت  لائے.ان  کی وفات  سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے اس کا پر ہو نا بظاہر مشکل ہے. 

اب انہیں ڈھونڈو چراغ رخ زیبا لے کر 

.ان سادگی شرافت دیانت للہیت اور خلوص  سے مجھے عشق تھا.  جب بھی  تشریف لاتے  بڑے خلوص سے راقم الحروف سے محو گفتگو رہتے .زیادہ دن ہوجاتے تو خودفون کرکے خیریت معلوم کرتے. افسوس اس وبا ء  عظیم نے  کیسے کیسے عزیز چھین لئے .

روز اک حشر سا محسوس ہواکرتا ہے. 

پھر بھی سنتے ہیں کہ ہے روز قیامت باقی 


Sunday 11 April 2021

مقروض پر زکوۃ

 اگر کسی شخص کے پاس اسی ہزار روپے مالیت کا سونا ہو اور وہ ڈیڑھ لاکھ کا مقروض ہو تو اگر اس شخص کے پاس مذکورہ سونے کے علاوہ چاندی، کیش یا مالِ تجارت میں سے اتنا مال نہیں ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد اس کے پاس نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت )کے بقدر بچ جائے تو ایسے شخص پر زکات فرض نہیں ہے۔

Saturday 3 April 2021

حادثۂ فاجعہ

امیر شریعت حضرت مولانا ولی رحمانی  رحمہ اللہ نے آج دن میں تقریباڈھائی بجے وفات پائی اناللہ واناالیہ راجعون.موت توبہرحال ایک نہ ایک دن آنی ہی تھی لیکن موجودہ حالات میں آپ کی موت ہندوستانی مسلمانوں کے لئے  ایک جانکاہ حادثہ ہے جس کی تلافی فی الحال بظاہرمشکل سی بات ہے.ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل سے ان کی وابستگی لازمی درجہ کی تھی.امت مسلمہ کی فکر,اس کادرد اس کی ترقی وعروج کے ذرایع ووسائل کی کھوج ,مسلمانوں  کی زبوں حالی اور انحطاط کاسدباب اس کی فکراورسبھی درپیش مسائل کاحل آپ کے فکروعمل کا محور تھااسی میں آپ کی عمر صرف ہوئی بلکہ آپ کاپوراخاندان امت مسلمہ کی فکراس کی ترقی وعروج کے لئے فکرمندرہا.آپ کے والد گرامی حضرت مولانامنت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ یکے از بانیان آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ, علامہ انورشاہ کشمیری کے شاگرد رشید اورمجاہد آزادی تھے.ان کے والد یعنی مولاناولی رحمانی کے دادا مولانا محمد علی مونگیری ندوۃ العلماء کے بانی تھے. آپ کاخاندان موضع محی الدین پور ضلع مظفرنگریوپی سے پہلے کانپور پھر مونگیر بہار میں مقیم ہوگیاتھا وہیں مولانامنت اللہ رحمانی,مولاناولی رحمانی پیداہوئے وہیں ان کی خانقاہ اور مدرسہ جامعہ رحمانی ہے. مولاناولی رحمانی کی مختصرسوانح حسب ذیل ہے.



Sunday 28 March 2021

مولانامحمد رفیق قاسمی رحمہ اللہ

  حضرت مولانامحمد رفیق قاسمی صاحب موضع اڈبر ضلع گوڑگانوں حالیہ ضلع نوح میوات ہریانہ میں پیداہوئے.افسوس آج بروزاتوار14شعبان المعظم 1442ھ /28مارچ2021ء بوقت عصروفات پائی اناللہ واناالیہ راجعون.آپ نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعدعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے.پی ایچ ڈی عربی زبان میں کیا. اے ایم یو سٹی اسکول میں دینیات کے سابق استاد تھے ریٹائر منٹ کے بعد سے ہی عرصہ دراز سے ڈپریشن کے مرض میں مبتلا تھےسادہ مزاج بے تکلف خوشگفتار اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے .تقریباایک سال قبل آپ کی اہلیہ محترمہ نے وفات پائی تھی کہ آج شب برات کو تقریبادس بجے علی نگر علی گڑھ کے قبرستان میں آپ کو بھی سپرد خاک کردیاگیا.اللہ تعالی مرحوم کوجنت الفردوس میں جگہ دے اور پسماندگان کوصبرجمیل عطافرمائے.آپ مدرسہ معین الاسلام نوح میں  میرے والد  صاحب مرحوم کے ہمدرس تھے.راقم الحروف پر ان کی خاص شفقت وعنایات تھیں انہوں نے سینکڑوں طلباء وطالبات کوگھرجاکربلامعاوضہ عربی زبان ,دینیات اور قرآن مجید کی تعلیم دی.

مرحوم طویل وقت سے صاحب فراش تھےمسلسل علالت نے بالکل نحیف وناتواں کردیاتھا بالآخر عصر کے وقت فرشتۂ اجل کولبیک کہا:

کون جینے کے لئے مرتاہے

لوسنبھالواپنی دنیا ہم چلے

قرآن پر ہاتھ رکھ کر گناہ نہ کرنے کی قسم کھائی پھر وہی گناہ کرلیا توکیا کفارہ ہوا

 محض قرآن پر ہاتھ رکھنے سے قسم منعقد نہیں ہوتی جب تک کے قسم کھانے والا زبان سے الفاظ ادا نہ کرے کہ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں یا میں قرآن کی قسم کھاتاہوں  کہ فلاں کام نہیں کروں گا؛ لہذا اگر اس نے ان الفاظ کے ساتھ قسم کھائی تھی تو اس کو قسم کے توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا اور اگر ان الفاظ کے ساتھ قسم نہیں کھائی تھی، بلکہ صرف قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھ کر یہ کہا تھا کہ میں یہ کام نہیں کروں گا تو ایسی صورت میں اس پر کفارہ نہیں ہے، لیکن آئندہ پوری کوشش کرے کہ مذکورہ گناہ اس سے صادر نہ ہو۔اگر دو مرتبہ قسم کھا کرتوڑی ہے دو کفارے دینا لازم ہیں۔ 

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ اگر مالی استطاعت ہے تو دس غریبوں کو کپڑوں کا جوڑا دے، یا دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کے برابر رقم دے دے، یا ایک ہی مسکین کو دس دن تک دو وقت کھانا کھلائے یا اسے دس دن تک روزانہ ایک ایک صدقہ فطر کی رقم دیتارہے، اور اگر اتنی استطاعت نہ ہو تو پھر لگاتار دین دن روزے رکھے۔ فقط واللہ اعلم