https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 26 April 2023

خواتین کاقبرستان جانا

اگر کوئی بوڑھی عورت کبھی کبھار عبرت اور آخرت کی یاد کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ قبرستان جاکر رونا دھونا نہ کرے، کوئی خلاف شرع کام نہ کرے۔اور جوان عورت کے لیے موت کی یاد اور آخرت کی نیت سے جانا بھی مکروہ ہے؛ کیوں کہ جوان عورت کا گھر سے نکلنا خطرات سے خالی نہیں ہوتا ، اور شرعی ضرورت کے بغیر اس کے لیے گھر سے نکلنا پسندیدہ نہیں ہے، یہاں تک کہ نماز باجماعت کے لیے جانا خواتین کے لیے مکروہ ہے، اور قبرستان جانا شرعًا ضرورت میں داخل نہیں ہے۔ بذل المجہود شرح سنن ابی داود میں ہے: "قلت: وفي رواية عائشة - رضي الله عنها - عند مسلم قالت: "كيف أقول يا رسول الله؟ تعني في زيارة القبور، قال: قولي السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين، ويرحم الله المستقدمين منّا والمستأخرين، وإنا إن شاء الله بكم للاحقون"، دليل على أن النساء أذن لهن في زيارة القبور.وكذلك ما أخرجه البخاري: "أن النبي - صلى الله عليه وسلم - مر بامرأة تبكي عند قبر فقال: اتقي الله واصبري، الحديث". ولم ينكر عليها الزيارة. وكذلك ما رواه الحاكم: "أن فاطمة بنت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كانت تزور قبر عمها حمزة كل جمعة فتصلي وتبكي عنده". فالصواب الذي ينبغي الاعتماد عليه هو جواز الزيارة للنساء إذا كان الأمن من تضييع حق الزوجة والتبرج والجزع والفزع ونحو ذلك من الفتن؛ لأن الزيارة عُلِّلَ بتذكر الموت، ويحتاج إليه الرجال والنساء، فلا مانع من الإذن لهن. (بذل المجهود شرح سنن أبي داود: باب في زيارة النساء للقبور (10/ 527، 528)،ط. مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند، الطبعة: الأولى، 1427 هـ - 2006 م) فتاوی شامی میں ہے: قوله: ( ولو للنساء)، وقيل: تحرم عليهن، والأصح: أن الرخصة ثابتة لهن بحر. وجزم في شرح المنية بالكراهة ؛ لما مر في اتباعهن الجنازة. وقال الخير الرملي: إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز، وعليه حمل حديث "لعن الله زائرات القبور". وإن كان للاعتبار والترحم من غير بكاء والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شوابّ كحضور الجماعة في المساجد آه. وهو توفيق حسن. (حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الصلاة، باب صلاة الجنائز، مطلب في زيارة القبور (2/ 242)،ط. سعيد، كراتشي)

Tuesday 25 April 2023

شش عید کے روزوں کے ساتھ قضاروزوں کی نیت درست نہیں

نفل روزہ الگ ہے اور فرض کی قضا کا روزہ الگ اور مستقل حیثیت رکھتا ہے، روزہ میں نفل کی نیت کرنے سے وہ نفلی روزہ ہوگا اور قضا کی نیت کرنے سے وہ قضا کا روزہ ہوگا، ایک روزہ میں نفل اورقضا دونوں کی نیت نہیں کرسکتے ہیں؛ لہذا شوال کے چھ روزوں یا ذی الحجہ، عاشورہ کے روزوں کے ساتھ،قضا روزوں کی ادائیگی کی نیت کرناصحیح نہیں ہے۔اس لیے اگر شوال کے مہینے میں شوال کے چھ روزوں کی نیت کی ہےتو وہ نفلی روزے ہوں گے قضا کے نہیں ہوں گے، اور اگر ان دنوں میں قضا کی نیت کی ہے تو وہ قضا کے روزے ہوں گے اور اس سے نفلی کا ثواب نہیں ملے گا۔ اگر یہ گمان ہو کہ شوال کے روزے رکھے تو بعد میں قضا روزے رکھنا مشکل ہوگا تو پہلے قضا روزے رکھنے چاہییں، بصورتِ دیگر شوال میں نفل روزے رکھ لے، اور پھر قضا کرلے۔ البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 299) : "ولو نوى قضاء رمضان والتطوع كان عن القضاء في قول أبي يوسف، خلافاً لمحمد فإن عنده يصير شارعاً في التطوع، بخلاف الصلاة فإنه إذا نوى التطوع والفرض لايصير شارعاً في الصلاة أصلاً عنده، ولو نوى قضاء رمضان وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، وفي القياس يكون تطوعاً، وهو قول محمد، كذا في الفتاوى الظهيرية". الفتاوى الهندية (1/ 196): "ومتى نوى شيئين مختلفين متساويين في الوكادة والفريضة، ولا رجحان لأحدهما على الآخر بطلا، ومتى ترجح أحدهما على الآخر ثبت الراجح، كذا في محيط السرخسي. فإذا نوى عن قضاء رمضان والنذر كان عن قضاء رمضان استحساناً، وإن نوى النذر المعين والتطوع ليلاً أو نهاراً أو نوى النذر المعين، وكفارة من الليل يقع عن النذر المعين بالإجماع، كذا في السراج الوهاج. ولو نوى قضاء رمضان، وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، كذا في فتاوى قاضي خان. وإذا نوى قضاء بعض رمضان، والتطوع يقع عن رمضان في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى -، وهو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في الذخيرة". تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (3/ 13): "ولو نوى صوم القضاء والنفل أو الزكاة والتطوع أو الحج المنذور والتطوع يكون تطوعاً عند محمد؛ لأنهما بطلتا بالتعارض فبقي مطلق النية فصار نفلاً، وعند أبي يوسف يقع عن الأقوى ترجيحاً له عند التعارض، وهو الفرض أو الواجب".

Saturday 22 April 2023

عيد

أَيُّ شَيءٍ في العيدِ أُهدي إِلَيكِ يا مَلاكي وَكُلُّ شَيءٍ لَدَيكِ أَسِواراً أَم دُمُلجاً مِن نُضارٍ لا أُحِبُّ القُيودَ في مِعصَمَيكِ أَمخُموراً وَلَيسَ في الأَرضِ خَمرٌ كَالَّتي تَسكُبينَ مِن لَحظَيكِ أَم وُروداً وَالوَردُ أَجمَلُهُ عِندي الَّذي قَد نَشَقتُ مِن خَدَّيكِ أَم عَقيقاً كَمُهجَتي يَتَلَظّى وَالعَقيقُ الثَمينُ في شَفَتَيكِ لَيسَ عِندي شَيءٌ أَعَزُّ مِنَ الروحِ وَروحي مَرحونَةٌ في يَدَيكِ

Thursday 20 April 2023

عیدکی نماز کاطریقہ

عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کا طریقہ ایک ہی ہے۔عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں، جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کریں، اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لیں اور ثناء پڑھیں، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہیں، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لیں، اس کے بعد امام اونچی آواز میں قراءت کرے، قراءت مکمل ہونے کے بعد بقیہ رکعت (رکوع اور سجدہ وغیرہ) دیگر نمازوں کی طرح ادا کریں۔ پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام اونچی آواز میں قراءت کرے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جایں اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دیں، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام دو خطبے دے، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھے۔

نماز عیدین میں رکعت نکل جائے تو کیسے پوراکریں

اگرعید کی نماز میں کسی کی ایک رکعت چھوٹ جائے تو وہ امام کے سلام کے بعد جب چھوٹی ہوئی رکعت ادا کرے گا تو پہلے ثنا، تعوذ، تسمیہ، سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے گا، اس کے بعد رکوع سے پہلے تکبیرات زوائد کہے گا اور عام نمازوں کی طرح مابقیہ نماز مکمل کرے گا۔ ولو سبق برکعة یقرأ ثم یکبر لئلا یتوالی التکبیر (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب العیدین، ۳: ۵۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ومثلہ في مراقي الفلاح ( مع حاشیة الطحطاوي علیہ ص: ۵۳۴، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) وغیرہ۔

Sunday 16 April 2023

ہندوستان میں لاقانونیت ,حکومت کی سرپرستی میں غنڈہ راج

پولیس کی موجودگی میں عتیق احمد اور ان کے بھائی کاقتل یہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ بی جے پی حکومت قانون کی حکمرانی نہیں چاہتی. کبھی پولیس قانون سے بالاتر ہو کر خود انکاؤنر کردیتی ہے اور کبھی پولیس کی موجودگی میں غنڈے قتل کردیتے ہیں. حکومت کی یہ روش عدل و انصاف کے نظام کوبالائے طاق رکھنے کے لئے اپنائی گئی ہے تاکہ اپنے مخالفین کوقانون کے طویل ترین دورانیہ سے گذارنے کے بجایے جلد ازجلد ٹھکانے لگادیاجائے. عدلیہ بیچاری اتنی کمزور ہے کہ وہ قانون کی دھجیاں اڑا نے والی حکومت سے اف تک نہیں کہہ سکتی. راجیو گاندھی کے قاتل جیل سے رہا کردئے گئے بلقیس بانو اورذکیہ جعفری خاندان کے ہتھیارے آزاد کردئے گئے کیونکہ وہ حکومت کے پالتوغنڈے تھے اور جیل میں بند اپنے مخالفین کو اپنے غنڈوں کے ذریعہ قتل کرایاجارہاہے. فرقہ پرستی اورووٹ بینک میں اضافہ کیلئے یہ کھیل کھیلاجارہاہے. اگریہی حالت رہی توظلم وبربریت کی وہ طوفانی ہوابھی آسکتی جوملکی سالمیت کے پرخچے اڑا دے گی.

Thursday 13 April 2023

نفل نماز کاثواب مرحومین کوبخشنا

نفل نماز پڑھ کر کسی مرحوم کو ایصالِ ثواب کرنا (یعنی نفل نماز کا ثواب مرحوم کو بخش دینا) جائز ہے۔ البحر الرائق میں ہے: فَإِنَّ مَنْ صَامَ أَوْ صَلَّى أَوْ تَصَدَّقَ وَجَعَلَ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ مِنْ الْأَمْوَاتِ أَوْ الْأَحْيَاءِ جَازَ وَيَصِلُ ثَوَابُهَا إلَيْهِمْ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ، وَقَدْ صَحَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ: أَحَدُهُمَا: عَنْ نَفْسِهِ، وَالْآخَرُ: عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ آمَنَ بِوَحْدَانِيَّةِ اللَّهِ تَعَالَى وَبِرِسَالَتِهِ» صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرُوِيَ «أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: إنَّ أُمِّي كَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَةَ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقْ». وَعَلَيْهِ عَمَلُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ لَدُنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلَى يَوْمِنَا هَذَا مِنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ عَلَيْهَا، وَالتَّكْفِينِ، وَالصَّدَقَاتِ، وَالصَّوْمِ، وَالصَّلَاةِ، وَجَعْلِ ثَوَابِهَا لِلْأَمْوَاتِ، وَلَا امْتِنَاعَ فِي الْعَقْلِ أَيْضًا؛ لِأَنَّ إعْطَاءَ الثَّوَابِ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى إفْضَالٌ مِنْهُ لَا اسْتِحْقَاقَ عَلَيْهِ، فَلَهُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَى مَنْ عَمِلَ لِأَجْلِهِ بِجَعْلِ الثَّوَابِ لَهُ، كَمَا لَهُ أَنْ يَتَفَضَّلَ بِإِعْطَاءِ الثَّوَابِ مِنْ غَيْرِ عَمَلٍ رَأْسًا. (كتاب الحج، فَصْلٌ نَبَاتَ الْحَرَمِ، ٢ / ٢١٢) البحر الرائق میں ہے: والأصل فیه أن الإنسان له أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءة قرآن أو ذكراً أو حجاً أو غیر ذلك عند أصحابنا بالکتاب والسنة. ( البحرالرائق، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ٣/ ٥٩) حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح میں ہے: فللإنسان أن یجعل ثواب عمله لغیره عند أهل السنة والجماعة سواء كان المجعول له حیًّا أو میتًا من غیرأن ینقص من أجره شيء. وأخرج الطبراني والبیهقي في الشعب عن ابن عمر قال: قال رسول الله ﷺ: إذا تصدق أحدكم بصدقة تطوعاً فلیجعلها عن أبو یه؛ فیکون لهما أجرها ولاینقص من أجره شيء. (حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاة، باب أحکام الجنائز، فصل في زیارة القبور )

Wednesday 12 April 2023

مراثى على سقوط الأندلس

. يقول شاعر مجهول يرثي طليطلة في قصيدة مطلعها: لثُكلكِ كيف تبتسم الثغور سرورًا بعدما سبيت ثغور طليطلة أباح الكفر منها حماها إنّ ذا نبــأ كبـــير وقال ابن عبدون: الدهر يفجع بعد العين بالأثر فما البكاء على الأشباح والصور أنهاك أنهاك لا آلوك موعظة عن نومة بين ناب الليث والظفر فالدهر حرب وإن أبدى مسالمة والبيض والسود مثل البيض والسمر ولا هوادة بين الرأس تأخذه يد الضراب وبين الصارم الذكر فلا تغرنك من دنياك نومتها فما صناعة عينيها سوى السهر ما لليالي أقال الله عثرتنا من الليالي وخانتها يد الغير في كل حين لها في كل جارحة منا جراح وإن زاغت عن النظر تسر بالشيء لكن كي تغر به كالأيم ثار إلى الجاني من الزهر كم دولة وليت بالنصر خدمتها لم تبق منها وسل ذكراك من خبر هوت بدارا وفلت غرب قاتله وكان عضباً على الأملاك ذا أثر واسترجعت من بني ساسان ما وهبت ولم تدع لبني يونان من أثر وألحقت أختها طسماً وعاد على عاد وجرهم منها ناقض المرر وما أقالت ذوي الهيئات من يمن ولا أجارت ذوي الغايات من مضر ومزقت سبأ في كل قاصية فما التقى رائح منهم بمبتكر وأنفذت في كليب حكمها ورمت مهلهلاً بين سمع الأرض والبصر ولم ترد على الضليل صحته ولا ثنت أسداً عن ربها حجر ودوخت آل ذبيان وإخوتهم عبساً وغصت بني بدر على النهر وألحقت بعدي بالعراق على يد ابنه أحمر العينين والشعر وأهلكت إبرويزاً بابنه ورمت بيزدجرد إلى مرو فلم يحر وبلغت يزدجرد الصين واختزلت عنه سوى الفرس جمع الترك والخزر ولم ترد مواضي رستم وقنا ذي حاجب عنه سعدا في ابنه الغير يوم القليب بنو بدرفنوا وسعى قليب بدر بمن فيه إلى سقر ومزقت جعفراً بالبيض واختلست من غيله حمزة الظلام للجزر وأشرفت بخبيت فوق فارعة وألصقت طلحة الفياض بالعفر وخضبت شيب عثمان دماً وخطت إلى الزبير ولم تستح من عمر ولا رعت لأبي اليقظان صحبته ولم تزوده إلا الضيح في الغمر وأجزرت سيف أشقاها أبا حسن وأمكنت من حسين راحتي شمر وليتها إذ فدت عمراً بخارجة فدت علياً بمن شاءت من البشر وفي ابن هند وفي ابن المصطفى حسن أتت بمعضلة الألباب والفكر فبعضنا قائل ما اغتاله أحد وبعضنا ساكت لم يؤت من حصر وأردت ابن زياد بالحسين فلم يبؤ بشسع له قد طاح أو ظفر وعممت بالظبي فودي أبي أنس ولم ترد الردى عنه قنا زفر أنزلت مصعباً من رأس شاهقة كانت بها مهجة المختار في وزر ولم تراقب مكان ابن الزبير ولا راعت عياذته بالبيت والحجر وأعملت في لطيم الجن حيلتها واستوسقت لأبي الذبان ذي البخر ولم تدع لأبي الذبان قاضبه ليس اللطيم لها عمرو بمنتصر وأحرقت شلو زيد بعدما احترقت عليه وجداً قلوب الآي والسور وأظفرت بالوليد بن اليزيد ولم تبق الخلافة بين الكأس والوتر حبابه حب رمان أتيح لها واحمر قطرته نفحة القطر ولم تعد قضب السفاح نائبة عن رأس مروان أو أشياعه الفجر وأسبلت دمعة الروح الأمين على دم بفخ لآل المصطفى هدر وأشرقت جعفراً والفضل ينظره والشيخ يحيى بريق الصارم الذكر وأخفرت في الأمين العهد وانتدبت لجعفر بابنه والأ عبد الغدر وما وفت بعهود المستعين ولا بما تأكد للمعتز من مرر وأوثقت في عراها كل معتمدٍ وأشرقت بقذاها كل مقتدر وروعت كل مأمون ومؤتمن وأسلمت كل منصور ومنتصر وأعرثت آل عبّاد لعاً لهم بذيل زباء لم تنفر من الذعر بني المظفر والأيام لا نزلت مراحل والورى منها على سفر سحقاً ليومكم يوماً ولا حملت بمثله ليلة في غابر العمر من للأسرة أو من للأعنة أو من للأسنة يهديها إلى الثغر من للظبي وعوالي الخط قد عقدت أطراف ألسنها بالعي والحصر وطوقت بالمنايا السود بيضهم فأعجب لذاك وما منها سوى الذكر من لليراعة أو من للبراعة أو من للسماحة أو للنفع والضرر أو دفع كارثة أو ردع آزفة أو قمع حادثة تعيا على القُدر ويب السماح وويب البأس لو سلما وحسرة الدين والدنيا على عمر سقت ثرى الفضل والعباس هامية تعزى إليهم سماحاً لا إلى المطر ثلاثة ما أرى السعدان مثلهم وأخبر ولو غززوا في الحوت بالقمر ثلاثة ما ارتقى النسران حيث رقوا وكل ما طار من نسر ولم يطر ثلاثة كذوات الدهر منذ نأوا عني مضى الدهر لم يربع ولم يحر ومر من كل شيء فيه أطيبه حتى التمتع بالآصال والبكر أين الجلال الذي غضت مهابته قلوبنا وعيون الأنجم الزهر أين الإباء الذي أرسوا قواعده على دعائم من عز ومن ظفر أين الوفاء الذي أصفوا شرائعه فلم يرد أحد منها على كدر كانوا رواسي أرض الله منذ مضوا عنها استطارت بمن فيها ولم تقر كانوا مصابيحها فمذ خبوا عثرت هذي الخليقة يا لله في سدر كانوا شجى الدهر فاستهوتهم خدع منه بأحلام عاد في خطى الحضر ويل أمه من طلوب الثأر مدركه منهم بأسد سراة في الوغى صبر من لي ولا من بهم إن أظلمت نوبٌ ولم يكن ليلها يفضي إلى سحر من لي ولا من بهم إن عطلت سنن وأخفيت ألسن الآثار والسير من لي ولا من بهم إن أطبقت محنٌ ولم يكن وردها يدعو إلى صدر على الفضائل إلا الصبر بعدهم سلام مرتقب للأجر منتظر يرجو عسى وله في أختها أمل والدهر ذو عقب شتى وذو غير قرطت آذان من فيها بفاضحة على الحسان حصى الياقوت والدرر سيارة في أقاصى الأرض قاطعة شقاشقاً هدرت في البدو والخضر مطاعة الأمر في الألباب قاضية من المسامع ما لم يقض من وطر ثم الصلاة على المختار سيدنا المصطفى المجتبى المبعوث من مضر والآل والصحب ثم التابعين له ما هب ريح وهل السحب بالمطر

Monday 10 April 2023

کمیشن پرچندہ کرناکیساہے

چندہ یا زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے کمیشن پر سفیر مقرر کرنا جائز نہیں، اگر مدرسہ کے چندہ کرنے کے لیے تنخواہ دار ملازم ہے تو اس کی اچھی کارکردگی کی وجہ سے تنخواہ کے علاوہ بطور انعام فی صد کمیشن غیر زکوۃ سے دینا جائز ہے، لیکن زکوٰۃ کے پیسے سے کمیشن دینا جائز نہیں، بلکہ زکوٰۃ کا پیسہ مدرسہ میں جمع کرانا لازم ہے اور یہ انعام مدرسہ اپنے امدادای فنڈ میں سے دے سکتا ہے، اور اگر تنخواہ دار ملازم نہیں ہے تو کمیشن پر چندہ کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اجرت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اجارہ فاسدہ ہے۔ فتاوی شامی میں ہے: "وعامل يعم الساعي والعاشر۔۔۔قوله: يعم الساعي هو من يسعى في القبائل لجمع صدقة السوائم والعاشر من نصبه الإمام على الطرق ليأخذ العشر ونحوه من المارة." (كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:339، ط:سعيد) فتاوی ہندیہ میں ہے: "(ومنها العامل) وهو من نصبه الإمام لاستيفاء الصدقات والعشور كذا في الكافي." (كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:188، ط:رشيديه) فتاوی شامی میں ہے: "دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه۔۔۔جاز إلا إذا نص على التعويض." (كتاب الزكوة،باب مصرف الزكوة والعشر، ج:2، ص:356، ط:سعيد) فتاوی ہندیہ میں ہے: "الفساد۔۔۔وقد يكون ‌لجهالة ‌البدل." (كتاب الإجارة، الباب الخامس عشر في بيان مايجوز من الإجارة ومالايجوز، ج:4، ص:439، ط:رشيديه)

Wednesday 5 April 2023

چاندی کی انگوٹھی پہننا

مرد کے لیے صرف ایک مثقال چاندی (۴/گرام ۳۷۴/ ملی گرام) کی انگوٹھی کی اجازت ہے اس سے زائد استعمال کرنا درست نہیں اور بلاضرورت چاندی کی انگوٹھی پہننا بھی بہتر نہیں، در مختار میں ہے: ولا یتحلی الرجل بذھب وفضّة مطلقا إلا بخاتم ولایزد علی مثقال وترک التختم لغیر السلطان والقاضي وذي حاجة إلیہ کمتول أفضل الخ (شامي، زکریا دیوبند: ج۹، ص۵۱۶)

Wednesday 22 March 2023

میاں بیوی میں طلاق کے بارے میں اختلاف ہو

اگر طلاق کے بارے میں میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہو جائے، مثلاً بیوی طلاق کا دعویٰ کرے، اور شوہر دو کا انکار کرے، تو شرعی حکم یہ ہے کہ بیوی شوہر کے طلاق دینے پر شرعی گواہ (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) پیش کرے، اگر بیوی شرعی گواہ پیش کردے، تو تین واقع ہو جاے گی۔ گواہوں میں دو عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں، تو دعویٰ ثابت ہوجاتا ہے اور بہن کے حق میں بھائی، بہن اور خالہ کی گواہی معتبر ہوگی، والدہ کی نہیں۔ دلائل: سنن الدار قطنی:(باب في المرأۃ تقتل إذا ارتدت،140/4،رقم الحدیث:4466) عن عمران بن حصین رضي اللّٰہ عنہ قال: "أمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بشاہدین علی المدعي، والیمین علی المدعی علیہ". ردالمحتار علی الدرالمختار:(468/2،ط:مکتبہ رشیدیہ) "و المرأۃ کالقاضی اذا سمعتہ أو اخبرھا عدل، لایحل لھا تمکینہ و الفتویٰ علی انہ لیس لھا قتلہ ولا تقتل نفسھا بل تفدی نفسھا بمال او تھرب کما انہ لیس لہ قتلھا اذا حرمت علیہ وکلما ھرب ردتہ بالسحر و فی البزاریۃ عن الاوزجندی انھا ترفع الامر للقاضی، فان حلف و لا بینۃ لھا، فالاثم علیہ". الفتاویٰ التاتار خانیہ:(328/3،ط:إدارۃ القرآن) "ففی کل موضع یصدق الزوج علی نفی النیہ انما یصدق مع الیمین". الفتاوى الهندية:(الفصل الثالث في من لا تقبل شهادته،469/3،ط:دارالفکر) "لا تجوز شهادة الوالدين لولدهما وولد ولدهما وإن سفلوا ولا شهادة الولد لوالديه".

Wednesday 15 March 2023

تنگ کرنے والے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک

شریعت اسلامیہ میں صلہ رحمی کا حکم ہے، اگر کوئی برا سلوک کرتا ہے تو اس کو معاف کرنے کی ترغیب ہے، بلکہ برائی کا بدلہ اچھائی سے دینے کا حکم دیا گیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ * وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ترجمہ: اچھائی اور برائی یکساں نہیں ہو سکتی، برائی کو سب سے بہترین طریقے سے دور ہٹائیں گے تو وہ بھی جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے ایسا ہو جائے گا کہ گویا وہ بہت گہرا دوست ہے ٭ اور یہ بات صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں ، یہ خوبی بڑے نصیب والے کو ہی دی جاتی ہے۔[فصلت: 34 ، 35] علامہ سعدی رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں کہتے ہیں: "اللہ تعالی کا فرمان: وَلا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلا السَّيِّئَةُ یعنی مطلب یہ ہے کہ رضائے الہی کے لئے کی جانے والی نیکیاں اور بھلائیاں ، اللہ تعالی کو ناراض کرنے والی برائیوں اور گناہوں کے برابر نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح لوگوں کے ساتھ بھلائی اور ان کے ساتھ برا سلوک بھی برابر نہیں ہو سکتے، برائی اور بھلائی کی ماہیت، اوصاف اور بدلہ سب کچھ الگ الگ ہوتے ہیں؛ کیونکہ هَلْ جَزَاءُ الإحْسَانِ إِلا الإحْسَانُ بھلائی کا بدلہ بھلائی ہی ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد مخصوص نوعیت کی بھلائی کرنے کا حکم دیا، اور اس مخصوص بھلائی کی جگہ بھی خاص ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی آپ کے ساتھ برا سلوک کرے تو آپ اس کا بھلا کر دیں، اسی لیے فرمایا: اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ یعنی جب کوئی بد اخلاق شخص آپ سے زبانی یا عملی بد تمیزی کرے اور وہ ان لوگوں میں سے ہو جن کے آپ پر کافی حقوق ہیں ، مثلاً: رشتہ دار اور قریبی دوست احباب وغیرہ ؛ تو آپ اس کی بھلائی کریں، اگر وہ قطع تعلقی کرتا ہے تو پھر بھی آپ صلہ رحمی کریں، اگر وہ ظلم کرے تو آپ انہیں معاف کر دیں، اگر وہ آپ کے سامنے یا پیٹھ پیچھے آپ کے خلاف باتیں کریں تو آپ تب بھی اس کے خلاف باتیں نہ کریں بلکہ اسے معاف کر دیں، اس سے بات کریں تو نرمی سے کریں، اگر وہ آپ سے قطع تعلقی کرتا ہے یا آپ سے بول چال نہیں رکھتا تو اس کے ساتھ اچھے انداز میں گفتگو کریں، اس سے سلام میں پہل کریں، چنانچہ اگر آپ اس کے برے سلوک کے عوض اچھا سلوک پیش کرتے ہیں تو بہت بڑا فائدہ حاصل ہو گا: فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ یعنی جس کے ساتھ آپ کی دشمنی اور عداوت تھی وہ بھی آپ کا قریبی اور گہرا دوست بن جائے گا۔ وَمَا يُلَقَّاهَا یعنی یہ خوبی ہر کسی کو نہیں ملتی بلکہ صرف انہی لوگوں کو ملتی ہے جو من میں آنے والی چیزوں کو چھوڑ کر اپنے آپ کو اللہ کے پسندیدہ اعمال پر مجبور کر دیتے ہیں؛ کیونکہ انسانی فطرت یہی ہے کہ برا سلوک کرنے والے کے ساتھ برا سلوک ہی کیا جائے، اسے معاف نہ کیا جائے، اس کے ساتھ حسن سلوک تو بہت دور کی بات ہے۔ چنانچہ جب انسان اپنے نفس پر قابو پا کر اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کرے اور تعمیل کی صورت میں ملنے والے وافر ثواب کو پہچان لے ، یہ بات ذہن نشین کر لے کہ برے کے ساتھ برا بننے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اس سے بغض و عداوت میں اضافہ ہی ہوتا ہے، یہ بھی ذہن نشین کر لے کہ برے کے ساتھ بھلائی کرنے سے اس کی عزت میں کمی نہیں ہو گی بلکہ جو اللہ کے لئے اپنے آپ کو نیچا دکھائے تو اللہ تعالی اس کو بلندیاں عطا فرماتا ہے؛ ان سب باتوں کو مد نظر رکھے تو برے کے ساتھ بھلائی کرنا آسان ہو جاتا ہے، بلکہ ایسے شخص کے ساتھ بھلائی کرتے ہوئے لذت اور مٹھاس بھی حاصل ہوتی ہے۔ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ یعنی یہ خوبی صرف بڑے نصیب والوں کو ہی ملتی ہے؛ کیونکہ یہ خاص لوگوں کی خوبی ہے، اس خوبی کے ذریعے انسان دنیا و آخرت میں بلند مقام حاصل کر لیتا ہے جو کہ حسن اخلاق کا سب سے بڑا امتیازی نتیجہ ہے۔" ختم شد صحیح مسلم : (2558) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! میرے کچھ رشتہ دار ہیں میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھے سے قطع تعلقی رکھتے ہیں، میں ان کا بھلا کرتا ہوں وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ بردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ مجھ سے جاہلوں جیسا سلوک کرتے ہیں" اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر ایسا ہی ہے جیسے تم کہہ رہے ہو تو گویا کہ تم انہیں جلتی ہوئی راکھ کھلا رہے ہو، اور جب تک تم اپنے اسی انداز پر قائم رہو گے اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے لیے ایک مدد گار رہے گا۔)

Monday 13 March 2023

خلع اور طلاق کے متعلق بعض باتوں کی تردید

خلع زوجین کے درمیان باہمی رضامندی سے طے پانے والاعقد ہے جس میں عموماًعورت اپنا مہر معاف کرتی ہے یا مہر لے چکی ہو تو کچھ مال دینا طے کرتی ہے اور اس کے عوض شوہر اسے آزاد کردیتاہے۔خلع میں مال کی مقدار کے حوالے سے باہمی رضامندی کا اعتبار ہوتا ہے، البتہ اگر قصور شوہر کاہو تو اسے معاوضہ لیے بغیر بیوی کوچھوڑ دینا چاہیے اوراگر قصور عورت کا ہو تو مہر سے زائد لینے میں اس کے لیے کراہت ہے۔ یہ کہنا کہ خلع میں عورت اپنا مہر، جہیز ، دیگر سامان اور اولاد سب شوہر کو دے کر محض تن کے کپڑے لے کر شوہر کے گھر سے نکل جائے، یہ درست نہیں۔ اور یہ بات بھی درست نہیں کہ شوہر از خود طلاق دے تو اسے بیوی کا سب کچھ لوٹا نا پڑتا ہے اور بیوی خلع لے تو اسے اپنا سب کچھ دینا پڑتا ہے، یہ عوامی باتیں ہیں، جو حقیقت سے دور ہیں