https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 13 September 2023

تدفین کے بعد دعاء

قبرستان میں میت کی تدفین سے فارغ ہوکر قبلہ رو ہوکر اور ہاتھ اٹھاکر میت کے لیے دعائے مغفرت وغیرہ کرنا جائز ودرست ؛ بلکہ مستحب ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ؛لیکن دعا میں کوئی ایسی ہیئت یا طریقہ اختیار نہ کیا جائے کہ کسی دیکھنے والے کو صاحب قبر سے مانگنے کا شبہ ہو۔ عن عثمان قال: کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل، رواہ أبو داود (مشکاة المصابیح، کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر ، الفصل الثانی، ص ۲۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وفی حدیث ابن مسعود:رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی قبر عبد اللہ ذی النجادین الحدیث، وفیہ: فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلة رافعاً یدیہ ، أخرجہ أبو عوانة فی صحیحہ (فتح الباری، کتاب الدعوات، باب الدعاء مستقبل القبلة، ۱۱: ۱۷۳، ط:دار السلام الریاض)۔

Sunday 10 September 2023

مع ابى القاسم الشابي

أَيُّها الحُبُّ أنتَ سِرُّ بَلائِي وهُمُومي وَرَوْعَتي وعَنَائي ونُحُولي وأَدْمُعي وعَذَابي وسُقَامي وَلَوْعَتي وشَقَائي أَيُّها الحُبُّ أَنتَ سِرُّ وُجُودي وحَيَاتي وعِزَّتي وإبَائي وشُعاعِي ما بينَ دَيْجُورِ دَهْري وأَليفي وقُرَّتي وَرَجَائي يا سُلافَ الفُؤادِ يا سُمَّ نَفْسي في حَيَاتي يا شِدَّتي يا رَخَائي أَلَهيبٌ يثورُ في روضَةِ النَّفْسِ فَيَطْغى أَمْ أَنتَ نُورُ السَّماءِ أَيُّها الحُبُّ قَدْ جَرَعْتُ بِكَ الحُزْ نَ كُؤُوساً وما اقْتَنَصْتُ ابْتِغَائي فبِحَقِّ الجَمَال يا أَيُّها الحُ بُّ حَنَانَيْكَ بي وَهَوِّن بَلائي لَيْتَ شِعْرِي يا أَيُّها الحُبُّ قُلْ لي مِنْ ظَلامٍ خُلِقَت أَمْ من ضِياءِ يَا شِعْرُ أَنْتَ فَمُ الشُّعُورِ وصَرْخَةُ الرُّوحِ الكَئيبْ يَا شِعْرُ أَنْتَ صَدَى نحيبِ القَلْبِ والصَّبِّ الغَرِيبْ يَا شِعْرُ أَنْتَ مَدَامعٌ عَلِقَتْ بأَهْدَابِ الحَيَاةْ يَا شِعْرُ أَنْتَ دَمٌ تَفَجَّرَ مِنْ كُلُومِ الكائِناتِ يَا شِعْرُ قَلْبي مِثْلما تدري شَقِيٌّ مُظْلَمُ فِيهِ الجِراحُ النُّجْلُ يَقْطُرُ مِنْ مَغَاوِرِها الدَّمُ جَمَدَتْ على شَفَتَيهِ أَرْزاءُ الحَياةِ العَابِسهْ فهوَ التَّعيسُ يُذيبُهُ نَوْحُ القُلُوبِ البَائِسَهْ أبداً يَنوحُ بحُرْقَةٍ بَيْنَ الأَماني الهَاوِيهْ كالبُلْبُلِ الغِرِّيدِ ما بَيْنَ الزُّهورِ الذَّاوِيهْ كمْ قَدْ نَضَحْتُ لهُ بأنْ يَسْلو وكَمْ عَزَّيْتُهُ فأَبى وما أصغَى إلى قَوْلي فما أجْديتُهُ كَمْ قلتُ صبراً يا فُؤادُ أَلا تَكُفُّ عنِ النَّحِيبْ فإذا تَجَلَّدَتِ الحِياةُ تبدَّدَتْ شُعَلُ اللَّهيبْ يَا قَلْبُ لا تجزعْ أمامَ تَصَلُّبِ الدَّهرِ الهَصُورْ فإذا صَرَخْتَ توجُّعاً هَزَأَتْ بصَرْخَتِكَ الدُّهُورْ يَا قَلْبُ لا تَسْخُطْ على الأيَّامِ فالزَّهْرُ البَديعْ يُصْغي لضَجَّاتِ العَوَاصِفِ قَبْلَ أَنغامِ الرَّبيعْ يَا قَلْبُ لا تَقْنَعْ بشَوْكِ اليَأْسِ مِنْ بينِ الزُّهُورْ فَوَراءَ أَوْجاعِ الحَياةِ عُذُوبَةُ الأَملِ الجَسُورْ يَا قَلْبُ لا تَسْكُبْ دُمُوعكَ بالفَضَاءِ فَتَنْدَمِ فعَلَى ابتساماتِ الفَضَاءِ قَسَاوَةُ المُتَهَكِّمِ لكِنَّ قَلْبي وهوَ مُخْضَلُّ الجوانبِ بالدُّمُوعْ جَاشَتْ بهِ الأَحْزانُ إذْ طَفَحَتْ بِها تِلْكَ الصُّدوعْ يَبْكي على الحُلْمِ البَعيدِ بلَوْعَةٍ لا تَنْجَلي غَرِداً كَصَدَّاحِ الهَوَاتِفِ في الفَلا ويَقُول لي طَهِّرْ كُلُومَكَ بالدُّمُوع وخَلِّها وسَبِيلَهَا إنَّ المَدامِعَ لا تَضِيعُ حَقيرَهَا وجَليلَهَا فَمِنَ المَدَامِعِ ما تَدَفَّعَ جارِفاً حَسَكَ الحَياهْ يرْمِي لِهاوِيَةِ الوُجُودِ بكلِّ ما يبني الطُّغاهْ ومنَ المَدَامِعِ ما تأَلَّقَ في الغَيَاهِبِ كالنُّجُومْ ومنَ المَدَامِعِ ما أَراحَ النَّفْسَ مِنْ عبءِ الهُمُومْ فارْحَمْ تَعَاسَتَهُ ونُحْ مَعَهُ على أَحْلامِهِ فلَقَدْ قَضَى الحُلْمُ البَديعُ عَلى لَظَى آلامِهِ يَا شِعْرُ يا وحْيَ الوُجود الحيِّ يا لُغَةَ المَلايِكْ غَرِّدْ فأَيَّامي أنا تبْكِي عَلى إيقَاعِ نايكْ رَدِّدْ على سَمْعِ الدُّجَى أَنَّاتِ قَلْبي الواهِيَهْ واسْكُبْ بأَجْفانِ الزُّهورِ دُمُوعَ قلبي الدَّاميهْ فلَعَلَّ قَلْبَ اللَّيل أَرْحَمُ بالقُلُوبِ البَاكيهْ ولَعَلَّ جَفْنَ الزهرِ أَحْفَظُ للدُّمُوعِ الجَاريهْ كمْ حَرَّكَتْ كفُّ الأَسى أَوْتارَ ذَيَّاكَ الحَنينْ فَتَهَامَلَتْ أَحْزانُ قلبي في أَغاريدِ الأَنِينْ فَلَكَمْ أَرَقْتُ مَدَامِعِي حتَّى تَقَرَّحَتِ الجُفُونْ ثمَّ التَفَتُّ فَلَمْ أجدْ قلباً يُقاسِمُني الشُّجُونْ فَعَسَى يَكونُ اللَّيلُ أَرْحَمُ فهوَ مِثْلِي يندُبُ وعَسَى يَصونُ الزَّهْرُ دَمْعِي فهوَ مِثْلِي يَسكُبُ قدْ قَنَّعَتْ كَفُّ المَساءِ الموتَ بالصَّمْتِ الرَّهيبْ فَغَدا كأَعْماقِ الكُهُوفِ بِلا ضَجيجٍ أَو وَجِيبْ يَأتي بأَجْنِحَةِ السُّكُونِ كأنَّهُ اللَّيلُ البَهيمْ لكنَّ طَيْفُ الموتِ قاسٍ والدُّجى طَيفٌ رَحيمْ ما للمَنِيَّةِ لا تَرِقُّ على الحَياةِ النَّائِحَهْ سِيَّانِ أَفئدةٌ تَئِنُّ أَوِ القُلُوبُ الصَّادِحَهْ يَا شِعْرُ هلْ خُلِقَ المَنونُ بلا شعورٍ كالجَمَادْ لا رَعْشَةٌ تَعْرُو يديْهِ إِذا تملَّقَهُ الفُؤَادْ أَرأَيْتَ أَزْهارَ الرَّبيعِ وقدْ ذَوَتْ أَوراقُها فَهَرَتْ إلى صَدْرِ التُّرابِ وقدْ قَضَتْ أَشْواقُهَا أَرأَيْتَ شُحْرورَ الفَلا مُتَرَنِّماً بَيْنَ الغُصُونْ جَمَدَ النَّشيدُ بصَدْرِهِ لمَّا رأَى طَيْفَ المَنُونْ فَقَضَى وقدْ غَاضَتْ أَغاريدُ الحَياةِ الطَّاهِرَهْ وهَوَى منَ الأَغْصانِ ما بَيْنَ الزُّهورِ البَاسِرَهْ أَرأَيْتَ أُمّ الطِّفْلِ تَبْكي ذلكَ الطِّفْلَ الوَحيدْ لمَّا تَنَاوَلَهُ بعُنْفٍ ساعِدُ المَوتِ الشَّديدْ أَسَمِعْتَ نَوْحَ العاشِقِ الوَلْهانِ مَا بَيْنَ القُبُورْ يَبْكي حَبيبَتَهُ فيا لِمَصَارعِ الموتِ الجَسُورْ طَفَحَتْ بأَعْماقِ الوُجُودِ سَكِينَةُ الصَّبْرِ الجَلِيدْ لمَّا رأَى عَدْلَ الحَياةِ يَضُمُّهُ اللَّحْدُ الكَنُودْ فَتَدَفَّقَتْ لَحْناً يُرَدِّدُهُ على سَمْعِ الدُّهُورْ صَوتُ الحياةِ بضَجَّةٍ تَسْعَى على شَفَةِ البُحُورْ يا شِعْرُ أَنْتَ نَشيدُ أَمْواجِ الخِضَمِّ السَّاحِرَهْ النَّاصِعاتِ الباسِماتِ الرَّاقِصاتِ الطَّاهِرَهْ السَّافِراتِ الصَّادِحاتِ معَ الحياةِ إلى الأبدْ كَعَرائسِ الأَمَلِ الضَّحُوكِ يَمِسْنَ ما طالَ الأَمَدْ ها إنَّ أَزْهارَ الرَّبيعِ تَبَسَّمَتْ أَكمامُها تَرنُو إلى الشَّفقِ البَعيدِ تغُرُّها أَحْلامُها في صَدْرِها أملٌ يحدِّقُ نحوَ هاتيك النُّجومْ لكنَّه أملٌ سَتُلْحِدُه جَبَابرةُ الوُجُومْ فَلَسَوْفَ تُغْمِضُ جَفْنَهَا عنْ كلِّ أَضواءِ الحياةْ حيثُ الظَّلامُ مخَيِّمٌ في جوِّ ذَيَّاكَ السُّبَاتْ ها إنَّها هَمَسَتْ بِآذانِ الحياةِ غَرِيدَهَا قَتَلَتْ عَصافيرُ الصَّبَاحِ صُداحَهَا ونَشِيدَهَا يَا شِعْرُ أَنْتَ نَشِيدُ هاتيكَ الزُّهُورِ الباسِمَهْ يا لَيْتَني مِثْلُ الزُّهُورِ بلا حَياةٍ واجِمهْ إنَّ الحَياةَ كئيبةٌ مَغْمورةٌ بِدُمُوعِها والشَّمسُ أضْجَرَها الأَسى في صَحْوِها وهُجُوعِهَا فَتَجَرَّعَتْ كَأساً دِهاقاً مِنْ مُشَعْشَعَةِ الشَّفَقْ فَتَمَايَلَتْ سَكْرَى إلى كَهْفِ الحَياةِ ولَمْ تُفِقْ يَا شِعْرُ أَنْتَ نَحيبُها لمَّا هَوَتْ لسُباتِها يَا شِعْرُ أَنْتَ صُدَاحُها في مَوْتِها وحَيَاتِها انْظُرْ إلى شَفَقِ السَّماءِ يَفيضُ عَنْ تِلْكَ الجِبَالْ بشُعَاعِهِ الخَلاّبِ يَغْمُرُها بِبَسْماتِ الجَمَالْ فَيُثِيرُ في النَّفْسِ الكَئيبةِ عَاصِفاً لا يَرْكُدُ ويُؤَجِّجُ القلبَ المُعَذَّبَ شُعْلَةً لا تَخْمُدُ يَا شِعْرُ أنتَ جمالُ أَضْواءِ الغُرُوبِ السَّاحِرَهْ يا هَمْسَ أَمْواجِ المَسَاءِ البَاسِماتِ الحَائرَهْ يا نَايَ أَحْلامِي الحَبيبةِ يا رَفيقَ صَبَابَتِي لولاكَ مُتُّ بلَوْعَتِي وبِشَقْوَتي وكَآبَتِي فيكَ انْطَوَتْ نَفْسي وفيكَ نَفَخْتُ كلَّ مَشَاعِرِي فاصْدَحْ على قِمَمِ الحَياةِ بِلَوْعَتي يا طَائِرِي

ایک نشست کی تین طلاق کا مسئلہ

امام نووی ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے میں ائمہ اربعہ کا نظریہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ: علماء کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو اپنی بیوی سے انت طالق ثلاثا کہے (میں تجھے تین طلاق دیتا ہوں) امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد اور جمہور علماء سلف و خلف اس بات کے قائل ہیں کہ تینوں واقع ہوجائیں گی۔ (شرح نووی علی صحیح مسلم: ۵/۳۲۸، تحقیق حازم محمد و اصحابہ، طباعت:۱۹۹۵/) امام نووی کے اس بیان سے معلوم ہوگیا کہ ائمہ اربعہ نے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی مانا ہے، ایک نہیں مانا، لیکن حیرت اور تعجب ان لوگوں پر ہے جو اپنے آپ کو مقلد بھی ظاہر کرتے اور کہتے ہیں۔ پھر بھی ائمہ اربعہ کے مسلک کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور مجلس کی تین طلاق کو ایک ماننے پر اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تین ماننا اسلامی انصاف اور قانون کو مسخ کرنا ہے۔ اب ہم ان احادیث کو ذکر کریں گے جن میں ایک مجلس کی تین طلاق کا ذکر ملتا ہے۔ طلاق ثلاثہ اور احادیث حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، اس عورت نے دوسرا نکاح کرلیا، دوسرے شوہر نے بھی (قبل الوطی) طلاق دے دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پہلے مرد کے لیے حلال ہوگئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک دوسرا شوہر پہلے شوہر کی طرح لطف اندوز نہ ہولے۔ (صحیح بخاری: ۵۲۶۱، صحیح مسلم:۱۴۳۳) ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ماننے والے حضرات کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ”طلق امرأتہ ثلاثًا“ میں ثلاث سے مراد ثلاث مفرقہ ہے یعنی یہ تینوں طلاقیں ایک مجلس میں نہیں دی گئی تھیں اس لئے اس حدیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز پر استدلال فاسد ہے۔ لیکن ان حضرات کا ثلاث سے ”ثلاثل مفرقہ“ (تین طہر میں ایک ایک کرکے طلاق دینا)مراد لینا غلط ہے بلکہ ثلاث سے مراد ثلاث مجموعہ (ایک ہی دفعہ تینوں طلاق دینا) ہے کہ صحابی نے دفعة واحدہ (ایک مجلس میں) تینوں طلاق دی تھی، ثلاث مفرقہ مراد لینا خلاف ظاہر ہے اوراس پر کوئی قرینہ بھی موجود نہیں ہے، اس کے برعکس ثلاث مجموعہ مراد لینا ظاہر لفظ کے عین مطابق ہے۔ نیز ثلاث مجموع کے متعین ہونے کی تائید امام بخاری جیسے حدیث داں اور محدث کے ترجمة الباب سے ہوتی ہے۔ موصوف اس حدیث پریوں باب قائم کرتے ہیں: باب من جَوّز الطلاقَ الثلاث، اور شارح بخاری حافظ ابن حجر ترجمة الباب کی اس طرح وضاحت کرتے ہیں: ہذا یرجح أن المراد بالترجمة بیان من أجاز الطلاق الثلاث ولم یکرہہ، اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ترجمة الباب کا مقصداس امر کا بیان ہے کہ تین طلاقوں کو جائز قرار دیا اوراس کو مکروہ نہیں سمجھا۔ (فتح الباری: ۹/۳۶۷) ۲- ایک مجلس کی تین طلاق کے جائز اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رفاعہ قزطی کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور کہا کہ اے اللہ کے رسول: ان رفاعة طلقنی فَبَتَّ طلاقی کہ رفاعہ نے مجھے طلاق قطعی دیدی (عدت گزرنے کے بعد) میں نے عبدالرحمن بن الزبیر سے نکاح کرلیا لیکن ان کے اندر قوت رجولیت ختم ہوگئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تمہاری خواہش یہ ہے کہ پھر رفاعہ کی زوجیت میں چلی جاؤ، ایسا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ (عبدالرحمن) تم سے اور تم اس سے لطف اندوز نہ ہولو۔ (بخاری: ۵۲۶۰) حضرت عائشہ کی پہلی حدیث اور یہ حدیث دونوں الگ الگ ہے، حافظ ابن حجر نے اسی کو راجح قرار دیا ہے اور دونوں حدیث کو الگ الگ واقعے پر محمول کیا ہے۔ ایک مجلس کی تین طلاق کا انکار کرنے والے اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں طلاق البتہ کا ذکر ہے تین طلاق کا ذکر نہیں ہے، لیکن یہ کہنا کم علمی کی دلیل ہے اس لیے کہ خود امام بخاری نے کتاب اللباس میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور اس میں ”ثلاث تطلیقات“ ہے کہ رفاعہ نے تین طلاق دی تھی۔ طلاق البتہ (مغلظہ) نہیں دی تھی یہ راوی کا اپنا بیان ہے۔ اس کے بعد بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اس تین طلاق سے کیا مراد ہے، ثلاث مجموعہ مراد ہے کہ ایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دی تھی یا ثلاث مفرقہ مراد ہے کہ الگ الگ مجلس میں طلاق دی تھی، مجلس کی تین طلاق کا انکار کرنے والے ثلاث مفرقہ ہی مراد لیتے ہیں؛ لیکن امام بخاری کی تبویب سے معلوم ہوتا ہے کہ رفاعہ نے ایک مجلس میں تینوں طلاق دی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں طلاق کے واقع ہونے کا فیصلہ فرمایا جیسا کہ حلالہ کی بات سے پتہ چلتا ہے، لہٰذا تین طلاق کے منکرین کی بات یہاں بھی غلط ثابت ہوگئی اور مجلس کی تین طلاق کا جواز اور ثبوت اس حدیث سے بھی ثابت ہوگیا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ”فتح الباری“: ۹/۳۶۷، ۴۶۸) ۲- ایک مجلس کی تین طلاق کے جائز اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رفاعہ قزطی کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور کہا کہ اے اللہ کے رسول: ان رفاعة طلقنی فَبَتَّ طلاقی کہ رفاعہ نے مجھے طلاق قطعی دیدی (عدت گزرنے کے بعد) میں نے عبدالرحمن بن الزبیر سے نکاح کرلیا لیکن ان کے اندر قوت رجولیت ختم ہوگئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تمہاری خواہش یہ ہے کہ پھر رفاعہ کی زوجیت میں چلی جاؤ، ایسا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ (عبدالرحمن) تم سے اور تم اس سے لطف اندوز نہ ہولو۔ (بخاری: ۵۲۶۰) حضرت عائشہ کی پہلی حدیث اور یہ حدیث دونوں الگ الگ ہے، حافظ ابن حجر نے اسی کو راجح قرار دیا ہے اور دونوں حدیث کو الگ الگ واقعے پر محمول کیا ہے۔ مجلس کی تین طلاق کا انکار کرنے والے اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں طلاق البتہ کا ذکر ہے تین طلاق کا ذکر نہیں ہے، لیکن یہ کہنا کم علمی کی دلیل ہے اس لیے کہ خود امام بخاری نے کتاب اللباس میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور اس میں ”ثلاث تطلیقات“ ہے کہ رفاعہ نے تین طلاق دی تھی۔ طلاق البتہ (مغلظہ) نہیں دی تھی یہ راوی کا اپنا بیان ہے۔ اس کے بعد بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اس تین طلاق سے کیا مراد ہے، ثلاث مجموعہ مراد ہے کہ ایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دی تھی یا ثلاث مفرقہ مراد ہے کہ الگ الگ مجلس میں طلاق دی تھی، مجلس کی تین طلاق کا انکار کرنے والے ثلاث مفرقہ ہی مراد لیتے ہیں؛ لیکن امام بخاری کی تبویب سے معلوم ہوتا ہے کہ رفاعہ نے ایک مجلس میں تینوں طلاق دی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں طلاق کے واقع ہونے کا فیصلہ فرمایا جیسا کہ حلالہ کی بات سے پتہ چلتا ہے، لہٰذا تین طلاق کے منکرین کی بات یہاں بھی غلط ثابت ہوگئی اور مجلس کی تین طلاق کا جواز اور ثبوت اس حدیث سے بھی ثابت ہوگیا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ”فتح الباری“: ۹/۳۶۷، ۴۶۸) ۳- فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں: طلقنی زوجی ثلاثًا وہو خارج الی الیمن فأجاز ذلک رسول اللہ صلی اللّہ علیہ وسلم (میرے شوہر حفص بن عمرو نے مجھے تین طلاق دیدی اور وہ یمن کے سفر میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز یعنی نافذ قرار دیا) اخرجہ ابن ماجہ ۲۰۲۴۔ اس روایت میں اضطراب دکھلانے کی بے جا کوشش کی جاتی ہے کہ بعض روایت میں ہے کہ پہلے فاطمہ کو دو طلاق دی گئی تھی پھرتیسری طلاق دی، اور بعض روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حفص نے طلاق البتہ دی تھی اور بعض روایت میں مطلق طلاق کا ذکر ہے تعداد کا ذکر ہی نہیں ہے۔ (دیکھئے: التعلیق المغنی علی الدار قطنی: ۴/۱۱) لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حفص نے تین طلاق دیا تھا اور ایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دیا تھا، اس لیے کہ دار قطنی کی روایت میں ہے کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے پاس کچھ لوگوں نے ایک مجلس کی تین طلاق کے مکروہ ہونے کا تذکرہ کیا، ابوسلمہ نے کہا کہ حفص بن عمرو نے فاطمہ بنت قیس کو ایک مجلس میں تین طلاق دیا تھا لیکن کسی روایت سے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نکیر فرمائی ہو۔ (اخرجہ الدارقطنی: ۴/۱۱) آثار صحابہ ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز اور وقوع پر احادیث صحیحہ مرفوعہ سے استدلال کے بعداب ہم صحابہ کرام کے فتاویٰ اورآثار کو ذکر کررہے ہیں کہ صحابہ کرام نے مجلس کی تین طلاق کو ایک نہیں مانا ہے بلکہ تین مانا ہے اور وہ آثار درج ذیل ہیں: ۱- مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما خاموش رہے، مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ ابن عباس بیوی کو اس آدمی کے نکاح میں لوٹادیں گے، پھر ابن عباس نے کہا: تم لوگ حماقت کا کام کرتے ہو، پھر آکر چلاتے ہو اے ابن عباس، اے ابن عباس، اللہ فرماتا ہے: ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً، اور تم اللہ سے نہیں ڈرے اسلئے میرے یہاں تمہارے لئے کوئی سبیل نہیں ہے، تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔ (اخرجہ ابوداؤد:۲۱۹۷، والدارقطنی: ۴/۱۳) ۲- حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دیدی، حضرت ابن عباس نے کہا: تمہارے لئے کافی تھا کہ تین طلاق دیدیتے اور بقیہ نو سو ستانوے ترک کردیتے۔ (دارقطنی: ۴/۱۲) ۳- مدینہ میں ایک مسخرے آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دیدی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس استفتاء آیا، آپ نے کہا – کہ کیا تم نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے، اس آدمی نے کہا نہیں، میری نیت طلاق – کی نہیں تھی میں تو مذاق کررہا تھا، حضرت عمر نے اس کو کوڑے لگائے اور کہا کہ تین طلاق دیناکافی تھا۔ (عبدالرزاق فی ”المصنف“ ۱۱۳۴۰، والبیہقی: ۷/۳۳۴) ۴-ایک آدمی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دی ہے، آپ نے فرمایا: تین طلاق نے بیوی کو تم پر حرام کردیا۔ یعنی بقیہ نوسو ستانوے لغو ہوگئیں۔ (بیہقی: ۷/۳۳۵) ۵- محمد بن ایاس کہتے ہیں کہ: ابن عباس، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم تینوں سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو قبل الدخول طلاق دے دی، تینوں نے کہا: عورت اس کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے (ابوداؤد:۲۱۹۹) بیہقی کی روایت میں یہ زیادتی ہے کہ : ابن عباس اور ابوہریرہ نے اس آدمی کی مذمت نہیں کی کہ اس نے تین طلاق کیوں دی اور نہ ہی عبداللہ بن عمرو نے یہ کہا کہ تین طلاق دے کر تم نے بہت برا کام کیا۔ (اخرجہ البیہقی: ۷/۳۳۰) ۶- حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی تماضر بنت الاصبغ کو کلمہ واحدة (ایک مجلس میں) تین طلاق دیدی، عبدالرحمن کے شاگرد ابوسلمہ کہتے ہیں کہ کسی روایت سے ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کسی صحابی رسول نے آپ پر نکیر کی ہے۔ (دارقطنی: ۴/۱۲) ۷- مسلمہ بن جعفر احمسی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذ جعفر بن محمد سے پوچھا کہ : بعض حضرات کہتے ہیں کہ جس نے نادانی میں بیوی کو طلاق دے دی تواس کو سنت کی طرف لوٹایا جائیگا، یعنی ایک طلاق واقع ہوگی اور اس بات کو آپ سے روایت کرتے ہیں۔ جعفر بن محمد نے کہا: اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، ہم نے اس طرح کی بات نہیں کہی ہے بلکہ جس نے تین طلاق دی تواس کے قول کا اعتبار ہوگا۔ یعنی تین طلاق واقع ہوگی۔ (اخرجہ الامام البیہقی: ۷/۳۴۰)

Saturday 9 September 2023

مع أبى نواس

أَبُو عَلِي اَلْحَسَنْ بْنْ هَانِئْ بْنْ عَبْدِ اَلْأَوَّلْ بْنْ اَلصَّبَاحِ اَلْحُكْمِيِّ اَلْمِذْحَجِي المعروف بِأَبِي نُوَاسْ (145هـ - 198هـ) (762م - 813م)، شاعر عربي، يعد من أشهر شعراء عصر الدولة العباسية ومن كبار شعراء شعر الثورة التجديدية. وُلد في الأهواز سنة (145هـ / 762م). ونشأ في البصرة، ثم انتقل إلى بغداد واتّصل بالبرامكة وآل الربيع ومدحهم، واتصل بـالرشيد والأمين. وقد توفي في بغداد سنة (198هـ / 813م)، وقال البعض في سنة( 196هـ/811م)، وذكر آخرين في سنة (195هـ/810م)، ودفن في مقبرة الشونيزية في تل اليهود، شعر أبي نواس صورة لنفسه، ولبيئته في ناحيتها المتحرّرة، فكان أبو نواس شاعر الثورة والتجديد، والتصوير الفنّي الرائع، وشاعر خمرة غير منازع. ثار أبو نواس على التقاليد، ورأى في الخمرة شخصًا حيّاً يُعشق، وإلاهةً تُعبد وتُكرم، فانقطع لها، وجعل حياته خمرةً وسَكْرة في موكب من الندمان والألحان، ينكر الحياة ويتنكر لكل اقتصاد في تطلّب متع الحياة. شاعر الملاحظة الدقيقة والإحساس العنيف، شاعر الهجران الذي يكثر من الشكوى. وهكذا كان أبو نواس زعيم الشعر الخمري عند العرب. ولكنه تاب عما كان فيه واتجه إلى الزهد، وقد أنشد عدد من الأشعار التي تدل على ذلك. يا تارِكي جَسَداً بِغَيرِ فُؤادِ أَسرَفتَ في هَجري وَفي إِبعادي إِن كانَ يَمنَعُكَ الزِيارَةَ أَعيُنٌ فَاِدخُل عَلَيَّ بِعِلَّةِ العُوّادِ إِنَّ القُلوبَ مَعَ العُيونِ إِذا جَنَت جاءَت بَلِيَّتُها عَلى الأَجسادِ أَشكو إِلَيكَ جَفاءَ أَهلِكَ إِنَّهُم ضَرَبوا عَلَيَّ الأَرضَ بِالأَسدادِ

Thursday 7 September 2023

مسجد کے ملبہ کاحکم

مسجد کا ملبہ اگر استعمال نہیں ہورہا اور فروخت کے قابل ہے، تو اسے فروخت کرکے حاصل شدہ رقم کو مسجد کی ضروریات میں استعمال کیا جاسکتا ہے، اور اگر فروخت نہ ہوسکتا ہو، تو اس ملبے کو کسی پاک جگہ ڈال دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلائل: الھندیة: (461/2، ط: دار الفکر) مسجد له مستغلات وأوقاف أراد المتولي أن يشتري من غلة الوقف للمسجد دهنا أو حصيرا أو حشيشا أو آجرا أو جصا لفرش المسجد أو حصى قالوا: إن وسع الواقف ذلك للقيم وقال: تفعل ما ترى من مصلحة المسجد كان له أن يشتري للمسجد ما شاء الفتاوی الخانیة: (ص: 168، ط: قدیمی) وكذ الواشتري حشيشا او قنديلا للمسجد فوقع الاستغناء عنه۔۔۔۔يباع ويصرف ثمنه إلى حوائج المسجد

Monday 4 September 2023

طواف میں اضطباع کاحکم

طواف شروع کرنے سے پہلے چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر دونوں کنارے بائیں کندھے پر اس طرح ڈال دینا کہ دایاں شانہ کھلا رہے، اضطباع کہلاتا ہے۔ طواف کے سات چکروں میں اضطباع سنت ہے۔ حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اضطباع کی حالت میں طواف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چادر مبارک تھی۔ ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب الحج، باب ماجاء ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم طاف مضطبحاً، 3 : 214، رقم : 859 طواف کے بعد اضطباع نہ کرے، لیکن اگر طواف کے بعد کی نماز میں اضطباع کیا تو مکروہ ہے۔ اضطباع صرف اسی طواف میں ہے جس کے بعد سعی ہو اور اگر طواف کے بعد سعی نہ ہو تو اضطباع بھی نہیں، جیسے نفلی طواف۔

Saturday 2 September 2023

انابیہ نام رکھنا کیسا ہے

”انابیہ“ ”اَناب“ (ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ )سے اسم منسوب موٴنث ہے جس کے معنی ہیں مشک، یا مشک کی مانند ایک خاص قسم کی خوش بو۔ ففي المعجم الوسیط: "الأناب: المسک أو عطر یشبهه". (ص۲۸،الأنب، ط: دیوبند، وکذا في القاموس الوحید،ص: ۱۳۷، ط: دار اشاعت) ’’أَنَابَ‘‘ فعل ماضی واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے، جس کا معنی ہے" اس شخص نے اللہ کی طرف رجوع کیا" ،جیساکہ قرآن کریم میں بعض مقامات پر یہ لفظ آیاہے: {قُلْ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَآءُ وَيَهْدِيْ اِلَيْهِ مَنْ اَنَابَ} [رعد:27] ترجمہ:آپ کہہ دیجیے کہ واقعی اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں گم راہی میں چھوڑ دیتے ہیں اور جو شخص ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کو اپنی طرف ہدایت کر دیتے ہیں ۔ لیکن اس معنی کے اعتبار سے اسم فاعل (رجوع کرنے والا)"مُنِیْب" استعمال ہوتاہے،جس کی مؤنث "مُنِیْبَة"ہے، نہ کہ "انابیۃ"؛ لہذا اس لفظ کا پہلا معنی (مشک/خوش بو) ہی متعین ہے اور اس معنی کے لحاظ سے یہ نام رکھنا درست ہے

Tuesday 22 August 2023

القصيدة الدمشقية لنزارقباني

هذي دمشقُ وهذي الكأسُ والرّاحُ إنّي أحبُّ وبعـضُ الحـبِّ ذبّاحُ أنا الدمشقيُّ لو شرّحتمُ جسدي لسـالَ منهُ عناقيـدٌ وتفـّاحُ و لو فتحـتُم شراييني بمديتكـم سمعتمُ في دمي أصواتَ من راحوا زراعةُ القلبِ تشفي بعضَ من عشقوا وما لقلـبي –إذا أحببـتُ- جـرّاحُ الا تزال بخير دار فاطمة فالنهد مستنفر و الكحل صبّاح ان النبيذ هنا نار معطرة فهل عيون نساء الشام أقداح مآذنُ الشّـامِ تبكـي إذ تعانقـني و للمـآذنِ كالأشجارِ أرواحُ للياسمـينِ حقـوقٌ في منازلنـا وقطّةُ البيتِ تغفو حيثُ ترتـاحُ طاحونةُ البنِّ جزءٌ من طفولتنـا فكيفَ أنسى؟ وعطرُ الهيلِ فوّاحُ هذا مكانُ "أبي المعتزِّ" منتظرٌ ووجهُ "فائزةٍ" حلوٌ و لمـاحُ هنا جذوري هنا قلبي هنا لغـتي فكيفَ أوضحُ؟ هل في العشقِ إيضاحُ؟ كم من دمشقيةٍ باعـت أسـاورَها حتّى أغازلها والشعـرُ مفتـاحُ أتيتُ يا شجرَ الصفصافِ معتذراً فهل تسامحُ هيفاءٌ ووضّـاحُ؟ خمسونَ عاماً وأجزائي مبعثرةٌ فوقَ المحيطِ وما في الأفقِ مصباحُ تقاذفتني بحـارٌ لا ضفـافَ لها وطاردتني شيـاطينٌ وأشبـاحُ أقاتلُ القبحَ في شعري وفي أدبي حتى يفتّـحَ نوّارٌ وقـدّاحُ ما للعروبـةِ تبدو مثلَ أرملةٍ؟ أليسَ في كتبِ التاريخِ أفراحُ؟ والشعرُ ماذا سيبقى من أصالتهِ؟ إذا تولاهُ نصَّـابٌ ومـدّاحُ؟ وكيفَ نكتبُ والأقفالُ في فمنا؟ وكلُّ ثانيـةٍ يأتيـك سـفّاحُ؟ حملت شعري على ظهري فأتعبني ماذا من الشعرِ يبقى حينَ يرتاحُ

مردوعورت کے غسل میں فرق نہیں

غسل میں اصولی طور پر تو ایک ہی فرض ہے یعنی پورے جسم میں جہاں تک تکلیف ومشقت کے بغیر پانی پہنچ سکے وہاں تک پانی پہنچانا، لیکن فقہاء کرام نے اسے آسان اور منضبط کرنے کے لیے غسل کے تین فرائض بیان کیے ہیں: ۱-منہ بھر کر کلی یا غرارہ کرنا۔ ۲-ناک کی نرم ہڈی تک پانی چڑھانا۔ ۳- پورے بدن پر اس طرح پانی بہانا کہ بال برابر جگہ بھی خشک نہ رہے۔ نیز غسل کرنے سے قبل ہی چھوٹا بڑا استنجا کرلینا چاہیے ، یعنی چھوٹی بڑی دونوں شرم گاہوں کو دھولیاجائے، اگرچہ ان پر کوئی نجاست نہ لگی ہو، اور اگر نجاست لگی ہو تو اس نجاست کو بھی دھولیاجائے ، پھر اگر جسم پر کہیں اور کوئی نجاست جیسے منی وغیرہ لگی ہو تو اس کو پاک کردیاجائے ۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مرد و عورت دونوں کے غسل میں تین ہی فرائض ہیں، لہٰذا عورت کے لیے غسل میں انگلیوں پر کپڑا لپیٹ کر اس کپڑے سے شرم گاہ کو صاف کرنے کو فرض قرار دینا اور یہ کہنا کہ عورت کے غسل میں چار فرائض ہوتے ہیں، درست نہیں ہے، ہاں عورت کے لیے شرم گاہ کے خارجی حصے کو بھی دھونا چاہیے؛ کیوں کہ یہاں پانی پہنچانے میں حرج نہیں ہے، اسی بات کو فقہاءِ کرام نے صراحتًا ذکر کردیا ہے، جیسے کہ ناف میں پانی ڈالنے اور انگوٹھی پہنی ہو تو اس کے نیچے پانی پہنچانے وغیرہ کی تاکید بھی فقہاءِ کرام نے کی ہے، لیکن یہ سب چیزیں مستقل فرائض نہیں ہیں۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 151): "(وفرض الغسل) أراد به ما يعم العملي، كما مر، وبالغسل المفروض، كما في الجوهرة، وظاهره عدم شرطية غسل فمه وأنفه في المسنون، كذا البحر، يعني عدم فرضيتها فيه وإلا فهما شرطان في تحصيل السنة (غسل) كل (فمه) ويكفي الشرب عباً؛ لأن المج ليس بشرط في الأصح (وأنفه) حتى ما تحت الدرن (و) باقي (بدنه) لكن في المغرب وغيره: البدن من المنكب إلى الألية، وحينئذ فالرأس والعنق واليد والرجل خارجة لغةً داخلة تبعاً شرعاً (لا دلكه) لأنه متمم، فيكون مستحباً لا شرطاً، خلافاً لمالك (ويجب) أي يفرض (غسل) كل ما يمكن من البدن بلا حرج مرةً كأذن و (سرة وشارب وحاجب و) أثناء (لحية) وشعر رأس ولو متبلداً؛ لما في {فاطهروا} [المائدة: 6] من المبالغة (وفرج خارج)؛ لأنه كالفم لا داخل؛ لأنه باطن، ولاتدخل أصبعها في قبلها، به يفتي. (قوله: وفرض الغسل) الواو للاستئناف أو للعطف على قوله: أركان الوضوء، والفرض بمعنى المفروض. والغسل بالضم اسم من الاغتسال، وهو تمام غسل الجسد، واسم لما يغتسل به أيضاً، ومنه في حديث ميمونة: "فوضعت له غسلاً" مغرب، لكن قال النووي: إنه بالفتح أفصح وأشهر لغةً، والضم هو الذي تستعمله الفقهاء، بحر. (قوله: ما يعم العملي) أي ليشمل المضمضة والاستنشاق فإنهما ليسا قطعيين؛ لقول الشافعي بسنيتهما. اهـ. ح. (قوله: كما مر) أي في الوضوء، وقدمنا هناك بيانه. (قوله: وبالغسل المفروض) أي غسل الجنابة والحيض والنفاس سراج فأل للعهد. (قوله: يعني إلخ) مأخوذ من المنح. قال ط: والمراد بعدم الفرضية أن صحة الغسل المسنون لاتتوقف عليهما، وأنه لايحرم عليه تركهما. وظاهر كلامه أنهما إذا تركا لايكون آتياً بالغسل المسنون، وفيه نظر؛ لأنه من الجائز أن يقال: إنه أتى بسنة وترك سنةً، كما إذا تمضمض وترك الاستنشاق. اهـ. أقول: فيه أن الغسل في الاصطلاح غسل البدن، واسم البدن يقع على الظاهر والباطن إلا ما يتعذر إيصال الماء إليه أو يتعسر كما في البحر، فصار كل من المضمضة والاستنشاق جزءًا من مفهومه فلاتوجد حقيقة الغسل الشرعية بدونهما، ويدل عليه أنه في البدائع ذكر ركن الغسل وهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج، ثم قسم صفة الغسل إلى فرض وسنة ومستحب، فلو كانت حقيقة الغسل الفرض تخالف غيره لما صح تقسيم الغسل الذي ركنه ما ذكر إلى الأقسام الثلاثة، فيتعين كون المراد بعدم الفرضية هنا عدم الإثم كما هو المتبادر من تفسير الشارح لا عدم توقف الصحة عليهما، لكن في تعبيره بالشرطية نظراً لما علمت من ركنيتهما، فتدبر. (قوله: غسل كل فمه إلخ) عبر عن المضمضة والاستنشاق بالغسل لإفادة الاستيعاب أو للاختصار كما قدمه في الوضوء، ومر عليه الكلام، ولكن على الأول لا حاجة إلى زيادة كل. (قوله: ويكفي الشرب عباً) أي لا مصاً، فتح، وهو بالعين المهملة، والمراد به هنا الشرب بجميع الفم، وهذا هو المراد بما في الخلاصة، إن شرب على غير وجه السنة يخرج عن الجنابة وإلا فلا، وبما قيل: إن كان جاهلاً جاز وإن كان عالماً فلا: أي لأن الجاهل يعب، والعالم يشرب مصاً كما هو السنة".(قوله: لأن المج) أي طرح الماء من الفم ليس بشرط للمضمضة، خلافاً لما ذكره في الخلاصة، نعم هو الأحوط من حيث الخروج عن الخلاف، وبلعه إياه مكروه، كما في الحلية".

Monday 21 August 2023

تجدید نکاح

فقہاء نے لکھا ہے کہ ناواقف لوگوں کو چاہیے کہ وہ مہینہ میں ایک یا دو مرتبہ نکاح کی تجدید کرلیا کریں کہ غلطی میں ان سے کوئی کفریہ کلمہ سرزد نہ ہوگیا ہو۔ صرف احتیاط کی بنا پر نکاح کی تجدید کی گئی ہو تو نیا مہر متعین کرنا ضروری نہیں ہے، اور اس نفسِ نکاح سے( جب کہ مہر میں اضافہ مقصود نہ ہو ) مہر بھی لازم نہیں ہوگا۔ لہٰذا اگر اپنی منکوحہ سے دوبارہ نکاح کا مقصد احتیاطًا تجدیدِ نکاح ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ عامی شخص کو یہ کرلینا چاہیے، اور اس سے پہلے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اسی طرح اگر پہلے خفیہ نکاح کیا گیا (گویہ شرعًا بہت ہی ناپسندیدہ ہے)، اور بعد میں اعلانیہ طور پر نکاح کیا جارہاہو، تو اس کی بھی شرعًا اجازت ہے، اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 113): "[تنبيه] في القنية: جدد للحلال نكاحاً بمهر يلزم إن جدده لأجل الزيادة لا احتياطاً اهـ أي لو جدده لأجل الاحتياط لاتلزمه الزيادة بلا نزاع، كما في البزازية". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 42): " والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرةً أو مرتين؛ إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير".

Sunday 20 August 2023

آستین چڑھاکر پائجامہ یاپینٹ کی مہری موڑ کرنماز پڑھنا

شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے نیچے رکھنا بقصدِ تکبر حرام، اور بلاقصدِ تکبر مکروہِ تحریمی (ناجائز)ہے، اگر غیر ارادی طور پر کبھی شلوار کا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹک جائے تو معاف ہے، لیکن جان بوجھ کر ایسا کرنا یا شلوار ہی ایسی بنانا کہ پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹکتا رہے یہ ہر گز جائز نہیں ہے، اور یہ متکبرین کی علامت ہے، اور جب یہ فعل ہی متکبرین کی علامت ہے تو پھر یہ کہہ کر ٹخنوں کو چھپانا کہ نیت میں تکبر نہیں تھا ، شرعاً درست نہیں ہے، اور ٹخنوں کو ڈھانکنا نماز اور غیر نماز ہر حال میں ممنوع ہے، اور نماز میں اس کی حرمت مزید شدید ہوجاتی ہے، لہذا ایسا لباس ہی نہ بنایا جائے جس میں ٹخنے ڈھکتے ہوں، فقہاءِ کرام نے ایسا لباس سلوانے کو مکروہ لکھا ہے جس میں مرد کے ٹخنے چھپ جاتے ہوں۔اور ایسا لباس ہونے کی صورت میں نماز شروع کرنے سے پہلےشلوار یا پینٹ وغیرہ کو اوپر سے موڑ لینا چاہیے، ورنہ کم ازکم نیچے سے موڑلے۔ اس طرح کرنے سے اس گناہ سے نجات مل جائے گی جو شلوار وغیرہ کو نماز کے اندر ایسے ہی چھوڑ دینے سے ہوتا۔ شلوار یا پینٹ پاؤں کی جانب سے موڑنے میں لباس کی ہیئت تبدیل ہونے سے جو کراہت آتی ہے وہ کراہتِ تنزیہی ہے، جب کہ ٹخنے ڈھانپنا مکروہ تحریمی (ناجائز) ہے۔لہٰذا اگر کسی کی شلوار وغیرہ لمبی ہو تو اسے اوپر یا نیچے کی جانب سے موڑ دینا چاہیے، کیوں کہ ٹخنے ڈھکنے کی کراہت تحریمی اور شدید ہے، جو حکم کے اعتبار سے ناجائز ہے، اس کےمقابلے میں شلوار یا پینٹ کو نیچے کی جانب سے فولڈ کرنے کی کراہت کم ہے، اس لیےشلوار یا پینٹ لمبی ہو تو نماز سے پہلے اسے فولڈ کرلینا چاہیے۔ "إن الله تعالی لایقبل صلاة رجل مسبل". (سنن أبي داؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء في إسبال الإزار، النسخة الهندیة۲/۵۶۵، بیت الأفکار رقم:۴۰۸۶) "عن أبي هریرة قال: قال رسول اﷲ صلی الله علیه وسلم: ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار". (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب ما أسفل من الکعبین ففي النار،۲/۸۶۱، رقم:۵۵۵۹) "عن أبي ذر عن النبي صلی الله علیه وسلم قال: ثلاثة لایکلمهم الله یوم القیامة: المنان الذي لایعطي شیئاً إلامنّه، والمنفق سلعته بالحلف والفاجر، والمسبل إزاره". (الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار، النسخة الهندیة۱/۷۱، بیت الأفکار رقم:۱۰۶) "وینبغي أن یکون الإزار فوق الکعبین ..." الخ (الفتاوى الهندیة، کتاب الکراهية، الباب التاسع في اللبس، زکریا۵/۳۳۳) ’’مرقاة المفا تیح‘‘: "ولایجوز الإسبال تحت الکعبین إن کان للخیلاء، وقد نص الشافعی علی أن التحریم مخصوص بالخیلاء ؛ لدلالة ظواهر الأحادیث علیها ، فإن کان للخیلاء فهو ممنوع منع تحریم". (۸/۱۹۸، کتاب اللباس) 2- آستین چڑھا کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگر رکعت نکل جانے کے خوف سے آستین نیچے کیے بغیر جماعت میں شامل ہوگیا اور کہنیاں کھلی رہ گئیں تو نماز کے دوران عملِ کثیر کے بغیر آستین نیچے کرلینی چاہیے، اور اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ ایک ہی رکن میں دونوں آستینیں نیچے نہ کرے، بلکہ مختلف ارکان کی ادائیگی میں حتی الامکان کم سے کم عمل کے ذریعے نیچے کردے، تو عملِ قلیل کی وجہ سے نماز پر اثر نہیں پڑے گا۔ حاشية رد المحتار على الدر المختار - (1 / 640): "(قوله :كمشمر كم أو ذيل ) أي كما لو دخل في الصلاة وهو مشمر كمه أو ذيله وأشار بذلك إلى أن الكراهة لاتختص بالكف وهو في الصلاة، كما أفاده في شرح المنية، لكن قال في القنية: واختلف فيمن صلى وقد شمر كميه لعمل كان يعمله قبل الصلاة أو هيئته ذلك ا هـ ومثله ما لو شمر للوضوء ثم عجل لإدراك الركعة مع الإمام، وإذا دخل في الصلاة كذلك، وقلنا بالكراهة، فهل الأفضل إرخاء كميه فيها بعمل قليل أو تركهما؟ لم أره، والأظهر الأول؛ بدليل قوله الآتي: ولو سقطت قلنسوته فإعادتها أفضل، تأمل

Tuesday 25 July 2023

زانی ومزنیہ کی اولاد کا آپسمیں نکاح

زنا یا دواعی زنا( مثلًا: عورت کو شہوت کے ساتھ کسی حائل کے بغیر چھونے یا بوسہ لینے سے) حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، یعنی اس عورت کے اصول (ماں ،دادی وغیرہ) اورفروع (بیٹی پوتی غیرہ)، مرد پر حرام ہوجائیں گے اور اس مرد کے اصول ( باپ ، دادا وغیرہ )اورفروع (بیٹا ، پوتا وغیرہ) ، عورت پر حرام ہوجائیں گے۔لیکن ان دونوں کے اصول وفروع آپس میں ایک دوسرے پر حرام نہیں ہوں گے؛ اس لیے وہ مرد اورعورت جنہوں نے باہم زنا کیاہو، ان کی اولاد کاآپس میں نکاح ہوسکتا ہے، تاہم زنا کرنے والے مرد اور عورت کو اپنے گناہ پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہوگا، اور آئندہ تنہائی میں ملاقات یا بے محابا تعلق و رابطے سے اجتناب ضروری ہوگا۔ شامی(32/2): "(قوله: و حرم أيضًا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبًا و رضاعًا و حرمة أصولها و فروعها على الزاني نسبًا و رضاعًا كما في الوطء الحلال و يحلّ لأصول الزاني و فروعه أصول المزني بها و فروعها."

Tuesday 11 July 2023

قیمت پہلے دینے کی صورت میں بائع کی طرف سے قیمت کم کرنا

عقد کرتے وقت جو ریٹ طے ہوجائے (خواہ نقد ہو یا ادھار) مشتری کے ذمے وہی ادا کرنا لازم ہوتا ہے، البتہ اگر فروخت کنندہ عقد (معاملہ) کرنے کے بعد طے شدہ ریٹ میں اپنی طرف سے کمی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، بشرطیکہ یہ کمی قسط کی صورت میں جلدی ادا کرنے کی شرط پر نہ ہو، نیز مدتِ ادائیگی میں مزید مہلت طلب کرنے کے عوض طے شدہ ریٹ پر اضافہ کرنا بھی جائز نہیں ، اسی طرح فروخت کنندہ کے لیے نقد کی صورت میں کمی اور ادائیگی کی مدت میں اضافہ کرنے کی وجہ سے زیادہ رقم کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے۔ جلدی ادا کرنے کی صورت میں بائع خود اپنی مرضی سے رقم کم کردے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ درر الحکام میں ہے: "(المادة 369) : حكم البيع المنعقد الملكية يعني صيرورة المشتري مالكا للمبيع والبائع مالكا للثمن...أي أن ملكية المبيع تنتقل للمشتري، وملكية الثمن تنتقل للبائع...أما الحكم التابع للبيع المنعقد: أولا: وجوب تسليم البائع للمبيع إلى المشتري، ثانيا: دفع المشتري الثمن للبائع."