https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 10 September 2023

ایک نشست کی تین طلاق کا مسئلہ

امام نووی ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے میں ائمہ اربعہ کا نظریہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ: علماء کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو اپنی بیوی سے انت طالق ثلاثا کہے (میں تجھے تین طلاق دیتا ہوں) امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد اور جمہور علماء سلف و خلف اس بات کے قائل ہیں کہ تینوں واقع ہوجائیں گی۔ (شرح نووی علی صحیح مسلم: ۵/۳۲۸، تحقیق حازم محمد و اصحابہ، طباعت:۱۹۹۵/) امام نووی کے اس بیان سے معلوم ہوگیا کہ ائمہ اربعہ نے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی مانا ہے، ایک نہیں مانا، لیکن حیرت اور تعجب ان لوگوں پر ہے جو اپنے آپ کو مقلد بھی ظاہر کرتے اور کہتے ہیں۔ پھر بھی ائمہ اربعہ کے مسلک کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور مجلس کی تین طلاق کو ایک ماننے پر اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تین ماننا اسلامی انصاف اور قانون کو مسخ کرنا ہے۔ اب ہم ان احادیث کو ذکر کریں گے جن میں ایک مجلس کی تین طلاق کا ذکر ملتا ہے۔ طلاق ثلاثہ اور احادیث حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، اس عورت نے دوسرا نکاح کرلیا، دوسرے شوہر نے بھی (قبل الوطی) طلاق دے دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پہلے مرد کے لیے حلال ہوگئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک دوسرا شوہر پہلے شوہر کی طرح لطف اندوز نہ ہولے۔ (صحیح بخاری: ۵۲۶۱، صحیح مسلم:۱۴۳۳) ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ماننے والے حضرات کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ”طلق امرأتہ ثلاثًا“ میں ثلاث سے مراد ثلاث مفرقہ ہے یعنی یہ تینوں طلاقیں ایک مجلس میں نہیں دی گئی تھیں اس لئے اس حدیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز پر استدلال فاسد ہے۔ لیکن ان حضرات کا ثلاث سے ”ثلاثل مفرقہ“ (تین طہر میں ایک ایک کرکے طلاق دینا)مراد لینا غلط ہے بلکہ ثلاث سے مراد ثلاث مجموعہ (ایک ہی دفعہ تینوں طلاق دینا) ہے کہ صحابی نے دفعة واحدہ (ایک مجلس میں) تینوں طلاق دی تھی، ثلاث مفرقہ مراد لینا خلاف ظاہر ہے اوراس پر کوئی قرینہ بھی موجود نہیں ہے، اس کے برعکس ثلاث مجموعہ مراد لینا ظاہر لفظ کے عین مطابق ہے۔ نیز ثلاث مجموع کے متعین ہونے کی تائید امام بخاری جیسے حدیث داں اور محدث کے ترجمة الباب سے ہوتی ہے۔ موصوف اس حدیث پریوں باب قائم کرتے ہیں: باب من جَوّز الطلاقَ الثلاث، اور شارح بخاری حافظ ابن حجر ترجمة الباب کی اس طرح وضاحت کرتے ہیں: ہذا یرجح أن المراد بالترجمة بیان من أجاز الطلاق الثلاث ولم یکرہہ، اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ترجمة الباب کا مقصداس امر کا بیان ہے کہ تین طلاقوں کو جائز قرار دیا اوراس کو مکروہ نہیں سمجھا۔ (فتح الباری: ۹/۳۶۷) ۲- ایک مجلس کی تین طلاق کے جائز اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رفاعہ قزطی کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور کہا کہ اے اللہ کے رسول: ان رفاعة طلقنی فَبَتَّ طلاقی کہ رفاعہ نے مجھے طلاق قطعی دیدی (عدت گزرنے کے بعد) میں نے عبدالرحمن بن الزبیر سے نکاح کرلیا لیکن ان کے اندر قوت رجولیت ختم ہوگئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تمہاری خواہش یہ ہے کہ پھر رفاعہ کی زوجیت میں چلی جاؤ، ایسا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ (عبدالرحمن) تم سے اور تم اس سے لطف اندوز نہ ہولو۔ (بخاری: ۵۲۶۰) حضرت عائشہ کی پہلی حدیث اور یہ حدیث دونوں الگ الگ ہے، حافظ ابن حجر نے اسی کو راجح قرار دیا ہے اور دونوں حدیث کو الگ الگ واقعے پر محمول کیا ہے۔ ایک مجلس کی تین طلاق کا انکار کرنے والے اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں طلاق البتہ کا ذکر ہے تین طلاق کا ذکر نہیں ہے، لیکن یہ کہنا کم علمی کی دلیل ہے اس لیے کہ خود امام بخاری نے کتاب اللباس میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور اس میں ”ثلاث تطلیقات“ ہے کہ رفاعہ نے تین طلاق دی تھی۔ طلاق البتہ (مغلظہ) نہیں دی تھی یہ راوی کا اپنا بیان ہے۔ اس کے بعد بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اس تین طلاق سے کیا مراد ہے، ثلاث مجموعہ مراد ہے کہ ایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دی تھی یا ثلاث مفرقہ مراد ہے کہ الگ الگ مجلس میں طلاق دی تھی، مجلس کی تین طلاق کا انکار کرنے والے ثلاث مفرقہ ہی مراد لیتے ہیں؛ لیکن امام بخاری کی تبویب سے معلوم ہوتا ہے کہ رفاعہ نے ایک مجلس میں تینوں طلاق دی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں طلاق کے واقع ہونے کا فیصلہ فرمایا جیسا کہ حلالہ کی بات سے پتہ چلتا ہے، لہٰذا تین طلاق کے منکرین کی بات یہاں بھی غلط ثابت ہوگئی اور مجلس کی تین طلاق کا جواز اور ثبوت اس حدیث سے بھی ثابت ہوگیا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ”فتح الباری“: ۹/۳۶۷، ۴۶۸) ۲- ایک مجلس کی تین طلاق کے جائز اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رفاعہ قزطی کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور کہا کہ اے اللہ کے رسول: ان رفاعة طلقنی فَبَتَّ طلاقی کہ رفاعہ نے مجھے طلاق قطعی دیدی (عدت گزرنے کے بعد) میں نے عبدالرحمن بن الزبیر سے نکاح کرلیا لیکن ان کے اندر قوت رجولیت ختم ہوگئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تمہاری خواہش یہ ہے کہ پھر رفاعہ کی زوجیت میں چلی جاؤ، ایسا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ (عبدالرحمن) تم سے اور تم اس سے لطف اندوز نہ ہولو۔ (بخاری: ۵۲۶۰) حضرت عائشہ کی پہلی حدیث اور یہ حدیث دونوں الگ الگ ہے، حافظ ابن حجر نے اسی کو راجح قرار دیا ہے اور دونوں حدیث کو الگ الگ واقعے پر محمول کیا ہے۔ مجلس کی تین طلاق کا انکار کرنے والے اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں طلاق البتہ کا ذکر ہے تین طلاق کا ذکر نہیں ہے، لیکن یہ کہنا کم علمی کی دلیل ہے اس لیے کہ خود امام بخاری نے کتاب اللباس میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور اس میں ”ثلاث تطلیقات“ ہے کہ رفاعہ نے تین طلاق دی تھی۔ طلاق البتہ (مغلظہ) نہیں دی تھی یہ راوی کا اپنا بیان ہے۔ اس کے بعد بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اس تین طلاق سے کیا مراد ہے، ثلاث مجموعہ مراد ہے کہ ایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دی تھی یا ثلاث مفرقہ مراد ہے کہ الگ الگ مجلس میں طلاق دی تھی، مجلس کی تین طلاق کا انکار کرنے والے ثلاث مفرقہ ہی مراد لیتے ہیں؛ لیکن امام بخاری کی تبویب سے معلوم ہوتا ہے کہ رفاعہ نے ایک مجلس میں تینوں طلاق دی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں طلاق کے واقع ہونے کا فیصلہ فرمایا جیسا کہ حلالہ کی بات سے پتہ چلتا ہے، لہٰذا تین طلاق کے منکرین کی بات یہاں بھی غلط ثابت ہوگئی اور مجلس کی تین طلاق کا جواز اور ثبوت اس حدیث سے بھی ثابت ہوگیا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ”فتح الباری“: ۹/۳۶۷، ۴۶۸) ۳- فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں: طلقنی زوجی ثلاثًا وہو خارج الی الیمن فأجاز ذلک رسول اللہ صلی اللّہ علیہ وسلم (میرے شوہر حفص بن عمرو نے مجھے تین طلاق دیدی اور وہ یمن کے سفر میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز یعنی نافذ قرار دیا) اخرجہ ابن ماجہ ۲۰۲۴۔ اس روایت میں اضطراب دکھلانے کی بے جا کوشش کی جاتی ہے کہ بعض روایت میں ہے کہ پہلے فاطمہ کو دو طلاق دی گئی تھی پھرتیسری طلاق دی، اور بعض روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حفص نے طلاق البتہ دی تھی اور بعض روایت میں مطلق طلاق کا ذکر ہے تعداد کا ذکر ہی نہیں ہے۔ (دیکھئے: التعلیق المغنی علی الدار قطنی: ۴/۱۱) لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حفص نے تین طلاق دیا تھا اور ایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دیا تھا، اس لیے کہ دار قطنی کی روایت میں ہے کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے پاس کچھ لوگوں نے ایک مجلس کی تین طلاق کے مکروہ ہونے کا تذکرہ کیا، ابوسلمہ نے کہا کہ حفص بن عمرو نے فاطمہ بنت قیس کو ایک مجلس میں تین طلاق دیا تھا لیکن کسی روایت سے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نکیر فرمائی ہو۔ (اخرجہ الدارقطنی: ۴/۱۱) آثار صحابہ ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز اور وقوع پر احادیث صحیحہ مرفوعہ سے استدلال کے بعداب ہم صحابہ کرام کے فتاویٰ اورآثار کو ذکر کررہے ہیں کہ صحابہ کرام نے مجلس کی تین طلاق کو ایک نہیں مانا ہے بلکہ تین مانا ہے اور وہ آثار درج ذیل ہیں: ۱- مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما خاموش رہے، مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ ابن عباس بیوی کو اس آدمی کے نکاح میں لوٹادیں گے، پھر ابن عباس نے کہا: تم لوگ حماقت کا کام کرتے ہو، پھر آکر چلاتے ہو اے ابن عباس، اے ابن عباس، اللہ فرماتا ہے: ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً، اور تم اللہ سے نہیں ڈرے اسلئے میرے یہاں تمہارے لئے کوئی سبیل نہیں ہے، تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔ (اخرجہ ابوداؤد:۲۱۹۷، والدارقطنی: ۴/۱۳) ۲- حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دیدی، حضرت ابن عباس نے کہا: تمہارے لئے کافی تھا کہ تین طلاق دیدیتے اور بقیہ نو سو ستانوے ترک کردیتے۔ (دارقطنی: ۴/۱۲) ۳- مدینہ میں ایک مسخرے آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دیدی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس استفتاء آیا، آپ نے کہا – کہ کیا تم نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے، اس آدمی نے کہا نہیں، میری نیت طلاق – کی نہیں تھی میں تو مذاق کررہا تھا، حضرت عمر نے اس کو کوڑے لگائے اور کہا کہ تین طلاق دیناکافی تھا۔ (عبدالرزاق فی ”المصنف“ ۱۱۳۴۰، والبیہقی: ۷/۳۳۴) ۴-ایک آدمی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دی ہے، آپ نے فرمایا: تین طلاق نے بیوی کو تم پر حرام کردیا۔ یعنی بقیہ نوسو ستانوے لغو ہوگئیں۔ (بیہقی: ۷/۳۳۵) ۵- محمد بن ایاس کہتے ہیں کہ: ابن عباس، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم تینوں سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو قبل الدخول طلاق دے دی، تینوں نے کہا: عورت اس کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے (ابوداؤد:۲۱۹۹) بیہقی کی روایت میں یہ زیادتی ہے کہ : ابن عباس اور ابوہریرہ نے اس آدمی کی مذمت نہیں کی کہ اس نے تین طلاق کیوں دی اور نہ ہی عبداللہ بن عمرو نے یہ کہا کہ تین طلاق دے کر تم نے بہت برا کام کیا۔ (اخرجہ البیہقی: ۷/۳۳۰) ۶- حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی تماضر بنت الاصبغ کو کلمہ واحدة (ایک مجلس میں) تین طلاق دیدی، عبدالرحمن کے شاگرد ابوسلمہ کہتے ہیں کہ کسی روایت سے ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کسی صحابی رسول نے آپ پر نکیر کی ہے۔ (دارقطنی: ۴/۱۲) ۷- مسلمہ بن جعفر احمسی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذ جعفر بن محمد سے پوچھا کہ : بعض حضرات کہتے ہیں کہ جس نے نادانی میں بیوی کو طلاق دے دی تواس کو سنت کی طرف لوٹایا جائیگا، یعنی ایک طلاق واقع ہوگی اور اس بات کو آپ سے روایت کرتے ہیں۔ جعفر بن محمد نے کہا: اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، ہم نے اس طرح کی بات نہیں کہی ہے بلکہ جس نے تین طلاق دی تواس کے قول کا اعتبار ہوگا۔ یعنی تین طلاق واقع ہوگی۔ (اخرجہ الامام البیہقی: ۷/۳۴۰)

No comments:

Post a Comment