https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 19 July 2024

اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ کاروبارکرنا

 اسلام نے عام حالات میں اگرچہ غیر مسلموں کے ساتھ کاروباری لین دین معاملات کی اجازت دی ہے اور خود آپﷺ نے بھی غیرمسلموں(اہل یہود) سے کاروبار کیاہے، تاہم ایسے غیرمسلم جو مسلمانوں سے کمائے ہوئے پیسوں سے مسلمانوں ہی پر حملہ آور ہوتے ہیں  یا مسلمانوں کا پیسہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کرکے ان کی  بیخ کنی کا اردہ کرکے سازش کرتے  ہیں،اور اپنی  اقتصاد کو مضبوط کرکے مسلمانوں کےخلاف اپنی شان شوکت کا اظہار  کرتے ہیں، تو  ازروئے شرع ایسے غیرمسلموں سے کاروبار کرنایا کوئی معاملہ کرنا یا ان کی کمپنی سےکسی بھی قسم کا تعلق رکھنا جائز نہیں ہے،تاکہ اس سازش کے ذریعے مسلمانوں کی  بیخ کنی میں ان کے معاون نہ بن جائے۔

صحيح مسلم   میں ہے:

"عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع."

(باب المساقاة والمزارعة، ج:3، ص:1186، ط: دارإحياء التراث العربى)

المبسوط للسرخسي میں ہے؛

"ولا يمنع التجار من حمل التجارات إليهم إلا الكراع والسلاح والحديد لأنهم أهل حرب وإن كانوا موادعين ألا ترى أنهم بعد مضي المدة يعودون حربا للمسلمين ولا يمنع التجار من دخول دار الحرب بالتجارات ما خلا الكراع والسلاح فإنهم يتقوون بذلك على قتال المسلمين فيمنعون من حمله إليهم وكذلك الحديد فإنه أصل السلاح قال الله تعالى {وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ} [الحديد: 25]."

(باب صلح الملوك والمودعة، ج:10، ص:151، ط:دارالفكر للنشروالتوزيع)

کتوں کی تجارت

 کتے سے متعلق شریعتِ مطہرہ کا حکم یہ ہے کہ جس کتے کو پالنا جائز ہو اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے اور جس کو پالنا جائز نہیں اس کی خرید و فروخت بھی جائز نہیں، اور کتے کو پالنے کی اجازت شکار کے لیے ہے یا گھر اور کھیتی کی حفاظت کے لیے ہے؛ لہذا جو کتا مذکورہ امور کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہو اس کی خرید و فروخت جائز ہے ورنہ نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"‌بيع ‌الكلب المعلم عندنا جائز وكذلك بيع السنور وسباع الوحش والطير جائز عندنا معلما كان أو لم يكن كذا في فتاوى قاضي خان.وبيع الكلب غير المعلم يجوز إذا كان قابلا للتعليم وإلا فلا، وهو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي."

(کتاب البیوع،الباب التاسع فیما یجوز بیعہ ومالا یجوز بیعہ،ج:3،ص:114،دارالفکر)

قسطوں پر مکان یا پلاٹ خریدنا

 قسطوں پر اشیاء کی خرید و فروخت  کے صحیح ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کا لحاظ اور رعایت کرنا ضروری ہے :

قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار، اور ایک شرط یہ بھی ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کسی بھی عنوان سے اس میں اضافہ وصول نہ کیا جائے ، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر قسطوں پر پلاٹ ، فلیٹ ، مکان یا دیگر اشیاء کی خریدو فروخت میں  مذکورہ شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو یہ بیع درست ہو گی ،اور اگر ان شرائط کی رعایت نہ رکھی جائے، تو  اس طرح خرید وفروخت  کرنا درست نہیں ہو گا۔

"مجمع الأنهر شرح ملتقي الأبهر "میں ہے :

"ویصح البیع بثمن مال مؤجل لإطلاق قوله تعالیٰ: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾."

(كتاب البيوع ،ج:3 ،ص:13، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

مجلۃ  الأحكام العدليه ميں هے :

"البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح…… یلزم أن تکون المدة معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط."

(كتاب البيوع،ج:1،ص:127، رقم المادة: ۲۴۵، ط: مکتبة الإتحاد دیوبند)

مبسوط للسرخسی میں ہے :

"وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا، وبالنقدکذا، أو قال إلی شھر بکذا أو إلی شھرین بکذا فہو فاسدٌ … وہٰذا إذا افترقا علی ہٰذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرّقا حتّٰی قاطعہ علیٰ ثمن معلوم وأتما العقد علیہ فہو جائز الخ."

(كتاب البيوع،۱۳:۷، ۸، ط: دار المعرفة بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے :

"أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيعين في بيع» وكذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول،.....وجهالة الثمن تمنع صحة البيع فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد ‌زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد."

(كتاب البيوع ،باب شرائط الصحة في البيوع ،ج:5 ،ص:158 ،ط:رشيدية)

انٹر نیٹ سروس فراہم کرنے کاکام

 جس چیز کا جائز اور ناجائز دونوں طرح استعمال ہوسکتا ہو اس کی خرید وفروخت، سپلائی، ریپیرنگ وغیرہ جائز ہے، اگر کوئی شخص اس کا غلط استعمال کرتا ہے تو اس کا گناہ اسی پر ہوگا۔

 انٹرنیٹ کیبل  کا جائز اور ناجائز دونوں طرح کا استعمال ہے، انٹرنیٹ محض ٹی وی پروگرام( ویڈیوز ) دیکھنے کے لیے مختص نہیں ہے،  بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے جائز کام بھی کیے جاسکتے ہیں، اس لیے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنا جائز ہے، اگر اس کا کوئی ناجائز استعمال کرتا ہے تو اس کا گناہ اسی غلط استعمال کرنے والے پر ہوگا، انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والا اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔

البحرالرائق میں ہے :

"وقد استفيد من كلامهم هنا أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه، وما لا فلا، ولذا قال الشارح: إنه لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة".(5/155)

فتاوی شامی میں ہے :

"وكذا لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكراً، وإنما المنكر في استعمالها المحظور اهـ  قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلاً والغناء عارض فلم تكن عين المنكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكراً إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكر بلا عمل صنعة فيه، فخرج نحو الجارية المغنية؛ لأنها ليست عين المنكر، ونحو الحديد والعصير؛ لأنه وإن كان يعمل منه عين المنكر لكنه بصنعة تحدث فلم يكن عينه". (4/268)

قسط یا انٹسالمنٹ پر سوداکرنا

 قسطوں پرکسی چیز کی  خرید و فرخت کرنا  تجارت کی ایک جائز قسم ہے، جو عام طور پر نقد سے  قدرے زائد قیمت پر بائع (دوکاندار)  اور مشتری (خریدار )کی باہمی رضامندی  سے طے پاتا ہے،  البتہ اس کے صحیح ہونے کے لیےچند  شرائط کی پابندی کرنا ضروری ہے،  اگر ان شرائط کی رعایت نہ کی جائے تو سود  لازم آئے گا جو کہ حرام ہے۔

شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

1۔عقد کے وقت  ہی کوئی ایک قیمت متعین کرلی جائے۔

2۔ ادھار  کی مدت  بھی متعین کرلی جائے۔

3۔بیع خلاف جنس کی ہو۔

4۔ قسط میں تاخیر ہونے کی وجہ سے مقرر ہ  قیمت میں اضافہ نہ کیا جائے ۔

5۔تاخیر کی وجہ سے  جرمانہ وصول کرنے کی شرط عائد نہ کی جائے۔

6۔ ادائیگی سے عاجز ہونے کی وجہ سے سودا منسوخ کرنے پر ادا شدہ رقم  ضبط نہ کی جائے۔

7۔ اور  نہ ہی مبیع  ضبط کی جائے وغیرہ وغیرہ۔

  تو شرعاً  ایسا معاملہ کرنا عام بیع کی طرح جائز ہو گا   کہ   جس میں بائع اور مشتری کو اختیار ہوتا ہے کہ  باہمی رضامندی سے جتنے میں بھی سودا   طے کر لیں  ۔

سنن الترمذی میں ہے  : 

"وقد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: ‌أبيعك ‌هذا ‌الثوب ‌بنقد ‌بعشرة، وبنسيئة بعشرين، ولا يفارقه على أحد البيعين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما."

(أبواب البيوع، ‌‌باب ما جاء في النهي عن بيعتين في بيعة، ج : 3، ص : 525، ط : شركة مكتبة ومطبعة مصطفى)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے :

"(اشتراه بألف نسيئة وباع بربح مائة بلا بيان) خير المشتري (فإن تلف) المبيع بتعيب أو تعيب (فعلم) بالأجل (لزمه كل الثمن حالا."

رد المحتار میں ہے :

"(قوله: لزم كل الثمن حالا) لأن الأجل في نفسه ليس بمال، فلا يقابله شيء حقيقة إذا لم يشترط زيادة الثمن بمقابلته قصدا، ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدا."

(كتاب البيوع، ‌‌باب المرابحة والتولية، ج : 5، ص : 141/42، ط : 

Wednesday 17 July 2024

ناپاک خشک قالین پر بیٹھنے پر ناپاکی کاحکم

 ناپاک خشک قالین پر اگر کوئی شخص بیٹھ جائے اور اس کاجسم یا کپڑے گیلے ہوں،تو اگر اس کے بدن یا کپڑوں پرنجاست کا اثر(بو،رنگ)ظاہر ہوجائے تو اس کا بدن اور کپڑےناپاک ہوجائیں گے ورنہ نہیں ۔

کارپیٹ یا قالین جسے نچوڑا نہ جاسکے ، اگر وہ ناپاک ہوجائے ، تو اُس کی پاکی کا طریقہ یہ ہے کہ اسے تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ دھوکر اتنی دیر چھوڑ دیا جائے اُس سے پانی ٹپکنا بند ہوجائے ، پوری طرح سوکھنا ضروری نہیں ہے ، تین مرتبہ ایسا کرنے سے پاک ہوجائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے

"والحاصل أنه على ما صححه الحلواني: العبرة للطاهر المكتسب إن كان بحيث لو انعصر قطر تنجس وإلا لا، سواء كان النجس المبتل يقطر بالعصر أو لا. وعلى ما في البرهان العبرة للنجس المبتل إن كان بحيث لو عصر قطر تنجس الطاهر سواء كان الطاهر بهذه الحالة أو لا، وإن كان بحيث لم يقطر لم يتنجس الطاهر، وهذا هو المفهوم من كلام الزيلعي في مسائل شتى آخر الكتاب."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) فروغ في الاستبراء، ج:1/ ص:347، ط:سعيد)

البحرالرائق  میں ہے: 

" قال رحمه الله ( لف ثوب نجس رطب في ثوب طاهر يابس فظهر رطوبته على الثوب ولكن لا يسيل إذا عصر لا يتنجس ) وذكر المرغيناني أنه إن كان اليابس هو الطاهر يتنجس ؛ لأنه يأخذ قليلا من النجس الرطب وإن كان اليابس هو النجس والطاهر هو الرطب لا يتنجس ؛ لأن اليابس هو النجس يأخذ من الطاهر ولا يأخذ الرطب من اليابس شيئا ويحمل على أن مراده فيما إذا كان الرطب ينفصل منه شيء وفي لفظه إشارة إليه حيث نص على أخذ الليلة وعلى هذا إذا نشر الثوب المبلول على محل نجس هو يابس لا يتنجس الثوب لما ذكرنا من المعنى."

( البحر الرائق:  مسائل متفرقه ،ج:8،ص :546، ط:دارالمعرفه

سسرداماد کوزکات دے سکتاہے

 اگر داماد غریب ہے، نصاب کا مالک نہیں ہے  اور ہاشمی (سید/ عباسی وغیرہ) بھی نہیں ہے تو سسر داماد کو زکوۃ دے سکتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"و يجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ ‌لانقطاع ‌منافع الأملاك بينهم."

(كتاب الزكاة، فصل ركن الزكاة: 2/ 50، ط: دار الكتب العلمية)

اجارہ کی زمین پر عشر کس پر واجب ہوگا ۔

 اگر کوئی شخص اپنی   زمین کرایہ  پر دے تو اس صورت میں اس کا عشر  زمین کے مالک پر ہوگا یا کرایہ دار پر! اس میں یہ تفصیل ہے کہ زمین کا مالک اگر کرایہ بہت  زیادہ لیتا ہے اور کرایہ دار کو  کم بچت ہوتی ہے تو ایسی صورت میں عشر  زمین کے مالک کے ذمہ ہوگا، اور اگر  زمین کا مالک کرایہ کم لیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کرایہ دار کو بچت زیادہ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں  زمین کا عشر کرایہ دار کے ذمہ لازم ہوگا۔

اس زمانے میں کرایہ عموماً   کم ہوتا ہے، اور اس کے مقابلہ میں مستاجر (کرایہ دار) کو بچت زیادہ ہوتی  ہے ، اس لیے موجودہ زمانے میں از روئے فتویٰ عشر  کرایہ دار پر ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"والعشر على المؤجر كخراج موظف وقالا على المستأجر كمستعير مسلم: وفي الحاوي وبقولهما نأخذ.
(قوله: والعشر على المؤجر) أي لو أجر الأرض العشرية فالعشر عليه من الأجرة كما في التتارخانية وعندهما على المستأجر قال في فتح القدير: لهما أن العشر منوط بالخارج وهو للمستأجر وله أنها كما تستنمى بالزراعة تستنمى بالإجارة فكانت الأجرة مقصودة كالثمرة فكان النماء له معنى مع ملكه فكان أولى بالإيجاب عليه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قلت: لكن في زماننا عامة الأوقاف من القرى والمزارع لرضا المستأجر بتحمل غراماتها ومؤنها يستأجرها بدون أجر المثل بحيث لا تفي الأجرة، ولا أضعافها بالعشر أو خراج المقاسمة، فلا ينبغي العدول عن الإفتاء بقولهما في ذلك؛ لأنهم في زماننا يقدرون أجرة المثل بناء على أن الأجرة سالمة لجهة الوقف ولا شيء عليه من عشر وغيره أما لو اعتبر دفع العشر من جهة الوقف وأن المستأجر ليس عليه سوى الأجرة فإن أجرة المثل تزيد أضعافا كثيرة كما لا يخفى فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتى بقول الإمام وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لا يقول به أحد والله تعالى أعلم."

(کتاب الزکات،باب العشر،ج:2،ص:334،سعید)

امانت کی رقم پر زکوۃ کی ادائیگی کون کرے گا

 امانت رکھوانے والے کی اجازت سے امانت کی رقم کا استعمال سائل کے لیے جائز تھا ، البتہ اس رقم کے مالک چوں کہ رکھوانے والے شخص ہیں؛ اس لیے اس رقم کی زکاۃ مالک پر لازم ہے ، سائل پر یا قرض لینے والے پر نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌وشرطه) ‌أي ‌شرط ‌افتراض ‌أدائها (‌حولان ‌الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض."

(‌‌كتاب الزكاة، ج:2، ص:267، ط:سعید)

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني."

(كتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الإيداع والوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، ج:4، ص:338، ط:رشيدية)

مستحق زکوٰۃ کی مد میں ملے راشن کو بیچ سکتا ہے کہ نہیں

 جس کو زکوۃ وغیرہ میں کوئی چیز مل جائے،تو وہ اُس چیزکا مالک بن جاتا ہے، اور اسے اس میں  تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہوتاہے ، چاہے توخود استعمال کرے ،یا فروخت کرے یا کسی دوسرے کو ہبہ کرے ،کیونکہ ملکیت تبدیل ہونے سے اُس چیزکا حکم بدل جاتا ہے۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں مستحق  زکوۃ کو زکوۃ  کی مد میں راشن وغیرہ  ملنے کی صورت میں اس کے لیے  آگے بیچنا جائز ہے۔اور اسی طرح استطاعت رکھنے والے کےلیے زکوۃ کا مال خریدناجائز ہے، کیونکہ ملکیت تبدیل ہونے سے اُس چیزکا حکم بدل جاتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"للمالك أن یتصرف في ملكه أي تصرف شاء."

(کتاب الدعوي، ج: 6، ص: 264، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم.

وفي الرد: (قوله: والظاهر نعم) البحث لصاحب النهر وقال؛ لأنه مقتضى صحة التمليك قال الرحمتي: والظاهر أنه لا شبهة فيه؛ لأن ملكه إياه عن زكاة ماله."

(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج: 2، ص: 345، ط: سعيد

زکوٰۃ اور عشر جمع کرنے والوں کو زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہ دینا

 عاملینِ صدقہ وہ لوگ کہلاتے ہیں جو اسلامی حکومت کی طرف سے زکات اور عشر جمع کرنے پر مامور ہوں۔  ان لوگوں  کو اسلامی حکومت  زکات کی مد سے تنحواہ (یعنی بقدر محنت اجرت)  دے سکتی ہے، کیونکہ اسلامی حکومت میں امیرالمؤمنین فقراء کا وکیل ہوتا ہے۔لیکن ہندوستان میں   اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے  مدارس ، انجمنوں اور ٹرسٹوں کی طرف سے زکات اور عشر کو جمع کرنے والے لوگوں  کو زکات کی مد سے  تنخواہ اور مزدوری دینا جائز نہیں۔

بدائع الصنائع ميں ہے:

"وأما العاملون عليها فهم الذين نصبهم الإمام لجباية الصدقات واختلف فيما يعطون، قال أصحابنا: يعطيهم الإمام كفايتهم منها.............ولنا أن ما يستحقه العامل إنما يستحقه بطريق العمالة لا بطريق الزكاة بدليل أنه يعطي وإن كان غنيا بالإجماع ولو كان ذلك صدقة لما حلت للغني وبدليل أنه لو حمل زكاته بنفسه إلى الإمام لا يستحق العامل منها شيئا ولهذا قال أصحابنا أن حق العامل فيما في يده من الصدقات حتى لو هلك ما في يده سقط حقه كنفقة المضارب إنها تكون في مال المضاربة حتى لو هلك مال المضاربة سقطت نفقته كذا هذا دل أنه إنما يستحق بعمله لكن على سبيل الكفاية له ولأعوانه لا على سبيل الأجرة لأن الأجرة مجهولة أما عندنا فظاهر لأن قدر الكفاية له ولأعوانه غير معلوم."

(بدائع الصنائع: كتاب الزكاة،  فصل وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع (2/ 44)،ط. دار الكتاب العربي،سنة النشر 1982)

دس محرم کو کھانے کا اہتمام کرنا

  عاشوراء  (دس محرم) کے روز اپنے اہل و عیال پر رزق کی وسعت اور فراوانی کی ترغیب وارد ہوئی ہے، چناچہ مشکاۃ المصابیح میں ہے :

" عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من وسع على عياله في النفقة يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته. قال سفيان : إنا قد جربناه فوجدناه كذلك. رواه رزين".

(‌‌‌‌كتاب الزكاة ، باب فضل الصدقة ، الفصل الثالث ج: 1 ص: 601 ط: المكتب الإسلامي)

 "حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:  "جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے خرچ میں وسعت اختیار کرے تو اللہ تعالی سارے سال( اس کے مال و زر میں) وسعت عطا فرمائے گا۔  حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا"۔ (رزین) 

(مظاہر حق جدید ج:2 ص:265 ط: دار الاشاعت)

اس طرح کی روایات دیگر صحابہ سے بھی مروی ہیں جو  اگرچہ سنداً ضعیف ہیں، لیکن مختلف طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے فضائل میں قابلِ استدلال ہیں، اسی وجہ سے اکابرین نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے، لہذا دس محرم کو خاندان والوں کے لیے  کھانےکے  اہتمام کر نے کو بدعت کہنادرست نہیں ۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

" عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من وسع على عياله في النفقة يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته. قال سفيان : إنا قد جربناه فوجدناه كذلك. رواه رزين".

(‌‌‌‌كتاب الزكاة ، باب فضل الصدقة ، الفصل الثالث ج: 1 ص: 601 ط: المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے 

"وحديث التوسعة على العيال يوم عاشوراء صحيح وحديث الاكتحال فيه ضعيفة لا موضوعة كما زعمه ابن عبد العزيز".

(‌‌ کتاب الصوم  ، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده ج:2 ص418 / 419 ط:سعید )

اس حدیث میں مطلقاً اپنے اہل و عیال پر وسعت کا ذکر ہے ،  اس دن کی دعوت کو ضروری سمجھنا ، یا اس میں تمام متعلقین کے بلانے کو ضروری سمجھنا درست نہیں، اس سے احتراز لازم ہے۔

مأخَذُ الفَتوی

فی مشكاة المصابيح : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: «من وسع على عياله في النفقة يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته» . قال سفيان : إنا قد جربناه فوجدناه كذلك . رواه رزين (1/ 601)
و فی الصحيح لمسلم : عن ابن عباس -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قدم المدينة فوجد اليهود صياما ، يوم عاشوراء ، فقال لهم رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ما هذا اليوم الذي تصومونه؟» فقالوا : هذا يوم عظيم ، أنجى الله فيه موسى و قومه، و غرق فرعون و قومه ، فصامه موسى شكرا ، فنحن نصومه ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «فنحن أحق و أولى بموسى منكم فصامه رسول الله صلى الله عليه وسلم ، و أمر بصيامه» اھ(2/ 796)۔
و فی مرقاة المفاتيح : قال الطيبي : و فيه أن من أصر على أمر مندوب ، و جعله عزما ، و لم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال اھ(2/ 755)۔

زکوٰۃ کی رقم عیدی کہہ کر دینا

 زکات    ادا کرتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکات   ہے، بلکہ کسی بھی عنوان (مثلاً  قرض یا ہدیہ،عیدی  وغیرہ کے نام ) سے ضرورت مند کو دی جاسکتی ہے، ہاں زکات اور صدقاتِ واجبہ میں یہ ضروری ہے کہ وہ رقم الگ کرتے وقت یا ادائیگی کے وقت اس مد (زکات  یا صدقاتِ واجبہ)کی نیت ہو۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومن أعطى مسكينا دراهم وسماها هبة أو قرضا ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح هكذا في البحر الرائق ناقلا عن المبتغى والقنية".

(کتاب الزکات،ج:1،ص:171،دارالفکر)