https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 9 April 2022

صفات باری تعالی

صفاتِ فعلیہ: یہ وہ صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مشیئت سے متعلق ہوتی ہیں؛ اگر وہ چاہے تو انہیں کر لے اور اگر چاہے تو نہ کرے۔ اس کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ: یہ وہ صفات ہیں جو اپنے موصوف کے ساتھ قائم و لازم نھیں ہوتی ہیں، یا یہ وہ صفات ہیں جو ذات سے الگ ہوتی ہیں، جیسے عرش پر مستوی ہونا، آسمانِ دنیا پر نزول فرمانا، آنا، رضا، محبت وغیرہ۔ فعلی صفات جس شے سے متعلق ہوتی ہیں اس سے تعلق کے اعتبار سے ان کی دو قسمیں ہیں: 1۔ متعدی صفات: وہ فعلی صفات جو دوسرے تک متعدی ہوتی ہیں جیسے خلق (پیدا کرنا)، رزق (روزی دینا)، إحياء (زندہ کرنا)، إماتة (موت دینا) اور تدبیر کی دیگر انواع۔ 2۔ لازمی صفات: وہ فعلی صفات جو ذاتِ الٰہی سے متعلق ہوں، جیسے کلام، نزول، اور استواء علی العرش وغیرہ۔ بعض اوقات ایک ہی صفت دو مختلف اعتبارات سے ذاتی اور فعلی دونوں ہوتی ہے، جیسے صفتِ کلام ہے۔ چنانچہ یہ اپنے اصل کے اعتبار سے ذاتی صفت ہے، اس لیے کہ اللہ تعالی ہمیشہ سے متکلم ہے۔ اور آحادِ کلام کے اعتبارسے یہ ایک فعلی صفت ہے کیوں کہ کلام کا تعلق اللہ کی مشیت سے ہے۔ وہ جب چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ فعلی صفات کی ایک اور اعتبار سے بھی دو قسمیں بنتی ہیں۔ 1۔ صفاتِ فعلیہ خبریہ: یہ وہ صفات ہیں جو صرف نقلی دلیل (یعنی کتاب و سنت) سے ثابت ہوتی ہیں،اور اگر ان کے بارے میں نص نہ آئی ہوتی تو عقل کے ذریعے ان تک رہنمائی پانا اور ان کی معرفت حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ تاہم اس کے باوجود عقل ان کی نفی نہیں کرتی۔ جیسے استواء، نزول، مجیء (آنا) وغیرہ۔ 2۔ صفاتِ فعلیہ عقلیہ: یہ وہ صفات ہیں جن کا ادراک عقل کے ذریعے ممکن ہے اور ان سے متعلق نص بھی آئی ہو۔ اگر ان کے بارے میں نص نہ آتی تب بھی عقل کے ذریعے ان کا ادراک ہوجاتا۔ جیسے خلق، احياء ، اماتہ اور رزق۔ محققین نے وضاحت کی ہے کہ فعلی صفات نوع کے اعتبار سے قدیم اور آحاد کے اعتبار سے حادث ہیں۔

Thursday 7 April 2022

استصحاب

دلیل کے ذریعہ کوئی حکم پہلے سے ثابت ہو اور کوئی صریح دلیل اس حکم کے آئندہ باقی رہنے پر موجود ہواور نہ اس حکم کے ختم ہو جانےپرایسی صورت میں اس حکم کو باقی اور مسلسل قرار دینے کا نام استصحاب ہے، خواہ ماضی کے حکم کو حال میں یا حال کے حکم کو مستقبل میں یا ماضی میں موجود سمجھا جائے۔ اس کی پانچ قسمیں جو حکم شرعی پہلے سے ثابت ہو جب تک اس میں تبدیلی کی کوئی دلیل نہ آجائے ، اس کے باقی رہنے کا حکم لاگایا جائے، جیسے نکاح صحیح کے ذریعہ جب مردو عورت ایک دوسرے کے لیے حلال ہو گئے، تو جب تک نکاح کے ختم ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو وہ ایک دوسرے کی لیے حلال ہی رہیں گے۔ (2)بعض احکام وہ ہیں جو عقل اور شریعت دونوں ہی کے ثبوت و استمرار کا تقاضا کرتے ہیں، مثلا کسی شخص نے دوسرے سے قرض لیا یا ادھار سامان خریدا، تو جب تک دین ادا نہ کر دے یا دوسرا فریق بری نہ کر دے، اس وقت تک اس کی ذمہ داری باقی رہے گی۔ (3) کوئی حکم عام ہو تو جب تک تخصیص پر کوئی دلیل نہ آجائے وہ عام رہے گا، اسی طرح جب کوئی نص وارد ہو تو جب تک دلیل نسخ نہ آجائے وہ حکم باقی رہے گا۔ ان تینوں صورتوں کے معتبر ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ (4) جب تک کسی امر کے بارے میں نص وارد نہ ہو اس وقت تک وہ جائز شمار کیا جائے، انسان اسی وقت مکلف ہوگا ، جب اس کو کسی حکم کا مکلف قرار دینے پر نص موجود ہو۔ (5) اختلافی مسئلہ میں اتفاقی مسئلہ کے حکم کو باقی رکھا جائے، جیسے ایک شخص نے تیمم کیا اور نماز شروع کردی ، تو اگر پانی نظر آنے سے پہلے اس نے اپنی نماز پوری کرلی تو بالاتفاق نماز پوری ہوجائے گی اور اگر نماز کے ختم ہونے سے پہلے پانی نظر آجائے تو اس صورت میں اختلاف ہے ، اس اختلافی صورت میں پانی نظر آنے سے پہلے والے حکم کو باقی رکھا جائے یہ بھی استصحاب کی ایک قسم ہے، جس کو استصحاب اجماع کہتے ہیں، استصحاب حكم الإباحة الأصلية للأشياء التي لم يرد دليل على تحريمها، ومعنى هذا أن المقرر عند جمهور الأصوليين، بعد ورود الشرع: هو أن الأصل في الأشياء النافعة التي لم يرد فيها من الشرع حكم معين هو الإباحة، كما أن الأصل في الأشياء الضارة هو الحرمة. استصحاب العموم إلى أن يرد تخصيص أو استصحاب النص إلى أن يرد نسخ. استصحاب ما دل العقل والشرع على ثبوته ودوامه، وقد عبر عنه ابن القيم باستصحاب الوصف المثبت للحكم حتى يثبت خلافه كالملك، عند وجود سببه، وهو العقد أو الوراثة، أو غيرهما من أسباب الملك. استصحاب الحكم الأصلي المعلوم بالعقل في الأحكام الشرعية أى انتفاء الأحكام السمعية في حقنا قبل ورود الشرع، كالحكم ببراءة الذمة من التكاليف الشرعية حتى يوجد دليل شرعى يدل على التكليف ويسمى هذا بالبراءة الأصلية. استصحاب حكم ثابت بالإجماع في محل الخلاف بين العلماء مثاله: إجماع الفقهاء على صحة الصلاة عند فقد الماء، فإذا أتم المتيمم الصلاة قبل رؤية الماء صحت الصلاة، وأما إذا رأى الماء في أثناء الصلاة فهل تبطل الصلاة أم لا. قال الشافعي ومالك، لا تبطل الصلاة لأن الإجماع منعقد على صحتها قبل رؤية الماء، فيستصحب حال الإجماع إلى أن يدل دليل على أن رؤية الماء مبطلة (اصول الفقہ الاسلامی لوہبہ الزحیلی )

Tuesday 5 April 2022

تراویح میں قرآن کتنی جلدی پڑھ سکتے ہیں

تراویح میں قرآن پاک صرف اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ پڑھنا درست ہے کہ قرآن کریم کے کلمات اور حروف سب صحیح طور پر ادا ہوں، نہ کوئی کلمہ یا حرف غلط ادا ہو اور نہ پڑھنے میں کٹے ، نیز تجوید کے ضروری قواعد کی رعایت بھی پائی جائے، اس قدر تیز پڑھنا کہ کلمات صاف سمجھ میں نہ آئیں اور حروف کٹ جائیں یا تجوید کے ضروری قواعد کی بھی رعایت نہ ہو، درست نہیں۔ ویجتنب المنکرات: ھذرمة القراء ة الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲: ۴۹۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

Saturday 2 April 2022

In the failed marriage not giving divorce is cruelty

The Kerala High Court on Tuesday said a spouse refusing to give divorce on mutual consent, despite being convinced that the marriage has failed, amounts to cruelty. “No one can force another to continue in a legal relationship if it deteriorates beyond repair,” observed a division bench of the court. It issued the order on a petition filed by a 32-year-old woman from Pathanamthitta against the order of the Nedumangad family court that granted divorce. Her husband, realising that he could not move forward with the marriage, had approached the family court for divorce on the ground of cruelty. He cited the woman’s constant and recurring quarrelsome attitude as the ground for divorce. The woman, in her plea, denied any sort of misbehaviour from her side. However, she admitted the husband had failed to offer care and emotional support when it was required, including during pregnancy. Citing that the couple has been living separate since 2017, the court upheld the family court’s order to grant divorce.

Tuesday 29 March 2022

فضائل میں ضعیف حدیث قبول کرنے کے شرائط

فضائل میں بعض محدثین نے ضعیف روایات کو قبول کیا ہے۔ ان میں حافظ ابن حجر، امام نووی وغیرہ قابل ذکر ہیں اور جن محدثین نے فضائل میں ضعیف احادیث کو قبول کیا ہے انہوں نے بھی اس کی چند شرائط مرتب کی ہیں۔ اگر ضعیف حدیث ان شرائط پر پوری اترے گی تو وہ ضعیف حدیث فضائل میں قابل قبول ہوگی ورنہ اسے رد کر دیا جائے گا۔ وہ شرائط ملاحظہ ہوں: 1 ﴿ان یکون الضعف غیر شدید فیخرج من الفرد من الکذابین، ولمھمین بالکذب،، ومن فحش غلطہ (وقد نقل السخاوی الاتفاق علی ھذا الشرط) ﴾ ترجمہ: (اس کا ضعف شدید نہ ہو، یعنی اس میں منفرد کاذبین، متھم بالکذب اور فحش غلطیاں کرنے والے نہ ہوں ( امام سخاوی نے اس شرط پر محدثیں کا اتفاق لکھا ہے۔)) 2 ﴿ان یکون الضعیف مردجا تحت اصل عام فیخرج ما یخترع بحیث لا یکون لہ اصل معمول بہ اصلاً﴾ ترجمہ: (وہ حدیث کسی معمول بہ اور ثابت شدہ اصل کے ضمن میں آتی ہو اس سے اختراع خارج ہو جائی گی جن کی کوئی اصل نہیں۔) 3 ﴿ان لا یعتقد عند العمل بہ ثبوتہ لئلا ینسب الی النبی ﷺ بل یعتقد الاحتیاط﴾ ترجمہ: (عمل کرتے ہوئے اس پر نبی ﷺ کی سنت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے بلکہ احتیاط کی نیت سے عمل کیا جائے۔) (تیسر مصطلح الحدیث ص۸۱) 4 ﴿ان لا یعارض حدیثا صحیحا﴾ ترجمہ: (کسی صحیح حدیث کی متعرض نہ ہو۔) اس کے علاوہ حافظ ابن حجر a نے ایک اور شرط بیان کی ہے: 5 ﴿ان لا یشنھر ذلک لئلا یعمل المرء بحدیث ضعیف فیرع ما لیس یشرع، او یراہ بعض الجھال فظن انہ سنة صحیحة﴾(الحدیث الضعیف، وحکم الاحتجاج ص۲۷۳،۲۷۴) ترجمہ: (اس کو مشہور نہ کیا جائے یہاں تک کہ لوگ اس کو شریعت سمجھ کر اس پر عمل کریں ، حالانکہ وہ شریعت نہیں ہے اور بعض جاہل یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ یہ سنت صحیح ہے۔ ) ان شرائط میں سے پہلی شرط پر محدثین کا اتفاق ہے کہ اس میں ضعف شدید نہ ہو، اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ ضعیف حدیث کسی ایسی صحیح حدیث کے تحت آتی ہو یعنی کوئی ایسا عمل جو صحیح حدیث سے ثابت ہو اور اس عمل کی ترغیب دینے کے لیے اس بارے میں ضعیف حدیث کو بیان کیا جائے مگر بعض لوگوں نے اس ضعیف حدیث میں اس عمل کے بارے میں جو تفصیلی حکم موجود ہے اس کو بھی بیان کرنا شروع کر دیا اور اس کی مثال امام شاطبی نے اعتصام میں بیان کی کہ: ﴿اذا جاء ترغیب فی صلاة لیلة النصف من شعبان فقد عضدہ اصل الترغیب فی صلاة النافلة وما اثبہ تلک ولیس کما توھموا لان الاصل اذا ثبت لا یلزم اثباتہ فی التفصیل حتی یثبت التفصیل بلیل صحیح ثم ینظر بعد ذلک فی احادیث الترغیب الترھیب بالنسبة الی ذلک العمل الخاص بالدلیل الصحیح﴾ (اعتصام ، جلد۱، ص ۱۸۱) ترجمہ: (پندرھویں شعبان کی رات میں نماز کی ترغیب کے بارے میں جو موجود ہے اس میں شک نہیں کہ اس کی اصل بنیاد نوافل کی ترغیب کے بارے میں ہے اور اس کی اصل بنیاد (نوافل کی ترغیب) تو ثابت ہے۔ مگر یہ لازم نہیں ہے کہ اس میں جو تفصیل (شعبان کی رات میں شب بیداری ) بیان ہوئی ہے وہ بھی ثابت ہو جیسا کہ بعض کو اس سے وہم ہوا ہے۔ کیونکہ تفصیل دلیل صحیح سے ثابت ہوتی ہے ، پھر یہی دیکھا جاتا ہے کہ احادیث ترغیب و ترھیب میں جو خاص عمل بیان کیا گیا ہے اس پر کوئی دلیل صحیح موجود ہے۔) امام شاطبی کے قول سے یہی بات واضح ہے کہ فضائل میں فقط ان احادیث کا بیان کرنا صحیح ہے جس میں کسی ایسے عمل کی ترغیب ہو جو صحیح حدیث سے ثابت ہو مگر اس ضعیف حدیث میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے اس کو بیان نہ کیا جائے۔ کیونکہ ضعیف حدیث میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ اگر دلیل صحیح سے ثابت ہوگی تو اس کو قبول کیا جائے گا۔ اس کے بعد اگر ہم تیسری شرط پر غور کریں تو اس میں یہ موجود ہے کہ اس پر عمل سنت سمجھ کے نہ کیا جائے۔

Monday 28 March 2022

بیماری سے شفاء کاوظیفہ

بیماری کا علاج جیسے دوا سے ہوتاہے اسی طرح مسنون دعاؤں اور کلمات سے بھی اللہ تعالیٰ بیماریوں کو ٹالتے ہیں، آپ علاج کے لیے درج ذیل امور پر عمل کیجیے: 1- حسبِ استطاعت کثرت سے صدقہ کیجیے؛ کیوں کہ صدقہ کرنا بہترین علاج ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کیا کرو، صدقہ بیماری کو دور کرتا ہے؛ اس لیے حسبِ توفیق صدقہ ادا کرتے رہیں۔ جامع الأحاديث (11/ 277): ''تصدقوا وداووا مرضاكم بالصدقة؛ فإن الصدقة تدفع عن الأعراض والأمراض، وهي زيادة في أعمالكم وحسناتكم''. (البيهقي في شعب الإيمان عن ابن عمر) ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صدقہ دو اور اپنے مریضوں کا صدقے کے ذریعے علاج کرو ؛ اس لیے کہ صدقہ پریشانیوں اور بیماریوں کو دور کرتاہے اور وہ تمہارے اعمال اور نیکوں میں اضافے کا سبب ہے۔ 2- روزانہ صبح نہار منہ سات دانے مدینہ منورہ کی عجوہ کھجور کھائیں، ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کی بیماری بہت جلد ختم ہوجائے گی۔ حدیث شریف میں ہے: ''عن سعد قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من تصبّح بسبع تمرات عجوة لم يضره ذلك اليوم سم ولا سحر. متفق عليه. وعن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن في عجوة العالية شفاء، وإنها ترياق أول البكرة. رواه مسلم.'' ترجمہ:حضرت سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو شخص صبح کے وقت عجوہ (کھجور) کے سات دانے کھائے اس دن اسے نہ تو زہر نقصان پہنچائے گا نہ ہی جادو۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک عالیہ (مدینہ منورہ کی بالائی جانب) کی عجوہ (کھجور) میں شفا ہے، اور اسے نہار منہ کھانا "تریاق" (زہرکا علاج) ہے۔ (مسلم) 3- مسنون دعاؤں کی کوئی مستند کتاب (مثلاً: مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب کی کتاب "مسنون دعائیں") خرید لیجیے، اور اس سے صبح وشام حفاظت کی دعائیں اور بیماری وغیرہ کی دعائیں پڑھنے کا اہتمام کریں۔ 4- "یا سلام" کا کثرت سے ورد کریں، امید ہے اللہ پاک جلد صحت سے نوازیں گے۔ 5- درج ذیل اذکار صبح و شام سات سات مرتبہ پابندی سے یقین کے ساتھ پڑھ کر دونوں ہاتھوں میں تھتکار کر سر سے پیر تک اپنے پورے جسم پر پھیردیں ان شاء اللہ ہر قسم کےسحر، آسیب اور نظرِ بد کے اثراتِ بد سے حفاظت رہے گی: درود شریف، سورہ فاتحہ، آیۃ الکرسی، سورہ الم نشرح، سورہ کافرون، سورہ اخلاص، سورہ فلق، سورہ ناس اور درود شریف 6- درج ذیل دعا صبح و شام پڑھنے کا اہتمام کریں: " أَعُوْذُ بِوَجْهِ اللهِ الْعَظِيْمِ الَّذِيْ لَيْسَ شَيْءٌ أَعْظَمَ مِنْهُ، وَبِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ الَّتِيْ لَايُجَاوِزُهُنَّ بَـرٌّ وَّلَا فَاجِرٌ، وَبِأَسْمَآءِ اللهِ الْحُسْنىٰ كُلِّهَا مَا عَلِمْتُ مِنْهَا وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ۔ " اس کے علاوہ پنج وقتہ باجماعت نمازوں کا اہتمام کریں اور ہمیشہ باوضو رہنے کی کوشش کریں

ناخن کاٹنے کا مستحب طریقہ

صحیح یہی ہے کہ ناخن کاٹنے کا کوئی طریقہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ مستحب یہ ہے کہ پہلے دائیں ہاتھ کے ناخن کاٹے جائیں پھر بائیں ہاتھ کے۔اور دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کرنا چاہیے۔ جہاں تک بات ہے کہ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کرنے کی، تو علامہ نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ دائیں ہاتھ کے مکمل ناخن پہلے کاٹنے چاہییں، پھر بائیں ہاتھ کے مکمل ناخن۔ حافظ ابن حجر، ابن دقیق العید، علامہ سیوطی اور علامہ ابن عابدین رحمہم اللہ جیسے محققین نے یہی لکھا ہے کہ ناخن کاٹنے کا سنت طریقہ ثابت نہیں ہے، لہٰذا کسی طریقے سے بھی کاٹ سکتے ہیں، تاہم بہتر طریقہ وہ ہے جو اوپر لکھا گیا۔ قال الحصکفي: "وفي شرح الغزاویة: روي أنه صلی اللّٰة علیه وسلم بدأ بمسبحته الیمنی إلی الخنصر، ثم بخنصر الیسری إلی الإبهام، وختم بإبهام الیمنی. و ذکر له الغزالي في الإحیاء وجهاً وجیهاً ... قلتُ: وفي المواهب اللدنیة: قال الحافظ ابن حجر: إنه یستحب کیفما احتاج إلیه، ولم یثبت في کیفیته شيء، ولا في تعیین یوم له عن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم". قال ابن عابدین: "(قوله: قلتُ الخ) وکذا قال السیوطي، وقد أنکر الإمام ابن دقیق العید جمیع هذه الأبیات، وقال: لا تعتبر هیئة مخصوصة، وهذا لا أصل له في الشریعة، ولایجوز اعتقاد استحبابه؛ لأن الاستحباب حکم شرعي لا بد له من دلیل". (الدر المختار مع رد المحتار: ۶/۴۰۶، کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: دار الفکر، بیروت) "قال النووي: ویستحب أن یبدأ بالید الیمنی، ثم الیسری، ثم الرجل الیمنی، ثم الیسری. قال الغزالی في الإحیاء: یبدأ بمسبحة الیمنی، ثم الوسطی، ثم البنصر، ثم الخنصر، ثم خنصر الیسری إلی إبهام الیمنی، وذکر فیه حدیثاً وکلاماً لا أوثر ذکره، والمقصود أن الذي ذکره الغزالي لابأس به إلا في تاخیر إبهام الیمنی، فلا یقبل قوله فیه؛ بل یقدم الیمنی بکمالها، ثم یشرع في الیسری، وأما الحدیث الذي ذکره، فباطل لا أصل له". (المجموع شرح المهذب: ۱/۲۸۳، ط: دار الفکر، بیروت)

Friday 25 March 2022

تمباکوگٹکاوغیرہ بیچنا جائز ہے کہ نہیں

جو شے مضر صحت ہو یا خلاف قانون ہو اس کا بنانا اور بیچنا درست نہیں۔اگرمضر صحت نہ ہو تو بنانا اور بیچنا جائز ہے۔ تمباکو بیچنا جائز ہے۔گٹکا سخت مضرِ صحت اشیاء پر مشتمل ہونے کی وجہ حکومت نے اس پر پابندی لگائی ہوئی ہے، لہذا مضر صحت ہونے اور ملکی قوانین میں ممنوع ہونے کی وجہ سے اس کے استعمال سے احتراز کرنا چاہیے۔ فتاوی رشیدیہ (مبوب) میں ہے: "سوال : تمباکو خردنی اور نوشیدنی کی تجارت کیسی ہے؟ جواب : جائز ہے مگر اولی نہیں ہے۔(ص ۴۸۹)" مفتی اعظم ہندمفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: "افیون ،چرس ،بھنگ یہ تمام چیزیں پاک ہیں اوران کادوامیں خارجی استعمال جائزہے،نشہ کی غرض سے ان کواستعمال کرناناجائزہے۔مگران سب کی تجارت بوجہ فی الجملہ مباح الاستعمال ہونے کے مباح ہے،تجارت توشراب اورخنزیرکی حرام ہے کہ ان کااستعمال خارجی بھی ناجائزہے۔" (کفایت المفتی 9/129،ط:دارالاشاعت) مفتی محمودحسن گنگوہی رحمہ اللہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: "....افیون کی آمدنی سے جو زمین خریدکراس میں کاشت کرتے ہیں اس کاشت کی آمدنی کوحرام نہیں کہاجائے گا، ایسی آمدنی سے چندہ لینابھی درست ہے اوران کے یہاں کھاناپینابھی درست ہے"۔ (فتاویٰ محمودیہ،عنوان :افیون کی تجارت اوراس کی آمدنی کاحکم،16/123،دارالاشاعت)

Chechen, Tatar Muslim fighters in Ukraine against Russian Army

Head of the Chechen Republic Ramzan Kadyrov, known as one of the most loyal allies of President Vladimir Putin, announced on his Telegram channels that his men would be fighting in the "hottest hotspots in Ukraine." However, some military analysts have cast doubt on whether his braggadocio on social media has accurately reflected his troops' performance on the battlefield. Across the frontlines, another group of Chechens has also joined the war — but they intend to defend Ukraine against the Russian invasion. "Dear Ukrainians, please do not see those people as Chechens," said Adam Osmayev, an exiled Chechen leader, in a video published on social media, referring to Kadyrov's soldiers. "They are traitors … puppets of Russia." "Real Chechens are standing with you, bleeding with you, as they have in the past eight years," he said, holding a gun and standing next to three other armed men with masked faces. Osmayev leads the Dzhokhar Dudayev Battalion, named after the late Chechen rebel leader. The group is one of the two publicly known Chechen volunteer groups fighting against Russian-backed separatists and Russian forces in Ukraine since 2014. The other one is called the Sheikh Mansur Battalion and is headed by a commander called Muslim Cheberloevsky. The identity and the exact number of the Chechen volunteers are unknown. But most of them are believed to be people who left Chechnya either after the end of the war there in 2003 or who have escaped Kadyrov's despotic rule over the past years. In 2013, the Ukrainian government, then a Moscow ally, imprisoned Osmayev for plotting to assassinate Putin — an accusation he denies. When he was released a year later, he went to the Donbas region to fight the pro-Russian separatists. Both Russian and Western media have reported alleged links between the Sheikh Mansur Battalion and the "Islamic State." When Putin's army began marching toward Kyiv, leaders of both battalions, along with thousands of other foreign volunteer fighters, announced they would continue to defend Ukraine against "their common enemy." Their determination to assist Ukraine amid the ongoing Russian invasion stems from similarities they see between what Ukrainians are going through and their own fate. A long, violent history Chechnya, now a Russian republic, is home to a majority-Muslim population and has a complicated and often violent history with Moscow. After the collapse of the Soviet Union, Russia waged two devastating wars to keep Chechnya from becoming independent, a goal to which it had been aspiring since the collapse of the Soviet Union. The first conflict broke out in 1994 when Russia sent troops to the Chechen Republic to quash its attempt to break away. Fighting paused only two years later, in 1997, following the signing of a peace agreement in August 1996. But in 1999, the Russian army returned after a series of deadly terror attacks organized by Chechen warlords on the territory of Russia. A new war erupted, lasting 10 years and culminating in the siege of Grozny by the Russian troops, resulting in enormous destruction and tens of thousands of civilian casualties. The first two years of that war coincided with Putin's ascension to power. The active phase of the war was over in April 2000. Two months later, Putin appointed Akhmad Kadyrov as head of the Chechen Republic, who would rule until he was assassinated by Islamist rebels in 2004. His son Ramzan Kadyrov became Chechen leader in 2007 and has remained in office ever since. Under Kadyrov's rule, human rights have deteriorated as critics, activists and journalists face clampdowns. He is suspected of having been involved in the killings of several critics outside Chechnya, including Zelimkhan Khangoshvili, a former military commander gunned down in Berlin in 2019. "It is safe to say that a great majority of the Chechen diaspora left their homeland after Kadyrov came to power, not during the war," Marat Iliyasov, a researcher at Lithuania's Vytautas Magnus University, told DW. Bringing back Chechen memories For many exiled Chechens, Putin is treating Ukrainians the way he treated them. "Moscow's attempts today to impose its control over independent Ukraine resonates in the hearts and minds of many Chechens who remember their struggle for independence against the Russian colonizing machine," Albert Bininachvili, a professor of political science at Bologna University, told DW. Putin aspires to expand Russia's domination to the Soviet borders, he explained, but without the intention of bringing back the Soviet system, "which in effect leaves us with nothing but Russian colonialism." "Chechens consider the war in Ukraine as a continuation of the war in Chechnya," Iliyasov said. "So they want to contribute to eventual victory against this perceived evil — something not achieved on Chechen soil." "That's alongside another motivation, which is a kind of moral obligation to help people who are in such situations, and showing solidarity with them," he added. Cheberloevsky, the head of the Sheikh Mansur Battalion, also considers the latest fighting as part of a much longer conflict. He said in an interview with Radio Free Europe's Caucasus service, "We have been fighting in Ukraine since 2014 to beat our common enemy." Akhmed Zakayev, the head of the Chechen separatist government in exile, encouraged all Chechens living abroad to fight alongside the Ukrainian government in a video shared on social media. Discrediting Putin's propaganda Chechens are not the only Muslim group assisting Ukrainians. Said Ismagilov, one of Ukraine's top Islamic leaders, who is of Tatar origin, posted a picture of himself in a military uniform beside the members of the Territorial Defence Forces in Kyiv. In another video, he called on the Muslims in the world to stand in solidarity with Ukraine. The Crimean Tatars, a Muslim ethnic minority indigenous to Crimea, a Ukrainian peninsula annexed by Russia in 2014, have been resisting Russian occupation since 2015, with some of them fighting in the Ukrainian armed forces. In a video widely shared by Ukrainian media, Ayder Rustemov, the head of Crimea's Muslim community as recognized by Ukraine, urged Ukrainian Muslims to defend their country and called on Russian Muslims to denounce Russia's aggression. Kadyrov, who adheres to Sufism, a moderate sect of Islam with deep historical roots in Chechnya, tried to brand the battles in Ukraine as jihad, the Islamic term for holy war. "We have an order, we have jihad!" He wrote on his Telegram channel on March 4. Rights groups, including Human Rights Watch, have said Kadyrov’s paramilitary forces have a long record of terrorizing, torturing and killing political dissidents claiming they were Islamic rebels. Kadyrov’s latest claims have particularly come under criticism not just by Muslim activists and leaders but even by believers in the holy war, including jihadis in Syria and Iraq. "Russia has killed thousands of Muslims and is still killing them," wrote Maysara bin Ali, also known as Abu Maria al-Qahtani, a commander of Islamist group Heyaat al Tahrir Sham, on Telegram. "Strengthening Russia in Ukraine means strengthening criminals." Edited by: Tim Jones, Irina Schöll

کریمیائی تاتار

سورگون (معنی "جلا وطنی" بزبان کریمیائی تاتاری اور ترکی) 1944ء میں کریمیا کے تاتاریوں کی موجودہ ازبکستان کی جانب جبری ہجرت اور قتل عام کو کہا جاتا ہے۔ سوویت اتحاد میں جوزف استالین کے عہد میں 17 مئی، 1944ء کو تمام کریمیائی باشندوں کو اُس وقت کی ازبک سوویت اشتراکی جمہوریہ میں جبراً منتقل کر دیا گیا تھا۔ استالین عہد میں ملک کے خلاف مبینہ غداری کی سزا اجتماعی طور پر پوری قوموں کو دینے کی روش اپنائی گئی جس کا نشانہ کریمیا کے تاتاری باشندے بھی بنے جن پر الزام تھا کہ انہوں نے نازی جرمنوں کا ساتھ دے کر روس کے خلاف غداری کا ثبوت دیا ہے۔ اس جبری بے دخلی میں روس کے خفیہ ادارے این کے وی ڈی کے 32 ہزار اہلکاروں نے حصہ لیا اور ایک لاکھ 93 ہزار 865 کریمیائی تاتاری باشندوں کو ازبک و قازق اور دیگر علاقوں میں جبراً بے دخل کیا گیا۔[7][8][9] کریمیائی تاتاریوں کی جبری ملک بدری Deportation of the Crimean Tatars بسلسلہ سویت یونین میں جبری نقل مکانی اور دوسری جنگ عظیم Deportation of the Crimean Tatars montage.jpg بائیں سے دائیں، اوپر سے نیچے: یوپٹوریہ مین جبری ملک بدری کی یادگار; کیف میں یادگاری شمعیں; تاراس سوچنکو پارک میں یادگار ریلی; جلاوطنی میں استعمال کی جانے والی قسم کی طرح کیٹکلیئر; 1939ء اور 2001ء میں کریمیا کی آبادی کے موازنہ کے نقشے۔ مقام جزیرہ نما کریمیا تاریخ 18–20 مئی 1944 نشانہ کریمیائی تاتار حملے کی قسم جبری نقل مکانی، نسلی صفایا ہلاکتیں متعدد تخمینے ا) 34,000[1] ب) 40,000–44,000[2] ج) 42,000[3] د) 45,000[4] ہ) 109,956[5] (ان کی کل آبادی کا 18 اور 46 فیصد کے درمیان[6]) مرتکبین این کے وی ڈی، سوویت خفیہ پولیس کریمیائی تاتاریوں کی جبری ملک بدری کی یادگار اس جبری ہجرت کے دوران میں مئی سے نومبر کے مہینے میں 10 ہزار 105 تاتاری بھوک و موسم کی شدت سے جاں بحق ہوئے جو ازبک علاقوں کی جانب منتقل کیے گئے کل باشندوں کا 7 فیصد بنتا ہے۔ خفیہ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال کے اندر اندر تقریباً 30 ہزار تاتاری (کل مہاجرین کا 20 فیصد) اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ کریمیائی تاتاریوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ تعداد 46 فیصد تھی۔ استالین کے عہد میں سزا کے طور پر جبری مشقت کا نظام گولاگ قائم کیا گیا تھا اور سوویت دستاویز ثابت کرتی ہیں کہ کئی کریمیائی باشندوں کو اس نظام کے تحت جبری مشقت پر بھی لگایا گیا۔[10] جبری مشقت کے اسی نظام کے تحت کریمیا کے تاتاری اور کئی دیگر قوموں کے باشندوں کو سائبیریا بھی بھیجا گیا۔ کریمیا کے تاتاریوں کا مطالبہ ہے کہ سرگون کو منظم قتل عام (مرگ انبوہ) قرار دیا جائے۔[11] کریمیا کے تاتاریوں کے منظم قتل عام کے بعد کریمیا میں نسلی آبادی کریمیا کے تاتاریوں کی جبری وطن بدری کی کہانی صدیوں پر محیط ہے۔ 1944ء اسی جبری وطن بدری کا تسلسل ہے۔ یہ سلسلہ 1783ء سے شروع ہوا جب روس نے کریمیا پر قبضہ کیا۔ اس قتل عام اور جبری وطن بدری پر پردہ پوشی کی جاتی رہی مگر موجودہ دور میں روس کے ٹوٹنے کے بعد سوویت عہد کے خفیہ ادارے کے جی بی کی دستاویزات سامنے آنے سے اس ظلم سے کچھ پردہ ہٹا خصوصاً 1944ء اور اس کے بعد کے مظالم سامنے آئے۔ برائن گلن ولیمز کے مطابق روسی استعمار کے ظلم سے جو 1783ء میں شروع ہوا، تاتاری اپنے ہی وطن میں ناپید ہونے لگے۔ تاتاریوں نے دو قسم کی ہجرت کی۔ ایک ہجرت کریمیا سے ان علاقوں کی طرف تھی جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کاحصہ تھے۔ دوسری ہجرت پچھلی صدی میں روس کی باقی ریاستوں کی طرف ہوئی یہاں تک کہ تاتاری اپنے ہی وطن میں اقلیت بن گئے اور وہ کریمیا کی آبادی کا 13 فی صد رہ گئے۔ 1944ء اور اس کے بعد کریمیا کے لوگوں کی آبادی کو ریاستی اقدامات سے کم کیا گیا۔ اول تو تاتاریوں کو جبری طور پر روس کے دیگر علاقوں کو بھیجا گیا جن کی اکثریت کو جبری مشقت کے لیے سائیبیریا لے جایا گیا۔ دوم غیر کریمیائی لوگوں کو بھاری تعداد میں کریمیا میں بسایا گیا جس کے لیے کئی طریقے استعمال کیے گئے۔ کریمیا سے نکالے جانے والے لوگ مسلمان تھے اور بسائے جانے والے لوگ تمام کے تمام غیر مسلم تھے۔[12] کریمیا کی ابتدائی تاریخ Crystal Clear app kdict.png تفصیلی مضمون کے لیے کریمیا ملاحظہ کریں۔ “جزیرہ نما کریمیا” قرون وسطی (Middle Ages)سے مئی، 1944ء تک کریمیائی تاتاری باشندوں کا وطن رہا ہے۔ کریمیائی مسلمان کا تعلق ترک اقوام کے اُس گروہ سے تھا جو 13 ویں صدی میں باتو خان کے اردوئے زریں (انگریزی: Golden Horde) کا حصہ تھے اور پھر انہوں نے کریمیا کو اپنا وطن بنایا۔ کریمیائی تاتاری سنی مسلمان ہیں اور ترکی زبان کا ایک لہجہ “قپچاق ترک” بولتے ہیں۔ ریاست کا قیام Crystal Clear app kdict.png تفصیلی مضمون کے لیے خانان کریمیا ملاحظہ کریں۔ پندرہویں صدی کے وسط میں یہاں کے مسلمان ایک زبردست قوت کے طور پر ابھرے اور 1428ء میں انہوں نے ایک ریاست قائم کی جو ریاستِ خانانِ کریمیا کہلاتی تھی۔ اِسے انگریزی میں خانیت کریمیا کہتے ہیں۔ یہ ریاست 1478ء میں سلطنت عثمانیہ کے زیرِ نگیں آ گئی اور 1772ء میں روسی قبضے تک عثمانیوں کی زیرِ سیادت رہی۔ عثمانیوں کے زیر نگیں سلطنت عثمانیہ کی سیادت میں جانے کے باوجود کریمیائی تاتاریوں کی ریاست کی حیثیت باجگزار کی نہیں تھی، بلکہ بابِ عالی اور خانان کے درمیان میں بہت خوشگوار تعلقات قائم ہوئے، منتخب سلطان کو قسطنطنیہ سے منظوری تو لینا پڑتی تھی تاہم وہ عثمانیوں کا مقرر کردہ نہیں ہوتا تھا۔ خانان کو اپنا سکہ چلانے اور جمعہ کے خطبے میں اپنا نام شامل کرنے کی بھی مکمل اجازت تھی، جو ان کی خود مختاری کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ عثمانی عہد خانانِ کریمیا کا زرّیں دور تھا خصوصاً عسکری طور پر کوئی قوت ان کا سامنا نہیں کر سکتی تھی۔ کریمیائی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پانچ لاکھ فوجیوں کا لشکر بھی میدان میں اتارنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ ریاست بلاشبہ اٹھارویں صدی تک مشرقی یورپ کی بڑی قوتوں میں سے ایک تھی۔ کریمیائی تاریخ کا کریہہ باب کیونکہ اسلامی تعلیمات اِن تاتاری مسلمانوں کی زندگیوں میں اچھی طرح راسخ نہ تھیں اس لیے انہوں نے اپنی اِس قوت کا ناجائز حد تک فائدہ اٹھایا۔ وہ محض غلاموں کے حصول کے لیے روس اور پولینڈ کے علاقوں پر حملہ کرنے میں بھی تامل نہ کرتے، پھر ان غلاموں کو فروخت کر کے دولت سمیٹتے۔ یہ تاتاری مسلمانوں کی تاریخ کا ایک کریہہ باب ہے اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے تاثر کے باعث ہی اشتراکی عہد میں جب ان پر مظالم ڈھائے گئے تو ان کے حق میں کوئی آواز نہ ابھری۔ تجارت کے علاوہ غلاموں کی واپسی کے لیے روس اور پولینڈ کی ریاستوں سے تاوان بھی وصول کیا جاتا تھا۔ یعنی انہوں نے غلاموں کی تجارت اور تاوان کی وصولی کو باقاعدہ معیشت بنایا ہوا تھا۔ کریمیائی تاتاریوں کی خدمات اس امر کے باوجود کریمیائی تاتاریوں کی اسلامی علاقوں کے لیے سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے عرصۂ دراز تک مسلم علاقوں کی جانب روس اور پولینڈ کی پیش قدمی کو روکے رکھا اور شمالی جانب سے اسلامی سرحدوں کی بھرپور حفاظت کی۔ ان کی بھرپور قوت سے علاقے میں طاقت کا توازن برقرار رہا اور جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو طاقت کا یہی توازن بگڑا اور روس بپھرے ہوئے ریچھ کی طرح دولتِ اسلامیہ پر ٹوٹ پڑا۔ اس ریاست کا ایک اور کارنامہ یہ تھا کہ اس نے محل وقوع کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کے حامل بحیرہ اسود میں طویل عرصے تک روسی اثر و رسوخ نہ بڑھنے دیا اور روس اور بحیرہ اسود کے درمیان میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن گئی۔ تجارت کو پھیلانے کے مواقع اور عسکری توسیع کی اسی خواہش نے روس کو کریمیا پر قبضہ کے لیے پرکشش بنادیا تھا۔ اسی لیے سترہویں صدی کے اواخر میں روس نے یہاں دو مرتبہ قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا البتہ اٹھارویں صدی کے بالکل اوائل میں کچھ عرصہ کے لیے انہوں نے ایک اہم بندرگاہ پر قبضہ بھی کر لیا لیکن وہ زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکا۔ روسی قبضہ Crystal Clear app kdict.png تفصیلی مضمون کے لیے سقوط ترکستان ملاحظہ کریں۔ دوسری جانب سلطنت عثمانیہ کے تیز تر زوال کے باعث روسی سلطنت کو یہ سنہری موقع ملا کہ وہ تجارتی و عسکری توسیع کے لیے موقع سے فائدہ اٹھائے اور خانان کریمیا کی ریاست کو کچل دے۔ ترکی اور روس کے درمیان میں ہونے والی جنگوں کے سلسلے ترک-روس جنگوں کے دوران میں ایک معاہدہ (معاہدۂ کوچک کناری) طے پایا جس کے تحت کریمیا کی ریاست عثمانی اثر سے باہر نکل گئی البتہ اس پر روسی سیادت قائم نہیں ہوئی لیکن چند ہی سالوں بعد ملکہ کیتھرین اعظم نے سلطنت عثمانیہ سے کيے گئے معاہدے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فوجی لشکر کشی کے ذریعے 1783ء میں کریمیا کو روس میں شامل کر لیا۔ مسلمان اقلیت میں اس فتح کے بعد کریمیا میں کچھ اس طرح کی صورت حال پیدا ہو گئی کہ محصولات میں زبردست اضافے، مذہب کی جبری تبدیلی اور غیر مقامی باشندوں کی آبادکاری کے باعث مسلمانوں کا رہنا وہاں دوبھر ہو گیا اور پھر اُن کی اکثریت سلطنت عثمانیہ کے مختلف علاقوں کی جانب ہجرت کر گئی۔ اِس نقل مکانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ زار کے عہد میں ہی میں کریمیا میں مسلمان اقلیت میں بدل گئے۔ سقوط کریمیا Crystal Clear app kdict.png تفصیلی مضمون کے لیے سقوط کریمیا ملاحظہ کریں۔ کریمیا پر روسی قبضے کے بعد آبادی کا تناسب انتہائی تیزی سے بدلنا شروع ہو گیا۔ پہلے زمینوں پر جبری قبضے اور روسی آبادی کی آبادکاری کو کامیاب بنانے کے لیے مسلمانوں کی زمینوں پر جبری قبضہ کیا گیا اور مزاحمت کرنے والے 30 ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ اس صورت حال میں وہاں آباد تاتاری باشندے ہجرت پر مجبور ہو گئے اور روسی قبضے کے محض 6 سالوں میں تین لاکھ تاتاریوں کو عثمانی سلطنت کے علاقوں کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ آپ مزید لکھتے ہیں کہ 1860ء میں حالات ایک مرتبہ پھر خراب ہونے کے بعد ڈیڑھ لاکھ مزید تاتاری مسلم علاقوں کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اندازے کے مطابق روسی قبضے کے بعد کریمیا اور ملحقہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے تاتاری مسلمانوں کی تعداد 20 لاکھ تک ہے۔ ان ہجرتوں کے نتیجے میں کریمیا اور ملحقہ تمام علاقہ جہاں 18 ویں صدی تک مسلمانوں کی اکثریت تھی، زار کے عہد میں بھی وہاں مسلمان اقلیت میں آ گئے۔ باقی جو آبادی رہ گئی جنگ عظیم دوم کے بعد جوزف استالن کے دور میں مکمل طور پر کریمیا سے بے دخل کر دی گئی۔ کریمیا اور اس سے ملحقہ علاقوں سے جس بڑے پیمانے پر مسلم آبادی کا انخلا ہوا، وہ کسی طرح سقوط غرناطہ سے کم نہیں تھا، ہاں البتہ دونوں سانحات میں فرق یہ ہے کہ کریمیا کے تاتاری مسلمانوں کے بارے میں ہم بہت کم واقف ہیں۔[13] زار کے عہد میں 1771ء میں روس نے جزیرہ نما کریمیا میں در اندازی کی اور عثمانیوں سے ایک معاہدے کے تحت 1772ء سے 1783ء کے دوران یہ علاقہ اس کے زیر تحفظ رہا۔ 1783 میں ملکہ کیتھرین ثانی نے عثمانیوں سے کیے گئے تمام تر معاہدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کریمیا کو براہ راست روسی قلمرو میں شامل کر لیا تھا۔ کریمیا اور ملحقہ علاقوں پر روسی قبضے کے بعد وہاں اس طرح کے حالات پیدا کیے گئے تاکہ مسلمان از خود علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔ اس کی وجوہات داخلی سے زیادہ خارجی تھیں۔ کیونکہ بحیرہ اسود میں بحری قوت کو مضبوط بنانا اور خصوصاً قسطنطنیہ پر قبضے کے ذریعے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو تقویت دینا روس کا پرانا خواب تھا اس لیے اپنی ‘منزل’ کو پانے کے لیے پہلی رکاوٹ یعنی کریمیا کو ہٹانا ضروری تھا اور یہ حکمت عملی صرف زار کے عہد میں ہی اختیار نہیں کی گئی بلکہ جب جنگ عظیم دوم میں فتح کے بعد توسیع پسندانہ عزائم کو مزید تحریک ملی تو اس خواب کی تعبیر کی ایک مرتبہ پھر کوشش کی گئی اور درحقیقت کریمیائی مسلمانوں کو جبری ہجرت پر مجبور کرنا اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام زراعت پر محصولات میں زبردست اضافے کے ذریعے کیا گیا جس کے بعد مذہب کی جبری تبدیلی کے ذریعے مسلمانوں کو زیر کرنے کی کوشش کی گئی جب دونوں حربے ناکام رہے تو آخری حربے کے طور پر غیر مقامی باشندوں یعنی سلافی نسل کے مسیحیوں کو آباد کرنا شروع کر دیا گیا اور اس پر طرّہ یہ کہ مقامی زمینیں ان نو آباد کاروں کو دے دی گئیں۔ اس سہ طرفہ زیادتی کے نتیجے میں مسلمانوں کی بڑی اکثریت اپنے ہم مذہب اور ہم نسل عثمانی علاقوں کی طرف ہجرت کر گئی جو معاشی طور پر بھی ان کے لیے فائدہ مند تو تھی لیکن اس جبری ہجرت کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ہی عرصے میں کریمیا مسلم اقلیتی علاقہ بن گیا اور محض 6 سال کے عرصے میں تین لاکھ مسلمانوں کو عثمانی علاقوں کی جانب ہجرت کرنا پڑی۔[14] انقلاب روس اور ابتدائی خوشگوار دور Crystal Clear app kdict.png تفصیلی مضمون کے لیے انقلاب روس ملاحظہ کریں۔ اس کے باوجود جو مسلمان وہاں رہ گئے وہ ملوکیت کے جبر تلے گھٹ گھٹ کر جیتے رہے حتیٰ کہ روس میں انقلاب کی صدائیں نمودار ہونے لگیں۔ کریمیا کے مسلمانوں کے لیے مساوات اور مزدور دوستی کے نعرے بہت خوشگوار تھے اس لیے انہوں نے انقلابیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد از انقلاب مسلمانوں کو اقلیت میں ہونے کے باوجود کریمیا میں خوب مراعات ملیں حتیٰ کہ موروثیانے کے عہد (Nativization) میں انہیں جزیرہ نما کریمیا کے اصل باشندے تک قرار دے دیا گیا۔[15] مسلم بالشیوک کشیدگی کا آغاز لیکن 1930ء کی دہائی میں زراعت کو قومیانے کے عمل نے تاتاریوں کو اشتراکی حکومت سے برگشتہ کر دیا اورحکومت سے ان کے تعلقات کشیدہ ہونا شروع ہو گئے۔ یہ مسلمانوں پر معاشی صورت میں پہلی ضرب تھی کیونکہ مسلمانوں کا تمام تر انحصار زراعت پر تھا اور اسے قومیانے کا عمل معاشی طور پر تاتاریوں کے قتل عام کے مترادف تھا اس لیے اس کی زبردست مخالفت کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشیدگی کے باعث علاقے میں زراعت تباہ ہو کر رہ گئی اور 1932ء میں علاقے میں زبردست قحط آیا، جسے یوکرین کا عظیم قحط کہا جاتا ہے، جس نے حکومت اور تاتاریوں کے درمیان میں رہی سہی امیدوں کا بھی خاتمہ کر دیا۔ استالن حکومت کا اگلا ہدف تاتاری ثقافت تھی جو 1935ء میں زیر قبضہ علاقوں کو روسیانے کی پالیسی کا نشانہ بنی۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ان کے ثقافتی مراکز کو بند کیا گیا اور 1935ء سے 1938ء کے دوران میں کریمیائی تاتاری زبان کے 23 میں سے 14 جرائد و رسائل کو بندش کا سامنا کرنا پڑا[16]۔ 1937ء اور 1938ء کے دوران میں کئی دانشوروں کو قتل کیا گیا[16]۔ قتل ہونے والے مسلمان دانشوروں میں ولی ابراہیموف اور بکر چوبان زادہ بھی شامل تھے۔ دوسری جنگ عظیم دوسری جنگ عظیم سے کریمیا کے تاتاریوں کی تاریخ کا ایک اہم باب شروع ہوتا ہے کیونکہ اس کے دوران میں روسی اور جرمن دونوں جانب سے تاتاریوں نے جنگ میں حصہ لیا۔ نازی جرمنی نے 1942ء میں کریمیا پر قبضہ کیا لیکن روس کی خفیہ فوج اور اس کے جنگجوؤں کی گوریلا کارروائیاں 1944ء تک جاری رہیں جس کا مقابلہ کرنے کے لیے جرمنی نے مقامی آبادیوں کے تحفظ کے لیے کریمیائی تاتاری جنگی قیدیوں پر مشتمل ایک مزاحمتی گروپ تشکیل دیا اور یہی وہ جرم تھا جس کی بنیاد پر کریمیا کے تاتاریوں کو تاریخ کے بدترین مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگی قیدیوں نے محض اس بنیاد پر مزاحمتی گروپ میں شمولیت پر رضامندی کا اظہار کیا کہ انہیں کیمپوں کی زندگی سے چھٹکارا ملا اور بہتر غذائی سہولیات بھی میسر آئیں۔[15][17][18] کریمیائی تاتاریوں کے حوالے سے لکھی گئی ایلن فشر کی مشہور کتاب (“The Crimean Tatars”) کے مطابق بحیثیت مجموعی ان گوریلوں کی تعداد تقریباً 20 ہزار تھی[16]۔ جبکہ ان کی مدمقابل روسی افواج میں شامل کریمیائی باشندوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ روسی افواج میں کریمیائی تاتاریوں کی تعداد کا ذرا سا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جنگ کے بعد تاتاری نسل کے 8 فوجیوں کو "قہرمانِ سوویت اتحاد" (انگریزی: Hero of the Soviet Union) جیسا اعلیٰ اعزاز بھی عطا کیا گیا۔ اشتراکی روس کے لیے اپنے ہی ملک کی آبادی کا دشمن کے ساتھ مل جانا بہت بڑا صدمہ تھا اس لیے بحیثیت مجموعی پوری کریمیائی تاتاری قوم کو اس کی کڑی سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا اوراس سے کسی کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔ اس سلسلے میں پہلا قدم 1942ء میں اٹھایا گیا جب جرمن، رومانیوں اور یونانیوں کے علاوہ کریمیائی تاتاریوں کے بھی روس میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی اور ان کی تمام آبادیوں کو خالی کرا دینے کے احکامات صادر کیے گئے۔ ویسے تو روس کے کئی علاقوں سے مسلمانوں کو جبری ہجرت کرائی گئی لیکن ان میں سے بیشتر دیہی علاقوں کے رہنے والے تھے لیکن کریمیا کے تاتاری ایک جیتی جاگتی ثقافت رکھتے تھے اور ان کی آبادی کی بڑی تعداد شہری علاقوں میں رہتی تھی [19] اور جدیدیت کی جو تحریک زار روس کے آخری ایام میں روس میں اٹھی تھی اس کی جنم بھومی بھی کریمیا اور قازان تھے۔ اسماعیل گسپرالی جیسے عظیم رہنما بھی کریمیائی تاتاری تھے جو اپنے کارناموں کے باعث بلاشبہ “روس کے سرسید” کہلانے کے قابل ہیں۔ دور ابتلا 11 مئی، 1944ء کو جب روس کی “سرخ افواج” نے جزیرہ نما کریمیا میں آخری جرمن مقبوضہ علاقوں کو دوبارہ حاصل کیا تو اسی روز جوزف استالن کے دستخط کے ساتھ ایک پروانہ (GKO resolution N5859ss)جاری کیا گیا جس میں کریمیائی تاتاریوں کی مکمل آبادی کی جبری طور پر ازبکستان بے دخل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس اہم کام کا بیڑا خفیہ پولیس داخلہ امور کی عوامی کمیساریت کے بدنام زمانہ سربراہ لیورنتی بیریا اور عوامی رسد رساں برائے ذرائع نقل و حمل (NKPS) کے جلاد صفت سربراہ لازار کاگانووِچ کو سونپے گئے۔ حکم نامے کے تحت کریمیائی تاتار باشندوں کے گھر، فرنیچر، پالتو جانور اور زرعی زمین و پیداوار روسی حکومت کی ملکیت قرار دی گئی اور ہجرت کرنے والے ہر خاندان کو زیادہ سے زیادہ 500 کلو سامان اٹھانے کی اجازت دی گئی۔ حالانکہ قرارداد کے تحت انہیں گھر کے بدلے میں زر تلافی ادا کیا جانا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک باشندے کو معمولی ادائیگی بھی نہیں کی گئی۔ حتیٰ کہ 1956ء میں روسی حکومت نے واضح و باقاعدہ اعلان کر دیا کہ وہ جبری ہجرت کے دوران میں جائداد سے محروم ہو جانے والے کسی بھی کریمیائی باشندے کو کوئی زر تلافی ادا نہیں کرے گی لیکن جائداد کا کھو جانا ان مسلمانوں کے لیے اتنا بڑا المیہ نہیں تھا جتنا ان کی قومی شناخت اور آبائی زمین چھین لینا تھا۔ 20 ہزار کریمیائی گوریلوں کی بڑی تعداد نے تو شکست کے بعد جرمنی میں پناہ حاصل کر لی لیکن مسلمانوں کی بڑی تعداد اب بھی جزیرہ نما میں موجود تھی اور جب قرارداد کی صورت میں ہجرت کا پروانہ جاری ہوا تو بیشتر مسلم آبادی عورتوں اور بچوں پر مشتمل تھی۔[20] اشتراکیوں نے بلا تخصیص تمام مسلمانوں کو ایسی ٹرینوں میں ٹھونس دیا جن میں شاید جانوروں کو بھی سفر نہ کرایا جاتا ہو۔ جبری ہجرت کا نشانہ بننے والوں میں بچوں، عورتوں اور بزرگوں کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی کے اراکین اور سابق فوجی بھی شامل تھے، جن کا واحد ‘قصور’ یہ تھا کہ وہ ‘باغی’ مسلمان تھے۔[15] جبری ہجرت جبری بے دخلی کا یہ آپریشن روس کے NKVD کے دستوں نے کیا جنھوں نے بغیر کو پیشگی نوٹس دیے قصبوں اور دیہات کو خالی کرانا شروع کر دیا اور کریمیا میں تاتاری باشندوں کو صرف پندرہ منٹ میں اپنے گھر خالی کرنے کے احکام دیے گئے۔[21][22][23] ہر مرد بچے اور عورت کو جانوروں کے ڈھونے والی گاڑیوں میں لاد دیا گیا اور ٹرینوں کے ذریعے ازبکستان جا کر چھوڑ دیا گیا۔ دوران میں سفر غذا اور پانی کی کمی اور صفائی ستھرائی کے انتظامات نہ ہونے کے باعث 45 فیصد افراد رستے میں ہی لقمہ اجل بن گئے۔ نئے مقامات پر پہنچنے کے بعد انہیں خالی و بنجر میدانوں میں لے جا کر چھوڑ دیا گیا جہاں کسی قسم کی رہائش گاہیں نہیں تھیں یوں وہ مکمل طور پر مقامی حکومتی عہدیداروں کے رحم و کرم پر تھے اور خیراتی اداروں کے محتاج ہو گئے۔[24] وسط ایشیا کی جانب بے دخل کیے گئے ان مہاجرین کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ اس ‘دہشت گردی’ کا ایک واضح پہلو “کھلی نسل پرستی” تھا۔ زیر عتاب قومیت سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کو بلا تخصیص رویہ، ماضی و طبقہ اس “جرم” کی سزا دی گئی حتیٰ کہ کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹریوں کے ساتھ ساتھ فنکاروں، مزارعوں اور کارکنوں کو بھی جبراً علاقے سے بے دخل کر کے عقوبت گاہ نما کیمپوں میں مقید کر دیا گیا۔[25] روسی دستاویزات کے مطابق مارچ 1949ء میں کی گئی مردم شماری میں 9 ہزار ایسے کریمیائی تاتاری نکلے جو سرخ فوج میں خدمات انجام دے چکے تھے جن میں 534 افسران، 1392 سارجنٹ اور 7079 عام فوجی تھے۔ 742 کمیونسٹ پارٹی اراکین بھی ہجرت پر مجبور کیے گئے۔[26] صرف یہی بات کریمیائی مسلمانوں پر تاریخ کا عظیم ترین ظلم کرنے کے لیے کافی گردانی گئی کہ ان کے ایک چھوٹے سے گروہ نے بیرونی جارحیت کا ساتھ دیا اور استالن اور این کے وی ڈی کے سربراہ لیورینتی بیریا کے ہاتھوں یہ سزا پوری قوم کا مقدر ٹھیری۔[27] روس بھر میں مسلمانوں کا قتل عام ملک بھر میں “مادر وطن سے غداری” کے الزام میں جن افراد کو موت کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے اہم 20 لاکھ روسی مسلمانوں کا قتل عام ہے جن میں چیچن، انگش، کریمیائی تاتاری، تاجک، باشکر اور قازق شامل ہیں۔ آج چیچنیا میں آزادی کی جنگ لڑنے والے جانباز سوویت عقوبت گاہوں سے بچنے والے افراد ہی کی اولاد ہیں۔ استالن کے دور میں اپنے ہی عوام پر مسلط کی گئی اس جنگ میں خفیہ پولیس کے اسکواڈ کو جماعت مخالف عناصر کے خاتمے کا حکم دیا گیا اور اسٹالن کے مقرر کردہ جلاد لازار کاگانووِچ نے فی ہفتہ 10 ہزار افراد کے قتل کا ہدف مقرر کر رکھا تھا۔ اس عظیم قتل عام میں یوکرین سے تعلق رکھنے والے اسی فیصد دانشوروں کو قتل کیا گیا۔ 1932ء اور 1933ء کی سخت سردیوں میں یوکرین میں ہر روز 25 ہزار افراد روسی افواج کی گولیوں یا بھوک و سردی سے موت کا نشانہ کنتے۔ مورخ رابرٹ کوئسٹ کے مطابق یوکرین ایک بڑے مذبح خانے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ معروف صحافی ایرک مارگولس 1998ء میں یوکرین کی انہی اقوام گم گشتہ پر قلم اٹھایا۔ (“The Forgotten Genocide”) میں وہ کہتے ہیں کہ روس بھر میں 70 لاکھ افراد کے اس عظیم قتل عام اور 20 لاکھ افراد کی جلاوطنی کو سوویت پروپیگنڈے کے پردوں میں چھپایا گیا۔ ان میں 30 لاکھ مسلمان بھی شامل تھے جن میں 15 لاکھ کریمیائی اور قازق تھے۔ اس عظیم قتل عام پر بھی ان لوگوں کی یاد میں کوئی “ہولوکاسٹ یادگار” قائم نہیں کی گئی۔ مارگولس کمیونسٹ نواز مغربی دانشوروں کا بھی رونا روتے ہیں کہ انہوں نے روسیوں کے ہاتھوں اس قتل عام کا اقرار نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو فاشسٹ ایجنٹ کہا۔ امریکی، برطانوی اور کینیڈا کی حکومتوں نے علم ہونے کے باوجود اپنی آنکھیں بند رکھیں حتی کہ امدادی گروپوں کو بھی یوکرین جانے سے روکا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا اور امریکی صدر روزویلٹ اور برطانوی وزیر اعظم چرچل نے استالن سے قربتیں بڑھائیں، اس امر کا علم ہونے کے باوجود کہ اس کے ہاتھ کم از کم 30 لاکھ افراد کے خون سے رنگے ہیں اور یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ہٹلر نے یہودیوں کے قتل عام کا آغاز بھی نہ کیا تھا۔ تو پھر حیرت ہوتی ہے کہ یہودیوں کے قتل عام کا اتنا واویلا کیوں کیا گیا اور جرمنوں کو مورد الزام ٹھیرا کر اس کا خراج مسلمانوں سے کیوں وصول کیا گیا؟ اسٹالن نے ہٹلر سے تین گنا زیادہ افراد کا قتل کیا اور برطانیہ اور امریکا کا روس کے ساتھ اتحاد کرنا دراصل اس قتل عام میں شرکت کے مترادف تھا۔ ذرائع ابلاغ کا پروپیگنڈہ حیرت کی بات یہ ہے کہ سوویت مظالم پر پردہ ڈالنے کی اتنی بھونڈی کوششیں کی گئیں کہ ژاں پال سارتر اس امر تک سے منکر ہو گئے کہ گولاگ (بطور سزا جبری مشقت کا سوویت طریقہ، انگریزی: Gulag) کا وجود بھی ہے اور وہ اسے ذرائع ابلاغ کا پروپیگنڈہ قرار دیتے رہے۔ اتحادیوں کے لیے صرف نازی ازم ہی سب سے بڑا شیطان تھا اور اس کے لیے انہوں نے یہودیوں کے قتل عام “ہولوکاسٹ” کی ترویج کا سہارا لیا اور اس کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا کہ روسیوں کے ہاتھوں کیے گئے قتل عام کہیں چھپ گئے۔ یہودی اپنے عظیم قتل عام کو تاریخ کا منفرد ترین واقعہ سمجھتے ہیں حالانکہ ان سے چند سال قبل روسی علاقوں کے مسلمان کا ان سے کہیں زیادہ منظم قتل عام کیا گیا۔[28] ادبی و ابلاغی سطح پر حتی کہ فلموں میں بھی یہودیوں کے قتل عام کو نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔ یوکرین میں قتل عام کی تصاویر بھی بہت کم موجود ہیں اور اس سے بچنے والے افراد بھی۔ روس نے اپنے کسی جلاد صفت قاتل پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جیسا کہ جرمنی نے کیا۔ اسی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اب لوگوں کی بڑی تعداد نازی قاتلوں ایڈولف ایش مان اور ہنرخ ہیملر اور بابی یار کے بارے میں تو جانتی ہے لیکن اشتراکی جلادوں زیرزنسکی، کاگانووچ، یاگودا، یے زوف اور بیریا کے بارے میں کون جانتا ہے؟ آشوٹز اور دیگر قتل گاہوں کا علم رکھنے والے کتنے لوگ مگادان، کولیما اور وورکوتا کی عقوبت گاہوں کے بارے میں جانتے ہیں؟ نازی شیطانیت کے بارے میں ایک کے بعد ایک فلم جاری کی جاتی ہے لیکن روسی مظالم پر کتنی فلمیں بنائی گئیں؟ مرے وطن تیری جنت میں۔۔۔۔! نکیتا خروشچیف کو اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں اسٹالن کے بد ترین جرائم سے نمٹنا تھا جو عدم استالیانے (Destalinization) کا عہد کہلاتا ہے۔ جبراً بے دخل کی جانے والی اقوام کی آبائی علاقوں کی جانب واپسی کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جا رہا تھا اور حکومت کے لیے یہ ایک بڑا درد سر تھا کیونکہ ان افراد کی آبائی علاقوں کی جانب واپسی نسلی بنیادوں پر نئے تنازعات اور فسادات کا باعث بن سکتی تھی۔ جبراُ بے دخل کیے گئے افراد کی ملکیت اور رہائش گاہیں اب دوسرے لوگوں کے زیر تصرف تھیں۔ 1957ء میں جب چیچن، انگش، کراچئی اور بلکار قوموں کے باشندوں کو قفقاز واپسی کی اجازت دی گئی تو انہیں نوآبادکار روسی باشندوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور 1958ء میں گروزنی نسلی فسادات کا نشانہ بنا۔ انہی اقوامِ گم گشتہ میں سے کریمیا کے تاتاری باشندے بھی شامل تھے جن کی خود مختار ریاست کا خاتمہ کر کے ان کی رہائش گاہیں اور ملکیتیں تک روسی اور یوکرینی باشندوں تقسیم کر دی گئیں۔ 1950ء کے اواخر میں بیشتر اقوام کو نام نہاد جرائم سے بری قرار دیتے ہوئے انہیں اپنے آبائی علاقوں میں رہنے کی اجازت دی گئی لیکن کریمیا کے مسلمانوں کو اس امر کی اجازت نہ دی گئی کہ وہ اپنی آبائی سرزمین پر جا کر رہائش اختیار کریں۔ حتیٰ کہ روس کا خاتمہ قریب آن پہنچا۔ جب 1989ء کے اواخر میں کریمیائی مسلمانوں کے چند ابتدائی خاندان واپس جزیرہ نما پہنچے۔[24] ان افراد میں معروف کریمیائی رہنما مصطفٰی عبد الجمیل قرم اوغلو (مصطفٰی جمیلوف) بھی شامل تھے۔ آج جزیرہ نما پر بسنے والے کریمیائی تاتاری باشندوں کی تعداد تقریباً 250،000 ہے۔[29] یہ تاتاریوں کی اس پرامن جدوجہد کا نتیجہ ہے جو انہوں نے دہائیوں تک جاری رکھی۔ اس دوران میں انہوں نے کریمیائی تاتاریوں کی آبائی سرزمین پر واپسی کے لیے ایک دستخطی مہم بھی چلائی جس میں 30 لاکھ افراد نے دستخط کیے۔[30] تحقیقات کا آغاز کریمین تاتاروں کی ملک بدری کی برسی کی علامت اب یوکرین کی حکومت نے سوویت جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی یونٹ تشکیل دیا ہے جو قومی سلامتی کے ادارے کے ماتحت ہوگا۔ گو کہ تحقیقات کے نتیجے میں کسی کو سزا ملنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اس انسانی جرم کے مرتکب افراد میں سے کوئی بھی زندہ نہیں لیکن پھر بھی مصطفٰی عبد الجمیل کے مطابق اس جرم کی مکمل تصویر عوام کے سامنے لانے کے لیے تحقیقات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ کریمیا کے تاتاری ہر سال 19 مئی کو اِس جبری ہجرت کی یاد میں دن مناتے ہیں۔ اس موقع پر دنیا بھر میں مقیم کریمیائی تاتاریوں کی پرامن ریلیاں منعقد ہوتی ہیں۔ کریمیائی تاتاریوں کا اس قتل عام کو مرگ انبوہ قرار دینے کے علاوہ یہ بھی مطالبہ ہے کہ روس اس قتل عام و جبری ہجرت پر معافی مانگے۔[31]

Thursday 24 March 2022

یوکرین کے مسلمان

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ نے طول پکڑ لیا ہے۔ روس کا یوکرین پر مکمل قبضہ کا ارادہ واضح ہوگیا ہے ۔ایک جانب جہاں یوکرین کی سلامتی کا سوال ہے تو دوسری جانب اس سرزمین پر پر سکون زندگی گزار رہے تقریباً 400,000 مسلمانوں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے، جن میں اکثریت کریمیائی تاتاریوں کی ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ تاتار مسلمان صرف دارالحکومت کیف میں ہیں۔جہاں مسجد کریمہ اس وقت ان کا مرکز بنی ہے جو کیف میں جنگ کی تصاویر کے پس منظر میں نظر آرہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ روس کے یوکرین کے قبضہ کے بعد کیا ہوگا؟ اب سوال یہ ہے کہ اگر روس نے یوکرین پر مکمل قبضہ کرلیا تو کیا تاتاری مسلمانوں کا مستقبل بھی تارتار ہوجائے گا؟ کیا روس کی بالا دستی ایک بار پھر تاتاری مسلمانوں کی پستی کا سبب بنے گی؟ تاتاری مسلمانوں نے روس کے ہاتھوں ایک طویل مدت تک مظالم جھیلے تھےلیکن یوکرین کے وجود میں آنے کے بعد تاتاری مسلمانوں کی زندگی پرسکون ہوگئی تھی۔ بات صرف کیف کی نہیں تاتار مسلمان خیرسن جیسے شہروں میں بھی آباد ہیں۔ کریمیائی تاتار کے علاوہ یوکرین کے دیگر نسلی مسلم گروہ وولگا تاتار، آذری، شمالی کاکیشین، اور ازبک ہیں۔ روسی حملے کے بعد یوکرین کے مسلمانوں کا مستقبل توازن میں ہے اور اس کا زیادہ تر انحصار بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے عالمی رہنماؤں کی جانب سے جاری سفارتی کوششوں پر ہے۔اہم بات یہ ہے کہ مسلم ممالک کی اکثریت نے اس جنگ پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ تاتار مسلمان اس جنگ کے سبب زبردست غیر یقینی کا شکار ہیں ،اہم بات یہ ہے کہ ان کے لیے ابتک کسی نے کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا ہے۔ حالانکہ روس کے ساتھ ماضی کے تجربات اس بات کا خدشہ پیدا کررہے ہیں آنے والے دنوں میں تاتار مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔حالانکہ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ روس اب تاتار مسلمانوں کو کسی مشکل یا سختی کا شکار کرنے سے گریز کرے گا کیونکہ عالم اسلام ایک بڑا حصہ روس کے ساتھ ہے۔ کیا ہے روس اور تاتار مسلمانوں کا رشتہ ،تناو اور سیاست ۔آئیح اس پر ڈالتے ہیں ایک نظر۔ کریمیا کی یادیں یاد رہے کہ مارچ 2014 میں روس نے ایک متنازعہ اور بین الاقوامی طور پر مسترد شدہ ریفرنڈم کے بعد کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا۔ قابض افواج نے فوری طور پر کریمیا کے مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ جنگ نے جزیرہ نما کریمیا سے تقریباً 750,000 مسلمانوں کو بے گھر کر دیا اور وہ دارالحکومت کیف اور جنوبی یوکرین کے شہر خیرسن میں منتقل ہو گئے تھے۔ دراصل تین لاکھ تاتاری مسلمانوں نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا اور روس کے خلاف احتجاج میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ روسی فوجیوں نے تاتاریوں اور دیگر مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا اور بہت سے مظاہرین غائب ہونے لگےتھے۔ اب یوکرین پر روسی حملے کے بعد مسلمانوں کے ذہنوں پر ایک بار پھر ظلم و ستم کا ڈراؤنا خواب چھایا ہوا ہے اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔ روسیوں کی طرف سے ان کی نقل مکانی کے نئے خطرے نے ان کے مستقبل کو غیر یقینی بنا دیا ہے اور وہ ڈرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے جیسا کہ ان کے ساتھ 2014، کریمیا کی جنگ میں ہوا تھا۔ کیا ہے تاریخ یوکرین کے مسلمانوں کی تاریخ کریمیائی تاتاروں سے جڑی ہوئی ہے، جو کہ ترک زبان بولنے والے ترک اور غیر ترک باشندوں کی اولاد ہیں جو ساتویں صدی کے اوائل میں مشرقی یورپ میں آباد ہو گئے تھے۔کریمیائی تاتار بحیرہ اسود کے شمالی ساحل پر واقع جزیرہ نما کریمیا کا ایک مسلم نسلی مقامی گروہ ہے۔ مسلم آبادیاں جنوبی نصف کے ممالک میں مرکوز ہیں۔ مسلمانوں نے 15ویں صدی میں جنوبی یوکرین میں کریمین خانیت قائم کیا۔ خانیت نے جلد ہی اپنی خودمختاری کھو دی اور سلطنت عثمانیہ کے ہاتھ لگ گئی، حالانکہ اس کے مقامی حکمرانوں نے کافی حد تک خود مختاری برقرار رکھی تھی۔ 18ویں صدی کے آخر میں روس-ترک جنگوں کے بعد بڑھتے ہوئے روسی اثر و رسوخ کے بعد خانیت کا خاتمہ ہو گیا۔ جس وقت خانیت کو روس نے ضم کیا تھا، اس کے دار الحکومت بخچیسرائے میں کئی مدارس کے ساتھ کم از کم 18 مساجد تھیں۔ بعد میں 1917 میں روس کے انقلاب کے وقت، کریمیا کی آبادی کا ایک تہائی حصہ مسلمان تھے۔ کریمیا کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں مسلمانوں کی خاصی آبادی تھی۔ روسی مظالم کا آغاز تاہم روسی سلطنت نے مسلمانوں پر ظلم و ستم شروع کر دیا۔ کریمیا کے مسلمانوں کو 1944 میں جوزف اسٹالن نے بڑے پیمانے پر جلاوطنی کا نشانہ بنایا جس نے ان پر نازی جرمنی کے ساتھ تعاون کا الزام لگایا۔ دسیوں ہزار کریمیائی تاتار ریڈ آرمی میں خدمات انجام دینے کے باوجود مسلمانوں کے بارے میں یہ بدنامی پھیلائی گئی۔ دراصل 1944 میں 200,000 سے زیادہ کریمین مسلمانوں کو وسطی ایشیا، بنیادی طور پر ازبکستان بھیج دیا گیا۔ انہیں مویشیوں کی ٹرینوں پر زبردستی چڑھایا گیا اور جلاوطن کر دیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق ان میں سے نصف کی موت سخت سفر، فاقہ کشی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہوئی۔ سوویت یونین کا بکھراو اور تاتار مسلمان اس کے بعد 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جزیرہ نما کریمیا یوکرین کا حصہ بن گیا اور جلاوطن مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے وطن واپس چلے جائیں۔ وطن واپسی اگرچہ 1989 میں شروع ہوئی، 1991 کے بعد اس میں تیزی آئی۔ واپس آنے والوں کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جیسے کہ گھر خریدنے یا کرائے پر لینے سے روکا جانا، بشمول وہ لوگ جو ملک بدری سے پہلے ان کے پاس تھے۔ یوکرینی مسلمانوں کی آبادی کے اندازے مختلف ہیں۔ 2011 کے پیو فورم کے مطالعے کے تخمینے کے مطابق، یوکرائنی مسلمانوں کی آبادی تقریباً 393,000 ہے، لیکن یوکرین کے مسلمانوں کے کلریکل بورڈ کا دعویٰ ہے کہ یوکرین میں 20 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ 2012 کی ایک اور رپورٹ کے مطابق یوکرین میں ایک اندازے کے مطابق 500,000 مسلمان رہتے ہیں، ان میں 300,000 کریمین تاتار ہیں۔ یوکرین میں نئی زندگی اور شروعات یوکرین میں مسلمانوں کی حالت 1991 کے بعد سے بہتر ہو رہی ہے جو یوکرین کی آزادی ہے۔ سوویت دور میں یوکرین کے مسلمانوں کو کھلے عام اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن 1991 کے بعد مسلمانوں کو اپنی مساجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ یوکرین میں تاتاری مسلمانوں کے اچھے دن قابل ذکر ہے کہ 1991 سے یوکرینی مسلمانوں کے حوالے سے دیگر قابل ذکر پیش رفت ہو رہی ہیں۔ 1991 میں ایک کریمیائی تاتار کی نمائندہ تنظیم مجلس کہلانے کے لیے تشکیل دی گئی۔ اس کے علاوہ، کریمین تاتار زبان کے اسکولوں کی تعلیم پر سوویت پابندی کے اثرات کو ریورس کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا۔ مسلم ادارے،مساجد اور مدرسے اب یوکرین میں مسلمانوں کی 445 کمیونٹیز، 433 وزراء، اور 160 مساجد ہیں، مزید مساجد وہاں آہستہ آہستہ تعمیر ہو رہی ہیں۔ تقریباً 360 یوکرائنی مسلم کمیونٹیز اور تنظیمیں رجسٹرڈ ہیں اور وہاں مسلمانوں کی کئی خیراتی تنظیمیں ہیں۔ ۔ یوکرین کے مسلمان اسلامی طرز زندگی گزار رہے ہیں۔ شادیاں اسلامی رسومات کے مطابق کی جاتی ہیں، حلال کھانا پیش کیا جاتا ہے، بچوں اور بڑوں کے لیے اسلامی تعلیم اور دیگر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ رمضان المبارک کے پروگرام بڑے اہتمام سے ہوتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں، روزانہ تقریباً 800-1,000 لوگ افطار اور نماز تراویح کے لیے کیف کی مرکزی مسجد میں آتے ہیں۔ کیف کی خوبصورت مسجد مفروضہ یہ ہے کہ روس یوکرین کے مسلمانوں پر اس طرح ظلم نہیں کرے گا جیسا کہ اس نے پہلے کیا ہے کیونکہ ایسا کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ولادیمیر پوتن نے مسلم دنیا میں اپنے لیے ایک برانڈ امیج بنایا ہے کہ وہ واحد رہنما ہیں جو مغربی مسلم مخالف تعصبات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یوکرین کے خلاف جنگ میں اسے اس روسی دارالحکومت کو انتہائی موثر انداز میں تعینات کرنا ہوگا۔

Wednesday 23 March 2022

جس امام سے مقتدی ناراض ہوں اس کی امامت

بغیرکسی ثبوت کے امام مسجد پر طعن وتشنیع کرنا درست نہیں ہے۔ اور بلاثبوت کسی کے بارے میں شرعی حکم اور فتویٰ بھی جاری نہیں کیا جاسکتا۔ باقی اگر کسی وجہ سے مقتدی امام سے ناراض ہو ں تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے حکم کی تفصیل یہ ہے کہ : امام سے اگر بغض اور ناراضی کسی دینی وجہ سے ہو، یعنی امام فاسق، فاجر یا لاپرواہ ہو، یا اس کا عقیدہ درست نہ ہو، یا وہ سنتوں کی رعایت نہ کرتا ہو اور مقتدی اس وجہ سے اس سے ناراض ہیں تو ایسی ناراضی کا اعتبار ہے اور ایسے امام کی امامت مکروہ ہوگی، اور اگر ناراضی دنیاوی دشمنی یا مخالفت کی وجہ سے ہو یا اس میں نفس کو دخل ہو تو ایسی ناراضی کا اعتبار نہیں ہے اور اس امام کی امامت بالکل درست ہے، بلکہ اس صورت میں مقتدی امام سے بغیر کسی شرعی وجہ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ملامت کے مستحق ہیں، تاہم بہرصورت ناراض ہونے کے باجود اس امام کے پیچھے نمازیں ادا کرنادرست ہے اور ان نمازوں کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا۔ نیز یہ ملحوظ رہے کہ اگر مقتدی امام کی ناراضی کی وجہ دینی یا شرعی بتاتے ہیں، اور اس امام کے مقتدی زیادہ ہوں تو صرف ایک، دو یا دو ،تین مقتدیوں کا اعتراض اور ناراضی کا اعتبار نہیں ہوگا، نیز اگر اعتراض کرنےوالے زیادہ ہوں، لیکن وہ جاہل اور دین سے ناواقف لوگ ہوں تو ان کا بھی اعتبار نہیں ہوگا، ہاں علم وفضل والے لوگ بھی ان کا ساتھ دیں تو پھر اس امام کی امامت مکروہ ہوگی، ورنہ عموماً مقتدی کسی نہ کسی بات پر امام سے ناراض ہوتے رہتے ہیں، حال آں کہ امامت ایک عظیم الشان منصب ہے، اس منصب کے اہل شخص کا احترام مسلمانوں پر لازم ہے، امام پر بلاوجہ طعن و تشنیع کرنا یا اس کو تنگ کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 865): "(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك: أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم. في شرح السنة قيل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنة فاللوم على من كرهه، وقيل: هو إمام الصلاة وليس من أهلها، فيتغلب فإن كان مستحقاً لها فاللوم على من كرهه، قال أحمد: إذا كرهه واحد أو اثنان أو ثلاثة، فله أن يصلي بهم حتى يكرهه أكثر الجماعة". وفيه أيضاً (3/ 866): "(من تقدم) أي للإمامة الصغرى أو الكبرى (قوماً) : وهو في الأصل مصدر قام فوصف به، ثم غلب على الرجال (وهم له كارهون) أي لمذموم شرعي، أما إذا كرهه البعض فالعبرة بالعالم ولو انفرد، وقيل: العبرة بالأكثر، ورجحه ابن حجر، ولعله محمول على أكثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرة بكثرة الجاهلين، قال تعالى: ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ [الأنعام: 37]" . الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 559): "(ولو أم قوماً وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريماً؛ لحديث أبي داود: «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوماً وهم له كارهون». (وإن هو أحق لا)، والكراهة عليهم". الفتاوى الهندية (1/ 87): "رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط

Sunday 20 March 2022

قرآن مجید کتنے دن میں مکمل کرناچاہئے

بعض روایات میں تین دن سے کم میں قرآنِ مجید ختم کرنے کی ممانعت آئی ہے، بعض میں سات دن میں قرآنِ مجید ختم کرنے کا ذکر ہے، صحیح بخاری میں ہے: "واقرأ في كل سبع ليال مرةً»..." (صحيح البخاري (6/ 196) یعنی ہر سات دن میں ایک قرآن ختم کرو۔ قال أبو عبد الله: " وقال بعضهم: في ثلاث وفي خمس وأكثرهم على سبع " امام بخاری رحمہ فرماتے ہیں: بعض راویان حدیث کی روایت میں ہے کہ قرآن مجید تین دنوں میں مکمل کرنا چاہیے ، بعض پانچ دنوں کا کہتے ہیں اور اکثر راوی حضرات سات دن والی روایت نقل کرتے ہیں۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ تکمیلِ قرآن کریم کے لیے دنوں کی کوئی خاص حد مقرر نہیں جس میں کمی یا اضافہ نہ ہوسکتا ہو۔ بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ عموماً دنیوی مشاغل کے ساتھ اتنے کم وقت میں قرآنِ مجید ختم کیا جائے تو تلاوت کا حق ادا نہیں ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے اس سے کم وقت میں قرآنِ پاک مکمل پڑھ لے تو اسے ممنوع نہیں کہا جائے گا، چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے باوجود امت کے اَکابرین سے بکثرت منقول ہے کہ وہ ایک یا دو دن میں قرآنِ پاک ختم فرمایا کرتے تھے جیسا کہ امام اسود سے منقول ہے۔ الطبقات الكبرى لابن سعد (6/ 73): "عن إبراهيم عن الأسود أنه كان يختم القرآن في شهر رمضان في كل ليلتين، وكان ينام ما بين المغرب والعشاء". بلکہ سات دن میں قرآنِ مجید ختم کرنے کی روایت کو اکثر راویوں کی روایت قرار دینے کے باوجود خود امام بخاری رحمہ اللہ سے ایک رات میں مکمل قرآنِ مجید پڑھنا منقول ہے، نیز ابن سیرین، سعید بن جبیر رحمہم اللہ کے متعلق منقول ہے کہ یہ حضرات ایک رات بلکہ ایک رکعت میں پورا قرآن ختم فرمایا کرتے تھے۔ تفسير ابن كثير ت سلامة (1/ 84): "عن ابن سيرين: أن تميماً الداري قرأ القرآن في ركعة .... عن سعيد بن جبير: أنه قال: قرأت القرآن في ركعة في البيت -يعني الكعبة-". تفسير ابن كثير ت سلامة (1/ 85): "وعن أبي عبد الله البخاري -صاحب الصحيح-: أنه كان يختم في الليلة ويومها من رمضان ختمةً. ومن غريب هذا وبديعه ما ذكره الشيخ أبو عبد الرحمن السلمي الصوفي قال: سمعت الشيخ أبا عثمان المغربي يقول: كان ابن الكاتب يختم بالنهار أربع ختمات، وبالليل أربع ختمات". اسی طرح امام مجاہد کے متعلق لکھا ہے کہ وہ مغرب اور عشاء کے درمیان پورا قرآن ختم فرما لیا کرتے تھے۔ تفسير ابن كثير ت سلامة (1/ 84): "وقد روى ابن أبي داود عن مجاهد أنه كان يختم القرآن فيما بين المغرب والعشاء". اب یہ کہنا مشکل ہے کہ امت کے ان اکابر کا عمل حدیث کے خلاف تھا، کیوں کہ یہ حضرات تو سنتِ نبویہ پر عمل کے حریص تھے، لہذا اس باب میں جو احادیث مروی ہیں اس کے مختلف مطالب بیان کیے گئے ہیں، انہی مطالب میں سے ایک مطلب مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے، چنانچہ تین دن میں قرآن ختم کرنے کی حدیث سے متعلق اپنی کتاب ’’مقامِ ابی حنیفہ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اس حدیث کے دیگر بیان کردہ مطالب کےعلاوہ ایک آسان مطلب یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد (تین دن سے کم میں قرآنِ کریم ختم نہ کرو ) امت پر شفقت اور ترحم کے سلسلہ میں ہے، تاکہ ان دنوں میں غور وفکر سے قرآنِ کریم پڑھا جائے اور اس کے معانی کو سمجھا جاسکے۔ کیوں کہ ہر آدمی تو مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ نہیں کہ مسئلہ اجماع کو سمجھنے کے لیے تین دن میں نو مرتبہ قرآنِ کریم ختم کرے اور منتہائے نظر یہ ہو کہ مسئلہ استنباط کرنا ہے۔ ہر ایک کو بھلا یہ مقام کہاں نصیب ہو سکتا ہے ؟‘‘ (مقام ابی حنیفہ ص 243 ) مذکورہ بالا تمام عبارتوں کو نقل کرنے کے بعد امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ وہ حضرات تھے جواس مختصر وقت میں ختم کرنے کے باوجود قرآن کو سمجھ کر پڑھ سکتے تھے، لہذا جو بھی ایسی قدرت پائے اس کے لیے اتنے عرصہ میں قرآن ختم کرنا قابلِ ملامت نہیں۔ "وهذا نادر جداً. فهذا وأمثاله من الصحيح عن السلف محمول إما على أنه ما بلغهم في ذلك حديث مما تقدم، أو أنهم كانوا يفهمون ويتفكرون فيما يقرؤونه مع هذه السرعة، والله أعلم. بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے منع فرماتے ہیں لیکن اس ممانعت کی حیثیت ارشاد یا مشورے کی ہوتی ہے اور اس کا ماننا اور نہ ماننا دونوں جائز ہوتے ہیں اور آپ کے ایسے حکم کی مخالفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی تصور نہیں ہوتی، جیسے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ کو جب آزادی حاصل ہوئی تو شرعی مسئلہ کے تحت ان کو اپنے خاوند حضرت مغیث کے پاس رہنے یا نکاح فسخ کرانےکی اجازت ملی، انہوں نے حضرت مغیث سے علیحدگی کو ترجیح دی اور وہ بے چارے گلیوں میں حضرت بریرہ کے پیچھے رو رو کر یہ التجا کرتے رہے کہ تو مجھ سے الگ نہ ہو، مگر وہ نہ مانیں اس پر آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بریرہ! تو مغیث کے پاس ہی رہے تو کیا اچھا ہے، وہ کہنے لگیں کہ يا رسول الله تأمرني؟ یعنی کیا آپ مجھ کو اس کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ حکم تو نہیں دیتا، ہاں صرف سفارش کرتا ہوں، انہوں نے کہا کہ پھر مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ صحيح البخاري (7/ 48): "أن زوج بريرة كان عبداً يقال له: مغيث، كأني أنظر إليه يطوف خلفها يبكي ودموعه تسيل على لحيته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعباس: «يا عباس، ألا تعجب من حب مغيث بريرة، ومن بغض بريرة مغيثاً» فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لو راجعته». خلاصہ یہ کہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بطورِ مشورہ ہوتا ہے اور اس کی مخالفت مذموم نہیں ہوتی، لہذا تین دن یا سات دن سے کم ایام میں قرآنِ کریم ختم کرنا شرعاً مذموم اور نا پسندیدہ نہیں بشرطیکہ قرآنِ کریم کی تلاوت درست کی جائے