https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 8 December 2023

میاں بیوی میں جدائی کے بعد بچوں کا نفقہ بہر حال والد پر لازم ہے

 جب کہ بچے کی عمر آٹھ سال ہوچکی ہے تو اس کاحقِ پرورش والد کو ہے اوراگرعدالت میں مقدمہ جائے تو عدالت ازروئے شرع پابند ہوگی کہ وہ بچے کووالد کےسپرد کرے، اوروالد پر لازم ہوگا کہ بچے کو اپنی تحویل میں لے۔والد کو کئی سال اپنے بیٹے سے ملنے نہ دینا ناجائز تھا۔

۲۔بچے کے نان نفقہ کی ذمہ داری بہر صورت والد پر ہی ہے، چاہے وہ اس کے پاس رہے یا اپنی والدہ کے پاس رہے۔

"نفقة الأولاد الصغار علي الأب، لا يشاركه أحدٌ، كذا في الجوهرة النيرة". (الفتاوى الهندية، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١/ ٥٦٠، ط: رشيدية)

Thursday 7 December 2023

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امہات المومنین کے ساتھ حسن سلوک

 میاں بیوی کا رشتہ تو بڑا ضروری اور بڑا ہی عجیب ہوتاہے کہ اکثر لوگ اس بابت افراط و تفریط میں مبتلا ہو جاتے ہیں، بعض بیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں تو بعض غلام بنے نظر آتے ہیں، رحمۃ للعالمینؐنے اس سے متعلق بھی حکیمانہ اعتدال کی تعلیم دی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شوہر کے ذمے عورت کے یہ حقوق ہیںکہ جو خود کھائے وہی اپنی بیوی کو کھلائے ،اپنے لیے کپڑے بنائے تو اس کے لیے بھی بنائے ،اس کے چہرے پر نہ مارے ، اسے بُرا بھلا نہ کہے اور اسے بلا وجہ کہیں اکیلا نہ چھوڑے ؛ مگر یہ کہ گھر میں ۔(مسند احمد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی سہولت کی خاطر اپنے بہت سے کام از خود انجام دے لیا کرتے تھے ، جیسا کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ اپنے سر سے جوئیں نکال لیتے ، بکری کا دودھ دوہ لیتے ، اپنے کپڑے سی لیتے ،اپنے جوتے سی لیتے اور وہ اپنے بہت سے کام خود کر لیا کرتے تھے ۔آپ اپنے گھر میں کاموں میں لگے ہوتے ، جب نماز کا وقت ہوتا تو سب چھوڑ کر چلے جاتے ۔(ترمذی)آپ فرماتے تھے کہ عورتیں،شریف شوہروں پر غالب آجاتی ہیں اور کمینے شوہربیویوں پر غالب آجاتے ہیں،میں پسند کرتا ہوں کے شریف وکریم رہوں(چاہے)مغلوب رہوںاور میں اسے پسند نہیں کرتا کہ کمینہ اور بد اخلاق ہوکر ان پر غالب آجاؤں۔(روح المعانی) نیز آپ نے فرمایا:تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے ،جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہواور میں تم سب سے زیادہ اپنی بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہوں۔ (ترمذی)بلکہ آپ نے اسے ایمان کے کامل ہونے کی نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے ،جو اخلاق میں بہتر ہواور تم میں بہتر لوگ وہ ہیں،جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہوں۔(ترمذی)

حسن العشرة مع النساء في الإسلام






Wednesday 6 December 2023

احتیاطاً تجدید نکاح کرنا

 نکاح کے درست ہونے کے لیے گواہ اور مہر کا ہونا شرط ہے، تاہم اگر احتیاطاً تجدیدِ نکاح کیا جائے  یعنی جب  تفریق کے اسباب میں سے کسی سبب کےبغیر تجدیدِ نکاح کیا جائے ،تو اس  میں  نیا مہر مقرر کرنا لازم نہیں ہے، البتہ گواہان کی موجودگی شرط ہے، اس کے بغیر تجدیدِ نکاح درست نہیں ہوگا، آپ کی بالغ اولاد، گھر کے افراد و دیگر رشتہ دار بھی نکاح کے گواہ بن سکتے ہیں ، اس لیے گواہان کی شرط میں  حرج نہیں ہے ، ہاں  مہر کی شرط میں حرج پایا جا رہا تھا اس لیے احتیاطا  تجدیدِ نکاح میں مہر کی شرط کو ساقط کر دیا گیا ہے جب کہ  گواہان کی شرط کو باقی رکھا گیا ہے۔

"الدر المختار مع رد المحتار" میں ہے:

"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين)أنه نكاح على المذهب بحر (مسلمين لنكاح مسلمة ولو فاسقين أو محدودين في قذف أَوْ أو أعميين أو ابني الزوجين أو ابني أحدهما، وإن لم يثبت النكاح بهما) بالابنين (إن ادعى القريب.

(قوله: وإن لم يثبت النكاح بهما) أي بالابنين أي بشهادتها، فقوله: بالابنين بدل من الضمير المجرور، وفي نسخة لهما أي للزوجين، وقد أشار إلى ما قدمناه من الفرق بين حكم الانعقاد، وحكم الإظهار أي ينعقد النكاح بشهادتهما، وإن لم يثبت بها عند التجاحد وليس هذا خاصا بالابنين كما قدمناه.

(قوله: إن ادعى القريب) أي لو كانا ابنيه وحده أو ابنيها وحدها فادعى أحدهما النكاح وجحده الآخر لا تقبل شهادة ابني المدعي له بل تقبل عليه، ولو كانا ابنيهما لا تقبل شهادتهما للمدعي، ولا عليه لأنها لا تخلو عن شهادتهما لأصلهما، وكذا لو كان أحدهما ابنها والآخر ابنه لا تقبل أصلا كما في البحر."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:21-24، ط:سعید)

"رد المحتار "میں ہے:

"والاحتياط أن ‌يجدد ‌الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد ‌نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير."

(مقدمة، ج:1، ص:42، ط:سعيد)

فسخ النكاح بسبب سوء العشرة

 أن أسباب فسخ عقد النكاح عديدة مثل فسخ النكاح بسبب الهجر، وفي حال وجود سبب منهم مع توافر شروط فسخ النكاح، يتم فسخ عقد النكاح من قبل القاضي.

ويعد عدم قدرة الزوح على الإنفاق على الزوجة وتوفير متطلبات الحياة لها من أحد أسباب فسخ عقد النكاح.

  • ففي حال عدم قيام الزوج بواجبه بالإنفاق على زوجته، يحق للزوجة القيام برفع دعوى من أجل فسخ عقد النكاح.
  • حيث يقوم القاضي المختص بالنظر في الأمر، واستدعاء الزوج والاستماع إلى أقواله، وفي حالة إثباته قدرته على الإنفاق، يتم رفض دعوى الزوجة.
  • أما في حالة عجز الزوج عن إثبات قدرته المادية على الإنفاق على الزوجة، يتوجب على الزوجة القيام بحلف اليمين.
  • وفي حالة حلف الزوجة اليمين يحق لها فسخ عقد النكاح، أما في حالة رفضها حلف اليمين يتم رفض الدعوى المقدمة.
  • إذا كنت تبحثين عن محامي متخصص في قضايا النفقة في الرياض أو أي مدينة سعودية أخرى، فلا تتردد في التواصل مع منصة محامي الرياض.
  • فثبت أن سوء العشرة أيضا سبب من الأسباب للفسخ والتفريق فيما بين الزوجين في الأحوال الشخصية عند الجمهور كماتبين من النموذج الحالي (من منصة محامي الرياض)  

فسخ النكاح بسبب عدم النفقة

 جاء في شرح الممتع على زاد المستقنع للعثيمين: إذا تزوجها وهو معسر عالمة بعسرته، فلها أن تطالب بالنفقة على المذهب، وتقول: إما أن تطلق، وإما أن تنفق، وعلة ذلك أن نفقتها تتجدد كل يوم، فإذا أسقطت نفقة غد لم تسقط، لأنها لم تملكها بعد، وإسقاط الشيء قبل وجوبه لا عبرة به. انتهى.

وجاء في أسنى المطالب في شرح روض الطالب: لو نكحته عالمة بإعساره أو رضيت بالمقام معه ثم ندمت فلها الفسخ، لأن النفقة تجب يوما فيوما والضرر يتجدد ولا أثر لقولها رضيت بإعساره أبدا، لأنه وعد لا يلزم الوفاء به. انتهى.

وذهب ابن القيم إلى أن المرأة لا يجوز لها الفسخ بسبب إعسار الزوج سواء تزوجته عالمة بإعساره أو كان موسرا ثم طرأ عليه الإعسار، ولم يجوز لها الفسخ إلا في حالة واحدة وهي ما إذا غرها وخدعها فأظهر لها الغنى واليسار وهو بخلاف ذلك، جاء في نيل الأوطار: وذهب ابن القيم إلى التفصيل وهو إذا تزوجت به عالمة بإعساره أو كان حال الزواج موسرا ثم أعسر فلا فسخ لها، وإن كان هو الذي غرها عند الزواج بأنه موسر ثم تبين لها إعساره كان لها الفسخ. انتهى.

واختار الشيخ ابن عثيمين ـ رحمه الله ـ رأيا وسطا وهو: أنه إذا تزوجته عالمة بإعساره فلا فسخ، ولكن لا يمنعها من العمل والكسب، جاء في الشرح الممتع على زاد المستقنع: ولهذا ذهب بعض أهل العلم إلى قول جيد يجمع بين الحقوق، فقال: ليس لها الفسخ في الحالة الثالثة ـ إذا كان موسرا ثم أعسرـ لأن هذا ليس باختياره، وفي الحالة الثانية ـ إذا تزوجته عالمة بإعساره ـ ليس لها الفسخ، لأنها دخلت على بصيرة ولكن لا يمنعها من التكسب، لأنه إذا كان ينفق عليها له الحق أن يمنعها من التكسب، فإذا كان لا ينفق فليرخص لها في التكسب وهذا قول قوي وإليه ذهب أبو حنيفة ـ رحمه الله. انتهى.

والراجح هنا ـ والعلم عند الله ـ هو ما ذهب إليه جمهور العلماء، وعليه فإذا لم يستطع الزوج النفقة فيجوز لزوجته فسخ النكاح أو طلب الطلاق للضرر.

الثاني: أن من حق الزوجة على زوجها أن يوفر لها مسكنا مستقلا عن أهله، على ما بيناه في الفتوى رقم: 34802، فإن لم يوفر لها هذا المسكن فمن حقها طلب الطلاق منه، وإن كان الأولى والأفضل في كل ذلك أن تلزم الصبرـ سواء عند ضيق النفقة أو عدم وجود مسكن مستقل.

Tuesday 5 December 2023

بچوں کے اسلامی نام

 

کا یہ نام منقول ہے مکہ کی طرف نسبت کے اعتبار سے)
اولیحضورصلی اللہ علیہ وسلم کانامآمرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا نام
امینحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ناماولحضورصلی اللہ علیہ وسلم کانام
آخرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کانامامامحضورصلی اللہ علیہ وسلم کانام
ایوبنبی کا نامالیاسنبی کا نام
ادریسنبی کا نامابراہیممشہور اولوالعزم نبی اور آپ ﷺ کے جد امجد کا نام
اسماعیلنبی کا نام، (حضرت ابراہیم علیہ السلام کےصاحبزادے)اسحاقنبی کا نام، (حضرت ابراہیم علیہ السلام کےصاحبزادے)
ابوبکرصدیقخلیفۂ راشد اول، عشرہ مبشرہ، صحابی کی کنیت اور کئی صحابہ کی کنیتآدمابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کا نام
احمدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بمعنی بہت زیادہ قابل تعریفآمنامن سے رہنے والا، بے خوف، مطمئن
آنسمحبت کرنے والا، انس رکھنے والااتصافقابل تعریف ہونا
اجودبہت سخی، (اسم تفضیل)ارتساماطاعت کرنا، نقش اتارنا
اِیاسکئی صحابہ کا ناماحوصصحابی کا نام
ادرعصحابی کا ناماقعسصحابی کا نام، (ایک قول کے مطابق)
اکثمکئی صحابہ کا ناماسمر

مضاربت پر رقم دے کر نفع میں نصف حصہ مقرر کرنا

 اپنے ساتھی کوبطور مضاربت کے رقم دے کر(نفع میں)نصف حصہ مقرر کرناجائز ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

ولو قال: خذ هذا الألف فاعمل بالنصف أو بالثلث أو بالعشر، أو قال: خذ هذا الألف وابتع به متاعاً، فما كان من فضل فلك النصف ولم يزد على هذا شيئاً، أو قال: خذ هذا المال على النصف أو بالنصف ولم يزد على هذا جازت استحساناً، ولو قال: اعمل به على أن ما رزق الله تعالى أو ما كان من فضل فهو بيننا جازت المضاربة قياساً واستحساناً، هكذا في المحيط"

(كتاب المضاربة، الباب الأول في تفسير المضاربة وركنها وشرائطها وحكمها، ج:٤، ص:٢٨٥، ط:دار الفكر بيروت

Monday 4 December 2023

تین طلاق معلق سے بچنے کا حیلہ

 

تین طلاق معلق کا حکم اور اس سے بچنے کا حیلہ


سوال

اگر کسی نے اپنی بیوی کو کہا کہ تو اگر گھر سے نکلی تو  تجھے تین طلاق ہو جائیں گی ، بیوی کے گھر سے نکلنے کی صورت میں طلاق ہو جائے گی؟

 جواب:

تین طلاق سے بچنے کی یہ صورت ہے کہ مذکورہ شخص اپنی اہلیہ کوایک طلاقِ رجعی دے  دے ، اور عدت میں رجوع نہ کرے، جب بیوی کی عدت  ختم ہوجائے (یعنی تین ماہواریاں گزر جائیں  یاحاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل کے بعد) تو وہ گھر سے نکل جائے، ایسا کرنے سے یہ تعلیق ختم ہوجائے گی، اور  چوں کہ اُس وقت وہ مذکورہ شخص کے  نکاح  میں نہیں ہوگی؛ اس لیے تین طلاقیں واقع نہیں ہوں گی اور شرط  پوری  ہوجائے گی، پھر دونوں میاں بیوی دوبارہ باہمی رضامندی سے مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں۔ لیکن آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق باقی ہوگا، اور اس شخص کو بات چیت میں احتیاط کرنی چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 355):

"فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها."