https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 18 June 2021

جمعہ کی رکعتوں کی تعداد

 جمعہ کی نماز میں کل بارہ رکعتیں ہیں۔ چار سنت مؤکدہ فرض سے پہلے، دو رکعت فرض، چار رکعت سنت مؤکدہ فرض کے بعد اور  اس کے بعد مزید دو رکعت (بنا بر قولِ راجح)  سنت غیر مؤکدہ۔(4+2+4+2 = 12 )۔باقی احادیث میں جمعہ کے بعد نفل کی کوئی متعینہ مقدار مذکور نہیں ہے، اس لیے  جمعہ کے ساتھ نفل کا نہ کوئی اختصاص ہے اور نہ نفل کی کوئی تحدید ہے، آدمی کی مرضی ہے جتنی چاہے پڑھے۔

''فتاویٰ رحیمیہ'' میں ہے:

''ظاہر روایت میں جمعہ کے بعد چار رکعتیں ایک سلام کے ساتھ سنت مؤکدہ ہیں ، اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک چھ رکعتیں ہیں؛ لہذا جمعہ کے بعد چار رکعتیں ایک سلام سے سنت مؤکدہ سمجھ کر پڑھے، اور اس کے بعد دور کعتیں سنت غیر مؤکدہ سمجھ کر پڑھی جائیں، جو چار پر اکتفا کرتا ہے وہ قابلِ ملامت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اﷲ تحریر فرماتے ہیں :
(سوال )کتنی نمازیں سنت مؤکدہ ہیں ؟
(الجواب)……اور چاررکعتیں (ایک سلام سے) نماز جمعہ کے بعد …الخ دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں ۔
(سوال )کتنی نمازیں سنت غیر مؤکدہ ہیں ؟
(الجواب)……اور جمعہ کے بعد سنت مؤکدہ کے بعد دو رکعتیں ۔(تعلیم الا سلام حصہ چہارم )
''امداد الفتاویٰ'' میں ہے:
(سوال )جمعہ کی پہلی سنتیں مؤکدہ ہیں یا نہیں؟ اور بعد کی سنتوں میں چار مؤکدہ ہیں یا دو یا سب ؟
(الجواب)جمعہ کی پہلی سنتیں مؤکدہ ہیں ، کذا في الدر المختاراور بعد کی چار مؤکدہ ہیں کذا في الدر المختار.(امداد الفتاویٰ ج۱ص۶۷۸،ص۶۷۹مطبوعہ دیو بند

بلی اور کتے کے جھوٹے کاحکم

 بلی  اگر  کھانے کی چیز میں منہ ڈال کر کچھ کھاپی لے تو  کھانے یا پینے کی  بقیہ چیز  اور وہ برتن ناپاک نہیں ہوگا، البتہ اس کے بچے ہوئے کھانے یا پانی  کا استعمال مکروہ تنزیہی ہے، اگر آسانی سے اس کا بدل نہ مل سکتا تو یہ کراہت بھی نہیں ہوگی۔ اور اگر بلی نے چوہا کھانے کے فوراً  بعد برتن میں منہ ڈال لیا تو وہ ناپاک ہوجائے گا، لیکن جب تک اس کا یقین نہ ہو  تب  تک ناپاک ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا، نیز ناپاک ہونے کی صورت میں بھی برتن کو دھو کر دوبارہ استعمال کیا جاسکے گا۔

2۔۔  کتا  اگر کسی برتن میں منہ ڈال دے  جس میں کھانے یا پینے کی چیز ہو  تو  کتے کی وہ جوٹھی  چیز  ناپاک ہوجائے گی، کھانے پینے کی چیز استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور برتن بھی ناپاک ہوجائے گا، اس کے بعد  اس کو تین مرتبہ دھونے سے وہ پاک ہوجائے گا۔  

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 223):
"(و) سؤر (خنزير وكلب وسباع بهائم) ومنه الهرة البرية (وشارب خمر فور شربها) ولو شاربه طويلاً لايستوعبه اللسان فنجس ولو بعد زمان (وهرة فور أكل فأرة نجس) مغلظ.

(و) سؤر هرة (ودجاجة مخلاة) وإبل وبقر جلالة،  الأحسن ترك دجاجة ليعم الإبل والبقر والغنم، قهستاني. (وسباع طير) لم يعلم ربها طهارة منقارها (وسواكن بيوت) طاهر للضرورة (مكروه) تنزيها في الأصح إن وجد غيره وإلا لم يكره أصلا كأكله لفقير.

آللہ اکبر کہتے ہوئے نماز شروع کرنا

 "اللہ اکبر" کا معنٰی ہے: اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ جل شانہ کی عظمت اور کبریائی کے اعتراف کے ذریعے نماز کی عبادت شروع کی جاتی ہے، اس کے بجائے "آللہ اکبر"  کہنے کا مطلب یہ ہے کہ "کیا اللہ سب سے بڑا ہے"؟ لہذا  اگر کوئی شخص نماز شروع کرتے ہوئے "آللہ اکبر"  کہتا ہے تو اُس کی نماز شروع ہی نہیں ہو گی، اگر نماز کے دوران تکبیر کہتے ہوئے "آللہ اکبر"  کہتا ہے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ 

’’زبدۃ الفقہ‘‘  میں ہے:

"اَللّٰهُ أَكبَر" کے لفظ  "اَللّٰهُ" کے الف ( ہمزہ) کو مد کرنا کفر ہے، جب کہ معنی جانتے ہوئے قصداً کہے۔  اور بلا قصد کہنا کفر تو نہیں، لیکن بڑی غلطی ہے۔"

( کتاب الصلاۃ، اذان و اقامت کے سنن و مستحبات و مکروہات، ص: ١٦٢ - ١٦٣،  ط: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز)

الفتاوى الهندية (1/ 68):

"ولو قال: الله أكبر مع ألف الاستفهام لايصير شارعًا بالاتفاق، كذا في التتارخانية ناقلًا عن الصيرفية."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 480):

"اعلم أنّ المدّ إن كان في الله، فإما في أوله أو وسطه أو آخره، فإن كان في أوله لم يصر به شارعا وأفسد الصلاة لو في أثنائها، ولايكفر إن كان جاهلًا؛ لأنه جازم."

Wednesday 16 June 2021

تفسیر ولاتقف مالیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسئولا

 

وَلَا تَقۡفُ مَا لَـيۡسَ لَـكَ بِهٖ عِلۡمٌ‌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَالۡبَصَرَ وَالۡفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۤئِكَ كَانَ عَنۡهُ مَسۡئُوۡلًا ۞

ترجمہ:

اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کے درپے نہ ہو بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے (روز قیامت) سوال کیا جائے گا۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کے درپے نہ ہو بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے (روز قیامت) سوال کیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ٣٦)

قفا کا معنی :

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :

قفا کا معنی سر کا پچھلا حصہ یعنی گدی ہے اور اس کا معنی کسی کے پیچھے چلنا اور اس کی پیروی کرنا ہے۔

ولا تقف ما لیس لک بہ علم۔ (بنی اسرائیل : ٣٦)

اس کا معنی ہے، ظن اور قیافہ کے ساتھ حکم نہ کرو۔ (المفردات ج ٢ ص ٥٢٩، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ (١٤١٨)

بغیرعلم ظن پر عمل کرنے کی ممانعت :

اس کی تفسیر میں مفسرین کے حسب ذیل اقوال ہے :

١۔ مشرکین نے اپنے آبا و اجداد کی تقلید میں مختلف عقائد گھڑ رکھے تھے، وہ بتوں کو اللہ کا شریک کہتے تھے، بتوں کو اللہ کی جناب میں شفاعت کرنے والا مانتے تھے، بتوں کی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ قرار دیتے تھے، قیامت کا انکار کرتے تھے، اور بحیرہ، سائبہ وغیرہ کے کھانے کو حرام کہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے رد میں یہ آیات نازل فرمائیں :

ان ھی الا اسماء سمیتموھا انتم وابائکم ما انزل اللہ بھا من سلطان، ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس، ولقد جائھم من ربھم الھدی۔ (النجم : ٢٣) یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں نازل کی یہ لوگ صرف گمان کی اور اپنے نفسوں کی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں بیشک ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔ 

واذا قیل ان وعد اللہ حق والساعۃ لا ریب فیھا قلتم ما ندری ما الساعۃ ان نظن الا ظنا وما نحن بمستقینین۔ (الجاثیہ : ٣٢) اور جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا چیز ہے، ہم تو صرف گمان کرتے ہیں اور ہم یقین نہیں کرتے۔ ،۔

قل ھل عندکم من علم فتخرجوہ لنا، ان تتبعون الا الظن وان انتم الا تخرصون۔ (الانعام : ١٤٨) آپ کہے کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے ؟ تو وہ تم ہم پر پیش کرو، تم صرف ظن اور گمان کی پیروی کرتے ہو اور تم صرف اٹکل پچو سے باتیں کرتے ہو۔

١۔ اسی نہج پر اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کی پیروی نہ کرو، اور محض ظن اور گمان کے پیچھے نہ چلو۔

٢۔ محمد بن حنفیہ نے کہا جھوٹی گواہی نہ دو ، حضرت ابن عباس نے فرمایا صرف اس چیز کی گواہی دو جس کو تمہاری آنکھوں نے دیکھا ہو اور تمہارے کانوں نے سنا ہو اور تمہارے دل نے یاد رکھا ہو۔

٣۔ اس سے مراد تہمت لگانے سے منع کرنا ہے، زمانہ جاہلیت میں عربوں کی عادت تھی کہ وہ کسی مذمت میں مبالغہ کرنے کے لیے اس کو بدکاری کی تہمت لگاتے تھے اور اس کی ہجو کرتے تھے۔

٤۔ اس سے مراد ہے جھوٹ مت بولو، قتادہ نے کہا جب تم نے سنا نہ ہو تو یہ مت کہو میں نے سنا ہے اور جب تم نے دیکھا نہ ہو تو یہ مت کہو میں نے دیکھا ہے۔

٥۔ اس سے مراد ہے کسی پر بہتان نہ لگاؤ۔

حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے اللہ کی حدود میں شفاعت کی وہ اللہ کے حکم کی مخالفت کرنے والا ہے، اور جس شخص نے کسی ناحق جھگڑے میں مدد کی وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں رہے گا جب تک اس کو ترک نہیں کردیتا، اور جس شخص نے کسی مسلمان مرد یا عورت پر بہتان لگایا اس کو اللہ تعالیٰ دوزخیوں کی پیپ میں بند کردے گا، اور جو شخص اس حال میں مرگیا کہ اس کے اوپر کسی کا قرض تھا اس سے اس کی نیکیاں لے لی جائیں گی، اور صبح کی دو رکعتوں کی حفاظت کرو کیونکہ یہ فضائل میں سے ہیں۔ (مسند احمد ج ٢ ص ٨٢، قدیم طبع، مسند احمد رقم الحدیث : ٥٥٤٤، مطبوعہ عالم الکتب بیروت، ١٤١٩ ھ)

وجہ استدلال یہ ہے کہ جو شخص کسی مرد یا عورت پر بہتان لگائے وہ شخص اپنے گمان کی بنا پر لگائے گا اور اس کو عذاب ہوگا، پس ثابت ہوا کہ جس چیز کا انسان کو علم اور یقین نہ ہو وہ اس کی پیروی نہ کرے، اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کے لیے صرف اس چیز پر عمل کرنا جائز ہے جس کا اسے یقینی علم ہو اور ظن پر عمل کرنا جائز نہیں ہے حالانکہ شریعت میں بہت سے امور پر ظن سے عمل کرنا جائز ہے، قیاس بھی ظنی ہے اور بہت سے مسائل قیاس سے ثابت ہوتے ہیں اور ان پر عمل کرنا جائز ہے، خبر واحد بھی ظنی ہے اور اس پر عمل کرنا جائز ہے۔

ہم ذیل میں ایسی تمام مثالیں درج کر رہے ہیں جو ظنی ہیں اور ان پر عمل کرنا جائز ہے۔

ظن پر عمل کرنے کی شرعی نظائر :

١۔ علماء دین کے فتاوی پر عمل کرنا جائز ہے حالانکہ وہ بھی ظنی ہیں۔

(٢) نیک مسلمانوں کی گواہی پر عمل کرنا جائز ہے حالانکہ ان کی گواہی بھی ظنی ہے۔

(٣) جب آدمی کو قبلہ کی سمت معلوم نہ ہو تو وہ غور و فکر کر کے اپنے اجتہاد سے قبلہ کی سمت معلوم کرے اور اس کے مطابق نماز پڑھے گا حالانکہ یہ بھی ظنی عمل ہے۔

(٤) حرم میں شکار کرنے کی جنایت میں اس کی مثل جانور کی قربانی دینی ہوگی اور یہ ممالثلت بھی ظنی ہے۔

(٥) فصد اور علاج معالجہ کی دیگر صورتیں بھی ظنی ہیں اور ان کے مطابق علاج کرنا جائز ہے۔

(٦) ہم بازار سے جو گوشت خرید کر پکاتے ہیں اس کے متعلق یہ کہنا کہ یہ مسلمان صحیح عقیدہ کا ذبیحہ ہے اور صحیح طریقہ سے ذبح کیا گیا ہے یہ بھی ظنی ہے۔

(٧) عدالتوں کے فیصلے بھی ظنی ہوتے ہیں اور ان کے مطابق عمل کیا جاتا ہے۔

(٨) ہم کسی شخص پر اسلام کا حکم لگاتے ہیں اس کو مسلمان کہتے ہیں اس کو سلام کرتے ہیں اس کو مسلمان کے قبرستان میں دفن کرتے ہیں حالانکہ یہ بھی ظنی امر ہے۔

(٩) کاروبار میں ہم لوگوں سے روپے پیسے کا لین دین کرتے ہیں دوستوں کی صداقت اور دشمنوں کی عداوت پر اعتماد کرتے ہیں اور یہ سب ظنی امور ہیں۔

(١٠) موذن کی اذان سے نماز کا وقت ہونے کا یقین کرتے ہیں حالانکہ یہ بھی ظنی امر ہے۔

(١١) افطار اور سحر میں اوقات نماز کے نقشوں، اذانوں اور ریڈیو اور ٹی، وی کے اعلانات پر اعتماد کرتے ہیں۔

(١٢) عید، رمضان، حج اور قربانی میں رویت ہلال کمیٹی کے اعلانات پر اعتماد کرتے ہیں اور یہ اعلانات بھی ظنی ہیں۔

(١٣) حدیث میں ہے ہم ظاہر پر حکم کرتے ہیں اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔

لہذا اب یہ اعتراض قوی ہوگیا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کے درپے نہ ہو اس کا تقاضا یہ ہے کہ ظن اور قیاس پر عمل نہ کرو حالانکہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوشی خوشی گھر آئے اور فرمایا کیا تم کو معلوم نہیں کہ ایک قیافہ شناس نے اسامہ اور زید کے قدموں کے نشانات دیکھ کر فرمایا : یہ اقدام بعض کے بعض سے ہیں، یعنی یہ قدم باپ بیٹوں کے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٥٥٥ )

ظن پر عمل کرنے کی ممانعت کا محمل :

اس کا جواب یہ ہے کہ ظن پر عمل کرنا اس وقت منع ہے جب ظن علم اور یقین کے معارض ہو، جیسے مشرکین آباو اجداد کی اپنے ظن سے تقلید کرتے تھے اور اپنے ظن سے بتوں کی عبادت کرتے تھے اور ان کو مصائب میں پکارتے تھے اور ان کے حق میں شفاعت کا عقیدہ رکھتے تھے حالانکہ یہ کام تمام نبیوں اور رسولوں اور وحی الہی کے خلاف تھے جو کہ علم اور یقین پر مبنی امور ہیں۔ اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ ظن پر عمل کرنا مطلقا منع نہیں ہے اس وقت منع ہے جب ظن پر عمل کرنا کسی دلیل قطعی کے خلاف ہو۔

کان، آنکھ اور دل سے سوال کیے جانے کی توجیہ :

نیز اس آیت میں یہ فرمایا ہے : اور کان اور آنکھ اور دل ان سب سے متعلق (روز قیامت) سوال کیا جائے گا۔ 

اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اعضا سے سوال کیا جائے گا، اور سوال کرنا اس سے صحیح ہے جو صاحب عقل ہو اور ظاہر ہے یہ اعضا صاحب عقل نہیں ہیں، لہذا ان اعضا سے سوال کرنا بہ ظاہر درست نہیں ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ ان اعضا سے مراد ہے ان اعضا والوں سے سوال کیا جائے گا جیسا کہ قرآن شریف میں ہے :

وسئل القریۃ : (یوسف : ٨٢) بستی سے پوچھو۔

اور اس سے مراد ہے بستی والوں سے پوچھو۔ اسی طرح کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال کیا جائے گا، اس سے مراد ہے کان، آنکھ اور دل والوں سے سوال کیا جائے گا۔ کیا تم نے اس چیز کو سنا ہے جس کا سننا جائز نہیں تھا، کیا تم نے اس چیز کو دیکھا جس کا دیکھنا جائز نہیں تھا، کیا تم نے اس چیز کا عزم کیا جس کا عزم جائز نہیں تھا۔ 

دوسرا جواب یہ ہے کہ کان، آنکھ اور دل والوں سے یہ سوال کیا جائے گا کہ تم کو کان، آنکھیں اور دل دیئے گئے تھے تم نے ان اعضا کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استعمال کیا یا اللہ تعالیٰ کی مصیت میں، اسی طرح باقی اعضا کے متعلق سوال کیا جائے گا، کیونکہ حواس روح کے آلات ہیں اور روح ان پر امیر ہے اور روح ہی ان اعضا کو استعمال کرتی ہے اگر روح ان اعضا کو نیک کاموں میں استعمال کرے گی تو وہ ثواب کی مستحق ہوگی اور اگر روح ان کو برے کاموں میں استعمال کرے گی تو عذاب کی مستحق ہوگی۔

اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعضا میں حیات پیدا فرما دے گا پھر یہ اعضا انسان کے خلاف گواہی دیں گے، قرآن مجید میں ہے :

یوم تشھد علیھم السنتھم وایدیھم وارجلھم بما کانوا یعملون۔ (النور : ٢٤) جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے اہتھ اور ان کے پیر ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔

الیوم نختم علی افواھھم وتکلمنا ایدیھم وتشھد ارجلھم بما کانوا یکسبون۔ (یسین : ٦٥) ہم آج کے دن ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں ان کاموں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے۔

حتی اذا ما جاء وھا شھد علیھم سمعھم وابصارھم وجلودھم بما کانوا یعملون۔ (حم السجدہ : ٢٠) حتی کہ جب وہ دوزخ تک پہنچ جائیں گے تو ان کے خلاف ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کاموں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے۔

لہذا اللہ تعالیٰ کان، آنکھوں اور دلوں میں تعلق پیدا کردے گا اور پھر ان سے سوال کیے جانے پر کوئی اشکال وارد نہیں ہوگا۔

Tuesday 15 June 2021

رشتہ داروں کے حقوق اورقطع رحمی پروعید

 آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی میں رشتہ ناتا اور قرابت داری کوجوڑنے کی فضیلت اور تاکید وارد ہوئی ہے، نیز اس کے توڑنے سے منع کیا گیا ہے، سورہٴ نساء میں دو جگہ اس سلسلہ میں حکم مذکور ہے۔

(۱) وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی تَسَاءَ لُونَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ، ترجمہ: اور تم ڈرو اللہ تعالیٰ سے جن کے نام پر تم دوسروں سے اپنے حقوق طلب کرتے ہو اور ڈرو تم قرابت کے حقوق ضائع کرنے سے۔

(۲) وَاعْبُدُوا اللَّہَ وَلَا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَبِذِی الْقُرْبَی الآیة․ ترجمہ: تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراوٴ اوروالدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور قرابت داروں کے ساتھ۔

نیز ایک تیسری آیت ہے إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَاءِ ذِی الْقُرْبَی ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں انصاف اور حسن سلوک کا اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کا۔

اس میں رشتہ داروں کی حسب استطاعت مالی اور جانی خدمت بھی داخل ہے اور ان سے ملاقات اور خبرگیری بھی۔

احادیث شریف میں بھی صلہ رحمی پر بڑا زور دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد نبوی ہے من أحب أن یبسط لہ فی رزقہ وأن ینسأ لہ فی أثرہ فلیصل رحمہ․ یعنی جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی پیدا ہو اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔

اس حدیث میں دو اہم فائدے معلوم ہوئے کہ آخرت کا ثواب تو ہے ہی دنیا میں بھی صلہ رحمی کا فائدہ یہ ہے کہ رزق کی تنگی دور ہوتی ہے اورعمر میں برکت ہوتی ہے۔

اس کے مقابلے میں قطع رحمی کے حق میں جو شدید ترین وعیدیں روایات حدیث میں مذکور ہیں اس کا اندازہ دو حدیثوں سے بخوبی ہوسکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (۱) لا یدخل الجنة قاطع یعنی جو آدمی حقوق قرابت کی رعایت نہیں کرتا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔

(۲) لا تنزل الرحمة علی قوم فیہ قاطع رحم یعنی اس قوم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نہیں اترے گی جس میں کوئی قطع رحمی کرنے والا موجود ہو (معارف القرآن: ج۳ص۲۸۰)

حدیث میں عام مسلمان سے بات چیت سلام کلام بند کرنے کی مذمت وارد ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ سلام کلام بند کرے

حدیث مبارک میں ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ حَاسَبَهُ اللهُ حِسَابًا يَسِيرًا وَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ، قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: تُعْطِي مَنْ حَرَمَكَ، وَتَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَكَ، وَتَصِلُ مَنْ قَطَعَكَ. قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ، فَمَا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَنْ تُحَاسَبَ حِسَابًا يَسِيرًا وَيُدْخِلَكَ اللهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ". (المستدرک علی الصحیحین للحاکم :۳۹۱۲)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اوراسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کن(صفات والوں ) کو؟ آپﷺنے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر،جو تُجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر،اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ!اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھےا للہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔

اِس کے برخلاف رشتہ ناطہ کو توڑدینا اور رشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ کرنا اللہ کے نزدیک حد درجہ مبغوض ہے۔ نبی اکرم ﷺنے اِرشاد فرمایا کہ " میدانِ محشر میں رحم (جو رشتہ داری کی بنیاد ہے) عرشِ خداوندی پکڑکر یہ کہے گا کہ جس نے مجھے (دُنیا میں) جوڑے رکھا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے جوڑے گا (یعنی اُس کے ساتھ انعام وکرم کا معاملہ ہوگا) اور جس نے مجھے (دُنیا میں) کاٹا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے کاٹ کر رکھ دے گا (یعنی اُس کو عذاب ہوگا)"۔ (بخاری ٥٩٨٩، مسلم ٢٥٥٥، الترغیب والترہیب ٣٨٣٢)

نیز احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ دُنیا میں بالخصوص دو گناہ ایسے شدید تر ہیں جن کی سزا نہ صرف یہ کہ آخرت میں ہوگی، بلکہ دُنیا میں بھی پیشگی سزا کا ہونا بجا ہے: ایک ظلم، دُوسرے قطع رحمی۔ (ابن ماجہ ٤٢١١، ترمذی ٢٥١١، الترغیب ٣٨٤٨)

ہمارے معاشرے میں قطع رحمی بڑھتی جارہی ہے، اچھے دین دار لوگ بھی رشتہ داروں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے۔ جب کہ رشتہ داروں کے شریعت میں بہت سے حقوق بتائے گئے ہیں۔

”فَاٰتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّه وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّـلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللهِ وَاُولٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ“. (الروم:۳۵)
ترجمہ:․․․”سو (اے مخاطب) تو قرابت دار کو اس کا حق دیا کر اور (اسی طرح) مسکین اور مسافر کو۔ ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب رہتے ہیں اور یہی لوگ تو فلاح پانے والے ہیں“۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”خلق الله الخلق، فلما فرغ منه قامت الرحم، فأخذت بحقوي الرحمان، فقال: مه؟ قالت: هذا مقام العائذ بک من القطیعة، قال: ألا ترضین أن أصل من وصلک، وأقطع من قطعک؟ قالت:بلیٰ یا رب! قال فذاک. متفق علیه.“ (مشکوٰة:۴۱۹)
ترجمہ:․․․”اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان صورتوں کے ساتھ اپنے علم ازلی میں مقدر کردیا جن پر وہ پیدا ہوں گی، جب اس سے فارغ ہوا تو رحم یعنی رشتہ ناتا کھڑا ہوا، پروردگار نے فرمایا: کہہ کیا چاہتا ہے؟ رحم نے عرض کیا:یہ قطع رحمی کے خوف سے تیری پناہ کے طلب گار کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے (یعنی کہ میں تیرے رو برو کھڑا ہوں اور تیرے دامنِ عزت وعظمت کی طرف دستِ سوال دراز کیے ہوئے ہوں، تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتاہوں کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن کو جوڑنے کے بجائے اس کو تار تار کردے)پروردگار نے فرمایا: کیا تو اس پر راضی نہیں ہے جو شخص (رشتہ داری اور عزیزوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے ذریعہ) تجھ کو قائم وبرقرار رکھے اور اس کو میں بھی اپنے احسان وانعام اور اجر وبخشش کے ذریعہ قائم وبرقرار رکھوں اور جو شخص رشتہ داری اور حقوق کی پامالی کے ذریعہ تجھ کو منقطع کردے، میں بھی (اپنے احسان وانعام) کا تعلق اس سے منقطع کرلوں؟ رحم نے عرض کیا کہ: پروردگار! بے شک میں اس پر راضی ہوں، پرووردگار نے فرمایا: اچھا تو وعدہ تیرے لیے  ثابت وبرقرار ہے“۔
”عن عبد الرحمان بن عوف قال: سمعت رسول الله ﷺ یقول: قال الله تبارک وتعالی: ”أنا الله“ و’’أنا الرحمان‘‘، خلقت الرحم وشققت لها من اسمي، فمن وصلها وصلته ومن قطعها بتته“. (ابوداود‘ مشکوٰة:۴۲۰)
ترجمہ:․․․”حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بزرگ وبرتر ارشاد فرماتاہے کہ میں اللہ ہوں ، میں رحمان ہوں (یعنی صفتِ رحمت کے ساتھ متصف ہوں) میں نے رحم یعنی رشتے ناتے کو پیدا کیا ہے اور اس کے نام کو اپنے نام یعنی رحمٰن کے لفظ سے نکالا ہے، لہذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتہ ناتاکے حقوق ادا کرے گا تو میں بھی اس کو (اپنی رحمتِ خاص کے ساتھ) جوڑوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتے ناتے کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو (اپنی رحمت خاص سے) جدا کردوں گا“۔
حدیث میں ہے:
”عن أنس  قال: قال رسول الله ﷺ من أحب أن یبسط له في رزقه وینسأ له في أثر فلیصل رحمه. متفق علیه.“ (مشکوٰة:۴۱۹)
ترجمہ:․․․”حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :جو شخص چاہتاہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو اس کو چاہیے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کرے“۔

حدیث شریف کی علمی تحقیق کچھ بھی ہو،  تاہم اتنی بات یقینی ہے کہ وسعتِ رزق اور درازیٔ عمر کے جملہ اسباب میں صلہ رحمی اور رشتے ناتے کے حقوق کی ادائیگی ایک یقینی سبب ہے جس کو ادا کرکے اپنے رزق اور عمر میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

قطعی رحمی کی سزا دنیا وآخرت میں

حدیث میں ہے:
۱-”عن جبیر بن مطعم قال: قال رسول الله ﷺ لایدخل الجنة قاطع. متفق علیه.“ (مشکوٰة:۴۱۹)
ترجمہ:․․․”حضرت جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا“۔
۲-”عن أبي بکرة قال: قال رسول الله ﷺ ما من ذنب أحریٰ أن یعجل الله لصاحبه العقوبة في الدنیا مع ما یدخرله في الآخرة من البغي وقطیعة الرحم“. (أبوداود وترمذي ، مشکوٰة:۴۲۰)
ترجمہ:․․․”حضرت ابوبکرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی گناہ اس بات کے زیادہ لائق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی اس کی سزا دے اور (مرتکب کو) آخرت میں بھی دینے کے لیے (اس سزا) کو اٹھا رکھے، ہاں دوگناہ اس بات کے لائق ہیں: ایک تو  زنا کرنا اور دوسرا ناتا توڑنا“


جمعہ کے دن کی مبارکباد دینا

 جمعہ کا دن فی نفسہ بابرکت اور فضیلت کا دن ہے ،اور جمعہ مبارک کہنے کا مطلب جمعہ کے بابرکت ہوجانے کی دعا دینا ہے ؛اس لیے اس دعا کی گنجائش ہے ؛البتہ اس کا اہتمام والتزام کرنا اور اس کو دین کا حصہ سمجھنا درست نہیں ،جہاں اس طرح کا اندیشہ ہو وہاں اس کی مستقل عادت نہ بنائی جائے ۔

(فائدة) : قال القمولی فی الجواہر: لم أر لأصحابنا کلاما فی التہنئة بالعیدین والأعوام والأشہر کما یفعلہ الناس، ورأیت فیما نقل من فوائد الشیخ زکی الدین عبد العظیم المنذری أن الحافظ أبا الحسن المقدسی سئل عن التہنئة فی أوائل الشہور والسنین أہو بدعة أم لا؟ فأجاب بأن الناس لم یزالوا مختلفین فی ذلک قال: والذی أراہ أنہ مباح لیس بسنة ولا بدعة انتہی، ونقلہ الشرف الغزی فی شرح المنہاج ولم یزد علیہ.[الحاوی للفتاوی 1/ 95)قال الطیبی: وفیہ أن من أصر علی أمر مندوب، وجعلہ عزما، ولم یعمل بالرخصة فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال․ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح 2/ 755)

راقب حمید نائک کودھمکیوں کی مذمت

 خبررساں ایجنسی الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک نے امریکہ میں کوویڈ 19 ریلیف فنڈ کے مبینہ غلط استعمال پر شائع مضامین کیلئے ہندوستانی صحافی راقب حمید نائیک کو ہندوتوا سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی جانب سے آن لائن ہراسانی اور موت کی دھمکیاں دینے کی سخت مذمت کی ہے۔ الجزیرہ میں اپریل میں شائع مضامین میں بتایا کہ کوویڈ ریلیف فنڈ کی رقم 833,000 ڈالر (زائد از 6.10 کروڑ روپئے) ہندوتوا امریکن فاونڈیشن کے علاوہ دیگر چار امریکی فاونڈیشن کو دیئے گئے جو مبینہ طور پر ہندو مذہبی گروپ سے وابستہ ہیں۔ الجزیرہ نے اتوار کو دیئے گئے اپنے بیان میں ہندوستانی صحافی کی حمایت اور ان کے پیشہ وارانہ حصہ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ مضامین میں یہ بتایا گیا کہ ہندو امریکن فاؤنڈیشن، وشوا ہندو پریشد امریکن، اکل ودیالیہ فاؤنڈیشن اور آف یو ایس اے، انفنیٹی فاؤنڈیشن اور سیوا انٹرنیشنل نے 3 پروگراموں کے تحت فنڈس حاصل کئے ہیں جس کا مقصد کورونا بحران کے دوران متاثرہ تاجرین کو معاشی امداد فراہم کرنا تھا۔ ایک رپورٹ میں یو ایس گروپ ''ہندوس فار ہیومن رائٹس'' کے شریک بانی سنیتا وشواناتھ کے حوالہ سے بتایا گیا کہ مذکورہ پانچ تنظیمیں ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کیلئے ان فنڈس کا استعمال کرسکتے ہیں۔

Monday 14 June 2021

Invention of Covid Alarm

  کورونا کا پتہ لگانے کے لئے ، اب ایسے الیکٹرانک ڈیوائس کا استعمال کیا جائے گا جو جسم کی بدبو سونگھ کر وائرس کے خطرے پرآگاہ کرے گا۔ برطانوی سائنس دانوں نے یہ آلہ تیار کرنے کا دعوی کیا ہے ، جس کا نام ' کوویڈ الارم ' رکھا گیا ہے۔

لندن اسکول آف ہائجین اینڈتڑاپیکل میڈیسن (LSHTM) اور ڈرہم یونیورسٹی کی تحقیق میں سائنس دانوں نے یہ پایاکہ کورونا انفیکشن کی ایک خاص بدبو ہے جس کاسینسر پتہ لگاسکتا ہے۔ایل ایس ایچ ٹی ایم کے محققین کی زیر قیادت ، ڈرہم یونیورسٹی کے ساتھ بائیوٹیک کمپنی روبوسائنٹیک لمیٹڈ ، نامیاتی سیمی کنڈکٹنگ (او ایس سی) سینسر کے ذریعہ اس آلے کا تجربہ کیا۔ پروفیسر جیمز لوگان ، جنہوں نے تحقیق کی قیادت کی کہا کہ یہ نتائج بہت امید افزا اور بہت درست ہیں۔ تاہم ، اس کی صداقت کی تصدیق کے لئے اور جانچ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آلہ کامیابی کے ساتھ عوامی مقامات پر استعمال کے لئے تیار کیا گیا ہے ،اوریہ کفایتی بھی ہے ۔اسے کہیں بھی آسانی سے لگایاجاسکے گا۔یہ آلہ مستقبل میں لوگوں کو کسی بھی وبا سے بچانے میں معاون ثابت ہوگا۔ اس تحقیق کے دوران ، ٹیم نے جسمانی بدبو کا سراغ لگایا۔ 54 افراد کے موزے پر تحقیق کیا جس میں 27 افراد کورونا وائرس سے متاثر تھے باقی 27 افراد انفیکشن سے پاک تھے۔

محرم کے بغیر عورت کاحج وعمرہ وغیرہ کا طویل سفر

 عورت کے لیے شوہر یا محرم شرعی کے بغیر حج یا عمرہ کا سفر کرنا جائز نہیں اگر اس کے وطن اور مکہ مکرمہ  کےدرمیان سفر شرعی کی مسافت ہے خواہ سعودیہ میں اس کا شوہر یا محرم شرعی موجود ہو ، احادیث میں سفر شرعی کی مسافت کا شوہر یا محرم شرعی کے بغیر سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے ، محیط برہانی (کتاب الکراھیة والاستحسان، فصل: ۲۸،ج: ۸،ص ۱۱۴، مطبوعہ:پاکستان)میں ہے: ولا تسافر المرأة بغیر محرم ثلاثة أیام فما فوقھا، واختلفت الروایات فیما دون ذلک ، قال أبو یوسف رحمہ اللہ تعالی: أکرہ لھا أن تسافر یوماً بغیر محرم ، وھکذا روي عن أبي حنیفة رضی اللہ تعالی عنہ، وقال الفقیہ أبو جعفررحمہ اللہ تعالی:اتفقت الروایات فی الثلاث اھ،ونقلہ عنہ فی التاتار خانیة (۱۸: ۲۴۵، ۲۴۶ ط مکتبة زکریا دیوبند)، والفتاوی الھندیة( ۵: ۳۶۶ ط مکتبة زکریا دیوبند) عن المحیط،نیز فتاوی محمودیہ جدید (۱۰: ۳۳۰، ۳۳۱، سوال:۵۰۶۹، مطبوعہ:ادارہٴ صدیق، ڈابھیل)،آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ(۵: ۲۹۶، مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)، اور فتاوی حقانیہ (۴: ۲۲۱، مطبوعہ: پاکستان) وغیرہ دیکھیں ۔ (۲): راجح ومفتی بہ قول کے مطابق سفر شرعی کی مسافت سوا ستتر کلو میٹر ہے، اتنی مسافت کا سفر شوہر یا محرم شرعی کے بغیر جائز نہیں ،اور اگر اس سے کم مسافت ہو تو کسی طرح کا خوف فتنہ نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے ورنہ اس میں بھی شوہر یا محرم ساتھ ہونا چاہئے ۔

An example of Lawlessness in U.P:


 

بھارت نے امریکہ کے کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی خطرناک حد تک سکڑتی جا رہی ہے اور اقلیتوں پر حملے بڑھ رہے ہیں۔

کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں امریکی حکومت کو بھارت کو ان 13 ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے، جہاں شہریوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے۔

سال 2004 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب بھارت کو اس فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس فہرست میں چین، پاکستان، شمالی کوریا، سعودی عرب اور روس بھی شامل ہیں۔

بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے اپنے رد عمل میں کہا کہ مذکورہ کمیشن کی جانب سے بھارت کے خلاف متعصبانہ اور متنازع تبصرے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ البتہ اس مرتبہ اس کی غلط بیانی نئی سطحوں تک پہنچ گئی ہے۔

لیکن نئی دہلی کے تجزیہ کار اس رپورٹ کو جائز قرار دے رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن مسیحی رہنما جان دیال نے امریکی کمیشن کی رپورٹ کو بھارت کے لیے انتہائی شرمناک قرار دیا اور کہا کہ بھارت میں حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ دوسرے ملکوں کو بھی ان پر تبصرہ کرنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت نے کمیشن کی رپورٹ پر بچگانہ ردعمل دیا ہے۔ اُن کے بقول ہمیں اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ یہاں کی مذہبی اقلیتوں پر ظلم ہو رہا ہے۔

(بی بی سی  سے ماخوذ) 

Sunday 13 June 2021

تعویذ کی شرعی حیثیت

 رقیہ اور تعویذ تین شرطوں  کے ساتھ جائز ہے: (۱) یہ کہ وہ آیاتِ قرآنیہ اسمائے حسنیٰ وغیرہ پر مشتمل ہو۔ (۲) عربی یا اس کے علاوہ ایسی زبان میں ہو جو معلوم المراد ہو۔ (۳) یہ عقیدہ ہو کہ یہ تعویذ موٴثر بالذات نہیں ہے (اس کی حیثیت صرف دوا کی ہے) موٴثر بالذات صرف اللہ رب العزت ہیں۔ وقال ابن حجر: وقد أجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثة شروط أن یکون بکلام اللہ تعالی أو بأسمائہ وصفاتہ وباللسان العربی أو بما یعرف معناہ من غیرہ وأن یعتقد أن الرقیة لا تؤثر بذاتہا بل بذات اللہ تعالی (فتح الباري: الطب والرقی بالقرآن والمعوذات: ۵۷۳۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً ایسے رقیے اور تعویذ کی اجازت دی ہے جس میں شرک نہ ہو: عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ: کُنَّا نَرْقِی فِی الْجَاہِلِیَّةِ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کَیْفَ تَرَی فِی ذَلِکَ؟ فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَیَّ رُقَاکُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ شرکٌ، رواہ مسلم (مشکاة: ۲/۳۸۸) نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو تعویذ کے کلمات لکھ کر دیے تھے جس کی وجہ سے ان کو پریشان کرنے والا شیطان ہلاک ہوگیا۔ وأخرج البیہقي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: فَقَالَ لِعَلِیِّ رضي اللہ عنہ اکْتُبْ: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. ہَذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِلَی مَنْ طَرَقَ الدَّارَ مِنَ الْعُمَّارِ وَالزُّوَّارِ وَالصَّالِحِینَ، إِلَّا طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ․ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْحَقِّ سَعَةً، فَإِنْ تَکُ عَاشِقًا مُولَعًا، أَوْ فَاجِرًا مُقْتَحِمًا أَوْ رَاغِبًا حَقًّا أَوْ مُبْطِلًا، ہَذَا کِتَابُ اللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی یَنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ، إِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ، اتْرُکُوا صَاحِبَ کِتَابِی ہَذَا، وَانْطَلِقُوا إِلَی عَبَدَةِ الْأَصْنَامِ، وَإِلَی مَنْ یَزْعُمُ أَنَّ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ یُغْلَبُونَ، حم لَا یُنْصَرُونَ، حم عسق تُفَرِّقَ أَعْدَاء َ اللہِ، وَبَلَغَتْ حُجَّةُ اللہِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ․ (دلائل النبوة ما یذکر من حرز أبی دجانة: ۷/۱۱۸) ایک اورحدیث میں ہے: عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِیہِ، قَال: سَافَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ․․․وَأَتَتْہُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنِی ہَذَا بِہِ لَمَمٌ مُنْذُ سَبْعِ سِنِینَ یَأْخُذُہُ کُلَّ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَدْنِیہِ فَأَدْنَتْہُ مِنْہُ فَتَفَلَ فِی فِیہِ وَقَالَ: اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّہِ أَنَا رَسُولُ اللَّہِ․ (رواہ الحاکم في المستدرک) اس کے علاوہ صحابہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ وغیرہ اور ان کے علاوہ تابعین میں حضرت عطا وغیرہ اس کے جواز کے قائل تھے، اور آج بھی اس پر لوگوں کا عمل ہے: عن عمرو بن شعیب، عن أبیہ، عن جدہ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یعلمہم من الفزع کلمات: أعوذ بکلمات اللہ التامة، من غضبہ وشر عبادہ، ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضرون․ وکان عبد اللہ بن عمر یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعلقہ علیہ․ (أبوداوٴد: ۳۸۹۳، والترمذي: ۳۵۲۸ وقال: حسن غریب، اور علامہ شامی لکھتے ہیں: اخْتُلِفَ فِی الِاسْتِشْفَاء ِ بِالْقُرْآنِ بِأَنْ یُقْرَأَ عَلَی الْمَرِیضِ أَوْ الْمَلْدُوغِ الْفَاتِحَةُ، أَوْ یُکْتَبَ فِی وَرَقٍ وَیُعَلَّقَ عَلَیْہِ أَوْ فِی طَسْتٍ وَیُغَسَّلَ وَیُسْقَی. وَعَنْ النَّبِیِّ -صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- أَنَّہُ کَانَ یُعَوِّذُ نَفْسَہُ قَالَ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ -: وَعَلَی الْجَوَازِ عَمَلُ النَّاسِ الْیَوْمَ، وَبِہِ وَرَدَتْ الْآثَارُ․ (شامي: ۹/۵۲۳) واضح رہے کہ تعویذ میں جس طرح پڑھ کر دم کرنا جائز ہے اسی طرح قرآنی آیات وغیرہ کو کسی کاغذ پر لکھ کر اس کو باندھنا بھی جائز ہے، علامہ سیوطی تحریر فرماتے ہیں: وأما قول ابن العربي: السُّنة في الأسماء والقرآن الذکر دون التعلیق فممنوع (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں تمیمہ کو لٹکانے پر شرک کا حکم مذکور ہے، جیسا کہ امام اسیوطی کی جامع صغیر میں ہے: من تعلق شیئا وکل إلیہ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) اسی طرح دوسری حدیث میں ہے: من علق ودعة فلا ودع اللہ ومن علق تمیمة فلا تمم اللہ لہ (فیض القدیر: ۶/۱۸۱) تو یہ اس صورت پر محمول ہیں جب کہ اسی تعویذ کو نافع وضار سمجھا جائے، جیسا کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے، یا ان سے مراد ایسے تعاویذ ہیں جن میں الفاظ شرکیہ یا ایسے الفاظ ہوں جن کے معانی معلوم نہ ہوں، ان حدیثوں کی شرح کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: أو المراد من علق تمیمة من تمائم الجاہلیة یظن أنہا تدفع أو تنفع فإن ذلک حرام والحرام لا دواء فیہ وکذا لو جہل معناہا وإن تجرد عن الاعتقاد المذکور فإن من علق شیئا من أسماء اللہ الصریحة فہو جائز بل مطلوب محبوب فإن من وکل إلی أسماء اللہ أخذ اللہ بیدہ․ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷)

میت کے اہل خانہ کو کھاناکھلانا

 جس گھر میں موت ہوجائے ان کے پڑوسیوں اور رشتے داروں کے لیے مستحب اور باعث اجر و ثواب ہے کہ میت کے گھر والوں کے لیے اس دن (دو وقت) کے کھانے کا انتظام کریں اور خود ساتھ بیٹھ کر، اصرار کر کے ان کو کھلائیں،اور ضرورت ہو تو تین دن تک کھانا کھلانا بھی جائز ہے، اہلِ میت کو یہ کھانا کھلانا اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ میت کے گھر میں یا میت کے گھر والوں کے لیے کھانا پکانا ممنوع ہے، بلکہ اس وجہ سے   ہوتا ہے کہ غم و حزن اور تجہیز و تکفین کی مشغولیت کی وجہ سے ان کو کھانا پکانے کا موقع نہیں ملے گا، لہٰذا اگر میت کے گھر والے خود اپنے لیے اسی دن کھانا بنائیں تو اس کی اجازت ہے۔رسول اللہﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اس لیے کہ ان کو ایسی خبر پہنچی ہے جو ان کو مشغول کرے گی ( یعنی جعفر کی شہادت کی خبر سن کر صدمہ اور رنج میں مشغول ہوکر کھانے پینے کے انتظام کی خبر نہیں رہے گی)۔

                لیکن یہ کھانا صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہے ، یہ نہیں کہ تمام برادری اور قوم کو کھلایا جائے، کیوں کہ تعزیت کرنے والوں کو اپنے اپنے گھروں کو واپس جانا چاہیے، میت کے گھر قیام بھی نہیں کرنا چاہیے اور اہلِ میت کے یہاں ضیافت و دعوت بھی نہیں کھانی چاہیے، کیوں کہ دعوت کا کھانا تو خوشی کے موقع پر مشروع ہے نہ کہ غم کے موقع پر، اسی لیے فقہاء نے تعزیت کے موقع پر کھانے کی دعوت کو مکروہ اور بدعتِ مستقبحہ قرار دیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعن عبد الله بن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر قال النبي صلى الله عليه وسلم: صانعوا لآل جعفر طعاما فقد أتاهم ما يشغلهم). رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه". (مشکاة المصابیح، کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت،الفصل الثاني،ص:۱۵۱ ،ط:قدیمي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"والمعنى: جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم، فيحصل لهم الضرر وهم لايشعرون. قال الطيبي: دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اهـ. والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لايستمر أكثر من يوم، وقيل: يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية، ثم إذا صنع لهم ما ذكر من أن يلح عليهم في الأكل لئلايضعفوا بتركه استحياء، أو لفرط جزع، واصطناعه من بعيد أو قريب للنائحات شديد التحريم ؛ لأنه إعانة على المعصية، واصطناع أهل البيت له لأجل اجتماع الناس عليه بدعة مكروهة، بل صح عن جرير رضي الله عنه: كنا نعده من النياحة، وهو ظاهر في التحريم. قال الغزالي: ويكره الأكل منه، قلت: وهذا إذا لم يكن من مال اليتيم أو الغائب، وإلا فهو حرام بلا خلاف". (کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت،الفصل الثاني،ج:۴؍ ۱۹۴ ،ط: رشیدیه) 

  فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح: ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ.

مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت

وقال أيضاً: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل: أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاماً للفقراء كان حسناً اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لايريدون بها وجه الله تعالى. اهـ. وبحث هنا في شرح المنية بمعارضة حديث جرير المار بحديث آخر فيه «أنه عليه الصلاة والسلام دعته امرأة رجل ميت لما رجع من دفنه فجاء وجيء بالطعام» . أقول: وفيه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص، بخلاف ما في حديث جرير. على أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غيرنا كالشافعية والحنابلة استدلالاً بحديث جرير المذكور على الكراهة، ولا سيما إذا كان في الورثة صغار أو غائب، مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالباً من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم". (کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة،ج:۲ ؍ ۲۴۰ ، ط: سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. روى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة. ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون، والله أعلم". (کتاب الصلاة، قبیل باب الشهید، ج:۲ ؍ ۱۰۲ ، ط: رشیدیه

آسام کے وزیراعلیٰ کا بیان شرمناک

 مسلمانوں کی آبادی کے تعلق سے آسام کے وزیر اعلی ہیمنتا بسوا کے بیان پر آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شرمناک بتایااور کہاکہ ایک وزیر اعلی کی زبان سے اس طرح کا فرقہ وارانہ اور ایک خاص کمیونٹی کے خلاف بیان یہ واضح کرتاہے کہ بی جے پی کے رہنماؤں میں اب ذرہ برابر بھی ذمہ داری اور آئین کا پاس ولحاظ نہیں رہ گیا ہے۔ مسلمانوں کی آباد ی کو جس طرح نشانہ بناتے ہوئے ہیمنتا بسوا شرمانے اپنا بیان دیاہے وہ یقینی طور پر ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور آئین کے نہ صرف خلا ف ہے بلکہ مسلمانوں کو ایک طرح سے دھمکی دی گئی ہے۔ڈاکٹر منظور عالم نے کہاکہ مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی شرح گذشتہ سالوں کے مقابلے میں کم ہورہی ہے۔ دوسری طرف خود ہیمنتابسوا چھ بھائی سے زیادہ ہیں۔ سابق وزیر اعلی سونوال آٹھ بھائی تھے۔ یہ اپنے گھر میں نہیں دیکھتے ہیں اور صرف مسلمانوں کو تنبہیہ کرتے ہیں۔در اصل بی جے پی آسام میں جب این آرسی کے نام پرمسلمانوں کو پریشان کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اور مسلمانوں سے زیادہ جب اکثریتی طبقہ کا نام آگیاہے تو اب انہیں آبادی کو بنیاد بناکر پریشان کرنے اور نشانہ بنانے کی یہ مہم شروع ہوئی ہے۔ آسام میں مسلمانوں کی آبادی بہت پرانی ہے ، ان پر کسی طرح کا سوال اٹھانے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام سے زیادہ دوسرے صوبوں میں آبادی کی شرح زیادہ ہے۔ آسام میں آبادی میں اضافہ کی شرح سترہویں نمبر پرہے۔ یہ در اصل ملک کے ماحول کو خراب کرنے کی سازش ہے اور وزیر اعلی اپنی کرسی کا خیال رکھنے کے بجائے گھٹیاترین حرکت کررہے ہیں۔ ایسے بیان سے گریز کرنا چاہیے اور تمام مسلمانوں سے معافی مانگنی چاہیے۔