https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 11 July 2021

عقیقہ کب کیاجائے

 کسی کو جب اللہ تعالیٰ بچے سے نوازے تو ولادت کے ساتویں روز یا چودہویں یا اکیسویں دن، اگر ان دونوں میں نہ ہوسکے تو عمر بھر جب بھی موقع میسر آئے (ساتویں دن کی رعایت کے سات) بچہ کی طرف سے اللہ کے نام جانور ذبح کرنے کا نام شریعت میں ”عقیقہ“ ہے، عقیقہ سنت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقہ فرمایا تھا، ایک حدیث میں ہے کہ ”عقیقہ“ کی برکت سے بچہ کے اوپر سے بلائیں ٹلتی ہیں، اگر لڑکا پیدا ہو تو دو بکرے (یا بڑے جانور میں دو حصے) اور لڑکی پیدا ہو تو ایک بکرا (یا بڑے جانوروں میں ایک حصہ) ذبح کرنا مستحب ہے۔ ”عقیقہ“ کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے جس طرح بہ طور قربانی جانور ذبح کیا جاتا ہے اسی طرح عقیقہ میں بھی ذبح کیا جائے گا، عقیقہ میں بھی انھیں جانور کو ذبح کرنا درست ہے جنھیں قربانی میں ذبح کرنا درست ہے، یعنی اونٹ، گائے، بھینس، بکری، بھیڑ اور دنبہ، عقیقے کا سب سے اچھا وقت پیدائش سے ساتویں دن ہے، پھر چودہویں پھر اکیسویں، اگر ان دونوں میں بھی نہ کرسکے تو عمر بھر میں کسی بھی دن عقیقہ کیا جاسکتا ہے؛ البتہ بہتر ہے جب بھی عقیقہ کیا جائے پیدائش سے ساتویں دن کا لحاظ کیا جائے ”عن ابن عباس أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عقّ عن الحسن والحسین کبشًا کبشًا” (ابوداود، رقم: ۲۸۴۱) ثم إن الترمذي أجاز بہا إلی یوم أحدے وعشرین، قلت بل یجوز إلی أن یموت لما رأیت في بعض الروایات أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم عقّ عن نفسہ بنفسہ (فیض الباري: ۴/ ۳۳۷، کتاب العقیقة، ط: اشرفی)

المستدرک  میں ہے: 

’’عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ". ( المستدرک علی الصحیحین للحاکم(4/ 266) رقم الحدیث: 7595،  کتاب الذبائح، ط: دار الكتب العلمية – بيروت)

اعلاء السنن میں ہے:

’’ أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘. (17/117، باب العقیقہ، ط: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

’’يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم‘‘.(6/ 336، کتاب الاضحیۃ، ط: سعید)

نوٹ: عقیقہ کے ساتھ یہ بھی مسنون ہے کہ اس دن بچے کا کوئی مناسب اسلامی نام رکھا جائے ، نیز اس کے سر کا بال صاف کئے جائیں  اور ان بالوں کے وزن کے برابر سونا چاندی صدقہ کیا جائے۔

Saturday 10 July 2021

عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت

 ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی فضیلت، قرآن و سنت کی روشنی میں درج ذیل ہے:


1 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ یعنی مجھے فجر اور دس راتوں کی قسم ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ بحوالہ بخاری فرماتے ہیں: ’’اس سے مراد ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں‘‘۔

 سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ان دس دنوں میں اللہ تعالیٰ کو عمل صالح بہت پسند ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ کیا جہاد فی سبیل اﷲ سے بھی زیادہ یہ دن پسند ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ہاں! یہ دن جہاد فی سبیل اﷲ سے بھی بہتر ہیں سوائے اس شخص کے جو اپنے مال اور جان کو لے کر نکلے اور کسی چیز کو واپس لے کر نہ آئے‘‘ (بحوالہ بخاری)۔

 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ان دس دنوں سے بڑھ کر اور سب سے زیادہ محبوب اللہ تعالیٰ کو کوئی اور دن نہیں ہیں لہٰذا تم ان دنوں میں کثرت سے تسبیح، تحمید اور تہلیل کیا کرو‘‘۔ (بحوالہ طبرانی)۔

 سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان ایام عشرہ میں سخت ترین محنت سے عمل صالح فرماتے تھے۔ (بحوالہ دارمی)۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق اس عمل صالح کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان دنوں میں حج کا اجتماع منعقد ہوتا ہے اور حج اسلام کے اراکین میں شامل ہے۔

مستحب اعمال

 کثرت سے نوافل ادا کرنا۔ نمازوں میں مکمل پابندی کرنا، کثرت سجود سے قربِ الٰہی کا حاصل کرنا۔ (صحیح مسلم)۔

2 نفل روزے کا اہتمام کریں۔ کیونکہ اعمال صالحہ میں روزے شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ذی الحجہ کی تاریخ کو روزے رکھتے تھے یوم عاشور، محرم اور ہر مہینے تین روزے رکھنا بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول تھا۔ (بحوالہ ابوداؤد، مسند احمد)۔

 کثرت سے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنا بھی ان ایام کا ایک معروف فعل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے مطابق سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہم بازاروں میں جاتے تھے، خود بھی تکبیرات کہتے اور لوگ بھی تکبیریں بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے خیمے میں بلند آواز سے تکبیریں کہتے تو اہل مسجد اس کو سن کر جواباً تکبیریں کہتے تھے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نمازوں کے بعد، گھر میں، آتے جاتے، پیدل چلتے ہوئے تکبیریں کہتے تھے۔ 

Friday 9 July 2021

بابری مسجد کاپتہ پوچھنے والا گرفتار

 اتر پردیش کے ایودھیا میں منہدم بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا کام زور و شور سے جاری ہے۔ اس درمیان ایک شخص نے ایودھیا پہنچ کر ایک سیکورٹی اہلکار سے قدیم بابری مسجد کا پتہ پوچھ لیا جس سے اس کے لیے مصیبت کھڑی ہو گئی ہے۔ میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق بلال نامی ایک شخص نے رام جنم بھومی درشن مارگ پر تعینات سیکورٹی اہلکاروں سے بابری مسجد کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں پر تھا اور کیا وہ اس جگہ کو دیکھ سکتا ہے۔ اس سوال نے سیکورٹی اہلکار کے ذہن میں شبہ پیدا کر دیا کہ کہیں یہ شخص کوئی غلط ارادہ سے تو ایودھیا نہیں پہنچا ہے۔ یہ سوچتے ہی سیکورٹی اہلکار نے مقامی پولیس کو خبر دی اور پھر خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں نے مشتبہ شخص سے پوچھ تاچھ شروع کر دی۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق بلال سے ہوئی ابھی تک کی پوچھ تاچھ میں اس نے جو کچھ بھی بتایا ہے وہ صحیح ہے اور کچھ بھی مشتبہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ لیکن پولیس اس سے مزید پوچھ تاچھ کر رہی ہے تاکہ ہر طرح سے اطمینان ہو جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ بلال مراد آباد کا رہنے والا ہے اور اس نے بتایا کہ وہ تین دن قبل ہی ایودھیا پہنچا ہے۔ بلال نے یہ بھی بتایا کہ وہ 'دعوتِ اسلامی' نامی ادارہ کا کارکن ہے اور اس نے اپنے ادارہ کے کارکنوں سے بابری مسجد کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ اب وہاں مندر بن رہا ہے۔

حراست میں لیے گئے بلال کا کہنا ہے کہ وہ اس جگہ کو دیکھنا چاہتا تھا جہاں بابری مسجد تھی۔ ایودھیا پہنچنے کے بعد اس نے وہاں تعینات سیکورٹی اہلکار سے ہی پوچھ لیا کہ بابری مسجد کہاں تھی؟ جانکاری کے مطابق بلال نے سیکورٹی اہلکاروں سے جب یہ سوال پوچھا کہ کیا وہ بابری مسجد والی جگہ دیکھنے جا سکتا ہے، تو انھیں شبہ ہوا جس کے بعد سیکورٹی اہلکاروں نے رام جنم بھومی تھانہ میں خبر دی اور بلال کو پولیس کے حوالے کر دیا۔

Thursday 8 July 2021

خلع کے بعد دوبارہ نکاح

 خلع کے بعد عورت پر طلاق بائن واقع جاتی ہے، اس کے بعد اگر میاں بیوی ساتھ رہنا چاہیں، تو دوبارہ نکاح ضروری ہے، نئے نکاح کے بعد ہی دونوں رجوع کر سکتے ہیں، لہذا اگر شوہر نے بیوی کے مطالبہ خلع پر رضامندی سے خلع دیدیا، تو بیوی پر طلاق بائن واقع ہوگئی، اب دوبارہ رجوع کرنے کے لیے نیا نکاح ضروری ہے ۔واضح رہے کہ کورٹ شوہر کی رضامندی سے خلع اُسی وقت دے سکتا ہے، جب کہ کورٹ کے اراکین مسلمان ہوں اور شوہرباقاعدہ خلع کا وکیل بنا دے، وکیل بنائے بغیر محض شوہر کے خلع پر راضی رہنے سے کورٹ کا خلع دینا شرعا غیر معتبر ہوگا۔ قال الکاساني: ویجوز بالنکاح والخلع۔۔۔۔( بدائع الصنائع:۶/۲۳، المکتبة العلمیة، بیروت 

کیاقاضئ شریعت نکاح فسخ کرسکتا ہے.

 یکطرفہ تنسیخ کی مثال اس حدیث مبارکہ سے ملتی  جسے امام بخاری  نے روایت کیاہے : حضرت خنساء بنتِ خِذام اَنصاریہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں  ہے :

إِنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ ثَیِّبٌ فَکَرِهَتْ ذَلِکَ. فَأَتَتِ النَّبِيَّ فَرَدَّ نِکَاحَهَا.

ان کے والد ماجد نے ان کی کہیں شادی کر دی جبکہ وہ بیوہ تھیں، مگر اُنہیں یہ شادی ناپسند تھی۔ سو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئیں اوراپنی ناپسندیدگی وجاہت کااظہارکیاتو  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کا نکاح منسوخ فرما دیا۔

  1. بخاري، الصحیح، 6: 2547، رقم: 6546
  2. أبي داود، السنن، 2: 233، رقم: 2101، دار الفکر

مذکورہ بالا حدیث  سے معلوم ہوا جب بیوی کسی وجہ سے اپنا مقدمہ عدالت شرعی یادارالقضاء میں پیش کرے تو عدالت شرعی یاقاضئ شریعت  اس کا نکاح فسخ  کر سکتی ہے۔

Wednesday 7 July 2021

Death of stan sawamy or the humanity or the judiciary?

https://youtu.be/jji7CMFu4yQ

 Stan Swamy

Swamy was a former director of the Jesuit-run Indian Social Institute, Bangalore from 1975 to 1986.He has questioned the non-implementation of the Fifth Schedule of the Constitution, which stipulates setting up of a Tribes Advisory Council with members solely of the Adivasi community for their protection, well-being and development in the state.

In a video circulated two days ahead of his arrest, Swamy suggested his arrest was linked to his work, as it involved dissent against government policies,an octogenarian human rights activist died in judicial custody. He had Parkinson's disease. He requested the NIA to provide him straw or sipper to get the meal, but NIA responded after 20days that he has no straw or sipper of the swampy, later on, he requested the NIA to provide him with any other straw or sipper but it was in vain. He was denied bail too by the judiciary. In another hand, Sadhvi Pragya  Thakur MP of the Ruling BJP party plays basketball in the jail. She got bail by the judiciary, while she is Malaigaon Malegaon bomb blast accused, in which several Muslim, youths died, and several Muslim youths arrested in connection with. There is a struggle by the ruling party to free her from all allegations.

After Swamy"s death, justice and humanity are ridiculed here. His death is in fact a tragedy for both the judiciary and humanity.

Tuesday 6 July 2021

اسٹان سوامی کاتڑپ تڑپ کرجان دینا اورسادھوی کا آزادگھومنا

 بات دو تصویروں کی ہے ۔ ایک تصویر دیکھ کر ہنسی بھی آئی اور افسوس بھی ہوا ،اور دوسری تصویر دیکھ کر دل تڑپ گیا ۔ پہلی تصویر سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی تھی ، وہی سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر جو مالیگاؤں بم دھماکے کی ملزمہ ہے۔اور دوسری تصویر حقوقِ انسانی کے کارکن فادر اسٹان سوامی کی تھی ،جن کی آج ایک اسپتال میں اس حالت میں موت ہوگئی کہ وہ پولس کی حراست میں تھے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی موت ایک حراستی موت تھی ۔ سادھوی ایک بم دھماکے کی ،یعنی ایک دہشت گردانہ حملے کی ملزمہ ہے ،ایک ایسا دہشت گردانہ حملہ جس نے کئی جانیں بھی لی تھیں اور ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک لہر بھی دوڑائی تھی ،یہی نہیں اُس دھماکے نے بڑے پیمانے پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا ایک سلسلہ بھی شروع کرایا تھا،اور ایک بہت ہی ایماندار پولیس افسر ہیمنت کرکرے کی جان بھی اسی دھماکے کی چھان بین کی بھینٹ چڑھی تھی ۔ سادھوی پر مقدمہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے ،ہاں یہ پوری کوشش ہے کہ مقدمہ ختم ہو جائے ۔بہر کیف اس پر مقدمہ چل رہا ہے لیکن سادھوی کی کوشش رہتی ہے کہ وہ 'بیماری 'کا رونا رو کر 'جسمانی طور پر' مقدمہ کی کارروائی میں شرکت سے بچی رہے ۔ اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی رہی ہے ۔اور کیوں نہ ہو اپنے مقصد میں کامیاب،اسے تو اس ملک کے لوگوں نے ،اور بی جے پی نے ،یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ دہشت گردانہ حملے کی ملزمہ ہے ، ممبرِ پارلیمنٹ جوبنا دیا ہے!تو سادھوی کو تصویر میں باسکٹ بال کھیلتے دیکھا ،اور ہنسی آگئی ،لیکن اس ہنسی میں ایک طرح کا غم بھی تھا ،مایوسی بھی کہ ،یہ وہ سادھوی ہے جو مقدمہ کی تاریخوں میں وہیل چیئر پر بیٹھی نظر آتی ہے ،اور باقی کے دنوں میں دوڑ دوڑ کر باسکٹ بال کھیلتی ہے!

جامعہ میں گولی چلانے والا غنڈہ کھلے عام نفرت آمیز بیان دیتاہے, کیاپولیس اسے گرفتار کرے گی؟

 نئی دہلی: ملک کی راجدھانی دہلی اور آس پاس کے علاقوں میں دسمبر 2019 سے فروری 2020 تک چلے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے قانون) (CAA Bill) مخالف احتجاج کے دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس فائرنگ کی گئی تھی۔ گولی چلانے والا ملزم ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ ملزم نے گزشتہ اتوار کو ہریانہ کے پٹودی میں ایک مہاپنچایت میں حصہ لیا۔ اس مہا پنچایت میں اس نے بھیڑ کو مسلم خواتین کو اغوا کرنے کے لئے اکسایا۔ ساتھ ہی مسلمانوں پر حملے کرنے کی بھی بات کہی۔ اس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔

ہریانہ کے پٹودی میں مذہب تبدیلی، لو جہاد، آبادی کنٹرول جیسے موضوع کو لے کر گزشتہ اتوار کو ایک مہاپنچایت بلائی گئی تھی۔ اس مہاپنچایات کا ایک مبینہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے۔ اس میں جامعہ کے پاس گولی باری کرنے کا ملزم نوجوان قابل اعتراض باتیں کہتا ہوا سنائی پڑ رہا ہے۔ اس ویڈیو میں وہ کہہ رہا ہے، 'میں جہادیوں اور دہشت گردانہ ذہنیت کے لوگوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جب میں سی اے اے کی حمایت میں جامعہ جاسکتا ہوں تو پٹودی زیادہ دور نہیں ہے'۔ ملزم نے مسلم خواتین کے اغوا کے لئے بھیڑ کو اکسایا۔ اس نے مسلمانوں کے لئے قابل اعتراض زبان کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ جب ان کو مارا جائے گا تو وہ رام رام چلائیں گے۔ 

اسٹاک سوامی پر نہ عدلیہ کوترس آیا نہ انسانیت کورحم آیانہ جبکہ علی الاعلان عوام پر گولی چلانے والے پر انصاف کے مندر کورحم آگیا اور وہ ضمانت پر گھوم رہاہے بلکہ ہیرو بن گیاہے کیایہ انصاف  کامذاق نہیں ؟چوراسی سالہ ضعیف بیمار تڑپ تڑپ کر جان دے رہاہے ضمانت کی درخواست دے رہاہے کوئی شنوائی نہیں  بالآخرسسک سسک کرمرجاتاہے.  سنگ وخشت مقید ہیں اور سگ آزاد. 

Monday 5 July 2021

لنچنگ کی سرپرستی خود بی جے پی کررہی ہے

 لنچنگ کے واقعات پے در پے ہورہے ہیں۔خاص طور پر یہ واقعات بی جے پی کی ریاستوں میں ہی انجام پارہے ہیں۔کیا اب مسلمان کو اس لیے مارا جائے گا کہ وہ آپ کا ووٹر اور سپورٹر نہیں۔کیا اپنے شہریوں کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا یہی ہے سب کا ساتھ اور سب کا وکاس اوروشواس؟ کیا یہی رام راجیہ کی تصویر ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومتیں راج دھرم نبھاتے ہوئے اپنے تمام شہریوں کا تحفظ کریں۔ان خیالات کا اظہار کل ہند مجلس اتحادالمسلمین دہلی کے صدر کلیم الحفیظ نے کظیم شیروانی سے ملاقات کرنے کے بعدپریس کو جاری ایک بیان میں کیا۔صدر مجلس اپنی ٹیم کے ساتھ کظیم کے گھر پہنچے اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔اس موقع پرصدر مجلس نے کہا کہ موہن بھاگوت نے جہاں بیان دیا وہیں یہ واقعہ اسی دن ہوگیا۔اگر موہن بھاگوت کا کہنا درست ہے کہ لنچنگ کرنے والوں کا تعلق ہندو دھرم سے نہیں ہے۔تو وہ اپنے غنڈوں کو قابو میں کریں۔کلیم الحفیظ نے کہا کہ موہن بھاگوت کے بیان سے مسلمان کسی خوش فہمی کا شکار نہ ہوں۔وہ صرف ایک جملہ ہے۔ جس ریاست کا مکھیا ہی غیر آئینی زبان بولتا ہو اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتا ہو اس ریاست کے ہندو دہشت گردوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔لنچنگ کی سرپرستی خود بی جے پی کر رہی ہے اس لیے بی جے پی سے لنچنگ کرنے والوں کے خلاف قانون سازی کی امید کرنا یا لنچنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی توقع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس لیے مسلمانوں کو اپنا تحفظ خود کرنا ہوگا۔اوکھلا کے رہنے والے کظیم شیروانی جو صبح سات بجے علی گڑھ جانے کے لیے سیکٹر 37پر بس کیا انتظار کررہے تھے انھیں ایک کار میں سوار چار ہندودہشت گردوں نے کار میں بیٹھا کر بے دردی سے مارا ،ان کی آنکھ پھوڑنے اورگلا گھونٹ کر جان لینے کی کوشش کی ،ان کا پائجامہ کھول کر درندگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ صدر مجلس نے کہا کہ حکومت باز آئے ،ان کی سرپرستی کرنا چھوڑ دے،ان کے خلاف قانونی کرروائی کریا وریاد رکھے کہ ظلم کی عمر زیادہ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے نتائج اچھے ہوتے ہیں ۔مجلس ہر طرح مظلوموں کا ساتھ دے گی ۔

یوسف علی کی دریادلی

 ایم ودود ساجد

یہ خبر ماب لنچنگ کے شوقین شرپسندوں اور ان کے آقاؤں کیلئے ہے۔۔ لیکن جنہیں یہ خبر شور مچا مچا کر شرپسندوں اور ان کے آقاؤں تک پہنچانی چاہئے تھی انہوں نے نہیں پہنچائی۔۔ حد تو یہ ہے کہ یہ خبر بڑے پیمانے پر ماب لنچنگ کی شکار قوم تک بھی نہیں پہنچی۔

کیرالہ کا باشندہ 'پیکس کرشنن' ابوظہبی میں ڈرائیور تھا۔2012 میں اس کی کار سے کچل کر ایک 6 سالہ سوڈانی لڑکے کی موت ہوگئی تھی۔ وہ گرفتار ہوا اور تحقیقات کرنے والی پولیس' سی سی ٹی وی کیمروں اورعینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کرکے اس نتیجہ پر پہنچی کہ کرشنن بڑی لاپروائی سے کار چلا رہا تھا۔ 2013 میں متحدہ عرب امارات کی سپریم کورٹ نے اسے موت کی سزا سنادی۔کرشنن کے اہل خانہ اور اس کے وکیلوں نے بہت کوشش کی لیکن اس کی سزائے موت کو کالعدم نہیں کراسکے۔ کرشنن نے دعوی کیا تھا کہ وہ 'اوور ٹائم' کر رہاتھا' وہ بہت تھکا ہوا تھا اور اسے نیند کا جھونکا آگیا تھا۔

کرشنن کے اہل خانہ جب ہر طرف سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے متحدہ عرب امارات میں مقیم کیرالہ کے 65 سالہ بزنس مین اور 'لوء لوء' گروپ کے چیرمین یوسف علی سے رابطہ کیا۔ یوسف علی نے جب اس سلسلہ میں کوشش شروع کی تو اس وقت تک سوڈانی بچے کے اہل خانہ متحدہ عرب امارات چھوڑ کر واپس سوڈان چلے گئے تھے۔اب یہ کام بہت مشکل ہوگیا تھا۔۔ کرشنن کی سزائے موت اسی صورت میں ختم ہوسکتی تھی جب ہلاک شدہ بچے کے اہل خانہ قصاص لے کر یا فی سبیل الله اسے معاف کردیں اور سپریم کورٹ میں آکر اپنے بیانات بھی قلم بند کرائیں۔۔

اولاً تو سوڈانی فریق کو ہی تیار کرنا بہت مشکل تھا۔اوپر سے انہیں صرف عدالت میں بیان دینے کیلئے واپس متحدہ عرب امارات لانا اس سے بھی زیادہ مشکل تھا۔یوسف علی کی ٹیم نے پہلے تو متاثرہ بچے کے اہل خانہ کو تلاش کیا۔پھر ان سے گفتگو شروع کی۔ایک دو نہیں گفتگو کے درجنوں دور ہوئے۔جب کئی برسوں کی گفتگو کے بعد مرنے والے کے اہل خانہ تیار ہوئے تو اس کی ماں بپھر گئی اور اس نے 'قاتل' ڈرائیور کو معاف کرنے سے انکار کردیا۔یہ مرحلہ بڑا مشکل تھا۔اس کی ماں کا کہنا تھا کہ میں اپنے بچے کے 'قاتل' کو تختہ دار پر دیکھنا چاہتی ہوں۔

یوسف علی کی ٹیم نے اس کام کیلئے سوڈان کی موقرشخصیات اور معاشرہ پر اثر رکھنے والے افراد کو اعتماد میں لیا۔انہوں نے ماں کو مذہبی اور انسانی پہلوؤں کا حوالہ دے کر سمجھایا۔ آخر کار 'مقتول' لڑکے کی ماں بھی مان گئی۔ 2013سے 2019 تک کا عرصہ اسی کوشش میں گزرگیا۔اب جبکہ مقتول کے اہل خانہ مان گئے تو یہ مشکل سامنے آگئی کہ وہ متحدہ عرب امارات آنے کو تیار نہیں تھے۔یوسف علی کی ٹیم نے تمام سفری اخراجات کے علاوہ انہیں ایک رقم کے عوض متحدہ عرب امارات آنے کو تیار کرلیا۔اب کورونا کی وبا سامنے آگئی۔سوڈانی فریق سفر کرنے کو تیار ہوا تو اب سفر پر پابندی لگ گئی۔آخر کار جنوری 2021 میں انہیں ابو ظہبی لانے میں کامیابی مل گئی۔ایک بیان میں یوسف علی نے کہا کہ مقتول کے اہل خانہ کو قاتل کو معاف کرنے کیلئے تیار کرنا سب سے مشکل مرحلہ تھا۔

گزشتہ 13جنوری کو مقتول کے اہل خانہ نے عدالت میں آکر بیان دیدیا کہ انہوں نے قاتل کو معاف کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یوسف علی کے گروپ کو پانچ لاکھ درہم یا ایک کروڑ ہندوستانی روپے عدالت میں جمع کرانے پڑے۔ عدالت نے 'قصاص' کا یہ صلح نامہ منظور کرلیا اور گزشتہ 9 جون کو کرشنن کیرالہ واپس پہنچ گیا۔۔

ابو ظہبی میں جب اسے جیل میں یہ خبر سنائی گئی اوراس سے پوچھا گیا کہ جیل سے نکل کر پہلا کام کیا کروگے؟ تو اس نے کہا کہ میں سب سے پہلے 'خود کو نئی زندگی' دینے والے کے پاؤں چھونے کیلئے اس کے گھر جاؤں گا۔کرشنن کی یہ خواہش پوری کی گئی۔یوسف علی نے کرشنن سے وعدہ کیا کہ وہ ابوظہبی سے باہر اسے کہیں نوکری بھی دیں گے۔9 جون کو جب 45 سالہ کرشنن' تھیرواننتا پورم ایر پورٹ پر پہنچا تو اسے میڈیا والوں نے گھیر لیا۔لیکن حیرت یہ ہے کہ 10جون کو کسی چینل پر یہ خبر نہیں تھی۔میڈیا کو دلچسپی' موت کے منہ سے واپس آنے والے 'قاتل'کرشنن میں تھی۔.

Tuesday 29 June 2021

مرادآباد میں سرسید کاقائم کردہ اسکول منہدم کردیاگیا

 مرادآباد : سرسید احمد خان کے قائم کردہ اسکول کی قدیم عمارت کو مرادآباد بلدی حکام نے منہدم کردیا ہے ۔ سرسید احمد خاں نے علی گڑھ میں  مدرسہ العلوم  تعلیمی ادارہ قائم کرنے سے کافی قبل مرادآباد اور غازی پور میں اسکولس قائم کئے تھے ۔ اُن کی تعلیمی اور سماجی سرگرمیاں نمایاں طورپر 1857 ء کی بغاوت کے بعد شروع ہوئیں 1858 ء میں سرسید کو مرادآباد میں صدر الصدور مقرر کیا گیا تھا۔ اُنھوں نے وہاں ایک اسکول 1859 ء میں قائم کیا تھا ۔ اُسے سابقہ ریاستی حکومتوں نے ہیرٹیج بلڈنگ کی حیثیت سے محفوظ رکھا تھا لیکن موجودہ یوگی آدتیہ ناتھ زیرقیادت بی جے پی حکومت نے اسے چند روز قبل منہدم کردیا۔ یہ بلڈنگ تحصیل اسکول کے نام سے مشہور ہوئی تھی جس کا اب نام و نشان بھی مٹادیا گیا ہے ۔

Sunday 27 June 2021

مرد کے ستر کی مقدار

 مرد کا ستر ناف کے متصل نیچے سے لے کر گھٹنے تک ہے،ناف سترمیں شامل نہیں البتہ گھٹنے ستر میں شامل ہیں،اس حصے کا چھپانافرض ہے،کسی کے سامنے اس حصہ بدن کو بلاضرورتِ شرعیہ کھولناجائز نہیں ۔ اور کسی مرد کے لیے دوسرے مرد کے اس حصہ ستر کو دیکھناجائز نہیں ، البتہ ستر کے علاوہ بقیہ بدن اگر فتنے یاشہوت کا خوف نہ ہوتو دیکھ سکتاہے۔

حدیث شریف میں ہے:

'' حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کوئی مرد کسی دوسرے مرد کے ستر کی طرف نہ دیکھے، کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ستر کی طرف نہ دیکھے ''۔(مشکاۃ ص:268،قدیمی)

"مجمع الانہر" میں ہے:

''( و ) من ( الرجل إلى ما ينظر الرجل من الرجل ) أي إلى ما سوى العورة ( إن أمنت الشهوة ) وذلك ؛ لأن ما ليس بعورة لا يختلف فيه النساء والرجال، فكان لها أن تنظر منه ما ليس بعورة، وإن كانت في قلبها شهوة أو في أكبر رأيها أنها تشتهي أو شكت في ذلك يستحب لها أن تغض بصرها، ولو كان الرجل هو الناظر إلى ما يجوز له النظر منها كالوجه والكف لا ينظر إليه حتماً مع الخوف''.

وفیه أیضاً:

'' وينظر الرجل من الرجل إلى ما سوى العورة وقد بينت في الصلاة أن العورة ما بين السرة إلى الركبة والسرة ليستبعورة''۔(4/200،دارالکتب العلمیۃ

وھي- أي: العورة- للرجل ما تحت سرتہ إلی ما تحت رکبتہ (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ۲:۷۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”ما تحت سرتہ“:فالسرة لیست من العورة، درر۔قولہ: ”إلی ما تحت رکبتہ“: فالرکبة من العورة لروایة الدار قطني: ﴿ما تحت السرة إلی الرکبة من العورة﴾؛ لکنہ محتمل فالاحتیاط في دخول الرکبة، ولحدیث علي  رضي الله عنه  قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:﴿ الرکبة من العورة﴾، وتمامہ في شرح المنیة (رد المحتار)۔

یوپی میں تبدیلئ مذہب کے نام پر علماء کی گرفتاری ایک فرقہ وارانہ کھیل


 جمہوری ملک میں کوئی زبردستی کسی کا مذہب کیسے تبدیل کرا سکتا ہے ، اسلام جبرا مذہب تبدیلی کے سخت خلاف ہے ۔ملک کے ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے ، اور اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا آئینی و دستوری حق حاصل ہے ، اب موجودہ اتر پردیش کی حکومت اس کو مسلمانوں سے چھیننے کے لیئے کوشاں ہے ۔ اترپردیش کی حکومت اپنی عوام مخالف پالیسی کے سبب ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے ،اس نے آئندہ اسمبلی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے لیئے مبینہ مذہب تبدیلی کے نام پر علماء کی گرفتاری کراکر فرقہ وارانہ کھیل کا آغاز کر دیا ہے ۔ پیس پارٹی کے قومی صدر ڈاکٹر ایوب سرجن نے میڈیا کو جاری بیان میں گرفتاری کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مذکورہ تاثرات کا اظہار کیا ۔ ڈاکٹر ایوب سرجن نے کہا کہ گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران اترپردیش کی یوگی حکومت نے ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ،جس کی بنیاد پر وہ عوام کے درمیان جا کر ووٹ مانگ سکے ، اس لیئے سماج کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کی سازش کے تحت صوبہ میں مبینہ لو جہاد ، ماب لنچنگ کے وقوعہ تو جاری ہی ہیں ، مگر اب چوں کہ انتخاب کا وقت چھہ ماہ رہ گیا ہے اس لیئے ہندووں کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کر پولرائزیشن کے لیئے مبینہ مذہب تبدیلی کے نام پر علماءکو گرفتار کرا کر ہندووں کو یہ پیغام دینے میں کوشاں ہے کہ وہ ہی اصلی ہندوتو کی علمبردار ہے ۔جبکہ حقیقت میں یہ جھوٹا پروپگنڈہ ہے ، بی جے پی اسی جھوٹ کے سہارے انتخاب میں کامیابی کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ یہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک منظم سازش ہے ،اسی پروپگنڈہ پر ایک عرصے سے آر ایس ایس کام کر رہی ہے ۔بی جے پی کی جارحانہ فرقہ پرستی کی ان کارستانیوں کے سبب ہندوستان کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر مجروح کیا ہے ۔ملک کی اپنی مذہبی رواداری و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک شاندار تاریخ ہے ، اس کے برعکس جب سے بی جے پی ملک پر زیر اقتدار آئی ہے ،اسی وقت سے فرقہ پرستی کے بدبختانہ وقوعہ نے دنیا کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ ہندوستان اب اپنی دیرینہ روایات سے انحراف کرتا جا رہا ہے ۔خصوصی طور سے مذہبی آزادی کے حق کو چھیننے کی کوشش ایک منظم انداز میں کی جارہی ہے ۔ بی جے جے مغربی بنگال میں مذہبی جذبات کو بھڑکا کر کامیابی کا جو خواب دیکھا تھا اس کو عوام نے مسترد کر پیغام دے دیا ہے کہ اب حقیقی مسائل و مدعوں پر بات ہوگی ۔ مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو جو سبق بنگال کی عوام نے بی جے پی کو مسترد کر سکھایا ہے اس سے وہ گھبرا گئی ہے ,اور آئندہ اسمبلی انتخاب میں کامیابی کے لیئے یوگی حکومت ایک مرتبہ پھر فرقہ وارانہ کھیل کا آغاز کر اپنی کامیابی کو یقینی بنانا چاہتی ہے ۔ اسی کی بنیاد پر علماءکو گرفتار کراکر اب ان کے خلاف دہشت گردی کا الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر گرفتار علماء کے ملک دشمن طاقتوں سے تعلق کا کوئی ثبوت ہے تو اس کو عوام کے سامنے لایا جائے ، مگر کسی بے گناہ کو صرف اس بنیاد پر گرفتار کرنا ، کہ وہ مذہب تبدیلی کا ملزم ہے تو یہ آئین و جمہوریت کے برعکس ہے ۔ مجھے عدلیہ پر پورا اعتماد ہے کہ انصاف ملے گا ۔پیس پارٹی کی فسطائی طاقتوں پر پوری نظر ہے وہ انصاف کے لیئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گی ۔