https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 16 September 2022

المرأۃکالقاضی

المرأۃ کالقاضی‘‘ کی اصطلاح ’’المرأۃ کالقاضی‘‘ والی عبارت کتبِ فقہ میں کثرت سے ملتی ہے۔ اور یہ باب طلاق سے متعلق ہی استعمال ہوا کرتی ہے اور اس عبارت میں عورت کو جو قاضی کے حکم میں قرار دیا گیا ہے، اس کا مطلب جب تک واضح نہ ہوگا مسئلہ کی نوعیت سامنے نہیں آسکتی ہے۔ اور یہ عبارت دو حیثیت سے استعمال ہوتی ہے اور دونوں حیثیتوں میں واضح فرق یوں ہوا کرے گا کہ پہلی میں قاضی کا فیصلہ شوہر کے خلاف عورت کے موافق ہوگا۔ اور دوسری میں شوہر کے موافق عورت کے خلاف فیصلہ ہوگا، اب دونوں حیثیتوں کو ملاحظہ فرمائیے: حیثیت ۱؎: عورت کو قاضی کی طرح ظاہر کا اعتبار کرکے اپنے نفس کے متعلق حلت وحرمت کا از خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، مثلاً جب شوہر نے یہ کہہ دیا: تجھے طلاق، طلاق، طلاق اور از خود طلاق کا اقرار بھی کرتا ہے، مگر کہتا ہے کہ میں نے تکرار وتاکید کا ارادہ کیا تھا، تین طلاق کا ارادہ نہیں کیا ہے ۔ اور عورت نے خود بھی تین طلاق شوہر کی زبان سے سن رکھی ہیں، یا عادل شخص کی شہادت سے اس کو یقین حاصل ہوچکا ہے، اب اگر یہ معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچ جاتا ہے، تو مسئلہ آسان ہے، قاضی شوہر کی نیت کا اعتبار نہیںکرے گا؛ بلکہ ظاہری الفاظ کا اعتبار کرکے تین طلاق کا فیصلہ دے کر رجعت سے منع کردے گا۔ اور بیوی بالکلیہ آزاد ہوجائے گی؛ لیکن وہاں قاضی نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور عذر شدید کی وجہ سے معاملہ قاضی کی عدالت تک نہیں پہنچ سکتا؟ اور مفتی نے دیانت کا اعتبار کرکے ایک طلاق کا فتویٰ دے کر رجعت کو جائز قرار دیا ہے اور شوہر مفتی کے فتوی کی بنا پر رجعت کرکے بیوی کو اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے، تو ایسی صورت میں جس طرح ظاہر پر فیصلہ کرنا قاضی پر لازم ہوتا ہے، اسی طرح عورت کو بھی قاضی کی طرح ظاہر کا اعتبار کرکے اپنے نفس کے متعلق فیصلہ کا حکم دیا گیا ہے؛ اس لئے اب عورت کے لئے اپنے اوپر شوہر کو قدرت دینا جائز نہیں؛ بلکہ خلع کرکے آزادی حاصل کرنا یا مال دے کر طلاق حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور اگر شوہر ان میں سے کسی پر بھی راضی نہیں ہے، تو علاقہ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جاکر عدت گذار کر دوسرے مرد سے نکاح کرکے با عصمت زندگی گذار سکتی ہے، اس طرح عورت کو ظاہر کا اعتبار کرکے اپنا فیصلہ خود کرنے کو حضرات فقہاء ’’المرأۃ کالقاضی‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور مسئلہ کے اس پہلو کو حضرات فقہاء ان الفاظ سے ذکر کرتے ہیں: وإذا قال: أنت طالق، طالق، طالق، وقال: إنما أردت بہ التکرار صدق دیانۃ لا قضاء، فإن القاضي مامور لاتباع الظاہر، واللہ یتولی السرائر، والمرأۃ کالقاضي لا یحل لہا أن تمکنہ إذا سمعت منہ ذلک أو علمت بہ؛ لأنہا لا تعلم إلا الظاہر۔ (تبیین الحقائق، کتاب الطلاق، باب الکنایات، کوئٹہ ۲/ ۲۱۸، جدید زکریا ۳/ ۸۲، ہندیۃ قدیم ۱/ ۳۵۴، جدید زکریا ۱/ ۴۲۲) جب شوہر بیوی کے متعلق کہے کہ تجھے طلاق، طلاق، طلاق اور کہتا ہے کہ میں نے اس سے تکرار وتاکید کا ارادہ کیا تھا، تو دیانۃً مان لیا جائے گا اور قضاء ً تسلیم نہیں کیا جائے گا؛ اس لئے کہ قاضی ظاہر کے اعتبار کرنے کا پابند ہے اور دلوں کی باتوں کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے اور عورت کو قاضی کی طرح قرار دیا گیا ہے؛ اس لئے یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر کو اپنے اوپر قدرت دے دے، جب کہ اس نے خود شوہر کے یہ الفاظ سن لئے ہیں، یا اس کو یقین سے معلوم ہوگیا ہے؛ اس لئے کہ وہ صرف ظاہر کی بات جان سکتی ہے۔ اور مذکورہ عبارت میں یہ لحاظ رہنا چاہئے کہ شوہر تین بار لفظ طلاق استعمال کرنے کا والمرأۃ کالقاضي إذا سمعتہ أو أخبرہا عدل لا یحل لہا تمکینہ، والفتوی علی أنہ لیس لہا قتلہ ولا تقتل نفسہا بل تفدی نفسہا بمال أو تہرب، (وقولہ) إنہا ترفع الأمر للقاضي فإن حلف ولا بینۃ لہا فلا إثم علیہ۔ شامي، کتاب الطلاق، باب الصریح، مطلب: في قول البحر، کراچی ۳/ ۲۵۱، زکریا ۴/ ۴۶۳، کراچی ۳/ ۳۰۵، زکریا ۴/ ۵۳۸، البحرالرائق، کوئٹہ ۳/ ۲۵۷، جدید زکریا ۳/ ۴۴۸) اور عورت قاضی کے حکم میں ہے، جب کہ اس نے سن رکھا ہے یا اس کو کسی عادل شخص نے بتایا ہے، اس کے لئے شوہر کو اپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں ہے۔ اور فتویٰ اس پر ہے کہ عورت کا شوہر کو قتل کر دینا یا خودکشی کر لینا جائز نہیں ہے؛ بلکہ مال کے بدلے اپنے نفس کو شوہر سے آزاد کرلے یا بھاگ جائے اور بے شک عورت اپنا معاملہ قاضی کی عدالت میں پیش کردے، تو اگر شوہر جھوٹی قسم کھا لیتا ہے اور عورت کے پاس گواہ نہیں ہے، تو گناہ شوہر پر ہوگا۔ وفي البحر: یحل لہا أن تتزوج بزوج آخر فیما بینہ وبین اللہ تعالیٰ۔ (البحرالرائق، کتاب الطلاق، باب الرجعۃ، کوئٹہ ۴/ ۵۷، زکریا ۴/ ۹۶) اور ’’البحرالرائق‘‘ میں ہے کہ: عورت کے لئے دوسرے مرد سے نکاح کرلینا دیانۃً جائز ہے۔ نیز اسی طرح اگر بیوی حنفی المسلک ہے اور شوہر شافعی المسلک ہے اور شوہر نے طلاق کنائی دے دی ہے، تو اگر شافعی المسلک قاضی نے رجوع کا فیصلہ دے دیا ہے، تو ظاہراً اور باطناً دونوں اعتبار سے لازم ہوجائے گا۔ (ف المرأۃ کالقاضی‘‘ کی اصطلاح ’’المرأۃ کالقاضی‘‘ والی عبارت کتبِ فقہ میں کثرت سے ملتی ہے۔ اور یہ باب طلاق سے متعلق ہی استعمال ہوا کرتی ہے اور اس عبارت میں عورت کو جو قاضی کے حکم میں قرار دیا گیا ہے، اس کا مطلب جب تک واضح نہ ہوگا مسئلہ کی نوعیت سامنے نہیں آسکتی ہے۔ اور یہ عبارت دو حیثیت سے استعمال ہوتی ہے اور دونوں حیثیتوں میں واضح فرق یوں ہوا کرے گا کہ پہلی میں قاضی کا فیصلہ شوہر کے خلاف عورت کے موافق ہوگا۔ اور دوسری میں شوہر کے موافق عورت کے خلاف فیصلہ ہوگا، اب دونوں حیثیتوں کو ملاحظہ فرمائیے: حیثیت ۱؎: عورت کو قاضی کی طرح ظاہر کا اعتبار کرکے اپنے نفس کے متعلق حلت وحرمت کا از خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، مثلاً جب شوہر نے یہ کہہ دیا: تجھے طلاق، طلاق، طلاق اور از خود طلاق کا اقرار بھی کرتا ہے، مگر کہتا ہے کہ میں نے تکرار وتاکید کا ارادہ کیا تھا، تین طلاق کا ارادہ نہیں کیا ہے ۔ اور عورت نے خود بھی تین طلاق شوہر کی زبان سے سن رکھی ہیں، یا عادل شخص کی شہادت سے اس کو یقین حاصل ہوچکا ہے، اب اگر یہ معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچ جاتا ہے، تو مسئلہ آسان ہے، قاضی شوہر کی نیت کا اعتبار نہیںکرے گا؛ بلکہ ظاہری الفاظ کا اعتبار کرکے تین طلاق کا فیصلہ دے کر رجعت سے منع کردے گا۔ اور بیوی بالکلیہ آزاد ہوجائے گی؛ لیکن وہاں قاضی نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور عذر شدید کی وجہ سے معاملہ قاضی کی عدالت تک نہیں پہنچ سکتا؟ اور مفتی نے دیانت کا اعتبار کرکے ایک طلاق کاحکم دیدیاتوعورت اب قاضی کی طرح اپنی زندگی کافیصلہ کرنے میں قاضی کی طرح. ہے.

No comments:

Post a Comment