https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 28 August 2024

وکالت کیاہے

 وکالت کی حقیقت یہ ہے کہ  آپ عدالت میں قاضی کے سامنے اپنے موکل کی جانب سے تنازعات میں ظلم کے خاتمے یا حق کے حصول کیلیے کوشش کریں۔

ایسی صورت میں بنیادی طور پر وکالت  جائز ہے۔

ابن قطان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تنازعات اور حق طلبی  میں کسی کی وکالت کرنا کہ موکل بھی حاضر  اور ملزم  بھی اس پر راضی ہو تو اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے" ختم شد
"الإقناع" (2 / 156)

شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"[عربی زبان میں  مستعمل لفظ: ] "محامی" تنازعات میں وکالت کرنے والے کو کہتے ہیں، اور تنازعات میں وکالت  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے لیکر اب تک موجود ہے، لہذا کسی کا وکیل بننے میں کوئی حرج نہیں، البتہ وکیل کو "محامی" کہنا یہ نیا نام ہے۔

تاہم اگر وکیل اللہ سے ڈرے اور اپنے موکل کا غلط اقدامات  اور جھوٹ پر معاون نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (19 / 231)

اس لیے وکیل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ  اصل حقدار کے حق کا تحفظ کرے، لیکن ظالم  کی ظلم پر یا غاصب کی مدد کرنا کسی صورت جائز نہیں۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ )
ترجمہ: اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو  لیکن گناہ اور زیادتی کے کاموں میں باہمی تعاون مت کرو، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔[ المائدة :2]

ایسے ہی فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا )
ترجمہ: ان لوگوں کی طرف سے مباحثہ مت کریں جو اپنے آپ سے خیانت کرتے ہیں، بیشک اللہ تعالی بہت زیادہ خیانت کرنے والے اور گناہ گار سے  محبت نہیں فرماتا۔[ النساء :107]

شیخ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"( وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ) اس ایت میں "يَخْتَانُونَ" کا ماخذ خیانت ہے  اور  اس کا مصدر " اختتان" ہے اس کا یہاں پر مطلب ہے جرم، ظلم اور گناہ۔ یہاں آیت میں اس بات سے بھی ممانعت ہے کہ  کوئی شخص جرم کر بیٹھے  اور اس پر سزا، حد یا تعزیر لاگو کرنے کا حکم جاری کر دیا جائے تو اب اس کی سزا، حد یا تعزیر  ختم کروانے کیلیے  اس کے جرم کا دفاع نہیں کیا جائے گا، یا اس پر جاری ہونے والی قانونی سزا  کو ختم کروانے کی کوشش نہیں کی جائے گی؛ (إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا) مطلب یہ ہے کہ: جو بہت زیادہ جرم کرتا ہو اور گناہ کرتا ہو، اور جب کسی کے دل سے محبت ختم ہو گئی تو اس کا متضاد ثابت ہو گیا اور وہ ہے بغض[یعنی اللہ تعالی اس سے محبت نہیں کرتا تو اس سے نفرت فرماتا ہے]، گویا کہ  یہ حصہ آیت کی ابتدا میں موجود ممانعت کی علت اور سبب ہے" ختم شد
"تفسیر السعدی" (ص 200)

یحیی بن راشد کہتے ہیں ہم عبد اللہ بن عمر رضی الہ عنہ کی انتظار میں بیٹھے تھے تو آپ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا  آپ فرما رہے تھے: (جس کی سفارش اللہ کی حدود میں سے کسی حد  کے آڑے آ گئی تو اس نے اللہ تعالی کے ساتھ ضد بازی کی، جو شخص جانتے ہوئے بھی جھوٹے معاملے کی مدافعت کرے تو وہ اس وقت تک اللہ کی ناراضگی میں رہتا ہے جب تک وہ اس وکالت سے نکل نہیں جاتا، اور جو شخص کسی مومن کے بارے میں ایسی بات کہتا ہے جو اس میں ہے ہی نہیں تو اللہ تعالی اسے  جہنمیوں کے نچوڑ میں ٹھہرائے گا یہاں تک کہ وہ اس بات سے رجوع کر لے جو اس نے کہی تھی)
ابو داود (3597) اسے البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ (1/798) میں صحیح کہا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وکالت اس کو کہتے ہیں کہ:  انسان کسی کی طرف سے نیابت کرتے ہوئے اس کے جھگڑے کی پیروی کرے، اور اس کی دو قسمیں ہیں:  ایک قسم وہ ہے جس میں انسان حق بات کے ذریعے حق کا تحفظ کرتا ہے، تو ایسی وکالت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ آپ نے کسی شخص کو اجرت کے عوض میں وکالت اور نیابت پر رکھ لیا ہے اور اجرت کے عوض نیابت  میں کوئی حرج نہیں ہے۔

No comments:

Post a Comment