۔جوسیٹ آپ کے دادا جان کی نشانی تھی اور آپ نے اپنے استاد کو ھدیہ کردیا چونکہ وہ میراث کا حصّہ تھالھذا اس میں آپ کاتنھا کسی طرح کا تصرف حتی کہ استاد کو ھدیہ کے طور پر دینا بھی درست نہ تھااب اس کی شکل یہ ہے کہ آپ دوسراسیٹ تفسیر مظہری کا خریدکراستاذ مذکور کی خدمت میں لیجایں اور اپنے دادا جان کا سیٹ استاذ سے صورتحال بتاکر واپس لے لیں اور نیا سیٹ انہیں اس کے بدلے میں دیدیں ۔صورت حال سمجھنے کے بعد استاذ بھی ان شاءاللہ ناراض نہ ہوں گے ۔فتاوی عالمگیریہ میں ہے :
"ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره."
(کتاب الشرکة ،ج:2،ص:301،ط:رشیدیة)
شرح المجلہ للأتاسی میں ہے:
"الأموال المشترکة شرکة الملک تقسم حاصلاتها بین أصحابها علی قدر حصصهم."
(الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،ج:4، ص:14، المادۃ: 1073، ط: رشیدیة)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وأركانه (الفرائض): ثلاثة وارث ومورث وموروث. وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه."
(کتاب الفرائض، ج:6، ص:758، ط: سعید)
No comments:
Post a Comment