https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 31 July 2024

شادی کے موقعہ پر دلھن کے سر پر قرآن رکھنا

 شادی کے موقع پر دلہن کے سر پر قرآن رکھنے کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے، محض ایک رسم ہے، نیز اگر ثواب سمجھ کر رکھا جائے تو  بدعت ہے اس  سے بچنا ضروری ہے۔

كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم میں ہے :

"وفي شرح النخبة وشرحه: ‌البدعة ‌شرعا هي اعتقاد ما أحدث على خلاف المعروف عن النبي صلى الله عليه وسلم لا بمعاندة، بل بنوع شبهة. وفي إشارة إلى أنه لا يكون له أصل في الشرع أيضا، بل مجرد إحداث بلا مناسبة شرعية أخذا من قوله صلى الله عليه وسلم "من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد" حيث قيده بقوله ما ليس منه. وإنما قيل لا بمعاندة لأن ما يكون بمعاندة فهو كفر."

(حرف الباء، ج : 1، ص : 313، ط : مكتبة لبنان ناشرون - بيروت)

بیوی کا عض تناسل کو منھ میں لینا

 یہ حرکت مکروہِ تحریمی  اور بہیمانہ عمل ہے۔ لہٰذا اس سے احتراز کیا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في النوازل إذا أدخل الرجل ذكره في فم امرأته قد قيل يكره وقد قيل بخلافه كذا في الذخيرة."

(کتاب الكراهية، باب المتفرقات، 5/ 453، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

Tuesday 30 July 2024

کھڑے ہوکر پانی پینا

 کھڑے ہو کر پانی پینے کے متعلق کتبِ حدیث میں  دونوں طرح کی احادیث مروی ہیں، اُن میں سے بعض میں کھڑے ہوکر پانی پینے کی ممانعت  وارد ہوئی ہے، اور بعض میں کھڑے ہوکر پانی پینے کی اجازت موجود ہے، لہٰذا دونوں جانب  کی احادیث کو  مدِ نظر رکھتے ہوئے فقہائے کرام نے یہ حکم بیان فرمایا ہے  کہ  اگر کوئی مجبوری ہو (مثلاً رش ہو  یا جگہ کیچڑوالی ہو، یابیٹھنے کے لیے جگہ میسر نہ ہو) تو ایسی صورت میں  کھڑے ہوکر پانی پینا بلا کراہت جائز ہے، لیکن   بغیر کسی مجبوری کے کھڑے ہوکر پانی پینا  اور اس کی عادت بنا لینا مکروہِ تنریہی (یعنی خلافِ ادب) ہے؛ کیوں  کہ اس سے انسان کے جسم میں بیماریاں پیدا ہونے اور اس كو  ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہے؛لہٰذا    بیٹھ کر پانی پینا ہی باعثِ خیر و ثواب ہے، لیکن  اگر کسی نے  بغیر مجبوری کے کھڑے ہوکر پانی پی لیا  تب بھی وہ گناہ گار نہیں کہلائے گا اور نہ ہی  اُس کی پکڑ ہوگی، بلکہ صرف بیٹھ کر پانی پینے  سے جو ثواب ملتا ہے،  اس سے محروم ہوجاۓگا۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب کھڑے ہوکر پانی پینے کا واقعہ کتبِ حدیث میں سنداًومتناً صراحت کےساتھ موجودہے، لیکن اس عمل کو  عمومی اَحوال پر محمول نہیں کیا جاسکتا، دراصل  اہلِ کوفہ  کھڑے ہوکر پانی پینے کو  ناجائز  امر سمجھتے تھے،  صرف ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر پانی پی کر دکھایا؛ تاکہ  ان کے دل و دماغ سے یہ خلجان دور ہوسکے۔ اور  آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس لیے تھا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ جائز ہے، عادت کے طور پر نہیں تھا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا أبو نعيم: حدثنا مسعر، عن عبد الملك بن ميسرة عن النزال قال: أتى علي رضي الله عنه على باب الرحبة بماء فشرب قائما، فقال: إن ناسا يكره أحدهم أن يشرب و هو قائم، وإني رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فعل كما رأيتموني فعلت."

(كتاب الأشربة، باب: الشرب قائما، ج:5، ص:2130، ط: دار ابن كثير)

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا بأس بالشرب قائما، ولا يشرب ماشيا ورخص للمسافرين، ولا يشرب بنفس واحد، ولا من فم السقاء والقربة؛ لأنه لا يخلو عن أن يدخل حلقه ما يضره، كذا في الغياثية."

(کتاب الکراهیة، الباب الحادي عشر فی الکراهة فی الأکل و مایتصل به، ج:5 ص:341 ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما المكروه كراهة تنزيه فإلى الحل أقرب اتفاقا

(قوله: فإلى الحل أقرب) بمعنى أنه لا يعاقب فاعله أصلا، لكن يثاب تاركه أدنى ثواب تلويح، وظاهره أنه ليس من الحلال، ولا يلزم من عدم الحل الحرمة ولا كراهة التحريم، لأن المكروه تنزيها كما في المنح مرجعه إلى ترك الأولى."

(کتاب الحظر و الإباحة، ج:6، ص:337 ط: دارالفکر)

مردہ مرغی سے نکلے انڈے کا حکم

 مردہ مرغی سے صحیح سالم انڈہ نکلےتواس کا کھانا درست ہے۔

مبسوط سرخسی ميں  ہے:

"لو ‌ماتت ‌دجاجة، فوجد في بطنها بيضة، فلا بأس بأكل البيضة عندنا."

(كتاب الأشربة، ج :24، ص: 28، ط: دار المعرفة)

المحیط البرھانی میں ہے:

"إذا ‌ماتت ‌دجاجة وخرج منها بيضة؛ جاز أكلها عند أبي حنيفة رضي الله عنه اشتد قشرها أو لم يشتد."

(كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل الثاني عشر في الكراهية في الأكل، 353/5، ط: دار الكتب العلمية)

سسر کا بہو کو خون کا عطیہ دینا

 بہو کو اگر خون کی ضرورت ہو تو سسر کا اسے خون عطیہ کرنا درست ہے، شرعاً اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے،چونکہ خون انسانی بدن کا جزو ہے، اور انسان کے لیے  اپنے جسم کا کوئی بھی جزو عطیہ دینا جائز  نہیں ہے، البتہ اگر کوئی مریض اضطراری حالت میں ہو اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیے بغیر اس کی جان جانے یا مرض طویل ہوجانے کا اندیشہ ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہ ہو تو ایسی صورت  میں خون بطور عطیہ دینا جائز ہوجاتا ہے، اور اس طرح ایک مسلمان کی جان بچانے پر ثواب کی بھی امید ہے۔

"مجمع الأنهر فى شرح ملتقى الأبحر" میں ہے:

"وفي شرح المنظومة ‌الإرضاع ‌بعد ‌مدته ‌حرام؛ لأنه جزء الآدمي والانتفاع به غير ضرورة حرام على الصحيح وأجاز البعض التداوي به؛ لأنه عند الضرورة لم يبق حراما."

(كتاب الرضاع، باب مايحرم بالرضاع، ج:1، ص:376، ط:دار إحياء التراث العربي)

"حاشيه ردالمحتار على الدرالمختار" میں ہے:

"(و لم يبح الإرضاع بعد موته) لأنه جزء آدمي والإنتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية. وفي البحر: لا يجوز ‌التداوي ‌بالمحرم في ظاهر المذهب، أصله بول المأكول كما مر (قوله: و في البحر) عبارته: وعلى هذا أي الفرع المذكور لا يجوز الإنتفاع به للتداوي. قال في الفتح: وأهل الطب يثبتون للبن البنت أي الذي نزل بسبب بنت مرضعة نفعا لوجع العين. واختلف المشايخ فيه، قيل لا يجوز، وقيل يجوز إذا علم أنه يزول به الرمد.

و لايخفى أن حقيقة العلم متعذرة، فالمراد إذا غلب على الظن و إلا فهو معنى المنع اهـ. ولا يخفى أن ‌التداوي ‌بالمحرم لا يجوز في ظاهر المذهب، أصله بول ما يؤكل لحمه فإنه لايشرب أصلًا. اهـ. (قوله: بالمحرم) أي المحرم استعماله طاهرا كان أو نجسا ح (قوله: كما مر) أي قبيل فصل البئر حيث قال: فرع اختلف في ‌التداوي ‌بالمحرم. وظاهر المذهب المنع كما في إرضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما خص الخمر للعطشان وعليه الفتوى. اهـ. ح."

(کتاب النکاح، باب الرضاع، ج:3،ص:211،ط:سعید)

فقط والله تعالى اعلم

بھیک کے پیسوں سے قربانی کرنا

 بھیک مانگنے کو مستقل اپنا پیشہ بنانا ناجائز اور حرام ہے، شریعتِ مطہرہ میں ا س عمل کی قطعاً اجازت نہیں ہے، البتہ اب تک جو پیسہ آپ اس طرح لوگوں سے حاصل کرچکے ہیں، وہ آپ کی ملکیت ہے، آپ اسے  اپنی مرضی سے خرچ کر سکتے ہیں اور ان پیسوں سے قربانی بھی کر سکتے ہیں۔ 

البتہ آئندہ آپ کو چاہیے کہ  اس عمل سے صدقِ دل سے اللہ کے حضور توبہ و استغفار کریں اور آئندہ یہ عمل نہ کرنے کا پختہ عزم کریں اور کوئی حلال روزگار تلاش کر کے اسے اپنا ذریعہ آمدن بنائیں۔

مسندأحمد میں ہے:

"عن المقدام بن معدي كرب، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ‌ما ‌أكل ‌أحد ‌منكم ‌طعاما أحب إلى الله عز وجل من عمل يديه."

(مسند الشاميين،‌‌ حديث المقدام بن معديكرب الكندي أبي كريمة  عن النبي صلى الله عليه وسلم، ج:28، ص:418، رقم الحديث:17181، ط: مؤسسة الرسالة)

بخاری شریف میں ہے:

"عن المقدام رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (‌ما ‌أكل ‌أحد ‌طعاما ‌قط، خيرا من أن يأكل من عمل يده، وإن نبي الله داود عليه السلام كان يأكل من عمل يده)."

(كتاب البيوع، باب: كسب الرجل وعمله بيده، ج:1، ص:278، ط:قديمي)

وفیہ أیضاً:

"عن عبيد الله بن أبي جعفر قال: سمعت حمزة بن عبد الله بن عمر قال: سمعت عبد الله بن عمر رضي الله عنه قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم: (ما يزال الرجل يسأل الناس، حتى يأتي يوم القيامة ‌ليس ‌في ‌وجهه ‌مزعة ‌لحم) إلخ."

(كتاب الزكاة،باب: من سأل الناس تكثرا،ج:1، ص:199، ط:قديمي)

عدت میں نامحرم سے بات کرنا

 نامحرم سے بلاضرورت بات چیت کرنے کی ممانعت صرف عدت کے ساتھ ہی خاص نہیں  ہرحال میں عورت کا نامحرم سے بلاضرورت بات چیت کرنا جائز نہیں ہے اورضرورت کے وقت نامحرم سے بات چیت کرنا جائز ہے اگرچہ عورت عدت میں ہی کیوں نہ ہو۔

فتاوى شامی میں ہے :

"فإنا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك"ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة.اھ"

(کتاب الصلاۃ  ،مطلب : في ستر العورۃ  ،ج :2 ، ص:97،ط: رشیدیه)

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:

"إذا كان مبعث الأصوات هو الإنسان، فإن هذا الصوت إما أن يكون غير موزون ولا مطرب، أو يكون مطربا.

فإن كان الصوت غير مطرب، فإما أن يكون صوت رجل أو صوت امرأة، ‌فإن ‌كان ‌صوت ‌رجل: فلا قائل بتحريم استماعه أما إن كان صوت امرأة، فإن كان السامع يتلذذ به، أو خاف على نفسه فتنة حرم عليه استماعه، وإلا فلا يحرم،  ويحمل استماع الصحابة رضوان الله عليهم أصوات النساء حين محادثتهن على هذا، وليس للمرأة ترخيم الصوت وتنغيمه وتليينه، لما فيه من إثارة الفتنة، وذلك لقوله تعالى: {فلا تخضعن بالقول فيطمع الذي في قلبه مرض}."

(أنواع الاستماع، ‌‌ استماع صوت المرأة، ج:4، ص:90، ط:دارالسلاسل - الكويت)

گدھی کا دودھ دوا کے طور پر استعمال کرنا

 گدھی کا دودھ پینا مکروہِ تحریمی ہے ، الا یہ کہ بیماری مہلک یا ناقابلِ برداشت ہو  اور  مسلمان،   ماہر دین دار  طبیب یہ کہہ دے کہ اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے اور یہ یقین ہو جائے کہ  شفا حرام چیز میں ہی منحصر ہے، اور کوئی متبادل موجود نہیں ہےتو مجبوراً بطورِ دوا و علاج بقدرِ ضرورت حرام اشیاء کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے،  ورنہ نہیں،لہذا اگر ماہر ،دین دار ڈاکٹر کسی شخص کے متعلق یہ تجویز کردے کہ اس کی بیماری کا علاج   گدھی کے دودھ کےعلاوہ میں نہیں ہے تو بقدرِ ضرورت دین دار،  ڈاکٹر کی تجویز کے مطابق  گدھی کے دودھ  کوبطورِ دوا استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"اختلف في التداوي بالمحرم، وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل: يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان، وعليه الفتوى.

مطلب في التداوي بالمحرم (قوله: ورده في البدائع إلخ) قدمنا في البيع الفاسد عند قوله ولبن امرأة أن صاحب الخانية والنهاية اختارا جوازه إن علم أن فيه شفاء ولم يجد دواء غيره قال في النهاية: وفي التهذيب يجوز للعليل شرب البول والدم والميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن فيه شفاءه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه، وإن قال الطبيب: يتعجل شفاؤك به فيه وجهان، وهل يجوز شرب العليل من الخمر للتداوي؟ فيه وجهان، وكذا ذكره الإمام التمرتاشي وكذا في الذخيرة، وما قيل: إن الاستشفاء بالحرام حرام غير مجرى على إطلاقه وأن الاستشفاء بالحرام إنما لايجوز إذا لم يعلم أن فيه شفاء، أما إن علم وليس له دواء غيره يجوز، ومعنى قول ابن مسعود - رضي الله عنه - لم يجعل شفاؤكم فيما حرم عليكم يحتمل أن يكون قال ذلك في داء عرف له دواء غير المحرم؛ لأنه حينئذٍ يستغني بالحلال عن الحرام، ويجوز أن يقال: تنكشف الحرمة عند الحاجة فلايكون الشفاء بالحرام، وإنما يكون بالحلال اهـ نور العين من آخر الفصل التاسع والأربعين".

(‌مطلب ‌في ‌التداوي ‌بالمحرم، ج:5، ص:228، ط: دار الفکر)

عمامہ کاطرہ کس جانب رکھیں

 عمامے کا طرہ دائیں جانب اور دونوں کندھوں کے درمیان رکھنا مسنون ہے اور بائیں جانب رکھنا  بھی جائز ہے،کبھی اوپرآگے کی جانب لگانا بھی آتاہے۔

لمعات التنقیح فی شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قوله: (سدل عمامته) أي: أرسل طرفها بين كتفيه، قد ثبت من فعله صلى الله عليه وسلم إرسال العذبة، ولكن لم يكن دائما بل كان يرسل تارة ولم يرسل أخرى، وتارة شدها تحت العنق، وتارة يغرز أحد طرفي العمامة فيها، ويرسل الطرف الآخر، وفي كل ذلك وردت أحاديث، وكانت عذبته صلى الله عليه وسلم غالبا خلف ظهره، وقد يرسلها على جانبه الأيمن، وكان يرسل في بعض الأحيان عذبتين بين الكتفين، وإرسال العذبة على الجانب الأيسر بدعة كذا قالوا، وأقله أربع أصابع وأكثرها ذراع، وتطويلها متجاوزا عن نصف الظهر بدعة، وإسبال محرم، فإن كان على وجه الخيلاء فهو محرم وإلا فمكروه مخالف للسنة، وقيل: تخصيص الإرسال بحالة الصلاة ليس بشيء ولا يوافق السنة، والصواب أن إرسال العذبة مستحب، ومن السنن الزوائد دون المؤكدة، وقال في (كنز الدقائق) : وندب لبس السواد وإرسال ذنب العمامة بين كتفيه وهكذا في غيره من كتب الحنفية، والله أعلم."

(کتاب اللباس، الفصل الثانی، ج:7، ص:351، ط:دار النوادر، دمشق)

سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد  میں ہے:

"الثالث: إرسالها من الجانب الأيسر، وعليه عمل كثير من السادات الصوفية، لما قام عندهم في ذلك.روى الطبراني بسند حسن، والضياء المقدسيّ رحمه الله تعالى في صحيحه عن عبد الله بن بسر رضي الله تعالى عنه قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا رضي الله تعالى عنه إلى خيبر فعمّمه بعمامة سوداء، ثم أرسلها من ورائه، أو قال: على كتفه اليسرى، لكن روايه تردّد وما جزم بالثاني.وسئل الحافظ ابن حجر رحمه الله تعالى في مسند الصوفية في إرخاء العذبة على الشّمال فقال: لا يلزمهم بيانه، لأن هذا من جملة الأمور المباحة، فمن اصطلح على شيء منها لم يمنع منه، ولا سيّما إذا كان شعارا لهم انتهى."

(‌‌جماع أبواب سيرته صلى الله عليه وسلم في لباسه وذكر ملبوساته، الباب الثاني في سيرته صلى الله عليه وسلم في العمامة والعذبة والتلحّي، ‌‌تنبيهات، ج:7، ص:279، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

کسی کے مسلمان ہونے میں شک کرنا

 بغیر کسی ثبوت کے خواہ مخواہ   اس کسی کے مسلمان ہونے  میں شک کرنادرست نہیں ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أسامة بن زيد قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أناس من جهينة فأتيت على رجل منهم فذهبت أطعنه فقال: لا إله إلا الله فطعنته فقتلته فجئت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرته فقال: «أقتلته وقد شهد أن لا إله إلا الله؟» قلت: يا رسول الله إنما فعل ذلك تعوذا قال: «فهلا شققت عن قلبه."

(‌‌كتاب القصاص،‌‌‌‌ الفصل الأول، 1028/2، الرقم :3450، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ : ’’حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم قبیلہ جہینہ سے لڑنے گئے۔ چنانچہ میں ان میں سے ایک شخص کے پاس آیا اور میں نے اسے نیزہ مارنے کا ارادہ کیا تو اس نے لا الہ الا اللہ کہا۔ میں نے اس کے باوجود اسے نیزہ مار کر قتل کر ڈالا ۔ پھر میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اسامہ! کیا تم نے اسے قتل کر دیا ؟ حالانکہ وہ الہ الا اللہ کہنے والا تھا۔ میں نے عرض کیا اس نے اپنے آپ کو قتل سے بچانے کے لئے ایسا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کیا تم نے اس کے دل کو چیرا ؟ ( کہ جس سے معلوم ہو گیا کہ اس نے ڈر کی وجہ سے پڑھا ہے ) ۔‘‘(مظاہر حق)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

عودلگانا

 عود ایک خوشبو ہے اور  خوشبو لگانا پسندیدہ عمل اور سنت ہے،   البتہ کسی جگہ ایسی خوشبو لگا کر جانا کہ جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتو ایسی خوشبو لگانے سے گریز کیا جائے۔

لہٰذا دیسی ساختہ یا پاک اجزا پر مشتمل کوئی بھی عمدہ عطر  استعمال کرنا چاہیے، البتہ رسول اللہ ﷺ سے جن عطور کا استعمال ثابت ہے، اسے اتباع کی نیت سے اختیار کرنے میں ثواب زیادہ ہوگا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌عائشة قالت: (كنت ‌أطيب النبي صلى الله عليه وسلم بأطيب ما يجد حتى أجد وبيص الطيب في رأسه ولحيته)."

(‌‌كتاب اللباس، ‌‌باب الطيب في الرأس واللحية، ج:7، ص:164، ط: دار طوق النجاة - بيروت)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن يزيد بن أبي عبيد، مولى سلمة، عن سلمة: (أنه كان ‌إذا ‌توضأ ‌أخذ ‌المسك فمسح به وجهه ويديه)."

(كتاب الأدب، ‌‌التطيب بالمسك، ج:5، ص:305، ط: ‌‌‌دار التاج - لبنان)

اُسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے:

"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخر شب میں بھی خوشبو لگایاکرتے تھے،سونےسے بیدار ہوتے تو قضاء حاجت سے فراغت کے بعد وضو کرتے اور پھر خوشبو لباس پر لگاتے۔"

(زیر عنوان:عادات برگزیدہ خوشبو کے بارے میں :حصہ دوئم، ص:168، طبع:الطاف اينڈ سنز، كراچي)

شمائل کبریٰ میں ہے:

"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہےکہ میں بہترین خوشبو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کولگاتی یہاں تک کہ خوشبو کانشان داڑھی اور سرمبارک پرہوتا۔"

(زیر عنوان: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کوبکثرت عطر کااستعمال فرماتے، ج:اول، حصہ دوئم، ص:351، طبع: المیزان ،کراچی)

کوہ پیما مہم جوئی کرنا

 کوہِ پیمائی کرنے کی مہم جوئی میں عموماً کوہِ پیما اپنے آپ کو نقصان میں ڈالتے ہیں اور ازرُوئے شرع کسی بھی انسان کو اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے آپکو نقصان پہنچائے، لہذامذکورہ مہم جوئی پر جانا  جہاں جانی نقصان کا خطرہ ہو، اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کی وجہ سے شرعاً جائز نہیں ہے،  وہاں جانے سے اجتناب کرنا لازمی ہے،اور اگر اس طرح کی مہم جوئی سے مقصود  محض شہرت پسند اور نام کمانا ہو تو پھر یہ بالکل ناجائز ہے اور اگر مقصدروزگار کمانا ہے تو اپنے لئے خطرات سے خالی روزگار کی تلاش کرنی چاہیے، ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ معاون ومدد گار بھی ہوں گے۔

تفسیرِ معالم التنزیل (تفسير البغوي ) میں ہے:

"وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (195)

قَوْلُهُ تَعَالَى: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَرَادَ بِهِ الْجِهَادَ وَكُلَّ خَيْرٍ هُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَكِنَّ إِطْلَاقَهُ يَنْصَرِفُ إِلَى الْجِهَادِ، وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ، قِيلَ: الْبَاءُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: بِأَيْدِيكُمْ زَائِدَةٌ، يُرِيدُ: وَلَا تُلْقُوا أَيْدِيَكُمْ، أَيْ: أَنْفُسَكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ عَبَّرَ بالأيدي عن الأنفس  ، كقوله تعالى: فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [الشُّورَى: 30] ، أَيْ: بِمَا كَسَبْتُمْ، وَقِيلَ: الْبَاءُ فِي مَوْضِعِهَا، وفيه حذف، أي: ولا تُلْقُوا أَنْفُسَكُمْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ، أَيِ الْهَلَاكِ، وَقِيلَ: التَّهْلُكَةُ كُلُّ شَيْءٍ يَصِيرُ عَاقِبَتُهُ إِلَى الْهَلَاكِ، أَيْ: وَلَا تَأْخُذُوا فِي ذَلِكَ، وَقِيلَ: التَّهْلُكَةُ مَا يُمْكِنُ الِاحْتِرَازُ عَنْهُ، وَالْهَلَاكُ مَا لَا يُمْكِنُ الِاحْتِرَازُ عَنْهُ، وَالْعَرَبُ لَا تَقُولُ لِلْإِنْسَانِ:أَلْقَى بِيَدِهِ إِلَّا فِي الشر"

(سورة البقرة ، رقم الآية:  195، ج:1، ص:239، ط:داراحیاء التراث العربی)

فقط

عورتوں کا نکاح میں شرکت کے لیے مسجد جانا

 جب نماز جیسی اہم ترین عبادت کی ادائیگی کے لیے عورتوں کے مسجد میں جانے سے منع کردیا گیا اور فقہاء کرام نے نصوص کی روشنی میں  اس کو مکروہ تحریمی قرار دیا  ہے تو   موجودہ  پر فتن دور   جس میں  فتنہ ، فساد ، اور بے حیائی عام ہے، اور مرد وزن میں دین بیزاری  کا عنصر غالب ہے، عورتوں میں فیشن ، اور بن سنور  کر باہر نکلنے کا رواج ہے  ،  پھر خاص نکاح کے مواقع پر عورتیں بننے سنورنے کا اہتمام  بھی زیادہ کرتی ہیں،اس میں فتنہ کا اندیشہ بھی زیادہ ہے،  لہذا   عورتوں  کا اہتمام سے  نکاح میں شرکت کے لیے مسجد   جانا جائز نہیں ۔

المستدرك للحاكم میں ہے:

" عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها ، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها."

(‌‌كتاب الطهارة،  ‌‌ومن كتاب الإمامة، وصلاة الجماعة،  1/  324، ط: دار الكتب العلمية)

صحيح البخاری میں ہے: 

"عن عائشة ـ رضي الله عنها ـ قالت: لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل، قلت لعمرة: أو منعن؟ قالت: نعم."

(كتاب صفة الصلاة، باب: انتظار الناس قيام الإمام العالم،  1/ 296، ط :دار ابن كثير) 

الدر المختار مع رد المحتار  میں ہے:

"(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقاً) ولو عجوزاً ليلاً (على المذهب) المفتى به؛ لفساد الزمان، واستثنى الكمال بحثاً العجائز والمتفانية."

و في الرد:

"(قوله: ولو عجوزاً ليلاً) بيان للإطلاق: أي شابةً أو عجوزاً نهاراً أو ليلاً (قوله: على المذهب المفتى به) أي مذهب المتأخرين. قال في البحر: وقد يقال: هذه الفتوى التي اعتمدها المتأخرون مخالفة لمذهب الإمام وصاحبيه، فإنهم نقلوا أن الشابة تمنع مطلقاً اتفاقاً. وأما العجوز فلها حضور الجماعة عند الإمام إلا في الظهر والعصر والجمعة أي وعندهما مطلقاً، فالإفتاء بمنع العجائز في الكل مخالف للكل، فالاعتماد على مذهب الإمام. اهـ.