https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday, 14 February 2025

مشترکہ کاروبار میں نفع کی تقسیم

 باہمی رضامندی سے نفع کا جو تناسب شرکاء طے کرلیں درست ہے۔ چونکہ کاروبای ذمہ داری آپ کے ذمہ ہے، اس لیے آپ اپنے لیے نفع کا جو بھی تناسب طے کرنا چاہیں کرسکتے ہیں، البتہ آپ کے شریک کے ذمہ کاروباری سرگرمی نہیں ہے، اس لیے ان کے لیے نفع کا تناسب ان كے سرمایہ کے تناسب کے برابر یا اس سے کم طے کیا جاسکتا ہے، اس سے زائد طے کرنا درست نہیں۔ماہانہ یا سالانہ بنیاد پر منافع تقسیم کرتے وقت مشترکہ سرمایہ سے جتنا سامان خریدا گیا ہے، ان سب کی قیمت لگائی جائے گی اور اس میں راس المال کو الگ کیا جائے گا اور اس سے زائد رقم کو طے شدہ تناسب سے تقسیم کیا جائے گا۔

مثال کے طور پر آپ کا کتابوں کا کاروبار ہے، آپ نے اس کاروبار میں ایک شخص کو شریک کیا ہوا ہے، نفع کا تناسب آدھا آدھا طے کیا ہے، آپ کی دکان میں 5 لاکھ روپے کی کتابیں موجود ہیں جس میں سے ڈھائی لاکھ روپے آپ کے ہیں اور باقی ڈھائی لاکھ روپے آپ کے شریک کے ہیں۔ ایک سال میں چارلاکھ روپےکی کتابیں فروخت ہوئی اور اس میں آپ کو 6 لاکھ روپے کا منافع ہواتو اس میں5 لاکھ روپے کو الگ کیا جائےگا۔ اس لیے کہ یہ آپ کا مشترکہ سرمایہ ہے اور ایک لاکھ روپے آپ کے اور آپ کے شریک کے درمیان آدھے آدھےتقسیم ہوں گے۔ اس لیے کہ یہ آپ کا مشترکہ نفع ہے۔
حوالہ جات
"المادة (1372) إذا كان رأس مال الشريكين متفاضلا كأن كان رأس مال أحدهما مائة ألف درهم ورأس مال الآخر مائة وخمسين ألف درهم فإذا شرط تقسيم الربح بينهما بالتساوي فيكون بمعنى أنه شرط زيادة حصة في الربح للشريك صاحب رأس المال القليل بالنسبة إلى رأس ماله ويكون ذلك كشرط ربح زائد لأحد الشريكين حال كون رأس مالهما متساويا , فلذلك إذا عمل شرط كليهما أو شرط عمل الشريك صاحب الحصة الزائدة في الربح أي صاحب رأس المال القليل صحت الشركة واعتبر الشرط , وإذا شرط العمل على صاحب الحصة القليلة من الربح أي صاحب رأس المال الكثير فهو غير جائز ويقسم الربح بينهما بنسبة مقدار رأس مالهما."
(مجلة الأحكام العدلية (ص: 264)نور محمد)
"(قوله: ومع التفاضل في المال دون الربح) أي بأن يكون لأحدهما ألف وللآخر ألفان مثلا واشترطا التساوي في الربح، وقوله وعكسه: أي بأن يتساوى المالان ويتفاضلا في الربح، لكن هذا مقيد بأن يشترط الأكثر للعامل منهما أو لأكثرها عملا، أما لو شرطاه للقاعد أو لأقلهما عملا فلا يجوز كما في البحر عن الزيلعي والكمال."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/312 ط:دار الفکر بیروت) (
"وإن شرطا العمل على أحدهما، فإن شرطاه على الذي شرطا له فضل الربح؛ جاز، والربح بينهما على الشرط فيستحق ربح رأس ماله بماله والفضل بعمله، وإن شرطاه على أقلهما ربحا لم يجز؛ لأن الذي شرطا له الزيادة ليس له في الزيادة مال.ولا عمل ولا ضمان؛ وقد بينا أن الربح لا يستحق إلا بأحد هذه الأشياء الثلاثة"
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع6/63 ط:دارالکتب العلمیۃ)
"وعندنا " شركة العقد تصح باعتبار الوكالة، وتوكيل كل واحد منهما صاحبه بالشراء، على أن يكون المشترى بينهما نصفين أو أثلاثا، صحيح. فكذلك الشركة التي تتضمن ذلك إلا أن في هذا العقد لا يصح التفاضل في اشتراط الربح بعد التساوي في ملك المشتري؛ لأن الذي يشترط له الزيادة ليس له في نصيب صاحبه رأس مال ولا عمل ولا ضمان. فاشتراط جزء من ذلك الربح له يكون ربح ما لم يضمن، ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن ذلك، فإن أراد التفاوت في الربح فينبغي أن يشترط التفاوت في ملك المشترى؛ بأن يكون لأحدهما الثلث، وللآخر الثلثان؛ حتى يكون لكل واحد منهما الربح بقدر ملكه. وهذه الشركة " عندنا " تجوز عنانا ومفاوضة."
المبسوط للسرخسي11/154 ط:دار المعرفۃ) (
"وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط،"
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/312 ط:دار الفکر بیروت) (
" (وتفسد باشتراط دراهم مسماة من الربح لأحدهما) لقطع الشركة كما مر لا لأنه شرط لعدم فسادها بالشرط، وظاهره بطلان الشرط لا الشركة بحر ومصنف. قلت: صرح صدر الشريعة وابن الكمال بفساد الشركة ويكون الربح على قدر المال….. وبيان القطع أن اشتراط عشرة دراهم مثلا من الربح لأحدهما يستلزم اشتراط جميع الربح له على تقدير أن لا يظهر ربح إلا العشرة، والشركة تقتضي الاشتراك في الربح وذلك يقطعها فتخرج إلى القرض أو البضاعة كما في الفتح."
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/316 ط:دار الفکر بیروت)

مشترکہ کاروبار میں سے ذاتی اخراجات منھا کرنا

 شراکت داری کے دوران شرکاء بھائیوں  نے باہمی رضامندی سے جو ذاتی نوعیت کے اخراجات (  بچوں کی شادی، حج  وغیرہ)  باہمی رضامندی سے  کیے تھے، مشترکہ کاروبار کی  تقسیم کے وقت ان اخراجات کو  حساب میں  شامل نہیں کیا جائے گا، البتہ مشترکہ کاروبار سے جو مکان بنایا گیا ہے، اگر وہ سب کے  لیے بنایا گیا ہے، تو یہ مشترکہ مکان ہوگا، اور اگر بنانے والے نے اپنے  لیے بنایا تھا، تو اس کا شمار ہوگا۔

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامديةمیں ہے:

"(سئل) في إخوة خمسة سعيهم وكسبهم واحد وعائلتهم واحدة حصلوا بسعيهم وكسبهم أموالا فهل تكون الأموال المذكورة مشتركة بينهم أخماسا؟

(الجواب) : ما حصله الإخوة الخمسة بسعيهم وكسبهم يكون بينهم أخماسا ."

( كتاب الشركة، شركة العنان، ١ / ٩٤، ط: دار المعرفة)

Tuesday, 11 February 2025

شب برات کی فضیلت

 شعبان کی پندرہویں شب”شب برأت“کہلاتی ہے۔یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔تقریبًادس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پرموجودنہ پایاتوتلاش میں نکلی دیکھاکہ آپ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں پھرمجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتاہے۔“

دوسری حدیث میں ہے”اس رات میں اس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے۔“

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ” اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے وہ یہ ہیں۔مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور،شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔“

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟

ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرام ؓاوربزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں:

۱۔قبرستان جاکرمردوں کے لیے ایصالِ  ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائے۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لیے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے۔لیکن پھول پتیاں،چادرچڑھاوے،اورچراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب برأت کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے۔جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اس کانام اتباع اوردین ہے۔

۲۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے،اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔

۳۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(۱۳،۱۴،۱۵) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے ،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثوب ہوگا۔باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔

بہر حال اس رات کی فضیلت بے اصل نہیں ہے اور سلف صالحین نے اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھا یا ہے۔

فإن ليلة النصف من شعبان قد ورد في فضلها عدة أحاديث، منها ما هو صالح للاحتجاج، ومنها ما هو ضعيف لا يحتج به . فمما هو صالح للاحتجاج ما رواه البيهقي في شعب الإيمان عن أبي ثعلبة الخشني رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان ليلة النصف من شعبان اطلع الله إلى خلقه، فيغفر للمؤمنين، ويملي للكافرين، ويدع أهل الحقد بحقدهم حتى يدعوه" ورواه الطبراني، وحسنه الألباني- رحمه الله- في صحيح الجامع برقم 771. وعن أبي موسى رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه، إلا لمشرك أو مشاحن" رواه ابن ماجه، وابن حبان عن معاذ بن جبل رضي الله عنه.
هذا، وقد قال عطاء بن يسار: ما من ليلة بعد ليلة القدر أفضل من ليلة النصف من شعبان، يتنزل الله تبارك وتعالى إلى السماء الدنيا، فيغفر لعباده كلهم، إلا لمشرك أو مشاجر أو قاطع رحم.
فينبغي على العبد أن يتحلى بالطاعات التي تؤهله لمغفرة الرحمن، وأن يبتعد عن المعاصي والذنوب التي تحجبه عن هذه المغفرة. ومن هذه الذنوب: الشرك بالله، فإنه مانع من كل خير. ومنها الشحناء والحقد على المسلمين، وهو يمنع المغفرة في أكثر أوقات المغفرة والرحمة. فعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تفتح أبواب الجنة يوم الاثنين والخميس فيغفر الله لكل عبد لا يشرك بالله شيئا، إلا رجلا كانت بينه وبين أخيه شحناء فيقول: أنظروا هذين حتى يصطلحا". رواه مسلم. فأفضل الأعمال بعد الإيمان بالله سلامة الصدر من أنواع الشحناء كلها.
ولم يثبت في تخصيص هذه الليلة بصلاة معينة، أو دعاء معين، شيء عن النبي صلى الله عليه وسلم ولا عن أحد من أصحابه، وأول ظهور لذلك كان من بعض التابعين. قال ابن رجب في لطائف المعارف: ( وليلة النصف من شعبان كان التابعون من أهل الشام كخالد بن معدان، ومكحول، ولقمان بن عامر وغيرهم، يعظمونها ويجتهدون فيها في العبادة، وعنهم أخذ الناس فضلها وتعظيمها. وقد قيل: إنه بلغهم في ذلك آثار إسرائيلية، فلما اشتهر ذلك عنهم في البلدان اختلف الناس في ذلك فمنهم من قبله منهم ووافقهم على تعظيمها، منهم طائفة من عباد أهل البصرة وغيرهم، وأنكر ذلك أكثر العلماء من أهل الحجاز).
وقال ابن تيمية رحمه الله: ( وأما ليلة النصف من شعبان ففيها فضل، وكان في السلف من يصلي فيها، لكن الاجتماع فيها لإحيائها في المساجد بدعة).
وقال الشافعي رحمه الله: بلغنا أن الدعاء يستجاب في خمس ليال: ليلة الجمعة، والعيدين، وأول رجب ونصف شعبان.
وأما صيام يوم النصف من شعبان فيسن على أنه من الأيام البيض الثلاثة، وهي: الثالث عشر، والرابع عشر، والخامس عشر، لا على أنه يوم النصف من شعبان، فإن حديث الصيام فيه لا يصلح للاحتجاج، بل هو حديث موضوع، وهو قوله (إذا كان ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلتها وصوموا

Monday, 10 February 2025

أحاديث الرسول عن النساء

 : قال أبو هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: (مَن كانَ يُؤْمِنُ باللَّهِ واليَومِ الآخِرِ، فلا يُؤْذِي جارَهُ، واسْتَوْصُوا بالنِّساءِ خَيْرًا، فإنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِن ضِلَعٍ، وإنَّ أعْوَجَ شيءٍ في الضِّلَعِ أعْلاهُ، فإنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وإنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أعْوَجَ، فاسْتَوْصُوا بالنِّساءِ خَيْرًا).[١] رُوِي عن المقدام بن معد يكرب الكندي، عن رسول الله صلى الله عليه وسلّم أنّه قال: (إنَّ اللهَ يُوصِيكُم بالنساءِ خيرًا، إنَّ اللهَ يُوصِيكُم بالنساءِ خيرًا، فإنهنَّ أمهاتُكم وبناتُكم وخالاتُكم، إنَّ الرجلَ من أهلِ الكتابِ يتزوجُ المرأةَ وما تُعلَّقُ يداها الخيطَ، فما يرغبُ واحدٌ منهما عن صاحبِه حتّى يموتا هَرمًا).[٢] عن أبيّ بن كعب، أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلّم قال: (ألا واستَوْصُوا بالنِّساءِ خَيرًا؛ فإنَّهُنَّ عَوَانٍ عندَكُم، ليس تَمْلِكون مِنهُنَّ شيئًا غيرَ ذلكَ، إلَّا أنْ يأتِينَ بفاحشةٍ مُبَيِّنةٍ، فإنْ فَعَلْنَ فاهجُروهُنَّ في المَضاجعِ، واضرِبوهُنَّ ضربًا غيرَ مُبَرِّحٍ، فإنْ أَطَعْنَكُم فلا تَبْغوا عليهِنَّ سبيلًا. ألَا إنَّ لكُم على نسائِكُم حقًّا، ولهُنَّ عليكُم حقًّا؛ فأمَّا حقُّكُم على نسائِكُم فلا يُوطِئْنَ فُرُشَكُم مَن تَكرَهون، ولا يَأْذَنَّ في بُيوتِكُم لمَن تَكرَهون، ألَا وإنَّ حقَّهُنَّ عليكُم أنْ تُحْسِنوا إليهِنَّ في كِسْوَتِهِنَّ وطَعامِهِنَّ).[٣] (اللَّهمَّ إنِّي أُحرِّجُ حقَّ الضَّعيفَيْنِ: اليتيمِ، والمرأةِ).[٤] أحاديث في المرأة الصالحة ممّا روي عن الرسول صلى الله عليه وسلم في المرأة الصالحة وصفاتها: (الدُّنيا كلُّها متاعٌ، وخيرُ متاعِ الدنيا المرأةُ الصالحةُ).[٥] (أربعٌ مِن السَّعادةِ: المرأةُ الصَّالحةُ، والمسكَنُ الواسعُ، والجارُ الصَّالحُ، والمركَبُ الهنيءُ، وأربعٌ مِن الشَّقاوةِ: الجارُ السَّوءُ، والمرأةُ السَّوءُ، والمسكَنُ الضَّيِّقُ، والمركَبُ السَّوءُ).[٦] (قيل يا رسولَ اللهِ، أيُّ النساءِ خيرٌ؟ قال: التي تسرُّهُ إذا نَظَرَ، وتُطيعُهُ إذا أمرَ، ولا تُخالفُه في نفسِها ولا في مالِهِ بما يكرهُ).[٧] أحاديث عن تطيّب المرأة قال عليه الصلاة والسلام عن تطيب المرأة: (أيُّما امرأةٍ استعطَرَت فمرَّت علَى قومٍ ليجِدوا من ريحِها؛ فَهيَ زانيةٌ).[٨] عن زينب الثقفية امرأة عبد الله بن مسعود عن الرسول عليه الصلاة والسلام: (إذا خرجتْ إحْداكنَّ إلى المسجدِ، فلا تقْرَبنَّ طِيبًا)،[٩] حديث عن لباس المرأة المسلمة رُوِي عن السيدة عائشة رضي الله عنها، قولها عن رسول الله عليه الصلاة والسلام بخصوص لباس المرأة المسلمة: (إنَّ أسماءَ بنتَ أبي بكرٍ أُخْتَها دَخَلَتْ على النبيِّ في لِباسٍ رقيقٍ يَشِفُّ عن جسمِها فأعرض النبيُّ عنها وقال: يا أسماءُ إن المرأةَ إذا بلغتِ المَحِيضَ لم يَصْلُحْ أن يُرَى منها إلا هذا وهذا وأشار إلى وجهِه وكَفَّيْهِ).[١٠] حال النساء في آخر الزمن عن عبد الله بن عمرو عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنّه قال: (سيكونُ في آخِرِ أمَّتي رجالٌ يركَبونَ على سُروجٍ كأشباهِ الرِّحالِ، ينزِلونَ على أبوابِ المساجدِ؛ نساؤُهم كاسياتٌ عارياتٌ على رؤوسِهنَّ كأسنمةِ البُخْتِ العِجافِ، الْعَنُوهُنَّ فإنَّهنَّ ملعوناتٌ، لو كان وراءَكم أمَّةٌ مِن الأممِ خدَمهنَّ نساؤُكم كما خدَمكم نساءُ الأممِ قبْلَكم).[١١] أحاديث عن اختيار الزوجة بيّن الرسول الكريم أن اختيار الزوجة يكون لإيمانها ودينها قبل أي شيء، ومن ذلك: (تُنْكَحُ المَرْأَةُ لأرْبَعٍ: لِمالِها ولِحَسَبِها وجَمالِها ولِدِينِها، فاظْفَرْ بذاتِ الدِّينِ، تَرِبَتْ يَداكَ).[١٢] (يا رسولَ اللَّهِ، أيَّ المالِ نتَّخذُ؟ فَقالَ: ليتَّخِذْ أحدُكُم قَلبًا شاكرًا، ولِسانًا ذاكرًا وزَوجةً مُؤْمِنَةً تعينُ أحدَكُم علَى أمرِ الآخِرةِ).[١٣] (تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً في عَهْدِ رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، فَلَقِيتُ النبيَّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، فَقالَ: يا جَابِرُ تَزَوَّجْتَ؟ قُلتُ: نَعَمْ، قالَ: بكْرٌ، أَمْ ثَيِّبٌ؟ قُلتُ: ثَيِّبٌ، قالَ: فَهَلَّا بكْرًا تُلَاعِبُهَا؟ قُلتُ: يا رَسولَ اللهِ، : إنَّ لي أَخَوَاتٍ، فَخَشِيتُ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنِي وبيْنَهُنَّ، قالَ: فَذَاكَ إذَنْ، إنَّ المَرْأَةَ تُنْكَحُ علَى دِينِهَا، وَمَالِهَا، وَجَمَالِهَا، فَعَلَيْكَ بذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ).[١٤] أحاديث عن اختيار الزوج بيّن النبي -صلّى الله عليه وسلّم- أنّ للفتاة الحقّ في أن اختيار شريك حياتها بنفسها، فليس لأحدٍ أن يفرض عليها زوجاً ما لم تقبل به، فقد ورد أن فتاةً قدمت إلى عائشة رضي الله عنها، فأخبرتها أنّ أباها أجبرها على الزواج بابن أخيه، وهي له كارهة، فأجلستها عائشة -رضي الله عنها- إلى حين قدوم رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، فلمّا جاء أخبرتاه بما حصل، فدعا رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- والد الفتاة، وأخبره أن يجعل الأمر إليها، فقالت الفتاة: (قد أجَزتُ ما صنَعَ أبي، ولَكِن أردتُ أن تعلَمَ النِّساءُ أن ليسَ للآباءِ منَ الأمرِ شيءٌ)،[١٥] ومما قيل في ذلك أيضاً: (الأيمُ أحقُّ بنفسِها من وليِّها، والبكرُ تُستأذنُ، وإذنُها صماتُها وفي روايةٍ الثيبُ أحقُّ بنفسِها من وليِّها).[١٦] قال عليه أفضل الصلاة والسلام: (إذا أتاكُمْ مَنْ ترضونَ خُلُقَهُ ودينَهُ فزوِّجُوهُ، إنْ لا تفعلُوا تكُنْ فتنةٌ في الأرضِ وفسادٌ عريضٌ).[١٧] أحاديث في غيرة النساء روى مسلم عن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها في غيرة النساء: (أنَّ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ خَرَجَ مِن عِندِهَا لَيْلًا، قالَتْ: فَغِرْتُ عليه، فَجَاءَ فَرَأَى ما أَصْنَعُ، فَقالَ: ما لَكِ؟ يا عَائِشَةُ أَغِرْتِ؟ فَقُلتُ: وَما لي لا يَغَارُ مِثْلِي علَى مِثْلِكَ؟ فَقالَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ: أَقَدْ جَاءَكِ شيطَانُكِ قالَتْ: يا رَسولَ اللهِ، أَوْ مَعِيَ شيطَانٌ؟ قالَ: نَعَمْ قُلتُ: وَمع كُلِّ إنْسَانٍ؟ قالَ: نَعَمْ قُلتُ: وَمعكَ؟ يا رَسولَ اللهِ، قالَ: نَعَمْ، وَلَكِنْ رَبِّي أَعَانَنِي عليه حتَّى أَسْلَمَ).[١٨] عن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها، قالت: (ما غِرْتُ علَى أحَدٍ مِن نِسَاءِ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، ما غِرْتُ علَى خَدِيجَةَ، وما رَأَيْتُهَا، ولَكِنْ كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُكْثِرُ ذِكْرَهَا، ورُبَّما ذَبَحَ الشَّاةَ ثُمَّ يُقَطِّعُهَا أعْضَاءً، ثُمَّ يَبْعَثُهَا في صَدَائِقِ خَدِيجَةَ، فَرُبَّما قُلتُ له: كَأنَّهُ لَمْ يَكُنْ في الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إلَّا خَدِيجَةُ، فيَقولُ إنَّهَا كَانَتْ، وكَانَتْ، وكانَ لي منها ولَدٌ).[١٩] أحاديث في حقوق الزوجة وواجباتها عندما سُئِل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حقّ الزوجةِ على الزوج، قال: (أن تُطعمها إذا طَعِمتْ، وتكسُوها إذا اكْتَسيتَ، ولا تُقبّحْ، ولا تَهْجُرْ إلا في البيتِ).[٢٠] عن سعد بن أبي وقاص، قال: (عَادَنِي رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في حَجَّةِ الوَدَاعِ، مِن شَكْوَى أشْفَيْتُ منه علَى المَوْتِ، فَقُلتُ: يا رَسولَ اللَّهِ، بَلَغَ بي ما تَرَى مِنَ الوَجَعِ، وأَنَا ذُو مَالٍ، ولَا يَرِثُنِي إلَّا ابْنَةٌ لي واحِدَةٌ، أفَأَتَصَدَّقُ بثُلُثَيْ مَالِي؟ قالَ: لا قُلتُ: فَبِشَطْرِهِ؟ قالَ: الثُّلُثُ كَثِيرٌ، إنَّكَ أنْ تَذَرَ ورَثَتَكَ أغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِن أنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وإنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بهَا وجْهَ اللَّهِ إلَّا أُجِرْتَ، حتَّى ما تَجْعَلُ في فِي امْرَأَتِكَ).[٢١] عن عبد الله بن عمر أنَّهُ سَمِعَ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، يقولُ: (كُلُّكُمْ رَاعٍ ومَسْؤولٌ عن رَعِيَّتِهِ، فَالإِمَامُ رَاعٍ وهو مَسْئُولٌ عن رَعِيَّتِهِ، والرَّجُلُ في أهْلِهِ رَاعٍ وهو مَسْئُولٌ عن رَعِيَّتِهِ، والمَرْأَةُ في بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وهي مَسْئُولَةٌ عن رَعِيَّتِهَا، والخَادِمُ في مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وهو مَسْئُولٌ عن رَعِيَّتِهِ).[٢٢] (خيرُ النِّساءِ امرأةٌ إذا نظرتَ إليها سرَّتكَ، وإذا أمرتَها أطاعتْكَ، وإذا غِبتَ عنها حفِظتْكَ في نفسِها ومالِكَ، ثمَّ قرأَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ هذِهِ الآيةَ الرِّجالُ قوَّامونَ علَى النِّساءِ إلى آخرِها).[٢٣] قال الرسول الكريم صلى الله عليه وسلم: (فإني لو أَمرتُ شيئًا أن يسجدَ لشيءٍ ؛ لأمَرتُ المرأةَ أن تسجُدَ لزوجِها، والذي نفسي بيدِه، لا تُؤدِّي المرأةُ حقَّ ربِّها حتى تُؤَدِّيَ حقَّ زوجِها).[٢٤] قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إذا دعا الرجلُ امرأتَهُ إلى فراشِهِ فأَبَتْ، فبات غضبانَ عليها، لعنتها الملائكةُ حتى تُصبحَ).[٢٥] عن أبي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إنْ كَرِهَ منها خُلُقًا رَضِيَ منها آخَرَ، أَوْ قالَ: غَيْرَهُ).[٢٦] (إنّ المرأةَ خُلِقتْ من ضلعٍ، وإنَّك إن تُرِدْ إقامةَ الضلعِ تكسرُها، فدارِها تعِشْ بها).[٢٧] قال رسول الله: (لو تعلمُ المرأةُ حقَّ الزوْجِ، لم تَقْعُدْ ما حضَرَ غدَاؤُهُ وعَشَاؤُهُ؛ حتى يفرَغَ منه).[٢٨] (أكملُ المؤمنين إيمانًا أحسنُهم خُلقًا، وخيارُكم خيارُكم لنسائهم).[٢٩] (فَاتَّقُوا اللهَ في النِّسَاءِ، فإنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بأَمَانِ اللهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بكَلِمَةِ اللهِ، وَلَكُمْ عليهنَّ أَنْ لا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فإنْ فَعَلْنَ ذلكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غيرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ علَيْكُم رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بالمَعروفِ).[٣٠]


من غش فليس منا

 من غشَّنا فليس منَّا ، و المكرُ والخِداعُ في النَّارِ

الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الجامع
الصفحة أو الرقم: 6408 | خلاصة حكم المحدث : صحيح

التخريج : أخرجه ابن حبان (5559)، والطبراني (10/169) (10234)، وأبو نعيم في ((حلية الأولياء)) (4/189)


الأمانةُ من مَحاسِنِ الأخْلاقِ، والتَّعامُلُ في التِّجارَةِ والأُمورِ المادِّيَّةِ يَستلزِمُ الأمانَةَ؛ حتى تتِمَّ الأُمورُ والتَّعامُلاتُ بين الناسِ بلا مُنازَعاتٍ، وعلى العَكْسِ مِن ذلك؛ فإنَّ الغِشَّ والخِداعَ يَجلِبُ على المجتَمَعِ الوَيْلاتِ مع البَغْضاءِ والتَّشاحُنِ بين الناسِ.
وفي هذا الحديثِ يقولُ النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: "مَنْ غَشَّنا فليس مِنَّا"، أي: مَنْ خَدَعَنا بأيِّ صورةٍ، فليس على هَدْيِ الإسلامِ، وأنَّ الغشاشَ على خَطَرٍ عَظيمٍ، وليس على طريقَةِ النَّبيِّ صلَّى الله عليه وسلَّم وسُنَّتِه، وهذا زَجْرٌ شديدٌ من النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم، وفيه تَهْديدٌ لِمَن تَمادَى في الغِشِّ.
"والمَكْرُ والخِداعُ في النارِ" وهما من أنْواعِ الغِشِّ أيضًا، والمَعْنى: أنَّهما يُؤَدِّيانِ بصاحِبِهما إلى النارِ؛ لأنَّ الداعيَ إليه الْحِرْصُ على الدُّنْيا، والرَّغْبَةُ فيها، وَذَلِكَ يَجُرُّ إلى النارِ؛ لأنَّه لا يكونُ تَقيًّا وَلا خائِفًا للهِ؛ ولأنَّه إذا مَكَرَ غَدَرَ، وإذا غَدَرَ خَدَعَ، وكُلُّ خَلَّةٍ جانَبَتِ التُّقَى، فهي في النارِ".
وفي الحديثِ: التَّغليظُ في أَمْرِ الغِشِّ والخِداعِ، والتَّحْذيرُ من عاقِبَتِه .

Sunday, 9 February 2025

ساس سے زنا سے حرمت مصاہرت

 حرمتِ مصاہرت  جس طرح نکاح سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا سے بھی ثابت ہوجاتی ہے، لہٰذا اگر کوئی مرد اپنی ساس کے ساتھ زنا کرلے تو حرمت مصاہرت  ثابت ہونے کی وجہ سے اس مرد کے لیے اپنی بیوی سے نکاح کا رشتہ  ختم ہوجائے گا اور وہ  اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی، واپس رشتہ قائم ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ البتہ عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح تب جائز ہوگا جب شوہر اپنی زبان سے کوئی لفظ کہہ کر بیوی کو نکاح سے نکال دے، مثلاً یوں کہہ دے کہ میں نے تمہیں اپنے نکاح سے نکال دیا، یا میں نے طلاق دی، وغیرہ۔ لہذا ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ فوراً اپنی بیوی کو نکاح سے خارج کردے اور آئندہ اس سے تعلق نہ رکھے۔ نیز مرد کا یہ کہنا کہ ساس نے زبردستی یہ کام کروایا غلط ہے، عذر گناہ بدتر از گناہ ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لايمنع الحرارة(وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقًا."

( کتاب النکاح، ج:3 ،ص:33، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا، كذا في فتح القدير."

(کتاب النکاح، القسم الثاني المحرمات بالصهریة،  274\1،  ط: دارالفکر)

Saturday, 8 February 2025

الوراثة في الايجار القديم

 توفيَ والدي عن عمر 71 عام وله زوجة و 8 أبناء (2 ذكور- 6 إناث) وقد ترك محلاً مؤجراً بإيجار قديم ( مطعم فول وطعمية ) حيث كان يدير المحل ، وهو مصدر رزقه الوحيد وكان الابن الأكبر يساعده في المحل ، بجانب عمله كموظف ، وبمقابل مادي ، وكان قد اشتد عليه مرضه قبل موته بسنة ، فقام الابن الأكبر بتحمل مسئولية المحل كاملة . السؤال هو : ما هي طريقة توزيع هذا المحل على الورثة ( الأم – 2 أبناء ذكور – 6 أبناء إناث ) ؟

الجواب 

إذا كان المقصود من السؤال : أن والدكم قد استأجر ذلك المحل بنظام الإيجار القديم ، وهو نظام قائم على : أن المستأجر ينتفع بالمؤجر ( من بيت أو محل أو نحو ذلك ) مدة غير معلومة ، عادة ما تكون أجرة ذلك النوع من الإيجار أقل من قيمة المثل ، ويبقى ذلك الانتفاع بعد موت المستأجر لورثته من بعده .

فهذا النوع من الإجارة لا يصح ، ويبطل به العقد ؛ لكون المدة غير معلومة ، ومن شرط صحة الإجارة أن تكون مدة العقد فيها معلومة .

قال ابن قدامه رحمه الله في " المغني " (5/261) : " قال ابن المنذر : أجمع كل من نحفظ عنه من أهل العلم , على أن استئجار المنازل والدواب جائز ، ولا تجوز إجارتها ، إلا في مدة معينة معلومة " انتهى .

وعليه ، فليس من أملاك والدكم ذلك المحل ، حتى يتم تقسميه بينكم كميراث ، بل الواجب عليكم رد المحل لصاحبه وفسخ عقد الإيجار بالنظام القديم ، ثم إذا أردتم تأجير المحل بعد ذلك ، فلكم أن تتفقوا مع صاحب المحل على تأجير المحل بشرط أن يكون ذلك على مدة محددة معلومة .

وأما ما في المحل من أغراض وأشياء يملكها والدكم ، فهذه هي التي تدخل في التركة ، وتقسم بين الورثة .

وللفائدة ينظر جواب السؤال رقم : (143602) ، وجواب السؤال رقم : (148597) .

دھوکہ دہی سے متعلق چند احادیث

:
1۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا''ہر دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا‘ جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا۔‘‘
2 ۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓفرماتے ہیں: اے مسلمانو! تم اہل کتاب سے کسی مسئلہ میں کیوں پوچھتے ہو۔ تمہاری کتاب جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبیﷺپر نازل کی ہے‘ وہ اللہ کے یہاں سے بالکل تازہ آئی ہے‘ خالص ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خود تمہیں بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتابوں کو بدل ڈالا۔ وہ ہاتھ سے ایک کتاب لکھتے اور دعویٰ کرتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ‘تاکہ اس کے ذریعہ سے تھوڑی پونچی حاصل کریں‘ تم کو جو اللہ نے علم دیا ہے کیا وہ تم کو اس سے منع نہیں کرتا کہ تم دین کی باتیں اہل کتاب سے پوچھو۔ اللہ کی قسم! ہم تو ان کے کسی آدمی کو نہیں دیکھتے کہ جو کچھ تمہارے اوپر نازل ہوا ہے ‘اس کے متعلق وہ تم سے پوچھتے ہوں۔ 
3۔ صحیح بخاری میں حضرت سعد ؓروایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ اہل مدینہ کے ساتھ جو شخص بھی فریب کرے گا ‘وہ اس طرح گھل جائے گا‘ جیسے نمک میں پانی گھل جایا کرتا ہے۔ 
4۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک خاتون نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری سوکن ہے اگر اپنے شوہر کی طرف سے ان چیزوں کے حاصل ہونے کی بھی داستانیں اسے سناؤں ‘جو حقیقت میں میرا شوہر مجھے نہیں دیتا تو کیا اس میں کوئی حرج ہے؟ نبی کریم ﷺنے اس پر فرمایا کہ جو چیز حاصل نہ ہو‘ اس پر فخر کرنے والا اس شخص جیسا ہے جو فریب کا جوڑا‘ یعنی ( دوسروں کے کپڑے ) مانگ کر پہنے۔ 
5۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ معاویہ ؓ آخری مرتبہ مدینہ منورہ تشریف لائے اور خطبہ دیا۔ آپ نے بالوں کا ایک گچھا نکال کے کہا کہ یہ یہودیوں کے سوا اور کوئی نہیں کرتا تھا۔ نبی کریمﷺنے اسے ''زور‘‘ یعنی فریبی فرمایا‘ یعنی جو بالوں میں جوڑ لگائے تو ایسا آدمی مرد ہو یا عورت وہ مکار ہے ‘جو اپنے مکر و فریب پر اس طور پر پردہ ڈالتا ہے۔
6۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ ابوہریرہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا : ''آخری زمانے میں (ایسے ) دجال ( فریب کار ) کذاب ہوں گے‘ جو تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے ‘جو تم نے سنی ہوں گی‘ نہ تمہارے آباء نے ۔ تم ان سے دور رہنا ( کہیں ) وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں ۔ ‘ ‘ 
7۔سنن ابن ماجہ میں اسما بنت یزید سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺکی خدمت میں کھانا لایا گیا تو آپ ؐنے ہم سے کھانے کو کہا‘ ہم نے عرض کیا: ہمیں اس کی خواہش نہیں ہے‘ اس پر آپؐ نے فرمایا: تم لوگ بھوک اور غلط بیانی کو اکٹھا نہ کرو ۔ 
8۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓسے روایت ہے کہ بازار میں ایک شخص نے ایک سامان دکھا کر قسم کھائی کہ اس کی اتنی قیمت لگ چکی ہے؛ حالانکہ اس کی اتنی قیمت نہیں لگی تھی ‘اس قسم سے اس کا مقصد ایک مسلمان کو دھوکہ دینا تھا۔ اس پر یہ آیت اتری ''جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت کے بدلہ میں بیچتے ہیں‘‘۔
9۔ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ''نجش‘‘ ( فریب‘ دھوکہ ) سے منع فرمایا تھا۔ 

دھوکہ دھی

 واضح رہے کہ  شریعت مطہرہ میں کسی بھی قسم کی دھوکہ دہی اور جھوٹ بولنے پر شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، چنانچہ ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو مسلمان کی شان کے خلاف بتایا ہے، اور فرمایا کہ:"مومن ہر خصلت  پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے"۔ایک اور روایت میں جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔

اسی وجہ سے آج ہمارے معاشرہ میں بے برکتی ہے،ہر شخص اپنی اپنی جگہ پریشان ہے،اگر اس دھوکہ بازی اور ملاوٹ سے توبہ نہیں کی گئی تو ہمارا حال اور برا ہوجائے گا،حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک غلہ فروخت کرنے والے کے پاس سے گزرے، آپ نے اپنا ہاتھ غلہ کے اندر ڈالا تو ہاتھ میں کچھ تری محسوس ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا یہ تری کیسی ہے؟ غلہ کے مالک نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس پر بارش ہو گئی تھی، آپ نے فرمایا تم نے اس بھیگے ہوئے غلہ کو اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اس کو دیکھ لیتے،جس شخص نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

لہذا ہمیں چاہیے کہ اپنے معاشرے کو ان چیزوں سے پاک کریں،جو لوگ بھی دھوکہ دہی کرتے ہیں وہ حضور کے ان ارشادت کو سامنے رکھیں اور اس فعل سے اجتناب کی کوشش کریں۔

مسند احمد میں ہے:

"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب."

( ج: 36، صفحه: 504، رقم الحدیث: 22170، ط: مؤسسة الرسالة)

مسلم شریف میں ہے:

" (102) وحدثني ‌يحيى بن أيوب، ‌وقتيبة، ‌وابن حجر جميعا، عن ‌إسماعيل بن جعفر . قال ابن أيوب: حدثنا إسماعيل قال: أخبرني ‌العلاء ، عن ‌أبيه ، عن ‌أبي هريرة « أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا، فقال: ما هذا يا صاحب الطعام؟ قال: أصابته السماء، يا رسول الله. قال: أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس؟ ‌من ‌غش ‌فليس مني."

(ج:1، ص:69، ط: دار المنھاج)

ناجائز اور مخلوط آمدنی سے حج

 بینک کی آمدنی میں غلبہ سود اور ناجائز منافع کا ہے، اس لیے بینک کی ملازمت اور حاصل ہونے والی آمدنی جائز نہیں، اگر بینک ملازم کا ذریعۂ آمدن صرف یہی ہے یا وہ اسی رقم سے تحائف خرید کردیتاہے تو ان تحائف کالینابھی درست نہیں ہے،اگر وصول کرلیں توکسی غریب کو ثواب کی نیت کے بغیر دے دیں۔ اس لیے مذکورہ شخص کے لیے حج جیسی عظیم عبادت کے لیے اپنی حلال رقم کے ساتھ اس حرام رقم کو ملانا درست نہیں ہے، بلکہ خالص حلال کی رقم سے حج کا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔تاہم اگر حرام آمدنی سے حج کیاتو حج ادا ہوجائے گا مگر مقبول حج کا ثواب حاصل نہ ہوگا۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ اگر مذکورہ سونے کے سیٹ کے علاوہ اس شخص کے پاس  مالِ حلال سے اتنی رقم یا مال تجارت وغیرہ نہیں ہے جس کی بنا پر اس پرحج فرض ہوتاہو تو اس سیٹ کی موجودگی کی وجہ سے حج لازم نہ ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية، ولايأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع". (5 / 342، الباب الثاني عشر في الهدایا والضیافات، ط: رشیدیه)

وفیه أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لايقبل، ولايأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط". (5 / 343، الباب الثاني عشر في الهدایا والضیافات، ط: رشیدیه) (مجمع الأنهر، (2/529) کتاب الکراهية، ط: دار إحیاء التراث العربي) 

ناجائز کمائی سے حج

 اللہ تعالی طیب (پاک) ہیں اور پاکی ہی کو پسند فرماتے ہیں، اور پاک و حلال آمدن سے دیا گیا صدقہ اور ادا کی گئی مالی عبادت قبول فرماتے ہیں، جب کہ بینک میں ملازمت سے جو آمدنی حاصل ہوتی ہے ،وہ شرعًا ناجائز اور حرام ہوتی ہے ،ایسی کمائی سے کیا گیا حج اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا،اس لیے حج کی ادائیگی کے لیے حلال رقم کا انتظام کرنا ضروری ہے ،تاہم اگر کسی نے   بینک سے کمائی ہوئی رقم سے حج کرلیا تو اس کا فریضہ ادا ہوجائے گا ، لیکن ثواب  سے محرومی ہوگی  ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و يجتهد في تحصيل نفقة حلال، فإنه لايقبل بالنفقة الحرام كما ورد في الحديث، مع أنه يسقط الفرض عنه معها و لاتنافي بين سقوطه، وعدم قبوله فلا يثاب لعدم القبول، ولا يعاقب عقاب تارك الحج. اهـ.

أي لأن عدم الترك يبتنى على الصحة: وهي الإتيان بالشرائط، و الأركان و القبول المترتب عليه الثواب يبتنى على أشياء كحل المال والإخلاص كما لو صلى مرائيا أو صام واغتاب فإن الفعل صحيح لكنه بلا ثواب والله تعالى أعلم

(کتاب الحج، مطلب فيمن حج بمال حرام، ج۲، ص۴۵۶، ط: سعید)


لمافي البحر الرائق:

ويجتهد في تحصيل نفقة حلال فإنه لا يقبل بالنفقة الحرام كما ورد في الحديث مع أنه يسقط الفرض عنه معها وإن كانت مغصوبة ولا تنافي بين سقوطه وعدم قبوله فلا يثاب لعدم القبول ولا يعاقب في الآخرة عقاب تارك الحج.(كتاب الحج،2/541،رشيدية)

وفي الهندية:

ويجتهد في تحصيل نفقة حلال فإنه لا يقبل الحج بالنفقة الحرام مع أنه يسقط الفرض عنه معها وإن كانت مغصوبة. (كتاب الحج،1/488،رشيدية

 معاملہ ہذا میں مدعی کا اپنے بھائیوں کو اعتماد میں لیے بغیردوکان مذکور اپنی بیوی کے نام خریدنا غلط تھاجوفریقین میں رنجش کی وجہ بنابہرکیف۔عبدالغفارمرحوم کی_کرایہ کی نہیں_سبھی جائیداد منقولہ وغیرمنقولہ دس حصوں میں تقسیم کرکے ایک ایک حصہ بہنوں کو اور دودو حصّے بھاییوں کو بقاعدہ للذکر مثل حظ الانثیین دیدیاجا یے۔

Friday, 7 February 2025

والدین کی فرمانبرداری

 والدین سے حسنِ سلوک کا حکم

    اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :
’’وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّہُمَا أُفٍّ وَّلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا رَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِکُمْ إِنْ تَکُوْنُوْا صَالِحِیْنَ فَإِنَّہٗ کَانَ لِلأَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا ۔‘‘    q
ترجمہ: ’’ اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اگر وہ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو) ان سے کبھی ـ’’ہوں ‘‘ بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا اور ان سے خوب ادب سے بات کر نا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا :اے ہمارے پروردگار ! تو اُن پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے (صرف ظاہر داری نہیں، دل سے اُن کا احترام کرنا) تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بکثرت معاف کرنے والا ہے۔‘‘
    اس آیتِ کریمہ میں اللہ جل جلالہٗ نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا، اس کے بعد فرمایا کہ: اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئو۔ اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں، بلکہ آج میں جو کچھ ہوں‘ انہی کی برکت سے ہوں، والدین ہی ہیں جو اولاد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف، دکھ اور مشقت کو برداشت کر تے ہیں، بلکہ بسا اوقات اپنا آرام و راحت، اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کردیتے ہیں۔
ماں کا مجاہدہ
    سب سے زیا دہ محنت و مشقت اور تکلیف ماں برداشت کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وَ وَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسَانًا حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًا۔‘‘  w
ترجمہ: ’’اس ماں نے تکلیف جھیل کر اُسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اُسے جنا۔‘‘
حمل کے نو [۹] ماہ کی تکلیف اور اس سے بڑھ کر وضع حمل کی تکلیف، یہ سب ماں برداشت کر تی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اب اس کی پرورش کے لیے باپ محنت و مشقت برداشت کرتا ہے، سردی ہو یا گرمی، صحت ہو یا بیماری، وہ اپنی اولاد کی خاطر کسبِ معاش کی صعوبتوں کو برداشت کر تا ہے اور ان کے لیے کما کر لاتا ہے، ان کے اوپر خرچ کرتا ہے، ماں گھر کے اندر بچے کی پرورش کرتی ہے، اس کو دودھ پلاتی ہے، اس کو گرمی و سردی سے بچانے کی خاطر خود گرمی و سردی برداشت کرتی ہے، بچہ بیمار ہوتا ہے تو ماں باپ بے چین ہوجاتے ہیں، ان کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں، اس کے علاج و معالجہ کی خاطر ڈاکٹروں و علاج گاہوں کے چکر لگاتے ہیں۔ غرض والدین اپنی راحت و آرام کو بچوں کی خاطر قربان کرتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنا شکر ادا کر نے کا حکم دیا ہے، وہا ں ساتھ ساتھ والدین کا بھی شکر گزار رہنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، سورۂ لقمان میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیْرُ‘‘  e
’’ میرا شکر یہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو، میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘
حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  سے کسی نے پو چھا کہ میں نے خراسان سے اپنی والدہ کو اپنے کندھے پر اُٹھایا اور بیت اللہ لایا اور اسی طرح کندھے پر اُٹھا کر حج کے منا سک ادا کروائے، کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا؟ تو حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما نے فرما یا: ’’نہیں، ہر گز نہیں، یہ سب تو ماں کے اس ایک چکر کے برابر بھی نہیں جو اس نے تجھے پیٹ میں رکھ کر لگایا تھا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے: ’’وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا‘‘ یعنی ان کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور ا کرام و احترام کے ساتھ پیش آئے، بے ادبی نہ کرے، تکبر نہ کرے، ہر حال میں اُن کی اطاعت کرے ، الا یہ کہ وہ اللہ کی نا فرمانی کا حکم دیں تو پھر اُن کی اطا عت جائز نہیں۔ سورۂ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
’’وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَإِنْ جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَاتُطِعْہُمَا ‘‘  r
’’ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر نے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس با ت کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے، جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو تو اُن کا کہنا مت ماننا ۔‘‘
حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  سے کسی نے دریافت کیا کہ ماںباپ کے ساتھ حسنِ سلوک کس طرح کیا جائے؟ تو انہوں نے فرمایا: تو اُن پر اپنا مال خرچ کر، اور وہ تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر، ہاں! اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان۔ 
حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی مت جھا ڑو، کہیں کپڑوں کا غبا ر اور دھول اُن کو نہ لگ جا ئے۔
بڑھاپے میںحسنِ سلوک کا خصوصی حکم
اللہ تعالیٰ نے خاص طور سے والدین کے پڑھاپے کو ذکر فر ماکر ارشاد فرمایا کہ اگر ان میں کوئی ایک یا وہ دونوں تیری ز ند گی میں پڑھا پے کو پہنچ جا ئیں تو اُن کو ’’اُف ‘‘بھی مت کہنا اور نہ اُن سے جھڑک کر بات کرنا۔ حضرت تھانوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بیان القرآن میں ’’اُف‘‘ کا ترجمہ ’’ہوں‘‘ سے کیا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات نا گوار گزرے تو ان کو جواب میں ’’ہوں‘‘ بھی مت کہنا۔ اللہ رب العزت نے بڑھاپے کی حالت کو خا ص طور سے اس لیے ذکر فرمایا کہ: والدین کی جوا نی میں تو اولاد کو نہ ’’ہوں‘‘ کہنے کی ہمت ہوتی اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہوتا ہے، البتہ بڑھاپے میں  والدین جب ضعیف ہوجاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے۔ پھر بڑھاپے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑاپن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر اور بسااوقات درست اور حق بات پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کر کے حسنِ سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا نا ک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں، اس موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر بات کرنا تو دور کی با ت ہے، ان کو’’ اُف‘‘ بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناخوشگواری کا اظہار بھی مت کرنا۔
حضرت علی  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ: اگر والدین کی بے ادبی میں ’’اُف‘‘ سے بھی کوئی کم درجہ ہوتا تو اللہ جلّ شانہ اسے بھی حرام فرمادیتے۔ 
حضرت مجاہد  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: اگر والدین بوڑھے ہو جا ئیں اور تمہیں ان کا پیشا ب دھو نا پڑجائے تو بھی’’ اُف‘‘ مت کہنا کہ وہ پچپن میں تمہارا پیشا ب پاخانہ دھوتے رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی رضا و ناراضگی
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما  فر ما تے ہیں کہ رسول ا للہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ’’رضا اللہ مع رضا الوالدین و سخط اللہ مع سخط الوالدین۔‘‘1# یعنی ’’اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔‘‘
جنت یا جہنم کے دروازے 
حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
’’ من أصبح مطیعا في والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من الجنۃ، وإن کان واحدا فواحدا، ومن أمسٰی عاصیا للہ في والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من النار، وإن کان واحدا فواحدا، قال الرجل: وإن ظلماہ؟ قال: وإن ظلماہ، وإن ظلماہ،  وإن ظلماہ ۔

یعنی جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں اللہ کا فر ما نبردار رہا تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہو تے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو جنت کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔ اور جس نے اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ کی نا فر ما نی کی، اس کے بتائے ہوئے احکا ما ت کے مطا بق حسنِ سلوک نہ کیا تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہتے ہیں اور اگر والدین میں ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ بد سلوکی کر ے تو جہنم کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔ کسی نے پوچھا کہ: اے اللہ کے نبی! اگر چہ ماں باپ نے اس پر ظلم کیا ہو؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین دفعہ فرمایا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو ۔
 حضرت رفاعہ بن ایاس  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ ایاس بن معاویہ  رحمۃ اللہ علیہ  کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ رونے لگے، کسی نے پوچھا کہ کیوں روتے ہو؟ تو انہوں نے فرمایا : ’’کان لي بابان مفتوحان إلی الجنۃ وأغلق أحدھما‘‘ یعنی میرے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے تھے، اب والدہ کی وفات پر ایک بند ہوگیا ہے، اس لیے رو رہا ہوں۔ کسی قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے والدین زندہ ہیں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرتے ہیں اور ان کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے ہیں۔

والدین کے لیے دعا کا اہتمام کرنا
اللہ تعالیٰ نے جہاں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، وہیں پر ان کے لیے دعا کرنے کی تعلیم بھی ارشاد فرمائی ہے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: 
’’ رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا‘‘  1%
’’اے میرے پروردگار! تو میرے والدین پر ایسے ہی رحم فرما،جیسا کہ انہوں نے بچپن میں رحمت و شفقت کے ساتھ میری پرورش کی ہے۔‘‘
ہر نماز کے بعدوالدین کے لیے دعا کرنے کا معمول بنالیں، دو بہت آسان دعائیں جن کی تعلیم خود اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں دی ہے، ایک ماقبل والی اور دوسری یہ:
’’رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ‘‘  1^
’’اے میرے پروردگار! روزِ حساب تو میری، میرے والدین کی اور تمام ایمان والوں کی بخشش فرما۔‘‘
حضرت سفیان بن عیینہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا :
’’ من صلی الصلوات الخمس فقد شکر اللہ، ومن دعا للوالدین في أدبار الصلوات الخمس فقد شکر الوالدین۔‘‘  1&
’’جس نے پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیا تو گو یا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور جس نے پانچ نمازوں کے بعد والدین کے لیے دعا ئے خیر کی تو گویا اس نے والدین کا شکر ادا کیا۔ ‘‘
اولاد کی دعا سے والدین کے درجات بلند ہوتے ہیں، حضرت عمرو بن میمونؒ سے روایت ہے کہ جب حضرت موسیٰ  علیہ السلام  اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے گئے تو وہا ں عرش کے سائے تلے ایک شخص کو دیکھا اور اس کی حالت اتنی اچھی تھی کہ خود موسیٰ  علیہ السلام  کو اس آدمی پر رشک آیا تو موسیٰ  علیہ السلام  نے اللہ تعالیٰ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا کہ: اے اللہ! تیرا یہ بندہ کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’کان لا یحسد الناس علی ما آتاہم اللہ من فضلہٖ، وکان لا یعق والدیہ، ولایمشی بالنمیمۃ۔‘‘  1*
’’ (یہ شخص تین کا م کرتا تھا:) ۱:- جو چیزیں میں نے اپنے فضل وکرم سے لوگوں کو نعمتیں عطا کی ہیں ان پر حسد نہیں کر تا تھا ، ۲:-والدین کی نا فر ما نی نہیں کرتا تھا، ۳:- چغل خوری نہیں کر تا تھا ۔ ‘‘
رزق میں اضافہ
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک رزق و عمر میں اضا فہ کا سبب ہے، حضرت انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: حضورِ اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: 
’’من أحب أن یمد اللہ في عمرہٖ ویزید في رزقہٖ فلیبر والدیہ، ولیصل رحمہ۔‘‘  1(
’’جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی عمر دراز کردے اور رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔‘‘
ایک حدیث میںحضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر مایا :
’’ بروا آباء کم تبرکم أبناؤکم۔‘‘  2)
’’تم اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو، تمہا ری اولاد تمہارے ساتھ حسنِ سلوک کرے گی۔‘‘

موت کے بعد والدین سے حسنِ سلوک کا طریقہ
والدین دونوںیا ان میں کوئی ایک فوت ہو گیا ہو اور زندگی میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک نہیں کیا اور کوتاہی ہوئی تو اب تدارک کیسے کیا جائے؟ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی بھی تعلیم دی ہے۔ حضرت ابواُسید رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ ہم حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا اور عرض کیا کہ: ماں باپ کی وفات کے بعد بھی کوئی چیز ایسی ہے جس کے ذریعے ان سے حسنِ سلوک کروں؟ توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’نعم ، الصلاۃ علیہما ، والاستغفار لہما ، وإنفاذ عہدہما من بعدہما ، وصلۃ الرحم التي لا توصل إلا بہما ،  وإکرام صدیقہما۔‘‘  2!
’’ہاں! ان کے لیے رحمت کی دعا کرنا، ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا، ان کے بعد اُن کی وصیت کو نافذکرنا اور اس صلہ رحمی کو نبھانا جو صرف ماں باپ کے تعلق کی وجہ سے ہو، ان کے دوستوں کا اکرام کرنا۔‘‘
 حضرت ابوبردہ  رضی اللہ عنہ  جب مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  ان سے ملنے کے لیے آئے اور پوچھا: تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہارے پاس کیوں آیا ہوں؟ انہوں نے کہا کہ: نہیں، تو فرمایا: میں نے حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا ہے: 
’’من أحب أن یصل أباہ في قبرہٖ ، فلیصل إخوانَ أبیہ بعدہ۔‘‘  2@
’’جو یہ چاہتا ہے کہ اپنے باپ کے ساتھ قبر میں صلہ رحمی کرے تو اس کو چاہیے کہ ان کے بعد ان کے دوستو ں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، میرے والد عمر  رضی اللہ عنہ  اور آپ کے والد کے درمیان دوستی تھی، میں نے چاہا کہ میں اُسے نبھاؤں۔ (اس لیے تم سے ملنے آیا ہوں) ۔‘‘
آخر میں گزارش کہ جس کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک حیات ہے تو ان کو اللہ کی بہت بڑی نعمت سمجھ کر ان کی فرمانبرداری کرے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، جتنا ہوسکے ان کی خدمت کرے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور جن کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک اس دنیا سے گئے ہیں تواُن کے ساتھ اب حسنِ سلوک یہ ہے کہ اُن کی وصیت کو نافذ کرے، ان کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اُسے ادا کرے، شرعی حصص کے مطابق میراث کو تقسیم کرے، خود دینی تعلیم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے،ان کے لیے دعا کرے، اللہ سے ان کے لیے رحمت و مغفرت طلب کرے ،ان کی طرف سے صدقہ کرے ، ان کی طرف سے نفلی حج و عمرہ کرے، کہیں کنواں کھدوائے یا لوگوں کے پینے کے پانی کا انتظام کرے، دینی کتابیں خرید کر وقف کرے، مسجد بنوائے، مدرسہ بنوائے یا دینی علم حاصل کرنے والے مہمانانِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ضروریات کو پورا کرنے میں تعاون کرے، والدین کے قریبی رشتہ داروں اور تعلق والوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، نفلی اعمال کر کے اُن کے لیے ایصالِ ثواب کرے، اپنے علاقہ، ملک اور دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کی حالتِ زار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے مال کے ساتھ اُن کی خبرگیری کرے۔ اللہ تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کو اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق سے نوازے، آمین، ثم آمین۔

حوالہ جات
q:-الاسراء : ۲۳-۲۵                w:-الاحقاف:۱۵
e:-لقمان:۴۱                r:-العنکبوت :۸
t:-الدالمنثور،ج: ۵،ص: ۲۲۴            y:-الدالمنثور،ج: ۵،ص: ۲۲۴
u:-حوالہ سابق                i:-المعجم الاوسط، للطبرانی،ج:۴،ص:۲۶۷، رقم الحدیث: ۴۱۶۹
o:-الاسراء:۲۳                1):-الدر المنثور،ج: ۵،ص:۲۲۵
1!:-الدر المنثور،ج: ۵،ص:۲۲۵            1@:-معارف القر آن،ج:۵،ص:۴۶۶
1#:-شعب الایمان،ج: ۶،ص:۱۷۷، رقم الحدیث: ۷۸۲۹،۷۸۳۰    1$:-شعب الایمان،ج: ۶،ص:۲۰۶، رقم الحدیث: ۷۹۱۶
1%:-الاسراء :۲۴                1^:-ابراہیم: ۴۱
1&:-تفسیر الخازن المسمی: لباب التاویل فی معانی التنزیل، ج: ۵،ص:۲۱۶    1*:- مکارم الاخلاق لابن ابی الدنیا، ج: ۱،ص:۸۶، رقم الحدیث: ۲۵۷
1(:-شعب الایمان، ج: ۶، ص:۱۸۵، رقم الحدیث: ۷۸۵۵    2):- المعجم الاوسط، ج:۱،ص:۲۹۹، رقم الحدیث: ۱۰۰۲
2!:-سنن ابی داود: ۵۰۰، رقم الحدیث: ۵۱۴۴        2@:-صحیح ابن حبان، ج:۲، ص:۱۷۵ ، رقم الحدیث: ۴۳۲