https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 7 November 2019

شیخ مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ

شیخ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ,شوال 971ھ 26میء 1564ء کو سر ہند پنجاب بھارت میں پیدا ہوئے۔ان کے والد شیخ عبد الاحد بھی شیخ طریقت اور عالم تھے۔سلسلہ نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔آپ کے اجداد میں شیخ شہاب الدین علی فرخ شاہ کا بلی۔ھندوستان آکر آباد ہوئے۔ شیخ مجدد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔کم سنی ہی میں قران مجید حفظ کرلیا۔اس کے بعد
 علوم صرف و نحو،حدیث،تفسیرکی  تعلیم حاصل کی۔دینی علوم کی تکمیل سیا لکوٹ میں شیخ کمال کشمیری سے کی۔معقولات و حدیث کی سند شیخ یعقوب صرفی کشمیری سے حاصل کی۔تفسیر شیخ بھلول بدخشانی سے پڑھی۔تحصیل علم کے بعد سر ھند میں ہی درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔جہاں ان کے والد ماجد نے تدریسی سلسلہ جاری کر رکھا تھا۔ شیخ  مجدد نے کیء سفر دارالحکومت آ گرہ کے کیے، ابوالفضل فیضی سے ملاقات رہی۔شیخ مجدد کی علمی قابلیت کی بنا پر وہ ان کے گرویدہ ہو گیے تھے۔تفسیر غیر منقوط کی تالیف کے زمانہ میں کیء بار انہوں نے شیخ مجدد سے رابطہ کیا۔ شیخ نے متعدد مقامات کی   تفسیر  لکھ کر انہیں دی۔جس کی بنا پر یہ دونوں بھائی آپ کی بھت قدر کرتے تھے۔آگرہ کے دوران قیام مختلف  علمی موضوعات پر آپ کا مناظرہ ابوالفضل سے ہوا۔اسی لئے   اثبات النبوہ لکھی۔شیخ مجدد نے  ابوالفضل سے فلسفہ کے  موضوعات پر بھی بحث کی جس کی شروعات ابوالفضل نے کی تھی۔شیخ نے امام غزالی کی احیاء العلوم سے اس کا رد کیا ابوالفضل نے غصے میں امام غزالی کے متعلق توھین آمیز کلمات کہے تو شیخ مجدد نے ابوالفضل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا علماء کی مجلس میں بیٹھنا چاہتے ہو تو زبان کو اس قسم کی لغویات سے قا بو میں رکھو ۔اس کے بعد آپ ان کی مجلس میں نہیں گیے۔بالآخر ابوالفضل نے معذرت چاہی ۔ اکبر بادشاہ نے ایک بار بغیر کسی رؤیت شرعی کے روزہ توڑنے اور عید منانے کا اعلان کردیا۔اسی دوران شیخ مجدد ابوالفضل سے ملنے گیے تو آپ کے چہرے سے روزے کے آثار ظاہر تھے۔ابوالفضل نے شاھی فرمان کی طرف آپ کو متوجہ کیا تو آپ نےفرمایا کوئی شرعی شہادت موجود نہیں ہے بادشاہ کا کوئی اعتبار نہیں کونکہ وہ بے دین ہے۔ابوالفضل نادم ہوا لیکن پھر بھی اس نے پانی کا پیالہ آ پ کے منہ سے لگادیا آپ نے ہاتھ جھٹک دیا اور اسی وقت اٹھ کر چلے آئے۔اس کے بعد ابوالفضل نے آپ سے معافی مانگی ۔صاحب حضر ات القدس کے مطابق تفسیر غیر منقوط  سواطع الالھام کی تا لیف میں شیخ مجدد نے قابل قدر کام کیا ہے۔کیی مقامات کی تفسیر فی الفور لکھ کر دی۔ جب والد ماجد پر آپ کی جدائی شاق گزری تو وہ اکبر آباد آپ کو لینے کے لئے نکلے واپسی میں تھا نیسر میں شیخ سلطان تھا نیسر ی سے ملاقات ہوئی تعارف کے بعد انہوں نے اپنی صاحبزادی کا نکاح آپ سے کردیااس کے بعد آپ اپنے والد کی خدمت میں التزام سے رھنے لگے1007ھ ۔مطابق 1008ھ میں آپ حج کے ارادے سے نکلے دہلی میں اپنے ایک دوست شیخ حسن کشمیری سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے آپ کو خواجہ باقی باللہ سے ملاقات کا مشورہ دیا آپ خواجہ صاحب سے ملے تو انہوں نے آپ پر کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید قیام کے لیے کہا اس کے بعد آپ خواجہ باقی باللہ کے مرید ہوگیے ۔ تین ماہ خواجہ صاحب کی خدمت میں رہ کر سر ھند لوٹ آئے۔دوبارہ جب حاضر خدمت ہوءے تو خواجہ باقی باللہ نے آپ کو 1009ھ/1600ء میں خلافت سے سرفراز فرمایا۔تیسری مرتبہ جب آپ ایک عرصہ کے بعد خواجہ باقی باللہ کی خدمت میں حاضر ی کے ارادے سے نکلےتو خواجہ صاحب کابلی دروازے تک پیادہ پا استقبال کے لئے تشریف لائے اور اس تیسری ملاقات میں خواجہ صاحب نے آپ کو بہت سی بشارتیں دیں۔اور رخصت کرتے وقت فرمایا اب امید حیات بہت کم رہ  گیی ہے۔اس کے بعد خواجہ باقی باللہ نے آپ کو لا ہور جا نے کا مشورہ دیا لاھورمیں آپ سے وہاں کے علماء وعماءیدین نے بیعت کی۔مولانا جما ل الدین تلوی،مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے۔27جمادی الاخری 1012ھ/6نومبر1603ء جب آپ لاہور میں مقیم تھے خواجہ باقی باللہ کا انتقال ہوگیا۔۔یہ جانکاہ خبر سن کر آپ لاہور سے دھلی پنہچے1598اور ارادت مندوں کو دلا سہ دیا۔دھلی میں کچھ عرصہ قیام کے بعد آپ سرھندواپس آگیے اور ارشاد و ھدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔علم و فضل اور کمال تقوی و طہارت کی بنا پر آپ کا شہرہ عام ہوگیا۔عوام خواص میں اتنی شہرت ہوئی کہ شاھی امراء و حکام آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوگئے۔ان میں خان خاناں،صدرجھاں،خان اعظم،مرتضی خان بھی شامل تھے جو اکبر کے دربار کی با آثر شخصیات تھیں۔شیخ مجدد نے ان حضرات کے ذریعے شہنشاہ اکبر کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی لیکن خاطرخواہ کامیابی نہ مل سکی۔اور1014ھ/1605ء میں اکبر بادشاہ کا انتقال ہوگیا۔جہانگیری عھد میں شیخ مجدد نے احیاء اسلام  کی کوشش کی  نیز بدعات ومنکرات رسوم و خرافات کی بیخ کنی کے لئے زبردست جد وجہد شروع کی۔ملک کے مختلف گوشوں میں اپنے خلفاء کو روانہ کیا۔اور اراکین شاھی کو بھی اپنے مکاتیب کے ذریعےاس کی طرف توجہ دلائی۔۔صدرجھاں ،خان جھاں اور شیخ فرید کے نام آپ نے اپنے مکاتیب میں توجہ دلائی ہے کہ بادشاہ کے تقرب سے فایدہ اٹھا کر کلمہ حق گوش گزار کرتے رہیں۔اور احکام شرعیہ کی طرف اسے متوجہ کرتے رہیں شیخ مجدد امر اء وحکام کو اصلاح کی طرف متوجہ کرتے رہے۔شیخ مجدد کے تمام مکتوبات میں ایک بات خاص طور پر مشترک ہےکہ اس نقصان کی تلافی ہونی چاہیئے جو عہد اکبری میں اسلام کو پہنچ چکا ہے۔شیخ مجدد اور ان کے مریدین کی ان اصلاحی سرگرمیوں نےجہانگیر کے خوشامدیوں کوموقع فراھم کردیا آصف خان وزیر جہانگیرنے جب دیکھاکہ شیخ مجدد کا اثر أمراء و حکام اور عوام وخواص پر بڑھ رہا ہے اور اعیان حکومت ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہورہے ہیں تو وہ بادشاہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گیا کہ شیخ احمد سرہندی ایک سرکش انسان ہے،حکومت  کے باغی ہیں ثبوت میں یہ بھی کہا کہ سجدہ تعظیمی جو اکبر کے دور سے چلا آ رہا ہے اور علماء بھی اس کے جواز کا فتویٰ دے چکے ہیں شیخ مجدد  اس کی حرمت کا فتویٰ دے رہے ہیں آصف خان نے شیخ مجدد کے خلیفہ شیخ بدیع الدین کی سرگرمیوں پر سخت نگرانی شروع کر دی۔ عوام کو ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے سے بھی روک دیا۔سرھنداور دارالحکومت کے درمیان ‌مراسلت کا سلسلہ بھی روک دیا گیا۔بالآخر شیخ بدیع الدین نے خود سرھندجانے کا فیصلہ کیا۔لھذا وہ بلااجازت لشکر سے سرہند پہنچے تو شیخ مجدد ان کے بلا اجازت آنے پر ناراض ہوئے۔ادھر آصف خان اور دیگر امرا نےبادشاہ   کو بتایا کہ شیخ بدیع الدین سر ھند کوئی سازش رچنے گیے ہیں۔چنانچہ شیخ مجدد کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی گئی اور ان کے مکتوبات اور کتابوں کی سخت چھان بین کی گئی۔دفتر اول کے مکتوب نمبر 11کونشانہ تنقید بنایا گیا۔علما کو بھی اس مکتوب کے مندرجات پر اکسایا آگیا۔شیخ مجدد نے اپنے اس مکتوب میں خواجہ باقی باللہ کو لکھتے ہوئے اپنے مقامات عروج کا ذکر کیا ہے۔آپنے اس میں لکھا ہے کہ مختلف مقامات کو طے کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے جو حضرت صدیق اکبر کا مقام ہے اس پر یہ اعتراض کیا گیا کہ شیخ مجدد حضرت صدیق اکبر پر اپنی فضیلت کا دعویٰ کرتے ہیں۔لہذا بڑھا چڑھا کر بادشاہ کے کان بھرے گیےجہانگیر نے شیخ مجدد کو اکبر آباد طلب کرلیا شیخ اپنے مخصوص خلفاء کے ھم راہ دربار شاہی میں پہنچے اور کوئی خلاف شرع آداب سے بچتے ہوئے شھنشاہ جہانگیر سے ملاقات کی۔ اپنے مکتوب پر اعتراض کا جواب دیا۔اپنے  ایک مکتوب میں اس کی و  ضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں در  فرقہ صوفیاء اگر کسی خود را از سگی بھترداند صوفی نیست چہ جائیکہ خود را از صدیق اکبر افضل داند۔ آپ  جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر شہنشاہ اپنے کسی ادنیٰ کارندے کو اپنے پا س تھوڑی دیر بلا تے ہیں تو اس مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شخص اعلی وزراء و حکام سے بڑھ گیا۔      آصف خان نے جہانگیر سے کہا: انھوں نے سجدہ تعظیمی نہیں کیاان سے سجدہ تعظیمی کے لئے  کہا جاءے آپ نے سجدہ تعظیمی کرنے سے منع کرتے ہوے فر مایا سجدہ بجز
خدا وند قدوس کسی کے لئے روا نہیں
شہزادہ خرم نے جو بعد میں شاہجہاں کے نام سے سریر آرائے سلطنت ہوئے نے افضل خاں اور مفتی عبد الرحمن کو بھیج کر آپ کو سجدے کے لئے آمادہ کرنا چاہا لیکن آپ نے صاف انکار کردیا اور فرمایا: این رخصت است و عزیمت دران است کہ سجدہ بہ غیر اللہ نہ کردہ شود۔جب آپ نے سجدہ کرنے سے صاف انکار کردیا تو جہانگیر نے ١٠٢٨ھ/١٦١٩ء میں آپ کو قلعہ گوالیار میں قید کر دینے کا حکم دیا۔جھانگیر نے اپنی تزک میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔لیکن وہاں سجدہ تعظیمی کا کوئی ذکر نہیں کیا بلکہ آپ کے مکتوب یازدہم کو نیز شور ش عوام کو بنیاد بنا کر قید کر نے کا ذکر کیا ہے۔قید و بند کی یہ صعوبتیں یہیں ختم نہ ہو ءییں بلکہ آپ کی تمام تر جایدادوں کے بھی ضبط کرنے کا حکم دے دیا۔ آپ حویلی باغ وغیرہ اور کتابیں ضبط کرلی گئیں۔ ١٠٢٩ھ /١٦٢٠ء میں آپ کو رہا کردیا گیا۔اور آپ کو اجازت دے دی کہ خواہ لشکر کے ساتھ رہیں یا اپنے وطن چلے جائیں۔آپ نے لشکر شاہی کے ساتھ ہی رہنا مناسب سمجھا۔آپ ١٠٣٣ھ تک لشکر کے ساتھ رہے۔ لشکر کے ساتھ حضرت مجدد کو رکھنے میں جہاں گیر کی بظاھر یہ مصلحت تھی تاکہ عوام سے آپ دور رھیں اور امراء دربار و لشکر سے آپ کے تعلقات شہنشاہ کی نظر میں رہیں۔ تزک جہانگیر ی سے بظا ھر معلوم ہوتا ہے کہ جہاں گیر کو اخیر میں آپ سے عقیدت ہوگیء تھی۔کیونکہ جہانگیر شیخ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی رہائی کے تین سال بعد اپنی سالگرہ کے ذکر میں لکھتا ہے: بدستور ھر سال خود را بہ طلا واجناس وزن فرمودہ در وجہ مستحقان مقرر فرمودم۔ازاں جملہ شیخ احمد سرہندی را دو ہزار روپیہ عنایت شدہ۔بالآخر شیخ مجدد سرھندواپس تشریف لے آئے تو عوام الناس کا سیلاب حلقہ عقیدت میں شامل ہونے کیلئے امنڈ پڑا۔آپ نے اس کے بعد عمر کا بقیہ حصہ سرھند میں رشد و ہدایت تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے ہوئے گذارا۔٢٨صفر،١٠٣٤ھ/١٠دسمبر ١٦٢٤ءکو شریعت و طریقت کا یہ آفتاب عالم تاب اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے باوجود ٦٣سال عمر پاکر سرزمین سرھند میں غروب ہو گیا۔آپ کی اولاد میں سا ت لڑکے اور تین بیٹیاں تھیں۔ت ان میں سے تین صاحبزادے شیخ محمد فرخ،شیخ محمد عیسیٰ اور شیخ محمد اشرف بچپن ہی میں انتقال کرگئے باقی چار صاحبزادے بہت مشہور ہوئے اور انہوں نے اپنے والد گرامی کی وراثت کو خوب پروان چڑھایا۔ ان کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں:١.شیخ محمد صادق ولادت ١٠٠٠ھ/ ١٥٥٢ء متوفی ٩ربیع الاول ١٠٢٤ھ/ ١٦١٥ء ٢.خواجہ محمد سعید ١٠٠٥ھ /١٥٩٦ءوفات ١٠٧٩ء٣.شیخ محمد معصوم ولادت ١٠٠٧ءوفات ١٠٧٩ء ٤. شیخ محمد یحییٰ ۔حضرتِ مجدد کی وفات کے وقت ان کی عمر  ٩ سا ل تھی۔ تصانیف :١.مکتوبات۔ سہ جلد
٢.رسالہ رد شیعیت
٣.رسالہ اثبات النبوہ
٤.رسالہ تھلیلیہ
٥.رسالہ مبداء و معاد
٦.رسالہ معارفِ لدنیہ
٨.مکاشفات غیبیہ
٩.تعلیقات بر شرح رباعیات
١٠.تعلیقات عوارف المعارف
١١.رسالہ آداب المریدین
مکتوبات:شیخ مجدد نے اپنے مرشد خواجہ باقی باللہ کے اشارے پر مکتوبات لکھے۔یہ تین دفاتر پر مشتمل ھیں۔پہلی جلد ٣١٣ مکتوبات پر مشتمل ھیں۔دفتر اول کے  مرتب خواجہ یار محمد بخشی طالقانی ھیں جو حضرت مجدد الف ثانی کے مرید تھے۔جب حضرت مجدد کو معلوم ہو ا کہ ٣١٣مکتوبات جمع ہوگئے ہیں تو فرمایا یہ عدد مبارک ہے لہذا اس دفتر کو اسی عدد پر ختم کریں۔ پہلا دفتر ١٠٢٥ھ /١٦١٦ء میں مرتب ہوا۔خواجہ ھاشم کشمی نے اس کی تاریخ درالمعرفت سے نکالی جسے حضرت مجدد نے پسند فرمایا اور اس دفتر کو اسی نام سے موسوم کرنے کاحکم فرمایا۔
دفتر دوم کا تاریخی نام نورالخلایق جس سے سا ل تالیف ١٠٢٨ھ برامد  ہوتا ہے۔اس دفتر میں ٩٩مکتوبات ہیں۔اس عدد پر اس دفتر کو اس لیے ختم کیا گیا کیونکہ یہی تعداد اسماء حسنیٰ کی ہے۔  دفتر سوم کے مرتب خواجہ ہا شم کشمی ہیں جنھوں نے  اسے ١٠٣١ھ /١٦٢٢ء میں مرتب کیا اور معرفت الحقائق نام رکھا۔مکتوبات کے چند  موضوعات حسب ذیل ھیں :۔معرکہ سنت و بدعت ،تردید نظریہ وحدت الوجود،نظریہ وحدت الشھود،ترتیب مراتب وترتیب خلافت،حقوق وومراتب صحابہ،حقوق و مراتب مصطفیٰ،سیرت رحمۃ للعالمین، مرتبہ حدیث صحیح بخاری بعد قرآن مجید،ادلہ احکام شرعیہ،موازنہ شریعت و تصوف۔ علامہ محمد مراد  دمشقی نے مکتوبات کا عربی میں ترجمہ کیا جو دمشق سے شا یع ہو چکا ھے۔ اس کے علاوہ تشیید المبانی کے نام سے مکتوبات کی روایات حدیث کی تخریج لکھی گئی۔عالم عرب میں شیخ خالد کردی نے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کو بہت ترویج دی۔
******************
#شیخ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ
#Sheikh Mujaddid Alfsani.
درج ذیل مضامین بھی ملاحظہ فرمائیں اوراپنی قیمتی آراءسے نوازیں:

#Etiquettes of naming
#نام رکھنے کے آداب
#The Impact of Islam on Indian culture
#Last address of the prophet Mohammad peace be upon him
#Prophet's life in short
#Munsif Gogoi
#شیخ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ
#ولیمے کے آداب
#والدین کے حقوق
# ا نسان کے اپنی ذات سے متعلق آداب
#غیبت
#سنت و نوافل کہاں پڑھنا بہتر ہے مسجد میں یا گھر میں
#اولوالامرکی تفسیر
#آداب نکاح
#Eid Meeladun Nabi
# موبائل اور فون کے آداب

7 comments: