راحت اندوری ہماری زبان کے عظیم شاعراور ایک اہم ستون تھے ان کی اچانک وفات سے اہل زبان وادب سکتے میں ہیں وہ ہندوستان میں
غزل کی آبرو ادب کی جان اورقومی شاعری کا دبستان تھے. انہوں اپنی غزلوں اور نظموں کے وسیلے سے نہ صرف یہ کہ اردوادب کی آبیاری کی بلکہ عوامی جذبات وخیالات حکومت کے ایوانوں تک پہنچائے انہوں نے بارہاظالم حکومت کواپنے مخصوص لہجے میں للکارا اورمومن کامل کی طرح کلمۂ حق بلند کیا.یہی ان کے کلام کامخصوص امتیاز تھا,شعرگوئی میں وہ کسی کے مقلد نہ تھے بلکہ ان کا ایک خاص اسلوب تھا جوان کی ذات کے ساتھ ختم ہوگیا.ایک ایسے عظیم شاعر کی وفات جس کی قوم وملت اور اردوزبان وادب کوابھی سخت ضرورت تھی پوری اردوبرادری کوجھنجھوڑکے رکھدیاہے یہ ایک ایسا خسارہ ہے جس کی تلافی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے
سوانح
پیدائش : 1 جنوری 1950ء، وفات: 11 اگست 2020ء) ایک بھارتی اردو شاعر اور ہندی فلموں کے نغمہ نگار تھے۔وہ دیوی اہليہ یونیورسٹی اندور میں اردو ادب کے پروفیسر بھی رہے۔ انھوں نے کئی بھارتی ٹیلی ویژن شو بھی کیے۔ انھوں نے کئی گلوکاری کے رئیلیٹی شو میں بہ طور جج حصہ لیا ہے۔ راحت اندوری کا 11 اگست 2020ء بروز منگل انتقال ہوا۔
راحت قریشی کی پیدائش اندور میں یکم جنوری، 1950ء کو ہوئی۔ وہ ایک ٹیکسٹائل مل کے ملازم رفعت اللہ قریشی اور مقبول النساء بیگم کے یہاں پیدا ہوئے۔ وہ ان کی چوتھی اولاد ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم نوتن اسکول اندور میں ہوئی۔ انہوں نے اسلامیہ كريميہ کالج اندور سے1973ء میں اپنی بیچلر کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد وہ 1975ء میں راحت اندوری نے بركت اللہ یونیورسٹی،بھوپال سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ اعلیٰ ترین تعلیمی سند کے لیے 1985ء میں انہوں نے مدھیہ پردیشکے مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ایک اچھے شاعر اور گیت کار ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے کئی بالی وڈ فلموں کے لیے نغمے لکھے ہیں جو مقبول اور زبان زد عام بھی ہوئے
اگست10 2020ء کو راحت اندوری صاحب کی کووڈ-19 جانچ کی گئی اور رپورٹ مثبت آئی، نیز وہ بندش قلبکے مرض میں بھی مبتلا تھے۔ مدھیہ پردیش کے اندور کے "آربندو ہسپتال" میں داخل کیا گیا، جہاں 11 اگست 2020ء کی شام میں ان کا انتقال ہو گیا۔ انا للہ واناالیہ راجعون
زمانہ بڑے شوق سے سن رہاتھا
تمھیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً 70 سال تھی .نمونۂ کلام
غزل
ہاتھ خالی ہیں تِرے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی، تو مِری جان! لُٹاتے جاتےاب تو ہر ہاتھ کا پتّھر ہَمَیں پہچانتا ہے
عُمر گذری ہے تِرے شہر میں آتے جاتے
رینگنے کی بھی اِجازت نہیں ہم کو، ورنہ !
ہم جِدھر جاتے، نئے پُھول کِھلاتے جاتے
مجھ میں رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
اب کہ مایُوس ہُوا یاروں کو رُخصت کر کے
جا رہے تھے ، تو کوئی زخم لگاتے جاتے
ہم سے پہلے بھی مُسافر کئی گزرے ہونگے
کم سے کم، راہ کا پتّھر تو ہٹاتے جاتے
یہ جھوٹے لوگ ہیں سچائی سے نہیں ملتے
وہ سب سے ملتے ہوئے ہم سے ملنے آتا ہے
ہم اس طرح کسی ہرجائی سے نہیں ملتے
پُرانے زخم ہیں کافی ، شمار کرنے کو
سو، اب کِسی بھی شناسائی سے نہیں ملتے
ہیں ساتھ ساتھ مگر فرق ہے مزاجوں کا
مرے قدم مری پرچھائی سے نہیں ملتے
محبتوں کا سبق دے رہے ہیں دُنیا کو
جو عید اپنے سگے بھائی سے نہیں ملتے
اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
چراغوں کو اچھالا جا رہا ہے
ReplyDeleteہوا پر رعب ڈالا جا رہا ہے
نہ ہار اپنی نہ اپنی جیت ہوگی
مگر سکہ اچھالا جا رہا ہے
وہ دیکھو میکدے کے راستے میں
کوئی اللہ والا جا رہا ہے
تھے پہلے ہی کئی سانپ آستیں میں
اب اک بچھو بھی پالا جا رہا ہے
مرے جھوٹے گلاسوں کی چھکا کر
بہکتوں کو سنبھالا جا رہا ہے
ہمی بنیاد کا پتھر ہیں لیکن
ہمیں گھر سے نکالا جا رہا ہے
جنازے پر مرے لکھ دینا یارو
محبت کرنے والا جا رہا ہے