Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان
https://follow.it/amir-samdani?action=followPub
Saturday, 17 June 2023
زناسےحمل ٹھہرنے کے بعد نکاح
جب کسی مرد اور عورت کی غیر شرعی یا غیر قانونی مباشرت سے عورت کو حمل ٹھہر جائے تو جس مرد کے ساتھ زنا سے حمل ٹھہرا ہے دورانِ حمل اسی کے ساتھ نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ زانی اور زانیہ کا نکاح کروا دیا جائے کیونکہ زانیہ کو حمل ٹھہرنے کی صورت میں کوئی دوسرا اس کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اگر کوئی نکاح کر بھی لے تو کئی طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اگر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنا ہے تو وضع حمل (بچے کی پیدائش) کے بعد کیا جائے گا۔
زنا سے ٹھہرنے والے حمل سے جو پچہ پیدا ہوگا اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت والدین ہی کے ذمہ ہے۔ وہ ناپاک نہیں ہے، اور اسی محبت کا مستحق ہے جو اولاد کے ساتھ کی جاتی ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار
)
(3/
49):
"لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقاً، والولد له ولزمه النفقة.
(قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولايقول: من الزنى، خانية. والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلايجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلايحل له استلحاقه به، ولذا لو صرح بأنه من الزنى لايثبت قضاءً أيضاً، وإنما يثبت لو لم يصرح؛ لاحتمال كونه بعقد سابق أو بشبهة حملاً لحال المسلم على الصلاح، وكذا ثبوته مطلقاً إذا جاءت به لستة أشهر من النكاح؛ لاحتمال علوقه بعد العقد، وأن ما قبل العقد كان انتفاخاً لا حملاً، ويحتاط في إثبات النسب ما أمكن"
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment