https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 11 October 2023

ایڈس ،جزام کی بناپر فسخ وتفریق

اگر شوہر کو ایسی بیماری ہوگئی جو بیوی کے لیے باعثِ نفرت ہو اگر شوہر کو برص (سفید داغ) اور جذام (کوڑھ: جسم کے کسی حصے کا سڑنا) یا اس جیسی کوئی اور بیماری ہوجائے جس سے قوتِ جماع ختم نہ ہو؛ مگر بیوی ساتھ رہنے پر آمادہ نہ ہواور وہ تفریق کا مطالبہ کرے تو ایسی صورت میں امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کے نزدیک عورت کا مطالبہ رد ہوجائے گا؛ لیکن امام محمدؒ عورت کو تفریق کے مطالبہ کا اختیار دیتے ہیں ، حضرت امام محمدؒ کا مسلک راجح ہے، فتح القدیر (۲/۱۵۳) میں اس کی وضاحت ہے۔ اما إذا کان ذلک (أي العیب) بالرجل فلا خیارَ لہا أیضاً إلّا فیما یمنع الوطأَ مثل العنۃ والجبّ في قول أبي حنفیۃ وأبي یوسفؒ وقال محمدؒ: إذا کان بہٖ دائٌ لا یمکنہا المقام معہ مثل الجذام ونحوہ خیرت۔ (شرح مختصر الطحاوی للجصاص نکاح الشغار ۲/۶۸۵، بدائع الصنائع ۲/۵۸۱، ہندیـــۃ ۱/۵۲۶) وقول محمد أرجح۔ (فتح القدیر ۲/۱۵۳ محرمات) ایڈز یا اس جیسی مہلک متعدی بیماریوں کی وجہ سے تفریق اگر شوہر کو ایڈز ہوجائے یا اس جیسی کوئی متعدی بیماری ہوجائے جس سے بیوی میں بیماری منتقل ہونے کا شدید اندیشہ ہو تو اس صورت میں اگر بیوی تفریق کا مطالبہ کرے تو تفریق کردی جائے گی۔ ’’مجموعۂ قوانین اسلام‘‘ میں ہے: ’’ایسے متعدی مرض کی بنا پر عورت کو حقِ تفریق دیا جانا چاہیے ، الخ‘‘ (۲/۶۲۴) اگر شوہر کی منی میں قوتِ تولید نہ ہو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر جماع پر قادر ہوتا ہے؛ مگر اس کے مادئہ منویہ میں کروم زوم کم ہوتے ہیں جس سے تولید نہیں ہوتی ایسی صورت میں اگر کوئی عورت تفریق کا مطالبہ کرے تواس کا مطالبہ رد کردیا جائے گا؛ اس لیے کہ دوسرے شوہر سے بھی اولاد کا ہونا یقینی نہیں ، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں بیٹی دیتے ہیں ، جس کو چاہتے ہیں بیٹا دیتے ہیں ، جس کو چاہتے ہیں دونوں دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں بے اولاد چھوڑ دیتے ہیں (شوری:۵۰) یہ تو اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے: لولم یکن لہٗ ماء ویجامع فلا ینزِلُ لا یکونُ لہا حقُ الخصومۃ۔ کذا فی النہایۃ۔ (ہندیہ ۱/۵۲۵ زکریا دیوبند) اگر شوہر کو عمرقید ہوجائے اگر شوہر کو کسی جرم کی وجہ سے عمرقید کی سزا ہوجائے اور رہائی کی ساری کوششیں ناکام ہوجائیں اور بیوی اپنی عفت وعصمت پر خطرہ محسوس کرکے فسخِ نکاح کا مطالبہ کرے تو سب سے پہلے شوہر سے رابطہ کرکے طلاق لینے کی کوشش کی جائے، عورت اگر یہ کوشش کرسکتی ہو تو کرے اگر نہیں تو دارالقضاء یا محکمۂ شرعیہ شوہر سے رابطہ کرے، طلاق مل جائے تو بہتر ہے۔ (کفایۃ المفتی ۶/۱۱۰، ۱۱۲ میں تھوڑی تفصیل ہے) اگر شوہر طلاق نہیں دیتا ہے یا خلع قبول نہیں کرتا تو عدم انفاق، عدم وطی اور عفت وعصمت کی حفاظت وغیرہ کو علت بناکر دارالقضاء یا محکمۂ شرعیہ کے ذریعہ علماء کی جماعت فسخِ نکاح کردے گی۔ اگر اتفاق سے شوہر قید سے چھوٹ کر آجائے تو بیوی اگر دوسرا نکاح نہیں کی تھی تو دوبارہ اس سے نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتا ہے، اگر وہ دوسرا نکاح کرچکی ہوتو وہ نکاح باقی رہے گا؛ کیوں کہ سابق شوہر سے نکاح فسخ ہوچکا ہے اور فسخ نکاح طلاق بائن کے حکم میں ہوتا ہے۔ اگر شوہر سے رابطہ ناممکن ہوتو فسخ نکاح کا فیصلہ پیچیدگی پیدا کرسکتا ہے؛ اس لیے کہ اگر وہ واپس آجائے تو خواہ عورت کے دوسرے نکاح کے بعدآئے یا دوسرے شوہر کے دخول کے بعدآئے دونوں صورتوں میں بیوی پہلے شوہر ہی کی ہوگی۔ (دیکھیے: الحیلۃ الناجزہ، ص:۱۸۳،۹۵، امارت شرعیہ ہند نئی دہلی) زدوکوب کی بناپر فسخ نکاح : اگر شوہر طلاق نہ دے تو بیوی کچھ مال کی لالچ دے کر یا مہر معاف کرکے خلع پر راضی کرلے، اگر شوہر راضی ہوجائے تو خلع پر رضامندی ایک طلاقِ بائن کے قائم مقام ہوگی اور بیوی کو خلاصی حاصل ہوجائے گی۔ اگر شوہر خلع کو بھی قبول نہ کرے اور معاملہ دارالقضاء میں آجائے تو وہاں بھی مصالحت یا پھر طلاق یا پھر خلع کی صورت اپنائی جائے، اگر ان سب میں ناکامی ہوتو میاں بیوی سے ایک ’’حَکَم نامہ‘‘ منظور کرایا جائے اور پھر فسخ کی صورت اپنائی جائے۔ ’’کتاب الفسخ والتفریق‘‘ میں مولاناعبدالصمد رحمانیؒ نے مالکیہ کا مسلک اختیار کرنے کی گنجائش بھی لکھی ہے کہ ایسی صورت میں بیوی قاضی سے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے (ص۱۴۷) مزید تحریر فرماتے ہیں : ’’حالات کے پیش نظر اگر مارپیٹ حد ضرر تک ہو اور عورت تنگ ہوکر تفریق کا مطالبہ کرے اور حنفی قاضی کو فریقین سے تحقیقِ حال کے بعد شواہد وثبوت سے یہ ظنِ غالب ہوجائے کہ عورت اپنے دعویٰ میں سچی ہے تو امام مالکؒ کے مسلک پر ان کی تصریحات کے مطابق فیصلہ دے سکتا ہے۔‘‘(ص۱۴۸) اگر شوہر کفریہ کلمہ بولے اگر شوہرایسی بات بولے جس سے کفر لازم آرہا ہو تو وہ مرتد ہوجائے گا اوراس کا نکاح فوراً فسخ ہوجائے گا۔ اس پر فقہائے اربعہ کا اجماع ہے (الحیلۃ الناجزہ، ص۲۰۸)، علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں : وارتدادُ احدِہما فسخٌ عاجلٌ بلا قضاء (الدر المختار مع رد المحتار ۴/۳۶۶ زکریا) ترجمہ: اور زوجین میں سے کسی ایک کا مرتد ہونا نکاح کو فوراً ختم کردیتا ہے، بغیر قضائے قاضی کے (تفریق ہوجائے گی)۔ اگر شوہر کفریہ کلمہ بولنے کا اقرار کرتاہے، تب تو بیوی اس کے نکاح سے خارج ہوجائے گی اور عدت گزرنے کے بعد بیوی کو دوسری جگہ نکاح کا اختیار ہوگا۔ اور اگر شوہر اقرار نہیں کرتا ہو؛ بلکہ بیوی دعویٰ کرتی ہو کہ شوہر نے کفریہ کلمہ بولا ہے تواس کے قول پر دلیل قائم کرنا بیوی کی ذمہ داری ہوگی۔ اگر بیوی اپنے دعویٰ کو ثابت کرلے تو تفریق ہوجائے گی اور دوبارہ نکاح کے لیے بیوی کو مجبور نہیں کیا جائے گا، وہ اپنی مرضی سے دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ بیوی قابلِ اعتماد علمائے کرام سے رابطہ کرکے مسئلہ کی پوری نوعیت کو سمجھے یا کسی قابلِ اعتماد دارالافتاء سے فتویٰ لے کر اقدام کرے، اگر یہ معاملہ دارالقضاء یا محکمۂ شرعیہ میں پیش کرے تو زیادہ بہتر ہے۔ اگر بیوی کفریہ کلمہ بولے اگر بیوی کفریہ کلمہ بولی تو اس میں ائمہ احناف کے تین اقوال ہیں : (الف) اس کا نکاح فسخ ہوجائے گا؛ لیکن تجدیدِ اسلام کے بعد تجدید نکاح پر مجبور کیا جائے گا اور کسی دوسری جگہ نکاح کا اختیار نہ ہوگا۔ یہ ظاہر الروایہ ہے۔ (ب) اس کا نکاح فسخ نہ ہوگا، دونوں بہ دستور میاں بیوی رہیں گے۔ (ج) عورت کنیز بن کر رہے گی۔ موجودہ ہندوستان میں مجبور کرنا مشکل ہے اور کنیز بنانا بھی؛ اس لیے دوسرے قول پر عمل کرتے ہوئے دونوں بہ دستور میاں بیوی رہیں گے؛ البتہ تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح سے پہلے وطی اور دواعیِ وطی سے منع کیاجائے گا۔ اس مسئلہ کی تفصیل ’’الحیلۃ الناجزہ‘‘ میں ہے (دیکھیے: ص۲۰۸ تا ص۲۱۲، امارت شرعیہ نئی دہلی)

No comments:

Post a Comment