https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 20 February 2024

مسجد سے ملحق مدرسہ بنات

 میں نے ایک قطعہ اراضی مسلمانوں کی غریب بستی میں اس نیت سے خریدا کہ اس میں مسجد اور لڑکیوں کا مدرسہ قائم کروں گا جس میں مسلم بچیوں کو فی سبیل اللہ تعلیم معلمات کے ذریعہ دی جایے گی ۔مسجد اور مدرسہ ماشاءاللہ تیارہیں مدرسہ مسجد سے متصل فوقانی منزل سے اس طرح ملحق ہے کہ مدرسہ میں داخل ہونے کے لیے مسجد کی فوقانی منزل سے چند قدم گزر کرہی جاسکتے ہیں۔ مدرسہ کاایریا مسجد سے الگ ہے اس حالت میں لڑکیاں مسجد سے گزر کر مدرسہ میں معلمات سے تعلیم حاصل کرسکتی ہیں کہ نہیں۔واضح رہے کہ بستی کی غریب بچیاں بغیر کسی فیس وغیرہ کےاس مکتب میں تعلم حاصل کرتی ہیں۔ یہ مدرسہ مسجد میں نے اپنے پیسے سے بنوایا کسی سے کوئی چندہ نہیں لیا اور وقف کردیا۔معلمات کی تنخواہیں میں اپنی جیب سے دیتاہوں۔فقط پروفیسر شبیر احمد امیر نشاں علی گڑھ 

الجواب وباللہ التوفیق ومنہ المستعان وعلیہ التکلان

صورت مسئولہ میں 

لڑکیوں کا ایسا مکتب یامدرسہ جہاں پڑھانے والی خواتین ہوں، پردہ کا پورا اہتمام رہے ،مردوں سے اختلاط نہ ہوبغیر کسی اجرت کے لوجہ اللہ تعلیم دی جاتی ہوتو ایسے مکتب یامدرسہ کا قائم کرناکارثواب ہے ۔ البتہ

طالبات کی تعلیم میں اس کا خیال رکھنابھی ضروری ہے کہ ان کی آواز باہر نہ جائے، کہ اجنبی مرد ان کی آوازسے فتنہ کا شکار نہ ہوسکیں ۔اوقات میں بھی اس کا خیال رکھیں کہ نماز کے اوقات نہ ہوں  تاکہ مردوں سے اختلاط کی نوبت نہ آیے 

(وللحرة)...(جمیع بدنہا)...(خلا الوجہ والکفین) ...(والقدمین) علی المعتمد ، وصوتہا علی الراجح...... (قولہ وصوتہا) معطوف علی المستثنی یعنی أنہ لیس بعورة ح (قولہ علی الراجح) عبارة البحر عن الحلیة أنہ الأشبہ. وفی النہر وہو الذی ینبغی اعتمادہ. ومقابلہ ما فی النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمہا القرآن من المرأة أحب. قال - علیہ الصلاة والسلام - التسبیح للرجال، والتصفیق للنساء فلا یحسن أن یسمعہا الرجل. اہ. وفی الکافی: ولا تلبی جہرا لأن صوتہا عورة، ومشی علیہ فی المحیط فی باب الأذان بحر. قال فی الفتح: وعلی ہذا لو قیل إذا جہرت بالقراء ة فی الصلاة فسدت کان متجہا، ولہذا منعہا - علیہ الصلاة والسلام - من التسبیح بالصوت لإعلام الإمام بسہوہ إلی التصفیق اہ وأقرہ البرہان الحلبی فی شرح المنیة الکبیر، وکذا فی الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسی: ذکر الإمام أبو العباس القرطبی فی کتابہ فی السماع: ولا یظن من لا فطنة عندہ أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نرید بذلک کلامہا، لأن ذلک لیس بصحیح، فإنا نجیز الکلام مع النساء للأجانب ومحاورتہن عند الحاجة إلی ذلک ، ولا نجیز لہن رفع أصواتہن ولا تمطیطہا ولا تلیینہا وتقطیعہا لما فی ذلک من استمالة الرجال إلیہن وتحریک الشہوات منہم ، ومن ہذا لم یجز أن تؤذن المرأة. اہ. قلت: ویشیر إلی ہذا تعبیر النوازل بالنغمة (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/ 77،78،ط: زکریا، دیوبند، کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة)

دینی تعلیم کے حصول کیلئے  طالبات یا معلمات کاضرورتاً  مسجد مذکور میں داخل ہوکر اپنے مدرسہ یامکتب  میں داخل ہونا جایز ہے کیونکہ واقف کی نیت تعمیر سے پہلے ہی اس مدرسہ یا مکتب کو منہج موجود پر بنانے کی تھی۔البتہ حیض ونفاس ودیگر نجاسات سے طالبات کو معلمات کے ذریعہ پہلے ہی آگاہ کردیاجائے کہ ناپاکی کے ایام میں مکتب نہ آیاکریں۔

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به."

‌‌(مطلب في وقف المنقول قصدا،ص:366،ج:4،ط:دار الفکر بیروت )

فتح القديرميں ہے:

"ومعلم الصبيان القرآن كالكاتب إن كان لأجر لا وحسبة لا بأس به. ومنهم من فضل هذا إن كان لضرورة الحر وغيره لا يكره وإلا فيكره، وسكت عن كونه بأجر أو غيره، وينبغي حمله على ما إذا كان حسبة، فأما إن كان بأجر فلا شك في الكراهة، وعلى هذا فإذا كان حسبة ولا ضرورة يكره لأن ‌نفس ‌التعليم ومراجعة الأطفال لا تخلو عما يكره في المسجد، والجلوس في المسجد بغير صلاة جائز لا للمصيبة."

(كتاب الصلاة،فصل ويكره استقبال القبلة بالفرج في الخلاء،ج:1،ص:422،ط:دار الفكرلبنان)

فقط واللہ اعلم بالصواب  محمد عامر الصمدانی 

قاضی شریعت دارالقضاء آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ علی گڑھ ۔

١٤, شعبان المعظم ١٤٤٥ھ/٢٥فروری ٢٠٢٤ء



No comments:

Post a Comment