شوہرجب تک نابالغ ہے اسے طلاق کا اختیار نہیں نہ ہی اس کے والد اس کے مجاز ہیں کہ بیٹے کی بیوی کو طلاق دیدیں حالاں کہ نابالغ کے نکاح کا اولیاء کو اختیار حاصل ہے۔ طلاق کے لیے اولیاء کو بچے کے بالغ ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
" وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ.
(قوله: وأهله زوج عاقل إلخ) احترز بالزوج عن سيد العبد ووالد الصغير، وبالعاقل ولو حكما عن المجنون والمعتوه والمدهوش والمبرسم والمغمى عليه، بخلاف السكران مضطرا أو مكرها، وبالبالغ عن الصبي ولو مراهقا، وبالمستيقظ عن النائم. "
(كتاب الطلاق، 3/ 230، ط: سعيد)
’’بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ‘‘میں ہے:
" ومنها أن يكون بالغا فلا يقع طلاق الصبي وإن كان عاقلا لأن الطلاق لم يشرع إلا عند خروج النكاح من أن يكون مصلحة وإنما يعرف ذلك بالتأمل والصبي لاشتغاله باللهو واللعب لا يتأمل فلا يعرف."
(كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق، 3/ 100، ط: سعيد)
تقدیر پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟
ReplyDelete2. مسئلہ تقدیر کو کیسے بیان کیا جا سکتا ہے؟
3. تقدیر کے مسئلے پر اشکال کیا ہیں؟
4. کیا ہر ایک کام کا ارادہ خدا کے ارادے کے تابع ہوتا ہے؟
5. انسان کے برے کام اللہ تعالیٰ کیوں کرواتا ہے؟