https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 17 November 2021

پارٹنرشپ میں نفع کے حصول کاطریقہ

 جس کاروبار میں شراکت کی گئی ہے اگر وہ جائز اور حلال ہے تو  شراکت درست ہے،البتہ یہ شراکت نفع اور نقصان دونوں کی بنیاد پر ہوگی۔

نفع کی تعیین فیصد/حصص کے اعتبار سے کی جائے گی،مثلاً نفع دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہوگا، یا کسی ایک فریق کے لیے ساٹھ فیصد اور دوسرے کے لیے چالیس فیصد یادونوں کے سرمایہ کے بقدرنفع تقسیم کیاجائے، یااگر دونوں شریک کام کرتے ہوں اور ایک شریک زیادہ محنت کرتاہے یاکاروبار کوزیادہ وقت دیتاہے تو اس کے لیے نفع کی شرح باہمی رضامندی سے بڑھانادرست ہے، اورنفع کے حصول کےیہ طریقے جائز ہیں۔ اگر دونوں شریک ہیں، لیکن ایک شریک کام کرتاہے دوسرا شریک کام نہیں کرتا تو جو کام کرتاہے اس کے لیے نفع کا تناسب سرمائے کے تناسب سے زیادہ مقرر کرنا درست ہوگا، لیکن جو شریک کام نہیں کرتا اس کے لیے نفع کا تناسب اس کے سرمائے سے زیادہ مقرر کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ ایسی صورت میں سرمائے کے تناسب سے نفع تقسیم ہوگا۔

البتہ کاروبار میں رقم لگاکر نفع کو متعین کردینامثلاً یہ کہناکہ ہر  مہینے یا اتنی مدت بعد مجھے نفع کے طور پر اتنی رقم دی جائے، یا انویسمنٹ کا اتنا فیصد دیا جائے  یہ طریقہ درست نہیں ہے۔حاصل یہ ہے کہ  متعین نفع مقرر کر کے شراکت داری کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

اسی طرح نقصان میں بھی شریک ہوناشرکت کے جواز کے لیے شرط ہے،  یعنی سرمائے کے تناسب سے ہر ایک شریک نقصان میں بھی شریک ہوگا۔ یا اگر مضاربت کی صورت میں عقد ہوا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اولاً خسارہ نفع میں سے پورا کیا جائے گا، اگر خسارہ پورا ہونے کے بعد بھی کچھ نفع باقی رہتاہے تو نفع کا جو تناسب باہمی رضامندی سے طے ہوا ہو ، اسی اعتبار سے بقیہ نفع تقسیم کیا جائے گا، اور اگر کل نفع خسارے میں چلا گیا تو مضارب (ورکنگ پارٹنر) کو کچھ نہیں ملے گا، اور سرمایہ دار کو بھی نفع نہیں ملے گا، اور اگر نفع کے ساتھ ساتھ سرمائے میں سے بھی کچھ رقم یا کل رقم ڈوب گئی تو رب المال (سرمایہ دار) کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا، بشرطیکہ مضارب کی طرف سے تعدی ثابت نہ ہو۔

نیز دونوں شریکوں میں سے ہر ایک کو شرکت ختم کرنے کا اختیار ہوگا،جب جو فریق چاہے شرکت ختم کرسکتاہے۔اور شرکت ختم کرنے کی صورت میں سرمایہ سے خریداجانے والا جو سامان ہوگا اس مشترکہ سامان کی قیمت لگاکر ہر ایک کا حصہ اور منافع اپنی اپنی سابقہ شرائط کے مطابق تقسیم کرلیں گے، اور چاہے تو ہر ایک شریک اپنے موجود سرمایہ کی رقم کے بقدر سامان لے لے یا دوسرا فریق باہمی رضامندی سے سامان اپنے پاس رکھ کر نقد رقم دے دے دونوں صورتیں درست ہیں۔(امدادالاحکام ص:340)

لیکن یہ شرط رکھ کر شرکت کرنا کہ جب شرکت ختم ہوگی بہرصورت  میں اپنی مکمل رقم واپس لوں گا،  یعنی نقصان میں شریک نہ ہونا، یہ صورت  ناجائز ہے اور اس صورت میں حاصل کیاجانے والانفع بھی حلال نہیں ہے۔

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: وتصح مع التساوي في المال دون الربح وعكسه ) وهو التفاضل في المال والتساوي في الربح  وقال زفر والشافعي: لايجوز؛ لأن التفاضل فيه يؤدي إلى ربح ما لم يضمن فإن المال إذا كان نصفين والربح أثلاثاً فصاحب الزيادة يستحقها بلا ضمان؛ إذ الضمان بقدر رأس المال؛ لأن الشركة عندهما في الربح كالشركة في الأصل، ولهذا يشترطان الخلط فصار ربح المال بمنزلة نماء الأعيان؛ فيستحق بقدر الملك في الأصل.

ولنا قوله عليه السلام: الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين. ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة، وقد يكون أحدهما أحذق وأهدى أو أكثر عملاً فلايرضى بالمساواة؛ فمست الحاجة إلى التفاضل. قيد بالشركة في الربح؛ لأن اشتراط الربح كله لأحدهما غير صحيح؛ لأنه يخرج العقد به من الشركة، ومن المضاربة أيضاً إلى قرض باشتراطه للعامل، أو إلى بضاعة باشتراطه لرب المال، وهذا العقد يشبه المضاربة من حيث أنه يعمل في مال الشريك ويشبه الشركة اسماً وعملاً فإنهما يعملان معاً، فعملنا بشبه المضاربة وقلنا: يصح اشتراط الربح من غير ضمان وبشبه الشركة حتى لاتبطل باشتراط العمل عليهما. وقد أطلق المصنف تبعاً للهداية جواز التفاضل في الربح مع التساوي في المال، وقيده في التبيين وفتح القدير بأن يشترطا الأكثر للعامل منهما أو لأكثرهما عملاً". (5/188)

"مبسوط سرخسی" میں ہے:

"والشريكان في العمل إذا غاب أحدهما أو مرض أو لم يعمل وعمل الآخر فالربح بينهما على ما اشترطا؛ لما روي أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أنا أعمل في السوق ولي شريك يصلي في المسجد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعلك بركتك منه"، والمعنى أن استحقاق الأجر بتقبل العمل دون مباشرته والتقبل كان منهما وإن باشر العمل أحدهما، ألا ترى أن المضارب إذا استعان برب المال في بعض العمل كان الربح بينهما على الشرط أو لا ترى أن الشريكين في العمل يستويان في الربح وهما لا يستطيعان أن يعملا على وجه يكونان فيه سواء، وربما يشترط لأحدهما زيادة ربح لحذاقته وإن كان الآخر أكثر عملاً منه، فكذلك يكون الربح بينهما على الشرط ما بقى العقد بينهما وإن كان المباشر للعمل أحدهما ويستوي إن امتنع الآخر من العمل بعذر أو بغير عذر لأن العقد لا يرتفع بمجرد امتناعه من العمل واستحقاق الربح بالشرط في العقد".(11/287،دارالفکر)

"فتاوی شامی" میں ہے:

"(قوله: والربح إلخ) حاصله أن الشركة الفاسدة إما بدون مال أو به من الجانبين أو من أحدهما، فحكم الأولى أن الربح فيها للعامل كما علمت، والثانية بقدر المال، ولم يذكر أن لأحدهم أجراً ؛ لأنه لا أجر للشريك في العمل بالمشترك كما ذكروه في قفيز الطحان، والثالثة لرب المال وللآخر أجر مثله (قوله: فالشركة فاسدة)؛ لأنه في معنى بع منافع دابتي ليكون الأجر بيننا، فيكون كله لصاحب الدابة؛ لأن العاقد عقد العقد على ملك صاحبه بأمره، وللعاقد أجرة مثله؛ لأنه لم يرض أن يعمل مجاناً، فتح". (4/326،دارالفکر)

 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو استأجره ليحمل له نصف هذا الطعام بنصفه الآخر لا أجر له أصلًا؛ لصيرورته شريكًا ... (ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له)؛ لأنه لايعمل شيئًا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلايستحق الأجر (كراهن استأجر الرهن من المرتهن)؛ فإنه لا أجر له لنفعه بملكه ... (قوله: فلا أجر له) أي لا المسمى ولا أجر المثل، زيلعي؛ لأن الأجر يجب في الفاسدة إذا كان له نظير من الإجارة الجائزة، وهذه لا نظير لها، إتقاني، وظاهر كلام قاضي خان في الجامع أن العقد باطل؛ لأنه قال: لاينعقد العقد".  (کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج:۶ ؍ ۵۷ ،۵۸ ،۶۰ ، ط:سعید )

و فیہ ایضاً:

"وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضاً على الشرط، ويكون مال الدافع عند العامل مضاربةً، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لايصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعةً لكل واحد منهما ربح ماله".  (کتاب الشرکۃ، مطلب فی شرکۃ العنان، ج:۴ ؍۳۱۲، ط:سعید

پگڑی کی دوکان خالی کرنے کی شکل میں پگڑی کی رقمواپس کرنا

 واضح رہے کہ مروجہ پگڑی کا  معاملہ شرعاً درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ پگڑی نہ تو مکمل خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ(کرایہ داری) ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا  ایک  ملا جلامعاملہ ہے، پگڑی پر لیا گیا مکان یا دکان  بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتے ہیں۔

پگڑی کا معاملہ ختم کرنے کی صورت میں  جب پگڑی پر لینے والا شخص  دکان  اس کے مالک کو واپس کرے گا تو  مالک کے ذمے پگڑی کے پیسے واپس کرنا لازم ہوں گے، البتہ ساتھ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ اس نے اس دکان  میں اپنی ذاتی رقم سے کوئی تعمیراتی کام وغیرہ کرایا ہے یا نہیں ؟ اگر اس نے دکان  میں کوئی تعمیراتی کام مثلاً:  لکڑی، ٹائلز ، فرنیچر وغیرہ  کا اضافہ نہیں کیا ہے  تو  پگڑی کی جتنی رقم اس نے دی ہے وہ اس کو واپس دی جائے گی اور  دکان مالکِ دکان کی ہوگی، اور اگر اس شخص نے اپنی ذاتی رقم سے اس پگڑی کی دکان میں کوئی کام کروایا تھا ، مثلاً:  لکڑی، ٹائلز یا دیگر تعمیراتی کام، تو ایسی صورت میں وہ دکان کے  اصل مالک سے باہمی رضامندی سے ان کاموں کی  کوئی رقم  متعین کرکے خرید و فروخت کا معاملہ کرسکتا ہے۔ 

         "فتاوی شامی" میں ہے:

"وفي الأشباه : لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة، وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف.

(قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك، ولا يجوز الصلح عنها".(4 / 518، کتاب البیوع،  ط: سعید)

"بدائع الصنائع " میں ہے:

 "ولو أجرها المستأجر بأكثر من الأجرة الأولى فإن كانت الثانية من خلاف جنس الأولى طابت له الزيادة، وإن كانت من جنس الأولى لا تطيب له حتى يزيد في الدار زيادة من بناء أو حفر أو تطيين أو تجصيص".(4/ 206، کتاب الاجارۃ،  فصل فی حکم الاجارۃ، ط: سعید

مکینک کوگاہک لانے پرکمیشن دینا

 مکینک جو گاہک آ پ کے پاس لاتے ہیں اور اس میں اپنے کمیشن کا مطالبہ کرتے ہیں ان کا مطالبہ درست ہے، بشرطیکہ آپ ان سے کمیشن پہلے طے کرلیں کہ ہر گاہک پر اتنا کمیشن ہوگا یا اتنے کی خریداری پر اتنا کمیشن ہوگا، اور  پھر جو رقم آپ مناسب سمجھیں اس پر گاہک کو مال دے دیں۔ اس معاملہ کا گاہک کو معلوم ہونا ضروری نہیں۔ اس لیے کہ مکینک بطورِ بروکر  آپ کے لیے کسٹمر لایا  ہے،  اس کی اجرت وہ آپ سے لے رہا ہے، جس رقم پر آپ اپنا مال بیچیں اس سے مکینک کا دخل نہیں۔

اگر مکینک یہ کمیشن گاہک سے لےگا تو اس کے ذمہ لازم ہے کہ گاہک کو بتائے کہ یہ چیز اتنے کی ہے اور اس پر میرا اتنا کمیشن ہے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 11):
"ولايضم أجرة الطبيب والرائض والبيطار، وجعل الآبق وأجرة السمسار تضم إن كانت مشروطةً في العقد بالإجماع، وإن لم تكن مشروطةً بل كانت موسومةً، أكثر المشايخ على أنها لاتضم، ومنهم من قال: لاتضم أجرة الدلال بالإجماع، بخلاف أجرة السمسار إذا كانت مشروطة في العقد".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجاً ينسج له ثياباً في كل سنة"

Tuesday 16 November 2021

خوارج وروافض

خوارج اصطلاحی تعریف
امام شہرستانی لکھتے ہیں : " كل من خرج على الإمام الحق الذي اتفقت الجماعة عليہ يسمى خارجياً، سواء كان الخروج في أيام الصحابةعلى الأئمةالراشدين أوكان بعدهم على التابعين لهم بإحسان والأئمة في كل زمان"
رافضہ یا رافضی ان لوگوں کو کہتے ہیں جن کا خیال ہے کہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خلافت حضرت علی کے سپرد کرنے کی قطعی اور صریح وصیت کی تھی۔ اس لیے پہلے تین خلفاء اور ان کی حمایت کرنے والے صحابہ و تابعین غلطی پر تھے اور نفاق کا شکار تھے اور اس وصیت کو چھپانے والے مسلمان بھی گمراہ تھے۔ اس عقیدہ کورافضیت کہا جاتا ہے۔ اس فرقے کا یہ عقیدہ بقیہ امامیہ فرقوں میں سےشیعہ عقائد کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ اور اسی بنا پر بعض لوگ نادانستگی میں اہل تشیع کو بھی رافضہ کہہ دیتے ہیں.
  • قاضی سلیمان منصورپوری لکھتے ہیں جب زید الشہید کے مقابلے میں یوسف ثقفی لشکر لایا تو یہ سب لوگ امام کو چھوڑ کر بھاگ گئے تو زید شہید نے فرمایا رفضونا الیوم تو اس دن سے شیعہ کا نام رافضی پڑا.(رحمۃ للعالمین. ج375)
  • جب اہل عراق نے زین العابدین کے صاحبزادے امام زید شہید سے ابوبکرو عمر کی تعریف سنی تو کہنے لگے آپ ہمارے امام نہیں ہیں امام بھی ہمارے ہاتھ سے گیا جس پر امام زیدشہید نے کہارفضونا الیوم ہمیں آج کے دن سے ان لوگوں نے چھوڑ دیا(آج سے یہ رافضی بن گئے) اس دن سے اس جماعت کو رافضی کہا جاتا ہے۔
  • ] ناسخ التواريخ۔ مرزا تقی خان ،ج 2 ،ص 590

ڈاکٹر ذاکرنائک کے بیانات سننا جائز ہے یا نہیں

  ڈاکٹر ذاکر نائیک غیر مقلد ہیں ، انہیں ادیان ومذاہب کے بارے میں کافی معلومات ہیں اور تقابلِ ادیان پر مہارت بھی ہے،لہٰذا خاص طور پر اس موضوع کے حوالے سے ان کے بیانات سن سکتے ہیں،بلکہ عصرحاضرمیں ان کی تبلیغی مساعی اور تقابل ادیان پربیانات گراں مایہ سرمایہ ہے. جس کاپوری ملت اسلامیہ نے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے. ان کے دلائل وبراہین اورطریق استدلال قابل صدآفرین ہے. لیکن حدیث اور فقہ میں ان کی علمیت اس درجے کی نہیں،اور ضروری بھی نہیں کہ ہر شخص ہر علم میں کامل مہارت رکھتا ہو ، اس لیے دینی مسائل کے بارے میں ان کی آراء  پر اعتماد کرنے کے بجائے  کسی مستند عالمِ دین سے رجوع کرکے عمل کیا جائے

Monday 15 November 2021

صحابہ کی تکفیر کرنا کیسا ہے

 

صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنے والا فاسق ، فاجر اور گمراہ ہے، اگر گستاخی اس درجے کی ہو کہ اس میں کسی قطعی دلیل کا انکار لازم آئے، تو یہ کفر ہے، مثلاً: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانا ۔ (۲) شیعوں میں جس فرقے کے عقائد کفریہ ہوں ، مثلا: حضرات شیخین کی صحابیت کا انکار کرنا، یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانا، یا قرآن میں تحریف کا قائل ہونا وغیرہ، تو ایسا فرقہ کافر ہے، قال النسفي: ویکف عن ذکر الصحابة الا بخیر ۔۔۔۔فسبہم والطعن فیہم ان کان مما یخالف الأدلة القطعیة، فکفر کقذف عائشة والا فبدعة و فسق۔ ( شرح العقائد النسفیة، ص: ۱۶۱۔۔۱۶۲،ط: یاسر ندیم، دیوبند ) وقال في المسامرة: واعتقاد أہل السنة والجماعة تزکیة جمیع الصحابة رضي اللّٰہ عنہم وجوبا باثبات العدالة لکل منہم، والکف عن الطعن فیہم۔ (المسامرة، ص: ۱۳۳، ط: أشرفیة، دیوبند ) وقال ابن عابدین: نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدة عائشة رضي اللّٰہ عنہا، أو أنکر صحبة الصدیق، أو اعتقد الألوہیة في علي، أو أن جبرئیل غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ ( رد المحتار علی الدر المختار: ۶/۳۷۸، کتاب الجہاد، باب المرتد، ، مطلب مہم في حکم سب الشیخین، ط: زکریا، دیوبند، وکذا في الہندیة: ۲/۲۷۶، کتاب السیر، الباب التاسع في حکم المرتدین، ط: زکریا )

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے ایمان کو معیارِ حق قرار دیتے ہوئے بعد میں آنے والوں کی کامیابی کو ان پاکیزہ نفوس کی طرح ایمان لانے سے مشروط کیا ہے، ارشاد ہے:

﴿ فَإِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا ﴾(البقرۃ:137)

اگر وہ  ایمان لائے جیسا کہ تم (اصحاب رسول) ایمان لائے ہو تو  وہ ہدایت پالیں گے۔

لہذاصحابہ کرام میں سے کسی کی تنقیص کرنا یا  ان کو کافر قرار دینا جب کہ اللہ رب العزت نے ان کے بارے میں ﴿رضی الله عنهم  ورضواعنه﴾ کا فرمان صادر کیا ہے، اہلِ سنت و الجماعت کے اجماعی عقیدے سے منحرف ہونا  ہے، اور شیخین کے علاوہ دیگر صحابہ کو کافر قرار دینے والا شخص اہلِ ضلال میں سے  اور گمراہ ہے، جب کہ حضراتِ شیخین(خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ)  کو گالی دینا اور حضرت ابوبکر صدیقِ رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کفر ہے۔ جیساکہ ''فتاوی شامی'' میں ہے:

'' نقل عن البزازية عن الخلاصة: أن الرافضي إذا كان يسب الشيخين و يعلنها فهو كافر... و سب أحد من الصحابة و بغضه لا يكون كفراً لكن يضلل''. (مطلب مهم في حكم سب الشيخين ٤/ ٢٣٧، ط: سعيد)۔

Saturday 13 November 2021

عدم وقوع طلاق کی ایک صورت

 سوال:میرے سالے نے مجھے فون کیا اور کہاتم میری بہن کوطلاق دیدو, میں نے جواب میں کہاہروقت طلاق, طلاق ,طلاق کرتے رہتے ہیں .اس سے میراارادہ طلاق کابالکل نہیں تھا. کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہو گئی ؟جواب:

صورت مسؤلہ میں بصحت سوال طلاق واقع نہیں ہوئی .فریقین بدستور میاں بیوی ہیں .اس کی نظیریں کتب فقہ میں موجود ہیں:

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ  (9/ 183)
 "لَوْ كَرَّرَ مَسَائِلَ الطَّلَاقِ بِحَضْرَةِ زَوْجَتِهِ، وَيَقُولُ: أَنْتِ طَالِقٌ وَلَا يَنْوِي لَا تَطْلُقُ ، وَفِي مُتَعَلِّمٍ يَكْتُبُ نَاقِلًا مِنْ كِتَابِ رَجُلٍ قَالَ: ثُمَّ يَقِفُ وَيَكْتُبُ : امْرَأَتِي طَالِقٌ، وَكُلَّمَا كَتَبَ قَرَنَ الْكِتَابَةَ بِاللَّفْظِ بِقَصْدِ الْحِكَايَةِ لَا يَقَعُ عَلَيْهِ".

عصرحاضر کے مشہور فقیہ مرحوم شیخ وہبہ زحیلی لکھتے ہیں :

طلاق الحكاية والتمثيل ـ لغايات التعليم أو الإخبار ما هو طلاق التمثيل؟ المقصود بذلك أن يتلفظ رجل بلفظ الطلاق الصريح قاصدًا نقل خبر، أو قراءة نص في كتاب من كتب الفقه، أو كالمعلم الذي يضرب مثالًا لطلاب العلم، وهو لا يقصد الطلاق، فلا خلاف بين العلماء في أن من نقل عن نفسه أو غيره طلاقًا سابقًا على سبيل الإخبار والحكاية، أو ردد عبارة طلاق على جهة الحفظ من كتاب بقصد المذاكرة، أو توضيح المعلم للتلاميذ، فلا يعدّ هذا الطلاق واقعًا على زوجة المتكلم، لأنه لا يقصدها ولا يستحضرها عند اللفظ، ولا يقصد بذلك إنشاء الطلاق.[

الفقه الإسلامى وأدلته:وهبه الزحيلى ،الصفحة:3040

حکایت وتمثیل سے طلاق واقع نہیں ہوتی

 کتاب  سے مسئلہ پڑھنے کی صورت میں  جو طلاق کے الفاظ بولے یا لکھے جاتے ہیں وہ بطورِ حکایت کسی کی گفتگو نقل کرنا ہوتے ہیں ، ان سے طلاق دینا مقصود نہیں ہوتا اور شرعاً کسی دوسرے  کے طلاق کے الفاظ  نقل کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔۔

 البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ  (9/ 183)
 "لَوْ كَرَّرَ مَسَائِلَ الطَّلَاقِ بِحَضْرَةِ زَوْجَتِهِ، وَيَقُولُ: أَنْتِ طَالِقٌ وَلَا يَنْوِي لَا تَطْلُقُ ، وَفِي مُتَعَلِّمٍ يَكْتُبُ نَاقِلًا مِنْ كِتَابِ رَجُلٍ قَالَ: ثُمَّ يَقِفُ وَيَكْتُبُ : امْرَأَتِي طَالِقٌ، وَكُلَّمَا كَتَبَ قَرَنَ الْكِتَابَةَ بِاللَّفْظِ بِقَصْدِ الْحِكَايَةِ لَا يَقَعُ عَلَيْهِ".

شیخ وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں :

طلاق الحكاية والتمثيل ـ لغايات التعليم أو الإخبار ما هو طلاق التمثيل؟ المقصود بذلك أن يتلفظ رجل بلفظ الطلاق الصريح قاصدًا نقل خبر، أو قراءة نص في كتاب من كتب الفقه، أو كالمعلم الذي يضرب مثالًا لطلاب العلم، وهو لا يقصد الطلاق، فلا خلاف بين العلماء في أن من نقل عن نفسه أو غيره طلاقًا سابقًا على سبيل الإخبار والحكاية، أو ردد عبارة طلاق على جهة الحفظ من كتاب بقصد المذاكرة، أو توضيح المعلم للتلاميذ، فلا يعدّ هذا الطلاق واقعًا على زوجة المتكلم، لأنه لا يقصدها ولا يستحضرها عند اللفظ، ولا يقصد بذلك إنشاء الطلاق.[

الفقه الإسلامى وأدلته: ،الصفحة:304

طلاق التمثيل أوا لحكاية

 طلاق الحكاية والتمثيل ـ لغايات التعليم أو الإخبار ما هو طلاق التمثيل؟ المقصود بذلك أن يتلفظ رجل بلفظ الطلاق الصريح قاصدًا نقل خبر، أو قراءة نص في كتاب من كتب الفقه، أو كالمعلم الذي يضرب مثالًا لطلاب العلم، وهو لا يقصد الطلاق، فلا خلاف بين العلماء في أن من نقل عن نفسه أو غيره طلاقًا سابقًا على سبيل الإخبار والحكاية، أو ردد عبارة طلاق على جهة الحفظ من كتاب بقصد المذاكرة، أو توضيح المعلم للتلاميذ، فلا يعدّ هذا الطلاق واقعًا على زوجة المتكلم، لأنه لا يقصدها ولا يستحضرها عند اللفظ، ولا يقصد بذلك إنشاء الطلاق.[

الفقه الإسلامى وأدلته:وهبه الزحيلى ،الصفحة:3040

Friday 12 November 2021

عذاب قبرکا ثبوت

 عذابِ قبر حق ہے۔ قرآنِ مجید کی کئی آیتوں سے عذاب قبر ثابت ہے، ارشاد ربانی ہے:

1-{اَلنَّارُیُعْرَضُوْنَ عَلَیْها غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَّیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَاب} [المؤمن:46]

ترجمہ: ’’ وہ لوگ (برزخ میں) صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں، اور جس روز قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا) فرعون والوں کو (مع فرعون کے) نہایت سخت آگ میں داخل کرو۔‘‘ (بیان القرآن)

اس آیت میں فرعونیوں کا عالمِ برزخ میں عذاب میں مبتلا ہونا صراحتًا مذکور ہے، اسی طرح تمام کفار و مشرکین اور بعض گناہ گار مؤمنین کو برزخ میں عذاب دیا جاتاہے، جیساکہ بہت سی صحیح احادیث میں مذکور ہے۔

2- {حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99)لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ(100)فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ(101)}[المؤمنون: 99-101]

ترجمہ: ’’یہاں تک کہ جب پہنچے ان میں کسی کو موت، کہے گا: اے رب مجھ کو پھر بھیج دو، شاید کچھ میں بھلا کام کرلوں اس میں جو پیچھے چھوڑ آیا، ہرگز نہیں، یہ ایک بات ہے کہ وہی کہتاہے، اور ان کے پیچھے پردہ ہے، اس دن تک کہ اٹھائے جائیں، پھر جب پھونک ماریں صور میں تو نہ قرابتیں ہیں ان میں اس دن اور نہ ایک دوسرے کو پوچھے۔ ‘‘ (تفسیر عثمانی)

عذابِ قبر کے حوالے سے احادیث، شہرت بلکہ تواتر تک پہنچ گئی ہیں، عذابِ قبر سے انکار صراحتًا کفر اور جہالت ہے۔ 

1- ’’عن عائشة رضي الله عنها أنّ یهودیة دخلت علیها، فذکرت عذاب القبر، فقالت لها: أعاذك اللہ من عذاب القبر، فسالت عائشة رسول الله ﷺ عن عذاب القبر، فقال: نعم، عذاب القبر حقّ، قالت عائشة: فما رأیت رسول الله ﷺ بعد صلّی صلاۃً إلّا تعوذ بالله من عذاب القبر. متفق علیه.‘‘

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی، اور اس نے عذابِ قبر کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دعا دی: "اللہ تعالیٰ آپ کو عذابِ قبر سے بچائے"، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے اس بابت سوال کیا (کہ کیا واقعی عذابِ قبر ہوتاہے؟) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! عذابِ قبر حق ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ دیکھا کہ ہر نماز میں عذابِ قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

2- ’’عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ.‘‘

(بخاری،بَاب التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،حدیث نمبر:۱۲۸۸)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے اور یوں فرماتے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ:اے اللہ میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں اور جہنم کے عذاب سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے اور دجال کے فتنے سے۔

3- ’’عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ أَوْ مَكَّةَ فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، ثُمَّ قَالَ: بَلَى كَانَ أَحَدُهُمَا لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ وَكَانَ الْآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ثُمَّ دَعَا بِجَرِيدَةٍ فَكَسَرَهَا كِسْرَتَيْنِ فَوَضَعَ عَلَى كُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا كِسْرَةً، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ قَالَ: لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ تَيْبَسَا أَوْ إِلَى أَنْ يَيْبَسَا.‘‘

(بخاری، بَاب مِنْ الْكَبَائِرِ أَنْ لَا يَسْتَتِرَ مِنْ بَوْلِهِ،حدیث نمبر:۲۰۹)

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ یا مکہ کے کسی باغ سے گزرے، اتنے میں دو انسانوں کی آواز سنی جن کو قبر میں عذاب دیا جارہا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان دونوں کو عذاب ہورہا ہے اور کسی بڑے کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا ہے، (بلکہ ایسی معمولی باتوں پر جن سے بچ سکتے تھے)؛ پھر آپ نے فرمایا: ان دونوں میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا؛ پھر آپ ﷺ نے ایک تر ٹہنی منگائی پھر اس کے دو ٹکڑے کیے، پھر ایک ایک ٹکڑا دونوں قبروں پر رکھ دیا، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: شاید ان دونوں کا عذاب ان کے سوکھنے تک ہلکا کردیا جائے۔

4- ’’كَانَ عُثْمَانُ رضي الله عنه إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ، فَقِيلَ لَهُ: تُذْكَرُ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلَاتَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا؟! فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ؛ فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ، قَالَ: وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا الْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ.‘‘

(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ الْمَوْتِ،حدیث نمبر:۲۲۳۰)

ترجمہ: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ داڑھی مبارک تر ہوجاتی تھی، سوال کیا گیا کہ آپ جنت و دوزخ کا تذکرہ کرکے نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر (اس قدر) روتے ہیں!؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بے شک قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، سو اگر اس سے نجات پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ آسان ہیں اور اگر نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے کبھی کوئی منظر قبر کے عذاب سے زیادہ سخت نہیں دیکھا۔

5- ’’عَنْ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا مَاتَ الْمَيِّتُ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ، فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، ثُمَّ يُقَالُ هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.‘‘

(ترمذی، قَالَ أَبُو عِيسَى وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،باب ما جاء فی عذاب القبر،حدیث نمبر:۹۹۲)

ترجمہ: حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب انسان کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے، اگر وہ اہلِ جنت میں سے ہے تو جنت والوں کا مقام اور اگر اہلِ جہنم میں سے ہے تو جہنم والوں کا مقام (اس کو دکھایا جاتا ہے)، پھر کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانا ہے، یہاں تک کہ اللہ تجھ کو قیامت کے دن اٹھائے گا۔

Tuesday 9 November 2021

نادانی یالغزش لسانی سے کلمۂ کفر کہہ دیناموجب کفرنہیں

 گفتگو کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے، تاہم زبان سے بلا قصد و ارادہ کلمات کفر کی ادائیگی سے کفر لازم نہیں آتا, توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے.  آئندہ سوچ سمجھ کر گفتگو کرنے کی عادت ڈالیں۔

فتاوی تتارخانیہ میں ہے:

"وما كان خطأ من الألفاظ، لاتوجب الكفر، فقائله مؤمن علی حاله، و لايؤمر بتجديد النكاح، و لكن يؤمر بالإستغفار و الرجوع عن ذلك". ( كتاب أحكام المرتدين، الفصل الأول، ٧/ ٢٨٤، ط: زكريا) 

عقیدے کے مسائل میں مسلمان کا جہالت کی بنا پر عذر قبول کرنے کا ذکر متعدد شرعی دلائل میں موجود ہے، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

1- ایسی تمام شرعی نصوص جن میں خطا کار کا عذر قبول کیا گیا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: 
( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا )
ترجمہ: ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ مت فرمانا۔ [البقرة:286] اس آیت کے بعد اللہ تعالی نے صحیح مسلم (126) کی روایت کے مطابق فرمایا: (میں نے تمہاری دعا قبول فرما لی ہے)

اسی طرح:  فرمانِ باری تعالی ہے: (وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا)
ترجمہ: جن امور میں تم سے خطا ہو جائے اس میں تم پر گناہ نہیں ہے، تاہم جن میں تمہارے دل عمداً خطا کریں [ان میں گناہ ہے]اور اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔[ الأحزاب:5]

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک اللہ تعالی نے میری امت سے خطا ، بھول چوک اور زبردستی کروائے گئے کام معاف کر دیے ہیں)
ابن ماجہ: (2043) اس حدیث کو البانی نے حسن کہا ہے۔

تو ان تمام نصوص سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ  جس شخص نے بھی بھول کر یا لا علمی کی وجہ سے شرعی حکم کی مخالفت کی تو وہ معاف ہے؛ کیونکہ خطا کار میں جاہل اور لا علم شخص بھی شامل ہے؛ کیونکہ ہر وہ شخص  خطا کار ہے  جو غیر ارادی طور پر حق بات  کی مخالفت کر لے۔

شیخ  عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ [معافی] عام ہے اس میں وہ تمام اہل ایمان شامل ہیں  جو غلطی سے کوئی عملی یا اعتقادی خطا کر بیٹھیں" انتہی
"الإرشاد إلى معرفة الاحكام" ص 208

ایسے ہی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جہالت بلا شک و شبہ خطاکاری میں شامل ہوتی ہے، اس لیے ہم یہ کہتے ہیں: اگر کوئی انسان ایسا قولی یا فعلی کام کر لے جو کفر کا موجب ہے ، لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ یہ کفر ہے، یعنی اسے شرعی دلیل کی روشنی میں علم نہیں ہے کہ یہ کام کفر ہے؛ تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا" انتہی
"الشرح الممتع" (14/449)

ایسے ہی شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا )
ترجمہ: ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ مت فرمانا۔ [البقرة:286] اس آیت کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا: (میں نے تمہاری دعا قبول فرما لی ہے) یہاں پر کسی ظنی یا قطعی مسئلے میں یقینی خطا کی تفریق  نہیں فرمائی۔۔۔ چنانچہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کسی بھی قطعی یا ظنی مسئلے میں خطا کھانے والا شخص گناہ گار ہو گا تو ایسا شخص کتاب و سنت اور قدیم اجماع کی مخالفت کر رہا ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (19/210)


Monday 8 November 2021

فرض کی آخری دورکعتوں میں سورۂ فاتحہ پڑھنا

 فرض نمازکی تیسری اورچوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھناافضل ہے،واجب نہیں اورتین بارسبحان اللہکہنایااتنی مقدارخاموش کھڑارہنابھی جائزہے،لیکن تسبیح پڑھناخاموش رہنے سے بہترہے۔

    چنانچہ فرض کی تیسری اورچوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں صحیح بخاری میں ہے:”ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقرأ فی الظھر فی الأولیین بأم الکتاب، وسورتین، وفی الرکعتین الأخریین بأم الکتاب“بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دورکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دوسورتیں تلاوت فرماتے تھے اور آخری دورکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ تلاوت فرماتے تھے ۔

(صحیح بخاری ،کتاب الاذان ،باب یقرأ فی الاخریین،ج1،ص107، مطبوعہ کراچی )

    اورفرض کی آخری دورکعتوں میں کچھ بھی نہ پڑھنے کے بارے میں  مؤطاامام مالک میں ہے:”أن عبد اللہ بن مسعود کان لا یقرأ خلف الامام فیما جھر فیہ، وفیما یخافت فیہ فی الأولیین، ولا فی الأخریین، واذا صلی وحدہ قرأ فی الأولیین بفاتحة الکتاب وسورة، ولم یقرأ فی الأخریین شیئا“ترجمہ: بے شک عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے جہری اور خفی دونوں نمازوںمیں پہلی دو رکعتوں اورآخری دورکعتوں میں قراء ت نہیں کرتے تھے اور جب تنہا نماز پڑھتے تو پہلی دورکعتوں میں سورہ فاتحہ اورساتھ میں سورت کی قراء ت کرتے تھے اورآخری دورکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے تھے ۔

(مؤطا امام مالک ،باب افتتاح الصلاة،ص62،مطبوعہ  المکتبة العلمیہ)

    مصنف عبد الزراق میں ہے:”عن عبید اللہ بن أبی رافع قال کان یعنی علیا یقرأ فی الأولیین من الظھر والعصر بأم القرآن وسورة، ولا یقرأ فی الأخریین“ترجمہ: عبید اللہ بن ابی رافع رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ظہراور عصر کی پہلی دورکعت میں سورہ فاتحہ اور ساتھ میں سورت کی قراء ت کرتے تھے اور آخری رکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے تھے ۔

(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلاہ،باب کیف القراء ة فی الصلاة،ج2،ص100،مطبوعہ  المکتب الاسلامی ،بیروت)

    مصنف عبد الرزاق میں حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:”ما قرأ علقمة فی الرکعتین الأخریین حرفاقط“ترجمہ: حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ( فرض کی )آخری دو رکعتوں میں ایک حرف بھی نہ پڑھتے تھے۔

(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلاہ،باب کیف القراء ة فی الصلاة،ج2،ص100،مطبوعہ  المکتب الاسلامی ،بیروت)

    اورفرض کی تیسری اورچوتھی رکعت میں تسبیح پڑھنے کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:” یقرأ فی الأولیین، ویسبح فی الأخریین“ترجمہ : کہ (نمازی )پہلی دورکعتوں میں قراء ت کرے اورآخری دورکعتوں میں تسبیح کرے ۔

(مصنف ابن ابی شیبة،کتاب الصلاہ،من کان یقول یسبح فی الاخریین،ج1،ص327، مطبوعہ ریاض)

    درمختار میں ہے:”واکتفی المفترض فیما بعد الأولیین بالفاتحة فانھاسنۃ علی الظاھر ولو زاد لابأس بہ (وھو مخیر بین قراء ة) الفاتحة(وتسبیح ثلاثا) وسکوت قدرھا“ترجمہ:چاررکعت فرض پڑھنے والے کے لیے پہلی دو رکعت کے بعدسورہ فاتحہ پڑھناکافی ہےاوریہ بظاہرسنت بھی ہےاوراگرسورہ فاتحہ کے ساتھ سورت بھی ملالی توکوئی حرج نہیں اورنمازی کوسورہ فاتحہ پڑھنے اور تین مرتبہ تسبیح کہنے اوراس مقدار چپ رہنے میں اختیار ہے۔

(درمختار،کتاب الصلاۃ،ج02،ص270،مطبوعہ 

Sunday 7 November 2021

تری پورہ تشدد :جرائم کی خبرشیئر کرنابھی جرم ٹھہرا

 تریپورہ میں حال میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں پولیس نے ٹوئٹر، فیس بک اور یو ٹیوب وغیرہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے 102 صارفین کے خلاف یو اے پی اے کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔ جن لوگوں کے خلاف ایف آئی آر ہوئی ہے ان میں 68 ٹوئٹر صارفین ہیں، 32 فیس بک صارفین اور 2 یو ٹیوب اکاؤنٹس ہیں۔

مغربی اگرتلہ تھانہ میں درج اس ایف آئی آر کو اسی تھانے کے داروغہ تپن چندر داس کی شکایت پر درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں یو اے پی اے کی دفعہ 13 اور تعزیرات ہند کی دفعہ 153-اے (مخلف طبقات کے درمیان دشمنی پھیلانے کی کوشش)، 153-بی، 469، 471، 503، 504 اور 120-بی کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں ہندوستانی اور بین الاقوامی صحافیوں کے نام ہیں جن میں خاص طور سے شیام میرا سنگھ، عارف شاہ، سی جے ورلیمن وغیرہ ہیں۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ''ان لوگوں کے اکاؤنٹس سے مذہبی گروپوں اور طبقات کے درمیان دشمنی پھیلانے اور امن ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ تریپورہ پولیس اور حکومت کی ساکھ خراب کرنے اور اسے بدنام کرنے کی نیت سے افواہیں پھیلائی گئیں اور مجرمانہ سازش تیار کی گئی۔''

تریپورہ کے آئی جی نے ایک اخبار سے بات چیت میں کہا کہ ''ہم نے شروع میں 150 اکاؤنٹس کی شناخت کی تھی، لیکن بعد میں جانچ کے بعد 102 اکاؤنٹس کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔'' انھوں نے مزید کہا کہ ''ہم نے کچھ نامعلوم لوگوں کے خلاف بھی معاملہ درج کیا ہے جو پردے کے پیچھے رہ کر تشدد بھڑکانے کا کام کر رہے تھے۔ ہم نے معاملے کی جانچ کرائم برانچ کو سونپی ہے۔''

واضح رہے کہ تریپورہ میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی 26 اکتوبر کو ہوئی ایک ریلی کے دوران تشدد بھڑک اٹھی تھی اور کئی گھروں و دکانوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔ وی ایچ پی نے یہ ریلی بنگلہ دیش میں ہوئے فرقہ ورانہ تشدد کے خلاف نکالی تھی۔ تریپورہ میں اس واقعہ کے بعد کئی مزید واقعات پیش آئے جن میں کئی مساجد کو بھی نقصان پہنچایا گیا اور اقلیتی طبقہ کی ملکیتوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ جن اکاؤنٹ ہولڈرس پر معاملہ درج کیا گیا ہے، انھوں نے ریاست میں نفرت اور تشدد پھیلانے کا کام کیا۔ یہ ایک بڑی سازش ہے جس کی ہم جانچ کر رہے ہیں۔