https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 30 January 2022

دعاء قنوت اوراس کاحکم

 وتر کی تیسری رکعت میں سورۂ فاتحہ اور سورت کے بعد، رکوع سے پہلے دعاءِ قنوت پڑھنا واجب ہے، اور اس کے لیے کوئی دعا متعین نہیں ہے، کوئی بھی ماثور اور منقول  دعا پڑھ لی جائے کافی ہے، البتہ   ”اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِیْنُكَ ... الخ “ والی دعا پڑھنا فقہاءِ احناف کے ہاں راجح  ہے،  اسے یاد کرلیا جائے، اور اگر یہ یاد نہ ہو تو  ” رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ  پڑھ لے، اگر یہ بھی یاد نہ ہو  تو تین مرتبہ ”اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيْ“ پڑھ لے۔

دعاءِ قنوت کے الفاظ  مختلف طرح سے منقول ہیں، یہ ہیں:

”اللهم إنا نستعينك ونستغفرك ونؤمن بك ونتوكل عليك ونثني عليك الخير كله نشكرك ولا نكفرك ونخلع ونترك من يفجرك اللهم إياك نعبد ولك نصلي ونسجد وإليك نسعى ونحفد نرجو رحمتك ونخشى عذابك إن عذابك بالكفار ملحق“

مصنف ابن أبي شيبة (2 / 95):
 عن أبي عبد الرحمن، قال: علمنا ابن مسعود أن نقرأ في القنوت: «اللهم إنا نستعينك ونستغفرك، ونؤمن بك ونثني عليك الخير، ولانكفرك ونخلع ونترك من يفجرك، اللهم إياك نعبد، ولك نصلي، ونسجد، وإليك نسعى ونحفد، ونرجو رحمتك، ونخشى عذابك، إن عذابك الجد بالكفار ملحق»

مصنف ابن أبي شيبة (6 / 89):
عن أبي عبد الرحمن قال: علمنا ابن مسعود أن نقول في القنوت يعني في الوتر: «اللهم إنا نستعينك، ونستغفرك، ونثني عليك، ولا نكفرك، ونخلع، ونترك من يفجرك، اللهم إياك نعبد، ولك نصلي، ونسجد، وإليك نسعى ونحفد، ونرجو رحمتك، ونخشى عذابك إن عذابك بالكفار ملحق»

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2 / 45):

 ثم إن الدعاء المشهور عند أبي حنيفة اللهم إنا نستعينك ونستغفرك ونؤمن بك ونتوكل عليك ونثني عليك الخير كله نشكرك ولا نكفرك ونخلع ونترك من يفجرك اللهم إياك نعبد ولك نصلي ونسجد وإليك نسعى ونحفد نرجو رحمتك ونخشى عذابك إن عذابك بالكفار ملحق لكن في المقدمة الغزنوية إن عذابك الجد ولم يذكره في الحاوي القدسي إلا أنه أسقط الواو من نخلع والظاهر ثبوتهما أما إثبات الجد ففي مراسيل أبي داود وأما إثبات الواو في ونخلع ففي رواية الطحاوي والبيهقي وبه اندفع ما ذكره الشمني في شرح النقاية أنه لا يقول الجد واتفقوا على أنه بكسر الجيم بمعنى الحق واختلفوا في ملحق وصحح الإسبيجابي كسر الحاء بمعنى لاحق بهم وقيل بفتحها ونص الجوهري على أنه صواب وأما نحفد فهو بفتح النون وكسر الفاء وبالدال المهملة من الحفد بمعنى السرعة ويجوز ضم النون يقال حفد بمعنى أسرع وأحفد لغة فيه حكاها ابن مالك في فعل وأفعل وصرح قاضي خان في فتاويه بأنه لو قرأها بالذال المعجمة بطلت صلاته ولعله لأنها كلمة مهملة لا معنى لها.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 468):

"(و) قراءة (قنوت الوتر) وهو مطلق الدعاء وكذا تكبير قنوته.

(قوله: وقراءة قنوت الوتر) أقحم لفظ (قراءة) إشارة إلى أن المراد بالقنوت الدعاء لا طول القيام، كما قيل، وحكاهما في المجتبى، وسيجيء في محله. ابن عبد الرزاق: ثم وجوب القنوت مبني على قول الإمام: وأما عندهما فسنة، فالخلاف فيه كالخلاف في الوتر كما سيأتي في بابه (قوله: وهو مطلق الدعاء) أي القنوت الواجب يحصل بأي دعاء كان في النهر، وأما خصوص: «اللهم إنا نستعينك» فسنة فقط، حتى لو أتى بغيره جاز إجماعاً".

 فتاوی ہندیہ :

’’وليس في القنوت دعاء مؤقت، كذا في التبيين. و الأولي أن يقرأ : اللّهم إنا نستعينك و يقرأ بعده اللّهم اهدنا فيمن هديت. و من لم يحسن القنوت يقول: "ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة و قنا غذاب النار"، كذا في المحيط. أو يقول: اللّهم اغفرلنا، و يكرر ذلك ثلاثاً، وهو اختيار أبي الليث، كذا في السراجية‘‘.

(الباب الثامن في صلاة الوتر، ١/ ١١١، ط: رشيدية)


دعوت الی اللہ

 دین کی دعوت واشاعت کا کوئی خاص طریقہ شرعًا متعین نہیں کیا گیا ہے ؛ بل کہ ضرورت ، تقاضہ اور زمانے کے اعتبار سے اُس کی صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں، مثلًا وعظ وخطابت، درس وتدریس، تصوف واحسان اور افتا وتصنیف وغیرہ، ان سب پر جزوی یا کلی طور پر دعوت کا مفہوم صادق آتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دعوت کے لیے مختلف طریقے اختیار فرمائے ، کبھی خود بنفس نفیس تشریف لے گئے، کبھی صحابہ کرام کو بھیجا اور کبھی دعوتی خطوط روانہ فرمائے ، کبھی اکھٹا کرکے خطاب فرمایا اور کبھی انفرادا دعوت دی ۔شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا رحمة اللہ علیہ فضائل اعمال میں آیت قرآنی ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ کے تحت لکھتے ہیں : مفسرین نے لکھا ہے کہ جو شخص بھی اللہ کی طرف کسی کو بلائے ، وہ اس بشارت اور تعریف کا مستحق ہے، خواہ کسی طریق سے بلائے ، مثلا: انبیاء علیہم الصلاة والسلام معجزہ وغیرہ سے بلاتے ہیں اور علماء دلائل سے بلاتے ہیں اور موٴذنین اذان سے ، غرض جو بھی کسی شخص کو دعوت الی الخیر کرے، وہ اس میں داخل ہے، خواہ اعمال ظاہرہ کی طرف بلائے یا اعمال باطنہ کی طرف، جیساکہ مشائخ صوفیہ معرفت اللہ کی طرف بلاتے ہیں ۔

Saturday 29 January 2022

سالی سے زنا

 زنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے خواہ کسی کے ساتھ ہو، لہٰذا سالی کے ساتھ زنا بھی کبیرہ گناہ ہے جس پر فوری طور پر توبہ و استغفار کرنا لازم ہے۔ نیز اجنبیہ کے ساتھ زنا کے جو احکام ہیں سالی سے زنا ثابت ہوجائے تو وہی احکام جاری ہوں گے، لہٰذا  اگر شرعی گواہوں یا اقرار زنا کی وجہ سے عدالت میں زنا ثابت ہوجائے تو قاضی ایسے شخص کو سنگسار کرنے کا پابند ہوگا۔ اسی طرح  اگر اس بدترین فعل کو جائز و حلال سمجھ کر کیا تو آیت قرآنی: (وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الأّخْتَيْن) کے انکار کی وجہ سے تجدیدِ ایمان و تجدید نکاح کرنا لازم ہوگا۔  بصورت دیگر سالی سے زنا کی وجہ سے بیوی سے نکاح ختم تو نہیں ہوگا، مگر جب تک سالی ایک ماہواری سے پاک نہ ہوجائے اس وقت تک اپنی بیوی سے ہمبستری کی شرعاً اجازت نہیں ہوگی، اور اگر سالی اس زنا کی وجہ سے حاملہ ہو گئی تو جب تک ولادت نہ ہوجائے زانی کے لیے  اپنی بیوی سے ہمبستری کی شرعاً اجازت نہ ہوگی۔ نیز آئندہ  ایسے شخص کے لیے  اپنی سالی سے پردہ کرنا ضروی ہوگا

Friday 28 January 2022

A golden judgment

 The suspect was a 15-year-old Mexican boy. He was caught stealing from a store. While he was attempted to escape from the guard’s grip (when caught), a store shelf was also broken during the resistance.

خفین پرمسح کاطریقہ

 موزوں پر مسح کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ کی انگلیاں بھگوکر کھلی ہوئی حالت میں موزوں کے اگلے ظاہری حصہ سے اوپر پنڈلیوں کی طرف خط کھینچ دیا جائے، انگلیاں پوری رکھی جائیں؛ بلکہ اگر انگلیوں کے ساتھ ہتھیلی بھی شامل کرلی جائے تو زیادہ بہتر ہے ”والسنة أن یخطّ خطوطاً بأصابع ید مفرّجة قلیلاً یبدأ مِن قبل أصابع رجلہ متوجّہا إلی اأصل السّاق ومحلّہ علی ظاہر خفیہ من روٴوس أصابعہ (درمختار) وإن وضع الکفین مع الأصابع کان أحسن (رد المحتار علی الدر المختار: ۱/ ۱۴۸، ط:زکریا) وانظر بہشتی زیور (۱/۷۲، ط: اختری) (۲) موزوہ اتارنے سے مسح ٹوٹ جاتا ہے؛ لہٰذا اگر کسی شخص نے باوضو ہونے کی حالت میں موزہ اتارا تو اس پر ضروری ہے کہ پاوٴں دھوکر دوبارہ موزہ پہنے اگر بلا پاوٴں دھوئے موزہ پہنا تو ایسی صورت میں موزے پر مسح کرنا درست نہیں ہے۔ (۳) موزہ اتارنے سے صرف مسح ٹوٹتا ہے وضو نہیں ٹوٹتا، لہٰذا اگر کوئی باوضو شخص موزہ اتارتا ہے تو اس کے لیے پاوٴں دھوکر دوبارہ موزہ پہن لینا کافی ہے دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں ہے؛ البتہ اگر کرلے تو بہتر ہے۔ وناقضة ناقض الوضوء؛ لأنہ بعضہ ونزع خفّ ولو واحدًا․․․ وبعدہما أي النزع والمضي غسل المتوضئ رجلیہ لا غیر، قال الشامي: ینبغي أن یستحب غسل الباقی أیضًا مراعاة للولاء المستحب وخروجًا من خلاف مالک (الدر مع الرد: ۱/۴۶۳، ۴۶۴، ط: زکریا

Wednesday 26 January 2022

گردن کامسح کرنا

 وضو میں سر کے ساتھ گردن کے بعض حصہ کا مسح کرلینا مستحب ہے، حنفیہ کا یہی مذہب ہے، اسے بدعت کہنا غلط ہے: عن موسی بن طلحة قال من مسح قفاہ مع رأسہ وقي من الغل (شرح إحیاء العلوم للزبیدي: ۲/۳۶۵) عن نافع عن ابن عمر أن النبي صلیا للہ علیہ وسلم قال من توضأ ومسح بیدیہ علی عنقہ وقي الغل یوم القیامة (التلخیص الحبیر: ۱/۳۴، إعلاء السنن: ۱/۱۲۰) اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں جن سے سر کے ساتھ گردن کے مسح کا استحباب ثابت ہوتا ہے، تفصیل کے لیے اعلاء السنن: ۱/۱۲۰ کا مطالعہ فرمائیں۔

Tuesday 25 January 2022

موزے پرمسح کے احکام

 چمڑے کےموزے مخصوص شرائط پر پورے اترتے ہوں اور پاکی کی حالت میں پہنے گئے ہوں تو پاوں دهونے کے بجائے ان  پر مسح جائز ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایسے موزے جو پورے چمڑے کے ہوں یا ان کے اوپر اور نچلے حصے میں چمڑا ہو یا صرف نچلے حصے میں چمڑا ہو ان پر مسح کرنا جائز ہے، اسی طرح ایسی جرابیں جن میں تین شرطیں پائی جائیں: 1 گاڑھے ہوں کہ ان پر پانی ڈالا جائے تو پاوں تک نہ پہنچے. 2 اتنے مضبوط ہوں کہ بغیر جوتوں کے بهی تین میل پیدل چلنا ممکن ہو. 3 سخت بهی ایسی ہوں کہ بغیر باندهے پہننے سے نہ گریں، ان پر بهی مسح جائز ہے، ان کے علاوہ اونی سوتی یانائلون کی مروجہ جرابوں پر مسح جائز نہیں، مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے پاوں دهوکر پاکی کی حالت میں موزے پہنے جائیں، اس کے بعد پہلی بار وضو ٹوٹ جانے پر وضو کرتے ہوئے موزوں پر مسح کرسکتے ہیں ، یعنی موزوں کے اوپر والے حصے پر گیلا ہاته پهیریں گے یعنی پاوں کی انگلیوں پر تر ہاته رکه کر اوپر کی طرف کهینچیں گے، مسح کی مدت مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات یعنی چوبیس گهنٹے ہیں ، جبکہ مسافر کے لئے تین دن اور تین راتیں یعنی بہتر گهنٹے ہیں، یہ مدت موزے پہننے کے بعد پہلی بار وضو ٹوٹنے کے بعد سے شروع ہوتی ہے، اس دوران اگر کوئی وضو توڑنے والی صورت پیش آئے تو وضو ٹوٹ تو جاتا ہے اور اسی طرح دوبارہ وضو بهی کرنا ہوگا، البتہ پیر دهونے کی بجائے ان پر مسح کرنا جائز ہوتا ہے

وناقضة ناقض الوضوء؛ لأنہ بعضہ ونزع خفّ ولو واحدًا․․․ وبعدہما أي النزع والمضي غسل المتوضئ رجلیہ لا غیر، قال الشامي: ینبغي أن یستحب غسل الباقی أیضًا مراعاة للولاء المستحب وخروجًا من خلاف مالک (الدر مع الرد: ۱/۴۶۳، ۴۶۴، ط: زکریا)

Monday 24 January 2022

حالت احرام میں ماسک لگانے سے دم لازم ہوگا یا نہیں

  ماسک چوں کہ چہرے کے چوتھائی یا اس سے زیادہ حصہ کو چھپالیتا ہے، لہذا اگر کوئی شخص (خواہ مرد ہو یا عورت) احرام کی حالت میں مروجہ ماسک سے چوتھائی چہرہ یا اس سے زیادہ چھپاکر پورا دن یا پوری رات (یعنی بارہ گھنٹۓ) پہنے رکھے تو اس صورت میں دم دینا لازم ہوگا، اور اس سے کم پہننے کی صورت میں صدقہ لازم ہوگا، بلا عذر ماسک پہننے والا گناہ گار ہوگا، البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے پہنا ہو تو گناہ نہ ہوگا، تاہم دم یا صدقہ کا وجوب تفصیل بالا کے مطابق بہر صورت ہوگا؛ لہٰذا عمرہ کرنے والے شخص کو ماسک پہننا مجبوری ہو تو اسے چاہیے کہ وہ وقتًا فوقتًا ماسک اتارتا رہے، یا چوتھائی چہرہ نہ چھپائے؛ تاکہ چوتھائی چہرہ چھپائے ہوئے بارہ گھنٹے پورے نہ ہوں۔

غنية الناسك میں ہے:

"و أما تعصيب الرأس و الوجه فمكروه مطلقاً، موجب للجزاء بعذر أو بغير عذر، للتغليظ إلا ان صاحب العذر غير آثم".

( باب الإحرام، فصل في مكروهات الإحرام، ص: ٩١، ط: إدارة القرآن)

و فيه أيضًا:

"و لو عصب رأسه أو وجهه يومًا أو ليلةً فعليه صدقة، إلا ان يأخذ قدر الربع فدم".

( باب الجنايات، الفصل الثالث: في تغطية الرأس و الوجه، ص: ٢٥٤، ط: إدارة القرآن)

Thursday 20 January 2022

شرمگاہوں کے ملنے سے غسل واجب ہوگا کہ نہیں

 اگر میاں بیوی آپس میں اس طرح ملتے ہیں کہ دونوں کی شرم گاہیں ایک دوسرے سے مل جائیں لیکن دخول نہ ہو  اور انزال بھی نہ ہو تو اس سے ان دونوں میں سے کسی پر بھی غسل واجب نہ ہو گا، غسل کے وجوب کے لیے ضروری ہے  کہ مرد  کے آلۂ  تناسل کا حشفہ (آگے کا حصہ) عورت کی شرم گاہ میں داخل ہو جائے، اگر ایسی صورت پیش نہ آئے تو غسل واجب نہیں ہو  گا۔

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 42):
"فصل ما يجب فيه الاغتسال
يفترض الغسل بواحد من سبعة أشياء خروج المني الى ظاهر الجسد إذا انفصل عن مقره بشهوة من غير جماع وتواري حشفة". 

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 43):
"و" منها "توارى حشفة" هي رأس ذكر آدمي مشتهى حي احترز به عن ذكر البهائم والميت والمقطوع والمصنوع من جلد والأصبع وذكر صبي لايشتهي والبالغة يوجب عليها بتواري حشفة المراهق الغسل".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 36):
"والثاني: إيلاج الفرج في الفرج في السبيل المعتاد سواء أنزل، أو لم ينزل؛ لما روي أن الصحابة -رضي الله عنهم - لما اختلفوا في وجوب الغسل بالتقاء الختانين بعد النبي صلى الله عليه وسلم وكان المهاجرون يوجبون الغسل، والأنصار لا، بعثوا أبا موسى الأشعري إلى عائشة -رضي الله عنها- فقالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا التقى الختانان، وغابت الحشفة وجب الغسل أنزل، أو لم ينزل»، فعلت أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم واغتسلنا، فقد روت قولًا، وفعلًا". 
ف

Thursday 13 January 2022

قبرپرپھول ڈالنااطراف میں اینٹیں لگانا

 شرعی حکم یہ ہے کہ قبر پر مٹی ڈال کر اسے اونٹ کے کوہان کی مانند ایک بالشت اونچا بنایاجائے،  یہی طریقہ افضل ہے۔ قبر کو اس سے زیادہ اونچا بنانا مکروہ  ہے۔ نیزاگر قبر منہدم یا خراب ہورہی ہو تو اس پر مٹی ڈالنا اور درست کرنا جائز ہے، البتہ اس کام کے لیے کسی دن کو مخصوص کرنا ٹھیک نہیں۔

قبروں پر پودے لگانا یا پھول ڈالنا شرعاً  ثابت نہیں، رسول اللہ ﷺنے دو قبروں پر تر ٹہنی اپنے دستِ اقدس سے گاڑھی تھی، یہ آپ کی خصوصیت تھی، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺکا دو قبروں پر گزر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں مردوں کو عذاب ہورہا ہے،  پھر آپ ﷺ نے کھجور کے درخت کی ایک تر شاخ لے کر اسے درمیان سے چیر کر دو حصہ کردیا، پھر ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر گاڑ دیا، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!  یہ آپ نے کس مصلحت سے کیا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ  امید ہے کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں، ان سے عذاب ہلکا ہو جاوے۔(مشکاۃ)

شارحینِ حدیث نے اس حدیث کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ عمل صرف حضور ﷺ کے ساتھ خاص تھا؛ کیوں کہ آپ ﷺ کو بذریعہ وحی ان مردوں کے عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر دی گئی تھی، اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آپ ﷺ کے اس طرح ٹہنی لگانے سے ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی، اسی لیے آپ ﷺ نے یہ عمل صرف ان ہی دو مردوں کی قبر کے ساتھ کیا تھا، عمومی طور سے آپ ﷺ کا معمول قبروں پر ٹہنی گاڑنے کا نہیں تھا، رسول اللہ ﷺ کے بعد تو کسی کو بذریعہ وحی یہ بات معلوم نہیں ہوسکتی ہے کہ کس قبر والے کو عذاب ہورہا ہے اور کس کو نہیں، اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی آپ ﷺ کے بعد  اس عمل کو اپنا معمول نہیں بنایا۔
لہٰذا قبروں کی مٹی پر باقاعدہ پودے لگانے یاپھول ڈالنے کی  شریعتِ مطہرہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے دو معذب (عذاب میں مبتلا) لوگوں کی قبروں پر ٹہنی لگانے کی طرح نہیں ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اس بارے میں تفصیلی کلام اور دلائل حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’اختلاف امت اور صراط مستقیم‘‘ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (5 / 4):
’’أنكر الخطابي ومن تبعه وضع الجريد اليابس، وكذلك ما يفعله أكثر الناس من وضع ما فيه رطوبة من الرياحين والبقول ونحوهما على القبور ليس بشيء‘‘. 

قبر کو اطراف سے پختہ کرنا یا اطراف میں اینٹوں کی باڑ لگانا اس طرح کہ میت کے جسم کے محاذ  (برابری) میں نیچے سے اوپر تک قبر کچی رہے، جائز اور درست ہے،  یعنی میت کا جسم چاروں جانب سے مٹی کے اندر رہے، اطراف کی جگہ اینٹیں لگادی جائیں تو حرج نہیں، تاہم زیادہ بہتر یہ ہے کہ آگ پر پکی ہوئی اینٹیں استعمال نہ کی جائیں۔ (کفایت المفتی ، 4/50)

بدائع الصنائع میں ہے :

"ويسنم القبر ولايربع ، وقال الشافعي: يربع ويسطح؛ لما روى المزني بإسناده {عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه لما توفي ابنه إبراهيم جعل قبره مسطحًا}، ولنا ما روي عن إبراهيم النخعي أنه قال: أخبرني من رأى قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم وقبر أبي بكر وعمر أنها مسنمة، وروي أن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما لما مات بالطائف صلى عليه محمد ابن الحنفية، وكبر عليه أربعًا، وجعل له لحدًا، وأدخله القبر من قبل القبلة، وجعل قبره مسنمًا، وضرب عليه فسطاطًا؛ ولأن التربيع من صنيع أهل الكتاب، والتشبيه بهم فيما منه بد مكروه، وما روي من الحديث محمول على أنه سطح قبره أولا، ثم جعل التسنيم في وسطه حملناه على هذا بدليل ما روينا، ومقدار التسنيم أن يكون مرتفعًا من الأرض قدر شبر، أو أكثر قليلًا". (3/341)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: ويسنم ) أي يجعل ترابه مرتفعًا عليه كسنام الجمل؛ لما روى البخاري عن سفيان النمار: أنه رأى قبر النبي ﷺ مسنمًا. وبه قال الثوري والليث ومالك وأحمد والجمهور".(2/237)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويسنم القبر قدر الشبر ولايربع ولايجصص، ولا بأس برش الماء عليه. ويكره أن يبنى على القبر أو يقعد أو ينام عليه أو يوطأ عليه أو تقضى حاجة الإنسان من بول أو غائط أو يعلم بعلامة من كتابة ونحوه، كذا في التبيينوإذا خربت القبور فلا بأس بتطيينها، كذا في التتارخانية. وهو الأصح وعليه الفتوى، كذا في جواهر الأخلاطي". (4/479)

فتاویٰ خانیہ میں ہے :

"ویکره الآجر في للحد إذا کان یلي المیت، أما فیما وراء ذلك لا بأس به". (الخانیة علی هامش الهندیة، 1/194) فقط

Darul qaza

 Darul Qaza can accept the application of those who want to know the Sharia rules, those who do not want the sharia order we can't impose on them.  If your marriage was according to Shariah then your wife has the right to have it annulled according to Shariah.  The Shariah Application Act has been in force in the family affairs of Muslims in India since 1939. It is a constitutional right of every Muslim citizen under section 25 of the constitution of India to perform their religion freely,  if your wife wants to dissolve their marriage according to sharia she has the right to do that. Darul qaza does not do impose their order on any citizen of India. Darul is not contradictory to Indian law,like mosque or prayers who wants to perform their prayer can do that.

Wednesday 12 January 2022

سوانح حضرت امامہ رضی اللہ عنہا

 اُمَامہ بنت زینب یا اُمامہ بنت عاص (وفات: 66ھ686ءزینب بنت محمد اور ابوالعاص بن ربیع کی بیٹی اور رسول اللہﷺ اور خدیجہ بنت خویلد کی نواسی تھیں۔ آپ کی دادی ہالہ بنت خویلد، خدیجہ کی سگی بہن تھیں۔ آپ کی خالائیں رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ زہرا رسول اللہ کی بیٹیاں تھیں۔ ماں کی طرف سے آپ کا نسب کچھ یوں ہے۔ امامہ بنت زینب بنت محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بْن عبد مناف۔ باپ کی طرف سے آپ کا نسب کچھ یوں بیان ہوا ہے۔ امامہ بنت ابو العاص بن ربیع بن عبد العزی بن عبد الشمس بن عبد مناف۔

شجرۂ نسب یہ ہے : امامہ بنت ابی العاص بن ربیع بن عبد العز۔ ّیٰ بن عبد شمس بن عبد مناف۔ امامہ علی ابن زینب کی بہن تھیں۔


فاطمۃ الزہراءکی وفات کے بعد انہوں نے حضرت علی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے شادی کر لی، امامہ کے بطن سے ایک بیٹے محمد پیدا ہوئے۔ 40ھ میں علی نے شہادت پائی تو مغیرہ بن نوفل (عبد المطلب کے پڑپوتے) کو وصیت کر گئے کہ امامہ سے نکاح کر لیں۔ مغیرہ نے وصیت کی تعمیل کی۔، فاطمہ زہرا نے وصیت کی تھی کہ میرے بعد میری بھانجی امامہ سے نکاح کرنا یہ نکاح زبیر ابن عوام کے اہتمام سے ہوا۔


امامہ 66ھ میں انتقال کر گئیں۔


آنحضرت کو ان سے بڑی محبت تھی۔ آپ ان کو اوقات نماز میں بھی جدا نہ کرتے تھے۔ امامہ رسول پاک کی وفات کے وقت سن شعور کو پہنچ چکی تھیں۔ ابو قتادہ سے فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ لوگوں کی امامت کرتے تھے اور امامہ بنت ابی العاص آپ کے کندھے پر ہوتیں جب رکوع کرتے تو انہیں اتار دیتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو انہیں لوٹا لیتے

سوانح حضرت زینب بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ و سلم

حضرت  زینب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب بیٹیوں میں بڑی تھیں۔ جو اظہار نبوت سے دس سال قبل پیدا ہوئیں۔ کم سنی میں ہی یعنی نبوت سے قبل ان کی شادی خالہ زاد بھائی ابو العاص کے ساتھ ہوئی جو خدیجہ کی حقیقی بہن کے بیٹے تھے۔محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نبوت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد زینب بھی اسلام لے آئیں۔ ہجرت کا سفر زینب نے اپنے شوہر کے بغیر کیا کیونکہ وہ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے۔ اس لیے مکہ میں ہی رہے۔ ابو العاص مشرکین کے ساتھ غزوۂ بدر میں شریک تھے اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ یہ بھی گرفتار کیے گئے جنہیں بعد میں رہا کر دیا گیا۔ جس کے بعد زینب بنت رسول اللہ کے شوہر مکہ روانہ ہو گئے وہاں جس کا کچھ حساب لینا دینا تھا اسے بے باق کیا جب کوئی مطالبہ باقی نہ رہا تو اہل قریش کے سامنے علانیہمسلمان ہو گئے اور مدینہ منورہ ہجرت کی۔ اور باقی زندگی زینب نے اپنے شوہر کے اسلام لانے کے بعد ان کے ساتھ مدینہ میں ہی گزاری جو ایک یا سوا سال ہی تھی۔ 8 ہجری میں زینب کا انتقال ہوا۔ یہ ابتدا ئے اسلام ہی میں مسلمان ہو گئی تھیں اور جنگ بدر کے بعد حضورﷺنے ان کو مکہ سے مدینہ بلالیا تھا مکہ میں کافروں نے ان پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ان کا تو پوچھنا ہی کیا حد ہو گئی کہ جب یہ ہجرت کے ارادے سے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ سے باہر نکلیں تو کافروں نے ان کا راستہ روک لیا اور ایک کافر جو بڑا ہی ظالم تھا ہباربن الاسود اس نے نیزہ مار کر ان کو اونٹ سے زمین پر گرا دیا جس کے صدمہ سے ان کا حمل ساقط ہو گیا یہ دیکھ کر ان کے دیور کنانہ کو جو اگرچہ کافر تھا ایک دم طیش آ گیا اور اس نے جنگ کے لیے تیر کمان اٹھا لیا یہ ماجرا دیکھ کر ابوسفیان نے درمیان میں پڑ کر راستہ صاف کرا دیا اور یہ مدینہ منورہ پہنچ گئیں۔ حضور اکرم ﷺ کے قلب کو اس واقعہ سے بڑی چوٹ لگی چنانچہ آپ نے ان کے فضائل میں یہ ارشاد فرمایا کہ۔

ھِیَ اَفْضَلُ بَنَاتِیْ اُصِیْبَتْ فِیَّ

یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے بہت فضیلت والی ہے کہ میری طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔ پھر ان کے بعد ان کے شوہر ابو العاص بھی مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آ گئے اور دونوں ایک ساتھ رہنے لگے ان کی اولاد میں ایک لڑکا جن کا نام علی تھا اور ایک لڑکی جن کا نام امامہ تھا زندہ رہے ابن عسا کر کا قول ہے کہ علی جنگ یرموک میں شہید ہو گئے امامہ سے حضورﷺ کو بے حد محبت تھی بادشاہ حبشہ نے تحفہ میں ایک جوڑا اور ایک قیمتی انگوٹھی دربار نبوت میں بھیجی تو آپ ﷺ نے یہ انگوٹھی اپنی نواسی امامہ کو عطا فرمائی اس طرح کسی نے ایک مرتبہ بہت ہی بیش قیمت اور انتہائی خوبصورت ایک ہار نذر کیا تو سب بیبیاں یہ سمجھتی تھیں کہ حضورﷺ یہ ہار عائشہ کے گلے میں ڈالیں گے مگر آپ نے یہ فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو پہناؤں گا جو میرے گھر والوں میں مجھ کو سب سے زیادہ پیاری ہے یہ فرما کر آپﷺ نے یہ قیمتی ہار اپنی نواسی امامہ کے گلے میں ڈادی ا 8ھ میں زینب کا انتقال ہو گیا اور حضورﷺنے تبرک کے طور پر اپنا تہبند شریف ان کے کفن میں دے دیا اور نماز جنازہ پڑھا کر خود اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کو قبر میں اتارا ان کی قبر شریف بھی جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہے۔[2]

سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سب سے بڑی بیٹی تھیں. آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا تھیں. آپ کی ولادت باسعادت کے وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تیس سال تھی. آپ رضی اللہ تعالی عنہا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کے زیر تربیت پروان چڑھیں.

سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کی رائے تھی کہ سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے ابوالعاص بن ربیع کو جیون ساتھی کے طور پر منتخب کیا جائے.

ابوالعاص بن ربیع سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کی بہن ھالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے جو کاروباری اور مالدار شخص تھے اور ان کا شمار شرفاء مکہ میں ہوتا تھا۔

سیدہ خدیجۃ رضی اللہ تعالی عنہا کی اس رائے کو احترام دیتے ھوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بخوشی قبول فرمالیا اور سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے کر دیا گیا۔

ابوالعاص بن ربیع کا رویہ کافر ھونے کے باوجود بہت اچھا تھا. شعب ابی طالبمیں گزرے کٹھن وقت میں کسی جانور پر کھانے پینے کا سامان لاد کر اسے گھاٹی کی طرف ھانک دیا کرتے تھے۔ کفار مکہ نے یہ کوشش بھی بہت کی کہ دیگر قریشی عورتوں کے بدلے ابوالعاص سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو طلاق دے دیں مگر انہوں نے قسم اٹھا کر کہا کہ میں زینب کو اپنی زوجیت سے کسی بھی قیمت پر علاحدہ نہیں کرسکتا.

غزوہ بدر میں کفار کی طرف سے ابوالعاص بھی شریک ھوئے مگر گرفتار کرلئے گئے۔ ان کی رھائی کے لیے سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے فدیہ کے طور پر وہ ھار بھیجا جو انہیں ان کی والدہ محترمہ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا نے عطاء فرمایا تھا۔ جب وہ ھار حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو سیدہ خدیجۃ رضی اللہ تعالی عنہا کی یاد تازہ ھوگئی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ھوگئے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشاورت کے بعد ابو العاص کو وہ ھار واپس کرتے ھوئے بلامعاوضہ رھا کر دیا گیا البتہ ان سے یہ وعدہ لیا گیا کہ وہ مکہ پہنچ کر سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو مدینہ روانہ کر دیں گے چنانچہ انہوں نے وعدہ وفا کرتے ھوئے مکہ پہنچ کر سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنے بھائی کنانہ کے ساتھ مدینہ روانہ کر دیا۔ دریں اثنا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھ ایک شخص کو بھی سیدہ زینب کو لانے کے لیے مکہ کی طرف روانہ فرمادیا.

کفار کو جب معلوم ھوا کہ سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا مدینہ کی طرف ھجرت کررھی ہیں تو انہوں نے ان کا تعاقب کیا ھبار بن اسود (بعد میں مسلمان ھوگئے تھے) نے آگے بڑھ کر سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا پر نیزے سے حملہ کیا شہزادی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری سے چٹان پر گرادیا گیا جس سے وہ کافی زخمی ھوگئیں اس پر ان کا دیور کنانہ آگے بڑھا اور تیر و ترکش کا بھرپور استعمال کرنے لگا تو کفار پسپائی اختیار کرنے لگے اس سخت مقابلے کی وجہ سے سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو واپس جانا پڑا پھر کچھ عرصے کے بعد جب یہ معاملہ ٹھنڈا ھوا تو سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا رات کے وقت اپنے دیور کے ساتھ مکہ سے باھر تشریف لے آئیں جہاں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ ان کے منتظر تھے پھر ان حضرات نے تمام آداب کو بجا لاتے ھوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت آپ کی خدمت میں پیش کردی. آپ کی خدمت میں پہنچ کر سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے کفار کی طرف سے پہنچنے والے مظالم کا ذکر فرمایا تو سن کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھر آیا پھر ارشاد فرمایا

"زینب میری سب سے بہترین بیٹی ہے جسے میری وجہ سے تکالیف سے دوچار کیا گیا"

ایک موقع پر سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے شوھر ابوالعاص شام کی طرف تجارتی قافلہ لے کر نکلے واپسی پر مسلمانوں نے ان کے تمام تجارتی اموال پر قبضہ کر لیا. ابوالعاص کسی طرح سیدہ زینب کے پاس پہنچ گئے انہوں نے فجر کی نماز کے بعد عورتوں کی صفوں سے لوگوں کو متوجہ کرتے ھوئے فرمایا کہ میں ابوالعاص کو پناہ دے چکی ھوں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ھوا تو آپ نے ان کی پناہ کو صحیح قرار دیا اور صحابہ کرام کو ان کے تمام کے تمام اموال واپس کرنے کا حکم فرمایا چنانچہ انہوں نے اپنے اموال وصول کیے اور مکہ پہنچ کر تمام لوگوں کی امانتیں ان تک پہنچادیں جب سب لوگ اپنی امانتیں وصول کرنے کے بعد مطمئن ھوگئے تو ابوالعاص نے سب کو مخاطب کرتے ھوئے کہا

میں چاھتا تو مدینے میں ہی اسلام قبول کرلیتا مگر صرف یہ امر رکاوٹ رھا کہ کہیں تم یہ گمان نہ کر بیٹھو کہ میں تمہاری امانتوں میں خیانت کا مرتکب ھوا ھوں اب چونکہ کوئی امر مانع نہ رھا تو سن لو

اشہد ان لاالہ الا اللہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ

چنانچہ قبول اسلام کے بعد حضرت ابو العاص بن ربیع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو حضرت ابوالعاص رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح میں لوٹادیا (اس میں اختلاف ہے کہ نیا نکاح ھوا تھا یا نہیں)

سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی اولاد میں علی نام کے ایک بیٹے اور امامہ نامی ایک بیٹی تھیں ایک بیٹے اور تھے جو کم عمری میں ہی وفات پاگئے تھے۔

سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو ھجرت کے سفر میں ملنے والے زخم پریشانی سے دوچار کرتے رھتے تھے آخرکار وھی زخم آپ کی وفات کا سبب بن گئے اور سن 8 ھجری میں سیدہ اس دنیا سے پردہ فرماگئیں.

غسل کا انتظام کرنے والیوں میں امہات المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ اور سیدہام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما کے ساتھ ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا بھی شامل رھیں غسل کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہ بند مبارک کفن میں رکھنے کے لیے مرحمت فرمایا نماز جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی اور اپنے جگر گوشے کو قبر میں اپنے دست مبارک سے اتار کر خالق حقیقی کے سپرد فرمادیا. ان پاکیزہ نفوس پر اللہ تعالی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائیں اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائیں آمین آمین آمین