https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday, 29 October 2024

الکوحل والے پرفیوم

 الکحل کی متعدد قسمیں ہیں:

(1) ایک وہ جو منقیٰ، انگور،کشمش یا کھجور کی شراب سےحاصل کی گئی ہو،  یہ بالاتفاق ناپاک  وحرام ہے، اس کا استعمال اور اس کی خرید و فروخت ناجائز ہے۔

(2) دوسری  وہ جو مذکورہ  بالا اشیاء کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً جو، آلو، شہد، گنا، سبزی وغیرہ سے حاصل کی گئی ہو، اس کا استعمال اور اس کی خریدوفروخت جائز ہے بشر ط یہ کہ نشہ آور نہ ہو۔

(3)آج کل الکحل کی ایک تیسری قسم بھی ہے، یعنی وہ کیمیکل سے بنایا جاتا ہے، اس کا شراب وغیرہ سے تعلق نہیں ہے۔

عام طور پر ادویات ، پرفیوم اور دیگر مرکبات  میں جو الکحل استعمال ہوتی ہے وہ مذکورہ  اشیاء اربعہ یعنی  انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ  دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے،یا کیمیکل سے بنایا جاتا ہے، لہذا  کسی چیز  کے بارے میں جب تک  تحقیق سے ثابت  نہ ہوجائے کہ اس  میں  پہلی قسم (منقیٰ، انگور،کشمش یا کھجور کی شراب )سے حاصل شدہ الکحل ہے، اس وقت تک اس کے استعمال کو  ناجائز اور حرام نہیں کہہ سکتے۔

موجودہ دور میں جو الکوحل پرفیومزمیں  استعمال ہوتی ہے، وہ انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ  دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے، یہ نجس نہیں، بلکہ پاک ہے۔ لہذا ان پرفیوم کا استعمال بھی جائز ہے اور نماز بھی ہوجاتی ہے، تاہم جس پرفیوم میں انگور یا کھجور سے کشیدہ الکحل شامل کیا گیا ہو، اس کا استعمال  ناجائز ہے، اور ایسا پرفیوم لگانے سے جسم یا کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ممنوعہ ’’الکحل‘‘  کے شامل ہونے کا شک ہو تو احتیاط بہترہے۔

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسة عند الإمام ابي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخري، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالي، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبةً مع المواد الأخري، ولايحكم بنجاستها أخذًا بقول أبي حنيفة رحمه الله.

و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع".

(کتاب الاشربۃ ،حکم الکحول المسکرۃ،ج:3،ص:408،دارالعلوم)

Wednesday, 23 October 2024

سنت مؤکدہ وغیر مؤکدہ کی ادائیگی میں فرق اور طریقہ

 سنت مؤکدہ وہ سنت نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ مداومت کے ساتھ پڑھی ہے، اور کبھی بھی بلا کسی شدید عذر کے اسے چھوڑا نہیں ہے، جب کہ سنت غیر مؤکدہ وہ سنت نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی پڑھی ہے اور کبھی بلا کسی عذر کے چھوڑی بھی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےدن رات میں بارہ رکعات سنتیں پڑھنے کی خود پابندی کی اور تاکید بھی فرمائی ہے، وہ بارہ رکعتیں یہ ہیں: 

دو رکعت فجر سے پہلے  ،چار رکعت ظہر سے پہلے اور دو رکعت ظہر کے بعد ،دو رکعتمغرب کے بعد اور دو رکعت عشاءکے کے بعد۔

 سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں فرق یہ ہے کہ سنت مؤکدہ کا پڑھنا لازم ہے اور اس نماز کو بلا کسی عذر کے چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے، جب کہ سنت غیر مؤکدہ کے پڑھنے پر بہت ثواب ملتا ہے لیکن  بلا عذر چھوڑنے پر کوئی گناہ نہیں ملتا۔ چوں کہ  سنت غیر مؤکدہ نفل نماز کے درجہ میں ہے، اس لیے اس پر نفل نماز والے احکام ہی جاری ہوتے ہیں۔

سنتِ غیر مؤکدہ کی ادائیگی کا طریقہ وہی ہے جو سنتِ مؤکدہ کا ہے، دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، دونوں کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا اور اس کے ساتھ کوئی سورت یا تین مختصر آیات یا ایک طویل آیت پڑھنا واجب ہے۔ البتہ صرف اتنا فرق ہے کہ چار رکعات سنتِ غیر مؤکدہ میں ہر دو رکعت کی حیثیت مستقل نماز کی ہے؛ اس لیے اس میں افضل یہ ہے کہ دوسری رکعت کے قعدہ میں التحیات کے بعد درود شریف اور دعا بھی پڑھی جائے، پھر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوا جائے، اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہونے کے بعد سورہ فاتحہ سے پہلے ثناء اور تعوذ و تسمیہ بھی پڑھ لیا جائے، لیکن یہ طریقہ افضل ہے، لازم نہیں، لہٰذا اگر کوئی سنتِ غیر مؤکدہ پڑھتے ہوئے سنتِ مؤکدہ کی طرح پہلے قعدہ میں صرف التحیات پڑھ کر کھڑا ہوجائے اور تیسری رکعت میں ثناء نہ پڑھے تو بھی اس کی نماز درست ہوجائے گی، جب کہ چار رکعت والی سنت  مؤکدہ کے پہلے قعدہ میں تشہد پڑھنے کے فورًا بعد تیسری رکعت کے  لیے کھڑا ہونا ضروری ہے، غلطی یا بھول سے درود شریف پڑھنے کی صورت میں قیام میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوجائے گا۔ اسی طرح سنت مؤکدہ میں ثناء  بھی صرف پہلی رکعت میں ہی پڑھی جاتی ہے۔

ایک اور فرق یہ بھی ہے کہ  چوں کہ سنت غیر مؤکدہ کا ہر شفعہ (دو رکعت) مستقل علیحدہ حیثیت رکھتا ہے اور ہر شفعہ کا قعدہ ،قعدہ اخیرہ شمار ہوتا ہے، اس  لیے چار رکعت والی سنت غیر مؤکدہ نماز میں اگر پہلے شفعہ میں قعدہ میں (تشہد پڑھنے کے  لیے)  نہ بیٹھے تو وہ شفعہ باطل ہوجائے گا، البتہ چار رکعت والی سنت مؤکدہ نماز میں اگر پہلے شفعہ کے قعدہ میں نہ بیٹھے، لیکن آخری قعدہ میں سجدہ سہو کرلے تو  نماز ہوجائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 16):

’’(ولا يصلى على النبي صلى الله عليه وسلم في القعدة الأولى في الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها) ولو صلى ناسيا فعليه السهو، وقيل: لا شمني (ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها) لأنها لتأكدها أشبهت الفريضة (وفي البواقي من ذوات الأربع يصلي على النبي) صلى الله عليه وسلم (ويستفتح) ويتعوذ ولو نذرا لأن كل شفع صلاة.‘‘

البحرالرائق میں ہے:

Friday, 18 October 2024

بغیر نیت طلاق کہا میری طرف سے تم آزاد ہو طلاق ہویی کہ نہیں

 صورتِ  مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی ہے،  نکاح بدستور برقرار ہے، تاہم "تم آزاد ہو" وغیرہ اس طرح کے الفاظ کے استعمال سے اجتناب کریں۔

امداد الاحکام میں ہے :

"… میں نے اپنی بیوی کو آزاد کیا چاہے  وہ میرے پاس رہے یا اپنے گھر،  اور وہ آزاد ہے جب اس کا جی چاہے آوے ، ان استعمالات میں ہرگزکوئی شخص محض مادہ آزاد کی  وجہ سے اس کلام کو کنایہ طلاق سے نہیں کہہ سکتا،  بلکہ اباحتِ  فعل وتخییر وغیرہ پر محمول کرےگا…"تم بھی آزاد ہو اور وہ بھی آزاد ہے جب چاہے آؤ" اس میں "جب چاہے آؤ" یہ قرینہ نفی ارادۂ  طلاق کا ہے۔"

(۲/۴۷۰، مکتبہ دار العلوم کراچی)

:حوالہ جات

قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی :فنحو أخرجی و إذھبی یحتمل ردا، و نحو خلیۃ،  بریۃ ، حرام  یصلح سبا  ،  ونحوإعتدی وأنت حرۃ ..لایحتمل الردوالسب، ففی حالۃ الرضا تتوقف الأقسام) الثلاثۃ تاثیرا( علی نیۃ)للإحتمال، والقول لہ بیمینہ فی عدم النیۃ ، و یکفی تحلیفھا لہ فی منزلہ ، فإن أبی رفعتہ للحاکم ، فان نکل فرق بینھما .مجتبی).وفی الغضب) توقف) الأولان )إن نوی وقع وإلالا )و فی مذاکرۃ الطلاق( یتوقف )الأول فقط( ویقع بالأخیرین  وإن لم ینو.

(الدر المختارمع التنویر:4/532،(533

و فی الفتاوی الھندیۃ : الکنایات ، لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال....وما يصلح جوابا وردا لا غير : أخرجي، إذهبي  .والأحوال ثلاثة:حالة الرضا  ، وحالة  مذاكرة الطلاق وحالةالغضب   ، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية ،  والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا  ؛ فإنه لا يجعل طلاقا .كذا في الكافي. وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب.(الفتاوی الھندیۃ: 1/410 )

قال الإمام محمد رحمہ اللہ تعالی : أنت منى بائن أو برية أو خلية، فإنه يسأل عن نيته ، وإن لم ينو الطلاق لم يقع عليها الطلاق . وإن نوى الطلاق فهو مانوى . وكذاك كل كلام يشبه الفرقة مما أراد به الطلاق فهو مثل هذا ، كقوله ... أنت حرة ، ينوى الطلاق .(کتاب الأصل محمد : ٤٥٣/٤)

فى التتارخانية : وأما مدلولات الطلاق ، فهو مثل قوله : إذهبي ، وقومى ..... وما شاكلها ، إذا نوى الطلاق بهذه الألفاظ يقع بائنا ، وإن نوى الثلاث ثلاثاً .... وإن قال :" لم أرد به الطلاق " أولم تحضره النية لا يكون طلاقا ، سواء كانت الحالة حالة الرضا أو حالة مذاكرة الطلاق أو حالة الغضب ، هذا فى ظاهر الرواية . (الفتاوى التارخانية : ٤٦٠/٤)

قال العلامة الزیلعی رحمه الله : وقسم يصلح جوابا وردا ولا يصلح سبا و شتيمة، وهي خمسة ألفاظ : أخرجى ، إذهبي ، أغربى ، قومی ، تقنعى ومرادفها ، ففى حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية للإحتمال، والقول قوله مع يمينه في عدم النية. (تبيين الحقائق : 3/80)

قال العلامۃ المرغینانی ر حمہ اللہ  تعالی :و بقیۃ الکنایات إذا نوی بھا الطلاق  :کانت وا حدۃ بائنۃوھذا مثل قولہ : أنت بائن….وأنت حرۃ واذھبی إلا أن یکونا فی حال مذاکرۃ الطلاق : فیقع بھا الطلاق فی القضاء ، ولایقع فیما بینہ وبین اللہ تعالی  ، إلا أن ینویہ.

(الھدایۃ : 3/192)


Tuesday, 15 October 2024

چھ لاکھ بیس ہزار چاربہن اور چھ بھائیوں میں کیسے تقسیم کریں'

 حقوقِ متقدمہ: تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، نیز مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد،اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں نافذ کریں۔غرض چھ لاکھ بیس ہزار چاربہن اور چھ بھائیوں کے درمیان تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اس رقم کو سولہ (16)حصوں میں ،  تقسیم کرکے 38750 اڑتیس ہزار سات سو پچاس مرحوم کی ہرایک بیٹی کاحصہ ہے یعنی ایک لاکھ پچپن ہزار سب بہنوں میں تقسیم کردیاجائے۔ اوراس38750 کا ڈبل یعنی 77500مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو باقاعدہ للذکر مثل حظ الانثیین دیدیا جایے ۔مرحوم کی جوبیٹی ان کی زندگی میں فوت ہوگئی ان کا حصہ شرعاً نہیں ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقةً، أو حكمًا كمفقود، أو تقديرًا كجنين فيه غرة و وجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل والعلم بجهة إرثه، وأسبابه وموانعه سيأتي."

(كتاب الفرائض، شرائط الميراث، ج:6، ص:758، ط:ايج ايم سعيد)فقط واللہ اعلم بالصواب 

محمد عامرالصمدانی 

١١ربیع الآ خر ١٤٤٦ھ/١٥اکتوبر٢٠٢٤ء

Sunday, 13 October 2024

سجدۂ سہو میں ایک سجدہ کیا

 سجدہ سہو میں دو سجدے کرنا واجب ہیں، لہٰذا اگر کسی نے صرف ایک سجدہ کیا تو سجدہ سہو ادا نہیں ہوگا، اور اس نماز کا وقت گزرنے سے پہلے پہلے اعادہ واجب ہوگا، وقت گزرنے کے بعد اعادہ مستحب ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 77):

"(يجب بعد سلام واحد عن يمينه فقط) لأنه المعهود، وبه يحصل التحليل وهو الأصح بحر عن المجتبى. وعليه لو أتى بتسليمتين سقط عنه السجود؛ ولو سجد قبل السلام جاز وكره تنزيها. وعند مالك قبله في النقصان وبعده في الزيادة، فيعتبر القاف بالقاف والدال بالدال (سجدتان)".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 99، ۱۰۰ ):

"(قوله: يجب بعد السلام سجدتان بتشهد وتسليم بترك واجب وإن تكرر) بيان لأحكام الأول وجوب سجدتي السهو وهو ظاهر الرواية لأنه شرع لرفع نقص تمكن في الصلاة ورفع ذلك واجب وذكر القدوري أنه سنة كذا في المحيط وصحح في الهداية وغيرها الوجوب لأنها تجب لجبر نقصان تمكن في العبادة فتكون واجبة كالدماء في الحج ويشهد له من السنة ما ورد في الأحاديث الصحيحة من الأمر بالسجود والأصل في الأمر أن يكون للوجوب ومواظبة النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه على ذلك وفي معراج الدراية إنما جبر النقصان في باب الحج بالدم وفي باب الصلاة بالسجود؛ لأن الأصل أن الجبر من جنس الكسر وللمال مدخل في باب الحج فيجبر نقصانه بالدم ولا مدخل للمال في باب الصلاة فيجبر النقصان بالسجدة. اهـ. ... فرجعنا إلى قوله المروي في سنن أبي داود أنه عليه الصلاة والسلام قال: «لكل سهو سجدتان بعد السلام». وفي صحيح البخاري في باب التوجه نحو القبلة حيث كان في حديث قال فيه: «إذا شك أحدكم في صلاته فليتحر الصواب فليتم عليه ثم ليسلم ثم ليسجد سجدتين» فهذا تشريع عام قولي بعد السلام عن سهو الشك والتحري ولا قائل بالفصل بينه وبين تحقق الزيادة والنقص".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 440):

"كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوباً في الوقت، وأما بعده فندب "

Tuesday, 1 October 2024

نماز کن فیکون کا حکم



کن فیکون والی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ یا بزرگان دین میں سے کسی سے ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ لوگوں کی اپنی طرف سے بنائی ہوئی ہے، لہذا اس سے بچنا چاہیئے، اور حاجت روائی کے لیے سنت کے مطابق دو رکعت صلاۃ الحاجت پڑھ کر دعا مانگنی چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذي: (أبواب الوتر، رقم الحدیث: 344، 344/2، ط: شركة مكتبة و مطبعة مصطفى البابي)
عن عبد الله بن أبي أوفى، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كانت له إلى الله حاجة، أو إلى أحد من بني آدم فليتوضأ وليحسن الوضوء، ثم ليصل ركعتين، ثم ليثن على الله، وليصل على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم ليقل: لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين، أسألك موجبات رحمتك، وعزائم مغفرتك، والغنيمة من كل بر، والسلامة من كل إثم، لا تدع لي ذنبا إلا غفرته، ولا هما إلا فرجته، ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين "

انگلیوں کے عربی نام

 انگلی کو عربی میں    "إِصْبَع"اور"أُصْبُع"کہتے ہیں،  جس کی جمع  "أصابعُ"آتی ہے یعنی انگلیاں۔ نیز یہ لفظ عربی میں نو طرح پڑھا جاتاہے، یعنی:

إِصْبَعُ و أُصْبَعُ و أَصْبَعُ و إِصْبِعُ و أُصْبِعُ و أَصْبِعُ و إِصْبُعُ و أُصْبُعُ و أَصْبُعُ

پانچوں انگلیوں کے نام ترتیب وار درج ذیل ہیں:

الإبْهامُ: انگوٹھا۔

السَّبَّابَةُ: انگوٹھے کے برابر والی انگلی، جسے شہادت کی انگلی یا اشارہ کرنے والی انگلی بھی کہتے ہیں۔

الوُسْطى: شہادت کی انگلی کے برابر والی انگلی، جو بالکل درمیان میں ہوتی ہے اور اس کے دائیں بائیں دو دو انگلیاں ہوتی ہیں۔

البِنْصِرُ: درمیانی اور سب سے آخری انگلی کے بیچ والی انگلی۔

الخِنْصِرُ: سب سے آخری چھوٹی والی انگلی، جسے چھنگلی بھی کہتے ہیں۔

التَّلخِيص في مَعرفَةِ أسمَاءِ الأشياء (ص:61، ط:دار طلاس للدراسات والترجمة والنشر، دمشق):

’’و الأصابع، الواحدة إصبع، و هي الإبهام ثم السبابة ثم الوسطى ثم البنصر ثم الخنصر.‘‘

مجمع البحرين لليازجي (ص:412، ط:المطبعة الأدبية، بيروت):

قل: أول الأصابع الإبهام ... و بعدها سبابة تقام

و بعدها الوسطى، يليها البنصر ... و بعدها الصغرى أخيراً خنصر

تیمم کا طریقہ

 اگر پانی موجود نہ ہو یا کسی شرعی عذر کی بنا پر پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو  تو شریعتِ مطہرہ نے پاکی کے لیے تیمم کا طریقہ تجویز فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

﴿فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ﴾(  المائدہ : 6)

ترجمہ: تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ اس زمین (کی جنس)  پر  سے (مار کر) پھیر لیا کرو"۔

تیمم کا طریقہ:

اولاً نیت کر لیں،  پھر پاک مٹی پر دونوں ہاتھ مار کر جھاڑ لیں، پھر پورے  چہرے پر ایک مرتبہ اس طرح پھیریں کہ کوئی جگہ  باقی نہ رہے، پھر دوسری مرتبہ اسی طرح زمین پر  ہاتھ ماریں اور  دونوں ہاتھوں پر کہنیوں سمیت اس طرح  ہاتھ پھیریں کہ کوئی جگہ باقی نہ رہے اور  انگلیوں کے درمیان بھی  خلال  کریں۔

تیمم کے فرائض:

۱۔ایک مرتبہ پاک مٹی پر ہاتھ مار کر سارے چہرہ پر ہاتھ پھیرنا۔
۲۔ دوسری مرتبہ پھر ہاتھ مار کر دونوں ہاتھوں پر کہنیوں تک ہاتھ پھیرنا۔

تیمم کی شرائط:

نیت کرنا۔

ہاتھوں کا پھیرنا۔

تین یا زائد انگلیوں کا ستعمال۔

مٹی یا زمین کی جنس سے تعلق رکھنے والی کسی چیز سے تیمم کرنا۔

جس چیز (مٹی وغیرہ) سے تیمم کیا جارہا ہو اس کا پاک ہونا۔

پانی کا نہ ہونا۔


تیمم کی سنتیں:

شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔
ہاتھوں کوہتھیلیوں کی طرف سے  مٹی (یا اس کی جنس پر) مارنا۔
دونوں ہاتھ مٹی پر رکھنے کے بعد آگے کھینچنا۔
پھر دونوں ہاتھوں کو مٹی پر رکھتے ہوئے پیچھے کو کھینچنا۔
پھر دونوں ہاتھوں کو جھاڑنا۔
ہاتھ مارتے وقت انگلیوں کو کشادہ کرنا۔

ترتیب کا خیال رکھنا۔
پے درپے کرنا۔

تیمم  کے نواقض:

تیمم کو ہر وہ چیز توڑ دیتی ہے جو وضو کو توڑ دیتی ہے، اس کے علاوہ پانی کے استعمال پر قادر ہونا بھی تیمم کے  لیے ناقض ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 231):

"و سننه ثمانية: الضرب بباطن كفيه، و إقبالهما، و إدبارهما، و نفضهما؛ و تفريج أصابعه، و تسمية، و ترتيب و ولاء".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 230):

"و شرطه ستة: النية، و المسح، و كونه بثلاث أصابع فأكثر، و الصعيد، و كونه مطهرًا، و فقد الماء."

الفتاوى الهندية (1/ 26):

Friday, 27 September 2024

عصرکی نماز شافعی مسلک کے مطابق اول وقت پرپڑھنا

 اگر کسی جگہ   کوئی ایسی مسجد موجود ہو جہاں حنفی مذہب کے مطابق وقت داخل ہونے کے بعد  عصر کی نماز ہوتی ہو تو وہیں جاکر نماز پڑھنا ضروری ہوگا، اسی طرح اگر وہاں حنفی متبعین اپنی جماعت خود کراسکتے ہیں تب بھی مثلِ ثانی کے بعد ہی عصر کی نماز پڑھنا لازم ہوگا، اور  اگر ایسی صورت نہیں، بلکہ اس ملک میں  مثلِ اول کے بعد عصر کی  نماز پڑھنے کا تعامل ہو اور  دو مثل  کے بعد نماز پڑھنے کی صورت میں مستقل طور پر جماعت کا ترک لازم آتا ہو، یعنی قریب میں کوئی اور مسجد نہ ہو جہاں عصر کی نماز مثلین کے بعد پڑھی جاتی ہو اور نہ ہی اپنی مرضی سے خود جماعت کراسکتا ہو تو  اکیلےنمازپڑھنےکےبجائےمثلِ ثانی میں عصر کی نماز کی گنجائش ہوگی،بالخصوص حرمین شریفین میں توجماعت کےساتھ ہی نمازپڑھناچاہئے۔

کتاب الاصل للامام محمد:

"قلت: أرأيت رجلا مريضا صلى صلاة قبل وقتها متعمدا لذلك مخافة أن يشغله المرض عنها، أو ظن أنه في الوقت ثم علم بعد ذلك أنه صلى قبل الوقت؟ قال: لا يجزيه في الوجهين جميعا، وعليه أن يعيد الصلاة."

(كتاب الصلاة باب صلاة المريض في الفريضة،ج:1،ص:189،ط:دارابن حزم بيروت)

المبسوط للسرخسی:

"وأداء ‌الصلاة ‌قبل ‌وقتها لا يجوز."

(كتاب الصلاة باب مواقيت الصلاة،ج:1،ص:154،ط:دارالمعرفة)

Tuesday, 24 September 2024

تقسیم وراثت عبد الحمید پانچ لڑکوں میں

  مرحوم  کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے   حقوقِ  متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو  تو کل ترکہ سے  قرضہ ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرکے  باقی کل  منقولہ و غیر منقولہ ترکہ  کومرحوم عبد الحمید کے پانچ لڑکوں میں تقسیم کیا جایے گا ۔اور ایک ایک حصہ سبھی پانچوں بھایوں میں تقسیم کردیاجائے گا ۔اس کے عبد النعیم کے چونکے دولڑکے اور دو لڑکیاں ہیں لہذا وہ اپنے حصے کو چھ جگہ تقسیم کرکے دودو حصے لڑکوں کو اور ایک ایک حصہ لڑکیوں کو للذکر مثل حظ الانثیین تقسیم کریں۔عبد الجمیل کے چونکہ ایک لڑکی ہے لھذا نصف کی وہ حقدار ہے اوربقیہ نصف بھی اسی کو مل جایے گا کیونکہ اور کوئی حصّہ دار نہیں ہے ۔عبدالجلیل کے حصہ میں سے آٹھواں حصہ بیوی کو دینے کے بعد سات حصے کیے جاییں گے کیونکہ ان کی ایک بیوی اور چھ لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے لھذا ایک ایک حصہ لڑکیوں کو اور دو حصے لڑکے کو باقاعدہ للذکر مثل حظ الانثیین دیاجائے ۔عبد الرؤوف کامعاملہ عبد الجمیل کی طرح ہے اور عبدالمعر وف کے تین لڑکے اورایک لڑکی ہے لھذا وہ اپنا حصہ سات جگہ تقسیم کرکے دودو حصے لڑکوں کو اور ایک حصہ لڑکی کو باقاعدہ للذکر مثل حظ الانثیین دیاجائے ۔

فقط

Saturday, 21 September 2024

بیری کے درخت کا حکم

 بیر کا درخت کسی کی ملکیت ہو تو بوقتِ ضرورت اسے کاٹ سکتے ہیں، ایک حدیث شریف میں بیری کے درخت کے کاٹنے پر جو وعید آئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن حبیش کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص بیری کا درخت کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے الٹے سر دوزخ میں ڈالے گا ۔

 اس حدیث سے متعلق بذل المجہود میں یہ وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص حدود حرم میں بیری کا درخت کاٹے گا اس کے لیے یہ وعید ہے، بعضوں نے کہا ہے کہ یہاں مدینہ کی بیری کا درخت مراد ہے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جنگل میں وہ بیری کا درخت مراد ہے جس کے سائے میں مسافر اور جانور راحت پاتے ہیں، اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس وعید کا تعلق اس شخص سے ہے جو کسی دوسرے شخص کا بیری کا درخت ازراہِ ظلم وزیادتی کاٹ ڈالے۔لہذا اپنی ملکیت میں جو بیری کا درخت ہو اسے اپنی ضرورت کے لیے کاٹنا جائز ہے۔

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (13/ 627):
(قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع سدرةً صوب الله رأسه في النار") (1) وفي نسخة: سئل أبو داود عن معنى هذا الحديث، قال: معناه: من قطع سدرة في فلاة يستظل بها ابن السبيل والبهائم عبثًا وظلمًا بغير حق يكون فيها، صوّب الله رأسه في النار، أي: نكّسه.
وقال البيهقي في "سننه": قال أبو ثور: سألت أبا عبد الله الشافعي عن قطع السدرة، قال: لا بأس به، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم  أنه قال: اغسلوه بماء وسدر، وقيل: أراد به سدرة مكة لأنها حرم، وقيل: سدرة المدينة،نهى عن قطعها فيكون أنسًا وظلالًا لمن يهاجر إليها، قال: وقرأت في كتاب أبي سليمان الخطابي أن المزني سئل عن هذا فقال: وجهه أن يكون صلى الله عليه وسلم سئل عمن هجم على قطع سدر لقوم أو ليتيم أو لمن حرم الله أن يقطع عليه [فتحامل عليه] بقطعه فاستحق ما قاله، فتكون المسألة سبقت السامع، فسمع الجواب ولم يسمع السؤال، ونظيره.
فقط 

مردہ پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ

 اگر بچہ مردہ پیدا ہو  یعنی پیدائش کے وقت زندگی کی کوئی علامت اس میں موجود نہ ہو، لیکن سارے اعضاء بن چکے ہوں تو ایسے بچے کا حکم یہ ہے کہ اس بچے کو غسل بھی دیا جائے گا اور نام بھی رکھا جائے گا، لیکن باقاعدہ مسنون کفن نہیں دیا جائے گا اور جنازہ کی نماز بھی نہیں پڑھی جائے گی، بلکہ یوں ہی کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 228):

"(وإلا) يستهل (غسل وسمي) عند الثاني، وهو الأصح، فيفتى به على خلاف ظاهر الرواية إكراماً لبني آدم، كما في ملتقى البحار. وفي النهر عن الظهيرية: وإذا استبان بعض خلقه غسل وحشر هو المختار (وأدرج في خرقة ودفن ولم يصل عليه).

 (قوله: وإلا يستهل غسل وسمي) شمل ما تم خلقه، ولا خلاف في غسله وما لم يتم، وفيه خلاف. والمختار أنه يغسل ويلف في خرقة، ولا يصلى عليه كما في المعراج والفتح والخانية والبزازية والظهيرية شرنبلالية. وذكر في شرح المجمع لمصنفه أن الخلاف في الأول، وأن الثاني لا يغسل إجماعاً. اهـ.

واغتر في البحر بنقل الإجماع على أنه لايغسل فحكم على ما في الفتح والخلاصة من أن المختار تغسيله بأنه سبق نظرهما إلى الذي تم خلقه أو سهو من الكاتب. واعترضه في النهر بأن ما في الفتح والخلاصة عزاه في المعراج إلى المبسوط والمحيط اهـ وعلمت نقله أيضاً عن الكتب المذكورة. وذكر في الأحكام أنه جزم به في عمدة المفتي والفيض والمجموع والمبتغى اهـ فحيث كان هو المذكور في عامة الكتب فالمناسب الحكم بالسهو على ما في شرح المجمع لكن قال في الشرنبلالية: يمكن التوفيق بأن من نفى غسله أراد غسل المراعى فيه وجه السنة، ومن أثبته أراد الغسل في الجملة كصب الماء عليه من غير وضوء وترتيب لفعله كغسله ابتداء بسدر وحرض. اهـ. قلت: ويؤيده قولهم: ويلف في خرقة حيث لم يراعوا في تكفينه السنة فكذا غسله (قوله: عند الثاني) المناسب ذكره بعد قوله الآتي وإذا استبان بعض خلقه غسل لأنك علمت أن الخلاف فيه خلافاً لما في شرح المجمع والبحر (قوله: إكراماً لبني آدم) علة للمتن كما يعلم من البحر، ويصح جعله علة لقوله فيفتى به (قوله: وحشر) المناسب تأخيره عن قوله هو المختار لأن الذي في الظهيرية والمختار أنه يغسل. وهل يحشر؟ عن أبي جعفر الكبير أنه إن نفخ فيه الروح حشر، وإلا لا. والذي يقتضيه مذهب أصحابنا أنه إن استبان بعض خلقه فإنه يحشر، وهو قول الشعبي وابن سيرين. اهـ. ووجهه أن تسميته تقتضي حشره؛ إذ لا فائدة لها إلا في ندائه في المحشر باسمه. وذكر العلقمي في حديث: «سموا أسقاطكم فإنهم فرطكم» الحديث.

Thursday, 19 September 2024

دوطلاق کے بعد رجوع

 اگر بیوی کو طلاق کے صریح الفاظ کے ساتھ ایک  یا دو طلاق دی تو ایسی طلاق کو ''طلاقِ رجعی'' کہتے ہیں، طلاقِ رجعی کے بعد  شوہر کے لیے اپنی بیوی کی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) میں رجوع  کرنے کا حق ہوتا ہے، اگر عدت میں قولاًوفعلاً  رجوع کرلیا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا کہ میں نے رجوع کرلیا ہے  یا ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو اس سے رجوع درست ہوجائے گا  اور نکاح برقرار  رہے گا، اور اگر شوہر نے عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی طلاقِ بائنہ سے نکاح  ٹوٹ جائے گا، میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا، بعد ازاں  اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی  گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا، اور دونوں صورتوں میں(عدت میں رجوع کرے یا عدت کے بعد نکاحِ جدید کرے) شوہر نے اگر اس  سے پہلے کوئی اور طلاق نہ دی ہو تو ایک طلاقِ رجعی دینے کی صورت میں اس کو مزید دو طلاقوں کا اختیار ہوگا، اور اگر دوطلاقیں صریح دیں تو آئندہ ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا۔

اور طلاقِ بائن کے ذریعے  ایک یا دو طلاق دی ہو  تو پھر عدت میں رجوع کا حق نہیں ہوگا، البتہ  باہمی رضامندی سے تجدیدِ نکاح کرکے دوبارہ ساتھ رہا جاسکتا ہے۔

صورت مسئولہ میں شوھرنے پہلی طلاق رجعی کے بعد عدت کے دوران رجوع کرلیا پھر کچھ عرصے کے بعد ایک طلاق  رجعی دیدی اور دوران عدت رجوع کرلیاتو نکاح برقرار رہاالبتہ اب شوھر صرف ایک طلاق کے مالک رہے اگر آیندہ ایک طلاق دیدی تو تین طلاق مکمل ہوجائیں گی اور کوئی گنجائش رجوع  یا تجدید نکاح کی باقی نہیں رہے گی ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

 (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".