اگر کسی جگہ کوئی ایسی مسجد موجود ہو جہاں حنفی مذہب کے مطابق وقت داخل ہونے کے بعد عصر کی نماز ہوتی ہو تو وہیں جاکر نماز پڑھنا ضروری ہوگا، اسی طرح اگر وہاں حنفی متبعین اپنی جماعت خود کراسکتے ہیں تب بھی مثلِ ثانی کے بعد ہی عصر کی نماز پڑھنا لازم ہوگا، اور اگر ایسی صورت نہیں، بلکہ اس ملک میں مثلِ اول کے بعد عصر کی نماز پڑھنے کا تعامل ہو اور دو مثل کے بعد نماز پڑھنے کی صورت میں مستقل طور پر جماعت کا ترک لازم آتا ہو، یعنی قریب میں کوئی اور مسجد نہ ہو جہاں عصر کی نماز مثلین کے بعد پڑھی جاتی ہو اور نہ ہی اپنی مرضی سے خود جماعت کراسکتا ہو تو اکیلےنمازپڑھنےکےبجائےمثلِ ثانی میں عصر کی نماز کی گنجائش ہوگی،بالخصوص حرمین شریفین میں توجماعت کےساتھ ہی نمازپڑھناچاہئے۔
کتاب الاصل للامام محمد:
"قلت: أرأيت رجلا مريضا صلى صلاة قبل وقتها متعمدا لذلك مخافة أن يشغله المرض عنها، أو ظن أنه في الوقت ثم علم بعد ذلك أنه صلى قبل الوقت؟ قال: لا يجزيه في الوجهين جميعا، وعليه أن يعيد الصلاة."
(كتاب الصلاة باب صلاة المريض في الفريضة،ج:1،ص:189،ط:دارابن حزم بيروت)
المبسوط للسرخسی:
"وأداء الصلاة قبل وقتها لا يجوز."
(كتاب الصلاة باب مواقيت الصلاة،ج:1،ص:154،ط:دارالمعرفة)
جو شخص کافر ہونے کا خود اقرار کرے اس کے لیے فتویٰ کیا ہے ؟
ReplyDeleteجان بچانے کے لیے کفر کا اقرار کرنا کیسا ہے؟
کسی فائدے کی غرض کے لیے ظاہر میں کفر اختیار کرنا کیسا ہے ؟
کیا ہر دین حق ہے ؟
اللہ کے علاوہ بھگوان سے مدد مانگنا کیسا ہے؟