جب بھایی نے اپنی بہن سے جبکہ ان کی بیٹی نابالغہ تھی یہ وعدہ کیا کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح تمہارے بیٹے سے کردوں گا ۔اس کے بعد نکاح بموجودگی گواہان نہیں ہوا تواس شخص نے اپنی بیٹی کے نکاح سے متعلق اس کے بچپن میں اپنی بہن سے محض وعدہ نکاح کیا تھا، باقاعدہ نکاح نہیں کیا تھا (جیسا کہ سوال میں وضاحت موجود ہے) پھر اس کا انتقال ہوگیا ۔اس وعدہ نکاح سے نکاح نہیں ہوا بچپن میں کیا ہوا وعدہ محض وعدہ ہے، نکاح نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.
قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اهـ."
(كتاب النكاح، جلد:3، صفحہ:11، طبع: سعيد)
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
"خطبہ اور منگنی وعدۂ نکاح ہے، اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا، اگرچہ مجلس خطبہ کی رسوم پوری ہوگئی ہوں، البتہ وعدہ خلافی کرنا بدون کسی عذر کے مذموم ہے، لیکن اگر مصلحت لڑکی کی دوسری جگہ نکاح کرنے میں ہے تو دوسری جگہ نکاح لڑکی مذکورہ کا جائز ہے۔"
(کتاب النکاح، جلد:7، صفحہ: 110، طبع: دار الاشاعت)