https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 25 November 2023

هل العدوى فى الإسلام

 ما هي نظرة الإسلام إلى العدوى (انتقال المرض)؟

الإجابــة

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:

فقد ورد عن النبي صلى الله عليه وسلم في العدوى أخبار متباينة.

منها: ما رواه الشيخان من حديث أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا عدوى ولا صفر ولا هامة، فقال أعرابي: يا رسول الله، فما بال الإبل تكون في الرمل كأنها الظباء فيخالطها البعير الأجرب، فيجربها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فمن أعدى الأول.

وفي رواية أخرى لأبي هريرة رضي الله عنه: لا يوردن ممرض على مصح.

وفي رواية أخرى: وفر من المجذوم كما تفر من الأسد.

وفي رواية عن جابر: أن النبي صلى الله عليه وسلم أكل مع مجذوم، وقال: ثقة بالله وتوكلا عليه.

وقد اختلف أهل العلم في التوفيق بين هذه الأحاديث، وأقرب أقوالهم إلى الصواب هو: أن الأمراض لا تعدي بطبعها، بل الله هو الذي يجعلها سببا لما ينجر عنها من الإصابة والانتقال.

قال ابن حجر في فتح الباري من ضمن مجموعة من المسالك في الجمع بين الأحاديث: ... المراد بنفي العدوى أن شيئا لا يعدي بطبعه، نفيا لما كانت الجاهلية تعتقده أن الأمراض تعدي بطبعها من غير إضافة إلى الله، فأبطل النبي صلى الله عليه وسلم اعتقادهم ذلك وأكل مع المجذوم ليبين لهم أن الله هو الذي يمرض ويشفي، ونهاهم عن الدنو منه ليبين لهم أن هذا من الأسباب التي أجرى الله العادة بأنها تفضي إلى مسبباتها، ففي نهيه إثبات للأسباب، وفي فعله إشارة إلى أنها لا تستقل، بل الله هو الذي إن شاء سلبها قواها فلا تؤثر شيئا، وإن شاء أبقاها فأثرت..

کیابیماری متعدی ہوتی ہے

 اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ کوئی مرض بذاتِ خود متعدی نہیں ہوتا، بلکہ سبب کے درجے میں اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو دوسرے انسان کو مرض لگتا ہے ورنہ نہیں لگتا، اسباب کے درجہ میں احتیاط کرنا توکل اور منشاءِ شریعت کے خلاف نہیں ہے،  لیکن کسی خاص مرض کے ہر حال میں دوسرے کو منتقل ہونے کا عقیدہ  رکھنا جائز نہیں ہے۔

اس بارے میں وارد  مختلف احادیثِ مبارکہ کے درمیاں شراحِ حدیث نے مختلف طرح سے تطبیق بیان کی ہے، جمہور محققین علماءِ کرام نے جو تطبیق دی ہےاس کا خلاصہ یہ ہے کہ :

                                       جن احادیثِ مبارکہ میں مرض کے متعدی ہونے کی نفی ہے اس سے مراد جاہلیت کے اس عقیدے کی نفی ہے کہ مرض بذاتہ یقینی طور پر متعدی ہوتاہے، بالفاظِ دیگر ہر مرض کے اندر مافوق الاسباب متعدی ہونے کی صلاحیت ہے، لہٰذا جاہلیت میں یہ نظریہ اس قدر پختہ تھا کہ مریض کے قریب جانے سے بیماری لازمی متعدی ہوتی ہے، وہ اس میں طبی اعتبار سے نہ فرق ملحوظ رکھتے تھے، نہ ہی اسے مشیت و قدرتِ خداوندی کا نتیجہ کہتے تھے، اس بداعتقادی کے قلع قمع کے لیے رسول اللہ ﷺ نے بیماری کے متعدی ہونے کی نفی فرمائی، باقی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور تقدیر کے تحت اس کے ضرر یا سبب بننے کی نفی نہیں کی۔

                              اور جن احادیثِ مبارکہ میں بیماری متعدی ہونے یا مریض سے دور رہنے کا حکم ہے اس سے مراد ماتحت الاسباب، اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت اور تقدیرِ خداوندی کے تحت بیماری کا متعدی ہونا ہے، اگر اللہ پاک چاہیں تو بیماری لگے گی اور نہ چاہیں تو نہیں لگے گی، نیز ہر بیماری متعدی نہیں ہوتی، بلکہ  بعض بیماریاں سبب کے درجے میں متعدی ہوسکتی ہیں، اور اَسباب میں تاثیر پیدا کرنا محض اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت ہے، عادت اور معمول کے مطابق اَسباب میں تاثیر ہوتی ہے، تاہم جس وقت اللہ چاہے وہ تاثیر ختم بھی کردیتاہے۔

چنانچہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں :

                   "اہلِ مسلکِ ثانی نے یہ کہا کہ عدوی کی نفی سے مطلقاً نفی کرنا مقصود نہیں؛ کیوں کہ اس  کا مشاہدہ ہے ۔۔۔ مگر اہلِ مسلکِ ثانی نے اس کو خلافِ ظاہر سمجھ کر یہ کہا کہ مطلق عدوی کی نفی اس سے مقصود نہیں، بلکہ اس عدوی کی نفی مقصود ہے جس کے قائل اہلِ جاہلیت تھے اور جس کےمعتقدینِ سائنس اب بھی قائل ہیں، یعنی بعض امراض میں خاصیت طبعی لازم ہے  کہ ضرور متعدی ہوتے ہیں،  تخلف کبھی ہوتا ہی نہیں، سو اس کی نفی فرمائی گئی ہے  ۔۔۔الخ" (امداد الفتاوی، ج۴ / ص ۲۸۷)       

شرح النووی علی صحیح مسلم، کتاب السلام، باب لاعدوی ولاطیرة ولاهامة ولاصفر ولا نوء ...، (2/230) ط: قدیمي کراچي:

"قال جمهور العلماء: یجب الجمع بین هذین الحدیثین وهما صحیحان، قالوا: وطریق الجمع أن حدیث: "لاعدوی" المراد به نفي ماکانت الجاهلیة تزعمه وتعتقده أن المرض والعاهة تعدی بطبعها لابفعل الله تعالی، وأما حدیث: "لایورد ممرض علی مصح" فأرشد فیه إلی مجانبة مایحصل الضرر عنده في العادة بفعل الله تعالیٰ وقدره، فنفی في الحدیث الأول العدوی بطبعها، ولم ینف حصول الضرر عند ذلك بقدر الله تعالی وفعله، و أرشد في الثاني إلی الاحتراز مما یحصل عنده الضرر بفعل الله تعالی و إرادته وقدره. فهذا الذي ذکرناه من تصحیح الحدیثین والجمع بینهما هو الصواب الذي علیه جمهور العلماء، ویتعین المصیر إلیه".

الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب بیان کفر من قال: مطرنا بالنوء، (1/59) ط: قدیمي، کراچي:

"عن زید بن خالد الجهني قال: صلی بنا رسول الله ﷺ صلاة الصبح بالحدیبیة في أثر سماء کانت من اللیل، فلمّا انصرف أقبل علی الناس فقال: هل تدرون ماذا قال ربکم؟ قالوا: الله و رسوله أعلم! قال: قال: أصبح من عبادي مؤمن بي و کافر، فأمّا من قال: مُطِرْنا بفضل الله و رحمته فذلك مؤمن بي و کافر بالکوکب، و أمّا من قال:  مُطِرْنَا بنوء کذا و کذا، فذلك کافر بي مؤمن بالکوکب".

ترجمہ: حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حدیبیہ میں رات بارش ہونے کے بعد (صبح کی) نماز پڑھائی، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف رُخِ انور کرکے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں: میرے بندوں میں سے بعض صبح کے وقت مجھ پر ایمان لانے والے ہوئے اور کچھ میرے منکر، یعنی جس نے یوں کہا: ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش برسی ہے، تو یہ مجھ پر ایمان لانے والا اور ستارے کا منکر ہے، اور جس نے  کہا: ہم پر فلاں فلاں نچھتر (ستاروں) کی وجہ سے بارش برسی ہے، یہ میرا منکر اور ستارے پر ایمان لانے والا ہے۔

Wednesday 22 November 2023

 

مَا زلتُ مَجهولاً، وَ حُبّكَ يَكبُرُ
وَ أجوبُ هذا الليلَ فيكَ أفكِّرُ
مُتَسَائلاً عَنّي، وَ لستُ أدلّني
وَ أعودُ مَجهولَ الخُطى أتَعَثَّرُ
يَا شَاغِلَ العَينينِ كيفَ سَلَبتَني؟
وَ وَقَعتُ في مَحظورِ مَا أتحَذَّرُ
يَا سَارِقَ الأنفاسِ كيفَ عَبثتَ بي؟
وَ أنا الكتومُ، الحَاذِقُ، المُتَحَذّرُ
هَذي العيونُ الهَاجراتُ تَهَجّدي
وَ خُفُوقيَ المَجنونُ كيفَ يُفَسَّرُ
جِدْ لي جَوَاباً للسؤالِ لكي تَرى
إنّي أحبَّكَ فوقَ مَا تَتَصوَّرُ
آمَنتُ انَّ الحُبَّ فيكَ نُبوءَتي
وَ هواكَ شبه الموتِ لا يَتَكرَّرُ
فَفَديتُ فيكَ الأصغرينِ وَ لم أزل
أخشى بأنّي بالوَفاءِ مُقَصِّرُ
هَذي مَعاذيري أتَتْكَ فعُدْ لَهَا
وَ ارحَمْ عَليلاً بِالهَوى يَتَعَذّرُ
مَنفَايَ أنتَ وَ مَنْ سِواكَ يُعيدُ لي
روحي، وَ مَنْ ذَا عَن جَفاكَ يُصَبّرُ؟
(جعفرالخطاط)

مسجد میں مورٹین یادیگر مچھر بگھانے والی اشیاء کا استعمال

 مذکورہ  اشیاء  اگر بدبو دار  ہیں تو   ان کا استعمال مسجد میں جائز نہیں ہوگا، مسجد  میں ایسے   اسپرے ، کریم یا کوئل کے  استعمال  کی اجازت ہوگی  جس میں بدبو نہ ہو ، اسی  طرح آج کل جو مچھر مار برقی آلات آتے ہیں وہ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن جابر رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: («من أكل من هذه الشجرة المنتنة، فلايقربنّ مسجدنا، فإنّ الملائكة تتأذى مما يتأذى منه الإنس»). متفق عليه.

المنتنة) أي: الثوم، ويقاس عليه ‌البصل والفجل، وما له رائحة كريهة كالكراث. قال العلماء: ومن ذلك من به بخر مستحكم وجرح منتن (فلايقربن مسجدنا) قيل: النهي يتعلق بكل المساجد، فالإضافة للملك، أو التقدير: مسجد أهل ملتنا؛ لأن العلة وهي (فإن الملائكة تأذى) وفي نسخة صحيحة: (تتأذى) أريد بهم الحاضرون موضع العبادات عامة توجد في سائر المساجد فيعم الحكم، ويدل هذا التعليل على أنه لا يدخل المسجد وإن كان خاليا من الإنسان لأنه محل ملائكة."

(کتاب الصلاۃ باب المساجد ج نمبر ۲ ص نمبر ۵۹۸،دار الفکر)

فتاوی دار العلوم دیوبند:

"سوال : مٹی کے تیل کا لیمپ مسجد میں  جلانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: علت کراہت کی بدبو ہے، اگر بدبو نہ ہو تو جائز ہے؛ کیوں کہ علت اس میں نجاست نہیں ہے۔" 

( ج نمبر ۱۴ ص نمبر ۲۳۱)

امداد لااحکام:

آج کل لالٹین جرمنی سرسوں کے تیل کے بھی ملتی ہے اگر چراغ نہ ٹھرتا ہو تو اس کو جلایا جائے مٹی کت تیل کی لالٹین مسجد میں جلانا جائز نہیں بوجہ بدبو کے اور دیا سلائی بدبو دار سرخ مسالہ کی وجہ سے ہوتی ہے ۔سیاہ مسالہ کی سلایئی میں بدبو نہیں ہوتی جو آج کل بہت رائج ہے مسجدوں میں اس کا استعمال زیادہ بہتر ہے۔

(ج نمبر ۳ص ۱۸۲)

فتاوی محمودیہ:

۔۔۔ہاں اگر کوئی اور تیل ہے جس میں بدبو نہیں ہے یا مٹی ہی کے تیل کو کسی طرح ایسا صاف کرلیا ہے کہ بدبو نہیں رہی تو مسجد میں جلانا بھی درست ہے۔

(ج نمبر ۱۵ ص نمبر ۲۴۸)

میاں بیوی کا گھر میں جماعت سے نماز پڑھنا

 پڑھ سکتے ہیں، جماعت کی فضیلت بھی حاصل ہو جائےگی، البتہ اہلیہ کو ایک صف پیچھے کھڑا کیا جائے، مرد کی طرح دائیں جانب کھڑی نہ ہو۔

ففی حاشیة الطحطاوی: حتی لو صلی فی بیته بزوجته أو جاریته أو ولده فقد أتی بقضیلة الجماعة اھ (ص: ۱۵۶)
وفی حاشية ابن عابدين: (قوله أما الواحدة فتتأخر) فلو كان معه رجل أيضا يقيمه عن يمينه والمرأة خلفهما اھ (1/ 566)
وفی بدائع الصنائع: وإذا کان مع الإمام إمرأة أقامها خلفه لأن محاذاتها مفسدة وکذلك لو کان خنثی مشكل لإحتمال أنه إمرأة اھ (۱/ ۱۵۹)

Tuesday 21 November 2023

 اے ترا خارے بپا نشکستہ کے دانی کہ چیست

حال شیرانے کہ شمشیر بلا برسر خورند 

Monday 20 November 2023

مسافرعالم جمعہ پڑھا سکتا ہے کہ نہیں

 مسافر عالم جمعہ کی نماز پڑھاسکتے ہیں ۔

(ویصلح للإمامة فیہا من صلح لغیرہا فجازت لمسافر وعبد ومریض وتنعقد) الجمعة (بہم) أی بحضورہم بالطریق الأولی․ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/ 155)

دورانِ سفر ٹرین میں نماز پڑھنا

 ٹرین میں فرض واجب سنت اور نفل نماز پڑھنا جائز ہے، خواہ کوئی عذر ہو یا نہ ہو، ٹرین چل رہی ہو یا رکی ہوئی ہو، البتہ ٹرین میں نماز ادا کرنے میں بھی استقبالِ قبلہ اور قیام شرط ہے، ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط اگر عذر کے بغیر فوت ہوجائے تو فرض اور واجب نماز ادا نہیں ہوگی، البتہ سنن ونوافل قیام کے بغیر بھی ادا ہوجاتی ہیں۔

اگر ٹرین میں اس قدر رش ہو کہ قبلہ رو کھڑے ہوکر نماز ادا کرنا ممکن نہ ہو اور وقت کے اندر کسی اسٹیشن پر اتر کر استقبالِ قبلہ اور قیام کے ساتھ نماز پڑھنا بھی ممکن نہ ہو  اور ٹرین مشرق یا مغرب کی سمت جارہی ہو (جیساکہ پاکستان وغیرہ میں ہے) تو دو سیٹوں کے درمیان قبلہ رو ہو کر قیام اور  رکوع کر کے نماز ادا کرے اور سجدہ کے لیے  پچھلی سیٹ پر کرسی کی طرح بیٹھ جائے، یعنی پاؤں نیچے ہی رکھے اور سامنے سیٹ پر سجدہ کرے، اس عذر کی صورت میں سجدے کے لیے  گھٹنے کسی چیز پر ٹیکنے کی ضرورت نہیں، اور اس کی وجہ سے سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا۔ البتہ (پاکستان میں) اگر ٹرین شمال یا جنوب کی جانب جارہی ہو تو اس صورت میں مذکورہ طریقہ کار کے مطابق نماز ادا کرنا جائز نہ ہوگا۔

اور اگر  مذکورہ صورتوں کے مطابق نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو) اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو فی الحال "تشبہ بالمصلین" (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرلے، پھر جب گاڑی سے اتر جائے تو فرض اور وتر کی ضرور قضا کرے۔

"وفي الخلاصة: وفتاوی قاضیخان وغیرهما: الأیسر في ید العدو إذا منعه الکافر عن الوضوء والصلاة یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منه أن العذر إن کان من قبل الله تعالیٰ لا تجب الإعادة، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادة". (البحر الرائق، الکتاب الطهارة، باب التیمم، رشیديه ۱/ ۱۴۲)

فسخ النكاح بسبب الايدز

 مدى مشروعیة التفریق بین الزوجین للعیوب 

اختلف الفقهاء في جواز التفریق بسبب عیب وجده أحد الزوجین في 

صاحبه على قولین: 

أحدهما: لا یجوز التفریق بین الزوجین للعیب وهو مذهب الظاهریة، وبه 

(22) قال عمر بن عبد العزیز ورجحه الإمام الشوكاني

 .

من الحنفیة والمالكیة والشافعیة (23) والثاني: وهو قول جمهور الفقهاء

والحنابلة، وإ ن اختلفوا في العیوب التي یجري فیها الفسخ.


جمهور الفقهاء من المالكیة والشافعیة والحنابلة قالوا بحصر العیوب المجیزة 

لخیار التفریق بین الزوجین. 

بینما ذهب شیخ الإسلام ابن تیمیة وتلمیذه ابن القیم إلى أن هذه العیوب 

التي ذكرها الفقهاء إنما هي على سبیل التمثیل، وبالتالي یجوز القیاس علیها 

إذا وجدت عیوب أخرى إما بعلة دفع الضرر، أو بعلة عدم إمكان الجماع، 

أو یكون العیب منفرا مما یفوّ ت مقصود النكاح من قضاء الشهوة وتحصیل 

النسل، أو بعلة العدوى. 

والراجح من القولین هو الثاني القاضي بعدم حصر العیوب، وبالتالي فكل 

عیب تحققت فیه علة التفریق التي ذكرها الفقهاء ینبغي اعتباره سببا في 

(25) جواز التفریق بین الزوجین

 


Sunday 19 November 2023

مرض الايدز سبب من اسباب فسخ النكاح

 الإيدز يدخل ضمن جملة الأمراض المعدية التي تستوجب فسخ النكاح بل هو أخطرها، فإذا كان هذا المرض قبل العقد فإن الطرف الآخر يملك فسخ النكاح ، وإن نشأ بعد العقد فالمسألة خلافية فمنهم من قال للمرأة الخلع، وللزوج الطلاق . والرأي الثاني يثبت الفسخ مطلقا. يقول الشيخ فهد اليحيى من علماء المملكة العربية السعودية: لا ريب أن مرض الإيدز من أعظم العيوب التي يملك بها أحد الزوجين الفسخ، وإذا ‏كان الفقهاء قد ذكروا جملة من العيوب التي يفسخ بها عقد النكاح فإن كثيراً منها دون مرض ‏الإيدز في الخطورة، لا سيما وأنه من الأمراض المعدية – نسأل الله السلامة منه-.‏ وعمدة الفقهاء في باب العيوب ما ثبت عن عمر –رضي الله عنه- في الموطأ من التفريق ‏بالبرص والجنون والجذام روي عن عمر –رضي الله عنه- أنه قال:”أيما رجل تزوج امرأة وبها ‏جنون أو جذام أو برص فمسها فلها صداقها كاملاً وذلك لزوجها غرم على وليها” ‏‏والإيدز شبيه بالجذام بل هو أقبح وأخطر منه، ولكن مما ينبغي معرفته أن العيب ‏الذي يملك به أحد الزوجين الفسخ حين يوجد في الآخر هو ما كان موجوداً قبل العقد لا ‏بعده، فإن وجد العيب بعده فلا يملك أحد الزوجين الفسخ،وإنما للزوج الطلاق وللمرأة ‏الخلع، هذا أحد القولين. وفي المسألة قول آخر: أن العيب يثبت به الفسخ سواءً كان قبل ‏العقد أو بعده، وهو المشهور عند الشافعية والحنابلة.‏ فعلى القول الأول إن كان هذا المرض قد نشأ بعد العقد لأي سبب من الأسباب فلا يثبت به ‏الفسخ.‏ وننبه هنا إلى أن الفسخ في هذه الحال يرجع إلى القاضي، وكثير من أهل العلم يجعل الفسخ في ‏هذه الحال متوقفاً على حكمه ولا يملك أحد الزوجين مستقلاً ذلك.‏ وأما لو علم أحد الزوجين بهذا العيب ورضي به فله ذلك لأن الحق له، ومع ذلك فيجب أن ‏يدرك من رضي به خطورته وأنه معدٍ وحينئذٍ فقد يقال بأنه يلقي بنفسه إلى التهلكة. ‏والأمر الآخر أن هذا المرض إن كان ناشئاً عن علاقة محرمة فإن الرضا بمن فعل ذلك قبل أن ‏يتوب ليس من سمات ذوي العفاف 

حق طلب الفرقة بسبب مرض نقص المناعة (الإيدز) ونحوه

العناوين المرادفة

• أثر الإيدز على الزوجية.
• نقص المناعة المكتسبة وأثره في فسخ النكاح.

صورة المسألة

الإيدز مرض خطير يصيب جهاز المناعة في جسم الإنسان، وهو مرض معد ينتقل بالمعاشرة والاتصال الجنسي، فإذا تم عقد النكاح تم علم أحد الزوجين بأن الآخر مصاب بمرض الإيدز، فهل يكون له حق الفسخ بهذا العيب؟ وهل إصابة أحدهما بهذا المرض بعد النكاح تبيح الفسخ؟

حكم المسألة

إذا علم أحد الزوجين بإصابة الآخر بالإيدز قبل العقد، أو بعده ورضي به، سقط خياره في الفسخ باتفاق الفقهاء، فقد ذكروا أن الرضى مسقط للفسخ([1]).

وأما إذا لم يعلم إلا بعد العقد ولم يرض فهل له الفسخ؟

اختلف الفقهاء – رحمهم الله – في عيوب النكاح المبيحة للفسخ على أقوال أبرزها:

القول الأول: يباح فسخ النكاح لعيوب محددة فقط، ولا يتعدى الحكم لغيرها، وهذا مذهب جمهور الفقهاء – على خلاف بينهم في عددها –، والإباحة في حق الزوجين عند الجمهور، وخاصة بالمرأة عند الحنفية([2]).

القول الثاني: يصح فسخ النكاح لكل ما يفوت مقصود النكاح وهو الاستمتاع والتناسل والمودة والرحمة، وهذا قول محمد بن الحسن من الحنفية([3])، وهو قول عند الشافعية([4])، واختيار شيخ الإسلام وابن القيم – رحمهم الله –([5]).

 

والذي عليه الفقهاء المعاصرون أن الإيدز مرض يبيح فسخ النكاح، صدر بذلك قرار مجمع الفقه الإسلامي وهو المفتى به في عدد من المواقع الإسلامية وهو اختيار كثير من الباحثين. الأدلة على ذلك:

1- أن مرض الإيدز شارك العيوب المبيحة للفسخ في العلة فهو:

1) يحول دون الاستمتاع ويمنعه، إذ المرض ينتقل بالمعاشرة.

2) يسبب النفرة ويتأذى به الآخر.

3) يتضرر به المعاشر فقد ينتقل للزوجة والذرية.

والحكم يدور مع علته وجوداً وعدماً.

 

2- أن القول بلزوم عقد النكاح مع إصابة أحد الزوجين بهذا المرض فيه ظلم للطرف السليم وإضرار به، والضرر والظلم محرمان في الشرع، فيجب تمكين الطرف السليم من إزالتهما.

 

3- أن الله تعالى أمر بالإمساك بالمعروف أو التسريح بإحسان، وإمساك الزوجة مع تضررها ليس من الإمساك بالمعروف، فلزم التسريح بإحسان.

وشرط رد أحد الزوجين الآخر بعيب فيه: حصول ذلك العيب حال العقد أو قبله.

وأما العيب الحادث بعد العقد فإنه مصيبة نزلت بالزوج الآخر، إلا أن من الفقهاء من استثنى الزوجة خاصة؛ إذ للزوج أن يطلق ببعض الأمراض الحاصلة بعد العقد كالجذام البين والبرص الحادثين بعده.

وإباحة الفسخ بالإيدز أولى لأنه أضر منهما.

 

الملاحق:

مجمع الفقه الإسلامي:

جاء في قرار مجمع الفقه الإسلامي المنبثق من منظمة المؤتمر الإسلامي بجدة ذي الرقم 90 (9/7) في الفقرة (خامساً) منه ما نصه: “حق السليم من الزوجين في طلب الفرقة من الزوج المصاب بعدوى مرض نقص المناعة المكتسبة الإيدز: للزوجة طلب الفرقة من الزوج تنتقل عدواه بصورة رئيسية بالاتصال الجنسي”.


([1]) ينظر: المبسوط 5/98، الفتاوى الهندية 1/525، مواهب الجليل 3/483، روضة الطالبين 7/178، المغني 10/61، شرح منتهى الإرادات 2/678.

([2]) ينظر: المبسوط 3/97، بدائع الصنائع 2/327، المعونة 2/770، الذخيرة 4/419، نهاية المطلب 12/408، العزيز شرح الوجيز 8/133 – 135، الإنصاف 8/195 – 199، حاشية ابن قاسم 6/329 – 341.

([3]) ينظر: بدائع الصنائع 2/327.

([4]) ينظر: نهاية المطلب 12/408.

([5]) ينظر: الاختيارات الفقهية ص222، زاد المعاد 5/183.

المراجع

– أثر الأمراض المزمنة على الحياة الزوجية في الفقه الإسلامي، عائشة محمد صدقي موسى، ماجستير في الفقه والتشريع بكلية الدراسات العليا، جامعة النجاح الوطنية، نابلس – فلسطين، 2014م، 130 – 147.
– أثر الأمراض المعدية في الفرقة بين الزوجين، أ.د عبدالله الطيار m.islam.com
– أحكام الأمراض المعدية في الفقه الإسلامي، عبدالإله بن سعود السيف، ماجستير، جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية.
– أحكام أمراض نقص المناعة المكتسبة (الإيدز) في الفقه الإسلامي، حنان محمد فوزي إسماعيل، ماجستير في الفقه والتشريع بكلية الدراسات العليا، جامعة النجاح الوطنية، نابلس – فلسطين، 1422هـ/2001م.
– العيوب المبيحة لفسخ عقد النكاح (2 – 2)، فضل ربي ممتاز زادة، الملتقى الفقهي.
– موقع رسالة الإسلام. figh.islammessage.com
– موقع إسلام ويب، مركز الفتوى (42739) (59199) fatwa.islamweb.net
– التفريق بين الزوجين للمرض المعدي في الفقه الإسلامي، د. فهد الرشيدي، مجلة الشريعة والدراسات الإسلامية، جامعة الكويت، ع67، 2006م pubcouncil.kunrv.edu.kw
– مجلة مجمع الفقه الإسلامي 9/1977، العدد الثامن .



Tuesday 14 November 2023

معتوہ کی طلاق

 فقہائے حنفیہ کی تصریح کے مطابق’’معتوہ‘‘کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی، (الدرالمختار ۳/۲۴۳ )۔ ’’عتہ‘‘ کی وضاحت کرتے صاحبِ درمختار نے لکھاہے: ’’ھو اختلال فی العقل‘‘۔ علامہ شامی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے البحرالرائق کے حوالے سے نقل کیاہے کہ مجنون اورمعتوہ کے درمیان فرق کے سلسلے میں سب سے بہتر بات یہ ہے کہ معتوہ وہ ہوتاہے جس کی سمجھ بوجھ کم ہو، اس کی گفتگو غیر مربوط ہو اوراس کی تدبیر فاسدہو، البتہ وہ گالی گلوچ اورمارپیٹ نہ کرتاہو، جبکہ مجنون کی علامات اس سے مختلف ہوتی ہیں۔شامی کے نقل کردہ الفاظ یہ ہیں:

وأحسن الاقوال فی الفرق بینہما أن المعتوہ ہوقلیل الفہم، المختلط الکلام ، الفاسد التدبیر،لکن لایضرب ولایشتم ،بخلاف المجنون ۔ (حاشیہ ابن عابدین علی الدرالمختار ج۳ص ۲۴۳

Thursday 9 November 2023

چارماہ سے کم کا حمل ضایع کرنا

 اگر حمل چار ماہ کا ہو جائے تو اسے ضائع کرنا کسی صورت میں جائز نہیں، اس لیے کہ حمل میں چار ماہ کی مدت کے بعد جان پڑجاتی ہے  اگر حمل چار ماہ سے کم کا ہو اور دین دار اورماہر ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت حمل کاتحمل نہیں کرسکتی تو ایسی صورت میں اسقاط حمل کی گنجائش ہے۔ اگر معاشی خوف کی وجہ سے ہو تو اسقاط ناجائز ہے، اگر چہ حمل چار ماہ سے کم مدت کا ہو۔ اور شدید ضرورت نہ ہو تو چار ماہ سے کم مدت کا حمل بھی ساقط کرنا درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج.

(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم! يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة، كذا في الفتح. وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح."

(3 / 176، مطلب فی اسقاط الحمل، باب نکاح الرقیق، ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه کالشعر والظفر ونحوهما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز … امرأة مرضعة ظهربها حبل وانقطع لبنها، وتخاف علی ولدها الهلاک، ولیس لأبي هذا الولد سعة حتی یستأجر الظئر یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام نطفة أو مضغة أو علقة لم یخلق له عضو وخلقه لایستبین إلا بعد مائة وعشرین یوماً أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، کذا في خزانة المفتیین، وهکذا في فتاوی قاضي خان".

(هندیة، کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر: في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد، ۵/ ۴۱۱-۴۱۲)

کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو براہ راست دیکھا تھا

  اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے اختلاف چلا آرہا ہے، بعض صحابہ کی رائے یہ ہے کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنی ان آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے، ان کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے۔ ﴿ لَاتُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ…﴾ کہ نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں، لیکن جمہور صحابہ اور تابعین کی رائے اور راحج قول یہی ہے کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جسمانی آنکھوں سے بھی اور دل کی آنکھوں سے بھی اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، کیوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے رب کو دیکھا؟ تو  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہاں!"رَأَیْتُ رَبِّيْ عَزَّ وَجَلَّ"۔ نیز طبرانی میں حضرت ابن عباس کا قول منقول ہے:"رَاٰهُ مَرَّتَیْنِ، مَـرَّةً بِقَلْبِه وَمَرَّةً بِبَصَرِهٖ " … کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا دل سےبھی  اور آنکھ سے بھی،  یہاں "مَرَّتَیْن" سے مراد دو مرتبہ دیکھنا نہیں ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دونوں طرح سے دیکھا، دل کی آنکھوں سے بھی اور سر کی آنکھوں سے بھی، علاوہ ازیں جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے  پوچھا گیا کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو کیسے دیکھا؟ قرآن میں تو ہے ﴿ لَاتُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ ﴾ نگاہیں اس کا حاطہ نہیں کرسکتیں؟ تو حضرت ابن عباس   رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "وَیْحَکَ ذَاکَ إذْا تَجَلّٰی بِنُوْرِ الَّذِيْ هو نُوْرُه"،تیرا بھلا ہو وہ تو اس طرح نگاہیں نہیں دیکھ سکتیں کہ اللہ تعالیٰ کا مکمل ادراک کریں، اس کا کامل احاطہ کریں۔

"عن عکرمة عن ابن عباس قال: راٰی محمد ربه، قلت: ألیس اللّٰه یقول: ﴿ لَا تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ﴾؟ قال: ویحک ذاک إذا تجلی بنوره الذي هو نوره وقد راٰی ربه مرتین". (ترمذی)
 عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر میں نے رسول اللہ  ﷺ کی زیارت کی ہوتی تو میں نے آپ  ﷺ سے ضرور پوچھا ہوتا ، انہوں نے پوچھا :تم رسول اللہ  ﷺ سے کیا بات پوچھتے ؟ میں نے کہا:  میں پوچھتاکہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ بات تومیں نے آپ  ﷺ سے پوچھی تھی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے (اپنی آنکھوں سے ) نور ( کے حجاب) کو دیکھا تھا۔

"عن عبداللّٰه بن شقیق قال: قلت لأبي ذر: لو رأیت رسول اللّٰه لسألته، فقال: عن أي شيءٍ کنت تسأله؟ قال: کنت أسأله هل رأیت ربك؟ قال أبو ذر: قد سألته، فقال: رأیت نوراً". (مسلم)
 معلوم ہوا کہ اس طرح دیکھنا کہ نگاہیں مکمل ادراک کریں جیسے جنت میں اللہ تعالیٰ نصیب کریں گے، ایسا دنیا میں کوئی نہیں دیکھ سکتا، ہاں فی الجملہ حق تعالیٰ شانہ کو دیکھنا ممکن ہے ،اور یہی رؤیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو شبِ معراج میں میسر ہوئی، یہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی ایسی خصوصیت ہے جس میں آپ کا کوئی  شریک نہیں، لہٰذا اس صورت میں کوئی اختلاف نہیں رہا، تمام روایات میں بھی تطبیق ہو جاتی ہے۔

مروزی سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امام احمد سے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، وہ فرماتی ہیں کہ جوشخص یہ سمجھے کہ  محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ بولا ہے ، حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کی اس حدیث پر لوگ بڑے شش وپنج میں ہیں، حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کی اس حدیث کا کس دلیل سے جواب دیا جائے؟ (اوپر روایات کی تطبیق سے یہ جواب مفہوم ہوگیا کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کو کامل ادراک اور سارے علم کے ساتھ جان لینے کی نفی ہے) حضرت امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا جواب خود  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں موجود ہے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ’’ رَئَیْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ‘‘۔
اوپر روایات اور تطبیق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ کے  رسول اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، ہاں کامل ادراک کے ساتھ نہیں دیکھا، اس لیے کہ اس طرح کا دیدار دنیا میں ممکن نہیں، یہ دیدار اللہ تعالیٰ جنت میں کروائیں گے۔ البتہ فی الجملہ دیکھنے میں کوئی اشکال نہیں، اس طرح کا دیدار اللہ کے  رسول اللہ علیہ وسلم کواللہ نے کروایا، جمہور صحابہ اور تابعین کا یہی مذہب ہے، اورمحققین کا راحج  قول یہی ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکی آنکھوں سے اللہ کو دیکھا ہے۔ فق