https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 26 January 2020

Mir sharfuddin Husain Faiz sirhindiمیرشرف الدین حسین فائض سرہندی

میرشرف الدین حسین ولد میرعماد الدین حسین اونگ زیب عالمگیر کے منصب دار سرہند کے عالم دین شیخ طریقت تھے ان کے بھا ئی میر مفاخر حسین ثاقب بھی سرہند کے مشاہیر علما و فارسی شعرا میں شمار ہوتے ہیں.راسخ سرہند ی ان کے بھتیجے بھی فارسی کے شاعر تھے.میر عمادالدین کا پورا گھرانہ اپنے عہدکے مشہور عالم دین اور سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے شیخ طریقت ,شیخ معصوم سرہندی کے مرید تھےمیر شرف الدین نےشیخ معصوم سرہندی کے مکتوبات جلددوم مرتب کیےان کے بھائی میر مظفر حسین بھی خواجہ محمد معصوم سرہندی کے خلفا میں تھے.
فارسی کلام بطور نمونہ حسب ذیل ہے
تراتادیدیم از خود رفتماے غارت گر دلہا
بہ بے ہوشی کشیداز مستی چشمت غبارمن
حسرت نگہ کردۂ چشم سیاہ کیست
شورجنوں صدای شکست کلاہ کیست
اے درپۂ مال وجاہ سرگشتہ مدام
طبع تو زفکر بیش و کم تیرہ چوشام
رمزیست لطیف بشنو و خوش دلباشی
بیش از قیمت مخواہ پیش از ہنگام
(روضۃ القیومیہ,روزروشن,کلمات الشعرا)

Saturday 25 January 2020

Bosnian War PDF Tazkirah Ulamai Bosnia and Herzegovina تذکرہ علماء بوسنیا و ہرزیگووینا

١۹۹٥ میں بوسنیا ہرزیگووینا کے مسلمانوں پرظلم وستم اور نسل کشی کو دنیا نے دیکھا,یو این او,نے شور مچایا ,ہیومن رائٹس واچ  اور ایمنیسی انٹر نیشنل نے انسانیت کارونارویا,اخبارات ورسائل میں وہاں کی خوں چکاں داستانیں لکھی گئیں .میں ان دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایم اے کاطالب علم تھا یہ خبر میں نے بھی پڑھی تو میرے اندر بھی
دینی حمیت  نے سر اٹھایا, میں نے سوچامیں کیاکرسکتاہوں بوسنیا کے لئے . یہی کہ وہاں کی تاریخ کھنگالوں اور اسلام کی عظیم شخصیات کی سوانح جو پردۂ خفا میں ہے لوگوں کے سامنے پیش کردوں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان شخصیات کے کارنامے اور ان کی تصانیف اور جدوجہد پر مشتمل کتابیں سقوط بغداد کی طرح خاکستر  کردی جائیں لہذا میں نے اس کتاب کو مرتب کرنے میں حتی المقدورتحقیق وتفحص, صداقت واستنادکوبروئے کار لاتے ہوئے,بڑی محنت سے کئ سال کوشش کی بالآخرمسودہ تیار ہوگیا تو حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمہ سے اس پرمقدمہ لکھوانے کا عزم کیالیکن علی گڑھ  سے لکھنؤ اپنی کاہلی  کی بنا پر نہ جاسکا .ایک سال تک مسودہ قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کے دفتر میں پڑارہا بالآخر ایک روز خبر آئی کہ شیخ ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے جان جان آفریں کے سپرد کردی اناللہ واناالیہ راجعون قصہ مختصر:اب سے بیس سال پہلے یہ کتاب شائع  ہوئی تھی اس  میں بوسنیاکی تاریخ, علماء مشائخ  کاتذکرہ مظالم کی داستان تفصیلی و مستند  پیرایئے  میں مع حوالہ بیان کی گئ ہے.
مفت  پی ڈی ایف حاصل کرنے کے لئے نیچے لنک پر  کلک کریں  https://drive.google.com/file/d/136tRs1IwPzSDOOJ4FROrHqEvtb3KeEwQ/view?usp=drivesdk

Friday 24 January 2020

Poetry of shah Abdul Ghani Mujaddidiنظم حضرت مولاناشاہ عبدالغنی مجددی درمدحت شیخ مجدد و روضۂ مبارک

حضرت مولاناشاہ عبدالغنی مجددی قدس سرہ العزیز اپنے عہد کے نامور محدث اور خانوادۂ شیخ مجدد الف ثانی کے فرد تھے.حضرت مولانا قاسم العلوم محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند اور  عظیم فقیہ و محدث حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے انہیں سے حدیث پڑھی دہلی سے مدینہ منورہ کی ہجرت کی وہیں  وفات پائی
:
اے خاک پاک روضہ عبیری وعنبری
کاہل جہاں زبوئے تو مدہوش گشتہ اند
اے روضۂ مبارک کی خاک تو وہ عبیر وعنبر ہے جس کی خوشبو سے سارا عالم مدہوش ہوگیا ہے
ساقی فشاند برتو خوش آبے کہ اہل دہر
عاقل بہ پشت آمدہ مخمور رفتہ اند
تجھ پر ساقی نے ایسا نفیس  پانی چھڑکا کہ جب دنیا والے آئے تھے تو باہوش و خرد تھے لیکن تیری زیارت کرکے واپس چلے تو مست ومدہوش تھے
سرے زخاک خلد تو داری کہ اہل ارض
یک نفحہ ازتو یافتہ برچرخ رفتہ اند
تجھ میں سرزمین جنت کا وہ راز پوشیدہ کہ زمین والے تیری ایک ہلکی سی خوشبو پاکر آسمان پر پہنچ گئے.
نےنے ترازتربتِ یثرب سرشتہ اند
پنہاں زروم و شام بہ سرہند ہشتہ اند
نہیں نہیں بلکہ تو خاک یثرب سے گوندی گئ ہے اور شام و روم  سب سے چھپاکر تجھے سرہند میں رکھا گیا ہے
ایں خاک احمدی ست بذات  احد -نگر
نے یک کہ صد ہزار ازیں خاک جستہ اند
یہ خاک احمدی ہے خداکی قدرت دیکھو کی ایک کو نہیں لاکھوں کو اس خاک در سے زندگی ملی
اہلا ومرحبا پئے زوار تو بسے
اقفال بعد بررخ اعدات بستہ اند
تیری زیارت کو آنے والوں  کے لئے ہرطرح  خوش آمدید ہے لیکن تیرے دشمنوں کےسامنے بعد ودوری کے قفل لگادئیے گئے ہیں تاکہ وہ نہ آسکیں
یارب مکن خلاص ازیں خاک در مرا
بدحال آں کساں کہ ازیں خاک رستہ اند
خداوندا تومجھ کو اس خاک در سے رہائی نہ دے.کیونکہ وہ لوگ بد نصیب ہیں  جن کو اس خاک درکی غلامی سے رہائی مل گئ.
شیرے بہ خواب ناز بہ پہلوئے دوشبل
یارب چہ رازہاست کہ ایں جا نہفتہ اند
ایک شیر اپنے دوبچوں کے پہلو میں مشغول خواب ناز ہے یارب اس میں کیا راز ہے کہ وہ یہاں پوشیدہ ہے
تنہاغنی نہ نغمۂ مدح تو ساز کرد
کروبیانِ عرش ہمیں گونہ گفتہ اند
صرف غنی ہی تیری مدح میں نغمہ سرا نہیں 

Thursday 23 January 2020

Sha Abdul Ahad wahdatشاہ عبدالاحد وحدت سرہندی

شاہ عبدالاحد وحدت سرہندی ,معروف بہ میاں شاہ گل ١۰٥۰ھ /1640عیسویں کو سرہند میں پیدا ہوئے.وہ شیخ مجددالف ثانی کے پوتے تھے انہوں نے عربی فارسی کی تعلیم  اپنے والد شیخ محمد سعید بن شیخ مجدد سے حا صل کی حرمین شریفین کی زیارت کے دوران وہا ں کے علماء کبارسے بھی استفادہ کیا.شیخ عبدالرحیم والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  سے گہرے تعلقات تھےشاہ عبدالرحیم کے نام ان کے مکاتیب انفاس العارفین میں شامل ہیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ان کےایک شاگرد حاجی افضل سے حدیث کی تعلیم حاصل کی تھی. مرزا مظہر جان جاناں بھی ان ایک شاگرد رشید شاہ گلشن دہلوی کے شاگرد تھے.بندہ بیراگی کی یلغار سے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے سرہند کی سکونت ترک کردی تھی اور دہلی فیروز شاہ کوٹلہ میں بودباش اختیار کرلی تھی وہیں فرخ سیر کے عہد میں ١١۲٦
ھ /١۷١۴ عیسویں میں انتقال ہوا
تصانیف
١.شواہدالتجوید.
شیخ مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کے نظریہ تجدید کے دلائل و شواہد سے اس رسالہ میں بحث کی ہے.
۲.لطائف مدینہ
اپنے والد شیخ محمد سعید کو زیارت حرمین کے دوران جو مکاشفات ہوئے اس رسالے میں آپ نے جمع کردئے ہیں
٣.جنوداللہ
۴.رسالہ فی  اثبات مجددیہ
٥.چارچمن وحدت
٦.توبہ نامہ
شاعری شیخ وحدت
 آپ فارسی اور ریختہ میں شعر بھی کہتے تھے.اگرچہ ذکروشغل سے آپ کو کم ہی فرصت ملتی تزھی لیکن جوکہا وہ بہت ہی عمدہ ہے آپ نے چالیس سال عمر کے بعد شاعری ترک کردی تھی. اور شعر گوئی سے توبہ کرلی تھی
نمونہ اشعار حسب ذیل ہے
مالخت دل بہ دیدۂ گریاں فروختیم
سرراہ پای و پای بہ داماں فروختیم
دل از جہاں گرفتہ بہ کنجی خزیدہ ایم
خوش یوسفی خریدہ بہ زنداں فروختیم
پیرانہ سر بہ زلف جوانی شدیم اسیر
صبح وطن بہ شام غریباں فروختیم
آمد غم نگار, دل  ودین ما ربود
ماخانہ بامتاع بہ مہماں  فروختیم
وحدت کجا وخانہ کجا عافیت کجا
ماایں ہمہ بہ کوہ وبیاباں فروختیم

Hafiz Sultan Rakhna Hiravi Sirhindi

Born in 910 Hijri, he was appointed as a governor of Sirhind in the period of Emperor Akbar the great. He built in Sirhind, number of tremendous historical buildings and gardens which are now as well, telling their grandeur's story despite the long period. One garden name was No lakha because it had Nine lakh trees. In the age of ninety years on Shwwal, 1001 hi-jri/1592, he died in Sirhind, buried in the garden. Sheikh Faizi Sirhindi on his death said historical poetry in Persian as under:
 زباغ جہاں رفت نواب حافظ
کزاں رفتنش خلق بے تاب شد
نماندہ کنوں باغ را رونقی
رخی گل ازیں درد خونناب شد
کشید آہ بلبل بزد نعرۂ
بگفتا بگو,باغ بے آب شد
Nawab Hafiz passed away from the garden of the world. On his demise, people are annoyed. Now after him there is no brightness in the garden, the face of the flower by this ache became blood like. The bubble shouted in grief with a sad song and said: tell the people garden has no brightness.
(Nuzhatul khawatir vol:5,p:271)

Arabic Proverb عربی کہاوت

عربی میں کہاجاتاہے.لسعتہ العقرب والحیۃ تلسعہ لسعافہو ملسوع سانپ اور بچھو نے اس کو ایساڈسا کہ وہ ڈنک زدہ ہوگیا.کہتے ہیں
قالوا حبيبك ملسوع فقلت لهم
من عقرب الصدغ أم من حية الشعر
لوگوں نے کہا تیرا محبوب ڈنک زدہ ہے میں نے پوچھا کس نے ڈس لیا رخسار کے بچھو جیسے بالوں نے یاسر کے سانپ جیسے بالوں نے؟
قالوا بلى من أفاعى الأرض فقلت لهم
وكيف تسعى أفاعى الأرض للقمر
انہوں نے جواب دیاکہ ہاں زمیںن کے سانپوں نے اسے ڈس لیا. میں نے کہا یہ ناممکن ہے,زمین کے ناگ چاند کو حاصل کرنے کے لئے کس طرح جا سکتے ہیں؟
شیخ تقی الدین ابن دقیق العید بچپن میں اپنے بہنوئی شیخ ضیاء الدین کے ساتھ شطرنج کھیل رہے تھے
کہ عشاء کی اذان کاوقت ہوگیااذان سن کر انہوں نے کھیل چھوڑدیااور نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے.نماز سے فارغ ہونے کے بعدشیخ تقی الدین نے اپنے بہنوئی سے کہا پھر کھیلو گے؟اس کے جواب میں بہنوئی صاحب نے فضل بن عباس بن عتبہ کا یہ شعر پڑھ دیاجو انہوں نے مدینہ کے عقرب تاجر کی ہجو میں کہاتھا
إن عادت العقرب عدنالها
وكانت النعل لها حاضرة
اگربچھولوٹاتوہم بھی لوٹیں گے اور جوتی اس کے لئے حاضر ہوگی
شیخ تقی الدین کو اپنے بہنوئی کا یہ جواب بہت ناگوار گذرا اور شطرنج کھیل ہمیشہ کے لئے چھوڑدیا
اس شعر میں عقرب سے مراد مدینہ کا ایک تاجرہے.جو ٹال مٹول والا آدمی تھا حتی کے لوگ بطور مثال بیان کرنے لگے.هوأمطل من عقرب .یعنی وہ عقرب سے زیادہ ٹال مٹول کرنے والا ہے.

Maulana Ali Sher Sirhindiمولانا علی شیر سرہندی

مولانا علی شیر سرہندی,سرہند موجودہ مشرقی پنجاب ضلع فتح گڑہ صاحب میں پیدا ہوئے جو قرون وسطی میں مردم خیز شہر تھا آج ایک چھوٹاساگاؤں  ہے جہاں اسلامی آثارمحض کھنڈرات کی شکل میں کس مپرسی کی داستان بیان کر رہے ہیں البتہ شیخ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کی مسجد ومزار اور ان کےصاحبزادگان اور خاندان کے آثار جو سرہند سے باہر سڑک کےکنارے ایک بڑے علاقے پرواقع  الحمدللہ آج تک محفوظ  اور مرجع خلائق ہیں. راقم نے خود وہ سارا علاقہ دیکھا ہے. بہرکیف
 مولانا علی شیر سرہندی سلسلہ قادریہ چشتیہ کے بزرگ اور عربی زبان کے بڑے عالم تھے انہوں نے مشہور تفسیرعربی غیر منقوط ,سواط الالہام پر تقریظ لکھی ,ان کے بیٹے شیخ الہداد فیضی بھی اپنے عہد کے مشہور عالم تھے ان کی لغت مدارالافاضل عہداکبری کی مشہور لغت ہے. مولانا علی شیری کو اسد العلما کاخطاب دیاگیا ان کے شاگردوں میں طبقات اکبری کے مصنف شیخ نظام الدین احمد بہت مشہور ہیں ,۹۸٥ہج/١٥۷۷عیسوی میں انتقال ہوا.
نزہۃ الخواطر ج:۴, ۲۴٥)

Wednesday 22 January 2020

Maulana Abdul qadir Sirhindiمولانا عبدالقادر سرہندی

شیخ عبدالقادر سرہندی اپنے عہد کے نامور اور معروف اساتذۂ ہندمیں شمارہوتے تھے,شیخ الہداد بن
 صالح سرہندی سے علم حاصل کیا.
تمام عمر درس وتدریس میں گذاردی.شیخ عبداللہ بن شمس الدین سلطان پوری,عہد اکبری کے نامور عالم مخدوم الملک آپ کے شاگرد تھے.
شیخ الہداد جونپوری کی شر ح کافیہ پران کے حواشی ہیں.ممتازعالم حسن چلپی ہندوستان تشریف لائے تو آپ سے سرہند آکر ملاقات کی.علامہ عصام الدین اسفرائنی آپ کا بہت احترام کرتےتھے انہوں نے اپنی کتاب المطول آپ کے لیے تحفۃََ بھجوائی .
نزہۃ الخواطر ج:۴ص١۹۴)

Causes of cancellation or dissolution of the Muslim marriages according to the Muslim law or Shariah.

There are some causes and reasons by existence or finding of anyone from those reasons Qazi sharia
 or judge may dissolve the marriage if woman requests for it, that are as under:
1. Missing of the husband.
2. Being unable of the husband to pay maintenance.
3. Not paying daily expenses to their wife while, being able to do so.
4. Not performing marital obligations.
5.Impotence.
6. Cutting off the penis, or being too short to perform marital obligations.
7.The insanity of the husband.
8.The leprosy or AIDS or other transitive diseases of the husband.
9. Hitting or beating or torturing the wife by the husband, physically or mentally.
10. Being differences in between the husband and wife morally and socially.
11.Hurmat Musaharat.
12.Using Khiyar bulugh.
( Kitabul Faskh wattafriq by the Qazi Abdul Samad Rahmani)

نکوئی بابداں کردن چناں است,کہ بد کردن بجائے نیک مرداں

بیہقی نے شعب الایمان کے اخیر میں یہ روایت بیان کی ہے کہ یونس بن حبیب سے مثل مشہور مجیر ام عامر (بجو)کے متعلق دریافت کیاگیاتو انہوں نے کہا کہ اس کا قصہ یوں ہواکہ چند لوگ گرمیوں کے موسم میں شکار کے لیے نکلے  جب وہ شکار کی تلاش میں پھررہے تھےتو انہیں ایک بجو نظر آیا,انہوں نے اس کا پیچھا کیامگر دوڑتے دوڑتے تھک گئے اور وہ بجو ہاتھ نہ آیا بالآخروہ بجو ایک اعرابی کےخیمے میں گھس گیااسے دیکھ کر اعرابی خیمے سے باہر نکلااور شکاریوں سے پوچھا کیا معاملہ ہے؟انہوں نے کہا ہمارا ایک شکار جسے ہم ہنکارہے تھے آپ کے خیمے میں گھس گیا ہے ہم اسے پکڑنا چاہتے ہیں یہ سن کر اعرابی بولا خداکی قسم جبتک میرے ہاتھ میں تلوار ہے اس وقت تک تم اسے پکڑنہیں سکتے
اعرابی کاچیلنج سن کر شکاری بجو کو چھوڑ کر چلے گئے اس کے بعد اعرابی نے اپنی اونٹنی کا دودھ دوہا اور ایک برتن میں دودھ اور برتن میں پانی لیکر  بجو کےسامنے رکھ دیا بجو کبھی دودھ کبھی پانی پیتارہااور جب پیٹ بھرگیا تو خیمے کے ایک کونے میں پڑگیا رات کو جب اعرابی اپنے خیمہ میں سوگیاتو بجو نے سوتے ہوئے اعرابی کا۰پیٹ پھاڑڈالا اور اس کا خون پی  لیااور پیٹ میں جو اعضا تھے کھالیئے اور پھر وہاں سے بھاگ گیا.صبح کو جب اعرابی کاچچازاد بھائی و ہاں آیااعرابی کو اس حال میں دیکھ کر وہ اس جگہ گیا جہاں دودھ اور پانی پی کر بجو بیٹھ گیا تھاجب اسے وہاں نہ پایاتو وہ سمجھ گیا کہ یہ بجوہی کی کارستانی ہےچنانچہ وہ تیر کمان لے کر نکلابجو اسے خیمے کے باہر مل گیا اسے اس نے مار ڈالا اور یہ اشعار پڑھے
ومن يصنع المعروف  من غير أهله
يلاقي كما لاقى مجير أم عامر
جوکسی نااہل کے ساتھ بھلائی کریگا تواس کا وہی انجام ہوگا جو بجو کو پناہ دینے والے کا ہوگا
أدام لها حين استجارته بقربه
قراها من  البان اللقاح الغزائر
جب سے اس بجو نے اس کے خیمے کے قریب پناہ لی تھی وہ برابر گابھن اونٹنی  کے دودھ سے اس کی ضیافت کرتا رہا
واشبعها حتى إذا ما تملأت
فرته بأنياب لها وأظافر
اور جب وہ شکم سیر ہوگیا تو اس نے اس احسان کا بدلہ یہ دیا کہ اپنے دانتوں اور پنجوں سے اپنے محسن کاہی پیٹ چاک کردیا
فقل لذوى المعروف هذا جزاء من
غدا يصنع المعروف مع غير شاكر
لہذا نیکی کرنے والوں سے کہدوکہ یہ اس شخص کی سزا ہے جو ناشکروں کے ساتھ نیکی کرتا ہے

Contribution of Sirhind to Arabic,Persian and tasawwuf litrature


Sirhind City is located in the East Punjab District of Fatehgarh sahab of India.It was built by the order of the Emperor Firozshah Tughlaq on the indication of Makhdum jahanyan jahan Gasht syed Jalaluddin Bukhari.Orignaly it was Sihrind means jungle of lions by the volubility it became Sirhind. Some Historian said it is a compound word which made by sir and Hind, sir means corner and Hind means India in Persian, means: corner of India.Sirhind was an important city in the medieval period.king Humaun invaded on the Army of Sikandar suri and defeated him on1555 in Sirhind.
Mughal Emperor Akbar came Sirhind to punish Berum khan on his disloyalty.
Mughal emperor Shahjahan's one wife Sirhindi Begum was from Sirhind. The Emperor built here a Palace and gardens.His daughters Raushan Ara and jahan Ara used to visit sirhind in the shrine of Sheikh Mujaddid Alfsani.They both were disciple of Sheikh Masum sirhindi.
According to the Rauzatul qayyumiah Emperor Jahangir came to Sirhind after demise of Sheikh Mujaddid Alfsani to present condolences his son Sheikh Masum.
In the Medieval sirhind we see prominent Historians, poets, administrators,Persian and Arabic prose writers and poets.
Historians of Sirhind:
1.Yahya bin Ahmad Sirhindi 2.Alahdad sirhindi3.Sheikh Abdul Ahad Sirhindi 4.Ibrahim Sirhindi5.Mulla Abdul qadir sirhindi.6.Fazlullah sirhindi7.Abdul Haqq sajawal sirhindi.8.Mulla Abid Sirhindi.9.Ghulam Muhuddin sirhindi.10.Sheikh Qutbuddin sirhindi.11.Sheikh Abdul Ahad Gule wahdat sirhindi.
Arabic writers:
1.Sheikh Ibrahim sirhindi2.Sheikh Abdullah Niyazi Sirhindi3.Maulana Amanullah Sirhindi4.Sheikh Ahmad Sirhindi5.Sheikh Mohammad Saeed Sirhindi.6.Khwaja Masum Sirhindi6.Sheikh Saifuddin Sirhindi7.Sheikh Alahdad bin Saleh sirhindi.
Persian poets:
1.Nasir Sirhindi.2.Rasikh sirhindi.3.Sarkhush Sirhindi.4.Ijad sirhindi.5.Aishi Hisari6.7.Sheri Sirhindi.8.Safai Sirhindi.9Khushtar Sirhindi.10.Saqib Sirhindi.11.wahdat sirhindi

Monday 20 January 2020

Amazing story of thanklessness

Prolific historian Ibn khallikan reported in the biography of Hushaim Bin Adi that a person was eating food, chicken fry, suddenly a beggar knocked the door and asked for food but, owner of the house not fulfilled his demand he returned empty-handed, while the owner was a rich person. after some years this owner eventually became poor even his wife subsequently segregated him and married with another person.
 Once upon a time her new husband was eating food in the house, food was chicken Fry, meanwhile a beggar knocked out the door. The owner of the house said to his wife please give all the food to the beggar.so the wife gave all chicken Fry ,to the beggar. when the woman saw the beggar, she knows that this beggar is her first husband.so she told to her new husband that this beggar is my former husband. After having heard that, her new husband said: I am that beggar whom he returned from his house empty-handed. Almighty  Allah has snatched on his ingratitude, all his wealth and wife and gave me.

Sheikh Mohammad Masum Sirhind

Khwaja Muhammad Masum was dearly son of Sheikh Ahmad Mujaddid Alf sani. Born on 11th Shawwal, 1007 hijri/27th April 1599,in the Basi village near Sirhind. He read earlier few books from his elder brother Sheikh Muhammad Sadiq.Memorised Holy Quran in a brief period of three months.He was real successor to his father.His father Sheikh Mujaddid was his first teacher, he learned Arabic, Tafseer, Hadith, Logic, Philosophy, but gain whole education of the Holy Quran and Sunnah from his father, and their big brother Sheikh Mohammad Sadique Sheikh Mohammad Tahir.After death of Sheik Mujaddid, he went to Hajj pilgrimage and stayed for a long time in the Holy City of Madina. He used to teach in Sirhind Mishkatul Masabeeh, Talweeh, Azodi. More than seven thousand of his pupils rose to the position of mystic Sheikhs of the age. He had thousand of the students in Transoxiana. His letters were compiled in three volumes like the Maktubat his father. He died on 9th Rabiul Awwal, 1079 Hijri, /7th August 1668, at Sirhind, East Punjab India.
He used to teach Hadith, Tafseer, Maktoobat, letters of their father everyday.
According to Rauzatul qayyumiah Mughal Emperor Jahangir came to Sirhind for consolation of Sheikh Masum when his great Father Sheikh Ahmad mujaddid Alfsani died.(Rauzatul qayyumiah p:18 part:2)
According to the same author in 1633  Mughal Emperor Shajahan laid the foundation stone to the Red fort in Delhi with the Holy hands of Sheikh Masum.
 چراغ ہفت محفل خواجہ معصوم
منور از فروغش ہند تاروم
(ناصرعلی سرہندی)