https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 22 January 2020

نکوئی بابداں کردن چناں است,کہ بد کردن بجائے نیک مرداں

بیہقی نے شعب الایمان کے اخیر میں یہ روایت بیان کی ہے کہ یونس بن حبیب سے مثل مشہور مجیر ام عامر (بجو)کے متعلق دریافت کیاگیاتو انہوں نے کہا کہ اس کا قصہ یوں ہواکہ چند لوگ گرمیوں کے موسم میں شکار کے لیے نکلے  جب وہ شکار کی تلاش میں پھررہے تھےتو انہیں ایک بجو نظر آیا,انہوں نے اس کا پیچھا کیامگر دوڑتے دوڑتے تھک گئے اور وہ بجو ہاتھ نہ آیا بالآخروہ بجو ایک اعرابی کےخیمے میں گھس گیااسے دیکھ کر اعرابی خیمے سے باہر نکلااور شکاریوں سے پوچھا کیا معاملہ ہے؟انہوں نے کہا ہمارا ایک شکار جسے ہم ہنکارہے تھے آپ کے خیمے میں گھس گیا ہے ہم اسے پکڑنا چاہتے ہیں یہ سن کر اعرابی بولا خداکی قسم جبتک میرے ہاتھ میں تلوار ہے اس وقت تک تم اسے پکڑنہیں سکتے
اعرابی کاچیلنج سن کر شکاری بجو کو چھوڑ کر چلے گئے اس کے بعد اعرابی نے اپنی اونٹنی کا دودھ دوہا اور ایک برتن میں دودھ اور برتن میں پانی لیکر  بجو کےسامنے رکھ دیا بجو کبھی دودھ کبھی پانی پیتارہااور جب پیٹ بھرگیا تو خیمے کے ایک کونے میں پڑگیا رات کو جب اعرابی اپنے خیمہ میں سوگیاتو بجو نے سوتے ہوئے اعرابی کا۰پیٹ پھاڑڈالا اور اس کا خون پی  لیااور پیٹ میں جو اعضا تھے کھالیئے اور پھر وہاں سے بھاگ گیا.صبح کو جب اعرابی کاچچازاد بھائی و ہاں آیااعرابی کو اس حال میں دیکھ کر وہ اس جگہ گیا جہاں دودھ اور پانی پی کر بجو بیٹھ گیا تھاجب اسے وہاں نہ پایاتو وہ سمجھ گیا کہ یہ بجوہی کی کارستانی ہےچنانچہ وہ تیر کمان لے کر نکلابجو اسے خیمے کے باہر مل گیا اسے اس نے مار ڈالا اور یہ اشعار پڑھے
ومن يصنع المعروف  من غير أهله
يلاقي كما لاقى مجير أم عامر
جوکسی نااہل کے ساتھ بھلائی کریگا تواس کا وہی انجام ہوگا جو بجو کو پناہ دینے والے کا ہوگا
أدام لها حين استجارته بقربه
قراها من  البان اللقاح الغزائر
جب سے اس بجو نے اس کے خیمے کے قریب پناہ لی تھی وہ برابر گابھن اونٹنی  کے دودھ سے اس کی ضیافت کرتا رہا
واشبعها حتى إذا ما تملأت
فرته بأنياب لها وأظافر
اور جب وہ شکم سیر ہوگیا تو اس نے اس احسان کا بدلہ یہ دیا کہ اپنے دانتوں اور پنجوں سے اپنے محسن کاہی پیٹ چاک کردیا
فقل لذوى المعروف هذا جزاء من
غدا يصنع المعروف مع غير شاكر
لہذا نیکی کرنے والوں سے کہدوکہ یہ اس شخص کی سزا ہے جو ناشکروں کے ساتھ نیکی کرتا ہے

No comments:

Post a Comment