Amir Samdani

Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان

https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday, 11 March 2024

زکوٰۃ

  • زیر نظر کر
  • ترمیاۃ سانچ:عربی،زكواة اسلام کے پانچ ارکان میں سے ايک اہم رکن ہے، جس کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ اس کے لغوی معنی پاکیزہ کرنا یا پروان چڑھانا ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد غریبوں کی مدد، معاشرتی فلاح و بہبود میں صاحب ثروت لوگوں کا حصہ ملانا اور مستحق لوگوں تک زندگی گزارنے کا سامان بہم پہنچانا ہے۔

اسلام کا تیسرا اہم رکن ہے۔ زکواۃکے معنی پاکیزگی اور بڑھنے کے ہیں۔

پاکیزگی سے مراد اللہ تعالٰی نے ہمارے مال و دولت میں جو حق مقرر کیا ہے اس کو خلوص دل اور رضامندی سے ادا کیا جائے۔ نشو و نما سے مراد حق داروں پر مال خرچ کرنا اپنی دولت کو بڑھانا ہے، جس سے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے۔

دینی اصطلاح میں زکواۃ ایسی مالی عبادت ہے جو ہر صاحب نصاب مسلمان پر اپنے مال کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی پرسینٹ نکالنا فرض ہے۔ اور اسے نادار، غریب، یتیم اور مستحقین کو ادا کیا جائے۔

مصارفِ زکواۃترمیم

زکواۃ تو بس محتاجوں، مسکینوں، عاملین صدقات اور تالیفِ قلوب کے سزا واروں کے لیے ہے اور اس لیے کہ یہ گردنوں کے چھڑانے، تاوان زدوں کے سنبھالنے، اللہ کی راہ اور مسافروں کی امداد میں خرچ کی جائے۔ یہ اللہ کا مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ علم والا اور حکمت والا ہے۔(9۔60)

زکواۃ کی فرضیتترمیم

زکواۃ فرض ہونے کے لیے چند شرطیں ہیں:

  • مسلمان ہونا، کافر پر زکواۃ واجب نہیں۔
  • بالغ ہونا، نابالغ پر زکواۃ فرض نہیں۔
  • عاقل ہونا، بوہرے(مجنون) پر زکواۃ فرض نہیں جبکہ اسی حال میں سال گذر جائے اور کبھی کبھی اسے افاقہ ہو جاتا ہے تو فرض ہے۔
  • آزاد ہونا، غلام پر زکواۃ نہیں اگرچہ اس کے مالک نے تجارت کی اجازت دے دی ہو۔
  • مال بقدرِ نصاب اس کی ملکیت میں ہونا، اگر نصاب سے کم ہے تو زکواۃ نہیں۔
  • پورے طور پر اس کا مالک ہونا، یعنی اس پر قبضہ بھی ہو۔
  • نصاب کا دین (قرض) سے فارغ (بچا ہوا) ہونا۔
  • نصاب کا حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہونا۔
  • مال کا نامی ہونا یعنی بڑھنے والا، خواہ حقیقتاً ہو یا حکماً۔
  • نصاب پر ایک سال کا مل کا گذر جانا۔(عامۂ کتب)

اللہ تعالٰی نے قراآن کریم میں ارشاد فرمایا : اقیموا الصلوۃ واتوا الزکاۃ۔ (البقرۃ) ترجمہ:نماز قائم کرو اور زکواۃ ادا کرو۔ اس آیتِ کریمہ میں زکواۃ کی فرضیت کا ثبوت مل رہا ہے۔

اس کے علاوہ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکواۃ کا اہتمام فرمایا اور لوگوں کو زکواۃ کا حکم فرمایا اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بھی اہتمام فرمایا حتی کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس نے زکواۃ کا انکار کیا اس کو قتل کر دیا جائے گا اس طرح سے بہت بڑے اٹھنے والے فتنے کا سد باب ہو گیا۔

زکواۃ تو اسلام نے غربا کی مدد اور ان کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے امرا پر فرض کی ہے۔ اور یہ غربت کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ خیال رہے کہ اگر سارے امیر لوگ زکواۃ دیں تو غربت ہمیشہ کے لیے دفن ہو جاتی ہے۔ اسلام کے اس زریں اصول سے ہر مسلمان اور غیر مسلم فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

وجوبِ زکواۃ سے مثتنیٰ چیزیںترمیم

جس چیز کی طرف زندگی بسر کرنے میں آدمی کو ضرورت ہے، اسے حاجت اصیلہ کہتے ہیں، اس میں زکواۃ واجب نہیں جیسے رہنے کا مکان، جاڑے گرمیوں میں پہننے کے کپڑے، خانہ داری کا سامان، سواری کے جانور، پیشہ وروں کے اوزار، اہل علم کے لیے حاجت کی کتابیں، کھانے کے لیے غلہ، (ردالمحتار) یوں ہی حاجتِ اصیلہّ میں خرچ کرنے کے لیے روپے پیسے۔

نصابِ زکواۃترمیم

سونے کی زکواۃ  :
نصاب : 20 مثقال = 20 دينار =85 گرام
پاکستان، بنگلاديش اور ہندوستان کے اوزان کے مطابق 7.29 تولے سونا کيونکہ
1 تولہ = 11.6638 گرام
تو 20 مثقال = 85 گرام = 7.29 تولہ
شرح : 2.5 فيصد يعنی اگر آپ کے پاس 20 دينار ہو تو آدھا دينار زکواۃميں دينا ہو گا۔
شرط : قمری سال کا پورا ہونا

چاندی کی زکواۃ :۔
نصاب : 200 درہم = 595 گرام
يا 595 گرام = 51.01 تولہ
شرح : 2.5 فيصد يعنی اگر آپ کے پاس دو سو دراہم ہو تو آپکو پانچ دراہم زکواۃ ميں دينا ہوں گے۔
شرط : قمری سال کا پورا ہونا

اموال تجارت پر زکواۃ  :
نصاب : مال کی اتنی مقدار جس کی قيمت 20 دينار يعنی 85 گرام سونے کے قيمت کے برابر ہو۔
شرح : 2.5 فیصد
شرط : قمری سال کا پورا ہونا۔

زکواۃ کی شرعی ادائیگیترمیم

زکواۃ  کی ادائیگی ’’عین‘‘ میں ہونی چاہیے ناکہ ’’دَین‘‘ میں۔ ’’عین‘‘ کے معنی ہے، حقیقی شے یا مال جو قابلِ فروختنی ہو یا کوئی جنس یا حقیقی اثاثہ جات۔ ’’دَین‘‘ کے معنی ہے ذمہ داری، قرض، ادائیگی کا وعدہ۔  زکواۃ  کو ’’دَین‘‘ میں دینے کی وجہ سے ’’دارورہ‘‘ کی طرف رجوع کرنے سے ہے۔ (’’دارورہ‘‘ کے معنی ہے ’’نہایت مجبوری کی حالت میں کوئی کام کرنا)۔ لیکن دارورہ ایک عارضی اقدام ہوتا ہے اس کو ہمیشہ کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
زکواۃ کے بارے میں مندرجۂ ذیل عناصر کا خیال رکھنا چاہیے۔
# زکواۃ کی ادائیگی ہر مسلمان پر فرض ہے جب اس کے پاس دولت نصاب تک پہنچ جائے۔
# زکواۃ کی ادائیگی ہمیشہ حقیقی جنس میں ہونی چاہیے یا موتیوں میں یا اگر اس کو پیسوں (زر) کی صورت میں دینا ہو تو اس کو سونے کے دینار اور چاندی کے درہم میں دینی چاہیے۔
# جب سونے کے دینار اور چاندی کے درہم موجود ہو، تو زکواۃ کی ادائیگی کاغذی نوٹوں میں نہیں کی جا سکتی۔
# مسلمانوں کے علاقوں میں واقع کانوں کے معدنیات کے پیداوار پر دس فیصد (10%) زکوۃ ہے اور یہ زکواۃ کو تیل کی صورت میں جمع کرنے کے لیے بہت اہم ہے۔ تمام مسلمان ملکوں میں تیل کی پیداوار کا دس فیصد حصہ مستحقین زکواۃ کا حق ہے۔
# زکواۃ کی تقسیم جتنی جلدی ممکن ہو، کرنی چاہیے۔ مثالی لحاظ سے زکواۃ کی وصولی کے بعد، 24 گھنٹوں کے اندر اندر اس کی تقسیم ہونی چاہیے۔
# زکواۃ وصول کی جاتی ہے نہ کہ دی جاتی ہے۔ زکواۃ کی وصولی محصولینِ زکواۃ کو کرنی چاہیے جو وصولی کے بعد وصولی کی رسید زکواۃ دینے والے کو جاری کرے گا۔ ان محصولینِ زکواۃ (Zakat Collectors) کو امیر (خلیفہ) مقرر کرے گا اور ان کی تنخواہ جمع شدہ زکواۃ سے دی جائے گی۔

زکواۃ کی ادائیگی’’دَین‘‘و’’عین‘‘ کا مسئلہترمیم

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ ا للہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ؐ ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکواۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘

مسئلہ:
مسئلہ کہ زکواۃ کو ادائیگی کے وعدے کے ساتھ نہیں دیا جا سکتا۔ زکوۃ کو صرف حقیقی مال یا شے جو قابلِ فروختنی ہو، میں دی جائے گی۔ جس کو عربی میں ’’عین‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کو ادائیگی کے وعدے یا قرض کی صورت میں نہیں دیا جا سکتا۔ جس کو عربی میں ’دَین‘‘ کہتے ہیں۔
شروع ہی سے زکواۃ دینار و درہم میں دی جاتی تھی اور قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس بات کی کبھی بھی اجازت نہیں دی گئی کہ زکواۃ کو کاغذی نوٹوں وصول کی جائے اور یہ صورت خلافتِ عثمانیہ کی پوری تاریخ میں چھائی رہی یہاں تک کہ اس کا خاتمہ 1928ء میں ہوا۔

شیخ محمد علیش کا فتویٰ
مسلک مالکی کے عظیم قاضی شیخ محمد علیش ؒ (1802-1881ء) نے فرمایا کہ اگر آپ نے زکوۃ کو کاغذی پیسوں کی صورت میں ادا کرنا ہو تو پھر اس کی قدر صرف ایک کاغذ کی لی جائے گی۔ اس لیے اس پر لکھی ہوئی رقم کا زکوۃ کی ادائیگی میں کوئی حصہ نہیں۔ (یعنی اگر ایک ہزار روپے کی نوٹ پر ایک روپیہ خرچ آیا ہے تو اس کی قیمت ایک روپے تصور کی جائے گی ناکہ ایک ہزار روپے)۔
اگر زکوۃ کسی شے یا مال کی جنس (مادے) کی وجہ سے فرض ہو تو پھر زکوۃ (کاغذی نوٹوں) پر لکھی ہوئی رقم کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ اس کی قدر اس کی جنس کی وجہ سے ہوگی (عین) یعنی اس کی قدر صرف کاغذ کے طور پر قبول کی جائے گی جیسا کہ چاندی، سونے، اناج یا پھل وغیرہ میں ہوتا ہے۔ اب جبکہ اس کے مادے (یعنی کاغذ) کا زکوۃ کی ادائیگی سے کوئی تعلق نہیں اس لیے ان کو تانبے، لوہے یا اس جیسی اجناس کی مانند تصور کرنی چاہیے۔
اسلامی فقہ میں زکوۃ کی ادائیگی اور اس کی تنظیم کو جامع انداز مین بیان کیا گیا ہے۔ صدیوں سے جب خلیفہ یا امیر اسلامی قانون کا نفاذ کرتا تھا تو زکوۃ کو ہمیشہ سونے اور چاندی میں ہی اکٹھا کرتا تھا۔ جب کاغذی پیسے کو پچھلے صدی میں (مغربی) مستعمراتی قوتوں نے متعارف کرایا تو روایتی علما نے اس کے استعمال کو ردّ کیا کیونکہ یہ اسلامی قانون کے خلاف تھا۔ ان کے مطابق کاغذی کرنسی کو فلوس کی مانند تصور کرنا چاہیے یا اِسے پیسے (زر) کی ادنیٰ صورت تصور کرنا چاہیے جس کا استعمال بہت محدود ہو اور بنیادی طور پر اِسے صرف ریزگاری(Change)کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
مثال کے طور پر، فلوس میں قرض نہیں دیا جا سکتا۔ ان علما میں سب سے مشہور مغربی النسل عالم شیخ محمد علیش ؒ (1801–1881)تھے جو جامعہ الازھر مصر میں فقہ مالکی میں شیوخ و علما کے شیخ تھے وہ اپنے فتویٰ میں لکھتے ہیں:
’’آپ کا اس کاغذ کے بارے میں کیا رائے ہے۔ جس میں سلطان کا مہر لگا ہوا ہو اور دینار و درہم کی طرح گردش کرتی ہو (معاشرے میں)؟ کیا اس سے زکوۃ دی جا سکتی ہے یا نہیں، جیسا کہ سونے اور چاندی کے سکوں یا کسی قابلِ فروختنی جنس کی صورت میں دی جاتی ہے؟
میں نے مندرجہ ذیل طریقہ سے اس کا جواب دیا:
’’تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے اور سلامتی ہو ہمارے آقا محمدﷺ پر جو اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘
’’زکوۃ ان (کاغذی نوٹوں) میں نہیں دی جا سکتی کیونکہ زکوۃ کی ادائیگی خاص چیزوں کے ساتھ منسلک ہے مثلاً مویشی، اناج، پھل، سونا اور چاندی اور روزمرہ استعمال ہونے والی فروختنی اشیاء اور اجناس وغیرہ۔ جس (کاغذی نوٹ) کا پہلے ذکر ہوا اس کا تعلق ان میں سے کسی چیز کے ساتھ نہیں۔‘‘
آپ اس کے بارے میں تفصیلی معلومات اس وقت حاصل کر سکتے ہیں جبکہ اپ ان کا تقابل فلوس یا تانبے سے بنے سکے کے ساتھ کریں گے، جس پر سلطان کا مہر ہوتا ہے، جو (زر کے طور پر معاشرے میں) گردش کرتے ہیں اور اس پر کوئی زکوۃ ادا نہیں کی جاتی کیونکہ اس کا تعلق مندرجہ بالا اشیاء میں کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ وہ ’’مَدوّانہ‘‘میں لکھتا ہے:
’’جن لوگوں کے پاس دو سو درہم کے برابر فلوس موجود ہو، ان پر زکوۃ واجب نہیں، جب تک وہ (مارکیٹ میں) گردشی جنس کے طور پر استعمال نہ ہو، تب ان کو جنس یا مال تصور کیا جائے گا۔‘‘
’’اِتّراز‘‘ میں امام ابو حنیفہ ؒ اور امام شافعی ؒ کی فلوس میں زکوۃ دینے کو جائز قرار دینے کے بارے میں لکھتا ہے کہ دونوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ زکوۃ کی ادائیگی اس کی (حقیقی) قدر کی وجہ سے ہیں اور شافعی ؒ مذہب کا ان کے بارے میں دو مختلف رائے ہیں۔ ان میں سے ایک مکتب فکر کا کہنا ہے کہ چونکہ زکوۃ فلوس میں دینا واجب نہیں کیونکہ اس بات میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا کہ فلوس کی قدر اس کی مادے یا مقدار کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ صرف اس پر لکھی ہوئی ظاہری قیمت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اب اگر زکوۃ ان (فلوس) کے مادے کو بطور جنس قرار دینے کے بعد واجب ہو، تو پھر اس کا نصاب کو پہنچنا اس کی ظاہری قیمت کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ اس سے بنی مادے اور مقدار کی وجہ سے ہوگی۔ جیسا کہ سونے، چاندی، اناج اور پھلوں میں ہوتا ہے۔ اب جبکہ اس کا مادے (کاغذ) کا زکوۃ سے کوئی تعلق نہیں اس لیے اس کو تانبے، لوہے یا ِاِسی قسم کے دوسرے اشیاء کے بطور لیا جائے گا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ سب سے دانان ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہمارے آقا محمدﷺ اور اس کی آل پر سلامتی اور برکتیں نازل کرے۔[1]

اس فتویٰ کے مطابق کاغذی نوٹوں کو فلوس کی حیثیت دی گئی ہے کیونکہ یہ صرف ’’زر‘‘ کی نمائندگی کرتی ہے اور اس کی بطور جنس حقیقی کوئی قدر نہیں۔ اس کے مطابق زکوۃ کو فلوس میں ادا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کی جنس کی کوئی قدر نہیں۔ اس کو کاغذی نوٹوں میں بھی نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس کی کاغذ کی کوئی قدر نہیں۔ اس بنیاد پر زکوۃ کی دینار و درہم میں ادائیگی کی فوراً بحالی بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ اگر لاکھوں مسلمان جو زکوۃ کاغذی کرنسی میں دیتے ہیں، نئے ڈھالے گئے سونے کے دینار اور چاندی کے درہم میں دینا شروع کر دے تو اس سے لاکھوں سونے اور چاندی کے سکے ہمارے معاشروں کے تجارتی سرگرمیوں میں گردش کرنا شروع کر دیں گے اور یہ اقدام اس صدی کا سب سے اہم سیاسی اقدام ہوگا جس سے ہمارے اپنے حلال اور آزاد ’’زر‘‘ (Currency) کے قیام کی راہیں کھولیں گی جو ہمیں ٰ (موجودہ) سودی نظام معیشت سے الگ کر دے گا۔
اسلام کی دوبارہ بحالی کے لیے زکوۃ کی ادائیگی کو پھر سے سونے اور چاندی میں کرنا نہایت ضروری ہے۔

امام کاسانیؒ نے اس بات کی تصدیق کی کہ زکوۃ ’’دَین‘‘ میں نہیں دی جا سکتی
امام کاسانیؒ مشہور حنفی عالم اپنی کتاب ’’بدائع صنائع‘‘ میں لکھتا ہے:
’’اگر جائداد جس پر زکوۃ واجب ہو ’’دَین‘‘ کی صورت میں ہو، جو ’’عین‘‘ سے مختلف ہو، اس کی زکوۃ ’’عین‘‘ کی دولت کی شکل میں دی جا سکتی ہے۔ اس طرح اگر کسی شخص کے پاس دو سو درہم ہو (کسی پر قرض کی صورت میں) جس پر زکوۃ ہوتی ہے تو وہ پانچ درہم نقد زکوۃ میں دے گا کیونکہ ’’دَین‘‘ مقابل ’’عین‘‘ کے ناقص ہے اور ’’عین‘‘ کامل ہے۔ اسی لیے ناقص کا معاملہ ’’کامل‘‘ کی صورت میں کرنا درست ہے۔ اس کے برعکس ’’کامل‘‘ کا معاملہ ناقص کی صورت میں درست نہیں اور اسی لیے اگر کوئی شخص دو سو درہم ملکیت پر زکوۃ اس ‎شکل میں ادا کرنا چاہے کہ ایک غریب آدمی کودئے گئے پانچ درہم قرض کو ادائیگی مان لیا جائے تو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آخر میں ’’دَین‘‘ دولت کی زکوۃ ’’دَین‘‘ کی صورت میں، اگر دولت جس پر زکوۃ واجب ہو ’’دَین‘‘ کی صورت میں ہو جو واپسی پر عین کی شکل اختیار کریں تو ’’دَین‘‘ کی صورت میں اس کی زکوۃ ادا نہیں کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر ایک شخص کی ایک دوسرے شخص پر پانچ دراہم قرض ہو اور ایک دوسرے شخص پر دو سو دراہم قرض ہو تو اس پہلے شخص کے پانچ درہم خیرات کی صورت میں دینے پر اس کی زکوۃ ادا نہیں ہو جاتی کیونکہ جب یہ شخص اپنے دو سو دراہم کا قرض واپس لے لے گا تو یہ ’’عین‘‘ بن جائے گا اور ’’عین‘‘ دولت کی زکوۃ ’’دَین‘‘کی صورت میں دینا ناقص ہے۔
اس کے برعکس صورتِ حال کی مثال یہ ہوگی کہ ایک شخص جو کسی کا دو سو دراہم قرضدار ہو اور وہ قرضدار ان (دو سو دراہم) سے (پانچ) دراہم (اس نیت سے اپنے پاس) رکھ لے کہ اس کے (مالک) کے قرض پر زکوۃ ’’دَین‘‘ کی صورت میں ادا ہو تو یہ جائز ہے۔ البتہ یہ اس وقت جائز ہوگی جب قرضدار غریب ہو اور اس کے علاوہ اس کی تضاد رائے بھی موجود ہے۔ تو ہم یہ بات بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہہ سکتے ہیں کہ ’’عین‘‘ دولت کی زکوۃ ’’عین‘‘ کی صورت میں دینے سے زکوۃ ادا ہو جاتی ہے مثلاً ’’کسی شخص کے پاس دو سو دراہم ہو اور وہ ان دو سو دراہم میں سے پانچ دراہم کو زکوۃ کی شکل میں دے د ے۔‘‘[2]
اسی لیے زکوۃ کی ’’دَین‘‘ اور ’’عین‘‘ کی صورت میں ادائیگی کے مسئلے کو درجہ ذیل طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے:
# زکوۃ اس شخص پر واجب ہو جاتی ہے جس کا کسی پر قابل واپسی قرض (دَین) ہو(جو نصاب) تک پہنچے۔
# جس پر زکوۃ واجب ہوتی ہے وہ اس کو ’’دَین‘‘ کی صورت میں ادا نہیں کر سکتا۔
# زکوۃ کی ادائیگی ہمیشہ ’’عین‘‘ کی صورت میں ہونی چاہیے جو حقیقی قابل لمس دولت ہو۔

زکوۃ کی ادائیگی اور فلوسترمیم

معاملات میں فلوس چھوٹے ریزگاری (چھوٹے سکے) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دراصل سب سے چھوٹے سکے ایک درہم کے ایک چھوٹے حصے کی نمائندگی کرتی ہے۔ (حالانکہ نصف درہم کے سکے بھی استعمال ہوئے ہیں)۔
فلوس کو ’’زر‘‘ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کی قدر کا انحصار درہم پر ہوتا ہے۔ یہ اسی لیے کاغذی نوٹوں (Fiat Money) کی طرح ہے۔ اور اس کی یہ دوسری تعریف، کاغذی نوٹوں کو سمجھنے کے لحاظ سے خاص تعلق رکھتی ہے کیونکہ ابتدائی کاغذی نوٹوں کو فلوس تصور کیا جا چکا تھا۔ حالانکہ تاریخ نے یہ بات ثابت کر دی کہ اس کو کبھی بھی چھوٹے ریزگاری (Small Change) کے لیے کبھی بھی استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اس کو حقیقی ’’زر‘‘ کے مکمل خاتمے کے لیے استعمال کیا گیا۔

زکوۃ اور فلوس
عمومی قانون یہ ہے کہ زکوۃ کو فلوس میں ادا نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی فلوس رکھنے پر زکوۃ واجب ہوتی ہے۔ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ زکوۃ کو فلوس میں نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس کی بطور جنس کوئی قدر نہیں بلکہ اس کی صرف ظاہری قدر ہوتی ہے۔ اسی لیے اس کو ’’زر‘‘(Money) تصور نہیں کیا جا سکتا۔ زکوۃ کو فلوس میں دینے کی کچھ استثنائی صورتیں ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
# جب فلوس کی قدر و قیمت نصاب سے تجاوز کر جائے۔ کچھ علما کا کہنا ہے کہ اگر فلوس کی مقدار نصاب سے تجاوز کر جائے جو دو سو دراہم یا بیس (20) دینار ہے تو اس پر زکوۃ واجب ہو جاتی ہے۔
# جب فلوس بطورِ فروختنی جنس استعمال کی جائے۔ دوسری استثنائی صورت یہ ہے کہ جب فلوس کو بطورِ مال تجارت استعمال کیا جائے، تب اس کی قدر اس کی دھاتی جنس کی وجہ سے ہو(جو تانبے سے یا تانبے کے ساتھ دوسری دھاتوں کی ملاوٹ سے بنی ہوتی ہیں)۔ کچھ لوگ اس کی تجارت مثلِ دھات کے کرتے تھے تو دوسری صورت کے بارے میں کچھ علما کا کہنا ہے کہ ان (فلوس) پر زکوۃ، اجناس پر زکوۃ واجب ہو نے کی طرح ہوگی جس پر ایک سال گذر جائے۔




on March 11, 2024 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

Sunday, 10 March 2024

وتر کی نماز تین رکعت

 احناف کے نزدیک وتر کی نماز  تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے، اس کے دلائل احادیث مبارکہ کی روشنی میں کتابوں میں موجود ہیں؛ اس لیے حنفی مقلد کے لیے دو سلام کے ساتھ  وتر پڑھنا درست نہیں ہے،  اس سے وتر ادا نہیں ہوں گے۔

نیز مقلد  پر  فروعی مسائل میں اپنے مذہب کے امام کی اتباع کرنا لازمی ہے، احناف کے نزدیک دلائل کی رو سے یہی راجح یہ ہے کہ  وتر کی نماز  تین رکعات، دو قعدے اور ایک سلام کے ساتھ ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"فظهر بهذا أن المذهب الصحيح صحة الاقتداء بالشافعي في الوتر إن لم يسلم على رأس الركعتين وعدمها إن سلم. والله الموفق للصواب".  (البحر الرائق، 2/40، باب الوتر والنوافل، ط: سعید) ف

کیا تین وتر ایک سلام کے ساتھ پڑھنا رسول اللہ (ص) سے ثابت

مالکیہ اور حنابلہ کے ہاں وتر سنت مؤکدہ اور شوافع کے ہاں سنت ہیں۔ اور ان تینوں آئمہ کے ہاں تین وتر دو سلام کے ساتھ پڑھنا جائز ہے جبکہ احناف کے ہاں تین وتر واجب ہیں اور ان کو ایک سلام کے ساتھ پڑھنا مسنون ہے۔ مسلم شریف اور دیگر کتب کی جن احادیث مبارکہ سے آئمہ ثلاثہ تین وتر دو قعدوں اور دو سلام کے ساتھ پڑھنے یا صرف ایک ہی وتر ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کا استدلال کرتے ہیں، آئمہ احناف کے ہاں ایسی تمام روایات اس معنی پر محمول ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ ایک رکعت الگ نہیں بلکہ دوگانہ سے ملی ہوئی ہوتی تھی۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاَةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى.

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رات کی نماز کے متعلق دريافت كيا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں۔ جب تم میں سے کسی کو صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت اور پڑھ لے تو یہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی۔

  1. البخاري، الصحيح، كتاب الوتر، باب ما جاء في الوتر، 1: 337، الرقم: 946، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة الليل مثنى مثنى والوتر ركعة من آخر الليل، 1: 509، الرقم: 749، بيروت: دار إحياء التراث العربي

یہ متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے، آئمہ احناف اس حدیث مبارکہ سمیت ایسی تمام روایات سے مراد لیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تہجد کی دو دو رکعات کر کے پڑھنے کی ترغیب فرمائی ہے اور جب صبح یعنی فجر کا وقت شروع ہونے کا اندیشہ ہو تو آخر میں دو رکعات کے ساتھ ایک اور ملا کر وتر (طاق) بنا دے جبکہ باقی آئمہ انہی روایات سے ایک رکعت الگ مراد لیتے ہیں۔ آئمہ احناف درج ذیل حدیث مبارکہ سے بھی دلیل پکڑتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین وتر ادا فرماتے تھے:

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا.

حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تو ان کو ادا کرنے کی خوبصورتی اور لمبائی کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔

  1. البخاري، الصحيح، كتاب التهجد، باب قيام النبي صلى الله عليه وسلم بالليل في رمضان وغيره، 1: 385، الرقم: 1096
  2. مسلم، الصحيح، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة الليل وعدد ركعات النبي صلى الله عليه وسلم، 1: 509، الرقم: 738

چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تہجد گھر میں ادا فرماتے تھے اس لیے مذکورہ حدیث سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہونے کی وجہ سے قوی دلیل ہے کیونکہ گھر کے معاملات گھر والی سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ اسی طرح ایک روایت ہے:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ، فَارْكَعْ رَكْعَةً تُوتِرُ لَكَ مَا صَلَّيْتَ.

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رات کی نماز کی دو دو رکعتیں ہیں۔ جب تم فارغ ہونا چاہو تو ایک رکعت اور پڑھ لو۔ یہ تمہاری پڑھی 

ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی۔

download-msg

Fatwa Online
سوال پوچھیئے
سپانسرشپ

کیا تین وتر ایک سلام کے ساتھ پڑھنا رسول اللہ (ص) سے ثابت ہے؟


سوال نمبر:5873
السلام علیکم مفتی صاحب! مسلم شریف کی حدیث کے مطابق 3 وتر پڑھنے کے رسول اللہ نے دو طریقے بتائے ہیں: وتر دو قعدہ دو سلام یا ایک قعدہ ایک سلام کے ساتھ۔ ہم حنفی ان دونوں طریقوں سے الگ کیوں پڑھتے ہیں؟

  • سائل: عزاممقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 15 ستمبر 2020ء

زمرہ: نماز وتر

جواب:

مالکیہ اور حنابلہ کے ہاں وتر سنت مؤکدہ اور شوافع کے ہاں سنت ہیں۔ اور ان تینوں آئمہ کے ہاں تین وتر دو سلام کے ساتھ پڑھنا جائز ہے جبکہ احناف کے ہاں تین وتر واجب ہیں اور ان کو ایک سلام کے ساتھ پڑھنا مسنون ہے۔ مسلم شریف اور دیگر کتب کی جن احادیث مبارکہ سے آئمہ ثلاثہ تین وتر دو قعدوں اور دو سلام کے ساتھ پڑھنے یا صرف ایک ہی وتر ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کا استدلال کرتے ہیں، آئمہ احناف کے ہاں ایسی تمام روایات اس معنی پر محمول ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ ایک رکعت الگ نہیں بلکہ دوگانہ سے ملی ہوئی ہوتی تھی۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاَةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى.

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رات کی نماز کے متعلق دريافت كيا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں۔ جب تم میں سے کسی کو صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت اور پڑھ لے تو یہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی۔

  1. البخاري، الصحيح، كتاب الوتر، باب ما جاء في الوتر، 1: 337، الرقم: 946، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة الليل مثنى مثنى والوتر ركعة من آخر الليل، 1: 509، الرقم: 749، بيروت: دار إحياء التراث العربي

یہ متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے، آئمہ احناف اس حدیث مبارکہ سمیت ایسی تمام روایات سے مراد لیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تہجد کی دو دو رکعات کر کے پڑھنے کی ترغیب فرمائی ہے اور جب صبح یعنی فجر کا وقت شروع ہونے کا اندیشہ ہو تو آخر میں دو رکعات کے ساتھ ایک اور ملا کر وتر (طاق) بنا دے جبکہ باقی آئمہ انہی روایات سے ایک رکعت الگ مراد لیتے ہیں۔ آئمہ احناف درج ذیل حدیث مبارکہ سے بھی دلیل پکڑتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین وتر ادا فرماتے تھے:

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا.

حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تو ان کو ادا کرنے کی خوبصورتی اور لمبائی کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔

  1. البخاري، الصحيح، كتاب التهجد، باب قيام النبي صلى الله عليه وسلم بالليل في رمضان وغيره، 1: 385، الرقم: 1096
  2. مسلم، الصحيح، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة الليل وعدد ركعات النبي صلى الله عليه وسلم، 1: 509، الرقم: 738

چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تہجد گھر میں ادا فرماتے تھے اس لیے مذکورہ حدیث سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہونے کی وجہ سے قوی دلیل ہے کیونکہ گھر کے معاملات گھر والی سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ اسی طرح ایک روایت ہے:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ، فَارْكَعْ رَكْعَةً تُوتِرُ لَكَ مَا صَلَّيْتَ.

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رات کی نماز کی دو دو رکعتیں ہیں۔ جب تم فارغ ہونا چاہو تو ایک رکعت اور پڑھ لو۔ یہ تمہاری پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی۔

اس حدیث کے رواۃ میں سے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہما کا ایک بیان ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَكْنَا يُوتِرُونَ بِثَلاَثٍ، وَإِنَّ كُلًّا لَوَاسِعٌ أَرْجُو أَنْ لاَ يَكُونَ بِشَيْءٍ مِنْهُ بَأْسٌ.

قاسم نے فرمایا کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو ہم نے لوگوں کو تین وتر پڑھتے ہوئے دیکھا اور ہر طریقے کے اندر وسعت ہے۔ مجھے امید ہے کہ کسی طریقے میں بھی مضائقہ نہیں ہو گا۔

البخاري، الصحيح، كتاب الوتر، باب ما جاء في الوتر، 1: 337، الرقم: 948

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی کثیر روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر کی تین رکعات کے درمیان میں سلام نہیں پھیرتے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل روایات میں ہے:

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُسَلِّمُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنَ الْوِتْرِ.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتروں کی پہلی دو رکعتوں میں سلام نہیں پھیرتے تھے۔

امام حاکم رحمہ اللہ اس حدیث مبارکہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ.

یہ حدیث شیخین (امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ) کی شرطوں پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اسے نہیں لیا۔

الحاكم، المستدرك على الصحيحن، كتاب الوتر، 1: 446، الرقم: 1139، بيروت: دار الكتب العلمية

اس سے اگلی حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ لَا يُسَلِّمُ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ. وَهَذَا وِتْرُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَعَنْهُ أَخَذَهُ أَهْلُ الْمَدِينَةِ.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین رکعت وتر بڑھتے ان میں سے آخری رکعت میں سلام پھیرتے تھے۔ یہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے وتر تھے، اہل مدینہ نے یہ طریقہ انہی سے سیکھا تھا۔

الحاكم، المستدرك على الصحيحن، كتاب الوتر، 1: 447، الرقم: 1140

دیگر کتب میں بھی یہ روایت ہے:

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا يُسَلِّمُ فِي رَكْعَتَيِ الْوَتْرِ.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر کی دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے۔

  1. ابن أبي شيبة، المصنف، 2: 91، الرقم: 6842، الرياض: مكتبة الرشد
  2. الدار قطني، السنن، 2: 32، الرقم: 7، بيروت: دار المعرفة
  3. البهقي، السنن الكبرى، 3: 31، الرقم: 4592، مكة المكرمة: مكتبة دارالباز

درج ذیل حدیث مبارکہ بھی وتر کی تعداد تین ہونے اور ایک سلام کے ساتھ پڑھنے پر قوی دلیل ہے:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وِتْرُ اللَّيْلِ ثَلَاثٌ كَوِتْرِ النَّهَارِ صَلَاةُ الْمَغْرِبِ.

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دن کے وتروں یعنی نمازِ مغرب کی طرح رات کے وتروں کی بھی تین رکعات ہیں۔

الدار قطني، السنن، 2: 27، الرقم: 1

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اور ان جیسی دیگر روایات احناف کے موقف پر دلالت کرتی ہیں جن کی بنیاد پر احناف تین وتر دو قعدوں اور ایک سلام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ اس قدر کثیر احادیث مبارکہ نقل کرنے کے بعد اس موضوع پر کسی اور دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن اپنے موقف کی تائید کے لیے صرف امام سرخسی رحمہ اللہ کی عبارت نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

أَنَّ الْوِتْرَ ثَلَاثُ رَكَعَاتٍ لَا يُسَلِّمُ إلَّا فِي آخِرِهِنَّ عِنْدَنَا إِلَى قَوْلِهِ وَلَنَا حَدِيثُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا كَمَا رَوَيْنَا فِي صِفَةِ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ وَبَعَثَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ أُمَّهُ لِتُرَاقِبَ وِتْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ أَنَّهُ أَوْتَرَ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ قَرَأَ فِي الْأُولَى سَبِّحْ اسْمَ رَبِّك الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَقَنَتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ وَهَكَذَا ذَكَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا حِينَ بَاتَ عِنْدَ خَالَتِهِ مَيْمُونَةَ لِيُرَاقِبَ وِتْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمَّا رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ سَعْدًا يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ فَقَالَ مَا هَذِهِ الْبُتَيْرَاءُ لَتَشْفَعَنَّهَا أَوْ لَأُوذِيَنَّكَ وَإِنَّمَا قَالَ ذَلِكَ ؛ لِأَنَّ الْوِتْرَ اُشْتُهِرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْبُتَيْرَاءِ وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ وَاَللَّهِ مَا أَخَّرْت رَكْعَةً قَطُّ وَلِأَنَّهُ لَوْ جَازَ الِاكْتِفَاءُ بِرَكْعَةٍ فِي شَيْءٍ مِنْ الصَّلَوَاتِ لَدَخَلَ فِي الْفَجْرِ قَصْرٌ بِسَبَبِ السَّفَرِ.

وتر میں تین رکعات ہیں جن میں ہمارے نزدیک صرف آخری رکعت کے بعد سلام پھیرا جائے گا۔ ہماری دلیل حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے جس کو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت قیام میں بیان کر چکے ہیں، اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آٹھ رکعت پڑھنے کے بعد تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وتر کے مشاہدہ کے لیے بھیجا تو انہوں نے آ کر بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین رکعت وتر پڑھے پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى پڑھی، دوسری میں قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ اور تیسری میں قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اور رکوع میں جانے سے پہلے دعائے قنوت پڑھی۔ اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ذکر کیا۔ جب انہوں نے جب انہوں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وتر کے مشاہدہ کے لیے رات گزاری۔ اور جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ایک رکعت وتر پڑھتے دیکھا تو فرمایا یہ تم کیسی دم بریدہ نماز پڑھتے ہو یا تو دوگانہ نماز پڑھو ورنہ میں تم کو سزا دوں گا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ بات اس وجہ سے کہی تھی کہ یہ بات مشہور تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دم دم بریدہ (ایک رکعت) نماز سے منع فرمایا تھا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا قسم بخدا میں ایک رکعت نماز کو ہرگز کافی نہیں سمجھتا نیز اگر ایک رکعت نماز مشروع ہوتی تو سفر کی وجہ سے فجر کی نماز کو قصر کر کے ایک رکعت نماز پڑھنا جائز ہوتا۔

السرخسي، المبسوط، باب القيام في الفريضة، 1: 164، بيروت: دار المعرفة

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ وتر کی تعداد اور ادائیگی کا طریقہ دونوں احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمامین کے مطابق احناف کا طریقہ سنت کے عین مطابق ہے۔ صحیح مسلم شریف کی جن احادیث مبارکہ سے آئمہ ثلاثہ نے وتر دو قعدوں اور دوسلام کے ساتھ ادا کرنا اخذ کیا ہے، فقہاء احناف نے انہی احادیث مبارکہ سے تین وتر ایک سلام کے ساتھ ثابت کئے ہیں، لہٰذا نماز وتر کی ادائیگی میں احناف کا طریقہ بھی احادیث مبارکہ سے الگ نہیں ہے۔


on March 10, 2024 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

مذی پاک ہے یا ناپاک

 مذی ناپاک ہے، نجاستِ غلیظہ ہے، کپڑے اور بدن پر لگنے سے  کپڑا اور بدن ناپاک ہوجاتا ہے، اگر مذی کپڑے پر لگ جائے اور اس کی مقدار  ایک درہم  (5.94 مربع سینٹی میٹر) سے کم ہو اور  اس کو دھوئے بغیر نماز پڑھ لی ہو تو نماز ہوجائے گی، (اگرچہ اس مقدار میں بھی نجاست کو دھو لیناچاہیے) اور اگر اس کی مقدار ایک درہم سے زیادہ ہو تو  نماز ادا نہیں ہوگی۔

اور اس کو پاک کرنے کے لیے تین مرتبہ اچھی طرح دھویا جائے اور ہر مرتبہ دھونے کے بعد اچھی طرح نچوڑا جائے کہ پانی کے قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں، اس طرح تین مرتبہ دھونے سے وہ پاک ہوجائے گا، البتہ اگر اس کو  بہتے پانی یا تالاب  یا زیادہ پانی میں یا کسی اور جگہ اچھی طرح دھویا جائے، اور اس پر خوب پانی بہایا جائے کہ نجاست کا اثر دور ہوجائے تووہ کپڑا پاک ہوجاتا ہے، اگر  چہ اسے تین مرتبہ نچوڑا نہ  گیا ہو

فتاویٰ شامی میں ہے:

"( وعفا ) الشارع ( عن قدر درهم ) وإن كره تحريماً، فيجب غسله وما دونه تنزيهاً فيسن، وفوقه مبطل ( وهو مثقال ) عشرون قيراطاً ( في ) نجس ( كثيف ) له جرم ( وعرض مقعر الكف ) وهو داخل مفاصل أصابع اليد ( في رقيق من مغلظة كعذرة ) آدمي وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ". (1/316،ط:بیروت)

وفيه أيضًا:

"لَوْ غُسِلَ فِي غَدِيرٍ أَوْ صُبَّ عَلَيْهِ مَاءٌ كَثِيرٌ، أَوْ جَرَى عَلَيْهِ الْمَاءُ طَهُرَ مُطْلَقًا بِلَا شَرْطِ عَصْرٍ وَتَجْفِيفٍ وَتَكْرَارِ غَمْسٍ هُوَ الْمُخْتَارُ".

(1/333، باب الأنجاس، ط: سعید

on March 10, 2024 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest
Newer Posts Older Posts Home
Subscribe to: Comments (Atom)

About me

Dr.Mufti Mohd Amir samdani
Aligarh, U.P., India
Dr.Mufti Mohammad Amir Samdani or Amirus samdani محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبد الصمد المعروف بصمدخان born in a town named Singar district Gurgaon Haryana in 3 August 1971.Studied in Deoband and Aligarh Muslim University Aligarh U.P India. Interested Subjects ( Arabic, Theology, Islamic jurisprudence. Did M.A.in Arabic, M.Th.and Ph.D.(2002) Research Topic: Contribution of East Punjab to Arabic language and literature. A critical study up-to 1947. Other books are as under: Biographies of Islamic scholars in Bosnia and Herzegovina (1999). Urdu name Tazkira Ulamai Bosnia wa Herzegovina. Kamilan-e-Thanaiser.(2003)
View my complete profile

Blog Archive

Labels

  • Contribution of Muslims in science and innovation
  • Muhibbullah Allahabadi
  • rafa ydain

Report Abuse

Popular Posts

  • Salatul_Istikharah نماز إستخاره
    When a person wishes to carry out some important work,guidance should be sought from Allah.The Prophet peace be upon him has mentioned that...
  • قرآن مجید کی مکی اور مدنی سورتیں
    :درج ذیل بیس سورتیں بالاتفاق مدنی ہیں البقره،آل عمران،النساء،المائده،الأنفال،التوبه،النور،الأحزاب،محمد،الفتح الحجرات،الحديد،المجادله،الح...
  • جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خریدوفروخت
      جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید و فروخت چھوڑنا واجب ہے اور خرید و فروخت میں لگنا حرام ہے اور اس وقت کیاگیا سودا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے۔ ا...

Amir Samdani

Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان

No CAA,No NRC,NPR

رسالۃ

زمانہ مانے نہ مانے لیکن ہمیں یہی ہے یقین کامل
جہاں اٹھاکوئی تازہ فتنہ اٹھاتری رہگذرسے پہلے

Amir Samdani

Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان

Wikipedia

Search results

Translate

Powered By Blogger
  • Home

الرسالة

لاضررولاضرارفي الإسلام.والذين إذاأصابهم البغي هم ينتصرون
(تحت أوضاع الهند)

Wikipedia

Search results

Phone:9897171820

  • Home

Qutations

بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں پیدا نہیں ساقی وہاں بے ذوق ہے صہباء
حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کرنہ دے برپا
ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیاکم ہے
گرفتہ چینیاں احرام ومکی خفتہ دربطحا

A/c:85112010045236(Syndicate Bank,AMU Aligarh,UP,India)

  • Home

Translate

Powered By Blogger

خیرمقدم

  • Home

نہ اٹھا پھرکوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے

  • Home

Amir Samdani

Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

Follow me by email :

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments
Powered By Blogger

Follow me by email :

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments
  • Home

Search This Blog

Dr.Mufti Mohd Amir Samdani

Dr.Mufti Mohd Amir Samdani

محتويات

شیخ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ
The Impact of Islam on Indian culture.
Last Address of the Prophet(PBUH)in Arafat
Nuniatih Abil Fatah Al_Busti
Qunut Nazilah
Salatul Istikharh
انسان کے اپنی ذات سے متعلق آداب
آداب نکاح
آداب جمعہ
The Life of the Prophet(PBUH)in short.
Text of Hudaibiyah treaty.
منصور حلاج
قصیدۂ فرزدق,حضرت زین العابدین کی مدح میں
Biography of Hazrat Umar Bin Abdul Aziz.
An important Du'aa of the Prophet(PBUH)
Martyrdom of Hanzala Amir.
Slavery and Islam.
Mercy on animals.
Voice of Indian people.
Munsif Gogoi.
حضرت سفیان ثوری اور ہارون رشید کے مابین مراسلت
تنگدستی سے بچنے کا عمل
(غموں کا سال(منظوم
فتح بن خاقان کی ذہانت
سیدناحسن بن علی رضی اللہ عنہما کاخطبۂ صلح
اللہ کی ہر تخلیق سودمند ہے
امام ابو حنیفہ کے اخلاق
موضوع حدیث کی شناخت اصول نقدودرایت کی روشنی میں
قرآن مجید کی مکی اور مدنی سورتیں
نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑوں کے نام
حضرت ذوالنون مصری کا واقعہ
تین قسم کے جھوٹ جو جائز ہیں
قید سے رہایئ کی دعاء

كنتم خيرأمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنكر و تؤمنون بالله

  • Home

تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

  • Home
Powered By Blogger

لگتاہے اس مقام سے گذرے ہیں کتنے کارواں

  • Home

Translate

Powered By Blogger
Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments
Powered By Blogger

Pages

  • Home
Powered By Blogger

Wikipedia

Search results

مضامین تلاش کریں

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments

Followers

Total Pageviews

Discussion

Contact Form کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے

Name

Email *

Message *

Contact Form

Name

Email *

Message *

Search This Blog

Amir Samdani

Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان

عناوين

  • Amir Samdani
    حرمتِ مصاہرت کے بعد شوہر کی طرف سے تفریق یاقضاء قاضی شرط ہے

Beloved Followers

Blog Archive

  • 10/05 - 10/12 (2)
  • 09/21 - 09/28 (1)
  • 09/14 - 09/21 (2)
  • 08/31 - 09/07 (2)
  • 08/24 - 08/31 (1)
  • 08/17 - 08/24 (1)
  • 08/03 - 08/10 (3)
  • 07/06 - 07/13 (2)
  • 06/22 - 06/29 (1)
  • 06/15 - 06/22 (4)
  • 06/08 - 06/15 (2)
  • 06/01 - 06/08 (7)
  • 05/25 - 06/01 (10)
  • 05/18 - 05/25 (2)
  • 05/11 - 05/18 (4)
  • 05/04 - 05/11 (7)
  • 04/27 - 05/04 (2)
  • 04/20 - 04/27 (4)
  • 03/30 - 04/06 (5)
  • 03/23 - 03/30 (2)
  • 03/16 - 03/23 (4)
  • 03/09 - 03/16 (2)
  • 02/23 - 03/02 (1)
  • 02/16 - 02/23 (15)
  • 02/09 - 02/16 (8)
  • 02/02 - 02/09 (14)
  • 01/26 - 02/02 (6)
  • 01/19 - 01/26 (2)
  • 01/12 - 01/19 (11)
  • 01/05 - 01/12 (1)
  • 12/29 - 01/05 (3)
  • 12/22 - 12/29 (3)
  • 12/15 - 12/22 (6)
  • 12/08 - 12/15 (1)
  • 12/01 - 12/08 (1)
  • 11/24 - 12/01 (3)
  • 11/17 - 11/24 (3)
  • 11/10 - 11/17 (2)
  • 11/03 - 11/10 (1)
  • 10/27 - 11/03 (2)
  • 10/20 - 10/27 (1)
  • 10/13 - 10/20 (3)
  • 09/29 - 10/06 (3)
  • 09/22 - 09/29 (2)
  • 09/15 - 09/22 (3)
  • 09/08 - 09/15 (2)
  • 09/01 - 09/08 (1)
  • 08/25 - 09/01 (23)
  • 08/18 - 08/25 (16)
  • 08/11 - 08/18 (3)
  • 08/04 - 08/11 (24)
  • 07/28 - 08/04 (106)
  • 07/21 - 07/28 (56)
  • 07/14 - 07/21 (44)
  • 07/07 - 07/14 (27)
  • 06/30 - 07/07 (36)
  • 06/23 - 06/30 (12)
  • 06/16 - 06/23 (20)
  • 06/09 - 06/16 (25)
  • 06/02 - 06/09 (10)
  • 05/26 - 06/02 (3)
  • 05/19 - 05/26 (4)
  • 05/12 - 05/19 (6)
  • 05/05 - 05/12 (19)
  • 04/28 - 05/05 (5)
  • 04/21 - 04/28 (13)
  • 04/14 - 04/21 (31)
  • 04/07 - 04/14 (17)
  • 03/31 - 04/07 (4)
  • 03/24 - 03/31 (5)
  • 03/17 - 03/24 (3)
  • 03/10 - 03/17 (8)
  • 03/03 - 03/10 (21)
  • 02/25 - 03/03 (16)
  • 02/18 - 02/25 (6)
  • 02/11 - 02/18 (12)
  • 02/04 - 02/11 (3)
  • 01/28 - 02/04 (8)
  • 01/21 - 01/28 (4)
  • 01/14 - 01/21 (3)
  • 01/07 - 01/14 (15)
  • 12/31 - 01/07 (21)
  • 12/24 - 12/31 (8)
  • 12/17 - 12/24 (4)
  • 12/10 - 12/17 (4)
  • 12/03 - 12/10 (11)
  • 11/26 - 12/03 (8)
  • 11/19 - 11/26 (10)
  • 11/12 - 11/19 (1)
  • 11/05 - 11/12 (3)
  • 10/29 - 11/05 (6)
  • 10/22 - 10/29 (9)
  • 10/15 - 10/22 (104)
  • 10/08 - 10/15 (15)
  • 10/01 - 10/08 (5)
  • 09/24 - 10/01 (5)
  • 09/17 - 09/24 (9)
  • 09/10 - 09/17 (4)
  • 09/03 - 09/10 (3)
  • 08/27 - 09/03 (1)
  • 08/20 - 08/27 (4)
  • 07/23 - 07/30 (1)
  • 07/09 - 07/16 (1)
  • 07/02 - 07/09 (2)
  • 06/25 - 07/02 (9)
  • 06/18 - 06/25 (6)
  • 06/11 - 06/18 (7)
  • 06/04 - 06/11 (5)
  • 05/28 - 06/04 (3)
  • 05/21 - 05/28 (5)
  • 05/07 - 05/14 (4)
  • 04/30 - 05/07 (1)
  • 04/23 - 04/30 (6)
  • 04/16 - 04/23 (4)
  • 04/09 - 04/16 (3)
  • 04/02 - 04/09 (1)
  • 03/19 - 03/26 (1)
  • 03/12 - 03/19 (2)
  • 03/05 - 03/12 (1)
  • 02/26 - 03/05 (4)
  • 02/19 - 02/26 (3)
  • 02/05 - 02/12 (1)
  • 01/29 - 02/05 (6)
  • 01/22 - 01/29 (3)
  • 01/15 - 01/22 (6)
  • 01/08 - 01/15 (3)
  • 01/01 - 01/08 (2)
  • 12/25 - 01/01 (2)
  • 12/18 - 12/25 (5)
  • 12/11 - 12/18 (1)
  • 12/04 - 12/11 (3)
  • 11/27 - 12/04 (1)
  • 11/20 - 11/27 (2)
  • 11/13 - 11/20 (3)
  • 11/06 - 11/13 (8)
  • 10/30 - 11/06 (3)
  • 10/23 - 10/30 (8)
  • 10/16 - 10/23 (3)
  • 09/25 - 10/02 (4)
  • 09/18 - 09/25 (2)
  • 09/11 - 09/18 (11)
  • 09/04 - 09/11 (1)
  • 08/28 - 09/04 (1)
  • 08/21 - 08/28 (6)
  • 08/14 - 08/21 (14)
  • 08/07 - 08/14 (2)
  • 07/31 - 08/07 (2)
  • 07/24 - 07/31 (2)
  • 07/17 - 07/24 (1)
  • 07/10 - 07/17 (4)
  • 07/03 - 07/10 (3)
  • 06/26 - 07/03 (3)
  • 06/12 - 06/19 (2)
  • 06/05 - 06/12 (4)
  • 05/29 - 06/05 (2)
  • 05/22 - 05/29 (3)
  • 05/15 - 05/22 (3)
  • 05/08 - 05/15 (5)
  • 05/01 - 05/08 (5)
  • 04/24 - 05/01 (4)
  • 04/17 - 04/24 (5)
  • 04/03 - 04/10 (3)
  • 03/27 - 04/03 (4)
  • 03/20 - 03/27 (6)
  • 03/13 - 03/20 (3)
  • 03/06 - 03/13 (2)
  • 02/27 - 03/06 (4)
  • 02/20 - 02/27 (5)
  • 02/13 - 02/20 (5)
  • 02/06 - 02/13 (4)
  • 01/30 - 02/06 (7)
  • 01/23 - 01/30 (6)
  • 01/16 - 01/23 (1)
  • 01/09 - 01/16 (12)
  • 01/02 - 01/09 (5)
  • 12/26 - 01/02 (9)
  • 12/19 - 12/26 (8)
  • 12/12 - 12/19 (7)
  • 12/05 - 12/12 (13)
  • 11/28 - 12/05 (17)
  • 11/21 - 11/28 (8)
  • 11/14 - 11/21 (17)
  • 11/07 - 11/14 (7)
  • 10/31 - 11/07 (11)
  • 10/24 - 10/31 (7)
  • 10/17 - 10/24 (10)
  • 10/10 - 10/17 (13)
  • 10/03 - 10/10 (20)
  • 09/26 - 10/03 (7)
  • 09/19 - 09/26 (20)
  • 09/12 - 09/19 (11)
  • 09/05 - 09/12 (16)
  • 08/29 - 09/05 (17)
  • 08/22 - 08/29 (12)
  • 08/15 - 08/22 (8)
  • 08/08 - 08/15 (11)
  • 08/01 - 08/08 (21)
  • 07/25 - 08/01 (7)
  • 07/18 - 07/25 (14)
  • 07/11 - 07/18 (8)
  • 07/04 - 07/11 (9)
  • 06/27 - 07/04 (3)
  • 06/20 - 06/27 (9)
  • 06/13 - 06/20 (13)
  • 06/06 - 06/13 (12)
  • 05/30 - 06/06 (11)
  • 05/23 - 05/30 (4)
  • 05/16 - 05/23 (13)
  • 05/09 - 05/16 (1)
  • 04/25 - 05/02 (2)
  • 04/11 - 04/18 (1)
  • 04/04 - 04/11 (1)
  • 03/28 - 04/04 (3)
  • 03/21 - 03/28 (5)
  • 03/07 - 03/14 (2)
  • 02/28 - 03/07 (5)
  • 02/21 - 02/28 (3)
  • 02/14 - 02/21 (3)
  • 02/07 - 02/14 (1)
  • 01/24 - 01/31 (4)
  • 01/17 - 01/24 (4)
  • 01/10 - 01/17 (3)
  • 01/03 - 01/10 (1)
  • 12/27 - 01/03 (1)
  • 12/13 - 12/20 (2)
  • 12/06 - 12/13 (4)
  • 11/29 - 12/06 (6)
  • 11/22 - 11/29 (5)
  • 11/15 - 11/22 (2)
  • 11/08 - 11/15 (2)
  • 11/01 - 11/08 (2)
  • 10/25 - 11/01 (1)
  • 10/18 - 10/25 (1)
  • 10/11 - 10/18 (5)
  • 10/04 - 10/11 (8)
  • 09/27 - 10/04 (2)
  • 09/20 - 09/27 (1)
  • 09/13 - 09/20 (3)
  • 09/06 - 09/13 (1)
  • 08/16 - 08/23 (1)
  • 08/09 - 08/16 (2)
  • 08/02 - 08/09 (5)
  • 07/26 - 08/02 (5)
  • 07/19 - 07/26 (1)
  • 07/12 - 07/19 (3)
  • 07/05 - 07/12 (2)
  • 06/28 - 07/05 (3)
  • 06/14 - 06/21 (1)
  • 06/07 - 06/14 (4)
  • 05/31 - 06/07 (1)
  • 05/24 - 05/31 (1)
  • 05/17 - 05/24 (3)
  • 05/10 - 05/17 (5)
  • 05/03 - 05/10 (2)
  • 04/26 - 05/03 (4)
  • 04/19 - 04/26 (1)
  • 04/12 - 04/19 (2)
  • 04/05 - 04/12 (5)
  • 03/29 - 04/05 (4)
  • 03/22 - 03/29 (3)
  • 03/15 - 03/22 (6)
  • 03/08 - 03/15 (12)
  • 03/01 - 03/08 (3)
  • 02/23 - 03/01 (6)
  • 02/16 - 02/23 (6)
  • 02/09 - 02/16 (18)
  • 02/02 - 02/09 (17)
  • 01/26 - 02/02 (12)
  • 01/19 - 01/26 (12)
  • 01/12 - 01/19 (18)
  • 01/05 - 01/12 (10)
  • 12/29 - 01/05 (13)
  • 12/22 - 12/29 (27)
  • 12/15 - 12/22 (2)
  • 12/08 - 12/15 (14)
  • 12/01 - 12/08 (19)
  • 11/24 - 12/01 (14)
  • 11/17 - 11/24 (5)
  • 11/10 - 11/17 (5)
  • 11/03 - 11/10 (6)
  • 10/27 - 11/03 (10)

Follow me by email :

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments

My Blog List

احباب

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments

إلى الشريعة السمحة البيضاء الغراء

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments

Subscribe To

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments
Powered By Blogger

شکراجزیلا

  • Home

My Blog List

Search This Blog

أهلا و سهلا ومرحبا

  • الدكتور المفتى محمد عامر الصمدانى القاسمى
  • Home

Search the contents here, please.

Search This Blog

أهلا و سهلا ومرحبا

  • الدكتور المفتى محمد عامر الصمدانى القاسمى
  • Home

Search This Blog

أهلا و سهلا ومرحبا

  • الدكتور المفتى محمد عامر الصمدانى القاسمى
  • Home

أهلا و سهلا ومرحبا

  • الدكتور المفتى محمد عامر الصمدانى القاسمى
  • Home

Search This Blog

Popular Posts

  • Salatul_Istikharah نماز إستخاره
    When a person wishes to carry out some important work,guidance should be sought from Allah.The Prophet peace be upon him has mentioned that...
  • قرآن مجید کی مکی اور مدنی سورتیں
    :درج ذیل بیس سورتیں بالاتفاق مدنی ہیں البقره،آل عمران،النساء،المائده،الأنفال،التوبه،النور،الأحزاب،محمد،الفتح الحجرات،الحديد،المجادله،الح...
  • جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خریدوفروخت
      جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید و فروخت چھوڑنا واجب ہے اور خرید و فروخت میں لگنا حرام ہے اور اس وقت کیاگیا سودا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے۔ ا...

Popular Posts

  • Salatul_Istikharah نماز إستخاره
    When a person wishes to carry out some important work,guidance should be sought from Allah.The Prophet peace be upon him has mentioned that...
  • قرآن مجید کی مکی اور مدنی سورتیں
    :درج ذیل بیس سورتیں بالاتفاق مدنی ہیں البقره،آل عمران،النساء،المائده،الأنفال،التوبه،النور،الأحزاب،محمد،الفتح الحجرات،الحديد،المجادله،الح...
  • جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خریدوفروخت
      جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید و فروخت چھوڑنا واجب ہے اور خرید و فروخت میں لگنا حرام ہے اور اس وقت کیاگیا سودا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے۔ ا...

Search This Blog

أهلا و سهلا ومرحبا

  • الدكتور المفتى محمد عامر الصمدانى القاسمى
  • Home

Newest

حرمتِ مصاہرت کے بعد شوہر کی طرف سے تفریق یاقضاء قاضی شرط ہے

Follow me by email :

https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Follow by email :

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments

Popular Posts

  • Salatul_Istikharah نماز إستخاره
    When a person wishes to carry out some important work,guidance should be sought from Allah.The Prophet peace be upon him has mentioned that...
  • قرآن مجید کی مکی اور مدنی سورتیں
    :درج ذیل بیس سورتیں بالاتفاق مدنی ہیں البقره،آل عمران،النساء،المائده،الأنفال،التوبه،النور،الأحزاب،محمد،الفتح الحجرات،الحديد،المجادله،الح...
  • جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خریدوفروخت
      جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید و فروخت چھوڑنا واجب ہے اور خرید و فروخت میں لگنا حرام ہے اور اس وقت کیاگیا سودا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے۔ ا...

لناجبل یحتلہ من یجیرنا

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments
Watermark theme. Powered by Blogger.