https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 8 November 2022

خلع میں مہرکی واپسی

اگر میاں بیوی کے درمیان نباہ کی کوئی صورت نہ بن رہی ہو، اور زیادتی بیوی کی جانب سے ہو ، شوہر بے قصور ہو اور وہ خلع لینے پر راضی ہو تو شوہر بدلہ خلع کے طور پر جو سونا مہر میں ادا کیا تھا، وہ واپس لینے کا شرعا حقدار ہوگا، تاہم ادا شدہ مہر سے زائد کا مطالبہ کرنا مکروہ ہوگااور اگر قصور شوہر کا ہو یا دونوں کا ہو (جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے) تو اس صورت میں علیحدگی میں شوہر کے لیے مہر واپس لینا جائز نہیں، بلکہ بیوی کو طلاق دیکر آزاد کرنا چاہئے جس میں مہر بیوی کا ہوگا اور عدت کا نفقہ بھی ان کو ملےگا۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: " إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية. إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع. وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان. " ( كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حكمه، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به، ١ /٤٨٨، ط: دار الفكر) فتاوی ہندیہ میں ہے: " إزالة ملك النكاح ببدل بلفظ الخلع كذا في فتح القدير." ( كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حكمه، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به الخلع، ١ / ٤٨٨، ط: دار الفكر) فتاویٰ شامی میں ہے: " وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول". (كتاب الطلاق، باب الخلع، ٣ / ٤٤١، ط: دار الفكر)

No comments:

Post a Comment