Amir Samdani

Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان

https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday, 13 April 2024

حجیتِ قیاس

 




  • ڈاؤن‌لوڈ بشکل پی‌ڈی‌ایف
  • زیر نظر کریں
  • ترمیم

قیاس اندازہ لگانایا تخمینہ لگانا اوررائے دینا۔

اصطلاح

قیاس کی لغوی تعریفترمیم

قیاس، قاس یقیس قیساً وقیاساً، قاس یقوس قوساً وقیاساً، ذوات الیاء اور ذوات الواؤ (یعنی جن کے مادہ میں حرف یاء اور حرف واو ہو) دونوں ہی سے ماخوذ ہے، جس کے معنی "تقدیر" یعنی ایک شے کااندازہ دوسری شے کے ذریعہ کرنے یا "تسویہ" یعنی ایک چیز کودوسری چیز کے برابر کرنے کے ہیں۔[1]

اصولی طور پر قیاس کے لغوی معنی کی تعیین میں تین نظریے ہیں:

صاحب مسلم الثبوت ملامحب اللہ بہاریؒ کا کہنا ہے کہ لفظِ قیاس تقدیر کے معنی میں اصل اور تسویہ کے معنی میں منقول ہے [2]

دوسرا نظریہ ہے کہ لفظ قیاس تقدیر ومساواۃ ہردو معنی میں مشترک لفظی ہے (مشترک لفظی ایسے لفظ کو کہتے ہیں جس کو یکے بعد دیگر دویازائد معنی کے لیے وضع کیا گیا ہو، دیکھیے:الموسوعۃ الفقہیہ:4/310) علامہ شوکانی رحمہ اللہ کا طرزِ تحریر اسی جانب مشیر ہے[3]

تیسری رائے محقق ابن الہمام کی ہے کہ قیاس ان معانی کے لیے مشترک معنوی ہے (مشترک معنوی ایسے لفظ کو کہتے ہیں جو اپنے وسیع ترمفہوم کے واسطہ سے کئی معنی کو یکساں طور پر جامع ہو، دیکھیے:الموسوعۃ الفقہیہ:4/310۔ اصول الفقہ لخضری بک:144) ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد المحسن نے اسی کو اختیار کیا ہے۔[4]

قیاس کی اصطلاحی تعریفترمیم

علامہ آمدی نے الاحکام میں قیاس کی تقریباً تمام مشہور تعریفات کے تذکرہ اور بالترتیب ان کے ضعف پر تنبیہ کے بعد جو مختار تعریف بتلائی ہے وہ اس طرح ہے: "فرع" و "اصل" کا حکم منصوص کی علت مستنبطہ میں مساوی ہوجانا، قیاس ہے۔

اس تعریف کے متعلق علامہ آمدی نے کہا: "وهذه العبارة جامعة مانعة وافية بالغرض عرية عمايعترضها من التشكيكات العارضة لغيرها على ماتقدم"۔ (الاحکام فی أصول الاحکام:3/273)

ترجمہ: تعریف مذکور جامع مانع ہے، مفہوم قیاس کی اس کی روشنی میں پورے طور پر وضاحت ہوجاتی ہے اور دیگر تعریفات پرجواعتراضات وارد ہوتے ہیں ان سے یہ محفوظ ہے۔

مگر ڈاکٹر عبد اللہ الترکی کو اس تعریف کی جامعیت و مانعیت سے انکار ہے، جامع اس لیے نہیں ہے کہ تعریف مذکورہ علتِ منصوصہ کو شامل نہیں ہے؛ کیونکہ تعریف میں علت مستنبطہ کی قید لگی ہوئی ہے اور مانع اس لیے نہیں کہ تعریف مذکور مفہوم الموافقہ وفحوی الخطاب کو بھی عام ہے (اس کی تعریف یہ ہے کہ بیان کردہ حکم کے محض ظاہر الفاظ پر غور کرنے سے یہ پتہ چل جائے کہ مسکوت عنہ کا حکم بھی یہی ہے، اصولِ مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:128) کیوں کہ ان پر بھی قیاس کی یہ تعریف صادق آتی ہے؛ لہٰذا قیاس کی صحیح ترین تعریف وہی ہو سکتی ہے جس کو کمال الدین ابن الہمامؒ نے "التحریر" میں اختیار کیا ہے کہ علت کے اندر غیر منصوص مسئلہ کا منصوص مسئلہ کے مساوی ہوجانا ہے۔ [5]

لیکن آمدی کی کی گئی تعریف پر جامعیت کے لحاظ سے جو اعتراض کیا گیا ہے اس کی یہ توجیہ ممکن ہے کہ علت مستنبطہ کی تخصیص انھوں نے تعریف میں اس بنا پر کی ہے کہ جب علت منصوص ہوتی ہے تو بہت کم لوگ حکم کے متعدی کرنے میں اختلاف کرتے ہیں (دیکھیے، ارشاد الفحول:298) اور مانعیت کے لحاظ سے جو مفہوم الموافقہ کو لے کر اعتراض کیا گیا ہے تو اس تعلق سے کہا جا سکتا ہے کہ مفہوم الموافقہ کا قیاس کے تحت داخل ہوجانا آمدی کے مسلک کے اعتبار سے مضر نہیں؛ کیونکہ اکثر شوافع کے نزدیک مفہوم الموافقہ بھی قیاس ہی ہے اور وہ قیاسِ جلی کے اقسام میں سے ہے (البحرالمحیط:5/37) اس لیے گو فی نفسہ محقق ابن ہمامؒ کی تعریف مختار اور عمدہ ہو سکتی ہے، مگر اس سے آمدی کی تعریف پر زد نہیں پڑتی، اس کی جامعیت ومانعیت اپنی جگہ بدستور باقی ہے۔

قیاس کا موضوعترمیم

رویانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مسکوت عنہا فروع کے احکام کو عللِ مستنبطہ کے واسطہ سے اصول منصوصہ سے معلوم کرنا قیاس کا موضوع ہے، یعنی منصوص اور صریحی حکم کی علت تلاش کرکے غیر منصوص مسائل کے احکام دریافت کرنا قیاس کا موضوع ہے۔(البحرالمحیط:5/14۔ ارشاد الفحول:296)

قیاس کی مثالترمیم

خمر (شراب) کے پینے کی حرمت کے بارے میں قران پاک کی یہ آیت نص_صریح ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿المائدہ : 90﴾

اے ایمان والو یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت اور پانسے [223] سب گندے کام ہیں شیطان کے سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ [224]

قیاس کرنے والے مجتہد نے خمر کی حرمت کی علت (وجہ و سبب) پر غور کیا تو وہ خمر کا نشہ آور ہونا پایا گیا۔ خمر کے بارے میں تو قرآن میں حکم مذکور ہے، لیکن دیگر منشیات کے بارے میں حکم مذکور نہیں۔ اب آیا ان دیگر منشیات کا استعمال جائز ہے یا ناجائز ہے؟ مجتہد نے غور کیا تو دیگر منشیات میں بھی نشہ آور ہونے کی وہی علت (وجہ و سبب) پائی تو مجتہد نے دیگر منشیات کے بارے میں بھی حرمت کا حکم لگایا یعنی جو حکم خمر (شراب) کا تھا اس کو دیگر منشیات کی طرف متعدی کیا اور ان میں بھی حرمت کا قول کیا۔

تو یہاں خمر "اصل" ہے، دیگر منشیات "فرع" اور حکم حرمت، جو اصل سے فرع کی طرف منتقل کرنے کا قیاس کیا گیا۔

قیاس کا مدار علت پر ہے حکمت پر نہیںترمیم

یہ امرمحتاج بیان نہیں کہ قیاس کا دارومدار علت پر ہوتا ہے حکمت پر نہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ حکمت غیر منضبط، تغیر پزیر اورمختلف ہوتی رہتی ہے ،اشخاص کے اعتبار سے بھی، ماحول اور اطراف کے اعتبار سے بھی، اس لیے حکم کی بنیاد ایسی بے ثبات چیز پر نہیں رکھی جا سکتی، اس کے برخلاف علت ایک منضبط اور مستحکم شے ہوا کرتی ہے ماحول کے اثر کوقبول نہیں کرتی، مثلاً حق شفعہ کے مسئلہ میں غور فرمائیے کہ یہاں ایک چیز ہے "شرکت فی العقار" اور ایک چیز ہے "دفع ضرر الجوار" یعنی شفیع کو حق شفعہ ملنا چاہیے؛ کیونکہ اُس کو بیچے جانے والے مکان وجائیداد میں کسی نہ کسی طرح کی شرکت حاصل ہے، شفیع کو حق شفعہ اس بنا پر بھی ملنا چاہیے کہ بجائے اس کے اگر کوئی اجنبی اس مکان کو خریدلے توامکان ہے کہ بُرے پڑوسی سے سابقہ پڑجائے، دونوں ہی وصفوں میں ادنی غور و فکر سے یہ ثابت ہوگا کہ وصف اوّل تومنضبط ہے کہ شفیع کی شرکت بہرحال رہتی ہے؛ مگروصف دوم غیر منضبط ہے، ہو سکتا ہے کہ خرید نے والا مشتری دین واخلاق میں خود اس شفیع سے اچھا نکلے ؛اس لیے مزاج شریعت وصف اوّل پر ہی بنا قیاس کا متقاضی ہے، مقتضائے یسر بھی یہی ہے ؛کیوں کہ ہرفرد کے لیے حکمت کا صحیح انضباط حرج سے خالی نہیں اسی وجہ سے شریعت نے مثال مذکور میں بھی حق شفعہ کا دارومدار علت یعنی شرکت فی العقار پر رکھا ہے، دفع ضرر جوار پر نہیں، گوکہ علت کی وضع وتعیین میں فی نفسہ خود حکمت کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔(اصول الفقہ الأبی زہرہ:189،197۔ تکملہ فتح الملہم:1/57)

حجیت قیاسترمیم

اللہ جل شانہٗ نے آیات بدء وخلق اور آیات احکام ہردو کے ذریعہ قیاس کے حجت ہونے کی جانب رہنمائی فرمائی ہے، ارشادِ خداوندی ہے: "إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ"۔(آل عمران:59)

ترجمہ:بے شک حالت عجیبہ عیسی کی اللہ تعالٰیٰ کے نزدیک مشابہ حالت عجیبہ آدم کے ہے کہ ان کو مٹی سے بنایا پھر ان کو حکم دیا کہ ہوجابس وہ ہو گئے۔

اس آیت میں عیسیٰ علیہ السلام کی خلق وپیدائش کوآدمؑ کے وجود ونشاۃ پر قیاس کیا گیا، دونوں کے مابین علت جامعہ کمال قدرت خداوندی کے علاوہ دونوں پیغمبروں کا بغیرباپ کے ہونا ہے (مقدمہ اعلاء السنن:2/79) ایک اور مخصوص پس منظر میں یہ آیات نازل کی گئیں: "وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌo قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ"۔ (یٰسٰین:78،79)

ترجمہ:او راُس نے ہماری شان میں ایک عجیب مضمون بیان کیا اور اپنی اصل کو بھول گیا ،کہتا ہے کہ ہڈیوں کو جب کہ وہ بوسیدہ ہو گئی ہوں کون زندہ کر دے گا؟ آپ جواب دیجیئے کہ اُن کو وہ زندہ کرے گا جس نے اول بار ان کو پیدا کیا اور وہ سب طرح کا پیدا کرنا جانتا ہے۔

ان آیات میں علتِ مشترکہ کمال قدرت کی بنا پر نشاۃ ثانیہ اور بعث بعدالموت کو نشاۃ اولی پر قیاس کرکے ثابت کیا گیا، آیات احکام میں قیاس کا استعمال اس طرح پر ہوا ہے، سورۂ نور کی آیت 31/میں عورتوں کو بتلایا گیا کہ "اباء واجداد سے پردہ ضروری نہیں" بقیہ چچا اور ماموں کو اس فہرست میں شامل کرنے کی ذمہ داری خود بندوں کے سپرد کی گئی، سورۂ احزاب کی آیت 49/میں یہ احکامات دیے گئے کہ مطلقہ مومنہ غیر مدخول بہا پر کوئی عدت نہیں، اب لامحالہ قیاساً مطلقہ کافرہ غیر مدخول بہا بھی اس حکم میں داخل ہوں گی کہ مبنی اسقاط عدت ایمان نہیں؛ بلکہ عدم مسیس اور مطلقہ کا غیر مدخول بہا ہونا ہے(مقدمہ اعلاء السنن:2/80۔83)

ان دلائل کے علاوہ قرآنی تعلیلاتِ احکام بجائے خود ایک مستقل موضوع ہے، جس میں قیاس کے حجت شرعیہ ہونے کے صریح اشارات ہیں، آخراللہ تعالٰیٰ نے "فَاعْتَبِرُوا يَاأُولِي الْأَبْصَارِ" (الحشر:2) کے امرتکلیفی کے ذریعہ قیاس کی حجت تمام کردی کہ "اے خرد مندو! قیاس وعقل سے بھی توکام لو" (اصول بزدوی:250) واضح رہے کہ یہاں اعتبار سے قیاس ہی مراد ہے، تدبروتفکر مراد نہیں، جیسا کہ ابن حزم کاگمان ہے ،وجہ اس کی یہ ہے کہ اعتبار "متعدی بدومفعول" کا متقاضی ہوتا ہے اور اس کا تحقق اسی وقت ممکن ہے جب کہ اعتبار بمعنی قیاس ہو، اعتبار بمعنی "تفکر وتدبر تعدی الی المفعولین" کی مطلق صلاحیت نہیں رکھتا، بالفرض اگرتسلیم کر لیا جائے کہ یہاں اعتبار کے معنی تفکروتدبر ہی کے ہیں، جیسا کہ سیاق وسباق سے واضح ہے توجواب یہ ہے کہ یہاں شے میں تفکرمحض کے معنی ہرگز مراد نہیں ؛بلکہ اُسے اپنی نظیر سے ملحق کرکے تدبر کرنا مقصود ہے اور قیاس اسی سے عبارت ہے۔ (مقدمہ اعلاء السنن:2/80۔83) فَاعۡتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الۡاَبۡصَارِ ﴿٥٩/سورہ الحشر : ٢﴾

... سو عبرت پکڑو اے آنکھ والو۔

مفسر قرآن علامہ ابو سعود رح نے تفسیر کبیر کے حاشیہ میں لکھا ہے:

وقد استدل به على حجية القياس

اس آیت سے قیاس کے حجت ہونے پر قیاس کیا گیا ہے۔ [تفسیر کبیر : ٦/٣٥١]

اور علامہ آلوسی بغدادی رح لکھتے ہیں:

اس آیت سے "قیاس_شرعی" پر عمل کرنے کا استدلال مشہور ہو گیا ہے۔ علما نے کہا ہے کہ الله تعالٰیٰ نے اس کے اندر "اعتبار" کا حکم دیا ہے اور وہ ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف "اشتراک" کی وجہ سے حکم کے منتقل ہونے کا نام ہے اور یہی قیاس شہریت میں معتبر ہے، اس لیے کہ اس کے اندر بھی حکم اصل سے فرع کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ (روح المعانی : ٢٨/٤٢)

سنت سے قیاس کا ثبوتترمیم

آپؐ کے قول وعمل ہردو سے قیاس کا حجت ہونا ثابت ہے، ذخیرہ احادیث میں ایسے ارشادات عالیہ افراط کے ساتھ ملیں گے جوکسی نہ کسی اعتبار سے علل واوصاف موثرہ سے مربوط ہیں، آپؐ کی نگاہ میں اس کا ایک عظیم مقصد یہ بھی تھا کہ مجتہدین امت اصل علت سے رہنمائی حاصل کرکے جدید پیش آمدہ مسائل کا شرعی حل دریافت کریں، سورہرۃ (بلی کا جھوٹا)کے بارے میں ارشادِ گرامی ہے: "إِنَّهَالَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّهَامِنْ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ"۔ (ابوداؤد، كِتَاب الطَّهَارَةِ، بَاب سُؤْرِ الْهِرَّةِ، حدیث نمبر:68)

ترجمہ : کہ بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے؛ کیونکہ وہ اُن جانوروں میں سے ہے جن کی گھروں میں کثرت سے آمدورفت رہتی ہے۔

ایک نکاح میں عورت اور اس کی پھوپھی یاخالہ کو جمع کرنے کی ممانعت میں فرمایا گیا: "إِنَّكُم إِنْ فَعَلْتُمْ ذَلِکَ قَطَعْتُمْ أَرْحَامَكُمْ"۔ (المعجم الکبیر:11/337، حدیث نمبر:11931)

ترجمہ : کہ اگرتم ایسا کروگے تورشتہ وتعلقات میں دراڑ کا سبب بنوگے۔

مس ذکر کے عدم ناقض وضو ہونے کو یہ علت بیان کرکے سمجھایا گیا: "هَلْ هُوَإِلَّامُضْغَةٌ مِنْهُ"۔ (ترمذی، كِتَاب الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ، بَاب مَاجَاءَ فِي تَرْكِ الْوُضُوءِ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ، حدیث نمبر:78)

ترجمہ : کہ عضوتناسل دیگر اعضاء بدن کی طرح بدن کا ایک حصہ ہی تو ہے (پھراس کے چھونے سے وضو کیوں ٹوٹے گا)۔

بوس وکنار کے مفسد صوم نہ ہونے کو آپﷺ نے تشبیہ دی کلی کرنے سے جس طرح مقدمات اکل (منہ میں پانی لینا کلی وغیرہ کی غرض سے ) کواکل نہیں کہاجاتا؛ اسی طرح مقدماتِ جماع (بوس وکنار) کے مرتکب کو مجامع نہیں کہا جائے گا۔ (مقدمہ اعلاء السنن:2/85)

احادیث احکام اس جیسی تعلیلات سے پُر ہیں، اثبات قیاس کے باب میں حدیث معاذؓ شان امام کا درجہ رکھتی ہے، ابوعون کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے معاذ بن جبلؓ کو جب یمن بھیجنے کا ارادہ فرمایا تومعاذؓ کو بلاکر پوچھا کہ بتاؤ معاذ کوئی قضاء درپیش ہو جائے توکس طرح اس سے نمٹوگے؟ عرض کیا یارسول اللہ! کتاب اللہ کی روشنی میں، آپﷺ نے پوچھا کہ کتاب اللہ میں اس کا حکم نہ ملے تو؟ جواب دیا سنتِ رسولﷺ میں تلاش کروں گا، آپﷺ نے پھرمعلوم فرمایا کہ سنت میں اس کی صراحت نہ ملے تو کیا کروگے؟ دست بستہ عرض کیا کہ یارسول اللہ مقدور بھراجتہاد کروں گا، اپنے فرستادہ معاذؓ کے اس موفق جواب پر فرطِ مسرت میں آپﷺ نے ان کے سینہ پر دستِ شفقت رکھا اور حمدوثنا کے ساتھ ان کے طرزِ اجتہاد کی تصویب فرمائی۔ (ترمذی:1/247)

ابن حزم نے اس حدیث کے بارے میں بہت کچھ کہہ ڈالا ہے، مثلاً یہ حدیث حدِ احتجاج سے گری ہوئی ہے، مجہول اور بے نام رواۃ کے واسطہ سے منقول ہے؛ بلکہ قرائن خارجیہ اس کے موضوع ہونے پر دال ہیں؛ لیکن ابن حزم کے ان ہفوات کا علامہ ابن القیم الجوزیہ کی زبانی بس ایک ہی جواب ہے کہ اس حدیث کا دم بھرنے والے کوئی اور نہیں امیر المومنین فی الحدیث حضرت شعبۃ بن الحجاج ہیں، جن کے بارے میں محدثین کا یہ معروف تبصرہ ہے جس روایت کی سند شعبہ سے ہوکر گذرتی ہوتو اس حدیث کا صحیح ہونا ثابت بلادلیل ہے، استدلالی جواب یہ ہے کہ اصحاب معاذ کی جہالت صحت حدیث میں قادح نہیں کہ حضرت معاذؓ کے اصحاب اور ان کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے کوئی جھوٹے اور تہمت زدہ لوگ نہ تھے، اس لیے راوی حدیث حضرت حارث بن عمروکارجال سند کے ناموں کی تصریح نہ کرنا بجائے خود حدیث کی شہرت کی دلیل ہے کہ یہ روایت کوئی ایک دوافراد سے نہیں کہ ان کے ناموں کو گنایا جائے؛ پھرابوبکرخطیبؒ کے مطابق ایک سند میں راوی حدیث کی صراحت عبد الرحمن بن غنم کے نام سے بھی مذکور ہوئی ہے اس لیے جہالت کا حکم لگانا صحیح نہیں (اعلام الموقعین:1/194) جہاں تک حدیث مذکور کی موضوع ہونے پر پر پیش کردہ ابن حزم کے قرائن خارجیہ کا سوال ہے تو نہ وہ فی نفسہ اس قابل ہیں کہ ان کی طرف توجہ کی جائے اور نہ ہی صحت سند کے ساتھ روایت کے ثبوت نے ان کی جوابدہی کی کوئی گنجائش چھوڑی ہے، تفصیل جسے مقصود ہو وہ مقدمہ اعلاء السنن:2/157 کی طرف مراجعت کرے۔

اجماع سے قیاس کا ثبوتترمیم

ابن عقیل حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا قیاس سے حجت واستدلال کرنا تواتر معنوی کی حدتک پہنچ چکا ہے، ابن دقیق العیدکا کہنا ہے کہ جمہور امت کے نزدیک عمل بالقیاس ایک ایسی طئے شدہ حقیقت ہے کہ جوزمین کے ہرچپہ میں قرناً بعد قرن مشہور و معروف رہی ہے (ارشاد الفحول:303) مانعینِ زکوٰۃ سے قتال پر اجماع صحابہ ایک معروف بات ہے، احادیث کا ادنی درک رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ اس کی بنا تارکین صلاۃ سے قتال پر تھی، حضرت ابوبکرؓ کی خلافت وامامت کبریٰ پر صحابہؓ کا اجماع ،کیا امامت فی الصلاۃ پر مبنی نہیں تھا؟ انکار ہو تو کیا کتبِ احادیث کے اس ٹکڑے کو: "رَضِيَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَمْرِ دِينِنَا أَفَلَانَرْضَاهُ لِدُنْيَانًا"۔ (حجیۃ القیاس:66)

ترجمہ: جس شخصیت کا انتخاب رسول اللہ نے ہمارے دین ونماز کے لیے کیا ہے، ہماری دنیا ومعاش کی قیادت کے لیے اس سے موزوں اور کوئی ہو سکتا ہے؟۔

صحابہؓ کے حین حیات حضرت عمرؓ کی حکمت سے معمور بصیرت افروز نگارشات کیا حجیت قیاس کے لیے کافی نہیں، حضرت عمرؓ اپنے ایک مکتوب کے ذریعہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو مقدمات کے فیصلے کرنے کے اصول وطریقہ کار سے متعلق چند نہایت اہم ہدایات دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمھارے قلب میں جب کسی ایسے معاملہ کے متعلق کھٹک ہو جس کا کوئی حکم کتاب وسنت میں موجود نہ ہوتواس تردد واشکال کے وقت اپنے فکرونظر کو کام میں لاؤ اور واقعہ کی نوعیت کے سارے پہلوؤں کو اچھی طرح سمجھ کر بنظرِغائر جائزہ لوپھر ان کے اشباہ ونظائر کو تلاش کرو،اس کے بعد ان نظائر کوسامنے رکھ کر قیاس کرو اور اس بات کا پورا لحاظ رکھو کہ جوعنداللہ اقرب ہو اور زیادہ سے زیادہ جوحق کے مشابہ ہو اس پر تمھارا اعتماد قائم ہو سکے۔ (چراغِ راہ:265۔ اعلام الموقعین:1/92)

ہم اس بحث کو امام شافعی کے شاگردِ رشید اور ان کے دستِ راست امام مزنی رحمہ اللہ کے چند نہایت بلیغ و نادر کلمات پر ختم کرنا چاہتے ہیں وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ عہد نبوی سے لے کر ہمارے اس دور تک تمام فقہا نے زندگی کے ان سارے معاملات میں قیاس سے کام لیا جن کے لیے دینی احکام کے اثبات واظہار کی ضرورت پڑی اور اس مدت کے تمام علما کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ حق کی نظیر حق ہوتی ہے اور باطل کی نظیر باطل؛ لہٰذا کسی شحص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ قیاس کا انکار کرے؛ کیونکہ قیاس کا مآل ومفاد اس کے سوا کیا ہے کہ وہ ان امور میں کتاب وسنت کے مشابہ اور اس کے مثل ہے جن سے کتاب وسنت خاموش ہیں اور جب نظیر حق ہوتی ہے تو قیاس جو حق کی نظیر ہے وہ بھی حق ہوگا۔ (چراغِ راہ:268۔ اعلام الموقعین:1/197)

قیاس کے مثبتین و منکرین کے بارے میںترمیم

علامہ ابن عبد البر اپنی مایہ ناز کتاب "جامع بیان العلم" میں رقمطراز ہیں:جمہور امت اور تمام امصار کے علما کا مسلک یہی ہے کہ مسائل توحید اور عقائد میں قیاس کودخل نہیں ہے اور احکام میں قیاس سے چھٹکارا بھی نہیں ہے، اصحابِ ظواہر کے سرکردہ داؤد بن علی ظاہری کے علاوہ علامہ قاسانی ،علامہ نہروانی اور ظاہریہ کے امام ثانی فخراندلس ابن حزم اندلسی وغیرہ گروہ منکرین کے بڑے ہی نقادلوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ (ارشاد الفحول:298)

چنانچہ ابن حزم "الاحکام" میں لکھتے ہیں: "ذهب أهل الظاهر إلى إبطال القول بالقياس جملة، وهو قولنا الذي ندين الله به، والقول بالعلل باطل"۔ (ارشادالفحول،الفصل الثانی فی حجیۃ القیاس،مدخل2/94۔ احکام فی اصول الاحکام لابن حزم/:7/370،8/546)

یعنی اصحابِ ظواہر کا مذہب قیاس اور علل واسباب کے بطلان کا ہے، ہماری اپنی رائے بھی یہی ہے۔ سرخیل منکرین ابن حزم ظاہری کے انکارِ قیاس کے دلائل کا خلاصہ انکارِ قیاس کے بارے میں ابن حزمؒ کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ان کے دلائل کا پہلے خلاصہ پیش کر دیا جائے، تفصیل کا یہاں موقع نہیں، جسے وقت ہو وہ حضرت مولانا ظفراحمد عثمانی رحمہ اللہ کی "انہاء السکن الی من یطالع اعلاء السنن، جلد دوم" کا مطالعہ کرے یہاں سردست صرف ابوزہرہ کی ذکر کردہ تلخیص پیش کی جاتی ہے۔ ابنِ حزم کے انکارِ قیاس کی بنا اصولی اعتبار سے پانچ دلائل پر موقوف ہے:#احکام تمام ہی منصوص ہیں، فرق اتنا ہے کہ بعض کی تنصیص بالتخصیص ہوتی ہے کہ فلاں چیز فرض یامستحب ہے، فلاں حرام ہے یامکروہ ہے اور جن کی صراحت علی سبیل التخصیص نہ کی گئی ہو وہ امور نص قرآنی: "هُوَالَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَافِي الْأَرْضِ جَمِيعًا"۔ (البقرۃ:29)

ترجمہ:وہ ذات پاک ایسی ہے جس نے پیدا کیا تمھارے فائدہ کے لیے جو کچھ بھی زمین میں موجود ہے۔

یعنی بالفاظ اصولیین اشیاء میں اصل اباحت ہے، کے عموم میں داخل ہیں؛ لہٰذا قیاس کا کوئی معنی نہیں۔

  1. قیاس کی حجیت کا قائل ہونا، بالواسطہ شریعت کے کمال کے انکار اور نبی کریمﷺ پر فریضہ تبلیغ کی علی وجہ الکمال عدم ادائیگی کی تہمت کے مترادف ہے؛ اس لیے قیاس کو کیوں کرتسلیم کیا جا سکتا ہے۔
  2. تمام ہی اصولیین کے لیے اصل وفرع کے درمیان علت مشترکہ ضرورت کوقرار دیتے ہیں، سوال یہ ہے کہ آیا بیان کردہ علت مشترکہ منصوص ہے یاغیرمنصوص، منصوص ہوتو اثبات حکم کا تعلق براہِ راست نص سے ہوگا، قیاس سے نہیں اور اگرعلت مشترکہ شارع کی جانب سے غیر منصوص اور انسانی استنباط کردہ ہوتو اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ شریعت کی نظر میں علت مشترکہ کوئی چیز نہیں اور نہ اس کی کوئی وقعت ہے؛ اسی بنا پرتوشریعت نے علت مشترکہ کی رہنمائی ضروری نہیں سمجھی۔
(4) نبی کریمﷺ کی تعلیم غیر منصوص احکام کے متعلق یہ ہے:

"ذَرُونِى مَاتَرَكْتُكُمْ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلاَفِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَىْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَااسْتَطَعْتُمْ، وَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَىْءٍ فَدَعُوهُ"۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، كتاب الحج، باب وُجُوبِ الْحَجِّ مَرَّةً وَاحِدَةً، حدیث نمبر:8877)

ترجمہ: کہ چوں و چرا ٹھیک بات نہیں کہ اُممِ سابقہ کو یہی لعنت لے ڈوبی ہے؛ اس لیے جوچیز بیان کردی جائے اُسے لے لو اور جس سے روک دیا جائے اُس سے رُک جاؤ اور بس!۔

  1. ارشادِ باری تعالٰیٰ ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَاتُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ"۔ (الحجرات:1)

ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول سے تم سبقت مت کیا کرو ۔

"وَلَاتَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ"۔ (الاسرء:36)

ترجمہ:اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اُس پر عمل درآمد مت کیا کرو۔

"مَافَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ"۔ (الانعام:38)

ترجمہ:ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی۔

ان جیسی تہدید آمیز نصوص کے ہوتے ہوئے قیاس کی جرأت کوحماقت کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔

  • ابنِ حزم کے دلائل کا تنقیدی جائزہ

ابنِ حزم کے مذکورہ دلائل کا تجزیہ کیا جائے توبنیادی طور پر اس کے پیچھے دوہی نظریے کار فرمانظر آتے ہیں:

  1. نصوصِ قرآنی اور نصوص نبویﷺ تمام ہی احکام کو منتہی اور محیط ہے، ابن حزم کی دلیل اوّل، ثانی، رابع اور خامس میں اسی کی جھلک نظر آتی ہے، ان کا دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قیاس کوئی شریعت کی وضع کردہ اصل نہیں؛ بلکہ انسانی ذہنوں کی کارستانی ہے جوشریعت کی نصوصِ کاملہ پر زیادتی کوموجب ومستلزم ہے، تیسری دلیل اسی نظریہ کا شاخسانہ ہے۔

جہاں تک حضرت موصوف کے نظریۂ اوّل کی بات ہے تویہ مسلم ہے، جمہور بھی یہی کہتے ہیں کہ شریعت نے کسی جگہ تشنگی اوراحتیاج غیر کا خانہ نہیں چھوڑا ہے، نصوص وافر مقدار میں موجود ہیں، بات صرف اتنی سی ہے کہ اصحابِ ظواہر لکیر کے فقیر ہوتے ہیں اور جمہور مزاج شریعت کو سمجھتے ہوئے نص کی تہ تک پہنچتے ہیں اور مدلول میں توسیع کرتے ہیں، ان بزرگان کا کہنا ہے کہ شریعت کے احکام منصوص بھی ہوتے ہیں اور اُن مقاصد شرع کے تابع بھی ہوتے ہیں کہ شریعت، جن کی جملہ نصوص اور عام حالات میں رعایت رکھتی ہے؛ مثلاً قرآن کریم کا ایک حکم ہے کہ "شراب حرام ہے" مگراس حکم میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ ہروہ چیز جس کا ضرر غالب ہو، اس کا استعمال بھی حرام ہے کہ شریعت کے عمومی مزاج کا تقاضا یہی ہے، اس لیے درحقیقت قیاس کوئی الگ چیز نہیں؛ بلکہ اس کا قوام واعتماد نص ہی پر ہے اور اسی میں نص کی کارکردگی مضمر ہے، اس تقریر سے ابن حزم کی بنا ثانی بھی منہدم ہو گئی؛ کیونکہ جیسا کہ بتلایا گیا، قیاس کی حیثیت وحقیقت "اعمالاً للنص" کی ہے "زیادۃ علی النص" کی نہیں اور حق تو یہی ہے کہ تعلیل نصوص ایسی بدیہی المعرفت حقیقت ہے جس کے انکار کا انجام سوائے بچکانہ موشگافیوں کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ انکارِ قیاس کے بطلان پر ظواہر پرستوں کی جگہ یہ خبطگی کیاکچھ کم ہے؟ کہ آدمی کا پیشاب توناپاک ہے کہ اس کی نجاست منصوص ہے اور سور کا پیشاب پاک کہ نص میں اس کے حکم کی تصریح نہیں۔(اصول الفقہ لابی زہرۃ:177۔180)

آخر میں اس عنوان کوڈاکٹر مصطفی احمد زرقاء کی چشم کشاتحریر پر ختم کیا جاتا ہے کہ:

"یہ صحیح ہے کہ جونصوص عام ہوتی ہیں ان کے احاطہ میں بہت سی انواع واشکال ہوا کرتی ہیں؛ مگریہ صورت انسان کو قیاس سے مستغنیٰ نہیں کرسکتی، اس لیے کہ عام نص اپنے عموم کے دائرہ میں صرف انہی اکائیوں کو لیتی ہے او رلے سکتی ہے جو اس نص کے مفہوم میں داخل ہیں ؛لیکن نئے پیش آمدہ مسائل اور معاملات کے وہ انواع واقسام جواس نص کے مفہوم میں سرے سے شامل ہی نہ ہوں وہ اس نص کے عموم کے دامن میں کس طرح آسکتے ہیں، ایسی صورت میں یہ نصوص براہِ راست اپنے احکام کے دائرہ میں ان انواع واقسام کو لینے کی بجائے ان کے لیے صرف اشباہ ونظائر کا کام دے سکتی ہیں اوران کے لیے احکام کی قفل کشائی اسی قیاس کے ہاتھوں ہوتی ہے"۔

(چراغِ راہ:268)

منکرینِ قیاس بھی قیاس سے مستغنی نہیںترمیم

ابن حزم اور داؤد ظاہری وغیرہ اگرچہ بظاہر قیاس کا انکار کرتے ہیں مگردلچسپ بات یہ ہے کہ جدید حالات سے جب ان حضرات کو سابقہ پڑا تویہ منکرین بھی قیاس سے کام لینے پر مجبور ہوئے اور اس کو انھوں نے دلیل سے موسوم کیا؛ چنانچہ ابوالفداء فرماتے ہیں:داؤد شریعت میں قیاس کو مسترد کرتے تھے؛ مگراس کے بغیر کام نہ چلا اور جب خود قیاس کیا تو اس کا نام دلیل رکھا۔ (چراغِ راہ:260)

علامہ ظفر احمدعثمانی اپنی وقیع المرتب تصنیف کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ ابنِ حزم کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ مواقع قیاس پر کتاب وسنت کی عمومی نصوص استصحاب حال، اقل ماقیل فیہ یااجماع کی آڑلے کر اپنے کوقیاس سے مستغنی گرداننے کی سعی بے سود کرتے ہیں۔(مقدمہ اعلاء السنن:2/93)

قیاس کا استعمال کب؟ترمیم

علامہ بدرالدین زرکشیؒ لکھتے ہیں کہ قیاسِ شرعی اصول ِشرع کی ایک ایسی مہتم بالشان اصل ہے جس کے ذریعہ "غیر منصوص مسائل" کا حل تلاش کیا جاتا ہے (البحرالمحیط:5/16) امام شافعیؒ اپنی مشہور زمانہ تصنیف الرسالۃ میں رقمطراز ہیں جس مسئلہ کی بابت نص کا لازمی حکم موجود نہ ہو وہاں ہم قیاس واجتہاد کے ذریعہ اُسے معلوم کرتے ہیں اور بات تویہی ہے کہ ہم اُسی حق وصواب کی اتباع کے مکلف ہیں جوتحقیق واجتہاد کے بعد ہمارے نزدیک ثابت ہو جائے (الرسالۃ:474) خود حضرت امام ابوحنیفہؒ کا طریقہ اجتہاد یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اولاً میں قرآن کو لیتا ہوں؛ اگراس میں حکم ملے اگراس میں نہ ملے تورسول اللہﷺ کی سنت پر عمل کرتا ہوں اور ثقہ لوگوں کے ذریعہ سے جوصحیح حدیث نبوی ملے اُس کو لیتا ہوں؛ اگران میں باہم اختلاف ہوتو خود کسی ایک کو ترجیح دیتا ہوں؛ لیکن صحابہ اور غیر صحابہ میں اختلاف ہوتو صحابہ کے قول کوہرگز نہیں چھوڑتا، ہاں جب رائے ابراہیم اور شعبی اور حسن بصری اور ابنِ سیرین اور سعید بن المسیب وغیرہ وغیرہ کی ہوتو جس طرح ان کو اجتہاد کا حق ہے مجھے بھی ہونا چاہیے۔ (امام ابوحنیفہؒ کی تدوین قانون اسلامی، از ڈاکٹر حمیداللہ)

کس قدر عادلانہ اورحقیقت پسندانہ طرز اجتہاد ہے اور مخالفین ومعترضین سے کس قدر سادہ اور تشفی بخش تخاطب ہے؛ مگربرا ہوتعصب کا جس کے آگے نہ ہی حق بات کے اعتراف کی توفیق ہوتی ہے اور نہ ہی کسی مسلمان کی مسلمانیت کا احترام۔

قیاس صحیح و قیاس فاسدترمیم

اس کلیہ سے ہرگز اتفاق نہیں ہو سکتا کہ ہرقیاس غلط اور بے بنیاد ہوتا ہے، ہاں یہ سچ ہے کہ ہرقیاس سند اعتبار حاصل نہیں کر سکتا، اس لیے لامحالہ قیاس کو دوخانوں میں باٹنا ہوگا، ایک وہ جونص وشریعت کے مطابق اور صحابہ سے ماخوذ احکام شرعیہ کے موافق ہو ،قیاس صحیح اسی کانام ہے، دوسرا وہ جونص وشریعت کے معارض ہو ،قیاس فاسد اسی کو کہتے ہیں (شیخ الاسلام ابن تیمیہ، از سعد صادق محمد:98،99) اورامام غزالی کی فنی اور منطقی الفاظ میں اس کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے، حکم کے واسطے اگرعلت جامعہ فرع کو اصل سے الحاق کی متقاضی ہوتوقیاس صحیح ورنہ فاسد (المستصفی:2/228) غور کیا جائے تو مآل کے اعتبار سے دونوں تعبیر میں کوئی فرق نہیں ہے۔

علت کے اعتبار سے قیاس کی تقسیمترمیم

علامہ آمدی کہتے ہیں کہ جب علت کا مبنی قیاس و مناط حکم ہونا متحقق ہو چکا ہے تو اب اس میں نظر و اجتہاد تین طریقہ پر ہو سکتا ہے:#تحقیق مناط#تنقیح مناط#تخریج مناط۔ (الاحکام للامدی:3/435)

مناط دراصل متعلق کو کہا جاتا ہے،محاورہ ہے "نطت الحبل بالوتد" میں نے رسی کو کھونٹے سے باندھا اوراس سے متعلق کیا، علت بھی چوں کہ متعلق حکم ہوا کرتی ہے، اس لیے اُسے بھی مناط حکم کہا جاتا ہے (شرح الکوکب المنیر:4/199) اسی مناط کو دریافت کرنے کے تین طریقے ہیں۔ تحقیقِ مناط تحقیق مناط یہ ہے کہ حکم تواپنے مدرک شرعی کے ساتھ موجود ہوتا ہے؛ البتہ اس کے محل کی تعین باقی رہ جاتی ہے جیسے فرمانِ خداوندی ہے: "وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ"۔ (الطلاق:2)

ترجمہ:اور اپنے میں سے دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنالو جو عدل والے ہوں ۔

اب بنی آدم میں عادل بھی ہیں، فاسق بھی ہیں، نظرواجتہاد سے عادل وفاسق کی نشان دہی تحقیق مناط ہے (الموافقات للشاطبی:4/464،465) ایسے ہی شریعت کا یہ حکم کہ بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں کہ گھروں میں اس کی آمدورفت کثرت سے ہوتی رہتی ہے؛ اگراس کے باوجود اس کے جھوٹے کوناپاک قرار دے دیا جائے توحرج لازم آئے گا، اب کیا چوہا اور دیگرگھریلو جانور بھی اس زمرہ میں آتے ہیں؟ اس کی تحقیق، تحقیق مناط کہلاتی ہے اور قیاس میں تحقیق مناط کی بڑی ضرورت ہے؛ اسی لیے علامہ شاطبیؒ کہتے ہیں کہ قیاس واجتہاد کی اس قسم کا ارتفاع تسلیم کر لیا جائے تواحکام شرعی سارے کے سارے دھرے اور تصورِ ذہنی کی نذر ہوجائیں گے۔(الموافقات:4/467)

امام غزالی اور دیگرتمام اصولیین کا بھی یہی تجزیہ ہے؛ یہی وجہ ہے کہ منکرینِ قیاس کو بھی اس کی حجیت تسلیم ہے۔

تنقیح مناط

علامہ شاطبیؒ لکھتے ہیں کہ وصف معتبر کووصف ملغی سے ممتاز کرنا تنقیح مناط کہلاتا ہے۔ (الموافقات:4/467)

علامہ بدرالدین زرکشی نے بھی یہی تعبیر اختیار کی ہے (البحرالمحیط:5/255) حاصل اس کا یہ ہے کہ شریعت نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ حکم چند ایسے اوصاف میں گھرا ہوا ہے کہ جن میں سے ہروصف پر فی الجملہ علت حکم ہونے کا شبہ کیا جا سکتا ہو، تنقیح مناط یہ ہے کہ ان اوصاف میں سے وصف صالح کی تعیین کردی جائے، عموماً اس کی مثال میں یہ واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ زمانۂ رسالت میں ایک اعرابی نے ایامِ رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کرلی تھی جس کو آپﷺ نے کفارہ کا حکم دیا تھا؛ یہاں وصف صالح یعنی قصداً جماع کرنے کے علاوہ دیگر کئی غیر صالح اوصاف جمع ہیں، شخص مذکورہ کا اعرابی ہونا، خاص منکوحہ سے صحبت کرنا، معہود رمضان کا سال ودن ہونا وغیرہ وغیرہ ظاہر بات ہے کہ مکلف کا اعرابی ہونایامخصوص رمضان کا دن ہونا وغیرہ اوصاف کفارہ کی علت نہیں بن سکتے، تنقیح مناط پر پتہ چلا کہ علت کفارہ حالت روزہ میں عمداً صحبت کرنا ہے۔ (دیکھیے المستصفی:2/230۔ ونفائس الاصول:7/3230۔ والمسودۃ:50387۔ المستصفی:2/233)

تخریجِ مناط مناط کی جملہ اقسام میں تخریج مناط ہی معرکۃ الاراء سمجھی جاتی ہے، مثبتین اور منکرین کا اصل نزاع اس کی حجیت میں ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں صرف حکم اور محل حکم کی تشریح ہوتی ہے اور مناط حکم اور علت سے کسی طرح کا تعارض نہیں کیا جاتا ہے؛ بلکہ بتقاضائے حکمت مجتہدین وباحثین ہی کوتلاش علت کی ترغیب دی جاتی ہے؛ تاکہ ان کے اذہان کی تشحیذ ہو، انجماد کی کیفیت دور ہو اور فقہی کارواں اپنے منہج اصلی کے ساتھ رواں دواں رہے۔ (المستصفی:2/233)

تخریجِ مناط کی مثال اللہ تعالٰیٰ نے شراب کی تحریم اور اس سے اجتناب کے احکام تونازل فرمادیئے، مگرعلتِ حرمت کی تصریح نہیں کی، بحث وتمحیص کے بعد علت کا استخراج ہی تخریج مناط کہلاتا ہے؛ چنانچہ مجتہدین کی بڑی جماعت نے اجتہاد کے ذریعہ نشہ اورسکر کو تحریم خمر کی علت قرار دیا ہے، اس کلیہ سے شاید ہی کسی حقیقت پسند کوانکار ہوگا کہ بنیادی طور پر احکامِ خداوندی میں انسانوں کوجان ومال، عقل ونسب اور دین پانچ چیزوں کی بڑی ہی رعایت رکھی گئی ہے (فواتح الرحموت علی ھامش المستصفی:2/262) اس کا بقاء اسی میں ہے کہ قیاس واجتہاد کے ذریعہ اسباب وعلل کی تہ تک پہنچا جائے؛ ورنہ احکام کا اجرا بے معنی ہوکر رہ جائے گا اور یہ فاسد نتیجہ برآمد ہوگا کہ شراب پینا توحرام ہے کہ اس کی حرمت منصوص ہے بقیہ منشیات ومسکرات بلاجھجک استعمال کی جا سکتی ہیں کہ نص ان سے ساکت ہے۔ مناط کی تینوں اقسام پر سرسری نظر سے یہ بدیہی نتیجہ سامنے آئے گا کہ تحقیقِ مناط قسم اعلیٰ، تنقیح مناط اوسط اور تخریج مناط ادنی قسم ہے کہ اوّل میں علت متعین ہوتی ہے، ثانی میں تعیین کرنی پڑتی ہے اور ثالث میں تخریج کرنی پڑتی ہے، جس میں خطا کا بھی احتمال ہے۔



on April 13, 2024 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

Friday, 12 April 2024

قرأت میں کن غلطیوں سے نماز فاسد ہوتی ہے

 الفاظ کے تلفظ کی مطلق کمی یا معنی کی مطلق تبدیلی سے نماز فاسد نہیں ہوتی، اگر قرآن کی تلاوت میں اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، یعنی: ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے اور غلط پڑھی گئی آیت یا جملے اور صحیح الفاظ کے درمیان وقفِ تام بھی نہ ہو (کہ مضمون کے انقطاع کی وجہ سے نماز کے فساد سے بچاجاسکے) اور نماز میں اس غلطی کی اصلاح بھی نہ کی جائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

قرأت کی غلطی کی وجہ سے نماز کے فساد وعدمِ فساد کے حوالے سے یہ تو اصولی ضابطہ کا بیان ہوا، باقی قرأت میں اگر کوئی غلطی پیش آئی ہے تو وہ الفاظ لکھ کر دوبارہ سوال کرلیجیے۔

واضح رہے کہ اگر تلفظ (حرکات وسکنات یامخارج وصفات) کی تبدیلی یا الفاظ کی کمی بیشی کی وجہ سے معنیٰ تبدیل نہ ہو یا معنیٰ تو تبدیل ہو لیکن تغیر فاحش نہ ہو  تو  اگرچہ اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن درست تلاوت پر قدرت ہوتے ہوئے اور علم ہوتے ہوئے ایسی غلطی کی تو  کراہت ضرور ہوگی، اور تلاوت کے اجر میں کمی ہوگی؛ لہٰذا  اگر نماز میں ایسی غلطی کا احساس ہوجائے تو اس آیت یا ان الفاظ کی نماز میں ہی تصحیح کرنی چاہیے، اور ہر مسلمان کو چاہیے کہ صحت وتجوید کے ساتھ قرآنِ پاک کی تلاوت کا اہتمام کرے۔ اور اگر کسی کی تجوید یا ادائیگی صحیح نہ ہو تو وہ کسی مجود قاری سے تجوید  و صحتِ ادائیگی کی مشق کرے۔

"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین". (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)

"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"وفي المضمرات: قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة". (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،۱: ۲۶۷ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)

"ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، 

on April 12, 2024 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

جھینگا کھانے کا حکم

 فقہائے احناف کے یہاں آبی حیوانوں میں صرف مچھلی حلال ہے۔ اس کے علاوہ کسی جانور کا کھانا حلال نہیں ولا یحل حیوان مائي إلا السمک غیر الطافي (الشامي، ط:زکریا: ج۹ ص445) کیکڑا چوں کہ مچھلی سے خارج ہے اس لیے احناف کے نزدیک اس کا کھانا حرام ہے۔ البتہ ?جھینگے? کے سلسلے میں اختلاف ہے او راختلاف کا مدار اس بات پر ہے کہ آیا یہ مچھلی ہے یا نہیں؟ ہمارے اکابر میں مولانا رشید احمد گنگوہی -رحمہ اللہ- اور مولانا خلیل احمد -رحمہ اللہ- سہارنپوری نے جھینگے کو کیڑا شمار کیا ہے اور اس کے کھانے کو ممنوع قرار دیا ہے۔ جب کہ حضرت تھانوی-رحمہ اللہ- نے اسے مچھلی میں شمار کیا ہے اوراس کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ دلیل میں مشہور ماہر حیوان علامہ دمیری کا قول پیش کیا ہے الروبیان ھو سمک صغیر جدًا (جھینگا بہت چھوٹی مچھلی ہے)۔ اس قول کی تائید عربی زبان کے مشہور اہل لغات ?ابن درید?، ?فیروزآبادی?، ?زبیدی? وغیرہ کے کلام سے ہوتی ہے قال ابن درید في جمھرة اللغة (3/414) ?وأربیان نوع من السمک? وأقرہ في القاموس وتاج العروس (1/146) ان تصریحات کی وجہ سے علماء نے جواز ہی کے قول کو راجح قرار دیا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص جواز کے قول پر عمل کرتے ہوئے کھائے توگنجائش ہے البتہ کھانے سے اجتناب زیادہ مناسب اور زیادہ اولیٰ واحوط ہے۔

on April 12, 2024 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

کیکڑے کھانے کا حکم

 احناف کے یہاں سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کھانا حلال ہے۔ کیکڑا چوں کہ مچھلی کی کسی قسم میں شامل نہیں، بلکہ    کیکڑے کا شمار ہ دریائی کیڑوں میں ہوتا ہے،اس لیے  کیکڑا کھانا مکروہِ تحریمی ہے، قرآنِ حکیم میں جہاں اللہ تعالیٰ نے سمندری مخلوق کا ذکر فرمایا ہے وہ آیت یہ ہے: 

أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ[المائدۃ، 96]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سمندر کے شکار کو کھانے کی اجازت دی ہے، لیکن احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اس آیت میں شکار سے مراد صرف مچھلی ہے، لہذا  کیکڑے کے حلال ہونے کے لیے اس آیت کو پیش کرنا  درست نہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 35):
{ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157] والضفدع والسرطان والحية ونحوها من الخبائث

on April 12, 2024 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

Wednesday, 10 April 2024

عیدین کاطریقہ

 عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کا طریقہ ایک ہی ہے۔عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں، جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز  چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کرے، اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور ثناء پڑھے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے، اس کے بعد امام اونچی آواز میں قراءت کرے، قراءت مکمل ہونے کے بعد بقیہ رکعت (رکوع اور سجدہ  وغیرہ) دیگر  نمازوں کی طرح ادا کرے۔

پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام اونچی آواز میں قراءت کرے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام  دو  خطبے دے، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھے۔ 

on April 10, 2024 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

سنن نوافل کہاں پڑھنا افضل ہے مسجد یاگھر

 کتبِ فقہ میں لکھا ہےکہ سنتیں ادا کرنے میں بہتر اور افضل یہ ہے کہ آدمی کو جہاں زیادہ خشوع اور خضوع نصیب ہو سکے اور جو زیادہ اخلاص کا سبب ہو وہاں سنتیں ادا کرے، خواہ مسجد میں یا گھر میں۔

تاہم گھر کو بالکل ویران نہیں رکھنا چاہیے، کچھ نہ کچھ نوافل گھر میں ادا کرتے رہنا چاہیے، احادیثِ مبارکہ سے اس کی ترغیب معلوم ہوتی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 22):
"والأفضل في النفل غير التراويح المنزل، إلا لخوف شغل عنها، والأصح أفضلية ما كان أخشع وأخلص".

العناية شرح الهداية (1/ 441):
"وقال الحلواني: الأفضل في السنن أداؤها في المنزل إلا التراويح؛ لأن فيها إجماع الصحابة.
وقيل: الصحيح أن الكل سواء، ولاتختص الفضيلة بوجه دون وجه، ولكن الأفضل ما يكون أبعد من الرياء وأجمع للإخلاص، ثم ما ذكر في الكتاب واضح

on April 10, 2024 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

سنت نوافل گھر میں پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں

 حضرت اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سنن ونوافل گھروں میں پڑھنے کی ترغیب فرمائی ہے اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عام طور پر سنن ونوافل گھر ہی میں ادا فرماتے تھے اور فقہائے کرام نے بھی فرمایا: تراویح، تحیة المسجد ودیگر بعض نوافل کے علاوہ عام نوافل اورپنجوقتہ نمازوں کی سنن ونوافل گھر پر پڑھنا افضل ہے؛ البتہ فقہاء نے یہ بھی فرمایا: اگر گھر پہنچ کر سنتیں چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو یا گھر میں خشوع وخضوع کم ہو تو ایسی صورت میں پنج وقتہ نمازوں کی سنن ونوافل مسجد ہی میں پڑھنا افضل ہوگا؛ کیوں کہ خشوع وخضوع اور اخلاص کی رعایت زیادہ اہم ہے۔ اور اب جب کہ غیر مقلدین سنن موٴکدہ کو مانتے ہی نہیں اور نہ ہی ان کا اہتمام کرتے ہیں؛ بلکہ سلام پھیر کر دعا مانگے بغیر اٹھ کر چلے جاتے ہیں؛ اس لیے ان کی ظاہری مشابہت اور تائید وغیرہ سے بچنے کے لیے ہمارے اکابر نے فرمایا: سنن موٴکدہ مسجد ہی میں پڑھنا افضل ہے۔

چناں چہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا:فی نفسہ افضل یہ ہے کہ سنن موٴکدہ گھر میں پڑھی جائیں، لیکن ایک امر عارض کی وجہ سے اب افضل یہ ہے کہ سنن موٴکدہ مسجد ہی میں پڑھی جائیں؛کیوں کہ ایک جماعت سنن موٴکدہ کی منکر پیدا ہوگئی ہے؛اس لیے گھر میں سنتیں پڑھنے سے لوگوں کو ترک سنن کا شبہ ہوگا (ملفوظات حکیم الامت، ۸: ۲۲۷، ملفوظ نمبر: ۲۵۰، مطبوعہ: ادارہ تالیفات اشرفیہ ، ملتان)۔

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اجعلوا في بیوتکم من صلا تکم ولا تتخذوہا قبوراً، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، کتاب الصلاة، باب المساجد ومواضع الصلاة، الفصل الأول، ص: ۶۹، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، قولہ: ”من صلا تکم“ قال القرطبي: من للتبعیض، والمراد النوافل بدلیل ما رواہ مسلم من حدیث جابر مرفوعاً إذا قضی أحدکم الصلاة في مسجدہ فلیجعل لبیتہ نصیباً من صلا تہ (فتح الباري،کتاب الصلاة، باب کراہیة الصلاة في المقابر، ۱:۶۸۵، تحت رقم الحدیث: ۴۳۲، ط: دادار السلام الریاض)، والأفضل فی النفل غیر التراویح المنزل إلا لخوف شغل عنھا، والأصح أفضلیة ما کان أخشع وأخلص (الدر المحتار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲: ۴۶۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”والأفضل في النفل“ شمل مابعد الفریضة، وما قبلہا لحدیث الصحیحین: ”علیکم بالصلاة في بیوتکم؛ فإن خیر صلاة المرء في بیتہ إلا المکتوبة“ وأخرج أبو داود ”صلاة المرء في بیتہ أفضل من صلاتہ في مسجدي ھذا إلا المکتوبة“، وتمامہ في شرح المنیة، وحیث کان ہذا أفضل یراعی ما لم یلزم منہ خوف شغل عنہا لو ذہب لبیتہ، أو کان في بیتہ مایشغل بالہ ویقلل خشوعہ فیصلیہا حینئذٍ في المسجد؛ لأن أعتبار الخشوع أرجح( رد المحتار)۔

on April 10, 2024 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

تراویح کی شرعی حیثیت

 تراویح  کی نماز مردوں اور عورتوں دونوں کے لیےسنت موکدہ ہے،بلا عذر اس کو چھوڑنے والا نافرمان اور گناہ گار ہے۔خلفاء راشدین،صحابہ کرام،تابعین،تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین سے پابندی سے تراویح پڑھنا ثابت ہے،  اور مردوں کے لیے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا سنت کفایہ ہے، یعنی اگر محلہ کے چند افراد اس سنت کو جماعت کے ساتھ ادا کرلیں تو  سب کا ذمہ فارغ، ورنہ سب گناہ گار ہوں گے، جو مرد انفرادی تراویح پڑھے گا تو اس کی تراویح کی سنت تو ادا ہوجائے گی، لیکن جماعت کے ثواب سے  محروم ہے گا،اور عورتوں  کے لیے جماعت  سنتِ مؤکدہ  کفایہ نہیں ہے، بلکہ عورتوں کے لیے گھر میں تنہا  پڑھنے میں زیادہ ثواب ہے۔

''فتاوی شامی'' میں ہے:
''(والجماعة فيها سنة على الكفاية) في الأصح، فلو تركها أهل مسجد أثموا إلا لو ترك بعضهم''۔

(قوله: والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا؛ أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد، وهكذا في المكتوبات، كما في المنية، وهل المراد أنها سنة كفاية لأهل كل مسجد من البلدة أو مسجد واحد منها أو من المحلة؟ ظاهر كلام الشارح الأول. واستظهر ط الثاني. ويظهر لي الثالث، لقول المنية: حتى لو ترك أهل محلة كلهم الجماعة فقد تركوا السنة وأساءوا. اهـ. (2/ 45، باب الوتر والنوافل، ط: سعید

on April 10, 2024 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

جمعہ کے دن وفات کی فضیلت

 حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ جو مومن رمضان میں یا جمعہ کے دن وفات پائے اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے، محدثین کے درمیان یہ اختلاف ہے ہ ہمیشہ کے لیے قبر کا عذاب اس سے اٹھالیا جاتا ہے یا صرف رمضان تک یا صرف جمعہ کو۔ کچھ حضرات اسی دوسرے قول کو لیتے ہیں کہ صرف رمضان یا صرف جمعہ کو قبر کا عذاب اٹھایا جاتا ہے اور کچھ محدثین پہلے قول کو لیتے ہیں کہ ہمیشہ کے لیے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔ اللہ کی بے پناہ رحمتوں سے یہی امید رکھنی چاہیے کہ ہمیشہ کے لیے اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔ اسی حدیث کی وجہ سے رمضان یا جمعہ کے دن وفات پانے والے کو مبارک کہا جاتا ہے

مصنف ابن عبدالرزاق میں ہے:

"عن ابن شهاب، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من مات ليلة الجمعة، أو يوم الجمعة، برئ من فتنة القبر، أو قال: وقي فتنة القبر، وكتب شهيدا".

 عن عبد الله بن عمر وعن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "برئ من فتنة القبر."

(كتاب الجمعة، باب من مات يوم الجمعة، ج:3، ص:550، ط:دارالتاصيل)

قوت المغتدی علی جامع الترمذی للسیوطی میں ہے:

"ما من مسلم يموت يوم الجمعة، أو ليلة الجمعة إلا وقاه الله فتنة القبر".

قال الحكيم الترمذي في نوادر الأصول: " من مات يوم الجمعة فقد انكشف الغطاء عن أعماله عند الله؛ لأن يوم الجمعة لا تسجر فيه جهنم، وتغلق أبوابها، ولا يعمل سلطان النار ما يعمل في سائر الأيام، فإذا قبض الله عبدا من عبيده فوافق قبضه يوم الجمعة كان ذلك دليلا لسعادته، وحسن مآبه، وأنه لم يقبض في هذا اليوم العظيم إلا من كتب الله له السعادة عنده، فلذلك يقيه فتنة القبر لأن سببها إنما هو تمييز المنافق من المؤمن انتهى".قلت: ومن تتمة ذلك: أن من مات يوم الجمعة، أو ليلة الجمعة له أجر شهيد كما وردت به أحاديث، والشهيد، ورد النص بأنه لا يسأل، فكأن الميت يوم الجمعة، أو ليلتها على منواله."

(ابواب الجنائز، ج:1، ص:324، ط:جامعة ام القرى)

وليعلم أن أهل العلم اختلفوا في صحة هذا الحديث أصلا؛ فمنهم من ضعفه للانقطاع في إسناده، وقالوا ربيعة بن سيف لم يسمع من عبد الله بن عمرو، كما أنه والراوي هشام بن سعد ضعيفان.

وممن ضعفه الترمذي حيث قال بعد روايته للحديث: وهذا حديث ليس إسناده بمتصل. اهـ

وضعفه أحمد شاكر، وشعيب الأرناؤوط، وقبلهما الحافظ ابن حجر في فتح الباري، وكذا ضعفه الشيخ ابن باز -رحمه الله تعالى-، فقد سئل: هل من يموت يوم الجمعة يجار من عذاب القبر؟ وهل الجزاء ينطبق على يوم الوفاة، أم على يوم الدفن؟ أفتونا مأجورين. فأجاب بقوله:
الأحاديث في هذا ضعيفة، الأحاديث في موت يوم الجمعة، وأن من مات يوم الجمعة دخل الجنة، ووقي النار كلها ضعيفة غير صحيحة، من مات على الخير والاستقامة دخل الجنة في يوم الجمعة، وغير يوم الجمعة ... وإن مات على الشرك بالله فهو من أهل النار في أي يوم، وفي أي مكان، نسأل الله العافية، وإن مات على المعاصي فهو على خطر تحت مشيئة الله، لكنه في الجنة إذا كان موحدا مسلما منتهاه الجنة، لكن قد يعذب بعض العذاب عن المعاصي التي مات عليها غير تائب.. اهــ.
ومن أهل العلم من حسن الحديث بمجموع طرقه كالشيخ الألباني.

on April 10, 2024 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

گھرکی حفاظت کے لئے کتا پالنا

 احادیث میں کتا پالنے کی سخت ممانعت آئی ہے، جہاں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے ۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ  بلا ضرورت کتا پالنے والے کے اعمال  میں سے روزانہ ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے۔ لہذا کتوں کو گھر میں رکھنا  خیر  و برکت سے محرومی کا باعث ہے؛ اس لیے کتوں کے پالنے سے اجتناب بہت ضروری ہے، البتہ ضرورت کے لیے( جیسا کہ حفاظت اور شکار وغیرہ  کے لیے) کتا پالنے کی شرعاً اجازت ہے۔

لہذا اگر واقعۃً  چوروں یا کسی اور کا دیوار پھلانگ کرآنے کا اس قدر خوف ہے اور ان کے دفع کرنے کے لیے کوئی اور  ذریعہ ، علاج نہیں ہے تو ایسی مجبوری کی صورت میں بغرض حفاظت    کتا پالنے کی  گنجائش ہے، ورنہ نہیں، البتہ یہ بات درست نہیں ہے کہ  کتا اگر گھر کے صحن یا چھت پر ہو تو  گھر میں شمار نہیں ہوتا، لہذا کتے کو گھر سے باہر رکھا جائے۔

حدیث مبارک میں ہے:

"عن أبي طلحة رضي الله عنهم،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا ‌تدخل ‌الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة."

ترجمہ: ’’رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو یا کتا۔‘‘

(البخاري، كتاب بدء الخلق، باب  إذا وقع الذباب في شراب أحدكم فليغمسه، ج:3، ص:1206، رقم:3144، ط:دار ابن كثير)

 ایک اور حدیثِ پاک میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من ‌اتخذ ‌كلبا إلا كلب ماشية، أو صيد، أو زرع، انتقص من أجره كل يوم قيراط."

ترجمہ: ’’جس شخص نے جانور اور کھیتی وغیرہ کی حفاظت یا شکار کے علاوہ کسی اور مقصد سے کتا پالا، اس کے ثواب میں ہرروز ایک قیراط کم ہوگا۔‘‘

(الترمذي، ‌‌باب ما جاء من أمسك كلبا ما ينقص من أجره، ج:4، ص:80، رقم:1490، طمكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي الأجناس ‌لا ‌ينبغي ‌أن ‌يتخذ كلبا إلا أن يخاف من اللصوص أو غيرهم وكذا الأسد والفهد والضبع وجميع السباع وهذا قياس قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - كذا في الخلاصة...ويجب أن يعلم بأن اقتناء الكلب لأجل الحرس جائز شرعا وكذلك اقتناؤه للاصطياد مباح وكذلك اقتناؤه لحفظ الزرع والماشية جائز كذا في الذخيرة."

(كتاب الكراهية، الباب الحادي والعشرون فيما يسع من جراحات بني آدم والحيوانات، ج:5، ص:361، ط:دار الفكر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"والانتفاع بالكلب للحراسة ‌والاصطياد ‌جائز إجماعا لكن لا ينبغي أن يتخذ في داره إلا إن خاف اللصوص أو عدوا وفي الحديث الصحيح "من اقتنى كلبا إلا كلب صيد أو ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان."

 (كتاب البيع، باب المتفرقات، ج:6، ص:188، ط:دارالفكر

on April 10, 2024 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

Tuesday, 9 April 2024

عذرکی بناپر بیٹھ کر تراویح پڑھنا

 عذر کی بنا پر تراویح کی کچھ رکعات کھڑے ہوکر اور کچھ رکعات بیٹھ کر پڑھنا درست ہے، بلاعذر بیٹھ کر تراویح کی نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار (2 / 48) ط: سعيد

'' ( وتكره قاعداً )؛ لزيادة تأكدها، حتى قيل: لا تصح ( مع القدرة على القيام )، كما يكره تأخير القيام إلى ركوع الإمام للتشبه بالمنافقين''۔

و في الرد: '' (قوله: وتكره قاعداً ) أي تنزيها لما في الحلية وغيرها من أنهم اتفقوا على أنه لا يستحب ذلك بلا عذر؛ لأنه خلاف المتوارث عن السلف

on April 09, 2024 No comments:
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest
Newer Posts Older Posts Home
Subscribe to: Comments (Atom)

About me

Dr.Mufti Mohd Amir samdani
Aligarh, U.P., India
Dr.Mufti Mohammad Amir Samdani or Amirus samdani محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبد الصمد المعروف بصمدخان born in a town named Singar district Gurgaon Haryana in 3 August 1971.Studied in Deoband and Aligarh Muslim University Aligarh U.P India. Interested Subjects ( Arabic, Theology, Islamic jurisprudence. Did M.A.in Arabic, M.Th.and Ph.D.(2002) Research Topic: Contribution of East Punjab to Arabic language and literature. A critical study up-to 1947. Other books are as under: Biographies of Islamic scholars in Bosnia and Herzegovina (1999). Urdu name Tazkira Ulamai Bosnia wa Herzegovina. Kamilan-e-Thanaiser.(2003)
View my complete profile

Blog Archive

Labels

  • Contribution of Muslims in science and innovation
  • Muhibbullah Allahabadi
  • rafa ydain

Report Abuse

Popular Posts

  • Salatul_Istikharah نماز إستخاره
    When a person wishes to carry out some important work,guidance should be sought from Allah.The Prophet peace be upon him has mentioned that...
  • قرآن مجید کی مکی اور مدنی سورتیں
    :درج ذیل بیس سورتیں بالاتفاق مدنی ہیں البقره،آل عمران،النساء،المائده،الأنفال،التوبه،النور،الأحزاب،محمد،الفتح الحجرات،الحديد،المجادله،الح...
  • جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خریدوفروخت
      جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید و فروخت چھوڑنا واجب ہے اور خرید و فروخت میں لگنا حرام ہے اور اس وقت کیاگیا سودا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے۔ ا...

Amir Samdani

Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان

No CAA,No NRC,NPR

رسالۃ

زمانہ مانے نہ مانے لیکن ہمیں یہی ہے یقین کامل
جہاں اٹھاکوئی تازہ فتنہ اٹھاتری رہگذرسے پہلے

Amir Samdani

Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان

Wikipedia

Search results

Translate

Powered By Blogger
  • Home

الرسالة

لاضررولاضرارفي الإسلام.والذين إذاأصابهم البغي هم ينتصرون
(تحت أوضاع الهند)

Wikipedia

Search results

Phone:9897171820

  • Home

Qutations

بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں پیدا نہیں ساقی وہاں بے ذوق ہے صہباء
حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کرنہ دے برپا
ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیاکم ہے
گرفتہ چینیاں احرام ومکی خفتہ دربطحا

A/c:85112010045236(Syndicate Bank,AMU Aligarh,UP,India)

  • Home

Translate

Powered By Blogger

خیرمقدم

  • Home

نہ اٹھا پھرکوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے

  • Home

Amir Samdani

Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

Follow me by email :

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments
Powered By Blogger

Follow me by email :

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments
  • Home

Search This Blog

Dr.Mufti Mohd Amir Samdani

Dr.Mufti Mohd Amir Samdani

محتويات

شیخ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ
The Impact of Islam on Indian culture.
Last Address of the Prophet(PBUH)in Arafat
Nuniatih Abil Fatah Al_Busti
Qunut Nazilah
Salatul Istikharh
انسان کے اپنی ذات سے متعلق آداب
آداب نکاح
آداب جمعہ
The Life of the Prophet(PBUH)in short.
Text of Hudaibiyah treaty.
منصور حلاج
قصیدۂ فرزدق,حضرت زین العابدین کی مدح میں
Biography of Hazrat Umar Bin Abdul Aziz.
An important Du'aa of the Prophet(PBUH)
Martyrdom of Hanzala Amir.
Slavery and Islam.
Mercy on animals.
Voice of Indian people.
Munsif Gogoi.
حضرت سفیان ثوری اور ہارون رشید کے مابین مراسلت
تنگدستی سے بچنے کا عمل
(غموں کا سال(منظوم
فتح بن خاقان کی ذہانت
سیدناحسن بن علی رضی اللہ عنہما کاخطبۂ صلح
اللہ کی ہر تخلیق سودمند ہے
امام ابو حنیفہ کے اخلاق
موضوع حدیث کی شناخت اصول نقدودرایت کی روشنی میں
قرآن مجید کی مکی اور مدنی سورتیں
نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑوں کے نام
حضرت ذوالنون مصری کا واقعہ
تین قسم کے جھوٹ جو جائز ہیں
قید سے رہایئ کی دعاء

كنتم خيرأمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنكر و تؤمنون بالله

  • Home

تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

  • Home
Powered By Blogger

لگتاہے اس مقام سے گذرے ہیں کتنے کارواں

  • Home

Translate

Powered By Blogger
Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments
Powered By Blogger

Pages

  • Home
Powered By Blogger

Wikipedia

Search results

مضامین تلاش کریں

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments

Followers

Total Pageviews

Discussion

Contact Form کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے

Name

Email *

Message *

Contact Form

Name

Email *

Message *

Search This Blog

Amir Samdani

Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان

عناوين

  • Amir Samdani
    حرمتِ مصاہرت کے بعد شوہر کی طرف سے تفریق یاقضاء قاضی شرط ہے

Beloved Followers

Blog Archive

  • 10/05 - 10/12 (2)
  • 09/21 - 09/28 (1)
  • 09/14 - 09/21 (2)
  • 08/31 - 09/07 (2)
  • 08/24 - 08/31 (1)
  • 08/17 - 08/24 (1)
  • 08/03 - 08/10 (3)
  • 07/06 - 07/13 (2)
  • 06/22 - 06/29 (1)
  • 06/15 - 06/22 (4)
  • 06/08 - 06/15 (2)
  • 06/01 - 06/08 (7)
  • 05/25 - 06/01 (10)
  • 05/18 - 05/25 (2)
  • 05/11 - 05/18 (4)
  • 05/04 - 05/11 (7)
  • 04/27 - 05/04 (2)
  • 04/20 - 04/27 (4)
  • 03/30 - 04/06 (5)
  • 03/23 - 03/30 (2)
  • 03/16 - 03/23 (4)
  • 03/09 - 03/16 (2)
  • 02/23 - 03/02 (1)
  • 02/16 - 02/23 (15)
  • 02/09 - 02/16 (8)
  • 02/02 - 02/09 (14)
  • 01/26 - 02/02 (6)
  • 01/19 - 01/26 (2)
  • 01/12 - 01/19 (11)
  • 01/05 - 01/12 (1)
  • 12/29 - 01/05 (3)
  • 12/22 - 12/29 (3)
  • 12/15 - 12/22 (6)
  • 12/08 - 12/15 (1)
  • 12/01 - 12/08 (1)
  • 11/24 - 12/01 (3)
  • 11/17 - 11/24 (3)
  • 11/10 - 11/17 (2)
  • 11/03 - 11/10 (1)
  • 10/27 - 11/03 (2)
  • 10/20 - 10/27 (1)
  • 10/13 - 10/20 (3)
  • 09/29 - 10/06 (3)
  • 09/22 - 09/29 (2)
  • 09/15 - 09/22 (3)
  • 09/08 - 09/15 (2)
  • 09/01 - 09/08 (1)
  • 08/25 - 09/01 (23)
  • 08/18 - 08/25 (16)
  • 08/11 - 08/18 (3)
  • 08/04 - 08/11 (24)
  • 07/28 - 08/04 (106)
  • 07/21 - 07/28 (56)
  • 07/14 - 07/21 (44)
  • 07/07 - 07/14 (27)
  • 06/30 - 07/07 (36)
  • 06/23 - 06/30 (12)
  • 06/16 - 06/23 (20)
  • 06/09 - 06/16 (25)
  • 06/02 - 06/09 (10)
  • 05/26 - 06/02 (3)
  • 05/19 - 05/26 (4)
  • 05/12 - 05/19 (6)
  • 05/05 - 05/12 (19)
  • 04/28 - 05/05 (5)
  • 04/21 - 04/28 (13)
  • 04/14 - 04/21 (31)
  • 04/07 - 04/14 (17)
  • 03/31 - 04/07 (4)
  • 03/24 - 03/31 (5)
  • 03/17 - 03/24 (3)
  • 03/10 - 03/17 (8)
  • 03/03 - 03/10 (21)
  • 02/25 - 03/03 (16)
  • 02/18 - 02/25 (6)
  • 02/11 - 02/18 (12)
  • 02/04 - 02/11 (3)
  • 01/28 - 02/04 (8)
  • 01/21 - 01/28 (4)
  • 01/14 - 01/21 (3)
  • 01/07 - 01/14 (15)
  • 12/31 - 01/07 (21)
  • 12/24 - 12/31 (8)
  • 12/17 - 12/24 (4)
  • 12/10 - 12/17 (4)
  • 12/03 - 12/10 (11)
  • 11/26 - 12/03 (8)
  • 11/19 - 11/26 (10)
  • 11/12 - 11/19 (1)
  • 11/05 - 11/12 (3)
  • 10/29 - 11/05 (6)
  • 10/22 - 10/29 (9)
  • 10/15 - 10/22 (104)
  • 10/08 - 10/15 (15)
  • 10/01 - 10/08 (5)
  • 09/24 - 10/01 (5)
  • 09/17 - 09/24 (9)
  • 09/10 - 09/17 (4)
  • 09/03 - 09/10 (3)
  • 08/27 - 09/03 (1)
  • 08/20 - 08/27 (4)
  • 07/23 - 07/30 (1)
  • 07/09 - 07/16 (1)
  • 07/02 - 07/09 (2)
  • 06/25 - 07/02 (9)
  • 06/18 - 06/25 (6)
  • 06/11 - 06/18 (7)
  • 06/04 - 06/11 (5)
  • 05/28 - 06/04 (3)
  • 05/21 - 05/28 (5)
  • 05/07 - 05/14 (4)
  • 04/30 - 05/07 (1)
  • 04/23 - 04/30 (6)
  • 04/16 - 04/23 (4)
  • 04/09 - 04/16 (3)
  • 04/02 - 04/09 (1)
  • 03/19 - 03/26 (1)
  • 03/12 - 03/19 (2)
  • 03/05 - 03/12 (1)
  • 02/26 - 03/05 (4)
  • 02/19 - 02/26 (3)
  • 02/05 - 02/12 (1)
  • 01/29 - 02/05 (6)
  • 01/22 - 01/29 (3)
  • 01/15 - 01/22 (6)
  • 01/08 - 01/15 (3)
  • 01/01 - 01/08 (2)
  • 12/25 - 01/01 (2)
  • 12/18 - 12/25 (5)
  • 12/11 - 12/18 (1)
  • 12/04 - 12/11 (3)
  • 11/27 - 12/04 (1)
  • 11/20 - 11/27 (2)
  • 11/13 - 11/20 (3)
  • 11/06 - 11/13 (8)
  • 10/30 - 11/06 (3)
  • 10/23 - 10/30 (8)
  • 10/16 - 10/23 (3)
  • 09/25 - 10/02 (4)
  • 09/18 - 09/25 (2)
  • 09/11 - 09/18 (11)
  • 09/04 - 09/11 (1)
  • 08/28 - 09/04 (1)
  • 08/21 - 08/28 (6)
  • 08/14 - 08/21 (14)
  • 08/07 - 08/14 (2)
  • 07/31 - 08/07 (2)
  • 07/24 - 07/31 (2)
  • 07/17 - 07/24 (1)
  • 07/10 - 07/17 (4)
  • 07/03 - 07/10 (3)
  • 06/26 - 07/03 (3)
  • 06/12 - 06/19 (2)
  • 06/05 - 06/12 (4)
  • 05/29 - 06/05 (2)
  • 05/22 - 05/29 (3)
  • 05/15 - 05/22 (3)
  • 05/08 - 05/15 (5)
  • 05/01 - 05/08 (5)
  • 04/24 - 05/01 (4)
  • 04/17 - 04/24 (5)
  • 04/03 - 04/10 (3)
  • 03/27 - 04/03 (4)
  • 03/20 - 03/27 (6)
  • 03/13 - 03/20 (3)
  • 03/06 - 03/13 (2)
  • 02/27 - 03/06 (4)
  • 02/20 - 02/27 (5)
  • 02/13 - 02/20 (5)
  • 02/06 - 02/13 (4)
  • 01/30 - 02/06 (7)
  • 01/23 - 01/30 (6)
  • 01/16 - 01/23 (1)
  • 01/09 - 01/16 (12)
  • 01/02 - 01/09 (5)
  • 12/26 - 01/02 (9)
  • 12/19 - 12/26 (8)
  • 12/12 - 12/19 (7)
  • 12/05 - 12/12 (13)
  • 11/28 - 12/05 (17)
  • 11/21 - 11/28 (8)
  • 11/14 - 11/21 (17)
  • 11/07 - 11/14 (7)
  • 10/31 - 11/07 (11)
  • 10/24 - 10/31 (7)
  • 10/17 - 10/24 (10)
  • 10/10 - 10/17 (13)
  • 10/03 - 10/10 (20)
  • 09/26 - 10/03 (7)
  • 09/19 - 09/26 (20)
  • 09/12 - 09/19 (11)
  • 09/05 - 09/12 (16)
  • 08/29 - 09/05 (17)
  • 08/22 - 08/29 (12)
  • 08/15 - 08/22 (8)
  • 08/08 - 08/15 (11)
  • 08/01 - 08/08 (21)
  • 07/25 - 08/01 (7)
  • 07/18 - 07/25 (14)
  • 07/11 - 07/18 (8)
  • 07/04 - 07/11 (9)
  • 06/27 - 07/04 (3)
  • 06/20 - 06/27 (9)
  • 06/13 - 06/20 (13)
  • 06/06 - 06/13 (12)
  • 05/30 - 06/06 (11)
  • 05/23 - 05/30 (4)
  • 05/16 - 05/23 (13)
  • 05/09 - 05/16 (1)
  • 04/25 - 05/02 (2)
  • 04/11 - 04/18 (1)
  • 04/04 - 04/11 (1)
  • 03/28 - 04/04 (3)
  • 03/21 - 03/28 (5)
  • 03/07 - 03/14 (2)
  • 02/28 - 03/07 (5)
  • 02/21 - 02/28 (3)
  • 02/14 - 02/21 (3)
  • 02/07 - 02/14 (1)
  • 01/24 - 01/31 (4)
  • 01/17 - 01/24 (4)
  • 01/10 - 01/17 (3)
  • 01/03 - 01/10 (1)
  • 12/27 - 01/03 (1)
  • 12/13 - 12/20 (2)
  • 12/06 - 12/13 (4)
  • 11/29 - 12/06 (6)
  • 11/22 - 11/29 (5)
  • 11/15 - 11/22 (2)
  • 11/08 - 11/15 (2)
  • 11/01 - 11/08 (2)
  • 10/25 - 11/01 (1)
  • 10/18 - 10/25 (1)
  • 10/11 - 10/18 (5)
  • 10/04 - 10/11 (8)
  • 09/27 - 10/04 (2)
  • 09/20 - 09/27 (1)
  • 09/13 - 09/20 (3)
  • 09/06 - 09/13 (1)
  • 08/16 - 08/23 (1)
  • 08/09 - 08/16 (2)
  • 08/02 - 08/09 (5)
  • 07/26 - 08/02 (5)
  • 07/19 - 07/26 (1)
  • 07/12 - 07/19 (3)
  • 07/05 - 07/12 (2)
  • 06/28 - 07/05 (3)
  • 06/14 - 06/21 (1)
  • 06/07 - 06/14 (4)
  • 05/31 - 06/07 (1)
  • 05/24 - 05/31 (1)
  • 05/17 - 05/24 (3)
  • 05/10 - 05/17 (5)
  • 05/03 - 05/10 (2)
  • 04/26 - 05/03 (4)
  • 04/19 - 04/26 (1)
  • 04/12 - 04/19 (2)
  • 04/05 - 04/12 (5)
  • 03/29 - 04/05 (4)
  • 03/22 - 03/29 (3)
  • 03/15 - 03/22 (6)
  • 03/08 - 03/15 (12)
  • 03/01 - 03/08 (3)
  • 02/23 - 03/01 (6)
  • 02/16 - 02/23 (6)
  • 02/09 - 02/16 (18)
  • 02/02 - 02/09 (17)
  • 01/26 - 02/02 (12)
  • 01/19 - 01/26 (12)
  • 01/12 - 01/19 (18)
  • 01/05 - 01/12 (10)
  • 12/29 - 01/05 (13)
  • 12/22 - 12/29 (27)
  • 12/15 - 12/22 (2)
  • 12/08 - 12/15 (14)
  • 12/01 - 12/08 (19)
  • 11/24 - 12/01 (14)
  • 11/17 - 11/24 (5)
  • 11/10 - 11/17 (5)
  • 11/03 - 11/10 (6)
  • 10/27 - 11/03 (10)

Follow me by email :

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments

My Blog List

احباب

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments

إلى الشريعة السمحة البيضاء الغراء

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments

Subscribe To

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments
Powered By Blogger

شکراجزیلا

  • Home

My Blog List

Search This Blog

أهلا و سهلا ومرحبا

  • الدكتور المفتى محمد عامر الصمدانى القاسمى
  • Home

Search the contents here, please.

Search This Blog

أهلا و سهلا ومرحبا

  • الدكتور المفتى محمد عامر الصمدانى القاسمى
  • Home

Search This Blog

أهلا و سهلا ومرحبا

  • الدكتور المفتى محمد عامر الصمدانى القاسمى
  • Home

أهلا و سهلا ومرحبا

  • الدكتور المفتى محمد عامر الصمدانى القاسمى
  • Home

Search This Blog

Popular Posts

  • Salatul_Istikharah نماز إستخاره
    When a person wishes to carry out some important work,guidance should be sought from Allah.The Prophet peace be upon him has mentioned that...
  • قرآن مجید کی مکی اور مدنی سورتیں
    :درج ذیل بیس سورتیں بالاتفاق مدنی ہیں البقره،آل عمران،النساء،المائده،الأنفال،التوبه،النور،الأحزاب،محمد،الفتح الحجرات،الحديد،المجادله،الح...
  • جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خریدوفروخت
      جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید و فروخت چھوڑنا واجب ہے اور خرید و فروخت میں لگنا حرام ہے اور اس وقت کیاگیا سودا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے۔ ا...

Popular Posts

  • Salatul_Istikharah نماز إستخاره
    When a person wishes to carry out some important work,guidance should be sought from Allah.The Prophet peace be upon him has mentioned that...
  • قرآن مجید کی مکی اور مدنی سورتیں
    :درج ذیل بیس سورتیں بالاتفاق مدنی ہیں البقره،آل عمران،النساء،المائده،الأنفال،التوبه،النور،الأحزاب،محمد،الفتح الحجرات،الحديد،المجادله،الح...
  • جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خریدوفروخت
      جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید و فروخت چھوڑنا واجب ہے اور خرید و فروخت میں لگنا حرام ہے اور اس وقت کیاگیا سودا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے۔ ا...

Search This Blog

أهلا و سهلا ومرحبا

  • الدكتور المفتى محمد عامر الصمدانى القاسمى
  • Home

Newest

حرمتِ مصاہرت کے بعد شوہر کی طرف سے تفریق یاقضاء قاضی شرط ہے

Follow me by email :

https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Follow by email :

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments

Popular Posts

  • Salatul_Istikharah نماز إستخاره
    When a person wishes to carry out some important work,guidance should be sought from Allah.The Prophet peace be upon him has mentioned that...
  • قرآن مجید کی مکی اور مدنی سورتیں
    :درج ذیل بیس سورتیں بالاتفاق مدنی ہیں البقره،آل عمران،النساء،المائده،الأنفال،التوبه،النور،الأحزاب،محمد،الفتح الحجرات،الحديد،المجادله،الح...
  • جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خریدوفروخت
      جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید و فروخت چھوڑنا واجب ہے اور خرید و فروخت میں لگنا حرام ہے اور اس وقت کیاگیا سودا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے۔ ا...

لناجبل یحتلہ من یجیرنا

Posts
Atom
Posts
All Comments
Atom
All Comments
Watermark theme. Powered by Blogger.