https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 22 June 2024

خلفائے راشدین کی ترتیب

 رسول اللہ صلی اللہ  علیہ والہ وسلم  کے پردہ فرما جانے کے بعد  امت (جميع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین)  نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  کو بطورِ خلیفہ انتخاب  کیا، اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ  نے وصال سے قبل   حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا کر بطورِ وصیت  اپنے ولی عہد  کا نام لکھوا دیا، آپ کے وصال کے بعد تمام صحابہ رضی اللہ عنہم  سے دریافت  کیا گیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے  جس شخصیت کے بارے میں خلیفہ مقرر کرنے کی وصیت کی ہے، اس سے سب متفق ہیں؟ جس پر سب نے اتفاق کیا، یوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی مقرر ہوئے،  حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی شہادت کے بعد خلیفہ ثالث  کے انتخاب کی ذمہ داری چھ کبار صحابہ (  حضرت عثمان ، حضرت علی،  حضرت عبد الرحمن بن عوف،  حضرت طلحہ، حضرت زبیر،  اور حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ  عنہم ) کے سپرد  ہوئی، ان چھ حضرات نے خلیفہ ثالث  کے انتخاب کا اختیار حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ  کو  دے دیا، یوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ثالث مقرر ہوئے،  حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت  کے بعد  کبار صحابہ  انصار و مہاجرین  رضی اللہ عنہم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کے ہاتھ پر بیعت فرمائی، یوں حضرت علی رضی اللہ عنہ  خلیفہ  رابع مقرر ہوئے،پس  خلفائے راشدین کا انتخاب    باجماع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم تکوینی طور پر ہوا تھا، رہی یہ بات کہ خلفاء اربعہ کی ترتیب اس طرح کیوں ہے ، تو اس کا تعلق تکوینی امور  سے ہے،اس کی حکمت کا علم اللہ تعالی کو ہے، اس طرح کی بحث میں پڑنا جس میں نہ دنیوی اور نہ ہی اخروی فائدہ ہو، لایعنی وبے فائدہ ہے۔


شرح العقائد النسفية میں ہے:

"وخلافتهم أي نيابتهم عن الرسول في إقامة الدين، بحيث يجب على كافة الأمم الاتباع، على هذا الترتيب أيضا، يعني أن الخلافة بعد رسول الله عليه السلام لأبي بكر، ثم لعمر، ثم لعثمان، ثم لعلي، وذلك لأن الصحابة قد اجتمعوا يوم توفي رسول عليه السلام في سقيفة بني ساعدة، واستقر رأيهم بعد المشاورة والمنازعة على خلافة أبي بكر رضي الله عنه، فاجمعوا على ذلك وبايعه علي رؤس الأشهاد بعد توقف كان منه، ولو لم تكن الخلافة حقا له لما اتفق عليه الصحابة، و لنازعه علي كما نازع معاوية، ثم إن أبا بكر رضي الله عنه ولا احتج عليهم لو كان في حقه نص، كما زعمت الشيعة، و كيف يتصور في حق أصحاب رسول الله عليه السلام الإتفاق علي الباطل، و ترك العمل بالنص الوارد، ثم إن أبا بكر لما يئس من حياته، دعا عثمان، و أملى عليه كتاب عهده لعمر رضي الله عنه فلما كتب ختم الصحيفة و اخرجها الي الناس، وأمرهم أن يبايعوا لمن في الصحيفة، فبايعوا حتي مرت بعلي فقال: بايعنا لمن فيها و إن كان عمر، و بالجملة وقع الإتفاق علي خلافته، ثم استثهد عمر، وترك الخلافة شورى بين ستة: عثمان، وعلي، وعبد الرحمن بن عوف، وطلحة، وزبير، وسعد ابن أبي وقاص رضي الله عنهم، ثم فوض الأمر خمستهم إلى عبد الرحمن بن عوف، ورضوا بحكمه، فاختار عثمان، وبايعه بمحضر من الصحابة، فبايعوه وانقادوا لأوامره و صلوا معه الجمع و الأعياد، فكان اجماعا، ثم استثهد وترك الأمر مهملا، فأجمع كبار المهاجرين و الأنصار على علي رضي الله عنه، والتمسوا منه قبول الخلافة وبايعوه، لما كان أفضل أهل عصره وأولاهم بالخلافة."

( ص:150-152، ط: المصباح)

No comments:

Post a Comment