اگر قربانی کے بڑے جانور میں شریک سات شرکاء میں سے کوئی ایک گوشت کھانے کی نیت سے جانور میں حصہ لیتا ہے یا اس کی آمدن حرام ہے، اور باقی شرکاء کو بھی اس بات کا پتا ہو کہ اس شریک کی نیت قربانی کا ثواب حاصل کرنے کی نہیں ہے، بلکہ گوشت کھانے کی نیت ہے یا اس کی آمدن حرام ہے، تو اس صورت میں اس ایک فاسد نیت یا حرام مال والے کو اپنے ساتھ قربانی میں شریک کرنے کی وجہ سے سب کی قربانی خراب ہوجائے گی، لیکن اگر باقی شرکاء کو اس ایک شریک کی فاسد نیت کا یا اس کی آمدن کا بالکل پتا نہ ہو تو اس صورت میں چوں کہ وہ لوگ بے قصور ہیں؛ اس لیے ان کی قربانی ادا ہوجائے گی۔ علماءِ کرام جو مسئلہ بیان کرتے ہیں اس سے مراد پہلی والی صورت ہوتی ہے یعنی جب باقی شرکاء کو ایک شریک کی فاسد نیت کا پتا ہو
قربانی کا عمل خالص ایک قربت ہے جس میں تجزی نہیں ہے، اس لیے قربانی کے جانور میں جتنے شرکاء ہیں سب کی نیت قربت ہی کی ہونی چاہیے تاکہ تجزی لازم نہ آئے، رہی یہ بات کہ کس کی نیت کیا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے، تو بے شک نیتوں کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے، لیکن ہمیں کسی کے متعلق بلاوجہ بدگمان ہونے کی اجازت نہیں، ہم تو ظاہر کے مکلف ہیں، چنانچہ اکر کوئی شریک نصرانی یا مرتد ہے یا مسلمان ہی ہے لیکن وہ اپنی نیت واضح کردے کہ میں قربانی کے لیے نہیں بلکہ صرف گوشت کے لیے شریک ہورہا ہوں تو ایسی صورت میں ظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے یہی حکم لگایا جائے گا کہ کسی کی قربانی درست نہ ہوئی، لیکن اگر سارے شرکاء مسلمان ہیں اور کسی کی طرف سے ایسی کوئی صراحت نہیں کہ وہ صرف گوشت کے لیے مثلاً حصہ لے رہا ہے تو مسلمانوں کا معاملہ سداد پر محمول کیا جائے گا اور حسن ظن یہی رکھا جائے گا کہ قربانی کے دنوں میں مسلمان قربانی ہی کی نیت سے جانور ذبح کرتا ہے یا شرکت کرتا ہے۔
No comments:
Post a Comment