https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday, 5 February 2025

غدر

   رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے، اس پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہو گا نہ نفل۔‘‘[2] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۷۲)

غدریعنی بدعہدی کاحکم:

’’عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور غدر یعنی بدعہدی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔‘‘[3] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۷۲)

غدر (بدعہدی) کے چار اسباب وعلاج:

(1)…غدر یعنی بدعہدی کا پہلا سبب قلت خشیت ہے کہ جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف ہی نہ ہو تو بندہ کوئی بھی گناہ کرنے سے باز نہیں آتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ فکر آخرت کا ذہن بنائے، اپنے آپ کو رب عَزَّ وَجَلَّ کی بے نیازی سے ڈرائے، اپنی موت کو یاد کرے، یہ مدنی ذہن بنائے کہ کل بروز قیامت خدانخواستہ اس غدر یعنی بدعہدی کے سبب رب عَزَّ وَجَلَّ ناراض ہوگیا تو میرا کیا بنے گا؟

Sunday, 2 February 2025

خیر خواہی کا مفہوم

 قَالَ:" بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ . . .»

. . . انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر  بیعت کی . . . [صحيح البخاري/كِتاب  ایمان الْإِيمَانِ: 57]� لغوی توضیح:
«النَّصَيْحَة» کا لغوی معنی ہے خالص ہونا۔ قرآن میں «تَوْبَةً نَّصُوْحًا» کا بھی یہی معنی ہے خالص توبہ۔‏‏‏‏ نھایہ میں ہے کہ نصیحت ایسا جامع لفظ ہے کہ اس میں جملہ امور خیر شامل ہیں۔ دین کو بھی نصیحت اسی لیے کہا گیا ہے کہ تمام دینی اعمال کا دارومدار خلوص اور کھوٹ سے پاک ہونے پر ہی ہے۔

فہم الحدیث:
ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: دین خیرخواہی کا نام ہے۔ صحابہ نے عرض کیا، یہ خیرخواہی کس کے لیے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے آئمہ کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔ [مسلم: كتاب الايمان: باب بيان ان الدين النصيحة: 55، ابوداود: 4944، حميدى: 837]
الله کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ توحید کا راستہ اپنایا جائے اور شرک سے بچا جائے۔ اس کی کتاب کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے بچا جائے۔ اس کے رسول کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور انہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے۔ حکمرانوں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ تمام امور خیر میں ان کی اطاعت کی جائے اور بلاعذر شرعی ان کے خلاف خروج نہ کیا جائے۔ اور عام مسلمانوں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے، ان کی اصلاح و فلاح کی اور ان سے ہر قسم کا ضرر و نقصان دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 35   

نصیحت کے معنی

 أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ:" بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ".

جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4161]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الإیمان 42 (58)، مواقیت الصلاة 3 (524)، الزکاة 2 (1401)، البیوع 68 (2157)، الشروط 1 (2714)، الأحکام 43 (7204)، صحیح مسلم/الإیمان 23 (56)، (تحفة الأشراف: 3210)، مسند احمد (4/357، 361) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎نصیحت کے معنی ہیں: خیر خواہی، کسی کا بھلا چاہنا، یوں تو اسلام کی طبیعت و مزاج میں ہر مسلمان بھائی کے ساتھ خیر خواہی و بھلائی داخل ہے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی خاص بات پر بھی خصوصی بیعت لیا کرتے تھے، اسی طرح آپ کے بعد بھی کوئی مسلم حکمراں کسی مسلمان سے کسی خاص بات پر بیعت کر سکتا ہے، مقصود اس بات کی بوقت ضرورت و اہمیت اجاگر کرنی ہوتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

خیرخواہی کے متعلق حدیث

 لا يؤْمِنُ أحَدُكم حتى يُحِبَّ لأخيه ما يُحِبُّ لنفْسِه ] تم میں سے کوئی شخص(اس وقت تک) مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔(صحيح البخاري، الإيمان، حديث:13 وصحيح مسلم، الإيمان، حديث:45)

(4) دنیا وآخرت کو کار آمداور قیمتی بنانے ‘نیز ابدی اور لازوال زندگی کو پر سکون اور آرام دہ گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان تمام انسانوں کو خیر خواہ رہے اس اس نصیحت و خیر خواہی کا دامن کسی بھی وقت نہ چھوڑے بلکہ تاحیات اس کو حرز جاں بنائے رکھے۔ وفقنا الله جميعا
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4161

اسلام میں خیرخواہی کا مفہوم

 حضرت جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’بایعتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علٰی إِقامِ الصلوۃ وایتائِ الزکوۃ والنصحِ لکُلّ مسلم۔‘‘ ( مشکوۃ المصابیح،کتاب الآداب، باب الرحمۃ والشفقۃ علی الخلق، ص:۴۲۳، ط؛قدیمی)
ترجمہ: ’’میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پربیعت کی کہ پابندی کے ساتھ نماز پڑھوں گا، زکوٰۃ ادا کروں گا، اور ہر مسلمان کے حق میں خیرخواہی کروں گا۔‘‘ 
نماز اور زکوٰۃ اسلام کے اہم ترین ارکان میں سے ہیں، اُن کاتعلق حقوق اللہ سے ہے، اور ’’خیرخواہی‘‘ کے ضمن میں بندوں کے تمام حقوق آجاتے ہیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ ارشاد فرمایا: ’’دین سراسر خیرخواہی کا نام ہے۔‘‘ (سنن النسائی،کتاب البیعۃ،النصیحۃ للامام، ج:۲،ص:۱۸۵، ط:قدیمی)نیز مسلم شریف میں حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
’’أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: الدین النصیحۃ ، قلنا لمن؟ قال : لِلّٰہ ولکتابہٖ ولرسولہٖ ولأئمۃ المسلمین وعامتہم۔‘‘ (صحیح مسلم، باب الدین النصیحۃ، ج:۱،ص:۵۴،ط:قدیمی)
ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیرخواہی کانام ہے (یعنی نصیحت اور خیر خواہی اعمالِ دین میں سے افضل ترین عمل ہے یا نصیحت اور خیر خواہی دین کا ایک مہتم بالشان نصب العین ہے) ہم نے ( یعنی صحابہؓ نے) پوچھا کہ یہ نصیحت اور خیر خواہی کس کے حق میں کرنی چاہیے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ کے لیے، اللہ کی کتاب کے لیے، اللہ کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے۔‘‘
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہواکہ دینِ اسلام فقط عبادات یا ذکر و اذکار یا وظائف کا نام نہیں، بلکہ بندوں کے حقوق، ان کے ساتھ خیرخواہی، ان کے لیے خیر اوربھلائی کا چاہنا، یہ بھی دینِ اسلام میں شامل اور اس کا حصہ ہے۔ لوگوں کی تذلیل کرنا یا اُن کے نقصان کے درپے ہونا یا اُن کے ساتھ بدخواہی کامعاملہ رکھنا یہ ایمان کی شان کے خلاف ہے۔
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا روایت صاحبِ مشکوٰۃ نے ’’کتاب الآداب، باب الرحمۃ والشفقۃ علی الخلق‘‘ کے تحت ذکر کی ہے۔ مشکوٰۃ المصابیح کی شرح ’’مظاہرحق‘‘ میں مذکورہ روایت کے تحت علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے متعلق ایک عجیب واقعہ لکھاہے،یہ واقعہ اس بات پر دلالت کرتاہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نصیحت ،کسی حکم کوسنتے توساری عمراس حکم کو مدنظر رکھتے اور ہر موڑ پر اس کا لحاظ کرتے ہوئے زندگی گزارتے تھے۔ ساری عمر اپنے دامن سے اس نصیحت کو چمٹائے رکھتے اور ذرہ برابر اس سے اِعراض نہ فرماتے، چنانچہ صاحبِ مظاہرِحق لکھتے ہیں:
ایک مرتبہ حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے ایک گھوڑا تین سو درہم کے عوض خرید کیا، انہوں نے بیچنے والے سے کہا کہ: تمہارا یہ گھوڑا تو تین سو درہم سے زیادہ قیمت کاہے، تم اس کی قیمت چار سو درہم لو گے؟ اس نے کہا: ابن عبداللہ! تمہاری مرضی پر موقوف ہے۔ انہوں نے کہا کہ: یہ گھوڑا توچار سو درہم سے بھی زیادہ کا معلوم ہوتا ہے، تم کیا اس کی قیمت پانچ سو درہم لینا پسند کرو گے؟ وہ اسی طرح اس کی قیمت سو سو درہم بڑھاتے گئے اور آخرکار انہوں نے اس گھوڑے کی قیمت میں آٹھ سو درہم ادا کیے۔ جب لوگوں نے ان سے گھوڑے کی قیمت بڑھانے کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ: اصل بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیعت کی تھی کہ ہر مسلمان سے خیر خواہی کروں گا (چنانچہ جب میں نے دیکھا کہ اس گھوڑے کا مالک وہ قیمت طلب نہیں کر رہا جو حقیقت میں ہونی چاہیے تو میں نے اس کی خیر خواہی کے پیش نظر اس کو زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کی)۔‘‘ (مظاہر حق شرح مشکوٰۃ المصابیح، ج:۴،ص:۵۰۰، ط:دارالاشاعت کراچی)
حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے منقول حدیث کی تشریح علماء نے یہ لکھی ہے کہ: 
’’اللہ تعالیٰ کے حق میں خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر ایمان لائے ، اللہ کی وحدانیت و حاکمیت کا اعتقاد رکھے، اس کی ذات و صفات میں کسی غیر کو شریک نہ کرے، اس کی عبادت اخلاصِ نیت کے ساتھ کرے، اور اس کے اوامر و نواہی کی اطاعت و فرمانبرداری کرے، اس کی نعمتوں کا اقرار و اعتراف کرے اور اس کا شکر ادا کرے اور اس کے نیک بندوں سے محبت کرے اور بدکار سرکش بندوں سے نفرت کرے۔
اللہ کی کتاب کے حق میں خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا عقیدہ رکھے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے ،اس میں جو کچھ لکھا ہے اُسے سمجھے اوراس پر ہر حالت میں عمل کرے، تجوید و ترتیل اور غور و فکر کے ساتھ اس کی تلاوت کرے اور اس کی تعظیم و احترام میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ سچے دل سے یہ گواہی دے کہ وہ اللہ کے رسول اور اس کے پیغمبر ہیں ، ان کی نبوت پر ایمان لائے اور انہیں خاتم الانبیاء مانے،وہ اللہ کی طرف سے جو پیغام پہنچائیں اور جو احکامات دیں ان کو قبول کرے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرے، ان کو اپنی جان، اپنی اولاد، اپنے ماں باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز رکھے، ان کے اہل بیتؓ اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت رکھے اور ان کی سنت پر عمل کرے۔
مسلمانوں کے اماموں کے حق میں خیر خواہی کامطلب یہ ہے کہ جو شخص اسلامی حکومت کی سربراہی کر رہا ہو‘ اس کے ساتھ وفاداری کو قائم رکھے، احکام و قوانین کی بے جا طور پر خلاف ورزی کر کے ان کے نظم حکومت میں خلل و ابتری پیدا نہ کرے، اچھی باتوں میں ان کی پیروی کرے اور بری باتوں میں ان کی اطاعت سے اجتناب کرے، اگر وہ اسلام اور اپنی عوام کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت و کوتاہی کا شکار ہوں تو ان کو مناسب اور جائز طریقوں سے متنبہ کرے اور ان کے خلاف بغاوت کا علم بلند نہ کرے، اگرچہ وہ کوئی ظلم ہی کیوں نہ کریں، نیز علماء کی -جو مسلمانوں کے علمی و دینی رہنما ہوتے ہیں- عزت و احترام کرے، شرعی احکام اور دینی مسائل میں وہ قرآن و سنت کے مطابق جو کچھ کہیں اس کو قبول کرے اور اس پر عمل کرے، ان کی اچھی باتوں اور ان کے نیک اعمال کی پیروی کرے۔ 
اور تمام مسلمانوں کے حق میں خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ ان کی دینی ،دنیاوی خیر و بھلائی کا طالب رہے، ان کو دین کی تبلیغ کرے، ان کو دنیا کے اس راستہ پر چلانے کی کوشش کرے جس میں ان کی بھلائی ہواور اُن کو کسی بھی طرح نقصان پہنچانے کی بجائے نفع پہنچانے کی سعی کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی ’’جوامع الکلم‘‘ میں سے ہے، اس کے مختصر الفاظ حقیقت میں دین و دنیا کی تمام بھلائیوں اور سعادتوں پر حاوی ہیں اور تمام علوم اولین و آخرین اس چھوٹی سی حدیث میں مندرج ہیں۔‘‘              (مظاہر حق شرح مشکوۃ المصابیح، ج:۴، ص:۴۹۹، ط:دارالاشاعت کراچی)

Friday, 31 January 2025

بلی گوشت میں سے دوبوٹی لے گئی

بلی  اگر  کھانے کی چیز میں منہ ڈال کر کچھ کھاپی لے تو  کھانے یا پینے کی  بقیہ چیز  اور وہ برتن ناپاک نہیں ہوگا، البتہ اس کے بچے ہوئے کھانے یا پانی  کا استعمال مکروہ تنزیہی ہے، اگر آسانی سے اس کا بدل نہ مل سکتا تو یہ کراہت بھی نہیں ہوگی۔ اور اگر بلی نے چوہا کھانے کے فوراً  بعد برتن میں منہ ڈال لیا تو وہ ناپاک ہوجائے گا، لیکن جب تک اس کا یقین نہ ہو  تب  تک ناپاک ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا، نیز ناپاک ہونے کی صورت میں بھی برتن کو دھو کر دوبارہ استعمال کیا جاسکے گا۔


 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 223):

"(و) سؤر (خنزير وكلب وسباع بهائم) ومنه الهرة البرية (وشارب خمر فور شربها) ولو شاربه طويلاً لايستوعبه اللسان فنجس ولو بعد زمان (وهرة فور أكل فأرة نجس) مغلظ.

(و) سؤر هرة (ودجاجة مخلاة) وإبل وبقر جلالة،  الأحسن ترك دجاجة ليعم الإبل والبقر والغنم، قهستاني. (وسباع طير) لم يعلم ربها طهارة منقارها (وسواكن بيوت) طاهر للضرورة (مكروه) تنزيها في الأصح إن وجد غيره وإلا لم يكره أصلا كأكله لفقير.
(قوله: لم يعلم ربها طهارة منقارها) لما روى الحسن عن أبي حنيفة: إن كان هذا الطير لايتناول الميتة مثل البازي الأهلي ونحوه لايكره الوضوء وإنما يكره في الذي يتناول الميتة، وروي عن أبي يوسف أيضا مثله، حلية (قوله: وسواكن بيوت) أي مما له دم سائل كالفأرة والحية والوزغة، بخلاف ما لا دم له كالخنفس والصرصر والعقرب فإنه لايكره كما مر، وتمامه في الإمداد (قوله: طاهر للضرورة) بيان ذلك أن القياس في الهرة نجاسة سؤرها؛ لأنه مختلط بلعابها المتولد من لحمها النجس، لكن سقط حكم النجاسة اتفاقاً بعلة الطواف المنصوصة بقوله صلى الله عليه وسلم: إنها ليست بنجسة، إنها من الطوافين عليكم والطوافات". أخرجه أصحاب السنن الأربعة وغيرهم، وقال الترمذي: حسن صحيح؛ يعني أنها تدخل المضايق ولازمه شدة المخالطة بحيث يتعذر صون الأواني منها، وفي معناها سواكن البيوت للعلة المذكورة، فسقط حكم النجاسة للضرورة وبقيت الكراهة لعدم تحاميها النجاسة، وأما المخلاة فلعابها طاهر فسؤرها كذلك، لكن لما كانت تأكل العذرة كره سؤرها ولم يحكم بنجاسته للشك، حتى لو علمت النجاسة في فمها تنجس، ولو علمت الطهارة انتفت الكراهة.
وأما سباع الطير فالقياس نجاسة سؤرها كسباع البهائم بجامع حرمة لحمها والاستحسان طهارته؛ لأنها تشرب بمنقارها وهو عظم طاهر، بخلاف سباع البهائم؛ لأنها تشرب بلسانها المبتل بلعابها النجس، لكن لما كانت تأكل الميتة غالبا أشبهت المخلاة فكره سؤرها، حتى لو علم طهارة منقارها انتفت الكراهة هكذا قرروا، وبه علم أن طهارة السؤر في بعض هذه المذكورات ليست للضرورة بل على الأصل فتنبه (قوله مكروه) لجواز كونها أكلت نجاسة قبيل شربها.
وأفاد في الفتح أنه لو احتمل تطهيرها فمها زالت الكراهة حيث قال: ويحمل إصغاؤه صلى الله عليه وسلم الإناء للهرة على زوال ذلك التوهم، بأن كانت في مرأى منه في زمان يمكن فيه غسلها فمها بلعابها. وأما على قول محمد فيمكن بمشاهدة شربها من ماء كثير أو مشاهدة قدومها عن غيبة يجوز معها ذلك، فيعارض هذا التجويز بتجويز أكلها نجسا قبيل شربها فيسقط فتبقى الطهارة دون كراهة؛ لأن الكراهة ما جاءت إلا من ذلك التجويز وقد سقط، وعلى هذا لا ينبغي إطلاق كراهة أكل فضلها والصلاة إذا لحست عضوا قبل غسله كما أطلقه شمس الأئمة وغيره، بل يقيد بثبوت ذلك التوهم؛ أما لو كان زائلا بما قلنا فلا. اهـ وأقره في البحر وشرح المقدسي، وهو خلاف ما قدمناه عن المنية تأمل (قوله: تنزيهاً) قيدبه لئلا يتوهم التحريم.
 (قوله: كأكله لفقير) أي أكل سؤرها: أي موضع فمها، وما سقط منه من الخبز ونحوه من الجامدات؛ لأنه لا يخلو من لعابها، وليس المراد أكل ما بقي أي مما لم يخالطه لعابها بخلاف المائع كما أوضحه في الحلية. وأفاد الشارح كراهته لغني؛ لأنه يجد غيره، وهذا عند توهم نجاسة فمها كما قدمناه عن الفتح قريباً". 

تفسير البسملة

 السابعة والعشرون : روي عن علي بن أبي طالب كرم الله وجهه أنه قال في قوله ( بسم الله ) : إنه شفاء من كل داء ، وعون على كل دواء . وأما الرحمن فهو عون لكل من آمن به ، وهو اسم لم يسم به غيره . وأما الرحيم فهو لمن تاب وآمن وعمل صالحا .


وقد فسره بعضهم على الحروف ; فروي عن عثمان بن عفان أنه سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تفسير ( بسم الله الرحمن الرحيم ) فقال : أما الباء فبلاء الله وروحه ونضرته وبهاؤه وأما السين ص: 103 ] فسناء الله وأما الميم فملك الله وأما الله فلا إله غيره وأما الرحمن فالعاطف على البر والفاجر من خلقه وأما الرحيم فالرفيق بالمؤمنين خاصة . وروي عن كعب الأحبار أنه قال : الباء بهاؤه والسين سناؤه فلا شيء أعلى منه والميم ملكه وهو على كل شيء قدير فلا شيء يعازه . وقد قيل : إن كل حرف هو افتتاح اسم من أسمائه ; فالباء مفتاح اسمه " بصير " ، والسين مفتاح اسمه " سميع " ، والميم مفتاح اسمه " مليك " ، والألف مفتاح اسمه " الله " ، واللام مفتاح اسمه " لطيف " ، والهاء مفتاح اسمه هاد ، والراء مفتاح اسمه " رازق " ، والحاء مفتاح اسمه " حليم " ، والنون مفتاح اسمه " نور " ; ومعنى هذا كله دعاء الله تعالى عند افتتاح كل شيء .

الثامنة والعشرون : واختلف في وصل ( الرحيم ) ب ( الحمد لله ) ; فروي عن أم سلمة عن النبي صلى الله عليه وسلم : ( الرحيم ألحمد ) يسكن الميم ويقف عليها ، ويبتدئ بألف مقطوعة . وقرأ به قوم من الكوفيين . وقرأ جمهور الناس : ( الرحيم الحمد ) تعرب الرحيم بالخفض وبوصل الألف من ( الحمد ) . وحكى الكسائي عن بعض العرب أنها تقرأ ( الرحيم الحمد ) ، بفتح الميم وصلة الألف ; كأنه سكنت الميم وقطعت الألف ثم ألقيت حركتها على الميم وحذفت . قال ابن عطية : ولم ترو هذه قراءة عن أحد فيما علمت . وهذا نظر يحيى بن زياد في قوله تعالى : الم الله ص: 104 ]

ص: 105 ]

التفسير القرطبي 
تتردّد البسملة على لسان الناس، كبيرهم وصغيرهم، فإذا ما همّ المسلم بأمرٍ فإنه يقول: بسم الله الرحمن الرحيم، وإذا ما أراد تلاوة القرآن فإنه يبدأ ببسم الله الرحمن الرحيم، وقد اشتملت البسملة على معانٍ عظيمة، لذا على المسلم المحافظة على ترديدها وفهم معناها ومكنوناتها لاستشعار أثرها. وفي ترديدها اقتداء حسن بسيدنا محمد صلى الله عليه والسلام واستنان بفعله وقوله، يقول الإمام الطبري: "إِنَّ اللَّهَ -تَعَالَى ذِكْرُهُ، وَتَقَدَّسَتْ أَسْمَاؤُهُ- أَدَّبَ نَبِيَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَعْلِيمِهِ ذِكْرَ أَسْمَائِهِ الْحُسْنَى أَمَامَ جَمِيعِ أَفْعَالِهِ، وَجَعَل ذَلِكَ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ سُنَّةً يَسْتَنُّونَ بِهَا، وَسَبِيلاً يَتَّبِعُونَهُ عَلَيْهَا".[١]

شرح (بسم الله)  تبدأ البسملة بحرف جر جاء بمعنى الاستعانة، والاسم: لفظٌ جُعل ووضع ليكون علامة على مُسَمَّى يُسمى به ليعرف ويتميز عن غيره، فنحن عندما نقول: (بسم الله)؛ فهذا دلالته أننا نسأل الله ونستعين به.[٥] ولفظ الجلالة "الله" اسم علم من أسماء الله تعالى يُعرف به، ويطلق للتعظيم وللهيبة وللقوة،[٥] وحاصل المعنى هو: أستعين باسم الله تعالى العظيم.[٣] وتكون بحسب ما أراد القارئ أو الفاعل، فإذا أراد القيام؛ فقوله بسم الله يعني: أستعين بالله تعالى على قيامي، وكذلك الجلوس والأكل وسائر الأفعال، وإذا أراد تلاوة القرآن فقوله بسم الله؛ أي أقرأ ببسم الله تعالى وأابتدئ قراءتي متبركًا باسم الله ومستعينًا به.[٣] شرح اسمي الله (الرحمن الرحيم)  الرَّحْمَنِ: "اسم من أسماء الله تعالى مشتق من الرحمة، ويعني كثير الرحمة"، والرَّحِيمِ: اسم وصفة لله تعالى مشتق من الرحمة، ومعناه: ذو الرحمة العظيمة على عباده في الدنيا والآخرة،[٣] ومن تعريفهما يتبيّن الفرق بينهما، ففي قولنا "الرَّحمن" صيغة مبالغة، على وزن فعلان.[٦] أما الرحيم فهي على وزن فعيل، ويرى الكثير من العلماء أنّ الفرق بينهما هو أنّ الرحمن رحمن الدنيا والآخرة، ورحيم الدنيا، ومعلوم فى العربية أنّ زيادة المبنى تدل على زيادة المعنى، فمصاعب الآخرة تطلّبت استخدام الرحمن لزيادة حروفها.[٦] هل البسملة آية من القرآن أو بعض اتفق العلماء على أن البسملة جزء من آية فى سورة النمل في قوله تعالى: (إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ)، ثم وقع الاختلاف فيما يأتي: هل هي آية مستقلة في أول كل سورة؟ هل هي آية من سورة الفاتحة دون غيرها من السور؟ فقال الحنفية والمالكية: ليست البسملة بآية من الفاتحة ولا غيرها، غير أن الشافعية والحنابلة قالوا: البسملة آية من الفاتحة، ويجب قراءتها في الصلاة،[٤] ويذكر النووي الشافعي في كتابه المجموع مستدلاً على كون البسملة آية من القرآن في مطلع كل سورة:

Thursday, 30 January 2025

تقسیم میراث سے پہلے اس میں تصرف کرنا

 ۔جوسیٹ آپ کے دادا جان کی نشانی تھی اور آپ نے اپنے استاد کو ھدیہ کردیا چونکہ وہ میراث کا حصّہ تھالھذا اس میں آپ کاتنھا کسی طرح کا تصرف حتی کہ استاد کو ھدیہ کے طور پر دینا بھی درست نہ تھااب اس کی شکل یہ ہے کہ آپ دوسراسیٹ تفسیر مظہری کا خریدکراستاذ مذکور کی خدمت میں لیجایں اور اپنے دادا جان کا سیٹ استاذ سے صورتحال بتاکر واپس لے لیں اور نیا سیٹ انہیں اس کے بدلے میں دیدیں ۔صورت حال سمجھنے کے بعد استاذ بھی ان شاءاللہ ناراض نہ ہوں گے ۔فتاوی عالمگیریہ میں ہے :


"ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره."


(کتاب الشرکة ،ج:2،ص:301،ط:رشیدیة)


شرح المجلہ للأتاسی میں ہے:


"الأموال المشترکة شرکة الملک تقسم حاصلاتها بین أصحابها علی قدر حصصهم."


(الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،ج:4، ص:14، المادۃ: 1073، ط: رشیدیة)


فتاویٰ شامی میں ہے:


"وأركانه (الفرائض): ثلاثة وارث ومورث وموروث. وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه."


(کتاب الفرائض، ج:6، ص:758، ط: سعید)

Monday, 27 January 2025

٢٧ رجب کی اھمیت

 رجب کا مہینہ حرمت والے مہینوں میں سے ہے، ان مہینوں میں عبادت کا ثواب زیادہ ہے، البتہ رجب کے مہینہ میں تخصیص کے ساتھ کسی دن روزہ رکھنا یا کوئی مخصوص قسم کی تسبیحات صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے، لہذا 27 رجب کو تخصیص کے ساتھ روزہ رکھنے  اور  اس رات شب بیدار رہ کر مخصوص عبادت کرنے (مثلاً:  صلاۃ الرغائب  یا دیگر مخصوص  تسبیحات وغیرہ )  کا التزام درست نہیں ہے، اور اس کی جو فضیلت عوام میں مشہور ہے کہ اس روزہ کا ثواب ہزار روزے کے برابر ہے یہ ثابت نہیں ہے؛ اس لیے اس دن کے روزہ کو زیادہ ثواب کاباعث یا اس دن کے روزہ کے متعلق سنت ہونے کا اعتقاد  صحیح نہیں ہے ، علماءِ کرام نے اپنی تصانیف میں اس کی بہت تردید کی ہے،حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ”تبیین العجب بما ورد في فضل رجب“کے نام سے اس موضوع پر مستقل کتاب لکھی ہے،جس میں انہوں نے رجب سے متعلق پائی جانے والی تمام ضعیف اور موضوع روایات پر محدثانہ کلام کرتے ہوئے سب کو باطل کردیا ہے۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ رجب کے مہینے میں ”  تبارک“ اور27 رجب کو روزہ رکھنے کے متعلق فرماتے ہیں:

”اس امر کا التزام نا درست اور بدعت ہے“۔(فتاویٰ رشید یہ مع تا لیفات رشید یہ،ص: 148)

حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”ستائیسویں رجب کے روزے کو جوعوام ہزارہ روزہ کہتے ہیں اور ہزارروزوں کے برابر اس کا ثواب سمجھتے ہیں، اس کی کچھ اصل نہیں ہے‘‘۔(فتاوٰی دار العلوم مد لل و مکمل: 6/491۔ 492)

حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”ماہ رجب میں تاریخِ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وار دہوئی ہیں، لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہ صحت کو نہیں پہنچیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”ماثبت بالسنتہ“ میں ذکر کیا ہے۔ بعض بہت ضیعف ہیں اور بعض موضوع (من گھڑت) ہیں“۔(فتاوٰی محمودیہ، 3/281،ادارہ الفاروق کراچی)

حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

”27 رجب کے روزہ کا کوئی ثبوت نہیں۔“(سات مسا ئل صفحہ:5)

حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

”اس شب کے لیے خصوصی نوافل کا اہتمام کہیں ثابت نہیں ،نہ کبھی حضور صلی الله علیہ وسلم نے کیا ، نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے، نہ تابعین عظام رحہم اللہ نے کیا۔ علامہ حلبی تلمیذ شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ نے غنیتہ المستملی، ص:411 میں، علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے الجر الر ائق شرح کنز الد قائق ،ج:2، ص: 56، میں، علا مہ طحطا وی نے مراقی الفلاح ،ص:22 میں، اس رواج پر نکیر فرمائی ہے اور اس کے متعلق جو فضائل نقل کرتے ہیں ان کو ردکیا ہے‘‘۔(فتاویٰ محمودیہ:3/284،ادارہ الفاروق کراچی)

لہذا اس مہینے میں تخصیص کے ساتھ کسی عبادت کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے، ہاں تخصیص اور التزام کے بغیر جس قدر ہوسکے اس پورے مہینے میں عبادت کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔

كنز العمال (8/ 653):
"24580- عن خرشة بن الحر قال: "رأيت عمر بن الخطاب يضرب أكف الرجال في صوم رجب حتى يضعوها في الطعام، فيقول: رجب وما رجب! إنما رجب شهر كانت تعظمه الجاهلية فلما جاء الإسلام ترك". "ش طس".
مصنف ابن أبي شيبة (2/ 345):
"حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن وبرة، عن عبد الرحمن، عن خرشة بن الحر، قال: رأيت عمر يضرب أكف الناس في رجب، حتى يضعوها في الجفان، ويقول: كلوا، فإنما هو شهر كان يعظمه أهل الجاهلية ".

مصنف ابن أبي شيبة (2/ 345):
"حدثنا وكيع، عن سفيان، عن زيد بن أسلم، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن صوم رجب فقال: «أين أنتم من شعبان»؟"

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (10/ 256):
" وكراهية ابْن عمر صَوْم عَاشُورَاء نَظِيره كَرَاهِيَة من كره صَوْم رَجَب إِذا كَانَ شهراً يعظمه الْجَاهِلِيَّة فكره أَن يعظم فِي الْإِسْلَام مَا كَانَ يعظم فِي الْجَاهِلِيَّة من غير تَحْرِيم صَوْمه على من صَامَهُ".

آبائی وطن چھوڑ کر دوسری جگہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ مستقل طور پر رہائش اختیار کرنے کی صورت میں آبائی وطن میں قصر کرے گا یااتمام

 الف)  وطن اصلی اور وطن اقامت کی تعریف :۔ وطن اصلی وہ مقام ہے جہاں انسان کی  پیدائش ہوئی ہواور وہاں رہائش پذیر بھی ہو  یاجہاں اس نے شادی کی ہو  یا جہاں پرمستقل رہنے کا ارادہ ہو ، اور وطن اقامت:وہ جگہ ہے،جہاں پر انسان کا  پندرہ دن یا اس سے زیادہ کے قیام کا ارادہ ہو، مستقل رہنے کا ارادہ نہ ہو اور وہ وطن اصلی بھی نہ ہو۔

(ب) قصر اور اتمام کا دار ومدار نہ تو زمینوں اور جائیداد  کی موجودگی پر ہے، نہ گھر کی موجودگی پر ہے، اور نہ شناختی کارڈ کے مستقل پتہ پر ہے، بلکہ قصر واتمام کا دار ومدار وطن اصلی اور وطن اقامت پر ہے،یعنی جب کوئی بندہ وطن اصلی سے شرعی مسافت کے بقدر سفر کے لیے نکلے اور کسی ایک مقام پر پندرہ دن سے زیادہ  ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو، تو وہ قصر کرتا رہے گا،جب تک کہ وہ وطن اصلی  واپس نہ لوٹے اور جیسے ہی وطن اصلی واپس لوٹے گا تو دوبارہ اتمام کرےگا، تاہم اگر کوئی  بندہ وطن اصلی سے شرعی مسافت کے بقدر سفر کےلیے نکالا لیکن کسی ایک جگہ پر پندرہ دن سے زائد  ٹھہرنے کا  ارادہ ہے تو وہ وہاں پر اتمام کرے گا قصر نہیں کرےگا، نیز اگر کوئی آدمی اپنے آبائی وطن کو چھوڑ  مستقل طور پر دوسری جگہ پر رہائش اختیار کرے،تو وہی رہائش والا مقام اس کا وطن اصلی بن جائے گا، اور جب وہ اپنے آبائی وطن پندرہ دن سے کم کے ارادے سے آئے گا تو وہ مسافر شمار ہوکر قصر کرے گا ۔

(ج) قصر اللہ  تعالی کی طرف سے بندے کے لیے ایک سہولت ہے،  لاعلمی کی وجہ سےاس میں  بحث و مباحثہ اور لڑائی جھگڑے نہیں کرنے چاہیے اور نہ اس کو جائیداد سے بے دخلی کا سبب بنانا چاہیے،  بلکہ جو بھی مسئلہ در پیش ہو ،  اس کے بارے میں کسی مستند مفتی یامستند  دار الافتاء  سے رہنمائی حاصل کرکے اس پربلا چوں چراں عمل کرنا چاہیے، تاکہ لڑائی جھگڑے کا سبب نہ بنے۔

تمہید کے بعد سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں۔

1:اگر کوئی آدمی اپنےاہل وعیال سمیت اپنے آبائی وطن کو مستقل طور پر  چھوڑ کرشرعی مسافت کے بقدر  دور جاکردوسرے مقام پر مستقل رہائش پذیر ہوجائےاور آئندہ پہلے والے وطن اصلی میں مستقل رہائش اختیار کرنے کاکوئی ارادہ نہ ہو(یعنی دوسری جگہ کو وطن اصلی بنالے) تو اس کا آبائی وطن اس  کا وطن اصلی نہیں رہتا،  بلکہ اب اس کا وطن اصلی  وہی ہوگا، جہاں پر اس نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہائش اختیار کی ہے، لہٰذا اگر یہی شخص کبھی کبھی آبائی وطن جاتاہو اور وہاں پر پندرہ دن سے کم رہنے کا ارادہ ہو تو وہاں قصر کرے گا اتمام نہیں کرےگا۔

2: جس کی پیدائش دوسرے شہر کی ہے یا پیدائش تو آبائی وطن کی ہے لیکن آبائی وطن کو بالکلیہ چھوڑ کر  دوسرے شہر میں منتقل ہوگیا ہے اور وہاں پر مستقل رہائش اختیار کی ہے،تو دونوں کا ایک ہی حکم ہے، یعنی دونوں جب آبائی وطن آئیں گے، اور پندرہ دن سے کم رہنے کا ارادہ ہوگا، تو وہ قصرکریں گے اتمام جائز نہیں

۔

مسند احمد میں ہے:

حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي ذباب، عن أبيه:أن عثمان بن عفان صلى بمنى أربع ركعات، فأنكره الناس عليه، فقال: يا أيها الناس، إني تأهلت بمكة منذ قدمت، وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من تأهل في بلد فليصل صلاة المقيم "

(مسند عثمان بن عفان رضي اللہ عنہ:ج،1:ص،496:رقم،443:ط،مؤسسۃ الرسالۃ)

الدر المختار میں ہے:

"(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل من نصف شهر لعدم فائدته۔

وفی الرد:

(قوله أو تأهله)۔۔۔ولو كان له أهل ببلدتين فأيتهما دخلها صار مقيما، فإن ماتت زوجته في إحداهما وبقي له فيها دور وعقار قيل لا يبقى وطنا له إذ المعتبر الأهل دون الدار كما لو تأهل ببلدة واستقرت سكنا له وليس له فيها دار وقيل تبقى. اهـ. (قوله أو توطنه) أي عزم على القرار فيه وعدم الارتحال وإن لم يتأهل، فلو كان له أبوان ببلد غير مولده وهو بالغ ولم يتأهل به فليس ذلك وطنا له إلا إذا عزم على القرار فيه وترك الوطن الذي كان له قبله شرح المنية۔"

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر:ج،2:ص،131:ط، سعید)

بدائع الصنائع ميں ہے:

"الأوطان ثلاثة: وطن أصلي: وهو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها.(ووطن) الإقامة: وهو أن يقصد الإنسان أن يمكث في موضع صالح للإقامة خمسة عشر يوما أو أكثر. (ووطن) السكنى: وهو أن يقصد الإنسان المقام في غير بلدته أقل من خمسة عشر يوما ۔۔۔ فالوطن الأصلي ينتقض بمثله لا غير وهو: أن يتوطن الإنسان في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها من بلدته فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا، حتى لو دخل فيه مسافرا لا تصير صلاته أربعا، وأصله أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - والمهاجرين من أصحابه - رضي الله عنهم - كانوا من أهل مكة وكان لهم بها أوطان أصلية، ثم لما هاجروا وتوطنوا بالمدينة وجعلوها دارا لأنفسهم انتقض وطنهم الأصلي بمكة، حتى كانوا إذا أتوا مكة يصلون صلاة المسافرين، حتى قال النبي - صلى الله عليه وسلم - حين صلى بهم: «أتموا يا أهل مكة صلاتكم فإنا قوم سفر» ؛ ولأن الشيء جاز أن ينسخ بمثله، ثم الوطن الأصلي يجوز أن يكون واحدا أو أكثر من ذلك بأن كان له أهل ودار في بلدتين أو أكثر ولم يكن من نية أهله الخروج منها، وإن كان هو ينتقل من أهل إلى أهل في السنة، حتى أنه لو خرج مسافرا من بلدة فيها أهله ودخل في أي بلدة من البلاد التي فيها أهله فيصير مقيما من غير نية الإقامة۔"

(كتاب الصلاة، فصل مایصیرالمسافر بہ مقیماً:ج،1:ص، 103:ط،سعید)

Sunday, 26 January 2025

نمازمیں ہر رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا

 نماز کی ہر رکعت میں سورۂ  فاتحہ سے پہلے اور سورۂ  فاتحہ کے بعد سورت سے پہلے بسم اللہ ضروری نہیں،  بلکہ امام اور تنہا نماز  پڑھنے والے مرد اورعورت کے لیے پہلی رکعت میں ثناء  یعنی "سبحانك اللّٰهم ..." مکمل اور تعوذ یعنی: أعوذ باللّٰه من الشیطٰن الرجیم پڑھنےکے بعد تسمیہ یعنی: بسم اللّٰه الر حمٰن الرحیم پڑھنا سنت ہے۔ اور  پہلی رکعت کے بعد باقی تمام رکعتوں میں  سورۂ فاتحہ کی تلاوت سے پہلے ثناء اور تعوذ کے بغیر صرف    بسم اللّٰه الر حمٰن الرحیم پڑھنا سنت ہے۔

  مقتدی امام کے  پیچھے  پہلی رکعت میں صرف ثناء  "سبحانك اللّٰهم ..."  پڑھ کر خاموش رہے گا؛  کیوں کہ مقتدی کے لیے امام کی اقتدا  میں قراءت جائز نہیں۔  تعوذ   (أعوذ باللّٰه من الشیطٰن الرجیم) اور تسمیہ (بسم اللّٰه الر حمٰن الرحیم) قراءت کے تابع ہیں۔ مسبوق (جس سے رکعت چھوٹ جائے) کے  لیے امام کے سلام کے بعد بقیہ نماز کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت سے پہلے  بسم اللّٰه الر حمٰن الرحیم پڑھنا سنت ہے۔

اور امام یا تنہا نماز پڑھنے والے شخص کے لیے ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد  سورت شروع کرنے سے پہلے بھی  بسم اللّٰه الر حمٰن الرحیم پڑھنا  مستحب ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(ثم يأتي بالتسمية) ويخفيها وهي من القرآن آية للفصل بين السور، كذا في الظهيرية فيما يكره في الصلاة. و لايتأدى بها فرض القراءة، كذا في الجوهرة النيرة. و يأتي بها في أولّ كلّ ركعة و هو قول أبي يوسف - رحمه الله -، كذا في المحيط. و في الحجة: وعليه الفتوى."

(الباب الرابع في صفة الصلاة/ لفصل الثالث في سنن الصلاة وآدابها وكيفيتها/ج: 1/ صفحہ: 74/ ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والمسبوق من سبقه الإمام بها أو ببعضها وهو منفرد) حتى يثني ويتعوذ ويقرأ. (قوله: والمسبوق من سبقه الإمام بها) أي بكل الركعات، بأن اقتدى به بعد ركوع الأخيرة، وقوله أو ببعضها: أي بعض الركعات (قوله: حتى يثني إلخ) تفريع على قوله منفرد فيما يقضيه بعد فراغ إمامه، فيأتي بالثناء والتعوذ لأنه للقراءة ويقرأ لأنه يقضي أول صلاته في حق القراءة كما يأتي؛ حتى لو ترك القراءة فسدت."

(باب الإمامة/ مطلب في أحكام المسبوق والمدرك اللاحق/ج: 1/ صفحہ: 596/ ط: ایچ، ایم، سعید)

Thursday, 23 January 2025

وعاشروھن بالمعروف:قرطبی

 السادسة : قوله تعالى : وعاشروهن بالمعروف أي على ما أمر الله به من حسن المعاشرة . والخطاب للجميع ، إذ لكل أحد عشرة ، زوجا كان أو وليا ؛ ولكن المراد بهذا الأمر في الأغلب الأزواج ، وهو مثل قوله تعالى : فإمساك بمعروف وذلك توفية حقها من المهر والنفقة ، وألا يعبس في وجهها بغير ذنب ، وأن يكون منطلقا في القول لا فظا ولا غليظا ولا مظهرا ميلا إلى غيرها . والعشرة : المخالطة والممازجة . ومنه قول طرفة :

فلئن شطت نواها مرة لعلى عهد حبيب معتشر
. جعل الحبيب جمعا كالخليط والغريق . وعاشره معاشرة ، وتعاشر القوم واعتشروا . فأمر الله سبحانه بحسن صحبة النساء إذا عقدوا عليهن لتكون أدمة ما بينهم وصحبتهم على الكمال ، فإنه أهدأ للنفس وأهنأ للعيش . وهذا واجب على الزوج ولا يلزمه في القضاء . وقال بعضهم : هو أن يتصنع لها كما تتصنع له . قال يحيى بن عبد الرحمن الحنظلي : أتيت محمد بن الحنفية فخرج إلي في ملحفة حمراء ولحيته تقطر من الغالية ، فقلت : ما هذا ؟ قال : إن هذه الملحفة ألقتها علي امرأتي ودهنتني بالطيب ، وإنهن يشتهين منا ما نشتهيه منهن . وقال ابن عباس رضي الله عنه : إني أحب أن أتزين لامرأتي كما أحب أن تتزين المرأة لي . وهذا داخل فيما ذكرناه . قال ابن عطية 
وإلى معنى الآية ينظر قول النبي صلى الله عليه وسلم : فاستمتع بها وفيها عوج أي لا يكن منك سوء عشرة مع اعوجاجها ؛ فعنها تنشأ المخالفة وبها يقع الشقاق ، وهو سبب الخلع .
السابعة : استدل علماؤنا بقوله تعالى : وعاشروهن بالمعروف على أن المرأة إذا كانت لا يكفيها خادم واحد أن عليه أن يخدمها قدر كفايتها ، كابنة الخليفة والملك وشبههما ممن لا يكفيها خادم واحد ، وأن ذلك هو المعاشرة بالمعروف . وقال الشافعي وأبو حنيفة : لا يلزمه إلا خادم واحد - وذلك يكفيها خدمة نفسها ، وليس في العالم امرأة إلا وخادم واحد يكفيها ؛ وهذا كالمقاتل تكون له أفراس عدة فلا يسهم له إلا لفرس واحد ؛ لأنه لا يمكنه القتال إلا على فرس واحد . قال علماؤنا : وهذا غلط ؛ لأن مثل بنات الملوك اللاتي لهن خدمة كثيرة لا يكفيها خادم واحد ؛ لأنها تحتاج من غسل ثيابها لإصلاح مضجعها وغير ذلك إلى ما لا يقوم به الواحد ، وهذا بين . والله أعلم

Monday, 20 January 2025

واشنگ مشین میں کپڑے دھونے کا طریقہ

 ناپاک کپڑوں کی پاکی کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں تین مرتبہ اس طرح  دھویا جائے کہ ہر مرتبہ نئے پانی سے دھو کر اچھی طرح سے نچوڑ لیا جائے،لہذا صورتِ مسئولہ میں واشنگ مشین میں  تین مرتبہ پانی ڈالنے کے بعد اگراِسپینر مشین (یعنی مشین کا وہ حصہ جس میں کپڑا ڈال کر گھمانے سے کپڑے اچھی طرح نچوڑ جاتے ہیں، اور کچھ حد تک خشک بھی ہوجاتے ہیں) میں کپڑوں کو ڈال دیا جائے، اور اِسپینر کے اوپر صاف پانی کا پائپ لگاکر اتنی دیر چلایا جائے کہ گندے پانی کی جگہ صاف پانی نیچے پائپ سے آنا شروع ہوجائے، تو یہ کپڑے پاک ہوجائیں گےاوراگر مذکورہ طریقے کے مطابق اسپینر مشین سے ہرمرتبہ نچوڑا نہ جائے    تو  اوپر سے صرف تین مرتبہ  پانی ڈالنے سے کپڑے پاک نہ ہوں گے ، بلکہ بدستور ناپاک رہیں گے،ایسے  تمام کپڑوں کو دوبارہ پاک کرنا ضروری ہوگا، چاہے نجاست کی جگہ معلوم ہو یا نہ ہو، دونوں صورتوں میں کپڑے ناپاک رہیں گے۔ 

درمختار  میں ہے:

"(و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لايقطر."

 (كتاب الطهارة، باب الأنجاس :1/ 331،ط:سعيد)