الف) وطن اصلی اور وطن اقامت کی تعریف :۔ وطن اصلی وہ مقام ہے جہاں انسان کی پیدائش ہوئی ہواور وہاں رہائش پذیر بھی ہو یاجہاں اس نے شادی کی ہو یا جہاں پرمستقل رہنے کا ارادہ ہو ، اور وطن اقامت:وہ جگہ ہے،جہاں پر انسان کا پندرہ دن یا اس سے زیادہ کے قیام کا ارادہ ہو، مستقل رہنے کا ارادہ نہ ہو اور وہ وطن اصلی بھی نہ ہو۔
(ب) قصر اور اتمام کا دار ومدار نہ تو زمینوں اور جائیداد کی موجودگی پر ہے، نہ گھر کی موجودگی پر ہے، اور نہ شناختی کارڈ کے مستقل پتہ پر ہے، بلکہ قصر واتمام کا دار ومدار وطن اصلی اور وطن اقامت پر ہے،یعنی جب کوئی بندہ وطن اصلی سے شرعی مسافت کے بقدر سفر کے لیے نکلے اور کسی ایک مقام پر پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو، تو وہ قصر کرتا رہے گا،جب تک کہ وہ وطن اصلی واپس نہ لوٹے اور جیسے ہی وطن اصلی واپس لوٹے گا تو دوبارہ اتمام کرےگا، تاہم اگر کوئی بندہ وطن اصلی سے شرعی مسافت کے بقدر سفر کےلیے نکالا لیکن کسی ایک جگہ پر پندرہ دن سے زائد ٹھہرنے کا ارادہ ہے تو وہ وہاں پر اتمام کرے گا قصر نہیں کرےگا، نیز اگر کوئی آدمی اپنے آبائی وطن کو چھوڑ مستقل طور پر دوسری جگہ پر رہائش اختیار کرے،تو وہی رہائش والا مقام اس کا وطن اصلی بن جائے گا، اور جب وہ اپنے آبائی وطن پندرہ دن سے کم کے ارادے سے آئے گا تو وہ مسافر شمار ہوکر قصر کرے گا ۔
(ج) قصر اللہ تعالی کی طرف سے بندے کے لیے ایک سہولت ہے، لاعلمی کی وجہ سےاس میں بحث و مباحثہ اور لڑائی جھگڑے نہیں کرنے چاہیے اور نہ اس کو جائیداد سے بے دخلی کا سبب بنانا چاہیے، بلکہ جو بھی مسئلہ در پیش ہو ، اس کے بارے میں کسی مستند مفتی یامستند دار الافتاء سے رہنمائی حاصل کرکے اس پربلا چوں چراں عمل کرنا چاہیے، تاکہ لڑائی جھگڑے کا سبب نہ بنے۔
تمہید کے بعد سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں۔
1:اگر کوئی آدمی اپنےاہل وعیال سمیت اپنے آبائی وطن کو مستقل طور پر چھوڑ کرشرعی مسافت کے بقدر دور جاکردوسرے مقام پر مستقل رہائش پذیر ہوجائےاور آئندہ پہلے والے وطن اصلی میں مستقل رہائش اختیار کرنے کاکوئی ارادہ نہ ہو(یعنی دوسری جگہ کو وطن اصلی بنالے) تو اس کا آبائی وطن اس کا وطن اصلی نہیں رہتا، بلکہ اب اس کا وطن اصلی وہی ہوگا، جہاں پر اس نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہائش اختیار کی ہے، لہٰذا اگر یہی شخص کبھی کبھی آبائی وطن جاتاہو اور وہاں پر پندرہ دن سے کم رہنے کا ارادہ ہو تو وہاں قصر کرے گا اتمام نہیں کرےگا۔
2: جس کی پیدائش دوسرے شہر کی ہے یا پیدائش تو آبائی وطن کی ہے لیکن آبائی وطن کو بالکلیہ چھوڑ کر دوسرے شہر میں منتقل ہوگیا ہے اور وہاں پر مستقل رہائش اختیار کی ہے،تو دونوں کا ایک ہی حکم ہے، یعنی دونوں جب آبائی وطن آئیں گے، اور پندرہ دن سے کم رہنے کا ارادہ ہوگا، تو وہ قصرکریں گے اتمام جائز نہیں
۔
مسند احمد میں ہے:
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي ذباب، عن أبيه:أن عثمان بن عفان صلى بمنى أربع ركعات، فأنكره الناس عليه، فقال: يا أيها الناس، إني تأهلت بمكة منذ قدمت، وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من تأهل في بلد فليصل صلاة المقيم "
(مسند عثمان بن عفان رضي اللہ عنہ:ج،1:ص،496:رقم،443:ط،مؤسسۃ الرسالۃ)
الدر المختار میں ہے:
"(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل من نصف شهر لعدم فائدته۔
وفی الرد:
(قوله أو تأهله)۔۔۔ولو كان له أهل ببلدتين فأيتهما دخلها صار مقيما، فإن ماتت زوجته في إحداهما وبقي له فيها دور وعقار قيل لا يبقى وطنا له إذ المعتبر الأهل دون الدار كما لو تأهل ببلدة واستقرت سكنا له وليس له فيها دار وقيل تبقى. اهـ. (قوله أو توطنه) أي عزم على القرار فيه وعدم الارتحال وإن لم يتأهل، فلو كان له أبوان ببلد غير مولده وهو بالغ ولم يتأهل به فليس ذلك وطنا له إلا إذا عزم على القرار فيه وترك الوطن الذي كان له قبله شرح المنية۔"
(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر:ج،2:ص،131:ط، سعید)
بدائع الصنائع ميں ہے:
"الأوطان ثلاثة: وطن أصلي: وهو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها.(ووطن) الإقامة: وهو أن يقصد الإنسان أن يمكث في موضع صالح للإقامة خمسة عشر يوما أو أكثر. (ووطن) السكنى: وهو أن يقصد الإنسان المقام في غير بلدته أقل من خمسة عشر يوما ۔۔۔ فالوطن الأصلي ينتقض بمثله لا غير وهو: أن يتوطن الإنسان في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها من بلدته فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا، حتى لو دخل فيه مسافرا لا تصير صلاته أربعا، وأصله أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - والمهاجرين من أصحابه - رضي الله عنهم - كانوا من أهل مكة وكان لهم بها أوطان أصلية، ثم لما هاجروا وتوطنوا بالمدينة وجعلوها دارا لأنفسهم انتقض وطنهم الأصلي بمكة، حتى كانوا إذا أتوا مكة يصلون صلاة المسافرين، حتى قال النبي - صلى الله عليه وسلم - حين صلى بهم: «أتموا يا أهل مكة صلاتكم فإنا قوم سفر» ؛ ولأن الشيء جاز أن ينسخ بمثله، ثم الوطن الأصلي يجوز أن يكون واحدا أو أكثر من ذلك بأن كان له أهل ودار في بلدتين أو أكثر ولم يكن من نية أهله الخروج منها، وإن كان هو ينتقل من أهل إلى أهل في السنة، حتى أنه لو خرج مسافرا من بلدة فيها أهله ودخل في أي بلدة من البلاد التي فيها أهله فيصير مقيما من غير نية الإقامة۔"
(كتاب الصلاة، فصل مایصیرالمسافر بہ مقیماً:ج،1:ص، 103:ط،سعید)