اگر منھ سے نکلنے والا خون تھوک پر غالب ہو یا اس کے برابر ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں، وینقضہ دم غلب علی بزاق أو ساواہ لا المغلوب بالبزاق کذا في التنویر مع الدر والر د (۱: ۲۶۷)
Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان
Saturday, 3 May 2025
Sunday, 27 April 2025
موبائل توڑنے کا ضمان
جاندار کی تصویریا ویڈیو بناناشرعاً ناجائز ہے، اس لیے کسی کی اجازت کے بغیر بھی تصویر یا ویڈیوبنانا جائز نہیں ،مزید قباحت کا باعث ہے اور اگر کوئی اپنی تصویر یا ویڈیوبنانےکی اجازت دے تب بھی اس کی تصویر یا ویڈیوبنانا جائز نہیں ہے ۔
صحیح بخاری میں ہے:
"عن أبي طلحة رضی اللہ عنہ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:لا تدخل الملائكة بيتاً فيه صورة".
(صحيح البخاری ، كتاب بدء الخلق، رقم الحدیث:3226، ص:385، ط:دار ابن الجوزی)
وفیہ ایضاً:
"عن عبد الله رضی اللہ عنه ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون".
(صحيح البخاری ، كتاب اللباس، باب:عذاب المصورين، رقم الحدیث:5950، ص:463، ط:دار ابن الجوزی)
ضمان توڑنے والے پر ہوگا۔
لما في الشامية:
وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عند مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ ورأى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى... والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال (باب التعزير،مطلب: في التعزيربأخذ المال،698،ط:رشيدية)
و في شرح القواعد الفقهية:
' المباشر ' للفعل ' ضامن ' لما تلف بفعله إذا كان متعدياً فيه ، ويكفي لكونه متعدياً أن يتصل فعله في غير ملكه بمالا مسوغ له فيه سواء كان نفس الفعل سائغاً....أو غيرسائغ ...' وإن لم يتعمد ' الإتلاف ، لأن الخطأ يرفع عنه إثم مباشرة الإتلاف ولا يرفع عنه ضمان المتلف بعد أن كان متعدياً.( ( القاعدة الحادية والتسعون ( المادة / 92 ،ص:453،دارالقلم) )
Wednesday, 23 April 2025
فسخ نکاح کے لیے شوھر کی رضامندی ضروری نہیں
خلع کے علاوہ بعض مخصوص حالات میں قاضی شرعی کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر بھی میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، اس لیے کہ نکاح کے بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں جو نکاح کے مصالح اور مقاصد میں سے ہیں اور قضاءً اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے ، اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزورِ عدالت انہیں وصول کیا جاسکتا ہے، مثلًا بیوی کا نان ونفقہ اور حقوقِ زوجیت ادا کرنا وغیرہ، اگر شوہر ان کی ادائیگی سے عاجز ہو تو عورت کو طلاق دے دے ایسی صورت میں اگر وہ طلاق دینے سے انکار کرتا ہے یا شوہر طلاق دینے کے قابل نہیں ہے تو قاضی اس کا قائم مقام بن کر میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، کیوں کہ اس کو ولایت حاصل ہوتی ہے، بیوی خود تفریق نہیں کرسکتی۔
جن اسباب کی بنا پر قاضی شرعی، میاں بیوی کا نکاح فسخ کرسکتا ہے وہ درج ذیل ہیں:
1۔شوہر پاگل یا مجنون ہو۔
2۔ شوہر نان و نفقہ ادا نہ کرتا ہو۔
3۔ شوہر نامرد ہو۔
4۔ شوہر مفقود الخبر یعنی بالکل لاپتہ ہو۔
5۔ شوہر غائب غیر مفقود ہو اور عورت کے لیے خرچ وغیرہ کی کفالت کا انتظام نہ ہو یا عورت کے معصیت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔
6۔ضربِ مبرّح یعنی شوہر بیوی کو سخت مار پیٹ کرتا ہو۔
ان اسباب میں سےکسی کی موجودگی میں اگر عورت مسلمان جج کی عدالت میں دعویٰ دائر کرکے گواہوں سے اپنے مدعی کو ثابت کردیتی ہے اورقاضی حسبِ شرائط نکاح فسخ کردیتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ معتبر ہوگا اور اس میں شوہر کی اجازت ضروری نہیں ہوگی ، اسی طرح اگر شوہر عدالت میں حاضر نہ ہو تو عدالت شوہر کی غیر موجودگی میں بھی نکاح ختم کرانے کا اختیار رکھتی ہے، نکاح فسخ ہوجانے کے بعد عورت عدت گزار کر دوسری جگہ شادی کرنے میں آزاد ہوگی۔ (تفصیل کے لیے الحیلۃ الناجزہ للحلیلۃ العاجزہ،(مؤلف:حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی) ؒ کا مطالعہ کریں )
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."
(المبسوط للسرخسي (6 / 173) باب الخلع، ط: دارالمعرفة، بیروت)
Tuesday, 22 April 2025
منگنی نکاح نہیں
منگنی کی مجلس تھی جس میں رشتہ دینے کا وعدہ ہوا ، باقاعدہ نکاح کا یاایجاب وقبول نہیں ہو ا، اس کا حکم یہ ہےکہ یہ محض ایک وعدہ ہے نکاح نہیں ہے۔اس وعدہ پر قائم رہنا ضروری ہے بلا عذ ر اس کو توڑنا جائز نہیں،شرعا نکاح کے لئے مجلس نکاح میں باقاعدہ گواہوں کی موجودگی میں شرعی مہر کے عوض ایجا ب وقبول ضروری ہے ۔
حوالہ جاترد المحتار (9/ 204) لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد ، وإن كان للعقد فنكاح .ا هـ .
بچپن کے وعدہ نکاح کی حیثیت
جب بھایی نے اپنی بہن سے جبکہ ان کی بیٹی نابالغہ تھی یہ وعدہ کیا کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح تمہارے بیٹے سے کردوں گا ۔اس کے بعد نکاح بموجودگی گواہان نہیں ہوا تواس شخص نے اپنی بیٹی کے نکاح سے متعلق اس کے بچپن میں اپنی بہن سے محض وعدہ نکاح کیا تھا، باقاعدہ نکاح نہیں کیا تھا (جیسا کہ سوال میں وضاحت موجود ہے) پھر اس کا انتقال ہوگیا ۔اس وعدہ نکاح سے نکاح نہیں ہوا بچپن میں کیا ہوا وعدہ محض وعدہ ہے، نکاح نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.
قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اهـ."
(كتاب النكاح، جلد:3، صفحہ:11، طبع: سعيد)
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
"خطبہ اور منگنی وعدۂ نکاح ہے، اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا، اگرچہ مجلس خطبہ کی رسوم پوری ہوگئی ہوں، البتہ وعدہ خلافی کرنا بدون کسی عذر کے مذموم ہے، لیکن اگر مصلحت لڑکی کی دوسری جگہ نکاح کرنے میں ہے تو دوسری جگہ نکاح لڑکی مذکورہ کا جائز ہے۔"
(کتاب النکاح، جلد:7، صفحہ: 110، طبع: دار الاشاعت)
Sunday, 20 April 2025
وعدہ نکاح نکاح نہیں
جب مذکورہ شخص نے اپنی بیٹی کے نکاح سے متعلق اس کے بچپن میں محض وعدہ کیا تھا، باقاعدہ نکاح نہیں کیا تھا ، بچپن میں کیا ہوا وعدہ محض وعدہ اور منگنی ہے، نکاح نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.
قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اهـ."
(كتاب النكاح، جلد:3، صفحہ:11، طبع: سعيد)
صرف نکاح کا وعدہ ہوا ہے اس لیے ابھی تک دونوں کا نکاح قائم نہیں ہوا،اور لڑکی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
"الخطبة مجرد وعد بالزواج، وليست زواجاً ، فإن الزواج لا يتم إلا بانعقاد العقد المعروف، فيظل كل من الخاطبين أجنبياً عن الآخر، ولا يحل له الاطلاع إلا على المقدار المباح شرعاً وهو الوجه والكفان...الخطبة والوعد بالزواج وقراءة الفاتحة وقبض المهر وقبول الهدية، لا تكون زواجاً."
(القسم السادس: الأحوال الشخصية، الباب الأول: الزواج وآثاره، الفصل الأول: مقدمات الزواج، خامسا ما يترتب على الخطبة، 6492/9، ط:دار الفکر)
ہدایہ میں ہے:
"قال: " النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي " لأن الصيغة وإن كانت للإخبار وضعا فقد جعلت للإنشاء شرعا دفعا للحاجة " وينعقد بلفظين يعبر بأحدهما عن الماضي وبالآخر عن المستقبل مثل أن يقول زوجني فيقول زوجتك."
"قال: " ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف " قال رضي الله عنه:اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله عليه الصلاة والسلام " لا نكاح إلا بشهود."
(کتاب النکاح ،325،26/2،ط:رحمانیة)
Saturday, 5 April 2025
عقیقہ میں ایک بکرا یابکری ذبح کرنا
صاحبِ استطاعت افراد کے لیے اپنے نومولود بچہ کا عقیقہ کرنا مستحب ہے، جس کا مستحب وقت پیدائش کا ساتوں روز ہے، اگر ساتویں روز عقیقہ نہ کرسکے تو چودہویں روز کرلے، اور چودہویں روز نہ کیا تو اکیسویں روز کرلے، اور کسی مجبوری کے بغیر اس سے زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، کسی عذر کی وجہ سے اگر تاخیر ہوجائے تو کوشش کرکے بلوغت سے پہلے پہلے کرلینا چاہیے، تاہم اگر اس وقت بھی حیثیت نہ ہو تو بعد میں جب بھی حیثیت ہو کرسکتے ہیں، نیز صاحبِ حیثیت فرد کے لیے بیٹے کے عقیقہ میں دو بکرے کرنا مسنون ہے، تاہم اگر دو بکرے کرنے کی استطاعت نہ ہو تو ایک بکرا بطور عقیقہ ذبح کرنا بھی کافی ہے، اس لیے کہ بعض احادیث سے ایک بھیڑ عقیقہ میں ذبح کرنا بھی ثابت ہے۔
سنن ترمذی میں ہے:
’’عن سمرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: الغلام مرتهن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع، و يسمي و يحلق رأسه. قال الإمام الترمذي: و العمل علي هذا عند أهل العلم، يستحبون أن يذبح عن الغلام يوم السابع، فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم إحدی و عشرين‘‘. (أبواب الأضاحي، باب ما جاء في العقيقة، ١/ ٢٧٨، ط: سعيد)
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:
"و وقتها بعد تمام الولادة إلى البلوغ، فلايجزئ قبلها، وذبحها في اليوم السابع يسن، والأولى فعلها صدر النهار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة؛ للتبرك بالبكور". (٢/ ٢١٣)
المستدرك میں ہے:
" عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا، بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه". ( المستدرك علی الصحیحین للحاکم ، ٤ ٢٦٦، رقم الحدیث: 7595، کتاب الذبائح، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
’’يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم‘‘.( ٦ / ٣٣٦، کتاب الاضحیۃ، ط: سعید
Friday, 4 April 2025
تراویح کے بعد دعاء
نبی کریم ﷺ سے فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا ثابت ہے، لیکن اجتماعی دعا پر ایسا التزام کرنا کہ جو شخص اس اجتماعی دعا میں شامل نہ ہو رہا اس پر طعن و تشنیع کی جائے درست نہیں، تراویح کے بعد بھی اگر لازم سمجھے بغیر دعا کر لی جائے تو گنجائش ہے، اگر یہ دعاوتر کے بعد کی جائے تو اس کی بھی اجازت ہے، اور اگر کوئی شخص یہ دعا نہیں کرتا تو اس پر بھی لعن طعن نہ کی جائے۔ البتہ وتر کے بعد نوافل ادا کرکے پھر سے اجتماعی دعا سے اجتناب کیا جائے۔ (فتاوی محمودیہ ، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و القنوت 7 / 169 ط:فاروقیہ) (کفایت المفتی 9 / 453 ط: دار الاشاعت
فکر اقبال
شبے پیش خدا بگریستم زارِ
مسلماناں چرا زارند و خوارندندا آمد ، نمی دانی کہ ایں قوم
دلے دارند و محبوبے نہ دارند
Tuesday, 1 April 2025
سورہ توبہ درمیان سے پڑھیں تو بسم اللہ پڑھیں کہ نہیں
اگر سورۂ توبہ کے درمیان یا شروع سے ہی تلاوت کی ابتدا کی جائے تو اعوذ باللہ اور بسم اللہ دونوں پڑھنی چاہیے؛ کیوں کہ یہ تلاوت کے مطلقاً آداب میں سے ہے، اور اگر قاری اوپر سورۂ انفال سے پڑھتا ہوا آرہا ہے اور آگے سورۂ توبہ پڑھنے کا ارادہ ہے تو اب درمیان میں اعوذ باللہ اور بسم اللہ نہیں پڑھی جائے گی۔ (معارف القرآن، مفتی محمد شفیع صاحب، سورہ توبہ)
الفتاوى الهندية (5/ 316):
"وعن محمد بن مقاتل - رحمه الله تعالى - فيمن أراد قراءة سورة أو قراءة آية فعليه أن يستعيذ بالله من الشيطان الرجيم ويتبع ذلك بسم الله الرحمن الرحيم، فإن استعاذ بسورة الأنفال وسمى ومر في قراءته إلى سورة التوبة وقرأها كفاه ما تقدم من الاستعاذة والتسمية، ولا ينبغي له أن يخالف الذين اتفقوا وكتبوا المصاحف التي في أيدي الناس، وإن اقتصر على ختم سورة الأنفال فقطع القراءة، ثم أراد أن يبتدئ سورة التوبة كان كإرادته ابتداء قراءته من الأنفال فيستعيذ ويسمي، وكذلك سائر السور، كذا في المحيط
Monday, 31 March 2025
عیدین میں تکبیر ات زیادہ پڑھنا
اگر امام نے عید کی نماز میں چھ سے زائد تکبیرات کہہ دیں تو نماز ہوجائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اور مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا۔ مقتدی بھی چھ سے زائد تکبیرات میں امام کی اتباع کریں گے، تاہم احناف کے نزدیک تکبیرات زوائد کی تعداد چوں کہ چھ ہے، لہذا بالقصد چھ سے زائد مرتبہ تکبیرات کہنا درست نہیں ہے۔
تنوير الابصار مع الدر المختار میں ہے:
’’(وَيُصَلِّي الْإِمَامُ بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ مُثْنِيًا قَبْلَ الزَّوَائِدِ، وَهِيَ ثَلَاثُ تَكْبِيرَاتٍ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ) وَلَوْ زَادَ تَابِعُهُ إلَى سِتَّةَ عَشَرَ؛ لِأَنَّهُ مَأْثُورٌ‘‘.
فتاوی شامیمیں ہے:
’’(قَوْلُهُ: مُثْنِيًا قَبْلَ الزَّوَائِدِ) أَيْ قَارِئًا الْإِمَامُ، وَكَذَا الْمُؤْتَمُّ الثَّنَاءَ قَبْلَهَا فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ؛ لِأَنَّهُ شَرَعَ فِي أَوَّلِ الصَّلَاةِ، إمْدَادٌ؛ وَسُمِّيَتْ زَوَائِدَ لِزِيَادَتِهَا عَنْ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ وَالرُّكُوعِ... (قَوْلُهُ: وَلَوْ زَادَ تَابِعُهُ إلَخْ) لِأَنَّهُ تَبَعٌ لِإِمَامِهِ فَتَجِبُ عَلَيْهِ مُتَابَعَتُهُ وَتَرْكُ رَأْيِهِ بِرَأْيِ الْإِمَامِ؛ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «إنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ»، فَمَا لَمْ يَظْهَرْ خَطَؤُهُ بِيَقِينٍ كَانَ اتِّبَاعُهُ وَاجِبًا، وَلَايَظْهَرُ الْخَطَأُ فِي الْمُجْتَهَدَاتِ، فَأَمَّا إذَا خَرَجَ عَنْ أَقْوَالِ الصَّحَابَةِ فَقَدْ ظَهَرَ خَطَؤُهُ بِيَقِينٍ؛ فَلَا يَلْزَمُهُ اتِّبَاعُهُ، وَلِهَذَا لَوْ اقْتَدَى بِمَنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ الرُّكُوعِ أَوْ بِمَنْ يَقْنُتُ فِي الْفَجْرِ أَوْ بِمَنْ يَرَى تَكْبِيرَاتِ الْجِنَازَةِ خَمْسًا لَايُتَابِعُهُ لِظُهُورِ خَطَئِهِ بِيَقِينٍ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ كُلَّهُ مَنْسُوخٌ بَدَائِعُ..... (قَوْلُهُ: إلَى سِتَّةَ عَشَرَ) كَذَا فِي الْبَحْرِ عَنْ الْمُحِيطِ. وَفِي الْفَتْحِ قِيلَ: يُتَابِعُهُ إلَى ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَقِيلَ: إلَى سِتَّ عَشْرَةَ. اهـ. قُلْت: وَلَعَلَّ وَجْهَ الْقَوْلِ الثَّانِي حَمْلُ الثَّلَاثَ عَشْرَةَ الْمَرْوِيَّةِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى الزَّوَائِدِ كَمَا مَرَّ عَنْ الشَّافِعِيِّ، وَهِيَ مَعَ الثَّلَاثِ الْأَصْلِيَّةِ تَصِيرُ سِتَّ عَشْرَةَ، وَإِلَّا لَمْ أَرَ مَنْ قَالَ بِأَنَّ الزَّوَائِدَ سِتَّ عَشْرَةَ، فَلْيُرَاجَعْ، وَقَدْ رَاجَعْت مَجْمَعَ الْآثَارِ لِلْإِمَامِ الطَّحَاوِيِّ فَلَمْ أَرَ فِيمَا ذَكَرَهُ مِنْ الْأَحَادِيثِ وَالْآثَارِ عَنْ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ أَكْثَرَ مِمَّا مَرَّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَهَذَا يُؤَيِّدُ الْقَوْلَ الْأَوَّلَ، وَلِذَا قَدَّمَهُ فِي الْفَتْحِ، وَنَسَبَهُ فِي الْبَدَائِعِ إلَى عَامَّةِ الْمَشَايِخِ، عَلَى أَنَّ ضَمَّ الثَّلَاثِ الْأَصْلِيَّةِ إلَى الزَّوَائِدِ بَعِيدٌ جِدًّا؛ لِأَنَّ الْقِرَاءَةَ فَاصِلَةٌ بَيْنَهُمْ، فَتَأَمَّلْ‘‘. ( بَابُ الْعِيدَيْنِ، ٢ / ١٧٢ - ١٧٣
Thursday, 27 March 2025
شوال کے چھ روزوں کی اھمیت
شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس کی فضیلت وارد ہوئی ہے، چناں چہ رسول ﷲصلی ﷲعلیہ وسلم کاارشادِ گرامی صحیح سندکے ساتھ حدیث کی مستندکتابوں میں موجودہے:
’’عن أبي أیوب عن رسول اﷲﷺ قال: من صام رمضان ثم أتبعه ستًّا من شوال فذاک صیام الدهر‘‘. رواه الجماعة إلا البخاري والنسائي‘‘. ( اعلاء السنن لظفر احمد العثمانی -کتاب الصوم - باب استحباب صیام ستۃ من شوال وصوم عرفۃ -رقم الحدیث ۲۵۴۱- ط: ادارۃ القرآن کراچی )
ترجمہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اورپھرشوال کے چھ روزے رکھے تویہ ہمیشہ (یعنی پورے سال)کے روزے شمارہوں گے‘‘۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے وعدہ کے مطابق ہر نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ملتا ہے، گویا رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے، اور شوال کےچھ روزے ساٹھ روزوں کے برابر ہوئے، جو دو ماہ کے مساوی ہیں، اس طرح رمضان کے ساتھ شوال کے روزے رکھنے والاگویا پورے سال روزہ رکھنے والا ہوجاتا ہے۔
شوال کے چھ روزے یکم شوال یعنی عید کے دن کو چھوڑ کر شوال کی دوسری تاریخ سے لے کر مہینہ کے آخر تک الگ الگ کرکے اور اکٹھے دونوں طرح رکھے جاسکتے ہیں۔ لہذا ان روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے؛ کیوں کہ یہ مستحب روزہ ہے، جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 435):
"(وندب تفريق صوم الست من شوال) ولا يكره التتابع على المختار خلافاً للثاني حاوي. والإتباع المكروه أن يصوم الفطر وخمسة بعده فلو أفطر الفطر لم يكره بل يستحب ويسن ابن كمال" .
(قوله: على المختار) قال صاحب الهداية في كتابه التجنيس: إن صوم الستة بعد الفطر متتابعةً منهم من كرهه، والمختار أنه لا بأس به؛ لأن الكراهة إنما كانت؛ لأنه لايؤمن من أن يعد ذلك من رمضان فيكون تشبهاً بالنصارى والآن زال ذلك المعنى اهـ ومثله في كتاب النوازل لأبي الليث، والواقعات للحسام الشهيد، والمحيط البرهاني، والذخيرة. وفي الغاية عن الحسن بن زياد: أنه كان لايرى بصومها بأس،اً ويقول: كفى بيوم الفطر مفرقاً بينهن وبين رمضان اهـ وفيها أيضاً عامة المتأخرين لم يروا به بأساً.
واختلفوا هل الأفضل التفريق أو التتابع اهـ. وفي الحقائق: صومها متصلاً بيوم الفطر يكره عند مالك، وعندنا لايكره وإن اختلف مشايخنا في الأفضل.
وعن أبي يوسف أنه كرهه متتابعاً والمختار لا بأس به اهـ وفي الوافي والكافي والمصفى يكره عند مالك، وعندنا لايكره، وتمام ذلك في رسالة تحرير الأقوال في صوم الست من شوال للعلامة قاسم، وقد رد فيها على ما في منظومة التباني وشرحها من عزوه الكراهة مطلقاً إلى أبي حنيفة وأنه الأصح بأنه على غير رواية الأصول وأنه صحح ما لم يسبقه أحد إلى تصحيحه وأنه صحح الضعيف وعمد إلى تعطيل ما فيه الثواب الجزيل بدعوى كاذبة بلا دليل، ثم ساق كثيراً من نصوص كتب المذهب، فراجعها، فافهم. (قوله: والإتباع المكروه إلخ) العبارة لصاحب البدائع، وهذا تأويل لما روي عن أبي يوسف على خلاف ما فهمه صاحب الحقائق كما في رسالة العلامة قاسم، لكن ما مر عن الحسن بن زياد يشير إلى أن المكروه عند أبي يوسف تتابعها وإن فصل بيوم الفطر فهو مؤيد لما فهمه في الحقائق، تأمل
Sunday, 23 March 2025
خلع کا جواز
اگر زوجین میں نبھاؤ کی کوئی شکل نہ رہے اور شوہر بلاعوض طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو ،تو شریعت نے اس طرح کی صورت حال میں عورت کو یہ تجویز دی ہے کہ وہ اپنے شوہر سے کچھ مال کے عوض اس کی رضامندی سےخلع لے لے،لیکن شرعاً خلع صحیح ہونے کے لیے شوہر کا اسے قبول کرنا ضروری ہے۔یک طرفہ خلع یاشوہر کی رضامندی کے بغیر کسی عدالت کاخلع دیناشرعاً معتبر نہیں ہے۔شوہر کا خلع دینے کی صورت میں عورت کو ایک طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے اور عورت پر مال کی ادائیگی لازم ہوتی ہے۔اس کے بعد عورت پر عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو،اگر حمل ہے تو بچہ کی پیدائش تک)لازم ہے،البتہ اس کے بعد اگر دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو دوگواہوں کی موجودگی میں تجدید مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں،اس صورت میں شوہر کے پاس آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔
لیکن اگرشوہر نے تین کی نیت کی یا خلع نامہ میں تین طلاق کا ذکر ہو تو پھر عورت شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگی، البتہ اگر عورت سابقہ شوہر کی عدت پوری کرکے دوسری جگہ نکاح کرلےاور دوسرے شوہر کے ساتھ جسمانی تعلق ہوجانے کے بعد دوسرے شوہر کاانتقال ہوجائے یا وہ خود ہی اسے طلاق دے دے اور اس کی عدت بھی گزر جائے، تو مذکورہ عورت کے لیے پہلے شوہر سے نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرنا درست ہوگا۔
قرآنِ کریم میں ہے:
"{وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأْخُذُوْا مِمَّا اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلاَّ اَنْ یَّخَافَا اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ تِلْك حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلاَ تَعْتَدُوْهَا وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الظَّالِمُوْنَ}"( البقرۃ : 229)
ترجمہ: اور تم کو یہ روا نہیں ہے کہ عورتوں کو دیا ہوا کچھ بھی مال اُن سے واپس لو ، مگر یہ کہ جب میاں بیوی اِس بات سے ڈریں کہ اللہ کے اَحکام پر قائم نہ رہ سکیں گے ۔ پس اگر تم لوگ اِس بات سے ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہیں گے تو اُن دونوں پر کچھ گناہ نہیں ہے اِس میں کہ عورت بدلہ دے کر چھوٹ جائے ، یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ، سو اُن سے آگے نہ بڑھو ، اور جو کوئی اللہ کی حدود سے آگے بڑھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیں ۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ (حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا)پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں ثابت کے اخلاق اور اُن کی دین داری کے بارے میں تو کوئی عیب نہیں لگاتی ؛ لیکن مجھے اُن کی ناقدری کا خطرہ ہے ( اِس لیے میں اُن سے علیحدگی چاہتی ہوں ) تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اُنہوں نے جو باغ تمہیں مہر میں دیا ہے وہ تم اُنہیں لوٹادوگی ؟ ‘‘ تو اہلیہ نے اِس پر رضامندی ظاہر کی ، تو پیغمبر علیہ السلام نے حضرت ثابت کو بلاکر فرمایا : ’’ اپنا باغ واپس لے لو اوراِنہیں طلاق دے دو ‘‘ ۔
(سنن ابی داود،باب فی الخلع،ج۳،ص۵۴۵،ط؛دار الرسالۃ العالمیۃ)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية
(وشرطه) شرط الطلاق(وحكمه) وقوع الطلاق البائن كذا في التبيين. و تصح نية الثلاث فيه. و لو تزوجها مرارًا و خلعها في كل عقد عندنا لايحل له نكاحها بعد الثلاث قبل الزوج الثاني، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان."
(کتاب الطلاق،باب الخلع،ج۱،ص۴۸۸،ط؛دار الفکر)