https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 21 November 2020

کشمیری خانہ بدوشوں پر مظالم

 جموں کشمیر میں صدیوں سے بکروال اور گوجر برادری  جنگلات میں عارضی رہائشی مکانات بناکر آباد ہے یہ سال میں دومرتبہ ہجرت کرتے ہیں.جنگلات میں ان کے عارضی مکانات آجکل منہدم کئے جارہے جو  دفعہ 370کی منسوخی کا نتیجہ ہے کہ اب کشمیریوں کوگویا جنگلات میں بھی سرچھپانے کی اجازت نہیں.ہندوستان کی موجودہ حکومت نے کشمیریوں کادائرۂ حیات تنگ کرنے کے لئے ان کے جنگلات میں عارضی مکانات منہدم کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ حکومت انسانیت کی دشمن اور بربریت کی عادی ہے.دفعۂ مذکور منسوخ کرتے وقت ترقی کے وعدے کئے گئے تھے اب سخت سردی میں غریب اور بے سہاراقبائلی اورچرواہوں کے گھر منہدم کئے جارہے ہیں.جس قانون کا سہارالے کر یہ کام انجام دیاجارہاہے اس کے نفاذ سے برسہابرس پہلے یہ لوگ یہاں آباد تھے آج انہیں حرف غلط کی طرح مٹانے کاحق کس نے دیدیا؟ سپریم کورٹ ارنب گوسوامی کی ضمانت عرضی تو سننے کاوقت رکھتا ہے لیکن اس کے پاس دفعہ 370کے معاملہ کوسننے کاوقت نہیں !گویاکروڑوں کشمیری عوام کے مفادات جس عرضی سے وابستہ ہیں اس کو سننے کاوقت نہیں !البتہ حکومت نوازبکاؤصحافی جسےایک مقدمۂ قتل میں پولیس نے گرفتار کیاتھا اس کو ایک ہفتہ کے اندر سپریم کورٹ نے ضمانت دیدی  اسے سننے کا وقت ہے!جب کہ متعدد صحافی آج تک بلاوجہ جیلوں میں بند ہیں انہیں سننے کاوقت تک نہیں !ادھر حکومت ہند کے قدیم بہی خواہ بلکہ دیرینہ ضمیرفروش وزیرشاہنواز حسین نے کل ہی کہا ہے کہ" میں خداکوحاضرناظرجانتے ہوئے کہتاہوں کہ اب دفعہ 370کوکشمیرمیں کوئی طاقت بحال نہیں کرسکتی" .کسی برسراقتدار پارٹی کے وزیرکااس طرح کھلے عام دعوی صاف طورپر ثابت کرتاہے کہ ہندوستان میں عدلیہ کو مکمل طور سے ہائی جیک کرلیا گیا ہے.وہ حکومت کے خلاف کوئی فیصلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی .اسی لئے کشمیری عوام کوروناسے پہلے ہی پوری دنیاسے مکمل طورسے کٹ آف کردئے گئے,جوغریب جنگلات میں بھیڑ بکریاں پال کرگزاراکرتے تھے ان کے بھی گھر منہدم کئے جارہے ہیں!کیا کوئی انسانی قانون اسےدرست قرار دے سکتاہے.؟کیایہ جنگل راج نہیں!بربریت نہیں! انسانیت کا مذاق نہیں؟حکومت ایسے ظالمانہ قوانین دیگرعلاقہ جات ہند میں بھی نافذ کرکے دکھائے؟کروڑوں لوگوں نے حکومت کی زمینوں پر روڈز پر تجاوزات قائم کررکھے ہیں کیا کسی حکومت میں یہ ہمت ہے کہ وہ ان کے گھروں اور دکانوں کومنہدم کرے؟نہیں ہرگز نہیں.جن تجاوزات سے عوام کوپریشانی ہے ان کو حکومت ہاتھ تک نہیں لگاسکتی کیوں کہ اس کی بناپر عوامی آواز اٹھے گی جو فرقہ پرست حکومت کو ختم کرسکتی ہے لیکن غریب وبے سہاراکشمیریوں کوآسانی سے بے گھر کیا جاسکتا ہے.یقینااس پر کوئی نہیں بولے گا,وہ بھوکوں مرے کرفیوجیسے حالات میں رہیں کسی پر کوئی فرق نہیں پڑتا!حتی کہ انصاف بھی اپنا منھ نہیں کھولتا کیونکہ وہ اب اندھا نہیں بینا ہے دیکھ کر انصاف کرتا ہے

بی بی سی اردو  کے مطا بق "میں اپنے بچے کو دُودھ پلا رہی تھی کہ اچانک سینکڑوں گاڑیوں میں انتظامیہ اور پولیس کے اہلکار یہاں پہنچے اور لاٹھیوں اور کدالوں سے ہمارا گھر توڑنے لگے۔ بچے ڈر گئے۔ ہم سب خواتین رو رہی تھیں۔"

یہ کہنا ہے  انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے قصبے پہلگام کی رہائشی نسیمہ اختر کا جن کا خاندان گذشتہ کئی عشروں سے جنگلات کی اراضی پر قائم کچے اور عارضی گھر (جنھیں مقامی طور پر کوٹھا کہا جاتا ہے) میں رہائش پذیر تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کہاں کا انصاف ہے، کیا یہی ہے وہ وعدہ جو سرکار نے کیا تھا کہ اب خود مختاری ختم ہو گئی ہے اور اب خوشحالی ہو گی۔ سخت سردی میں جنگل کے بیچ ہم کدھر جائیں۔‘

نسیمہ اختر کا خاندان ان سینکڑوں قبائلی خاندانوں میں سے ایک ہے جو پہلگام کے مامل اور لِدرو جنگلات کی اراضی پر نسل در نسل آباد رہے ہیں۔ تاہم اب مقامی حکومت نے جنگلات کی اراضی پر آباد قبائلی خاندانوں کے عارضی گھروں کو مسمار کرنے کی مہم شروع کر دی ہے۔

No comments:

Post a Comment