https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 25 July 2024

پامیرنام رکھنا

 پا میر کا لغوی معنی ہے مرتفع میدان  یا وادی ، یا  "پہاڑ کی چوٹی کا زیریں حصہ" یہ نام رکھنا درست نہیں ہے،نیز بہتر یہ ہے کہ  انبیاء کرام ،صحابہ وصالحین کے ناموں میں سے کوئی نام رکھ لیا جائے ۔

سنن أبی داود میں ہے:

"عن أبي الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم، وأسماء آبائكم، فأحسنوا أسماءكم."

(كتاب الأدب، باب في تغيير الأسماء،٢٨٧/٤، ط: المكتبة العصرية)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے، لہٰذا تم اچھے اچھے نام رکھو۔"

اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں ہے:

"پا میر" وسطی ایشیاء کے ایک پہاڑی سلسلے کا نام ہے اس نام کا اشتقاق و جہ تسمیہ پائے ِمیر سے بتایا جاتاہے جس کا  لغوی معنی  ہے "پہاڑ کی چوٹی کا زیریں حصہ."

(اردودائرہ معارف اسلامیہ،ج:5،ص:575)

اردو انسائیکلو پیڈیا میں ہے: 

"پامیر  لغوی معنی" مرتفع میدان"  وسطی  ایشیاء جمہوریہ تاجکستان کوہستانی  سطح مرتفع جس سے دنیا کی چھت کہا جاتاہے."

(اردو انسائیکلو پیڈیا،ص:404،ط:فیروز سنز)

پلاٹ پر زکوۃ

 آپ نے یہ پلاٹ ذاتی گھر بنانے کی غرض سے  لیا ہے تو پھر  ادا شدہ قسطوں پر زکوۃ واجب نہیں۔

الدر المختار میں ہے:

’’(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية)؛ لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقاً كثيابه أو تقديراً كدينه (نام ولو تقديراً) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه (فلا زكاة على مكاتب) ... (وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذا الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة.

 (قوله: نام ولو تقديراً) النماء في اللغة بالمد: الزيادة، والقصر بالهمز خطأ، يقال: نما المال ينمي نماء وينمو نموا وأنماه الله تعالى، كذا في المغرب. وفي الشرع: هو نوعان: حقيقي وتقديري؛ فالحقيقي الزيادة بالتوالد والتناسل والتجارات، والتقديري تمكنه من الزيادة بكون المال في يده أو يد نائبه، بحر‘‘.

(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاۃ، 259/2، سعید)

بیوہ کو زکوٰۃ دینا

 زکاۃ  اس شخص کو دی جاسکتی ہے  جو  غریب اور ضروت مند ہو  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر  رقم نہ ہو ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی۔ اگر کسی شخص کے  پاس ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے۔

لہذابیوہ عورت نصاب کے بقدر  رقم کی مالک نہ ہو ،اور  اس کے شوہر کے ترکہ میں  بھی اس کے حصے میں آنے والی  رقم   اس قدر نہ ہو  کہ  جس سے وہ نصاب کے(ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے) بقدر رقم مالک ہوجائے تو وہ مستحق زکاۃ ہے، اس کو زکاۃ دینا جائز ہوگا، اگرچہ وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے برسرروزگار ہو


بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 50):

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".


بنو ہاشم کو زکوٰۃ دینا

 بنو ہاشم کو زکوۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے، اوربنو ہاشم سے مراد حضرت علی، حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل اور حضرت حارث رضی اللہ عنہم کی اولاد ہے، ان میں سے کسی کی بھی اولاد کو زکوۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ بنو ہاشم کے بقیہ خاندان کی اولاد کو زکوۃ دینا جائز ہے ،مثلاً ابو لہب کی اولاد وغیرہ۔

آلِ علی میں چوں کہ کوئی تخصیص نہیں ہے؛ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کو زکوۃ کی رقم دینا مطلقاً جائز نہیں ہو گا۔

لہذا  اگر اعوان برادری کا سلسلہٴ نسب بہ واسطہ محمد بن الحنفیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے، اور اعوان برادری کے پاس اس سلسلہ میں مستند شجرہٴ نسب بھی موجود ہے تو یہ برادری سادات سے شمار ہوگی اور ان کا آپس میں ایک دوسرے کو زکوة دینا جائز نہ ہوگا اور نہ ہی کسی دوسری برادری کا انھیں زکوة دینا جائز ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1/ 189):

"ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج."

زکوٰۃ کی مد میں ملے ہوئے سامان کو بیچنا

 جس کو زکوۃ وغیرہ میں کوئی چیز مل جائے،تو وہ اُس چیزکا مالک بن جاتا ہے، اور اسے اس میں  تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہوتاہے ، چاہے توخود استعمال کرے ،یا فروخت کرے یا کسی دوسرے کو ہبہ کرے ،کیونکہ ملکیت تبدیل ہونے سے اُس چیزکا حکم بدل جاتا ہے۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں مستحق  زکوۃ کو زکوۃ  کی مد میں راشن وغیرہ  ملنے کی صورت میں اس کے لیے  آگے بیچنا جائز ہے۔اور اسی طرح استطاعت رکھنے والے کےلیے زکوۃ کا مال خریدناجائز ہے، کیونکہ ملکیت تبدیل ہونے سے اُس چیزکا حکم بدل جاتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"للمالك أن یتصرف في ملكه أي تصرف شاء."

(کتاب الدعوي، ج: 6، ص: 264، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم.

وفي الرد: (قوله: والظاهر نعم) البحث لصاحب النهر وقال؛ لأنه مقتضى صحة التمليك قال الرحمتي: والظاهر أنه لا شبهة فيه؛ لأن ملكه إياه عن زكاة ماله."

(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج: 2، ص: 345، ط: سعيد)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن قتادة، سمع أنس بن مالك، قال: أهدت بريرة إلى النبي صلى الله عليه وسلم لحماً تصدق به عليها، فقال: «هو لها صدقة، ولنا هدية»."

(كتاب الزكاة، باب إِباحة الهدية للنبي صلى الله عليه وسلم ولبني هاشم وبني المطلب وإِن كان المهدي ملكها بطريق الصدقة...، ج: 2، ص: 700، رقم: 2485، ط: بشري)

زکوٰۃ یاصدقہ فطرکی رقم ضائع ہوجائے تو کیاکرے

 اگر زکات  اور صدقۃ الفطر کی رقم کسی وجہ سے ضائع ہو جائے تو زکات  اور صدقۃ الفطرساقط نہیں ہوتے بلکہ اتنی رقم الگ سے دینی ہو گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"ولايخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء.(قوله: ولايخرج عن العهدة بالعزل) فلو ضاعت لاتسقط عنه الزكاة ولو مات كانت ميراثاً عنه، بخلاف ما إذا ضاعت في يد الساعي؛ لأن يده كيد الفقراء، بحر عن المحيط".

(کتاب الزکاۃ، ج: ۲، صفحہ: ۲۷۰، ط: ایچ، ایم، سعید)

مسجد بنانے کے لیے جمع رقم پر زکوۃ

 مسجد بنانے کے لیے جمع  کی گئی  رقم پر بھی زکات  لازم ہے،  جب تک کہ وہ رقم آدمی کی ملکیت میں موجود ہو،لہذا آپ کے پاس جمع کردہ مذکوہ رقم تنہا یا دوسرے اموال کے ساتھ مل کر نصاب کے برابر ہے  یا آپ پہلے سے صاحبِ نصاب ہیں تو چوں کہ آپ ہی اس رقم کے مالک ہیں؛ ا س لیے اس  رقم کی زکات  ادا کرنا آپ پر لازم ہے، چاہے رقم کو مسجد بنانے ، یا مکان بنانے کی نیت سے جمع کررکھا ہو یا تجارت وغیرہ کی نیت سے،نقد رقم کی زکاۃ بہرصورت لازم ہے ۔

البتہ اگر دوسروں سے لے کر رقم جمع کی ہو تو دوسرے لوگوں کے  مال میں زکات  لازم نہیں ہے، کیوں کہ یہ رقم مسجد کے لیے چندہ دینے کے بعد ان کی ملکیت سے نکل چکی ہے

نکاح میں کفاءت

 احناف کے نزدیک نکاح میں کفاءت کا اعتبار نسب، نسل، اسلام، آزادی، مال ودولت، دیانت اور پیشہ میں ہے۔  (فتاوی عالمگیری ج ۱/ ص۲۹۰)

یعنی زوجین کے درمیان ذات، برادری، دِین داری، مال داری، آزادی اور  پیشہ وغیرہ میں یکسانیت ہونی چاہیے؛ تاکہ نکاح کا مقصد پورا ہوسکے۔ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  لَاتَنْکِحُوْ النِسَاءَ إلاَّ مِنَ الْأکَفَاءِ“گویا ذات برادری میں بھی برابری کا اعتبار شریعت نے کیا ہے۔  علامہ کاسانی نے "بدائع الصنائع" میں اس کے ثبوت اور معتبر ہونے پر ایک تفصیلی حدیث پیش کرتے ہوئے اپنی رائے کا بھی اظہار کیا ہے، لکھتے ہیں:

"فماتعتبر فیه الکفائة أشیاء، منھا النسب، والأصل فیه قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم: قریش بعضھم أکفاء لبعض، و العرب بعضھم أکفاء لبعض، حي بحي، و قبیلة بقبیلة، والمولي بعضھم أکفاء لبعض رجل برجل؛ لأن التفاخر و التعییر یقعان بالأنساب، فتلحق النقیصة بدنائة النسب فتعتبر فیه الکفاءة."

 (بدائع الصنائع ج۲ص ۳۱۹)

حدیثِ مبارک میں ہے:

«إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد».

(صحيح مسلم (2/ 754) 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (2/ 265):

" (قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لايجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لاتحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لاتحل لنا الصدقة»".

Wednesday 24 July 2024

زکوٰۃ کن کودیناجائز

 اپنے اصول (والدین، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ) وفروع (اولاد، اور ان کی نسل یعنی پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ) کو اور اسی طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے کو زکات دینا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دیگر رشتہ دار مثلًا بھائی، بہن، چاچا، پھوپھی، ماموں خالہ وغیرہ اور ان کی اولاد  کو زکاۃ دینا جائز ہے (بشرطیکہ مستحقِ زکات ہوں)، بلکہ یہ دوہرے ثواب کا باعث ہے؛ اس لیے کہ اس میں زکات کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے، اسی طرح بہو اور داماد کو بھی زکات دینا جائز ہے۔

 زکاۃ  اس مسلمان عاقل بالغ شخص(اپنے اصول و فروع زوجین کے علاوہ)کو دی جاسکتی ہے  جس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) کے برابر  رقم نہ ہو، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکات لینا جائز ہے، اور اس کو زکات دینے سے زکات ادا ہوجائے گی، اگر کسی شخص کے  ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو اس کو زکات دینا اور اس کے لیے زکات لینا جائز نہیں ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 50):

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 49):

"ومنها: أن لاتكون منافع الأملاك متصلةً بين المؤدي وبين المؤدى إليه؛ لأن ذلك يمنع وقوع الأداء تمليكًا من الفقير من كل وجه بل يكون صرفًا إلى نفسه من وجه".

غریب نابالغ ناسمجھ کوزکات دینا

 اگر کسی غریب آدمی کا نابالغ بچہ سمجھ دار ہو اور زکوٰۃ کی رقم کو اپنے قبضے میں لینا جانتا ہو، زکوٰۃ کا مستحق ہو (یعنی سید بھی نہ ہو اور اس کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہ ہو) تو اسے زکوٰۃ کی رقم دینا درست ہے۔ اور اگر نابالغ بچہ ناسمجھ ہو، مال پر قبضہ کرنا نہ جانتا ہو یا والد مال دار ہو اور بچے کا خرچہ خود اٹھاتا ہو تو اس صورت میں ایسے بچے کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہ ہوگا۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 356):

"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز."

وفي الرد:

"(قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلايصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير."

غریب نابالغ سمجھدار کوزکات دینا

 اگر کسی غریب آدمی کا نابالغ بچہ سمجھ دار ہو اور زکوٰۃ کی رقم کو اپنے قبضے میں لینا جانتا ہو، زکوٰۃ کا مستحق ہو (یعنی سید بھی نہ ہو اور اس کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہ ہو) تو اسے زکوٰۃ کی رقم دینا درست ہے۔ اور اگر نابالغ بچہ ناسمجھ ہو، مال پر قبضہ کرنا نہ جانتا ہو یا والد مال دار ہو اور بچے کا خرچہ خود اٹھاتا ہو تو اس صورت میں ایسے بچے کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہ ہوگا۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 356):

"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز."

وفي الرد:

"(قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلايصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير."

چچا اور پھوپی کو زکوٰۃ دینا

 اپنے اصول (والدین، دادا، نانا وغیرہ) وفروع (اولاد، ان کی نسل) کو  اور اسی طرح بیوی کو زکاۃ  دینا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دیگر رشتہ دار چاچا، چچازاد بھائی، پھوپھی اور ان کی اولاد اگر مستحقِ زکاۃ ہو تو ان کو زکاۃ دینا جائز ہے، بلکہ یہ دوہرے ثواب کا باعث ہے؛ اس لیے کہ اس میں زکاۃ کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے۔

ملحوظ رہے کہ زکاۃ  اس شخص کو دی جاسکتی ہے  جو  غریب اور ضروت مند ہو  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم نہ ہو ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی، اگر کسی شخص کے  ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے

سوتیلی بیٹی کو زکوٰۃ دینا اور اس سے پردہ کا حکم

 1.  مذکورہ شخص  نے جب  اس لڑکی کی کفالت اپنے ذمہ لے لی  تو اس کفالت کی وجہ سے  مذکورہ لڑکی کے جو  واجبات اس شخص کے ذمے  لازم ہو گئے ان واجبات  کو  تو  زکات کی رقم سے ادا کرنا درست نہیں،  البتہ اس کے علاوہ  اگر  زکات کی رقم دینا چاہے تو جائز ہو گا بشرطیکہ وہ اس کو اپنے ذاتی کاموں میں استعمال کرے۔

2.  اگر بیوی سے صحبت ہو گئی ہو تو بیوی کی بیٹی محرم بن جاتی ہے،  اور اس سے پردے  کا حکم نہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 50):

"و يجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 30):

"(و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة ..."

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 129):

"(قوله: ولا إلى ولده وولد ولده وإن سفل) سواء كانوا من جهة الذكور أو الإناث و سواء كانوا صغارًا أو كبارًا؛ لأنه إن كان صغيرًا فنفقته على أبيه واجبة."