https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 2 August 2024

پھول پہننا

 عورتوں کے لیے پھول پہننا جائز ہے،کیوں کہ یہ بھی زینت میں داخل ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ ...الخ

ترجمہ:"اور(عورتیں)اپنی زینت (کے مواقعِ مذکورہ) کو (کسی پر)ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے (محارم پر یعنی) باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہروں کے بیٹوں پر یا اپنے(حقیقی،علاتی اور اخیافی) بھائیوں  یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر یا اپنی (حقیقی ،علاتی اور اخیافی) بہنوں کے بیٹوں پر۔۔۔الخ."

(تفسیربیان القرآن،سورۃالنور،الآیة:31،ط:مکتبہ رحمانیہ)

احسن الفتاوی میں ہے:

’’سوال: ہمارے ہاں یہ قدیم دستور چلا آرہا ہے کہ شادی کے موقع پر دلہن کو پھول پہناتے ہیں اور اسے مہندی لگائی جاتی ہے،ساتھ دوسری لڑکیاں بھی مہندی لگاتی ہیں،کیا عورتوں کے لیے مہندی لگانا اور پھول پہننا سنت ہے؟

جواب : عورتوں کے لیے مہندی لگانا مستحب ہے، مگر آج کل جو مہندی کی رسم کا دستور ہےکہ دوسری عورتوں کا بھی بڑا مجمع لگ جاتا ہے ،یہ کئی مفاسد کا مجموعہ ہے،اس لیے اس سے احتراز لازم ہے،اپنے طور پر عورتیں مہندی لگاسکتی ہیں۔

پھول پہننے کا کوئی ثبوت نہیں،مگر شادی کے موقع پر زیب وزینت اختیار کرنا جائز بلکہ مستحسن ہے،اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں،البتہ زیب وزینت کے ساتھ کسی غیر محرم کے سامنے جانا سخت گناہ اور حرام ہے۔ـ‘‘

(کتاب الحظر و الاباحۃ، ج: 8، ص : 160، ط: ایچ ایم سعید)

بیٹی کا والد کو غسل کرانا

 اولاً یہ کوشش ہو  کہ والد کو غسل کروانے کے لیے کوئی مرد اپنی خدمات پیش کرے، تاہم اگر والد کی خدمت کے لیے کوئی مرد دستیاب نہ ہو تو بیٹی کے لیے والد کو غسل کروانے کی اجازت ہو گی، لیکن اس کے لیے ضروری ہو گا کہ والد کا ستر  چھپا ہوا ہو، ناف سے لے کر گھٹنے تک کا حصہ ستر ہے، اس حصے کو دیکھنا اور چھونا بیٹی کے لیے جائز نہیں ہو گا، اس بات کا خیال رکھتے ہوئے بیٹی اپنے والد کو غسل کروا سکتی ہے۔

مجمع الانہر میں ہے:

"(و) من (الرجل إلى ما ينظر الرجل من الرجل) أي إلى ما سوى العورة (إن أمنت الشهوة) وذلك ؛ لأن ما ليس بعورة لا يختلف فيه النساء والرجال، فكان لها أن تنظر منه ما ليس بعورة."

(كتاب الكراهية، فصل في بيان احكام النظر، جلد:2، صفحه: 539، طبع: المطبعة العامرة)

گھوڑے کا گوشت کھانا

  گھوڑا فی نفسہ حلال ہے،لیکن  جہادکے آلہ  ہونے کی وجہ سے امام ابوحنیفہ  ؒکے نزدیک گھوڑے کاگوشت کھانا مکروہ تحریمی ہے، اور اسی قول پر فتوی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره أكل لحم الفرس عند أبي حنيفة اهـ. والمكروه تحريما يطلق عليه عدم الحل شرنبلالية، فأفاد أن التحريم ليس لنجاسة لحمها ولهذا أجاب في غاية البيان عما هو ظاهر الرواية من طهارة سؤر الفرس بأن حرمة الأكل للاحترام من حيث إنه يقع به إرهاب العدو لا للنجاسة."

(کتاب الذبائح، 506/6، ط، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌يكره ‌لحم ‌الخيل في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - خلافا لصاحبيه، واختلف المشايخ في تفسير الكراهة والصحيح أنه أراد بها التحريم ولبنه كلحمه، كذا في فتاوى قاضي خان. وقال الشيخ الإمام السرخسي ما قاله أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - أحوط وما قالا أوسع، كذا في السراجية."

(کتاب الذبائح، الباب الثاث فی المتفرقات، 290/5،ط ، دار الفکر)

خرگوش کاگوشت کھانا

 خرگوش کا گوشت کھانا حلال ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں خرگوش پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اسے قبول فرمایا۔

سنن ِترمذی میں ہے: 

" عن هشام بن زيد بن أنس قال : سمعت أنساً يقول : أنفجنا أرنباً بمر الظهران فسعى أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم خلفهتا فأدركتها فأتيت بها أبوطلحة فذبحها بمروة فبعث معي بفخذها أو بوركها إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأكله، قال: قلت: أكله ؟ قال: قبله."

(سنن الترمذي ، أبواب الأطمعة، باب في أكل الأرنب ،4 / 251 ط:داراحياء التراث)

ترجمہ:"حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے مرالظہران میں ایک خرگوش بھگایا، صحابہ رضی اللہ عنہم اس کے پیچھے دوڑے ،میں نے اس کو پالیا پس میں اس کو پکڑکر حضرت ابوطلحۃ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا ،پھر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اس کوسفید پتھر سے ذبح کیا ،پھر میرے ساتھ اس کا ران یا کولہا نبی کریم ﷺ خدمت میں بھیجا ،آپ ﷺنے اس کو تناول فرمایا ،ہشام نے پوچھا کیا آپ  ﷺ نے اس کو  تناول فرمایا ؟حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا  آپ ﷺ نے قبول فرمایا۔"

فتح القدیر میں ہے:

"(ولا بأس بأكل الأرنب) لأن «النبي عليه الصلاة والسلام أكل منه حين أهدي إليه مشويا وأمر أصحابه رضي الله عنهم بالأكل منه» ، ولأنه ليس من السباع ولا من أكلة الجيف فأشبه الظبي."

(کتاب الذبائح ، فصل فیما یحل اکلہ ومالایحل، 502/9، ط، دار الفکر)

بھڑکے شہد کواستعمال کرنا

 اگر صحت کے لیے مضر نہ ہو اور طبعیت کو اس سے گھن نہ آتی ہو تو اس شہد کا استعمال جائز   ہے۔ لیکن اسے عام شہد کہہ کر دوسروں کو فروخت کرنا یا استعمال کے لیے دینا درست نہیں۔

العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

الأول أن الأصل في المنافع الإباحة، والمأخذ الشرعي آيات ثلاث الأولى قوله تعالى {خلق لكم ما في الأرض جميعا} [البقرة: 29] ، واللام للنفع فتدل على أن الانتفاع بالمنتفع به مأذون شرعا وهو المطلوب، الثانية قوله تعالى {قل من حرم زينة الله التي أخرج لعباده} [الأعراف: 32] ، والزينة تدل على الانتفاع الثالثة قوله تعالى {أحل لكم الطيبات} [المائدة: 4] ، والمراد بالطيبات المستطابات طبعا وذلك يقتضي حل المنافع بأسرها، والثاني أن الأصل في المضار التحريم، والمنع لقوله عليه الصلاة والسلام «لا ضرر ولا ضرار في الإسلام» وأيضا ضبط أهل الفقه ‌حرمة ‌التناول إما بالإسكار كالبنج وإما بالإضرار بالبدن كالتراب، والترياق أو بالاستقذار كالمخاط، والبزاق وهذا كله فيما كان طاهرا وبالجملة إن ثبت في هذا الدخان إضرار صرف خال عن المنافع فيجوز الإفتاء بتحريمه وإن لم يثبت انتفاعه فالأصل حله مع أن في الإفتاء بحله دفع الحرج عن المسلمين فإن أكثرهم مبتلون بتناوله مع أن تحليله أيسر من تحريمه وما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أمرين إلا اختار أيسرهما وأما كونه بدعة فلا ضرر فإنه بدعة في التناول لا في الدين فإثبات حرمته أمر عسير لا يكاد يوجد له نصير نعم لو أضر ببعض الطبائع فهو عليه حرام ولو نفع ببعض وقصد به التداوي فهو مرغوب ولو لم ينفع ولم يضر هذا ما سنح في الخاطر إظهارا للصواب من غير تعنت ولا عناد في الجواب، والله أعلم بالصواب كذا أجاب الشيخ محيي الدين أحمد بن محيي الدين بن حيدر الكردي الجزري - رحمه الله تعالى

(مسائل و فوائد شتی من الحظر و الإباحة  و غیرذلک، مسئلة:افتي ائمة اعلام بتحريم شرب الدخان، ج:2، ص332، ط:دار المعرفة)

شراب کودواء میں استعمال کرنا

 کسی بھی حرام چیز کو بطورِ دوا استعمال کرنا حرام ہے،  البتہ اگر بیماری مہلک یا ناقابلِ برداشت ہو  اور  مسلمان،   ماہر دین دار  طبیب یہ کہہ دے کہ   اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے اور یہ یقین ہو جائے کہ  شفا حرام چیز میں ہی منحصر ہے، اور دوسرا کوئی حلال متبادل موجود نہیں ہےتو  مجبوراً بطورِ دوا و علاج بوقتِ ضرورت، بقدرِ ضرورت حرام اشیاء کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے،  ورنہ نہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر بیماری مہلک یا ناقابل برداشت ہے ،اور  کسی حلال چیز سے علاج ممکن نہیں اور مسلمان ،ماہر دین دار طبیب   کو یقین ہوجائے کہ شفا شراب میں ہی منحصر ہے اور مریض  کے لیے شراب بطور دوا تجویز کرلے تو  اس صورت میں شراب کو حرام سمجھتے  ہوئے  مجبورًا بطورِ دوا  بوقتِ ضرورت ، بقدر ضرورت علاج استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:

"اختلف في التداوي بالمحرم، وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل: يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان، وعليه الفتوى.

"مطلب في التداوي بالمحرم":

Thursday 1 August 2024

مسجد میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانا

 مسجد کے ہال یا برآمدے  میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے سے مقصود  چونکہ اشیاءمسجد اور عوام کی  دیکھ بال ہوتا ہے اس لئے یہ مسجد کے مصالح اور ضروریات میں داخل ہو کر جائز ہے البتہ اسکرین مسجد کے حدود سے باہر لگانی چاہئے  کیونکہ علماء  کرام کی ایک بڑی تعداد   اسکرین کی تصویر کو  تصویر قرار دیتے ہیں ۔

( ويبدأ من غلته بعمارته ) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايته ۔

قال ابن عابدين :  قوله ( ثم ما هو أقرب لعمارته الخ ) أي فإن انتهت عمارته وفضل من الغلة شيء يبدأ بما هو أقرب للعمارة وهو عمارته المعنوية التي هي قيام شعائره ۔۔۔وأعم للمصلحة كالإمام للمسجد والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم ثم السراج و البساط كذلك إلى آخر المصالح هذا إذا لم يكن معينا فإن كان الوقف معينا على شيء يصرف إليه بعد عمارة البناء اه ( الدر المختارمع رد المختار،كتاب الوقف ،مطلب يبدأ بعد العمارة بما هو أقرب إليهاج4/ص559)

الضرورات تبیح المحذورات۔(شرح المجلۃ،المادۃ21ص29)


سی سی ٹی وی کیمرے لگانا

 اسلام میں تصویر کشی حرام و ناجائز ہے، احادیث میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ لیکن جہاں چوری ڈکیتی، خیانت، جان و مال کے تلف و ضیاع ہونے کا خطرہ ہو تو وہاں حفاظتی نقطہ نظر سے (CCTV CAMERA) نصب کرنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ ان کیمروں سے کسی کی آبروریزی وغیرہ نہ کی جائے۔

           اسکول، كالج اور مدرسہ میں طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لئے ان کی دیکھ بھال اور نگرانی ایک اہم کام ہے؛ اس لئے اگر انہیں لڑائی جھگڑے سے بچانے، غلط کاموں اور برائیوں سے دور رکھنے اور بہتر و مناسب تربیت میں کیمرہ لگانا مفید و معاون ہو تو کیمرہ لگانا جائز ہے۔

 

الضرورات تبیح المحذورات۔(شرح المجلۃ،المادۃ:21، ص:29)

يتحمل الضرر الخاص لدفع ضرر عام۔۔۔الضرر الأشد يزال بالضرر الأخف۔۔۔يختار أهون الشرين۔ (شرح المجلة، المادة:27، ج:1، ص:41)

ويستثنى ‌من ‌النهي ‌عن ‌التجسس ‌ما ‌لو ‌تعين ‌طريقا ‌إلى ‌إنقاذ ‌نفس ‌من ‌الهلاك ‌مثلا ‌كأن ‌يخبر ‌ثقة ‌بأن ‌فلانا ‌خلا ‌بشخص ‌ليقتله ‌ظلما ‌أو ‌بامرأة ‌ليزني ‌بها ‌فيشرع ‌في ‌هذه ‌الصورة ‌التجسس ‌والبحث عن ذلك حذرا من فوات استدراكه نقله النووي عن الأحكام السلطانية للماوردي واستجاده وأن كلامه ليس للمحتسب أن يبحث عما لم يظهر من المحرمات ولو غلب على الظن استسرار أهلها بها إلا هذه الصورة۔(فتح الباري، قوله باب ما ينهى عن التحاسد والتداب، ج:10، ص:482)

ننگے پیر چلنا سنت ہے ؟نہ چلنے والا تارک سنت ہے ؟

 ننگے  پیر چلنا سنت نہیں ہے، کبھی اگرایسی نوبت آجائے تو سنت سمجھے بغیر ننگے  پیر چلنے میں مضائقہ نہیں ہے۔

2- ننگے پیر نہ  چلنے والا شخص تارکِ  سنت  نہیں کہلائے  گا،  بلکہ چپل /جوتے  کی  سہولت ہونے باوجود ننگے پیر چلنا  رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے خلاف  اور دین میں غلو کرناہےجس سے اجتناب ضروری ہے۔

صحيح مسلم میں ہے:

(2096) حدثني سلمة بن شبيب ، حدثنا الحسن بن أعين ، حدثنا معقل ، عن أبي الزبير ، عن جابر قال: « سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في غزوة غزوناها: ‌استكثروا ‌من ‌النعال، فإن الرجل لايزال راكبا ما انتعل."

(كتاب اللباس والزينة، باب: استحباب لبس النعال وما في معناها، ج:3، ص:1660، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

وفیه أيضا:

- (2097) حدثنا يحيى بن يحيى قال: قرأت على مالك ، عن أبي الزناد ، عن الأعرج ، عن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: « لا يمش أحدكم ‌في ‌نعل واحدة، لينعلهما جميعا أو ليخلعهما جميعا."

(كتاب اللباس والزينة،باب: استحباب لبس النعل في اليمنى أولا، والخلع من اليسرى أولا، وكراهة المشي في نعل واحدة، ج:3، ص:1660، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج میں ہے:

"قوله صلى الله عليه وسلم حين كانوا في غزاة (استكثروا من النعال فإن الرجل لايزال راكبا ما انتعل) معناه أنه شبيه بالراكب في خفة المشقة عليه وقلة تعبه وسلامة رجله ممايعرض في الطريق من خشونة وشوك وأذى ونحوذلك وفيه استحباب الاستظهار فى السفر بالنعال وغيرهما مما يحتاج إليه المسافر واستحباب وصية الأمير أصحابه بذلك."

(كتاب اللباس والزينة، باب: استحباب لبس النعال وما في معناها،ج:14، ص:73، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فسادسے بچنے کیلئے جھوٹی قسم کھانا

 جھوٹی قسم  کھاناسخت  ترین گناہِ کبیرہ ہے، حدیث شریف میں جھوٹی قسم کو شرک وغیرہ کے بعدبڑا اورسنگین گناہ کہاگیا ہے اور  قسم جب قرآن پر ہاتھ  رکھ  کرہوتو اس گناہ  کی سنگینی  اور بھی  بڑھ  جاتی ہے،فساد سے بچنے کے لیے کوئی اور طریقہ  اختیار کیا جاسکتا ہے، مجبوری ہو تو کوئی حیلہ بہانہ کرلیا جائے، لیکن جھوٹی قسم کھانا جائز نہیں ہے، نیز  گناہ کرکے  کامیابی  حاصل نہیں کی جاسکتی، بلکہ حقیقت میں  سچ اور راستی  ہی کے ذریعے  فلاح نصیب ہوتی ہے۔ بہر صورت اگر جھوٹی قسم کھالی ہے تو اس پر ندامت کے ساتھ  صدق دل سے توبہ واستغفار کیا جائے تاکہ اللہ پاک کی ناراضگی اور گرفت سے بچ جائے اور آئندہ کے لیے اس طرح نہ کرنے کا  پکا عزم کرلیا جائے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا ‌محمد بن مقاتل، أخبرنا ‌النضر، أخبرنا ‌شعبة، حدثنا ‌فراس قال: سمعت ‌الشعبي، عن ‌عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الكبائر الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس.»".

(‌‌‌‌كتاب الأيمان والنذور، باب اليمين الغموس، 8/ 137، ط : المطبعة الكبرى الأميرية)

ترجمہ :" کبیرہ گناہ یہ ہیں ؛ اللہ تعالیٰ کےساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا۔"

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وهي) أي اليمين بالله... (غموس) تغمسه في الإثم ثم النار، وهي كبيرة مطلقا، لكن إثم الكبائر متفاوت نهر (إن حلف على كاذب عمدا) ولو غير فعل أو ترك كوالله إنه حجز الآن في ماض (كوالله ما فعلت) كذا (عالما بفعله أو) حال (كوالله ما له علي ألف عالما بخلافه والله إنه بكر عالما بأنه غيره) وتقييدهم بالفعل والماضي اتفاقي أو أكثري (ويأثم بها) فتلزمه التوبة".

وفي الرد:(قوله وهي كبيرة مطلقا) أي اقتطع بها حق مسلم أو لا... و معلوم أن إثم الكبائر متفاوت. اهـ.وكذا قال المقدسي: أي مفسدة أعظم من هتك حرمة اسم الله تعالى... (قوله ويأثم بها) أي إثما عظيما كما في الحاوي القدسي...  (قوله فتلزمه التوبة) إذ لا كفارة في الغموس يرتفع بها الإثم فتعينت التوبة للتخلص منه".

(‌‌كتاب الأيمان، 3/ 705، ط: سعيد)

سوراخ والے کپڑے پہننا

 ہر وہ لباس جس میں ستر یا اس کا کوئی  حصہ کھل  جائے تو ایسا  لباس پہننا جائز نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں روز مرہ کے کپڑوں میں سوراخ ہونے کی وجہ سے اگر ستر کا کوئی حصہ ظاہر ہورہا ہو تو ایسے کپڑے پہننا جائز نہیں ہوگا اور اگر ستر کا کوئی حصہ ظاہرنہ ہو  رہا ہو تو ایسے کپڑے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہوگا، البتہ ایسے پھٹن والے کپڑوں پر پیوند لگا لینا یا سلائی کرلینی  چاہیے۔

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"فكل لباس ينكشف معه جزء من عورة الرجل والمرأة، لا تقره الشريعة الإسلامية۔۔۔۔ وكذلك اللباس الرقيق أو اللاصق بالجسم الذي يحكي للناظر شكل حصة من الجسم الذي يجب ستره، فهو في حكم ما سبق في الحرمة وعدم الجواز."

(كتاب اللباس والزينة: ج:4، ص:88، ط:مكتبه دار العلوم)

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"وعن بعضهم من سنة الإسلام لبس المرقع والخشن من الثياب." 

(كتاب الكراهية، الباب  التاسع في اللبس وما يكره من ذلك وما لا يكره، ج:5، ص:333، ط:رشيدية)

سیدہ زھراء نام رکھنا

 زہرا نام کا  درست تلفظ " زَہرَاء" ہے، اس کے معنی ہے: حسین عورت۔  (القاموس الوحید، المادۃ: ز/ ہ/ ر، ص:722، ط:ادارۃ الاسلامیات)

یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا لقب ہے،لہذا آپ اپنی بیٹی کا نام زہرا رکھ سکتےہیں اور اگر آپ سید ہیں تو  "سیدہ زہرا "  نام بھی  رکھ  سکتے  ہیں۔ سید نہیں ہیں تو  نام میں "سیدہ"  کا لفظ شامل نہ کریں۔

تاج العروس عن جواہرالقاموس میں ہے:

"والزَّهْرَاءُ: المرأة المشرقة الوجه والبيضاء المستنيرة المشربة بحمرة".

(حرف الزاء، المادّۃ: ز/ ہ/ ر، ج: ۱۱، صفحہ: ۴۷۹، ط: دارالہدایۃ)

الإصابة في معرفة الصحابة  میں ہے:

"فاطمة الزهراء: بنت إمام المتقين رسول الله: محمد بن عبد الله بن عبد المطلب بن هاشم الهاشمية صلى الله على أبيها وآله وسلم ورضي عنها.كانت تكنى أم أبيها بكسر الموحدة بعدها تحتانية ساكنة. ونقل بن فتحون عن بعضهم بسكون الموحدة بعدها نون وهو تصحيف وتلقب الزهراء".

(حرف الغین المعجمة، القسم الاول، ج: ۴، صفحہ: ۳۸،  ط: دارالکتب العلمیة)

زمعہ نام رکھنا

 ’’زَمعہ‘‘  یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کا نام ہے ،لہذا  یہ نام  رکھنا درست اور باعث برکت ہے،البتہ یہ بچے کا نام ہے، بچی کے لئے صحابیات کے ناموں میں سے کوئی نام رکھ لیا جائے ۔

وفي الإصابة في تمييز الصحابة:

" زمعة بن أبي بن خلف الجمحيّ:

ذكره عمر بن شبّة فيمن استوطن المدينة. واتخذ بها دارا، وأبوه قتله النبيّ صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم بأحد، ومضى ذكر ابن عمه ربيعة بن أمية.

‌‌2822 ز- زمعة بن الأسود:

بن عامر القرشي، من بني عامر بن لؤيّ.

ذكره أبو إسماعيل الأزديّ في فتوح الشام، فقال في تسمية من عقد له أبو بكر الصدّيق من أمراء الأجناد: ودعا زمعة بن الأسود بن عامر من بني عامر بن لؤيّ. فعقد له، ثم قال:

أنت مع يزيد بن أبي سفيان، ثم أمر يزيد أن يولّيه مقدمته، وقال: إنه من صلحاء قومك ومن الفرسان. "

(2/ 468،الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت)

وفي تاج العروس من جواهر القاموس:

"زمع .الزمعة، محركة: هنة زائدة من وراء الظلف، نقله الجوهري عن أبي زيد. أو هنة شبه أظفار الغنم في الرسغ...في نوادر الأعراب: في الأرض زمعة من النبت، بالضم، وكذلك زوعة من نبت، ولمعة من نبت، ورقعة من نبت، أي قطعة منه. زمعة بالفتح، ويحرك: والد سودة أم المؤمنين وأخيها عبد الصحابي الجليل، رضي الله عنهما، وهو زمعة بن قيس بن عبد شمس بن عبد ود بن نصر، وبنته سودة تزوجها صلى الله عليه وسلم بعد خديجة رضي الله عنهما."

 (21/ 155،ط:دار إحياء التراث)