https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 20 August 2024

گونگے کی گواہی

  گواہ میں جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، اس میں سے ایک یہ ہے کہ اسے قوت گویائی حاصل ہو، گونگا نہ ہو، لہذا اگر کسی شخص میں گواہ کی تمام شرائط موجود ہوں، لیکن قوت گویائی کی شرط موجود نہ ہو، تو ایسا شخص گواہی کا اہل نہیں ہے اور اس کی اشارے سے گواہی دینے پر عدالت فیصلہ صادر کرنے کی مجاز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الفقہ الاسلامی و ادلته: (شروط اداء الشھادۃ، 564/6، ط: دار الفکر)
النطق: اشترط الحنفیۃ والشافعیۃ والحنابلۃ ان یکون الشاھد ناطقًا فلاتقبل شھادۃ الاخرس وان فہمت اشارتہ لان الاشارۃ لاتعتبر فی الشھادات لانھا تتطلب الیقین وانما المطلوب التلفظ بالشھادۃ۔

گونگے کی طلاق

 گونگے شخص کی طلاق اشارہ سے  چند شرائط کے ساتھ واقع ہوگی، اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک بھی شرط مفقود ہوئی تو طلاق واقع نہیں ہوگی، وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

۱) اشارہ سے طلاق دینے والا گونگا شخص  پیدائشی گونگا ہو ، پیدائشی گونگا نہ ہونے کی صورت میں اس کے گونگے پن پر کم از کم ایک سال گزر گیا ہو۔

۲)  اس کے اشارے اور اشاروں کا مطلب لوگوں میں معروف (جانا پہچانا) ہو، اور وہ ایسے اشارہ سے طلاق دے جس کا طلاق کے اشارہ کے طور پر استعمال ہونا معروف و مشہور ہو۔

۳) اشارہ کرتے وقت اس کے منہ سے کچھ آواز بھی نکلے جیسا کہ گونگوں کی عادت ہوتی ہے۔

۴) اشارہ سے طلاق دینے والا گونگا شخص لکھنے پر قادر نہ ہو؛ جو گونگا لکھنے پر قادر ہو اس کی طلاق لکھنے سے ہی ہوگی، اشارہ کرنے سے نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ گونگا شخص اشارہ سے طلاق دیتے وقت جتنے عدد کا اشارہ کرے گا اتنی ہی طلاقیں واقع ہوں گی اور اگر اشارہ سے تین سے کم (ایک یا دو) طلاق دے گا تو وہ طلاقِ  رجعی ہی شمار کی جائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 241):

"(أو أخرس) ولو طارئاً إن دام للموت، به يفتى، وعليه فتصرفاته موقوفة. واستحسن الكمال اشتراط كتابته (بإشارته) المعهودة؛ فإنها تكون كعبارة الناطق استحساناً.

 (قوله: إن دام للموت) قيد في طارئاً فقط ح. قال في البحر: فعلى هذا إذا طلق من اعتقل لسانه توقف، فإن دام به إلى الموت نفذ، وإن زال بطل. اهـ. قلت: وكذا لو تزوج بالإشارة لايحل له وطؤها؛ لعدم نفاذه قبل الموت، وكذا سائر عقوده، ولايخفى ما في هذا من الحرج (قوله: به يفتى) وقدر التمرتاشي الامتداد بسنة، بحر. وفي التتارخانية عن الينابيع: ويقع طلاق الأخرس بالإشارة، ويريد به الذي ولد وهو أخرس أو طرأ عليه ذلك ودام حتى صارت إشارته مفهومة وإلا لم يعتبر (قوله: واستحسن الكمال إلخ) حيث قال: وقال بعض الشافعية: إن كان يحسن الكتابة لايقع طلاقه بالإشارة؛ لاندفاع الضرورة بما هو أدل على المراد من الإشارة وهو قول حسن، وبه قال بعض مشايخنا اهـ. قلت: بل هذا القول تصريح بما المفهوم من ظاهر الرواية.

ففي كافي الحاكم الشهيد ما نصه: فإن كان الأخرس لايكتب وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز، وإن كان لم يعرف ذلك منه أو شك فيه فهو باطل. اهـ. فقد رتب جواز الإشارة على عجزه عن الكتابة، فيفيد أنه إن كان يحسن الكتابة لاتجوز إشارته، ثم الكلام كما في النهر إنما هو في قصر صحة تصرفاته على الكتابة، وإلا فغيره يقع طلاقه بكتابة كما يأتي آخر الباب، فما بالك به (قوله: بإشارته المعهودة) أي المقرونة بتصويت منه؛ لأن العادة منه ذلك، فكانت الإشارة بياناً لما أجمله الأخرس، بحر عن الفتح. وطلاقه المفهوم بالإشارة إذا كان دون الثلاثة فهو رجعي، كذا في المضمرات ط عن الهندية". 

پیدائشی گونگا بھرا شخص احکام شرعیہ کا مکلف ہے کہ نہیں

 احکاماتِ شرعیہ کے مکلف ہونے کا مدار یہ ہے کہ بالغ ہو اور عاقل ہو، یعنی تکلیف کا مدار عقل پر ہے، لہٰذا اگر کوئی انسان نابالغ یا مجنون وغیرہ نہیں ہے اور اس کی عقل صحیح ہے تو  وہ مکلف ہے،اگرچہ اس کے بعض حواس صحیح نہ ہوں، لیکن اس کا مکلف ہونا اس کی وسعت کے مطابق ہے، اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو اس کی وسعت اور طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا ہے، لہذا ایسا شخص جو اندھا، بہرا اور گونگا بھی ہو لیکن اس کی عقل کا ادراک درست ہو تو وہ ذاتِ باری تعالیٰ کی توحید اور صفاتِ باری تعالیٰ پر ایمان کا مکلف ہوگا، نیز اگر ایسے شخص کو کسی طرح کوئی سمجھا سکتا ہے تو وہ اس کو سمجھائے گا، اور جس قدر وہ سمجھ سکے گا اسی قدر وہ مکلف ہوگا، اس سے زیادہ نہیں ہے۔

اور بعض روایات میں ہے کہ ایسے لوگ جن تک کسی وجہ سے دعوت یا احکامات نہیں پہنچ سکے یا وہ معذور تھے مثلاً اندھے ، بہرے وغیرہ تو ایسے لوگ  قیامت کے دن اپنا عذر پیش کریں گے، تو اللہ تعالیٰ ان سے اسی وقت امتحان لیں گے، اور اس کے مطابق فیصلہ کریں گے، الغرض دنیاوی اَحکام میں ایسےلوگ اپنی طاقت اور وسعت کے بقدر مکلف ہیں۔

ہمارے ملک میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں، بلکہ وہ تبلیغی جماعت میں بھی چلتے ہیں، جو بصارت، سماعت، اور قوتِ گویائی تینوں سے محروم ہیں، لیکن وہ نماز بھی پڑھتے ہیں، بلکہ یہاں تک وہ بیان بھی اشاروں سے کرلیتے ہیں، یہ مشاہدہ کی چیز ہے، اور ان کے مخصوص اشارے ہوتے ہیں  جو وہ ہاتھ وغیرہ کو چھو کر معلوم کرتے ہیں۔

موسوعة القواعد الفقهية (6/ 212):
"والمراد بالأفعال التى يؤاخذ بها الصبي ما يتعلق بحقوق العباد المالية، وأما حقوق الله تعالى فهو لايؤاخذ بها ولاتجب عليه، ولكن يؤمر بفعل الطاعات للتعود عليها كالصلاة والصيام.
والمؤاخذة عليه بأفعاله ليست من باب التكليف - لأنه غير مكلف -؛ لأن مدار التكليف على البلوغ عاقلاً، وإنما هذا من باب ربط الأحكام بأسبابها، فهو من باب الأحكام الشرعية الوضعية لا التكليفية".
نظم الدرر في تناسب الآيات والسور (20/ 237):
"ولما كان السمع أعظم مدارك العقل الذي هو مدار التكليف قالوا: {نسمع} أي سماعاً ينفع بالقبول للحق والرد للباطل {أو نعقل} أي بما أدته إلينا حاسة السمع وغيرها عقلاً ينجي وإن لم يكن سمع".

الأساس في التفسير (10/ 6027):
"قال النسفي: وفيه دليل على أن مدار التكليف على أدلة السمع والعقل، وأنهما حجتان ملزمتان. قال ابن كثير: (أي: لو كانت لنا عقول ننتفع بها، أو نسمع ما أنزل الله من الحق لما كنا على ما كنا عليه من الكفر بالله والاغترار به، ولكن لم يكن لنا فهم نعي به ما جاءت به الرسل، ولا كان لنا عقل يرشدنا إلى اتباعهم)".
درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 50):
"(كتاب الصلاة) (شرط لفرضيتها الإسلام، والعقل، والبلوغ) لما تقرر في الأصول أن مدار التكليف بالفروع هذه الثلاثة". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 704):
"وفسر في الحواشي السعدية التكليف بالإسلام والعقل والبلوغ"

الاشباہ والنظائر لجلال الدین السیوطی ص٣١٢ میں ہے:

ص: 312 ] القول في الإشارة .

الإشارة من الأخرس معتبرة ، وقائمة مقام عبارة الناطق ، في جميع العقود ، كالبيع والإجارة والهبة ، والرهن ، والنكاح ، والرجعة ، والظهار . والحلول : كالطلاق ، والعتاق ، والإبراء ، وغيرهما ، كالأقارير ; والدعاوى ، واللعان ، والقذف والإسلام .

ويستثنى صور : الأولى : شهادته لا تقبل بالإشارة في الأصح .

الثانية : يمينه لا ينعقد بها ، إلا اللعان .

الثالثة : إذا خاطب بالإشارة في الصلاة لا تبطل على الصحيح .

الرابعة : حلف لا يكلمه ، فأشار إليه ، لا يحنث .

الخامسة : لا يصح إسلام الأخرس بالإشارة في قول ، حتى يصلي بعدها والصحيح صحته . وحمل النص المذكور على ما إذا لم تكن الإشارة مفهمة .

وإذا قلنا باعتبارها ، فمنهم من أراد الحكم على إشارته المفهومة ، نوى أم لا ، وعليه البغوي .

وقال الإمام ، وآخرون : إشارته منقسمة إلى صريحة مغنية عن النية ، وهي التي يفهم منها المقصود كل واقف عليها ، وإلى كناية مفتقرة إلى النية ، وهي التي تختص بفهم المقصود بها المخصوص بالفطنة ، والذكاء ، كذا حكاه في أصل الروضة : والشرحين من غير تصريح بترجيح .

وجزم بمقالة الإمام في المحرر ، والمنهاج . قال الإمام : ولو بالغ في الإشارة ، ثم ادعى أنه لم يرد الطلاق ، وأفهم هذه الدعوى فهو كما لو فسر اللفظ الشائع في الطلاق بغيره ، وسواء في اعتبارها : قدر على الكتابة أم لا كما أطلقه الجمهور ، وصرح به الإمام . وشرط المتولي عجزه عن كتابة مفهمة ، فإن قدر عليها ، فهي المعتبرة ; لأنها أضبط .

گونگے کا نکاح

 اگر گونگا لکھنا پڑھنا جانتا ہو، تو اس کے سامنے ایک کاغذ پر ایجاب لکھ دیا جائے اور وہ جواب میں "مجھے قبول ہے" لکھ دے، تو اس کا نکاح منعقد ہوجائے گا اور اگر وہ لکھنا پڑھنا  نہ جانتاہوتو پھر اشارہ سے "مجھے قبول ہے" بتادے، نکاح منعقد ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (21/3، ط: دار الفکر)
وفي الفتح ينعقد النكاح من الأخرس إذا كانت له إشارة معلومة ۔

و فیہ ایضا: (241/3، ط: دار الفکر)
قلت بل هذا القول تصريح بما هو المفهوم من ظاهر الرواية ففي كافي الحاكم الشهيد ما نصه فإن كان الأخرس لا يكتب وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز وإن كان لم يعرف ذلك منه أو شك فيه فهو باطل اھ فقد رتب جواز الإشارة على عجزه عن الكتابة فيفيد أنه إن كان يحسن الكتابة لا تجوز إشارته ۔الخ۔

الفتاوی الھندیۃ: (270/1، ط: دار الفکر)
وكما ينعقد بالعبارة ينعقد بالإشارة من الأخرس إن كانت إشارته معلومة كذا في البدائع۔

Wednesday 14 August 2024

دو طلاق کاحکم

 سائل نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہےکہ" طلاق دے دی طلاق دے دی " تو ان الفاظ سے اس کی بیوی پر  دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ہیں، جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے دوران شوہر اگر رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اور رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے کہہ دے کہ "میں نے رجوع کرلیا" تو رجوع ہوجائے گا، اور اگر زبان سے کچھ نہ کہے، مگر آپس میں میاں بیوی کا تعلق قائم کرلے یا خواہش اور رغبت سے اس کو ہاتھ لگالے، تب بھی رجوع ہو جائے گا، البتہ اگر عدت گزر گئی تو نکاح ٹوٹ جائے گاپھر باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا، لیکن واضح رہے کہ رجوع یا نکاح جدید کرنے کے بعد اب شوہر کو صرف ایک طلاق دینے کا اختیار باقی ہوگا ۔۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"روى ابن سماعة عن محمد - رحمه الله تعالى - فيمن قال لامرأته: كوني طالقًا أو اطلقي، قال: أراه واقعًا و لو قال لها: أنت طالق طالق أو أنت طالق أنت طالق أو قال: قد طلقتك قد طلقتك أو قال: أنت طالق و قد طلقتك تقع ثنتان إذا كانت المرأة مدخولًا بها، و لو قال: عنيت بالثاني الإخبار عن الأول لم يصدق في القضاء و يصدق فيما بينه وبين الله تعالى."

(کتاب الطلاق ، ص: 355، ج:1 ،ط:دارالفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ. وهو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط

(فتاوی ہندیہ، جلد1، کتاب الطلاق، الباب الاول، فصل فیمن یقع طلاقہ و فیمن لا یقع طلاقہ، ص: 353، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

وبه ظهر أن المختار قولهما في جميع الأبواب فافهم. وبين في التحرير حكمه أنه إن كان سكره بطريق محرم لا يبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق والعتاق، والبيع والإقرار، وتزويج الصغار من كفء، والإقراض والاستقراض لأن العقل قائم، وإنما عرض فوات فهم الخطاب بمعصيته، فبقي في حق الإثم ووجوب القضاء

(فتاوی شامی، جلد3، کتاب الطلاق، مطلب فی تعریف السکران و حکمہ، ص: 239، ط: ایچ ایم سعید)


خاتون قاضی بن سکتی ہے کہ نہیں

  خاتون اگر حدود وقصاص کے علاوہ کسی اور معاملہ میں قاضی بن کر فیصلہ دیتی ہے تو فیصلہ نافذ ہوجائے گا تاہم خاتون کو قاضی بنانا گناہ ہے،  کیوں  ایسے تمام مناصب جن میں ہرکس و ناکس کے ساتھ اختلاط اور میل جول کی ضرورت پیش آتی ہے(جیسے قاضی اور  جج بننے کی ذمہ داری وغیرہ ) شریعتِ اسلامی نے ان کی ذمہ داری مردوں پر عائد کی ہے،خود اسلام کے ابتدائی ادوار میں بڑی فاضل خواتین موجود تھیں، مگر کبھی کسی خاتون کو مذکورہ ذمہ داری نہیں دی گئی۔

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(والمرأة تقضي في غير حد وقود وإن أثم المولي لها) لخبر البخاري «لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة»

 (قوله: في غير حد وقود) لأنها لا تصلح شهادة فيهما فلا تصلح حاكمة.

(کتاب القضاء، باب التحکیم، مطلب في جعل المرأة شاهدة في الوقف، ج:5، ص:440، ط:ایچ ایم سعید)

Tuesday 13 August 2024

غسل کے دوران کلی کرنا یاناک میں پانی ڈالنا بھول گیا بعد میں یاد آنے پر کرلیا غسل ہوا کہ نہیں

 غسل شروع کرنے سے پہلے وضو کرنا سنت ہے، اسی وضو میں کلی بھی کرلینی چاہیے اور ناک میں پانی بھی ڈال لینا چاہیے، لیکن اگر غسل شروع کرنے سے پہلے یا غسل کے دوران کلی نہیں کی یا ناک میں پانی نہیں ڈالا تو غسل کے بعد جب بھی یاد آجائے اس وقت کلی کرلینی چاہیے اور ناک میں پانی ڈال لینا چاہیے چاہے جتنی بھی دیر گزر چکی ہو۔

  غسل کرلینے کے بعد جس وقت بھی یاد آئے کہ کلی نہیں کی یا ناک میں پانی نہیں ڈالا تو  چاہے جتنی دیر گزر چکی ہو تب بھی صرف کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا کافی ہوگا، مکمل غسل دوبارہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ البتہ اگر یہ غسل فرض تھا اور اس میں کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا تھا، اور کلی کرنے یا ناک میں پانی ڈالنے سے پہلے اگر کوئی نماز پڑھ لی تو کلی کرنے یا ناک میں پانی ڈالنے کے بعد اس نماز کا اعادہ کرنا ہوگا۔

اللباب في الجمع بين السنة والكتاب (1/ 129):
"وعنه: عن ابن عباس رضي الله عنه قال: " إذا نسي المضمضة والاستنشاق إن كان جنباً أعاد المضمضة والاستنشاق واستأنف الصلاة ". وكذلك قال ابن عرفة، وإلى هذا ذهب الثوري رحمه الله تعالى".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 155):
"فروع] نسي المضمضة أو جزءاً من بدنه فصلى ثم تذكر، فلو نفلا لم يعد لعدم صحة شروعه.

(قوله: لعدم صحة شروعه) أي والنفل إنما تلزم إعادته بعد صحة الشروع فيه قصدا، وسكت عن الفرض لظهور أنه يلزمه الإتيان به مطلقاً".

الأصل للشيباني ط قطر (1/ 32):
"قلت: أرأيت رجلاً  توضأ ونسي المضمضة والاستنشاق أو كان جُنُباً فنسي المضمضة والاستنشاق ثم صلى؟ قال: أمّا ما كان في الوضوء فصلاته  تامة، وأمّا ما كان في غُسل الجنابة أو طُهر حيض فإنه يتمضمض ويستنشق ويعيد الصلاة. قلت: من أين اختلفا؟ قال: هما في القياس سواء، إلا أنّا نَدَعُ القياس للأثر الذي جاء عن ابن عباس". 
 فقط


Friday 9 August 2024

وسعت کے باوجود قرض ادا نہ کرنے پر وعید

  قرض اتارنے کی قدرت ہونے کے باوجود قرض نہ اتارنا اور اس میں ٹال مٹول کرناظلم ہے، یہی وجہ تھی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ اس پر قرض تو نہیں ہے؟ اگر میت مقروض نہ ہوتی تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ پڑھاتے اور اگرمیت مقروض ہوتی اور اپنے پیچھے قرض کی ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑا ہوتا اور کوئی اس کے قرض کی ضمانت بھی نہ لیتا تو صحابہ سے کہہ دیتے کہ اپنے بھائی کا جنازہ ادا کرلو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے افراد کی نمازِ جنازہ ادا نہ فرماتے؛ تاکہ امت کو قرض میں ٹال مٹول کی برائی اور اس کی شدت کا احساس ہو۔ بعد میں جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فتوحات عطا فرمائیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے موقع پر یہ سوال فرماتے، اگر میت مقروض ہوتی اور اس نے ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کے قرض کی ادائیگی کا انتظام فرماتے اور نمازِ جنازہ ادا فرماتے، جیساکہ مندرجہ ذیل روایت مروی ہے:

"عن سلمة بن الأكوع رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بجنازة ليصلي عليها، فقال: «هل عليه من دين؟»، قالوا: لا، فصلى عليه، ثم أتي بجنازة أخرى، فقال: «هل عليه من دين؟»، قالوا: نعم، قال: «صلوا على صاحبكم»، قال: أبو قتادة علي دينه يا رسول الله، فصلى عليه".

(صحیح البخاری،کتاب الکفالۃ، باب من تكفل عن ميت دينا، فليس له أن يرجع، رقم الحدیث:2295، ج:3، ص:96، ط:دارطوق النجاۃ)

ترجمہ: حضرتِ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: کہ کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کی نہیں تو اُس کی نماز جنازہ پڑھی،  پھر دوسرا جنازہ لایا گیا تو فرمایا: کیا اس پر قرض ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: ہاں۔ فرمایا: تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو، حضرت ابو قتادہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اس کا قرض مجھ پر۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔

اسی طرح ایسے شخص کے بارے میں جنت میں داخل نہ ہونے کی وعید بھی وارد ہے۔

اعمالکم عمالکم روایت کی تحقیق

 یہ مرفوع حدیث نہیں ہے، بلکہ اس طرح کے جملےبعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم، اور تابعین کے کلام میں ملتے  ہیں۔ حافظ سخاوی (ت 902 ھ) " المقاصد الحسنة" میں حديث "كما تكونون يولى عليكم أو يؤمر عليكم" کے تحت فرماتے ہیں :

          وعند الطبراني معناه من طريق عمر، و كعب أحبار و الحسن البصري أنه سمع رجلا يدعو على الحجاج فقال له :لا تفعل إنما نخاف إن عزل الحجاج أو مات أن يستولي عليكم القردة و الخنازير فقد روي أن أعمالكم عمالكم وكما تكونون يولى عليكم.

(المقاصد الحسنة للسخاوي، حرف الكاف، رقم الحديث: ٨٤٥ ، ٢/ ٢٨١، جائزة دبي الدولية للقرآن الكريم ١٤٤٠)

یعنی اس حدیث کا ہم معنی کلام امام طبرانی کے ہاں حضرت عمر، کعب أحبار اور حسن بصری رحمہم اللہ تعالیٰ کی سند سے  ملتا ہے اور حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ تب کہا تھا جب آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ حجاج کو بد دعا دے رہا ہے ، تو آپ نے فرمایا:  ایسا مت کرو ، یہ تمہارے ہی اعمال کا نتیجہ ہے، ہمیں ڈر ہے اگر حجاج معزول ہو گیا یا مر گیا  تو تم پر بندر اور خنزیروں کو مسلط کر دیا جائے ، کیوں کہ مروی ہے کہ أعمالكم عمالكم، وكما تكونون يولى عليكم، مطلب جيسے: اعمال ویسے امراء"۔

اسی طرح محدث عجلونی (ت 1162ھ) رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے  ہیں : 

            "وأقول: رواه الطبراني عن الحسن البصري أنه سمع رجلاً يدعو على الحجاج، فقال له : لا تفعل، إنما نخاف إن عزل الحجاج أو مات و يتولى عليكم القردة و الخنازير، فقد روي أن أعمالكم عمالكم، وكما تكونوا يولى عليكم". (كشف الخفاء ومزيل الإلباس للعجلوني، باب الهمزة مع العين، ١/ ١٤٧، مؤسسة مناهل العرفان)

        اور یہی کلام امام مناوی رحمہ اللہ  (ت ١٠٣١ھ) نے  فیض القدیر میں اور ملا علی قاری رحمہ اللہ ( ت 1014ھ) نے  مرقاۃ  المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح  میں ذکر کیا ہے، ملاحظہ فرمائیے: (فيض القدير شرح جامع الصغير للمناوي، تحت حرف الكاف في شرح حديث: كما تكونوا يولى عليكم، ٦/ ٣١٧، دار الحديث القاهرة، ١٤٣١- المرقاة شرح المشكاة لعلي القاري ، كتاب الإمارة والقضاء، الفصل الثالث، في شرح حديث: كما تكونون كذلك يؤمر عليكم، ٧ / ٢٢٨، المكتبه الإمدادية، ملتان)

حافظ سخاوی اور محدث عجلونی رحمہما اللہ تعالیٰ کے کلام میں اگرچہ  یہ صراحت نہیں کہ یہ ان حضرات کا اپنا کلام ہے ، یا وہ حضور صلی اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں، یا پھر کوئی اسرائیلی روایت ہے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ کلام اور اس طرح کا مفہوم قرن اول میں ہی مشہور تھا، خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ یہ بات فی نفسہ درست ہے، لیکن  جب تک کوئی معتبر سند نہ مل جائے ، اس جملے کو بطورِ حدیثِ مرفوع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب نسبت کرکے بیان کرنے میں احتیاط ضروری ہے۔

پرانی مسجد کی جگہ مدرسہ بنانا

 مسجد کی زمین پر  مدرسہ تعمیر کرنا شرعاً جائز نہیں ،اس مسجد  کی حفاظت  اور آباد كرنا ضروری ہے، البتہ مسجد کے احکام اور آداب واحترام کی رعایت رکھتے ہوئے وہاں بچوں کی دینی تعلیم کا عارضي طور پر انتظام کیا جاسکتا ہے، یعنی وہاں بیت الخلا، گھر اور وضو خانہ وغیرہ نہ بنایاجائے،مسجد کےآداب کالحاظ رکھتے ہوئے صرف  تعلیم ہو اور اساتذہ اور طلبہ وہاں جماعت سے نماز ادا کریں تو  مسجدبھی آباد رہے گی۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے۔ 

"إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه، وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته."

(الباب الخامس الوقف،الفصل الثالث حکم الوقف،ج:10،ص:7617،دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي) حاوي القدسي 

مطلب فيما لو خرب المسجد أو غيره (قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه مجتبى وهو الأوجه فتح. اهـ"

(کتاب الوقف،ج:4،ص:358،سعید)

Thursday 8 August 2024

عائزل نام رکھنا

 "عائزل"  کا معنی ہمیں نہیں مل سکا، نیز کسی مستند حوالے  سے کسی دوسری زبان کا ہونا بھی معلوم نہیں ہوسکا۔

باقی بچوں کے ناموں کے لیے  بہتر یہ ہے کہ ان  کا ایسا نام رکھا جائے جس سے اسلام کے تشخص کا اظہار ہو، اس  کے لیے  لڑکے کا نام انبیاءِ کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہم اللہ کے نام پر رکھیں ، اور لڑکی کا نام  صحابیات رضوان اللہ  علیہن  یا  تابعات رحمہن اللہ  کے ناموں پر  رکھا جائے، یا اچھے معنی والا عربی نام رکھا جائے۔

Tuesday 6 August 2024

شرط فاسد کے ساتھ بیع

 خرید و فروخت کا معاملہ کرتے وقت ایسی شرط لگانا جس شرط کا یہ عقد نہ تقاضا  کرتا ہو  اور نہ ہی یہ شرط اس معاملہ کے مناسبات میں سے ہو  اور اس شرط میں بیچنے والے یا خریدنے والے کا کوئی فائدہ ہو (یا مبیع کا فائدہ ہو، بشرطیکہ مبیع اس کا اہل ہو، مثلاً: غلام ہو) تو یہ شرط خرید و فروخت کے معاملہ کو فاسد کردیتی ہے، شرعی اعتبار سے  شرطِ فاسد کی صورت میں  فروخت کنندہ اور خریدار کے لیے حکم یہ ہے کہ اس معاملہ کو ختم  کر کے نئے سرے سے معاملہ کریں۔ شرطِ فاسد کی موجودگی میں مشتری کے لیے مبیع سے استفادہ جائز نہیں ہوتا، فقہاءِ کرام نے بیوعِ فاسدہ کو سود کے حکم میں شامل کیا ہے۔

شروطِ فاسدہ کی بنا پر شریعت نے جب بیع کو فاسد قرار دیا ہے تو اس میں عاقدین کی رضا وعدم رضا کا اعتبار نہیں، بلکہ اس عقد میں موجود اس خرابی (شرط فاسد) کو جب تک دور نہ کیاجائے اس وقت تک شریعت کی نگاہ میں وہ بیع درست نہیں ہے، ایسی بیع کو ختم کرکے شرطِ فاسد کے بغیر بیع کرنا لازم ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (5 / 32(

"فالحاصل أن كل جهالة تفضي إلى المنازعة مبطلة فليس يلزم أن ما لايفضي إليها يصح معها بل لا بد مع عدم الإفضاء إليها في الصحة من كون المبيع على حدود الشرع ألا ترى أن المتبايعين قد يتراضيا على شرط لا يقتضيه العقد وعلى البيع بأجل مجهول كقدوم الحاج ونحوه ولايعتبر ذلك مصحّحًا، كذا في فتح القدير."

الهداية شرح البداية - (3 / 48):

"وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا أو لأنه يقع بسببه المنازعة فيعري العقد عن مقصوده."

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - (3 / 90):

"ولو كان البيع بشرط لايقتضيه العقد وفي نفع لأحد المتعاقدين أي البائع والمشتري أو  لمبيع يستحق النفع بأن يكون آدميًّا فهو أي هذا البيع فاسد لما فيه من زيادة عرية عن العوض فيكون ربا وكل عقد شرط فيه الربا يكون فاسدًا."

سرکاری یوجنا کے تحت ملے فلیٹ کو کرایہ پر دینا

 کیا فرماتے ہیں علماء دین درج ذیل سوال کے جواب میں۔

احقر ایک مسجد کے امام ہے مالی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سےسرکاری آواس یوجنا کے تحت ۵۰گزپرمشتمل ایک نامکمل فلاٹ احقرکوملاہےجسےاحقر اپنی ذاتی رقم سے مکمل کرتولیامگر مسجدسےکافی دوراورایسی ابادی میں جہاں موجودہ حالات میں اسلامی تشخص کےساتھ رہنااورجان ومال کی حفاظت کرنا ایک مستقل مسئلہ بنگیاہے۔

 سرکار کی طرف سے اس طرح کی فلاٹ کوفروخت کر نے یاکریاپراٹھانے کی اجازت نہیں ہے، البتہ سرکاری ادھکاریوں کے من پسند کسی افراد کے حوالے کردیں تو کوکوئ اعتراض نہیں ہے ۔اب سوال یہ ہےکیااس صورت میں فلاٹ کاقبضہ کسی اور کو دےکراس سے  جومیری ذاتی رقم فلاٹ کومکمل کرنےمیں خرچ ہواہےوہ یااس کی موجودہ جوقیمت ہے وہ حاصل کر سکتے ہیں یانہی۔

عبدالقدوس علی گڑھ 

۵اگست ۲۰۲۴

الجواب وباللہ التوفیق ومنہ المستعان 

عقدِ اجارہ یا بیع تام ہونے کے بعد کرایہ داریامشتری منافع کا مالک بن جاتا ہے اور اس کو منافع حاصل کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے اب چاہے وہ خود منافع حاصل کرے یا کسی اور کو منافع کا مالک بنائے۔ بشرطیکہ کسی ایسے شخص کو نہ دے جو اس میں ایسا کام شروع کرے جس کی وجہ سے مکان کو نقصان پہنچتا ہو، لہذا اگر حکومت نے کرایہ داریامشتری پر یہ شرط لگائی کہ آپ یہ مکان کسی اور کو کرایہ پر نہیں دیں گے تو یہ شرط باطل ہوگی اور کرایہ داریامشتری وہ مکان  کسی اور کو کرائے پر دینا چاہےتو دے سکتاہے  

لھذا صورت مسئولہ میں 

فلیٹ کاقبضہ کسی اور کو دےکراس سے  جو رقم فلیٹ کومکمل کرنےمیں خرچ ہویی ہےیااس کی موجودہ جوقیمت ہے وہ حاصل کر سکتے ہیں ۔

    ۔البتہ

حکومتی ضوابط وحدود کی پاسداری کرتے ہویے اپنی جان مال کی حفاظت کرنا بھی لازم ہے ۔

وقد اختلف أهل العلم في بطلان البيع إذا كان مصحوبا بشرط ينافي مقتضى العقد، فذهب المالكية والشافعية وهو رواية عن أحمد إلى بطلان البيع، وذهب الحنفية إلى بطلان البيع إذا كان في الشرط منفعة لأحد المتعاقدين، وذهب الحنابلة إلى صحة البيع وبطلان الشرط وهو قول في مذهب الشافعية، وإليك بعض نصوص الفقهاء في ذلك.

وله السكنى بنفسه وإسكان غيره بإجارة وغيرها) وكذا كل ما لا يختلف بالمستعمل يبطل التقييد لانه غير مفيد۔  (الدر المختار على صدر رد المحتار، كتاب الإجارة، باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها، ج:9، ص:38)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا ‌آجرها ‌بخلاف ‌الجنس أو أصلح فيها شيئا ..... قال ابن عابدين:(قوله بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد"

(كتاب الإجارة،‌‌باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها،29/6،ط:سعيد)