https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday, 10 May 2025

بہو سے ناجائز تعلقات پر حرمت مصاہرت

 اگرکسی  شخص نےاپنی بہو  کواس طور پر چھواہے کہ اس میں حرمت مصاہرت کو ثابت کرنے والی تمام شرائط پائی جاتی ہیں تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت قائم ہوگئی، اور   بہو اپنے شوہر پر حرام ہوگئی۔اب اس کاا پنےشوہر کے ساتھ میاں بیوی کی حیثیت سے  اکھٹے رہنا جائز نہیں، اس کے بعد  شوہر پرزبانی متارکت یا طلاق دینا بھی  ضروری ہے،اس کے بعد عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔عدت کے دوران شوہر کے گھر پردہ کے ساتھ علیحدہ رہنا، کھانا،پینا جائز ہے۔اور اگر مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں یا شوہر بیوی کے دعوی کی تصدیق نہ کرے تو پھر حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة."

(کتاب النکاح،ج3،ص37،ط؛سعید)

Thursday, 8 May 2025

چچایاتایازادبہن بھائی کا نکاح

 شوہر کے فوت ہونے کے بعد دیورسے نکاح جائز ہے اور بیٹے کا نکاح دیور کی بیٹی سے مطلقا جائز ہے، شوہر کے انتقال سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"انتفاء محلية المرأة للنكاح شرعا بأسباب تسعة: الأول المحرمات بالنسب: وهن فروعه وأصوله وفروع أبويه وإن نزلوا وفروع أجداده وجداته إذا انفصلوا ببطن واحد. الثاني المحرمات بالمصاهرة: وهن فروع نسائه المدخول بهن وأصولهن وحلائل فروعه وحلائل أصوله، والثالث المحرمات بالرضاع وأنواعهن كالنسب، والرابع حرمة الجمع بين المحارم وحرمة الجمع بين الأجنبيات كالجمع بين الخمس، والخامس حرمة التقديم وهو تقديم الحرة على الأمة جعله في النهاية والمحيط قسما على حدة وأدخله الزيلعي في حرمة الجمع، فقال: وحرمة الجمع بين الحرة والأمة والحرة متقدمة وهو الأنسب، والسادس المحرمة لحق الغير كمنكوحة الغير ومعتدته والحامل بثابت النسب، والسابع المحرمة لعدم دين سماوي كالمجوسية والمشتركة، والثامن المحرمة للتنافي كنكاح السيدة مملوكها، والتاسع لم يذكره الزيلعي وكثير وهو المحرمة بالطلقات الثلاث ذكره في المحيط والنهاية".

(کتاب النکاح، فصل في المحرمات في النكاح، ج:3، ص:98، ط:دارالکتاب الاسلامی)

مسجد یامدرسہ کا بینک کھلوانا

 بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں ہے ،البتہ اگر  مسجد کی رقم سنبھالنے میں مشکلات ہوں تو   ضرورت کی بناء پرصرف کرنٹ اکاؤنٹ کھولنے کی گنجائش ہے۔

درر الحکام میں ہے :

"لأن الثابت بالضرورة ‌يتقدر ‌بقدرها".

(باب الاعتکاف،ج:1،ص:213،داراحیاء الکتب العربیۃ)

Wednesday, 7 May 2025

حاجی پر عید والی قربانی

 حجِ قران یا حجِ تمتع کرنے کی صورت میں دمِ شکر کے طور پر ایک حصہ قربانی کرنا یا ایک دنبہ، یا بھیڑ، یا بکری حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہوتا ہے، یہ اس قربانی کے علاوہ ہے جو ہر سال اپنے وطن میں کی جاتی ہے، دونوں الگ الگ ہیں،عید والی قربانی کا حج والی  قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔ حاجی کے لیے عید والی قربانی واجب ہونے یا نہ ہونے کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر حاجی شرعی مسافر ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں، البتہ اگر مسافر حاجی بھی اپنی خوشی سے عید والی قربانی کرے گا تو اس پر ثواب ملے گا، لیکن لازم نہیں ہے۔  اور اگر حاجی مقیم ہے اور اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ نصاب کے برابر زائد رقم موجود ہے تو اس پر قربانی کرنا واجب ہوگی۔

نوٹ: اگر حاجی ایام حج میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ مکہ میں قیام کی نیت سے ٹھہرے اور  8 ذی الحجہ کو منیٰ روانہ ہونے سے پہلے  پندرہ دن مکمل ہو رہے ہوں تو یہ حاجی عید کے دنوں میں مقیم شمار ہوگا، اور صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں اس پر دمِ شکر کے علاوہ عید کی  قربانی بھی واجب ہوگی۔ لیکن اگر  منیٰ روانہ ہونے سے پہلے مکہ میں پندرہ دن پورے نہ ہورہے ہوں تو اقامت کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا، لہٰذا یہ حاجی مقیم نہیں کہلائے گا ، بلکہ مسافر شمار ہوگا، چنانچہ اس حاجی پر  دمِ شکر کے علاوہ عید کی قربانی واجب نہیں ہوگی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 174)

'' قال أصحابنا: إنه دم نسك وجب شكراً ؛ لما وفق للجمع بين النسكين بسفر واحد''۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 63)

''ومنها: الإقامة فلا تجب على المسافر؛ لأنها لا تتأدى بكل مال ولا في كل زمان، بل بحيوان مخصوص في وقت مخصوص، والمسافر لا يظفر به في كل مكان في وقت الأضحية، فلو أوجبنا عليه لاحتاج إلى حمله مع نفسه، وفيه من الحرج ما لا يخفى، أو احتاج إلى ترك السفر، وفيه ضرر، فدعت الضرورة إلى امتناع الوجوب، بخلاف الزكاة؛ لأن الزكاة لا يتعلق وجوبها بوقت مخصوص بل جميع العمر وقتها، فكان جميع الأوقات وقتاً لأدائها، فإن لم يكن في يده شيء للحال يؤديها إذا وصل إلى المال، وكذا تتأدى بكل مال، فإيجابها عليه لا يوقعه في الحرج، وكذلك صدقة الفطر ؛ لأنها تجب وجوباً موسعاً كالزكاة، وهو الصحيح.

وعند بعضهم وإن كانت تتوقف بيوم الفطر لكنها تتأدى بكل مال، فلا يكون في الوجوب عليه حرج، وذكر في الأصل وقال: ولا تجب الأضحية على الحاج؛ وأراد بالحاج المسافر، فأما أهل مكة فتجب عليهم الأضحية وإن حجوا''۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 125)

Monday, 5 May 2025

دیوربھابی کاپردہ

 بھابھی نامحرم ہے، اور    جو حکم دیگر نامحرموں سے پردہ کا ہے وہی  حکم دیور/جیٹھ اور بھابھی کا بھی ہے،   نبی کریم ﷺ سے جب دیور (وغیرہ) سے پردہ کا حکم دریافت کیاگیا تو آپ ﷺ نے  دیور کو موت سے تعبیر فرمایا۔ (صحیح مسلم، باب التحریم الخلوۃ بالاجنبیہ والدخول، ج: ۷، ص: ۷، ط: دار الجیل بیروت  وغیرھا من کتب الاحادیث)

یعنی موت سے جتنا ڈر ہوتا ہے اتنا ہی دیور اور جیٹھ وغیرہ سے  بھی ہے، خصوصاً جب کہ رہائش بھی ساتھ ہی ہو، ایسے مواقع پر پردہ کاحکم ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ مزید احتیاط کا متقاضی ہوجاتا ہے۔

البتہ  مشترکہ خاندانی نظام میں عورت کے لیے  پردے کی  صورت یہ ہے کہ کوئی بڑی چادر جس سے پورا جسم ڈھکا ہوا ہو  اوڑھ کر گھر کے کام کاج کرلے۔  بلا ضرورت دیور سے بات چیت نہ کی جائے۔  اگر کبھی کوئی ضروری بات یا کام ہو تو  آواز میں لچک پیدا کیے بغیر پردہ میں رہ کر ضرورت کی حد تک بات کی جائے۔   خلوت میں یا  پاس بیٹھنے  کی  یا ہنسی مذاق  کرنے کی  شرعاً اجازت   نہیں۔  نیزکبھی سارے گھر والے اکٹھے کھانے پر یا ویسے بھی  بیٹھے  ہوں تو خواتین کو چاہیے کہ ایک طرف اور مرد ایک طرف رہیں، تاکہ اختلاط نہ ہو۔

مشترکہ رہائش کی صورت میں گھر کے نامحرم مرد بھی اس کا اہتمام کریں کہ گھر میں داخل ہوتے وقت بغیر اطلاع کے نہ داخل ہوں، بلکہ بتا کر یا کم ازکم کھنکار کر داخل ہوں، تاکہ کسی قسم کی بے پردگی نادانستگی میں بھی نہ ہو۔  فقط

کیڑے مکوڑے اناج یاپانی میں گرگیے تواس پانی کاحکم

 آٹا، گندم یا کسی دوسرے اناج میں اگر صرف کیڑوں کا مادّہ جالے کی طرح پیدا ہوا، ابھی تک جاندار کیڑے نہیں ہوئے تو مع اس جالہ کے آٹا وغیرہ استعمال کرنا شرعاً درست ہے، اگر جاندار کیڑے پیدا ہوگئے تو پھر کیڑوں سمیت آٹا وغیرہ کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہے۔ (بہشتی زیور: ۹/۱۰۴، طبی جوہر، ط:اختری) (۲،۳) جن کیڑوں اور حشرات الارض میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا مثلاً چیونٹی، مچھر،چھوٹی چھپکلی ان کے پانی وغیرہ میں گر کر پھول پھٹ جانے سے پانی وغیرہ ناپاک نہیں ہوتا ہے، وضو او رغسل میں اس طرح کے پانی کا استعمال شرعاً جائز ہے؛ لیکن چوں کہ کیڑے مکوڑوں (خواہ ان میں بہتا ہوا خون ہو یا نہ ہو) کاکھانا بہرحال جائز نہیں؛ اس لیے ان کے سالن میں پک جانے کی صورت میں سالن کا کھانا جائز نہ ہوگا، اسی طرح پانی میں پھول پھٹ کر گھل مل جانے کی صورت میں اس پانی کا پینا بھی جائز نہیں ہے۔ وذکر الکرخی عن أصحابنا أنّ کل ما لایفسد الماء لایفسد غیر الماء وہکذا روی ہشام عنہم، وہذا أشبہ بالفقہ، ویستوي الجواب بین المتفسّخ وغیرہ فی طہارة الماء ونجاستہ إلاّ أنہ یکرہ شرب المائع الذي تفسّخ فیہ؛ لأنہ لایخلو عن أجزاء مایحرم أکلہ الخ (بدائع الصنائع: ۱/۲۳۲، ط:زکریا) نیز دیکھیں: بہشتی زیور اختری (۹/۱۰۳ تا ۱۰۵، بہ عنوان: حیوان کا بیان)

حرام اشیاء سے دوا بنانا

 قوله: ( اختلف في التداوي بالمحرم ) ففي النهاية عن الذخيرة: يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر، وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم كما رواه البخاري: أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس، فقال: لو عرف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء وبالبول أيضًا إن علم فيه شفاء لا بأس به لكن لم ينقل، وهذا لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع ا هـ من البحر . وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة واشتراط صاحب النهاية العلم لاينافيه اشتراط مَن بعده الشفاء، ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله: لا للتداوي محمول على المظنون، وإلا فجوازه باليقين اتفاق كما صرح به في المصفى اهـ 

 أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدل لقول الإمام لكن قد علمت: أن قول الأطباء لا يحصل به العلم، و الظاهر: أن التجربة يحصل به العلم،  والظاهر: أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم ۔ تأمل.

قوله: ( وظاهر المذهب المنع ) محمول على المظنون كما علمته، قوله ( لكن نقل المصنف الخ ) مفعول نقل قوله وقيل يرخص الخ والاستدراك على إطلاق المنح وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك،ونص ما في الحاوي القدسي إذا سال الدم من أنف إنسان ولا ينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلايرخص له ما فيه وقيل يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى ا هـ 

 قوله: ( ولم يعلم دواء آخر ) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي إلا أنه يفاد في قوله كما رخص الخ لأن حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط.قال: ونقل الحموي: أن لحم الخنزير لايجوز التداوي به وإن تعين والله تعالى أعلم."

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الطهارة، باب المياه، مطلب  في التداوي بالمحرم (1/ 210)،ط. سعيد)

Saturday, 3 May 2025

نماز کے دوران منھ میں خون محسوس ہونا

 اگر منھ سے نکلنے والا خون تھوک پر غالب ہو یا اس کے برابر ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں، وینقضہ دم غلب علی بزاق أو ساواہ لا المغلوب بالبزاق کذا في التنویر مع الدر والر د (۱: ۲۶۷)

Sunday, 27 April 2025

موبائل توڑنے کا ضمان

جاندار کی تصویریا ویڈیو بناناشرعاً ناجائز ہے، اس لیے کسی کی اجازت کے بغیر بھی تصویر یا ویڈیوبنانا جائز نہیں ،مزید قباحت کا باعث ہے  اور اگر کوئی اپنی تصویر یا ویڈیوبنانےکی اجازت دے تب بھی اس کی تصویر یا ویڈیوبنانا جائز نہیں ہے ۔ 

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي طلحة رضی اللہ عنہ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:لا تدخل الملائكة بيتاً فيه صورة".

 (صحيح البخاری ، كتاب بدء الخلق، رقم الحدیث:3226، ص:385، ط:دار ابن الجوزی)

وفیہ ایضاً:

"عن عبد الله رضی اللہ عنه ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون".

(صحيح البخاری ، كتاب اللباس، باب:عذاب المصورين، رقم الحدیث:5950، ص:463، ط:دار ابن الجوزی)



 ضمان توڑنے والے پر ہوگا۔  

لما في الشامية:

وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عند مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ ورأى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى... والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال (باب التعزير،مطلب: في التعزيربأخذ المال،698،ط:رشيدية)

و في شرح القواعد الفقهية:

' المباشر ' للفعل ' ضامن ' لما تلف بفعله إذا كان متعدياً فيه ، ويكفي لكونه متعدياً أن يتصل فعله في غير ملكه بمالا مسوغ له فيه سواء كان نفس الفعل سائغاً....أو غيرسائغ ...' وإن لم يتعمد ' الإتلاف ، لأن الخطأ يرفع عنه إثم مباشرة الإتلاف ولا يرفع عنه ضمان المتلف بعد أن كان متعدياً.( ( القاعدة الحادية والتسعون ( المادة / 92 ،ص:453،دارالقلم) )

Wednesday, 23 April 2025

فسخ نکاح کے لیے شوھر کی رضامندی ضروری نہیں

 خلع کے علاوہ  بعض مخصوص حالات میں قاضی  شرعی کو یہ  اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ  شوہر کی اجازت کے بغیر بھی  میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، اس لیے کہ   نکاح کے بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں  جو  نکاح کے مصالح  اور مقاصد میں سے ہیں اور قضاءً اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزورِ  عدالت انہیں وصول کیا جاسکتا ہے، مثلًا بیوی کا نان ونفقہ  اور حقوقِ زوجیت ادا کرنا وغیرہ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی سے عاجز  ہو تو عورت کو طلاق دے دے ایسی صورت میں اگر  وہ  طلاق دینے سے انکار کرتا ہے یا شوہر طلاق دینے کے قابل نہیں ہے تو قاضی اس کا قائم مقام بن کر میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، کیوں کہ اس کو ولایت حاصل ہوتی ہے،  بیوی خود تفریق نہیں کرسکتی۔

جن اسباب کی بنا پر قاضی شرعی، میاں بیوی کا نکاح فسخ کرسکتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

1۔شوہر پاگل یا مجنون ہو۔

2۔ شوہر نان و نفقہ ادا  نہ کرتا ہو۔

3۔ شوہر نامرد ہو۔

4۔  شوہر مفقود الخبر یعنی بالکل  لاپتہ ہو۔

5۔ شوہر  غائب غیر مفقود ہو اور عورت کے لیے خرچ وغیرہ کی کفالت کا انتظام نہ ہو یا عورت کے معصیت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔

6۔ضربِ مبرّح یعنی شوہر بیوی کو سخت مار پیٹ کرتا ہو۔

 ان اسباب  میں سےکسی  کی موجودگی میں  اگر عورت مسلمان جج کی عدالت میں دعویٰ دائر کرکے گواہوں سے اپنے مدعی کو ثابت کردیتی ہے  اورقاضی حسبِ شرائط  نکاح فسخ کردیتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ معتبر ہوگا اور اس میں شوہر کی اجازت ضروری نہیں  ہوگی ، اسی طرح اگر شوہر  عدالت میں حاضر نہ ہو تو عدالت شوہر کی غیر موجودگی میں بھی نکاح ختم کرانے کا اختیار رکھتی ہے، نکاح فسخ ہوجانے کے بعد عورت عدت گزار کر  دوسری جگہ شادی کرنے میں آزاد ہوگی۔ (تفصیل کے لیے الحیلۃ الناجزہ للحلیلۃ العاجزہ،(مؤلف:حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی) ؒ کا  مطالعہ کریں )

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."

(المبسوط للسرخسي (6 / 173) باب الخلع، ط: دارالمعرفة، بیروت)

Tuesday, 22 April 2025

منگنی نکاح نہیں

 منگنی کی مجلس تھی جس میں رشتہ دینے کا وعدہ ہوا ، باقاعدہ نکاح کا یاایجاب وقبول نہیں ہو ا، اس کا حکم یہ ہےکہ یہ محض ایک وعدہ ہے نکاح نہیں ہے۔اس وعدہ پر قائم رہنا ضروری ہے بلا عذ ر اس کو توڑنا جائز نہیں،شرعا نکاح کے لئے مجلس نکاح میں باقاعدہ گواہوں کی موجودگی میں شرعی مہر کے عوض ایجا ب وقبول ضروری ہے ۔

حوالہ جات
رد المحتار (9/ 204) لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد ، وإن كان للعقد فنكاح .ا هـ .

بچپن کے وعدہ نکاح کی حیثیت

  جب  بھایی نے اپنی بہن سے جبکہ ان کی بیٹی نابالغہ تھی یہ وعدہ کیا کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح تمہارے بیٹے سے کردوں گا ۔اس کے بعد نکاح بموجودگی گواہان نہیں ہوا تواس  شخص نے اپنی بیٹی کے نکاح سے متعلق اس کے بچپن میں  اپنی بہن سے محض وعدہ نکاح کیا تھا، باقاعدہ نکاح نہیں کیا تھا (جیسا کہ سوال میں وضاحت موجود ہے) پھر اس کا انتقال ہوگیا ۔اس  وعدہ نکاح سے نکاح نہیں ہوا بچپن میں کیا ہوا وعدہ محض وعدہ ہے، نکاح نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.

قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اهـ." 

(كتاب النكاح، جلد:3، صفحہ:11، طبع: سعيد)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"خطبہ اور منگنی وعدۂ نکاح ہے، اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا، اگرچہ مجلس خطبہ کی رسوم پوری  ہوگئی ہوں، البتہ وعدہ خلافی کرنا بدون کسی عذر کے مذموم ہے، لیکن اگر مصلحت لڑکی کی دوسری جگہ نکاح کرنے میں ہے تو دوسری جگہ نکاح لڑکی مذکورہ کا جائز ہے۔"

(کتاب النکاح، جلد:7، صفحہ: 110،  طبع: دار الاشاعت)

Sunday, 20 April 2025

وعدہ نکاح نکاح نہیں

 جب مذکورہ شخص نے اپنی بیٹی کے نکاح سے متعلق اس کے بچپن میں محض وعدہ کیا تھا، باقاعدہ نکاح نہیں کیا تھا ، بچپن میں کیا ہوا وعدہ محض وعدہ  اور منگنی ہے، نکاح نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.

قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اهـ." 

(كتاب النكاح، جلد:3، صفحہ:11، طبع: سعيد)


 صرف نکاح کا وعدہ ہوا ہے اس لیے ابھی تک دونوں کا نکاح قائم نہیں ہوا،اور لڑکی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"الخطبة مجرد وعد بالزواج، وليست زواجاً ، فإن الزواج لا يتم إلا بانعقاد العقد المعروف، فيظل كل من الخاطبين أجنبياً عن الآخر، ولا يحل له الاطلاع إلا على المقدار المباح شرعاً وهو الوجه والكفان...الخطبة والوعد بالزواج وقراءة الفاتحة وقبض المهر وقبول الهدية، لا تكون زواجاً."

(‌‌القسم السادس: الأحوال الشخصية،‌‌ الباب الأول: الزواج وآثاره، ‌‌الفصل الأول: مقدمات الزواج،‌‌ خامسا ما يترتب على الخطبة، 6492/9، ط:دار الفکر)

ہدایہ میں ہے:

"قال: " النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي " لأن الصيغة وإن كانت للإخبار وضعا فقد جعلت للإنشاء شرعا دفعا للحاجة " ‌وينعقد بلفظين يعبر بأحدهما عن الماضي وبالآخر عن المستقبل مثل أن يقول زوجني فيقول زوجتك."

"قال: " ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف " قال رضي الله عنه:اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله عليه الصلاة والسلام " لا نكاح إلا بشهود."

(کتاب النکاح ،325،26/2،ط:رحمانیة)