https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday, 31 May 2025

مسجد میں قربانی کی کھال دینا

 قربانی کی کھالوں کی قیمت ان کے فروخت کرنے کے بعد ازروئے شریعت صدقہ کرنا واجب اور ضروری ہے،لہذا جب اس کی قیمت کو صدقہ کردینا واجب ہے،تو اس کی مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے مصارف ہیں اور چوں کہ زکوۃ، دیگر صدقات میں تملیک فقیرضروری ہے اس لئے ان کو مسجد وغیرہ میں صرف کرنا ہر گز جائز نہیں۔ کیوں کہ تعمیر مسجد میں تملیک  فقیرنہیں پائی جاتی۔

لما في التنوير مع الدر:
’’(والصدقة كالهبة) بجامع التبرع، ..... لأن المقصود فيها الثواب لا العوض‘‘. (كتاب الهبة، فصل في مسائل المتفرقة: 205/3، رشيدية)
وفیہ أیضاً:
’’لایصرف إلی بناء نحو مسجد إلخ‘‘.
(قولہ:نحو مسجد کبناء القناط والسقیات إلخ) وکل مالاتملک فیہ‘‘.(کتاب الاضحیۃ:62/2،بیروت).
وفي التاتار خانية:
وكذلك لا يشترى به اللحم، ولا بأس ببيعة بالدارهم ليتصدق بها، وليس له أن يبيعها بالدارهم لينفقه على نفسه، وفي الخانية: أو عياله، م: ولو فعل ذلك تصدق بثمنها“. (كتاب الاضحية، الفصل: الانتفاع بالاضحية:440/17، فاروقية)
( وكذا في الهندية:كتاب الاضحية، الباب السادس، في بيان ما يستحب في الاضحية والاتنفاع بها:347/5، دار الفكر)
وفي التنويرمع الدر:
’’(فإن بيع اللحم أو الجلد به) أي بمستهلك (أو بدارهم تصدق بثمنه)‘‘.(كتاب الاضحية:543/9، رشيدية)

سعودی عرب میں رھنے والے ھندوستانی کہاں کےباعتبار سے قربانی کریں گے

 اگر آدمی خود کسی اور ملک میں ہو اور قربانی کے لیے کسی کو  دوسرے ملک میں وکیل بنائے تو اس صورت میں قربانی کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قربانی دونوں ممالک کے مشترکہ ایام میں ہو، یعنی جس دن قربانی کی جائے وہ دن دونوں ممالک میں قربانی کا مشترکہ دن ہو، 

إن سبب وجوب الأضحیۃ الوقت وہو أیام النحر، والغني شرط الوجوب (فتح القدیر ۹؍۵۱۹ زکریا)

ویعتبر مکان المذبوح لا مکان المالک۔ (خانیۃ علی ہامش الہندیۃ ۳؍۳۴۵)

منھ دکھائی میں دی ہوئی چیزیں واپس نہیں ہوں گی

 

طلاق کے بعد منہ دکھائی اور دیے گئے تحائف واپس مانگنے کا حکم


سوال

شادی پر لڑکی کو لڑکے کی طرف سے جو منہ دکھائی دی جاتی ہے، اور جو دوسرے لوگوں کی طرف سے تحائف دیے جاتے ہیں، کیا وہ طلاق کے بعد واپس کرنے ہوتے ہیں؟ میری بیٹی کو طلاق ہوگئی ہے اور لڑکے کی والدہ ہم سے  مذکورہ چیزوں کا مطالبہ کررہی ہے، لہٰذا اس سلسلے میں ہماری شرعی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سائل کی بیٹی کو جو لڑکے کی طرف سے منہ دکھائی ملی تھی، اور جو دیگر رشتہ داروں نے لڑکی کو تحائف دیے تھے، وہ سب سائل کی بیٹی کی ملکیت ہے، اور اس کی سابقہ ساس کا طلاق کے بعد ان چیزوں کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے، تاہم زیورات کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ جو زیورات لڑکی کو اُس کے میکے سے  ملتے ہیں وہ اُس کی ملکیت ہوتے ہیں ، اور جو زیورات لڑکی کو اُس کے سسرال والوں کی طرف سے دیے جاتے ہیں اُن کا حکم یہ ہے کہ اگر دیتے وقت مالک بنانے کی صراحت کردی تھی تو لڑکی مالک ہوگی اور اگر صرف استعمال کی صراحت کرکے دیے تھے تو لڑکے والے مالک ہوں گے اور اگر کچھ صراحت نہیں کی تھی تو اس صورت میں لڑکے والوں کے عرف ورواج کا اعتبار ہوتا ہے، یعنی اگر سسرال والوں کا عرف لڑکی کو بطور عاریت کے زیورات دینے کا ہو تو وہ لڑکی کی ملکیت نہیں ہوتے اور دینے والوں کو واپس طلب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، اور اگر سسرال والوں کا رواج بطور ملکیت کے دینے کا ہو یا کوئی رواج نہ ہو، تو وہ زیورات لڑکی کی ملکیت ہوتے ہیں، اور ان کا واپس طلب کرنا درست نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

 "قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٣، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"(‌جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعد أن سلمها ذلك  في صحته) بل تختص به (وبه يفتى) وكذا لو اشتراه لها في صغرها ولوالجية."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٥، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٧، ط: سعید) 

Wednesday, 28 May 2025

طلاق دیدوں گا کا شرعی حکم

 اگر شوہر نے اپنی بیوی سے واقعی صرف اتنا ہی کہا تھا کہ اگر تم باہر جاؤگی تو میں تمہیں طلاق دیدوں گا تو اس جملے سے طلاق واقع نہیں ہوگی ، کیونکہ یہ جملہ صرف اور صرف طلاق کی دھمکی ہے طلاق نہیں ہے۔اور طلاق کی دھمکی دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"قالت لزوجها: من باتو نمي باشم، فقال الزوج: مباش، فقالت: طلاق بدست تو است مرا طلاق كن، فقال الزوج: طلاق ميكنم، طلاق ميكنم، وكرر ثلاثًا، طلقت ثلاثًا بخلاف قوله: كنم؛ لأنه استقبال فلم يكن تحقيقًا بالتشكيك."

( الفتاوی الهندیة: كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية(1/ 384)، ط. رشيديه)

Tuesday, 27 May 2025

میکے میں شوھر کا انتقال ہوگیا عورت کہاں عدت گزارے

 صورت ِمسئولہ میں عورت  اپنے میکے  میں  تھی کہ شوھر کا انتقال ہوگیا تو میکے میں عدت گزارے گی۔ کیونکہ 

وفات سے قبل عورت جہاں مقیم ہو عدت وہیں گزارنی چاہیےالبتہ اگرکوئی شرعی عذر ہو تو مناسب جگہ(جو قریب ہو) منتقل ہو سکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" (وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه)."

(کتاب الطلاق، باب فی العدۃ، فصل فی الحداد،536/3،ط،دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"على المعتدة أن ‌تعتد ‌في ‌المنزل الذي يضاف إليها بالسكنى حال وقوع الفرقة والموت كذا في الكافي."

(کتاب الطلاق،الباب الرابع عشر في الحداد، 535/1،ط،دار الفکر)

قال الحصکفی : (وتعتدان) أی معتدة طلاق وموت (فی بیت وجبت فیہ) ولا یخرجان منہ۔ قال ابن عابدین :(قولہ: فی بیت وجبت فیہ) ہو ما یضاف إلیہما بالسکنی قبل الفرقة ولو غیر بیت الزوج کما مر آنفا، وشمل بیوت الأخبیة کما فی الشرنبلالیة۔( رد المحتار مع الدر المختار: ۵۳۶/۳، باب العدة، ط: دار الفکر، بیروت)

Monday, 26 May 2025

قربانی کے شرکاء میں کسی ایک کی فاسد نیت کی بناپر سب کی قربانی نہ ہونے پر اشکال کا جواب

 اگر قربانی کے بڑے جانور میں شریک  سات شرکاء میں سے کوئی ایک گوشت کھانے کی نیت سے  جانور میں حصہ لیتا ہے  یا اس کی آمدن حرام ہے، اور  باقی شرکاء کو بھی اس بات کا پتا ہو کہ اس شریک کی نیت قربانی کا ثواب حاصل کرنے کی نہیں ہے، بلکہ گوشت کھانے کی نیت ہے  یا اس کی آمدن حرام ہے، تو اس صورت میں اس ایک فاسد نیت  یا حرام مال والے کو اپنے ساتھ قربانی میں شریک کرنے کی وجہ سے سب کی قربانی خراب ہوجائے گی، لیکن اگر باقی شرکاء کو اس ایک شریک کی فاسد نیت کا  یا اس کی آمدن کا بالکل پتا  نہ ہو تو اس صورت میں چوں کہ وہ لوگ بے قصور ہیں؛ اس لیے  ان کی قربانی ادا ہوجائے گی۔  علماءِ  کرام جو مسئلہ بیان کرتے ہیں اس سے مراد پہلی والی صورت ہوتی ہے یعنی جب باقی شرکاء کو ایک شریک کی فاسد نیت کا پتا ہو

قربانی کا عمل خالص ایک قربت ہے جس میں تجزی نہیں ہے، اس لیے قربانی کے جانور میں جتنے شرکاء ہیں سب کی نیت قربت ہی کی ہونی چاہیے تاکہ تجزی لازم نہ آئے، رہی یہ بات کہ کس کی نیت کیا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے، تو بے شک نیتوں کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے، لیکن ہمیں کسی کے متعلق بلاوجہ بدگمان ہونے کی اجازت نہیں، ہم تو ظاہر کے مکلف ہیں، چنانچہ اکر کوئی شریک نصرانی یا مرتد ہے یا مسلمان ہی ہے لیکن وہ اپنی نیت واضح کردے کہ میں قربانی کے لیے نہیں بلکہ صرف گوشت کے لیے شریک ہورہا ہوں تو ایسی صورت میں ظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے یہی حکم لگایا جائے گا کہ کسی کی قربانی درست نہ ہوئی، لیکن اگر سارے شرکاء مسلمان ہیں اور کسی کی طرف سے ایسی کوئی صراحت نہیں کہ وہ صرف گوشت کے لیے مثلاً حصہ لے رہا ہے تو مسلمانوں کا معاملہ سداد پر محمول کیا جائے گا اور حسن ظن یہی رکھا جائے گا کہ قربانی کے دنوں میں مسلمان قربانی ہی کی نیت سے جانور ذبح کرتا ہے یا شرکت کرتا ہے۔

میاں بیوی بچے گھر میں کیسے جماعت کریں

 اگر کبھی مسجد کی جماعت فوت ہوجائے تو شوہر گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ جماعت کرسکتا ہے، ایسی صورت میں بیوی پیچھے کھڑی ہوگی، اگر بچے بھی جماعت میں شریک ہوں تو سب سے آگے امام کھڑا ہوگا، پھر بچے (لڑکے) کھڑے ہوں گے، اس کے بعد عورت کھڑی ہوگی، اگر صرف ایک بچہ ہو تو امام کے دائیں جانب کھڑا ہوگا اور پیچھے عورت کھڑی ہوگی۔ درمختار مع الشامی میں ہے: ویقف الواحد ولو صبیًّا أما الواحدة فتتأخر محاذیًا أي مساویًا لیمین إمامہ․․․ والزائد خلفہ (درمختار مع الشامي: ۲/۳۰۹، ط: زکریا) وفیہ (ص: ۳۱۴)․․․ وہذا بخلاف المرأة الواحدة فإنہا تتأخر مطلقًا کالمتعددات الخ۔

محاذات کامسئلہ

 اگر کوئی مرد کسی عورت کے دائیں بائیں یا پیچھے اس کی سیدھ  میں نماز پڑھے اور وہاں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی، اگرچہ وہ عورت اس کی محرم ہو،  وہ شرائط یہ ہیں:

(1)   وہ عورت مشتہاۃ ہو، یعنی  ہم بستری کے قابل ہو خواہ بالغ ہو یا نہ ہو، بوڑھی ہو یا محرم، سب کا حکم یہی ہے۔

(2)  دونوں نماز میں ہوں، یعنی  ایسا نہ ہو کہ ایک نماز میں ہے اور دوسرا نماز میں نہیں ہے۔

(3)  عورت کی پنڈلی اور  ٹخنہ   مرد کے کسی عضو کے  محاذات میں آرہا ہو۔

(4)  یہ سامنا کم از کم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔

(5)  یہ اشتراک مطلق نماز (رکوع سجدے والی نماز) میں پایا جائے، یعنی نمازِ جنازہ کا یہ حکم نہیں ہے۔

(6)  دونوں کی نماز ایک ہی قسم کی ہو، یعنی  مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوں۔

(7)  تحریمہ دونوں کی ایک ہو،  یعنی برابر نماز پڑھنے والی عورت نے برابر والے مرد کی اقتدا  کی ہو یا دونوں نے کسی تیسرے آدمی کی اقتدا کی ہو۔

(8)  عورت میں  نماز صحیح ہونے کی شرائط موجود ہوں،  یعنی  عورت پاگل یا حیض ونفاس کی حالت میں  نہ ہو۔

(9)   مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو، تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔

(10) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو،  یعنی دونوں کے درمیان ایک انگلی کے برابر موٹی اور سترے کی مقدار اونچی کوئی چیز یا  ایک آدمی کے کھڑے ہونے کے بقدر فاصلہ نہ ہو۔

(11)  مردنے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو اشارے سے وہاں کھڑے ہونے سے منع نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا ہو  پھر بھی عورت  مرد کے برابر میں کھڑی رہی، تواب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔

(12) اور امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔

  اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو ایک عورت کی وجہ سے تین مردوں ( دائیں بائیں جانب والے دو مردوں کی اور عورت کی سیدھ میں پیچھے ایک مرد) کی نماز فاسد  ہوجائے گی۔

قولہ: "وتاسع شروط المحاذاة الخ" وأولہا: المشتہاة، ثانیہا: أن یکون بالساق والکعب علی ما ذکرہ، ثالثہا: أن تکون فی أداء رکن أو قدرہ، رابعہا: أن تکون فی صلاة مطلقة، خامسہا: أن تکون فی صلاة مشترکة تحریمة، سادسہا: إتحاد المکان، سابعہا: عدم الحائل، ثامنہا: عدم الإشارة إلیہا بالتأخر․ (وتاسع شروط المحاذاة) أن یکون الإمام قد نوی إمامتہا․ (طحطاوي مع المراقي: ص: ۳۳۱، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت) وفي الخانیة: لو صلت المرأة علی الصفة والرجل أسفل منہا بجنبہا أو خلفہا إن کان یحاذی عضو من الرجل عضوًا منہا فسدت صلاتہ لوجود المحاذاة ببعض بدنہا․ اھ․ ولیس ہنا محاذاة بالساق والکعب․ (المرجع السابق: ص ۳۲۹)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"محاذاة المرأة الرجل مفسدة لصلاته ولها شرائط:

(منها) أن تكون المحاذية مشتهاةً تصلح للجماع ولا عبرة للسن وهو الأصح .... (ومنها) أن تكون الصلاة مطلقةً وهي التي لها ركوع وسجود.... (ومنها) أن تكون الصلاة مشتركةً تحريمةً وأداءً .... (ومنها) أن يكونا في مكان واحد...(ومنها) أن يكونا بلا حائل ... وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل، كذا في التبيين. (ومنها) أن تكون ممن تصح منها الصلاة.... (ومنها) أن ينوي الإمام إمامتها أو إمامة النساء وقت الشروع ... (ومنها) أن تكون المحاذاة في ركن كامل.... (ومنها) أن تكون جهتهما متحدة ..... ثم المرأة الواحدة تفسد صلاة ثلاثة واحد عن يمينها وآخر عن يسارها وآخر خلفها ولا تفسد أكثر من ذلك. هكذا في التبيين.وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والمرأتان صلاة أربعة واحد عن يمينهما وآخر عن يسارهما واثنان خلفهما بحذائهما ،وإن كن ثلاثا أفسدت صلاة واحد عن يمينهن وآخر عن يسارهن وثلاثة خلفهن إلى آخر الصفوف وهذا جواب الظاهر، هكذا في التبيين". (1/ 89، کتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل  الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم، ط:رشیدیه)

Sunday, 25 May 2025

گونگے جانور کی قربانی

 گونگا ہونا جانوروں میں عیب نہیں ہے، اس لیے کہ جانور کے گونگا ہونے سے  جانور کی خوب صورتی، منفعت،یاگوشت میں کسی قسم کا  فرق نہیں ہوتا ،اس لیے گونگے  جانور کی قربانی درست ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومن المشايخ من يذكر لهذا الفصل أصلاً ويقول: كل عيب يزيل المنفعة على الكمال أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية، وما لايكون بهذه الصفة لايمنع". (42/294)

Monday, 19 May 2025

سورہ فاتحہ کی تکرار سے سجدۂ سہو نہیں

 سورۃ فاتحہ کی کسی ایک آیت کا مکرر  پڑھنا ،خواہ  فرائض میں ہو یا نوافل میں  ،خواہ چار رکعتی فرائض کی ابتدائی دو رکعتوں میں ہو یا بعد کی دو رکعتوں میں ہو،بہر صورت اس سےسجدہ سہو واجب نہیں ہوتا ہے،اسی طرح اگر کوئی شخص  چار رکعتی  فرض  کی آخری دو رکعتوں میں پوری سور فاتحہ یا اس کا اکثر حصہ مکرر پڑھ لے تو اس سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا،البتہ چار رکعتی فرض کی آخری دو رکعتوں کے علاوہ رکعتوں میں اگر   کوئی سورۃ فاتحہ کی کوئی آیت تین یا اس سے زائد مرتبہ دُوھراتا ہے یا تین آیات مکررپڑھتا ہے تو بعض فقہاء کرام  کی تصریحات کی رو سے ضمِ سورۃ میں بقدر تین تسبیح تاخیر ہونے کی بناء پر سجدہ سہو لازم ہے،اور اگر پوری سورۃ فاتحہ  یا اکثر سورۃ فاتحہ کا تکرار کرتا ہے تو اس صورت میں بالاتفاق سجدہ سہو لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وكذا ترك تكريرها إلخ) فلو قرأها في ركعة من الأوليين مرتين وجب سجود السهو لتأخير الواجب وهو السورة كما في الذخيرة وغيرها، وكذا لو قرأ أكثرها ثم أعادها كما في الظهيرية".

(كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة،فرائض الصلاة،واجبات الصلاة،ج:1،ص:460،ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو كررها في الأوليين يجب عليه سجود السهو بخلاف ما لو أعادها بعد السورة أو كررها في الأخريين، كذا في التبيين. ولو قرأ الفاتحة إلا حرفا أو قرأ أكثرها ثم أعادها ساهيا فهو بمنزلة ما لو قرأها مرتين، كذا في الظهيرية".

(كتاب الصلاة،الباب الثاني عشر في سجود السهو،ج:1،ص:126،ط: رشيدية)

منھ دکھائی میں دی گئی انگوٹھی طلاق یا خلع کے موقع پر واپس ہوگی کہ نہیں

 سائل کی بیٹی کو جو لڑکے کی طرف سے منہ دکھائی ملی تھی، اور جو دیگر رشتہ داروں نے لڑکی کو تحائف دیے تھے، وہ سب سائل کی بیٹی کی ملکیت ہے، اور اس کی سابقہ ساس کا طلاق کے بعد ان چیزوں کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے، تاہم زیورات کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ جو زیورات لڑکی کو اُس کے میکے سے  ملتے ہیں وہ اُس کی ملکیت ہوتے ہیں ، اور جو زیورات لڑکی کو اُس کے سسرال والوں کی طرف سے دیے جاتے ہیں اُن کا حکم یہ ہے کہ اگر دیتے وقت مالک بنانے کی صراحت کردی تھی تو لڑکی مالک ہوگی اور اگر صرف استعمال کی صراحت کرکے دیے تھے تو لڑکے والے مالک ہوں گے اور اگر کچھ صراحت نہیں کی تھی تو اس صورت میں لڑکے والوں کے عرف ورواج کا اعتبار ہوتا ہے، یعنی اگر سسرال والوں کا عرف لڑکی کو بطور عاریت کے زیورات دینے کا ہو تو وہ لڑکی کی ملکیت نہیں ہوتے اور دینے والوں کو واپس طلب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، اور اگر سسرال والوں کا رواج بطور ملکیت کے دینے کا ہو یا کوئی رواج نہ ہو، تو وہ زیورات لڑکی کی ملکیت ہوتے ہیں، اور ان کا واپس طلب کرنا درست نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

 "قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٣، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"(‌جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعد أن سلمها ذلك  في صحته) بل تختص به (وبه يفتى) وكذا لو اشتراه لها في صغرها ولوالجية."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٥، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٧، ط: سعید) 


واضح رہے کہ میاں بیوی میں سے جب ایک دوسرے کو کوئی چیز بطور ہدیہ دے دے ، اور اس پر قبضہ بھی کرے تو اس کو واپس لینے کا مطالبہ نہیں کرسکتا، لہٰذا مذکورہ صورت میں شوہر نے بیوی کو منہ دکھائی کے موقع پر جو سونے کے بُندے دیے تھے یا لڑکی والوں نے شادی سے پہلے لڑکے کو جو پہناؤنی دی ہے ، ان میں سے ہر ایک دوسرے سے واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا، اور جہاں تک مہر کی بات ہے وہ تو خالص بیوی کا حق ہے اس میں بھی شوہر بیوی سے واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا، نیز اس کے علاوہ جہیز کا سامان کپڑے وغیرہ بھی بیوی کی ملکیت ہے۔
لما في التنوير مع الدر:
’’(والزاي الزوجية وقت الهبة، فلو وهب لامرأة ثم نكحها رجع، ولو وهب لا مرأته لا) كعكسه‘‘.
’’قوله:(فلو وهب لامرأة الخ) الأصل الزوجية نظير القرابة حتى يجري التوارث بينهما بلا حاجب وترد شهادة كل واحد للآخر فيكون المقصود من هبة كل منهما للآخر الصلة والتوادد، دون العوض بخلاف الهبة للأجنبي فإن المقصود منها العوض، ثم المعتبر في ذلك حالة الهبة فإن كانت أجنبية كان مقصوده العوض فثبت له الرجوع فيها فلا يسقط بالتزويج، وإن كانت حليلته كان مقصوده الصلة دون العوض وقد حصل فسقط الرجوع فلا يعود بالإبانة.١ه.
قوله:(لا) أي لا يرجع ولو فارقها بعد ذلك لا يملك الرجوع لقيام الزوجية وقت الهبة.
قوله:(كعكسه) أي لو وهبته لرجل ثم نكحها رجعت ولو لزوجها لا وإن فارقها والأولى أن يقول كما إذا كانت هي الواهبة فيهما‘‘.(كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة، 12/611:رشيدية)

Saturday, 17 May 2025

حاملہ کا نکاح

 اگر زنا سےحمل ٹھہر گیا ہوتو حمل کے ہوتے ہوئے نکاح جائز ہے، اگر زانی کے ساتھ نکاح ہوا ہو تو  پھر جماع بھی  جائز ہے اور اگر  زانی کے علاوہ کسی اور  سےہوا  ہوتو وضع حمل( بچہ کی پیدائش) تک جماع جائز نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وعلى هذا يخرج ما إذا تزوج امرأة حاملا من الزنا أنه يجوز في قول أبي حنيفة ومحمد، ولكن لا يطؤها حتى تضع وقال أبو يوسف: (لا يجوز) وهو قول زفر."

(کتاب النکاح ،فصل ان لا یکون بہا حمل ثابت النسب من الغیر،ج:2،ص:269،دارالکتب العلمیۃ)

امداد الاحکام میں ہے :

"حاملہ من الزنا  کا نکاح درست ہے  خواہ زانی سے ہو یا غیر زانی سے ،البتہ اگر زانی سے ہو تو اس کو  قبل وضع حمل وطی بھی جائز ہے اور غیر زانی کو وطی جائز نہیں جب تک وضع حمل نہ ہو ۔۔۔۔الخ"

(کتاب النکاح ،ج:2،ص:203،دارالعلوم کرچی)

Friday, 16 May 2025

جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خریدوفروخت

 جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید و فروخت چھوڑنا واجب ہے اور خرید و فروخت میں لگنا حرام ہے اور اس وقت کیاگیا سودا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 161)

'' (ووجب سعي إليها وترك البيع) ولو مع السعي، في المسجد أعظم وزراً (بالأذان الأول) في الأصح، وإن لم يكن في زمن الرسول بل في زمن عثمان. وأفاد في البحر صحة إطلاق الحرمة على المكروه تحريماً۔

(قوله: ووجب سعي) لم يقل افترض مع أنه فرض للاختلاف في وقته هل هو الأذان الأول أو الثاني؟ أو العبرة لدخول الوقت؟ بحر.

وحاصله أن السعي نفسه فرض والواجب كونه في وقت الأذان الأول، وبه اندفع ما في النهر من أن الاختلاف في وقته لا يمنع القول بفرضيته، كصلاة العصر فرض إجماعاً مع الاختلاف في وقتها (قوله: وترك البيع) أراد به كل عمل ينافي السعي وخصه اتباعاً للآية، نهر (قوله: ولو مع السعي) صرح في السراج بعدم الكراهة إذا لم يشغله، بحر، وينبغي التعويل على الأول، نهر.

قلت: وسيذكر الشارح في آخر البيع الفاسد أنه لا بأس به لتعليل النهي بالإخلال بالسعي، فإذا انتفى انتفى، (قوله: وفي المسجد) أو على بابه، بحر (قوله: في الأصح) قال في شرح المنية: واختلفوا في المراد بالأذان الأول، فقيل: الأول باعتبار المشروعية، وهو الذي بين يدي المنبر؛ لأنه الذي كان أولاً في زمنه  عليه الصلاة والسلام  وزمن أبي بكر وعمر حتى أحدث عثمان الأذان الثاني على الزوراء حين كثر الناس. والأصح أنه الأول باعتبار الوقت، وهو الذي يكون على المنارة بعد الزوال. اهـ. والزوراء بالمد اسم موضع في المدينة، (قوله: صحة إطلاق الحرمة) قلت: سيذكر المصنف في أول كتاب الحظر والإباحة كل مكروه حرام عند محمد، وعندهما إلى الحرام أقرب. اهـ. نعم قول محمد رواية عنهما، كما سنذكره هناك إن شاء الله تعالى، وأشار إلى الاعتذار عن صاحب الهداية حيث أطلق الحرمة على البيع وقت الأذان مع أنه مكروه تحريماً، وبه اندفع ما في غاية البيان حيث اعترض على الهداية بأن البيع جائز، لكنه يكره كما صرح به في شرح الطحاوي؛ لأن النهي لمعنى في غيره لا يعدم المشروعية''۔

(الفتاوی التاتارخانیة زکریا۲؍۵۹۳ )

''الأذان المعتبر الذي یجب السعی عنده ویحرم البیع الأذان عند الخطبة لا الأذان قبله، لأن ذلک لم یکن فی زمن النبی صلی الله علیه وسلم وذکر شمس الأئمة الحلواني، وشمس الأئمة السرخسي أن الصحیح المعتبر هو الأذان الأول بعد دخول الوقت، وفي المنافع : سواء کان بین یدی المنبر أو علی الزوراء، وبه کان یفتی الفقیه أبو القاسم البلخی رحمه الله، وقال الحسن بن زیاد رحمه الله : الأذان علی المنارة هو الأصل''۔

الفتاوى الهندية (3/ 211)

'' وكره البيع عند أذان الجمعة والمعتبر الأذان بعد الزوال، كذا في الكافي''

قرآنِ کریم میں سورۂ  جمعہ کی آیت نمبر (۹) میں اللہ جل شانہ نے نمازِ جمعہ کی اذان پر خرید وفروخت اور کاروبار بند کرنے کا حکم دیا ہے، اس حکم میں اذان کے بعد کاروبار کرنے کی صاف ممانعت ہے، اسی  لیے جمعہ کی اذان کے بعد خرید وفروخت مکروہِ  تحریمی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جمعہ کے  لیے ایک ہی اذان دی جاتی تھی، یہی طریقہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے دور میں بھی جاری رہا،اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ زیادہ ہوگئے، ہجوم بڑھنے  لگا ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے  "زوراء"  (بازار میں واقع ایک مکان) میں نماز جمعہ کے  لیے ایک زائد اذان دینے کا حکم صادر فرمایا، اور  اس حکم کو اس وقت موجود   تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قبول کیا، اور اس کے بعد  سے تاحال یہی عمل امت  میں جاری ساری ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بالاتفاق تیسرے خلیفہ راشد ہیں، اور رسول کریم ﷺ نے جہاں اپنی سنت کی پیروی کا حکم فرمایا ہے، وہاں خلفاء راشدین کی اتباع کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کاارشاد مبارک ہے:

«... فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين، تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ».

(سنن أبي داود: كتاب السنة باب في لزوم السنة، رقم: 4607، 4/200، ط: دار إحياء التراث العربی