https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday, 8 August 2025

بیع عینہ

 ضرورت مند شخص اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کسی سے قرض طلب کرے تو اس کا سب سے بہتر اور افضل طریقہ یہ ہے کہ بغیر کسی معاوضہ اور لین دین کے اسے قرضِ حسنہ دیا جائے ،البتہ اگر کوئی شحص قرضِ حسنہ دینے کے بجائے کوئی چیز مثلاً ٹائر وغیرہ مارکیٹ سے خرید کر اس طور پر اپنے قبضہ میں لائے کہ اس چیز کا رسک اور ضمان خریدار کی طرف منتقل ہوجائے ، پھر وہ چیز موجودہ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ پر ایک متعین مدت کے لئے ضرورت مند شخص کوادھار فروخت کردے اور پھر وہ ضرورت مند شخص اس چیز کو مارکیٹ میں کسی اور شحص کے ہاتھ فروخت کرکے نقد رقم حاصل کرکے اپنی ضرورت پوری کرلے اور بعد میں مقررہ وقت آنے پر وہ ادھار پر خریدی ہوئی چیز کی طے شدہ قیمت ،فروخت کرنے والے کے حوالے کردے تو یہ صورت جائز ہے ، کیونکہ اس صورت میں جس شخص نے قرض طلب کرنے پر قرض دینے کے بجائے کوئی چیز ادھار پر فروخت کردی تھی تو وہ فروختگی درست تھی ، نیز وہ چیز فروخت کرنے والے کی طرف کسی حیلے کی بنیاد پر واپس بھی نہیں لوٹی ،نہ ہی اس نے خود خریدی اور نہ کوئی تیسرا شحص درمیان میں ایسا آیا جس نے یہ چیز خرید کر دوبارہ پہلے والے شخص کو بیچ دی ہو ، لہذا یہ صورت جائز ہے ، البتہ ضرورت مند شخص کو جو چیز فروخت کی گئی تھی اگر اس نے وہ چیز مارکیٹ میں کسی اور شخص کو فروخت نہیں کی ، بلکہ اس نے وہ چیز کم قیمت پر دوبارہ بیجنے والے کو فروخت کردی یا اس نے کسی طرح حیلہ کرکے تیسرے شخص کو درمیان میں لاکر وہ چیز واپس حاصل کرلی تو یہ صورت شرعاً ناجائز ہے ، جس سے احتراز لازم ہے ۔

کما فى الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار): (قوله: في بيع العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها . قال بعضهم : تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر و يستقرضه عشرة دراهم و لا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في فضل لا يناله بالقرض فيقول لا أقرضك ، و لكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما و قيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك ، فيحصل لرب الثوب درهما و للمشتري قرض عشرة . و قال بعضهم : هي أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما و يسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة و يسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه و هو المقرض بعشرة و يسلمه إليه ، و يأخذ منه العشرة و يدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة و لصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما ، كذا في المحيط ، و عن أبي يوسف : العينة جائزة مأجور من عمل بها ، كذا في مختار الفتاوى هندية . و قال محمد : هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا . و قال - عليه الصلاة و السلام - «إذا تبايعتم بالعينة و اتبعتم أذناب البقر ذللتم و ظهر عليكم عدوكم» قال في الفتح : و لا كراهة فيه إلا خلاف الأولى لما فيه من الإعراض عن مبرة القرض اهـ ط ملخصا . (5/ 273)۔
و فی فقہ البیوع : و من البیوع المؤجلۃ مایسمی"عینۃ" و ھی علی اختلاف اصطلاح الفقہاء علی قسمیں : الأول : ما عرفہ النووی رحمہ اللہ تعالی بقولہ"و ھو أن یبیع غیرہ شیئاً بثمن مؤجل و یسلمہ الیہ ، ثم یشتریہ قبل قبض الثمن بأقل من ذلک الثمن نقداً ، فإن كان البيع الثاني مشروطاً في البيع الأول ، فهو بيع فاسد بالإجماع . أما إذا كان البيع الثاني غير مشروط في البيع الأول ، فهو جائز عند الشافعية . و قد أيد الإمام الشافعي رحمه الله تعالى جوازه بقوة ، و أطال في التدليل عليه في كتابه "الأم"":(۱/ ۵۴۷)۔
و فیہ ایضاً : و لکن منع العینۃ انما یتجہ اذابقی المبیع فی البیع الأول علی حالہ عندالبیع الثانی فان تغیرالمبیع بما أثر علی قیمتہ ، جاز البیع الثانی ، و لوکان الی البائع الأول . (۱/۵۵۰)۔
و فی درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام : "إذا عقد البيع على تأجيل الثمن إلى كذا يوما أو شهرا أو سنة أو إلى وقت معلوم عند العاقدين كيوم قاسم أو النيروز صح البيع . يعني أن التأجيل إذا كان بالأيام أو الشهور أو السنين أو بطريق آخر فهو صحيح ما دام الأجل معلوما۔( 1 /228)۔


Tuesday, 5 August 2025

امام کے پیچھے مقتدی کا ایک سجدہ چھوٹ جائے تو کیا کرے

 مقتدی کو جب علم ہوا کہ امام دوسرا سجدہ بھی کرچکا ہے تو اسے چاہیے تھا کہ دوسرا سجدہ کرکے امام کی متابعت جاری رکھتا، اگر سجدہ کیے بغیر اس نے دیگر ارکان میں امام کی متابعت کی ہے (اور چھوٹا ہوا سجدہ نماز کے اندر نہیں کیا) تو اس کی نماز باطل ہوگئی ہے، اس کا اعادہ لازم ہے۔اگر مقتدی نے چھوٹا ہوا سجدہ کرلیا اپنی بقیہ نماز پورا کرتے ہوئے اور سجدۂ سہو بھی کرلیا تو نماز ہوجائے گی ۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار (1 / 471):

"نعم تكون المتابعة فرضًا بمعنى أن يأتي بالفرض مع إمامه أو بعده، كما لو ركع إمامه فركع معه مقارنًا أو معاقبًا وشاركه فيه أو بعد ما رفع منه فلو لم يركع أصلاً أو ركع و رفع قبل أن يركع إمامه ولم يعده معه أو بعده بطلت صلاته". (کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، مطلب مهم تحقيق متابعة الامام،ط:سعيد)  

Tuesday, 8 July 2025

  اگر طلاق دینے والا شخص محلہ کے کسی ساتھی یادوست احباب ،  کے سامنے اپنی بیوی کو طلاق  دینے کے بارے میں کسی کو بتایے اور اس سے واقعہ کی خبر اور اطلاع  دینا مقصدتھا تو شرعا اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،۔  

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق، وإذا قال: أنت طالق ثم قيل له ما قلت؟ فقال: قد طلقتها أو قلت هي طالق فهي طالق واحدة ‌لأنه ‌جواب، كذا في كافي الحاكم."

(کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق،ج3،ص293،ط؛سعید)

و فی بدائع الصنائع : و لو قال لامرأته : أنت طالق فقال له رجل : ما قلت ؟ فقال : طلقتها أو قال قلت هي طالق فهي واحدة في القضاء ؛ لأن كلامه انصرف إلى الإخبار بقرينة الاستخبار . (3/102)-

Monday, 7 July 2025

عورت کا نماز میں لقمہ دینا

 عورت  نماز میں شامل ہو  اور   امام کی غلطی پر مردوں میں سے کوئی لقمہ دینے والا نہ ہو یا  ان کی توجہ نہ ہو  تو عورت کے لیے لقمہ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ غلطی آنے پر  بائیں  ہاتھ    کی  پشت پر دائیں ہاتھ  سے مار  کر امام کو متوجہ کردے اور  امام غلطی کی اصلاح نہ کرسکے تو  اسے چاہیے کہ رکوع کرلے، اور پھر بعد میں اصلاح کرلے۔ عورت کے لیے دورانِ نماز تلاوت کرکے غلطی بتائے بغیر بھی غلطی کی نشان دہی اور اصلاح ہوسکتی ہے، اس لیے عورت کو زبان سے لقمہ دینے کی حاجت نہیں ہے۔  تاہم  اگر عورت   اپنے امام کولقمہ  دے دے  اور امام لقمہ لے لے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، جن نمازوں میں عورت نے لقمہ دیا وہ نمازیں ہوگئیں، البتہ آئندہ مذکورہ طریقے کے مطابق غلطی کی نشان دہی  کی جائے۔

’’فتاوی شامی‘‘ میں ہے:

" تكره إمامة الرجل لهن في بيت ليس معهن رجل غيره ولا محرم منه) كأخته (أو زوجته أو أمته، أما إذا كان معهن واحد ممن ذكر أو أمهن في المسجد لا) يكره، بحر".

(1/ 566، باب الإمامة، ط: سعید)

وفیه أیضًا:

"(قوله: وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله: على الراجح) عبارة البحر عن الحلية: أنه الأشبه. وفي النهر: وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام: «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء»، فلايحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولاتلبي جهراً؛ لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان، بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل: إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجهاً، ولهذا منعها عليه الصلاة والسلام  من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبوالعباس القرطبي في كتابه في السماع: ولايظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا: صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها؛ لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولانجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة". (1/ 406)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  (ص: 199):

Tuesday, 24 June 2025

اگر گھرسے باہرگئی تو طلاق دیدوں گا سے طلاق ہوئی کہ نہیں

 اگر تم گھر سے باہر گئی تو میں تمہیں تین طلاق دے دونگا" کہے ہوں، اور بیوی گھر سے نکل گئی ہوتو چونکہ یہ طلاق کی دھمکی ہے، انشاءِ طلاق نہیں اس لئےاس سےاس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، بلکہ میاں بیوی کا نکاح حسبِ سابق برقرار ہے۔ 

مأخَذُ الفَتوی

قال اللہ تعالی: الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ(الی قولہ) فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ(سورۃ البقرۃ آیۃ 228)۔
وفی الدرالمختار: بخلاف قوله طلقي نفسك فقالت أنا طالق أو أنا أطلق نفسي لم يقع لأنه وعد جوهرة،الخ(ج3 ص319 باب التفویض الطلاق ط سعید)۔
وفی الھندیۃ: سئل نجم الدين عن رجل قال لامرأته اذهبي إلى بيت أمك فقالت طلاق ده تابروم فقال تو برو من طلاق دمادم فرستم قال لا تطلق لأنه وعد كذا في الخلاصة.الخ (1ص 384 الفصل السابع فی الطلاق بالالفاظ الفارسیۃ ط ماجدیۃ)۔

Thursday, 19 June 2025

مذی کاحکم

 فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"(الجواب )  مذی ایسی نجاست غلیظہ ہے جو بہنے والی ہے اور وہ نجاست غلیظہ جو بہنے والی ہو وہ مساحت کف یعنی ہتھیلی کے گڑھے کے برابر ( ایک روپیہ کے سکہ کے برابر ) معاف ہے، لہذا مذی مساحت کف کے بقدر یا اس سے کم ہو تو اسے کم مقدار کہا جائے گا اور اگر مساحت کف سے زیادہ ہو تو اسے کثیر مقدار کہا جائے گا، اس لئے کہ اگر مذی کپڑے پر لگی ہو اور پھیلاؤ میں مساحت کف سے کم ہے اور کسی وجہ سے اس کے ساتھ نماز پڑھ لی تو نماز ہو جائے گی، اعادہ ( دہرانے ) کی ضرورت نہیں۔ مراقی الفلاح میں ہے و عفی قدر الدرهم وزنا في المتجسدة وهو عشرون قیر اطاو مساحة في المائعة وهو قدر مقعر الكف فذاك عفو من النجاسة المغلظة (مرقى الفلاح مع طحطاوي باب الانجاس والطهارة عنها ص: ۸۳) اور معافی کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ نماز پڑھ لی اور بعد میں اس قلیل نجاست کا علم ہوا تو نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے اور نماز کے دوران اس نجاست کا علم ہوا اور نماز توڑنے میں جماعت فوت ہونے کا خوف ہو تو نماز نہ توڑے، اور اگر جماعت فوت ہونے کا خوف نہ ہو یا تنہا نماز پڑھ رہا ہو اور قضاء ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو افضل یہ ہے کہ نماز توڑ دے اور نجاست زائل کر کے نماز پڑھے، قضا ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز نہ توڑے، معافی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دھونے کو ضروری نہ سمجھے بلکہ اولین فرصت میں اسے دھو لینا چاہئے۔

طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

(قوله وعفى قدر الدرهم) أى عفا الشارع عن ذلك والمراد عفا عن الفساد به والا فكراهة التحريم باقية اجماعاً أن بلغت الدرهم وتنويها ان لم تبلغ وفرعوا على ذلك ما لو علم قليل نجاسة عليه وهو في الصلاة ففى الدرهم يجب قطع الصلوة وغسلها ولو خاف فوت الجماعة وفى الثانى يكون ذلك افضل مالم يخف فوت الجماعة بان لا یدرك جماعة اخرى والا مضى على صلوته لان الجماعة اقوى كما يمضى في المسئلتين اذا خاف فوت الوقت لان التفويت حرام ولا مهرب من الكراهة الى الحرام افاده الحلبي وغيره (طحطاوی علی مراقی الفلاح ص ۸۴ حوالہ بالا ) فقط والله اعلم بالصواب."

( کتاب الطهارات، رفیق نجاست غلیظہ کی مقدار عفو اور معافی کا مطلب، ٤ / ٥٤ - ٥٥، ط: دار الاشاعت )

مذی سے غسل واجب ہوتا ہے کہ نہیں

 میاں بیوی کے باہم بوس و کنار کے دوران عورت کی شرم گاہ سے جو پانی نکلتا ہے ، وہ عموماً مذی ہوتی ہے،  اور مذی کا حکم یہ ہے کہ اُس کے نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا، صرف وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

مذی کی تعریف یہ  ہے کہ  مذی ، پتلی سفیدی مائل (پانی کی رنگت کی طرح) ہوتی ہے اور  بعض اوقات اس کے نکلنے کا احساس بھی نہیں ہوتا، اس کے نکلنے پر شہوت قائم رہتی ہے اور جوش کم نہیں ہوتا، بلکہ شہوت میں  مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔  اور یہ مردوں سے زیادہ عورتوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کے خروج سے غسل فرض نہیں ہوتا، البتہ اس کے خروج سے وضو ٹوٹ جاتاہے، اور  نماز و دیگر عبادات، جیسے قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ کے لیے وضو کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 

اور اگر مذی کپڑے پر لگ جائے تو اس کا  حکم یہ ہے کہ اگر یہ ایک درہم (5.94 مربع سینٹی میٹر پھیلاؤ)سے کم مقدارمیں کپڑے پرلگی ہو تو  (اگرچہ اس مقدار کو بھی دھولیناچاہیے  تاہم ) وہ معاف ہے، یعنی  ایسے کپڑے میں نمازکراہت کے ساتھ ہوجائے گی، اوراگرایک درہم کی مقدارسےزائد لگی ہو  تو ایسے کپڑے میں نمازنہیں ہوگی۔

اور  مذی کپڑے کے جس حصے میں لگی ہو، اُس حصے کو پاک کرنے کے لیے بہتے پانی یا زیادہ پانی سے اتنا دھولیا جائے کہ تسلی ہوجائے کہ اس نجاست کا اثر زائل ہوگیا ہے۔ اگر کسی کو  اطمینان نہ ہو تو اُسے چاہیے کہ ناپاک کپڑے کو تین مرتبہ اچھی طرح دھوئے اور ہر مرتبہ دھونے کے بعد اچھی طرح نچوڑ دے کہ پانی کے قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں، اس طرح تین مرتبہ دھونے سے وہ پاک ہوجائے گا۔

البحر الرائق میں ہے:

"وهو ماء أبيض رقيق يخرج عند شهوة لا بشهوة ولا دفق ولا يعقبه فتور وربما ‌لا ‌يحس ‌بخروجه، وهو أغلب في النساء من الرجال ... وأجمع العلماء أنه لا يجب الغسل بخروج المذي والودي كذا في شرح المهذب. وإذا لم يجب بهما الغسل وجب بهما الوضوء وفي المذي حديث علي المشهور الصحيح الثابت في البخاري ومسلم وغيرهما."

(باب موجبات الغسل، ١ / ٦٥ . ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وعفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريما، فيجب غسله، وما دونه تنزيها فيسن، وفوقه مبطل ... (وهو مثقال) عشرون قيراطا (في) نجس (كثيف) له جرم (وعرض مقعر الكف) وهو داخل مفاصل أصابع اليد (في رقيق من مغلظة كعذرة) آدمي، وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ."

(كتاب الطهارة، ‌‌باب الأنجاس، ١ / ١٣٦ ط: سعيد)

Monday, 16 June 2025

مردوں کا پاؤں میں مہندی لگانا

 ہاتھوں اور پیروں پر مہندی لگانا عام حالات میں خواتین کے ساتھ خاص ہے، جب کہ مردوں کے لیے خواتین کی مشابہت اختیار کرنا اور ہاتھ پیر میں مہندی لگانا مکروہ ہے۔البتہ مجبوری کی صورت میں (مثلاً بطورِ علاج) مرد کے لیے   پاوٴں كے تلوے  میں مہندی لگانے کی اجازت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

" قوله ( خضاب شعره ولحيته ) لا يديه ورجليه فإنه مكروه للتشبه بالنساء ".

(ج:6،ص:422،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولا ينبغي أن يخضب يدي الصبي الذكر ورجله إلا عند الحاجة ويجوز ذلك للنساء كذا في الينابيع ".

(ج:5،ص؛359،ط:رشیدیہ)

فتاوی رشیدیہ میں ہے :

"حنا کو لگانے میں تشابہ عورت کے ساتھ ہوتاہے، لہذا درست نہیں ، دوسرا علاج کرے اور پھوڑے پر رکھنا موجب مشابہت نہیں"۔

(مردوں کا مہندی لگانا ، ص:589،ط:عالمی مجلس تحفظ اسلام کراچی)

Sunday, 15 June 2025

کون والی مہندی کاحکم

 ہر قسم کی مہندی لگانا جائز ہے بشرطیکہ  مہندی میں کوئی ناپاک شے ملی ہوئی نہ ہو، مہندی لگانے کے بعد وضو اور غسل وغیرہ کا حکم یہ ہے کہ مہندی لگانے یا رنگنے سے جو رنگ لگا رہ جائے اس سے وضو اور غسل وغیرہ میں خلل نہیں آتا، البتہ اگر جمی ہوئی مہندی ہاتھ پر جمی رہ گئی تو اس پر وضو صحیح نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ جسم پر پانی پہنچنے سے مانع ہوتی ہے۔

موجودہ دور میں بعض مہندیاں ایسی ہیں کہ لگانے کے بعد جب ہاتھ دھولیتے ہیں تو رنگ باقی رہتاہے، لیکن بعد میں جب رنگ اترنے لگتا ہے تو جھلی نما باریک تہہ چھلکا بن کر الگ ہوجاتی ہے، ایسی مہندی لگاکر وضو کرنے سے وضو ہوجائے گا؛  کیوں کہ وہ جسم تک پانی پہنچنے سے مانع نہیں ہوتی ہے بشرطیکہ نفسِ مہندی کو دھو کر زائل کرلیا ہو اور صرف رنگ باقی رہ گیا ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 154):

"(ولا يمنع) الطهارة (ونيم) أي خرء ذباب وبرغوث لم يصل الماء تحته (وحناء) ولو جرمه، به يفتى.

(قوله: به يفتى) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللاً بالضرورة. قال في شرحها: ولأن الماء ينفذه لتخلله وعدم لزوجته وصلابته، والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن".

الفتاوى الهندية (1/ 4):

"في فتاوى ما وراء النهر: إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز وإن تلطخ يده بخمير أو حناء جاز.

وفي الجامع الصغير: سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ؟ قال: كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لايستطاع الامتناع عنه إلا بحرج، والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي، كذا في الذخيرة. وكذا الخباز إذا كان وافر الأظفار، كذا في الزاهدي ناقلاً عن الجامع الأصغر.

والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء والغسل، كذا في السراج الوهاج ناقلاً عن الوجيز"

Saturday, 14 June 2025

نوکوسٹ ای ایم آیی پر خریدنا

 واضح رہے کہ ” ای ایم آئی (EMI)   یہ ( Equated Monthly Installment) کا مخفف ہے،اس کا  مطلب یہ  ہے کہ کسی چیز کو خریدتے ہوئے اس کی مکمل قیمت یک مشت ادا کرنے کے بجائے ماہانہ قسطوں کی صورت میں ادا کرنا،  اس کی ایک صورت  (No Cost EMI) ہے ،  اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز   کو نقد  رقم میں  خرید تے  ہوئے   جتنی قیمت ادا کرنی ہوتی ، اسی چیز  کو قسطوں  پر خریدنے میں بھی خریدار کو  اتنی  ہی قیمت ادا کرنی ہوگی، اور قسطوں پر خریداری کی صورت میں   کسی قسم کی اضافی رقم نہیں دینی ہوگی، اکثر آن لائن تجارتی پلیٹ فارم اس آپشن کو رکھتے ہیں۔

اس کے شرعی حکم سے پہلے یہ ملحوظ رہے کہ :

1۔یہ معاملہ بینک کے ذریعہ ہوتا ہے، قیمت کی ادائیگی بھی   خریدار بینک کے  کارڈ کے ذریعے کرتا ہے۔

2۔ماہانہ قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ  (penalty)  بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔

3۔قسطوں پر خریدنے کی صورت میں  قیمت اصل رقم سے زیادہ ہی  ہوتی ہے، لیکن  یہ زائد رقم  انٹرسٹ  (سود) کے نام پر بینک ادا کرتا ہے، اور   خریدار کو ڈسکاؤنٹ کے نام  وہ رقم معاف کی جاتی ہے۔ اس خریداری کی انوائس  مثلا ًاس طرح ہوتی ہے:

:Price details

Price (1 item): 10000

  Delivery charges: Free

Interest (charged by bank):600

No cost EMI Discount: 600

Amount payable: 10000

شرعی حکم:

یہ معاملہ کئی وجوہات کی بنا پر شرعا جائز نہیں ہے:

1: اس معاملہ میں قسطوں پر خریداری کی صورت میں جو  اضافی رقم  دی جاتی ہے، وہ   اصل قیمت میں اضافہ  نہیں ہے، بلکہ وہ  ”سود “ کے نام پر  دی جاتی ہے، اور مدّت  کے بدلے میں جو قیمت میں اضافہ  ہو شرعاً وہ سود ہے ، جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔

2: خریدار کو اگر چہ  وہ رقم ڈسکاؤنٹ کے نام سے معاف کردی جاتی ہے، لیکن خریدار ہی کی طرف سے بینک یہ سود ادا کرتا ہے، اور  خریدار بینک کا اکاؤنٹ ہولڈر ہوتا ہے،    اور اکاؤنٹ ہولڈر کی جو رقم بینک میں رکھی ہوتی ہے، شرعا  وہ ” قرض“ کے حکم میں ہے، اور قرض پر کسی قسم کا مشروط نفع لینا شرعاً”سود“ ہے۔

3:  ماہانہ قسط کی ادائیگی میں  تاخیر کی صورت میں جرمانہ کی شرط ہوتی ہے،  اگرچہ وقت پر قسط کی ادائیگی ہو تب بھی  اس شرطِ فاسد کی وجہ سے پورا معاملہ فاسد ہوگا، الغرض یہ شرط فاسد ہےاور جرمانہ لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔ 

4: عام طور پر یہ معاملہ ”کریڈٹ کارڈ“ کے ذریعے ہوتا ہے، اور ”کریڈٹ کارڈ“کا استعمال فی نفسہ بھی ناجائز ہے۔

لہذا    نو کوسٹ ای ایم آئی(NO COST EMI)  کے ذریعے   سامان خریدنا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

موطأ مالك ميں هے:

" وحدثني عن مالك عن زيد بن أسلم أنه قال: " كان الربا في الجاهلية، أن يكون للرجل على الرجل الحق إلى أجل، فإذا حل الأجل، قال: أتقضي أم تربي؟ فإن قضى أخذ، وإلا  زاده في حقه، وأخر عنه في الأجل."

(2 / 672، باب ما جاء في الربا في الدين، ط:  دار إحياء التراث العربي، بيروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

و في الرد :  (قوله: كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر."

(5/166، مطلب کل قرض جر نفعا، ط: سعید)

      البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

(5/ 41، فصل فی التعزیر، ط:  سعید)

Tuesday, 10 June 2025

عیدالاضحی کے چوتھے دن قربانی

 ایامِ اضحیہ (یعنی قربانی کے ایام) تین ہیں:  دس، گیارہ  اور  بارہ  ذی الحجہ (یعنی عید کا پہلا، دوسرا اور تیسرا دن)، لہٰذا  عید  کے چوتھے دن (یعنی ۱۳ ذی الحجہ کے دن)  قربانی کرنا معتبر نہیں ہے؛  اس لیے  کہ  حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابنِ عمر اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام سے مروی ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں اور پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ عبادات کے مخصوص اوقات صحابہ کرام خود سے نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ  کے بیان کی روشنی میں بتاتے تھے۔ اگر کوئی شخص قربانی کے ایّام میں جانور ذبح نہیں کرسکا، تو اس کے بعد صدقہ کرنا ضروری ہے۔

2: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ  عید کے چوتھے دن (یعنی تیرہ ذوالحجہ) بھی  قربانی کے درست ہونے کے قائل  ہیں، ان کی دلیل حضرت علی  و عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی روایت ہے :

" کُلُّ اَیَّامِ التَّشرِیقِ ذِبح.

(موارد الظمآن ، ص:249، ط:المکتبة السلفیة)

یعنی ایامِ  تشریق سب قربانی کے دن ہیں ،  جب کہ احناف  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  صحیح قول وہی ہے جو   حضرت  علی، عمر، ابوہریرہ، انس ، ابن عباس ، ابن عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے مروی ہے کہ" أيام النحر ثلاثة، أولها أفضلها"،  (قربانی کےدن تین ہیں، اور ان میں پہلا افضل ہے) اور  اسی قول کو جمہور  نے  قبول کیا ہے؛کیوں کہ قربانی ایک  عبادت ہے اور عبادات کے لیے اوقات کی پہچان سماع  سے ہوتی ہے،باقی  جو  دلیل حضرت عباس وعلی رضی اللہ عنہما کے حوالے سے مذکور ہے، تو ان کا یہ قول مجمل ہے، جس کی  تشریح  خود ان ہی کے قول : "أيام النحر ثلاثة، أولها أفضلها" سے ہورہی  ہے، یعنی حضرت علی  اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے ہی تمام ایامِ تشریق میں ذبح کی روایت موجود ہے، جب کہ آپ  دونوں رضی اللہ عنہما  ہی سے ایامِ نحر کی تحدید تین دن منقول ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ  ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما کے ہاں بھی قربانی کے تین دن ہیں، البتہ ایامِ تشریق میں چوں کہ حجاجِ کرام منٰی اور حدودِ حرم میں ہی ہوتے ہیں تو  عرب اس میں جانور ذبح کرنے کا اہتمام کرتے تھے، اس کی اجازت اس روایت میں منقول ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأيام النحر ثلاثة: يوم الأضحى - وهو اليوم العاشر من ذي الحجة - والحادي عشر، والثاني عشر وذلك بعد طلوع الفجر من اليوم الأول إلى غروب الشمس من الثاني عشر، وقال الشافعي - رحمه الله تعالى -: أيام النحر أربعة أيام؛ العاشر من ذي الحجة والحادي عشر، والثاني عشر، والثالث عشر، والصحيح قولنا؛ لما روي عن سيدنا عمر وسيدنا علي وابن عباس وابن سيدنا عمر وأنس بن مالك - رضي الله تعالى عنهم - أنهم قالوا: أيام النحر ثلاثة أولها أفضلها، والظاهر أنهم سمعوا ذلك من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لأن أوقات العبادات والقربات لا تعرف إلا بالسمع".

(کتاب التضحیة، فصل في وقت وجوب الأضحية، ج:5، ص:65، ط:دارالکتب العلمیة)

Thursday, 5 June 2025

ایام تشریق میں روزہ

 عید   اور ایام تشریق کے دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، اگر کوئی شخص ان دنوں میں نفلی  روزہ رکھ لے تو اس پر  روزہ توڑنا واجب ہے، اور اس روزہ  کی قضا بھی لازم نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 428):

"(وَلَزِمَ نَفْلٌ شُرِعَ فِيهِ قَصْدًا) كَمَا فِي الصَّلَاةِ، فَلَوْ شَرَعَ ظَنَّا فَأَفْطَرَ أَيْ فَوْرًا فَلَا قَضَاءَ أَمَّا لَوْ مَضَى سَاعَةٌ لَزِمَهُ الْقَضَاءُ لِأَنَّهُ بِمُضِيِّهَا صَارَ كَأَنَّهُ نَوَى الْمُضِيَّ عَلَيْهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ تَجْنِيسٌ وَمُجْتَبًى (أَدَاءً وَقَضَاءً) أَيْ يَجِبُ إتْمَامُهُ فَإِنْ فَسَدَ وَلَوْ بِعُرُوضِ حَيْضٍ فِي الْأَصَحِّ وَجَبَ الْقَضَاءُ (إلَّا فِي الْعِيدَيْنِ وَأَيَّامِ التَّشْرِيقِ) فَلَايَلْزَمُ لِصَيْرُورَتِهِ صَائِمًا بِنَفْسِ الشُّرُوعِ فَيَصِيرُ مُرْتَكِبًا لِلنَّهْيِ.

(قَوْلُهُ : وَجَبَ الْقَضَاءُ) أَيْ فِي غَيْرِ الْأَيَّامِ الْخَمْسَةِ الْآتِيَةِ، وَهَذَا رَاجِعٌ إلَى قَوْلِهِ قَضَاءً ط (قَوْلُهُ: فَلَايَلْزَمُ) أَيْ لَا أَدَاءً وَلَا قَضَاءً إذَا أَفْسَدَهُ (قَوْلُهُ: فَيَصِيرُ مُرْتَكِبًا لِلنَّهْيِ) فَلَا تَجِبُ صِيَانَتُهُ بَلْ يَجِبُ إبْطَالُهُ وَوُجُوبُ الْقَضَاءِ يَنْبَنِي عَلَى وُجُوبِ الصِّيَانَةِ فَلَمْ يَجِبْ قَضَاءً كَمَا لَمْ يَجِبْ أَدَاءً، بِخِلَافِ مَا إذَا نَذَرَ صِيَامَ هَذِهِ الْأَيَّامِ فَإِنَّهُ يَلْزَمُهُ وَيَقْضِيهِ فِي غَيْرِهَا لِأَنَّهُ لَمْ يَصِرْ بِنَفْسِ النَّذْرِ مُرْتَكِبًا لِلنَّهْيِ وَإِنَّمَا الْتَزَمَ طَاعَةَ اللَّهِ تَعَالَى وَالْمَعْصِيَةَ بِالْفِعْلِ فَكَانَتْ مِنْ ضَرُورَاتِ الْمُبَاشَرَةِ لَا مِنْ ضَرُورَاتِ إيجَابِ الْمُبَاشَرَةِ مِنَحٌ مَعَ زِيَادَةٍ ط."

الفتاوى الهندية (1 / 201):

"وَيُكْرَهُ صَوْمُ يَوْمِ الْعِيدَيْنِ، وَأَيَّامِ التَّشْرِيقِ، وَإِنْ صَامَ فِيهَا كَانَ صَائِمًا عِنْدَنَا، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. وَ لَا قَضَاءَ عَلَيْهِ إنْ شَرَعَ فِيهَا ثُمَّ أَفْطَرَ، كَذَا فِي الْكَنْزِ. هَذَا فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ عَنْ الثَّلَاثَةِ وَعَنْ الشَّيْخَيْنِ وُجُوبُهُ، كَذَا فِي النَّهْرِ الْفَائِقِ."

Wednesday, 4 June 2025

ہونٹ کٹے جانورکی قربانی

 اگر بکرے کو اس کی وجہ سے چرنے اور کھانے پینے میں کوئی دقت و پریشانی نہیں ہوتی ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔ لو کانت الشاة مقطوعة اللسان ہل تجوز التضیحة بہا؟ فقال نعم إن کان لایخل باالاعتلاف ۔ وإن کان یخل بہ لاتجوز التضیحة بہا (ہندیہ: ۵/۲۹۸)۔