https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 5 January 2021

داعش,دولت اسلامیہ یازندیقیت؟

 اس گروہ کو اقوام متحدہ اور کئی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ داعش شہریوں اور فوجیوں بہ شمول صحافیوں اور امدادی کارکنان کے سر قلم کرنے اور دیگر قسم کی سزائیں دینے والی وڈیوجاری کرنے اور ثقافتی ورثہ کی جگہوں کو تباہ کرنے کے لیے مشہور ہے۔اقوام متحدہ کے نزدیک داعش انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔ شمالی عراق میں تاریخی سطح پر داعش دوسرے مذاہب کے افراد کو بڑی تعداد میں قتل بھی کر چکا ہے۔

داعش کا سنہ 1999ء میں جماعت التوحید و الجہاد کے طور پر ظہور ہوا، جوالقاعدہ کی حامی تھی اور 2003ء-2011ء عراقی کشیدگی میں حصہ لیا۔ جون 2014ء میں اس گروہ نے دنیا بھر میں خود کو خلافت کہا  اور خود کو دولت اسلامیہ کہلوانا شروع کر دیا۔ خلافت کے طور پر اس نے دنیا میں مسلمانوں پر مذہبی، سیاسی اور فوجی اقتدار کا دعوی کیا۔ خود خلافت کہلوانے پر اقوام متحدہ اور دیگر بڑے مسلم گروہوں نے اس کی ریاست کی تنقید اور مذمت کی۔.

شام میں اس گروپ نے حکومتی افواج اور حکومت مخالف جتھوں دونوں پر زمینی حملے کیے اور دسمبر 2015ء تک اس نے مغربی عراق اور مشرقی شام میں ایک بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا جس میں اندازہً 2.8 سے 8 ملین افراد شامل تھے، جہاں انہوں نے شریعت کی نام نہاد تاویل کر کے اسے تھوپنے کی کوشش کی۔ کہا جاتا ہے کہ داعش 18 ممالک میں سرگرم ہے جس میں افغانستان اور پاکستان بھی شامل ہیں اور مالی، مصر، صومالیہ، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور فلپائن میں اس کی شاخیں ہیں 2015ء میں داعش کا سالانہ بجٹ 1 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ تھا اور 30،000 جنگجوؤں سے زیادہ کی فوج تھی۔

جولائی 2017ء میں گروہ نے اس کے سب سے بڑے شہر سے کنٹرول کھو دیا اور عراقی فوج نے فتح حاصل کر لی۔ اس بڑی شکست کے بعد داعش آہستہ آہستہ زیادہ تر علاقوں سے ہاتھ دھو بیٹھا اور نومبر 2017ء تک اس کے پاس کچھ خاص باقی نہ رہا۔ امریکی فوجی عہدیداروں اور ساتھی فوجی تجزیوں کے مطابق دسمبر 2017ء تک گروہ دو فیصد علاقوں میں باقی رہ گیا۔ 10 دسمبر 2017ء میں عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے کہا کہ عراقی افواج نے ملک سے دولت اسلامیہ کے آخری ٹھکانوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ 23 مارچ 2019ء کو داعش اپنے آخری علاقے باغوز فوقانی کے نزدیک جنگ میں ہار گیا اور اس علاقے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔

دنیابھرمیں اس تنظیم نے اسلام کے نام پرجوبربریت اپنارکھی ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کی بنا ہی اسلام دشمنی ظلم وعدوان پر ہے.اصل مقصد میرے نزدیک صرف اسلام کے نام کواپنے ظلم وجبروت کے ذریعہ بدنام کرنا ہے .کل ہی پاکستان میں ہزارہ برادری کے چھ بے گناہ لوگوں کو مسلکی بنیاد قتل کردیاگیا.اس کی ذمہ داری اسی داعش نے لی ہے. مقتول شہداکاجرم یہ تھاکہ وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے..یہ تنظیم اسلام کوفرقہ پرستی  دہشت گردی اور جارحیت کامذہب مشہور کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہے.

عراق وشام پرقبضہ کے دوران ان کے زخمی جنگجؤوں کاعلاج اسرائیل میں ہوتاتھا.

ہزارہ برادری کے افراد کاقتل یہ بھی ظاہر کرتاہے کہ پاکستان ایک ناکام مملکت ہے جہاں انسانی خون کتنا ارزاں ہے..آئے دن قتل عام بم دھماکے.مسلکی بنیادپرشہادت کی خبریں آتی رہتی ہیں .یہ فی الحقیقت حکومت پاکستان کی کھلی ناکامی ہے.یہ قتل عام تابکے.اورخوں ریزی تاچند؟جہاں انسانی جان محفوظ نہیں وہ مملکت صفحۂ دہر پر ناکام اور ادھوری ریاست قرار پاتی ہے وہاں کے حکمراں نااہل, رہنماں ناہنجاراور افواج وپولیس حرف غلط سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے.مسٹرعمران خان اور ان کے نااہل وزراء کواخلاقی شکست تسلیم کرتے ہوئے فی الفور مستعفی ہوجاناچاہئے.

Tuesday 29 December 2020

حضرت جلیبیب بن عبدالفہری رضی اللہ عنہ

 جليبيب بن عبد ٍ الفہری ، انصاری صحابئ رسول کونبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے اٹھایاتھا جیساکہ آگے آئے گا وه قبيلۂ بنوثعلبہ کے فردتھے .حضرت ابوبرزہ اسلمی سے مروی ہے کہ جلیبیب کے مزاج میں شوخی وظرافت بہت تھی وہ آیت حجاب کے نزول سے پہلےلوگوں کوہنسایاکرتے تھے.خواتین کے پاس سے گذرتے توانہیں ہنساتے.میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا تھا کہ تمہارے پاس جلیبیب کو نہیں آنا چاہیے، اگر وہ آیا تو میں ایسا ایسا کردوں گا،انصار کی عادت تھی کہ وہ کسی بیوہ عورت کی شادی اس وقت تک نہیں کرتے تھے جب تک نبی ﷺ کو اس سے مطلع نہ کر دیتے، چنانچہ نبی ﷺ نے ایک انصاری آدمی سے کہا جس کا مفہوم ہے کہ اپنی بیٹی کے نکاح کا حق مجھے ديدو ، اس نے کہا زہے نصیب یارسول اللہ! بہت بہتر، نبی ﷺنے فرمایا میں اپنی ذات کے لیے اس کا مطالبہ نہیں کر رہا، اس نے پوچھا یارسول اللہ! پھر کس کے لیے؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جلیبیب کے لیے، اس نے کہا یا رسول اللہ! میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کر لوں، چنانچہ وہ اس کی ماں کے پاس پہنچا اور کہا کہ نبی ﷺتمہاری بیٹی کو پیغام نکاح دیتے ہیں، اس نے کہا بہت اچھا، ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، اس نے کہا کہ نبی ﷺ اپنے لیے پیغام نہیں دے رہے بلکہ جلیبیب کے لیے پیغام دے رہے ہیں، اس نے فوراً انکار کرتے ہوئے کہہ دیا بخدا! کسی صورت میں نہیں، نبی ﷺکو جلیبیب کے علاوہ اور کوئی نہیں ملا، ہم نے تو فلاں فلاں رشتے سے انکار کر دیا تھا، ادھر وہ لڑکی اپنے پردے میں سے سن رہی تھی۔ باہم صلاح مشورے کے بعد جب وہ آدمی نبی ﷺ کو اس سے مطلع کرنے کے لیے روانہ ہونے لگا تو وہ لڑکی کہنے لگی کہ کیا آپ لوگ نبی ﷺ کی بات کو رد کریں گے، اگر نبی ﷺ کی رضا مندی اس میں شامل ہے تو آپ نکاح کر دیں، یہ کہہ کر اس نے اپنے والدین کی آنکھیں کھول دیں اور وہ کہنے لگے کہ تم سچ کہہ رہی ہو، چنانچہ اس کا باپ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اگر آپ اس رشتے سے راضی ہیں تو ہم بھی راضی ہیں، (،آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو آپ نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا :اللھم صب علیھا الخیرصبا ولا تجعل عیشھا کدا. خدا وندا اس پر خیر کا دریا بہادے اوراس کی زندگی کو تلخ نہ کر۔ دعائے نبویﷺ کا یہ اثر ہوا کہ تمام انصار میں اس سے زیادہ کوئی تونگر اورخرچ کرنے والی عورت نہ تھی۔)نبی ﷺنے فرمایا میں راضی ہوں، عورت کی رضا مندی پاکر آنحضرتﷺ نے جلیبیب سے کہا کہ فلاں لڑکی سے تمہارا نکاح کرتا ہوں،بولے یا رسول اللہ! آپ مجھے کھوٹا پائیں گے فرمایا" لکنک عنداللہ لست بکاسد "یعنی تم اللہ کے نزدیک کھوٹے نہیں ہو ۔چنانچہ نبی ﷺنے جلیبیب سے اس لڑکی کا نکاح کردیا:

:شہادت

ایک غزوہ کے اختتام پر نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  شہداء کے نام دریافت کئےلوگوں نے چند آدمیوں کے نام گنائے ،آپ نے 3مرتبہ پوچھا اور وہی جواب ملا تو فرمایا :لکنی افقد جليبیبا! لیکن میں جليبیب کو گم پاتا ہوں۔ مسلمان جليبیب کی تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ سات آدمیوں کے پہلو میں مقتول پڑے ہیں، آنحضرت ﷺ کو خبر ہوئی، آپ خود تشریف لائے،اورلاش کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا:قَتَلَ سَبْعَةً ثُمَّ قَتَلُوهُ هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ.'سات کو قتل کرکے قتل ہوا یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں'
۔ اور جلبیب کی لاش کو اپنے ہاتھ سے اٹھا کر لائے اور قبر کھدواکر دفن کیا اورغسل نہیں دیا ۔

Thursday 17 December 2020

دینی معلومات:

 سوال .١نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان عمۂ محترمہ(چچی) کانام کیا ہے جن کی قبرمیں آپ خود اترے اور اس میں اپنی چادربچھادی تھی؟

جواب:حضرت فاطمہ بنت اسدزوجۂ حضرت ابوطالب ,والدۂ حضرت علی رضی اللہ عنہما

سوال۲.نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے کس معاہدۂ امن میں شرکت کی.؟

.جواب:حلف الفضول میں جبکہ آپ کی عمر صرف نوسال تھی

سوال ٣.عہدنبوی میں مسجدنبوی کے علاوہ مدینہ منورہ میں اورکون کونسی مساجدتعمیرہوچکی تھیں جن میں  باقاعدہ پنج وقتہ نماز اداکی جاتی تھی.؟

جواب:مسجد بنوعمرو,مسجدبنوساعدہ,مسجدبنوعبید,مسجدبنوذریق,,مسجد بنوسلمہ,مسجد بنوغفار,مسجدبنواسلم,مسجدجہینہ,مسجدبنوبیاضہ.

سوال ۴.حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا اصلی نام اور کنیت کیاہے؟

جواب:نام عبداللہ اورکنیت ابوبکر

سوال٥:زکوۃ کس سن میں فرض ہوئی؟

جواب:سن ٣ہجری میں.

سوال٦. روزے کب فرض ہوئے؟

جواب:سن ۲ہجری میں.

سوال ۷.نماز کب فرض ہوئی؟

جواب سن ١۲ نبوی میں 

سوال۸. عیدالفطرکی نماز سب سے پہلےکب اداکی گئی؟

جواب:یکم شوال سن ۲ہجری کو. 

سوال۹. اسلامی تاریخ میں سب سے پہلاتحریری امان نامہ آپ نے کس کے لئے جاری کیا؟

جواب :سفرہجرت کے دوران سراقہ بن جعشم کے لئے

سوال ١۰.موجودہ اذان کی ابتداء کب سے ہوئی؟

جواب:سن ۲ ہجری سے.

Tuesday 15 December 2020

خیالی سوالات سے تنگ کرنے والوں کی بابت علماء سلف کے واقعات طنز ومزاح:

  

ایک شخص نے امام عامرشعبی علیہ الرحمہ سے داڑھی پر مسح کرنے کا مسئلہ پوچھا*

انہوں نے کہا : انگلیوں سے داڑھی کا خلال کر لو.

وہ شخص بولا : مجھے اندیشہ ہے کہ داڑھی اس طرح بھیگے گی نہیں 

امام شعبی نے جواب دیا : پھر ایک کام کرو، رات کو ہی داڑھی  پانی میں بِھگو دو

            📗المراح فی المزاح:ص 39

*

امام عامر شعبی سے ہی ایک شخص نے پوچھا : کیا حالت احرام میں انسان اپنے بدن کو کھجلا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں. وہ شخص بولا : کتنا کھجلا سکتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا : جب تک ہڈی نظر نہ آنے لگے.

                 📗المراح فی المزاح


ایک آدمی نے قاضی ابو یوسف علیـہ الرّحمہ سے پوچھا: *پستے کا حلوہ زیادہ مزیدار ہوتا ہے یا بادام کا؟*

قاضی صاحب نے فوراً جواب دیا: " معاملہ انصاف کا ہے اور میں فریقین کی عدم موجودگی میں فیصلہ نہیں کرسکتا، دونوں کو حاضر کیا جائے ، تو بتاؤں گا۔"

(📗اسلام میں تصور مزاح ص116)


ایک شخص نے عمرو بن قیس سے پوچھا : اگر انسان کے کپڑے، جوتے اور پیشانی وغیرہ میں مسجد کی کچھ کنکریاں لگ جائیں تو وہ ان کا کیا کرے؟ انہوں نے جواب دیا :  پھینک دے. وہ شخص بولا : لوگ کہتے ہیں وہ کنکریاں جب تک دوبارہ مسجد میں نہ پہنچائی جائیں وہ چیختی رہتی ہیں.

وہ بولے : تو پھر انہیں اس وقت تک چیخنے دو جب تک ان کا حلق پھٹ نہ جائے.

وہ شخص بولا : سبحان اللہ! بھلا کنکریوں کا بھی کہیں حلق ہوتا ہے؟

انہوں نے جواب دیا : پھر بھلا وہ چیختی کہاں سے ہیں؟

            📗العقد الفرید 92/2


ایوب کہتے ہیں : میں نے ایک آدمی کو سنا وہ حضرت عکرمہ سے کہہ رہا تھا : فلاں شخص نے خواب میں میرے اوپر زنا کی جھوٹی تہمت لگائی ہے.

حضرت عکرمہ بولے: تو تم بھی اس کے سائے کو اسّی بار مار لو.

📗سیر اعلام النبلاء 19/5


اعمش کہتے ہیں ایک شخص امام شعبی کے پاس آیا اور پوچھا: ابلیس کی بیوی کا کیا نام  ہے؟ انہوں نے جواب دیا : میں اس کی شادی میں شریک نہیں ہوا تھا.

📗سیر اعلام النبلاء 312/4


ایک آدمی امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے پاس آیا اور پوچھا جب میں اپنے کپڑے اتار کر ندی میں غسل کرنے کے لیے جاؤں تو اپنا چہرہ قبلہ کی طرف رکھوں یا کسی اور طرف؟

انہوں نے جواب دیا : بہتر ہے کہ تم اپنا چہرہ کپڑے کی طرف رکھو تاکہ کوئی انہیں چرا نہ لے .

📗المراح فی المزاح : ص 43


 (عربی سے ترجمہ)


Friday 11 December 2020

نظربدکاعلاج


نظر لگنا برحق اورشرعی نیز حسی طور پر ثابت ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن يَكَادُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَيُزۡلِقُونَكَ بِأَبۡصَٰرِهِمۡ﴾--القلم:51
''اور منکر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔''
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا دیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
«اَلْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَيْئٌ سَابَقَ الْقَدْرَ سَقَبَتُْ الْعَيْنُ، وَاِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا»سنن ابی داود، الطب، باب فی الطیرة،
حدیث: ۳۹۲۵ وجامع الترمذی، الاطعمة، باب ماجاء فی الاکل مع المجزوم، حدیث: ۱۸۱۷۔
''نظر لگنا برحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر سبقت کرتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دیا کرو۔''

نظربد کا علاج

نظر بد سے حفاظت اور اس کا اثر ختم کرنے کے کئی طریقے احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتے ہیں :

 پہلا طریقہ:سورۂ فاتحہ ، آیۃ الکرسی ،معوذتین اور مندرجہ ذیل دعاپڑھیں:

" أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ."(اسوۂ رسول اکرم ﷺ)

دوسرا طریقہ: جس کو نظرِبد لگ جائے تواس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قولِ مبارک سے دم کیا جائے : "بِسْمِ اللهِ اَللّٰهُمَّ أَذْهِبْ حرَّهَا وَبَردَهَا وَوَصْبَهَا". 

ترجمہ :اللہ کے نام پر، اے اللہ تواس (نظربد)کے گرم وسرد کو اوردکھ درد کو دورکردے ۔ اس کے بعد یہ کلما ت کہے : "قُمْ بِـإِذنِ اللهِ"!

 ترجمہ : اللہ کے حکم سے کھڑا ہو جا ۔(حصن حصین )

تیسراطریقہ:نظر بد  دور کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس آدمی کے بارے میں معلوم ہوکہ اس کی نظر لگی ہے، اُسے وضو کرایا جائے اور اُس کے استعمال شدہ پانی کو کسی برتن میں جمع کرلیا جائے اور پھر  جسے نظر لگی ہے اُس پانی  سے  اُس کو غسل کرا یا جائے۔جیساکہ احادیثِ مبارکہ میں اس کا طریقہ مذکور ہے،ذیل میں مشکاۃ شریف سے وہ روایت اور اس کی تشریح نقل کی جاتی ہے:

"حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : نظر بد حق ہے، یعنی نظر لگنا ایک حقیقت ہے اگر تقدیر پر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی تو وہ نظر ہی ہوتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دو ۔ 

(صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۶۔)

''اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے ۔" کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت عرب میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو نظر لگتی تھی اس کے ہاتھ پاؤں اور زیر ناف حصے کو دھو کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے تھے جس کو نظر لگتی تھی اور اس چیز کو شفا کا ذریعہ سمجھتے تھے ،اس کا سب سے ادنیٰ فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اس ذریعہ سے مریض کا وہم دور ہو جاتا تھا ۔چناں چہ رسولِ کریم ﷺ نے اس کی اجازت دی اور فرمایا کہ اگر تمہاری نظر کسی کو لگ جائے اور تم سے تمہارے اعضاء دھو کر مریض پر ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کو منظور کر لو"۔

نیز دوسری روایت میں ہے:

" حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سہل ابن حنیف کہتے ہیں کہ (ایک دن ) عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (میرے والد ) سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہاتے ہوئے دیکھا (یعنی ستر چھپائے ہوئے) تو کہنے لگے کہ اللہ کی قسم (سہل کے جسم اور ان کے رنگ و روپ کے کیا کہنے ) میں نے تو آج کے دن کی طرح (کوئی خوب صورت بدن کبھی ) نہیں دیکھا ۔ اور پردہ نشین کی بھی کھال (سہل کی کھال جیسی نازک وخوش رنگ ) نہیں دیکھی ۔ ابوامامہ کہتے ہیں کہ (عامر کا ) یہ کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوا (جیسے ) سہل کو گرا دیا گیا (یعنی ان کو عامر کی ایسی نظر لگی کہ وہ فوراً غش کھا کر گر پڑے )، چناں چہ ان کو اٹھا کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ " یا رسول اللہﷺ ! آپ سہل کے علاج کے لیے کیا تجویز کرتے ہیں ؟ اللہ کی قسم یہ تو اپنا سر بھی اٹھانے کی قدرت نہیں رکھتے ۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ کیا کسی شخص کے بارے میں تمہارا خیال ہے کہ اس نے ان کو نظر لگائی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ( جی ہاں ) عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ہمارا گمان ہے کہ انہوں نے نظر لگائی ہے، راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر ) عامر کو بلایا اور ان کو سخت سست کہا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں مار ڈالنے کے درپے ہوتا ہے! تم نے سہل کو برکت کی دعا کیوں نہیں دی؟ ( یعنی اگر تمہاری نظر میں سہل کا بدن اور رنگ و روپ بھا گیا تھا تو تم نے یہ الفاظ کیوں نہ کہے "بَارَکَ اللهُ عَلَیْکَ"  تاکہ ان پر تمہاری نظر کا اثر نہ ہوتا ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر کو حکم دیا کہ ( تم سہل کے  لیے اپنے اعضاء کو ) دھوؤ اور اس پانی کو اس پر ڈال دو ، چناں چہ عامر نے ایک برتن میں اپنا منہ ہاتھ کہنیاں گھٹنے دونوں پاؤں کی انگلیوں کے پورے اور زیر ناف جسم ( یعنی ستر اور کولھوں ) کو دھویا اور پھر وہ پانی جس سے عامر نے یہ تمام اعضاء دھوئے تھے سہل پر ڈالا گیا ، اس کا اثر یہ ہوا کہ سہل فوراً اچھے ہو گئے اور اٹھ کر لوگوں کے ساتھ اس طرح چل پڑے، جیسے ان کو کچھ ہوا ہی نہیں تھا 

بخاری (5742) ابو داؤد (3890) ترمذی (973) و

سنن ابن ماجه، الطب، باب العین، ح:۳۵۰۹ وسنن الکبری للنسائی: ۴/ ۳۸۱۔ و شرح السنہ ومؤطا امام مالک)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علماء کے نزدیک نظر لگانے والے کے وضو کی صورت یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ تحقیق  ہو کہ اس نے نظر لگائی ہے کہ اس کے سامنے کسی برتن یعنی پیالہ وغیرہ میں پانی لایا جائے اس برتن کو زمین پر نہ رکھا جائے پھر نظر لگانے والا اس برتن میں سے ایک چلو پانی لے کر کلی کرے اور اس کلی کو اسی برتن میں ڈالے پھر اس سے پانی لے کر اپنا منہ دھوئے پھر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر دائیں کہنی اور دائیں ہاتھ میں پانی لے کر بائیں کہنی دھوئے اور ہتھیلی و کہنی کے درمیان جو جگہ ہے اس کو نہ دھوئے پھر داہنا پیر اور پھر اس کے بعد بایاں پیر دھوئے، پھر اسی طرح پہلے داہنا گھٹنا اور بعد میں بایاں گھٹنا دھوئے اور پھر آخر میں تہبند کے اندر زیر ناف جسم کو دھوئے اور ان سب اعضاء کو اسی برتن میں دھویا جائے، ان سب کو دھونے کے بعد اس پانی کو نظر زدہ کے اوپر اس کی پشت کی طرف سے سر پر ڈال کر بہا دے ۔

واضح رہے کہ اس طرح کا علاج اسرار و حکم سے تعلق رکھتا ہے جو عقل وسمجھ کی رسائی سے باہر کی چیز ہے ؛ لہذا اس بارے میں عقلی بحث کرنا لا حاصل ہے"۔(مشکاۃ المصابیح - مظاہر حق)

جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتے ہوئے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے:
«بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ، مِنْ کُلَّ شَيْئٍ يُؤْذِيْکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ، اَللّٰهُ يَشْفِيْکَ، بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ»صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۶۔
''اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے، اور ہر انسان کے یا حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں۔''

Antonyms:

https://quizizz.com/admin/quiz/5fd25fe7a46e98001be89c74 

Monday 7 December 2020

نقشہ دائمی اوقات نمازعلی گڑھ واطراف:

https://drive.google.com/file/d/1V33dT91vyOKS5N232V_s5QvRSK8TXqGB/view?usp=drivesdk 

اسباب فسخ وتفریق

 درج ذیل اسباب کی بناپر زوجین کے درمیان تفریق کے لئے قضاء قاضی شرط ہے1.عدم کفأت یاغیرکفومیں نکاح ہونا.2مہرکے اندرغیرمعمولی کمی3.خیاربلوغ4.شوہرکاحقوق زوجیت ادا نہ کرنا5.شوہرکاوطی پرقادرنہ ہونا.6.شوہرکاجذام,برص یااس جیسے کسی موذی مرض میں مبتلاء ہونا.7شوہرکامجنون ہونا.8.شوہرکامفقودالخبریاغائب ہونا.9.شوہرکاغائب  غیرمفقودالخبرہونا.10شوہرکااستطاعت کے باوجود نفقہ نہ دینا.11.شوہرکاادائیگئ نفقہ سے عاجز ہونا.12شوہرکابیوی کوسخت زدوکوب کرنا.13.زوجین میں شقاق کاپایاجانا.14.مردکااپنی حالت کے بارے میں  عورت کودھوکے میں ڈال کر نکاح کرنا.15.تفریق بسبب حرمت مصاہرت.16.تفریق بسبب فساد نکاح

کتاب الفسخ والتفریق :قاضی عبدالصمد رحمانی,و مجموعۂ قوانین اسلامی مرتبہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)