https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday, 14 June 2025

نوکوسٹ ای ایم آیی پر خریدنا

 واضح رہے کہ ” ای ایم آئی (EMI)   یہ ( Equated Monthly Installment) کا مخفف ہے،اس کا  مطلب یہ  ہے کہ کسی چیز کو خریدتے ہوئے اس کی مکمل قیمت یک مشت ادا کرنے کے بجائے ماہانہ قسطوں کی صورت میں ادا کرنا،  اس کی ایک صورت  (No Cost EMI) ہے ،  اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز   کو نقد  رقم میں  خرید تے  ہوئے   جتنی قیمت ادا کرنی ہوتی ، اسی چیز  کو قسطوں  پر خریدنے میں بھی خریدار کو  اتنی  ہی قیمت ادا کرنی ہوگی، اور قسطوں پر خریداری کی صورت میں   کسی قسم کی اضافی رقم نہیں دینی ہوگی، اکثر آن لائن تجارتی پلیٹ فارم اس آپشن کو رکھتے ہیں۔

اس کے شرعی حکم سے پہلے یہ ملحوظ رہے کہ :

1۔یہ معاملہ بینک کے ذریعہ ہوتا ہے، قیمت کی ادائیگی بھی   خریدار بینک کے  کارڈ کے ذریعے کرتا ہے۔

2۔ماہانہ قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ  (penalty)  بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔

3۔قسطوں پر خریدنے کی صورت میں  قیمت اصل رقم سے زیادہ ہی  ہوتی ہے، لیکن  یہ زائد رقم  انٹرسٹ  (سود) کے نام پر بینک ادا کرتا ہے، اور   خریدار کو ڈسکاؤنٹ کے نام  وہ رقم معاف کی جاتی ہے۔ اس خریداری کی انوائس  مثلا ًاس طرح ہوتی ہے:

:Price details

Price (1 item): 10000

  Delivery charges: Free

Interest (charged by bank):600

No cost EMI Discount: 600

Amount payable: 10000

شرعی حکم:

یہ معاملہ کئی وجوہات کی بنا پر شرعا جائز نہیں ہے:

1: اس معاملہ میں قسطوں پر خریداری کی صورت میں جو  اضافی رقم  دی جاتی ہے، وہ   اصل قیمت میں اضافہ  نہیں ہے، بلکہ وہ  ”سود “ کے نام پر  دی جاتی ہے، اور مدّت  کے بدلے میں جو قیمت میں اضافہ  ہو شرعاً وہ سود ہے ، جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔

2: خریدار کو اگر چہ  وہ رقم ڈسکاؤنٹ کے نام سے معاف کردی جاتی ہے، لیکن خریدار ہی کی طرف سے بینک یہ سود ادا کرتا ہے، اور  خریدار بینک کا اکاؤنٹ ہولڈر ہوتا ہے،    اور اکاؤنٹ ہولڈر کی جو رقم بینک میں رکھی ہوتی ہے، شرعا  وہ ” قرض“ کے حکم میں ہے، اور قرض پر کسی قسم کا مشروط نفع لینا شرعاً”سود“ ہے۔

3:  ماہانہ قسط کی ادائیگی میں  تاخیر کی صورت میں جرمانہ کی شرط ہوتی ہے،  اگرچہ وقت پر قسط کی ادائیگی ہو تب بھی  اس شرطِ فاسد کی وجہ سے پورا معاملہ فاسد ہوگا، الغرض یہ شرط فاسد ہےاور جرمانہ لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔ 

4: عام طور پر یہ معاملہ ”کریڈٹ کارڈ“ کے ذریعے ہوتا ہے، اور ”کریڈٹ کارڈ“کا استعمال فی نفسہ بھی ناجائز ہے۔

لہذا    نو کوسٹ ای ایم آئی(NO COST EMI)  کے ذریعے   سامان خریدنا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

موطأ مالك ميں هے:

" وحدثني عن مالك عن زيد بن أسلم أنه قال: " كان الربا في الجاهلية، أن يكون للرجل على الرجل الحق إلى أجل، فإذا حل الأجل، قال: أتقضي أم تربي؟ فإن قضى أخذ، وإلا  زاده في حقه، وأخر عنه في الأجل."

(2 / 672، باب ما جاء في الربا في الدين، ط:  دار إحياء التراث العربي، بيروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

و في الرد :  (قوله: كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر."

(5/166، مطلب کل قرض جر نفعا، ط: سعید)

      البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

(5/ 41، فصل فی التعزیر، ط:  سعید)

Tuesday, 10 June 2025

عیدالاضحی کے چوتھے دن قربانی

 ایامِ اضحیہ (یعنی قربانی کے ایام) تین ہیں:  دس، گیارہ  اور  بارہ  ذی الحجہ (یعنی عید کا پہلا، دوسرا اور تیسرا دن)، لہٰذا  عید  کے چوتھے دن (یعنی ۱۳ ذی الحجہ کے دن)  قربانی کرنا معتبر نہیں ہے؛  اس لیے  کہ  حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابنِ عمر اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام سے مروی ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں اور پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ عبادات کے مخصوص اوقات صحابہ کرام خود سے نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ  کے بیان کی روشنی میں بتاتے تھے۔ اگر کوئی شخص قربانی کے ایّام میں جانور ذبح نہیں کرسکا، تو اس کے بعد صدقہ کرنا ضروری ہے۔

2: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ  عید کے چوتھے دن (یعنی تیرہ ذوالحجہ) بھی  قربانی کے درست ہونے کے قائل  ہیں، ان کی دلیل حضرت علی  و عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی روایت ہے :

" کُلُّ اَیَّامِ التَّشرِیقِ ذِبح.

(موارد الظمآن ، ص:249، ط:المکتبة السلفیة)

یعنی ایامِ  تشریق سب قربانی کے دن ہیں ،  جب کہ احناف  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  صحیح قول وہی ہے جو   حضرت  علی، عمر، ابوہریرہ، انس ، ابن عباس ، ابن عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے مروی ہے کہ" أيام النحر ثلاثة، أولها أفضلها"،  (قربانی کےدن تین ہیں، اور ان میں پہلا افضل ہے) اور  اسی قول کو جمہور  نے  قبول کیا ہے؛کیوں کہ قربانی ایک  عبادت ہے اور عبادات کے لیے اوقات کی پہچان سماع  سے ہوتی ہے،باقی  جو  دلیل حضرت عباس وعلی رضی اللہ عنہما کے حوالے سے مذکور ہے، تو ان کا یہ قول مجمل ہے، جس کی  تشریح  خود ان ہی کے قول : "أيام النحر ثلاثة، أولها أفضلها" سے ہورہی  ہے، یعنی حضرت علی  اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے ہی تمام ایامِ تشریق میں ذبح کی روایت موجود ہے، جب کہ آپ  دونوں رضی اللہ عنہما  ہی سے ایامِ نحر کی تحدید تین دن منقول ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ  ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما کے ہاں بھی قربانی کے تین دن ہیں، البتہ ایامِ تشریق میں چوں کہ حجاجِ کرام منٰی اور حدودِ حرم میں ہی ہوتے ہیں تو  عرب اس میں جانور ذبح کرنے کا اہتمام کرتے تھے، اس کی اجازت اس روایت میں منقول ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأيام النحر ثلاثة: يوم الأضحى - وهو اليوم العاشر من ذي الحجة - والحادي عشر، والثاني عشر وذلك بعد طلوع الفجر من اليوم الأول إلى غروب الشمس من الثاني عشر، وقال الشافعي - رحمه الله تعالى -: أيام النحر أربعة أيام؛ العاشر من ذي الحجة والحادي عشر، والثاني عشر، والثالث عشر، والصحيح قولنا؛ لما روي عن سيدنا عمر وسيدنا علي وابن عباس وابن سيدنا عمر وأنس بن مالك - رضي الله تعالى عنهم - أنهم قالوا: أيام النحر ثلاثة أولها أفضلها، والظاهر أنهم سمعوا ذلك من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لأن أوقات العبادات والقربات لا تعرف إلا بالسمع".

(کتاب التضحیة، فصل في وقت وجوب الأضحية، ج:5، ص:65، ط:دارالکتب العلمیة)

Thursday, 5 June 2025

ایام تشریق میں روزہ

 عید   اور ایام تشریق کے دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، اگر کوئی شخص ان دنوں میں نفلی  روزہ رکھ لے تو اس پر  روزہ توڑنا واجب ہے، اور اس روزہ  کی قضا بھی لازم نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 428):

"(وَلَزِمَ نَفْلٌ شُرِعَ فِيهِ قَصْدًا) كَمَا فِي الصَّلَاةِ، فَلَوْ شَرَعَ ظَنَّا فَأَفْطَرَ أَيْ فَوْرًا فَلَا قَضَاءَ أَمَّا لَوْ مَضَى سَاعَةٌ لَزِمَهُ الْقَضَاءُ لِأَنَّهُ بِمُضِيِّهَا صَارَ كَأَنَّهُ نَوَى الْمُضِيَّ عَلَيْهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ تَجْنِيسٌ وَمُجْتَبًى (أَدَاءً وَقَضَاءً) أَيْ يَجِبُ إتْمَامُهُ فَإِنْ فَسَدَ وَلَوْ بِعُرُوضِ حَيْضٍ فِي الْأَصَحِّ وَجَبَ الْقَضَاءُ (إلَّا فِي الْعِيدَيْنِ وَأَيَّامِ التَّشْرِيقِ) فَلَايَلْزَمُ لِصَيْرُورَتِهِ صَائِمًا بِنَفْسِ الشُّرُوعِ فَيَصِيرُ مُرْتَكِبًا لِلنَّهْيِ.

(قَوْلُهُ : وَجَبَ الْقَضَاءُ) أَيْ فِي غَيْرِ الْأَيَّامِ الْخَمْسَةِ الْآتِيَةِ، وَهَذَا رَاجِعٌ إلَى قَوْلِهِ قَضَاءً ط (قَوْلُهُ: فَلَايَلْزَمُ) أَيْ لَا أَدَاءً وَلَا قَضَاءً إذَا أَفْسَدَهُ (قَوْلُهُ: فَيَصِيرُ مُرْتَكِبًا لِلنَّهْيِ) فَلَا تَجِبُ صِيَانَتُهُ بَلْ يَجِبُ إبْطَالُهُ وَوُجُوبُ الْقَضَاءِ يَنْبَنِي عَلَى وُجُوبِ الصِّيَانَةِ فَلَمْ يَجِبْ قَضَاءً كَمَا لَمْ يَجِبْ أَدَاءً، بِخِلَافِ مَا إذَا نَذَرَ صِيَامَ هَذِهِ الْأَيَّامِ فَإِنَّهُ يَلْزَمُهُ وَيَقْضِيهِ فِي غَيْرِهَا لِأَنَّهُ لَمْ يَصِرْ بِنَفْسِ النَّذْرِ مُرْتَكِبًا لِلنَّهْيِ وَإِنَّمَا الْتَزَمَ طَاعَةَ اللَّهِ تَعَالَى وَالْمَعْصِيَةَ بِالْفِعْلِ فَكَانَتْ مِنْ ضَرُورَاتِ الْمُبَاشَرَةِ لَا مِنْ ضَرُورَاتِ إيجَابِ الْمُبَاشَرَةِ مِنَحٌ مَعَ زِيَادَةٍ ط."

الفتاوى الهندية (1 / 201):

"وَيُكْرَهُ صَوْمُ يَوْمِ الْعِيدَيْنِ، وَأَيَّامِ التَّشْرِيقِ، وَإِنْ صَامَ فِيهَا كَانَ صَائِمًا عِنْدَنَا، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. وَ لَا قَضَاءَ عَلَيْهِ إنْ شَرَعَ فِيهَا ثُمَّ أَفْطَرَ، كَذَا فِي الْكَنْزِ. هَذَا فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ عَنْ الثَّلَاثَةِ وَعَنْ الشَّيْخَيْنِ وُجُوبُهُ، كَذَا فِي النَّهْرِ الْفَائِقِ."

Wednesday, 4 June 2025

ہونٹ کٹے جانورکی قربانی

 اگر بکرے کو اس کی وجہ سے چرنے اور کھانے پینے میں کوئی دقت و پریشانی نہیں ہوتی ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔ لو کانت الشاة مقطوعة اللسان ہل تجوز التضیحة بہا؟ فقال نعم إن کان لایخل باالاعتلاف ۔ وإن کان یخل بہ لاتجوز التضیحة بہا (ہندیہ: ۵/۲۹۸)۔

میت کی طرف سے قربانی

 میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اور اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دنبہ اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک  دنبہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربانی کرتے تھے۔

  میت کی طرف سے قربانی کرنے کی دو صورتیں ہیں:

(۱) اگر مرحوم نے قربانی کرنے کی وصیت کی تھی اور اس کے ترکہ میں مال بھی تھا تو اس کے ایک تہائی ترکہ اس وصیت کو پورا کرنا لازم ہے اور اس قربانی کے گوشت کو صدقہ کرنا ضروری ہے، مال داروں کے لیے اس وصیت کی قربانی کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔

(۲)  اگر میت نے قربانی کرنے کی وصیت نہیں کی بلکہ کوئی عاقل بالغ شخص اپنی خوشی سے میت کے لیے قربانی کرتا ہے تو  یہ قربانی حقیقت میں قربانی کرنے والی کی طرف سے ہوگی اور اس کا ثواب میت کو پہنچے گا، اور اس قربانی کا گوشت مال دار اور فقیر سب کھاسکتے ہیں۔  

اس دوسری  صورت میں میت کی طرف سے قربانی کرنے کے دو طریقہ ہیں:

۱۔۔ میت کے نام پر ایک حصہ یا ایک چھوٹے جانور کی قربانی کی جائے۔

۲۔۔ قربانی کرنے والے اپنی واجب قربانی کے علاوہ ایک اور حصہ قربانی کرے اور اس کا ثواب میت کو پہنچادے ، دونوں صورتیں صحیح ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وعن میت) أي لو ضحی عن میت وارثه بأمره ألزمه بالتصدیق بها وعدم الأکل منها، وإن تبرع بها عنه له الأکل؛ لأنه یقع علی ملك الذابح والثواب للمیت؛ ولهذا لو کان علی الذابح واحدة سقطت عنه أضحیته، کما في الأجناس. قال الشرنبلالي: لکن في سقوط الأضحیة عنه، تأمل. أقول: صرح في فتح القدیر في الحج عن الغیر بلا أمر أنه یقع عن الفاعل فیسقط به الفرض عنه وللآخر الثواب، فراجعه". (ردالمحتار علی الدر9/484)

 فتاوی قاضی خان میں ہے:

"ولو ضحی عن میت من مال نفسه بغیر أمر المیت جاز، وله أن یتناول منه ولایلزمه أن یتصدق به؛ لأنها لم تصر ملکًا للمیت؛ بل الذبح حصل علی ملکه، ولهذا لو کان علی الذابح أضحیة سقطت عنه". (فتاویٰ قاضي خان علی هامش الفتاویٰ الهندیة ۳؍۳۵۲

داماد کو زکوٰۃ دینا

 اگر داماد  واقعۃً مستحقِ زکاۃ ہو یعنی اس کے پاس  ضرورتِ اصلیہ سے زائد نقدی جو  نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر یا اس سے زیادہ ہو یا  کسی قسم کا مال (سونا، چاندی، نقدی یا مالِ تجارت) یا (اتنی مالیت کا ضرورت و استعمال سے زائد کسی قسم کا) سامان نہ ہو، اور ہاشمی بھی نہ ہو تو اسے زکاۃ دے  سکتے ہیں،  اور اس میں دوگنا اجر ہوگا، ایک فریضۂ زکاۃ کی ادائیگی کا، دوسرا صلہ رحمی کا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وَيَجُوزُ دَفْعُهَا لِزَوْجَةِ أَبِيهِ وَابْنِهِ وَزَوْجِ ابْنَتِهِ، تَتَارْخَانِيَّةٌ". ( كتاب الزكاة، بَابُ مَصْرِفِ الزَّكَاةِ وَالْعُشْرِ، ٢ / ٣٤٥، ط: دار الفكر)

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح  میں ہے:

"والأفضل صرفها للأقرب فالأقرب من كل ذي رحم محرم منه ثم لجيرانه، ثم لأهل محلته ثم لأهل حرفته ثم لأهل بلدته، و قال الشيخ أبو حفص الكبير رحمه الله: لاتقبل صدقة الرجل وقرابته محاويج حتى يبدأ بهم فيسد حاجتهم". ( كتاب الزكاة، باب المصرف، ١ / ٢٧٢ - ٢٧٣، ط: المكتبة العصرية) 

Monday, 2 June 2025

قربانی کرنے والے کے بال اور ناخن کاٹنے کا حکم

 اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےارشاد فرمایا:

’’جب ذو الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بال، ناخن یا کھال کا کچھ بھی حصہ نہ کاٹے، جب تک قربانی نہ کردے.‘‘

ایک روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ذو الحجہ کا چاند نظر آتے ہی بال اور ناخن کاٹنے سے رک جائے۔

اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے فرمایا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے، نیز بلا ضرورت کھال وغیرہ بھی نہ کاٹے، اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو۔

 نیز اس میں یہ ملحوظ رہے کہ اگر زیر ناف بال اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہو رہے ہوں تو ایسی صورت میں ان کی صفائی کرنا ضروری ہے۔

صحيح مسلم (ج:3، ص:1565، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت):

’’حدثنا ابن أبي عمر المكي، حدثنا سفيان، عن عبد الرحمن بن حميد بن عبد الرحمن بن عوف، سمع سعيد بن المسيب، يحدث عن أم سلمة رضي الله عنها، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره وبشره شيئا»، قيل لسفيان: فإن بعضهم لا يرفعه، قال: «لكني أرفعه».

وحدثني حجاج بن الشاعر، حدثني يحيى بن كثير العنبري أبو غسان، حدثنا شعبة، عن مالك بن أنس، عن عمرو بن مسلم، عن سعيد بن المسيب، عن أم سلمة رضي الله عنها، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا رأيتم هلال ذي الحجة، وأراد أحدكم أن يضحي، فليمسك عن شعره وأظفاره».‘‘

میت کی طرف سے قربانی

 میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اور اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دنبہ اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک  دنبہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربانی کرتے تھے۔

  میت کی طرف سے قربانی کرنے کی دو صورتیں ہیں:

(۱) اگر مرحوم نے قربانی کرنے کی وصیت کی تھی اور اس کے ترکہ میں مال بھی تھا تو اس کے ایک تہائی ترکہ اس وصیت کو پورا کرنا لازم ہے اور اس قربانی کے گوشت کو صدقہ کرنا ضروری ہے، مال داروں کے لیے اس وصیت کی قربانی کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔

(۲)  اگر میت نے قربانی کرنے کی وصیت نہیں کی بلکہ کوئی عاقل بالغ شخص اپنی خوشی سے میت کے لیے قربانی کرتا ہے تو  یہ قربانی حقیقت میں قربانی کرنے والی کی طرف سے ہوگی اور اس کا ثواب میت کو پہنچے گا، اور اس قربانی کا گوشت مال دار اور فقیر سب کھاسکتے ہیں۔  

اس دوسری  صورت میں میت کی طرف سے قربانی کرنے کے دو طریقہ ہیں:

۱۔۔ میت کے نام پر ایک حصہ یا ایک چھوٹے جانور کی قربانی کی جائے۔

۲۔۔ قربانی کرنے والے اپنی واجب قربانی کے علاوہ ایک اور حصہ قربانی کرے اور اس کا ثواب میت کو پہنچادے ، دونوں صورتیں صحیح ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وعن میت) أي لو ضحی عن میت وارثه بأمره ألزمه بالتصدیق بها وعدم الأکل منها، وإن تبرع بها عنه له الأکل؛ لأنه یقع علی ملك الذابح والثواب للمیت؛ ولهذا لو کان علی الذابح واحدة سقطت عنه أضحیته، کما في الأجناس. قال الشرنبلالي: لکن في سقوط الأضحیة عنه، تأمل. أقول: صرح في فتح القدیر في الحج عن الغیر بلا أمر أنه یقع عن الفاعل فیسقط به الفرض عنه وللآخر الثواب، فراجعه". (ردالمحتار علی الدر9/484)

 فتاوی قاضی خان میں ہے:

"ولو ضحی عن میت من مال نفسه بغیر أمر المیت جاز، وله أن یتناول منه ولایلزمه أن یتصدق به؛ لأنها لم تصر ملکًا للمیت؛ بل الذبح حصل علی ملکه، ولهذا لو کان علی الذابح أضحیة سقطت عنه". (فتاویٰ قاضي خان علی هامش الفتاویٰ الهندیة ۳؍۳۵۲ )

غریب شخص کا قربانی کے جانورکو فروخت کرنا

 اگر کسی غریب شخص نے  جس پر قربانی واجب نہیں تھی، قربانی کے لیے جانور خرید لیا یعنی خریدتے وقت قربانی کی نیت کی تھی ،تو اب اس غریب شخص پر اس جانور کی قربانی لازم ہے، اس جانور کو فروخت کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

اور اگر جانور خریدتے وقت قربانی کی نیت نہیں تھی، بلکہ بعد میں غریب آدمی نے اس جانور میں قربانی کی نیت کی ہے اور زبان سے الفاظ کہہ کر اس جانور کو قربانی کے لیے خاص نہیں کیا، تو اب اس جانور کا  فروخت کرنا ممنوع نہیں، اپنی ضرورت کے لیے اسے  بیچ سکتا ہے۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (6 / 321):

" قوله: (شراها لها) فلو كانت في ملكه فنوى أن يضحي بها أو اشتراها ولم ينو الأضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك لا يجب لأن النية لم تقارن الشراء فلاتعتبر، بدائع. (قوله: لوجوبها عليه بذلك) أي بالشراء و هذا ظاهر الرواية؛ لأن شراءه لها يجري مجرى الإيجاب، و هو النذر بالتضحية عرفًا كما في البدائع."

-امدادالفتاویٰ 3/543

Saturday, 31 May 2025

قربانی کس پر واجب ہے

 قربانی ہر اُس عاقل ، بالغ ، مقیم، مسلمان، مرد اور عورت پر واجب ہے جو  عید الاضحٰی کے ایام میں نصاب کا مالک ہے،  (یعنی ساڑھے سات تولہ سونا (87.4875گرام ) یا ساڑھے باون تولہ چاندی (612.4125گرام ) یا اس کی قیمت کے برابر رقم  اس کی ملکیت میں موجود ہو )، یا اس کی ملکیت میں ضرورت  و استعمال سے زائد اتنا سامان ہے، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے،  یا رہائش کے مکان سے زائد مکان یا جائیداد  وغیرہ ہو، یا استعمال سے زائد گھریلو سامان ہو ، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا مالِ تجارت، شیئرز وغیرہ ہوں، تو اس پر ایک حصہ قربانی کرنا لازم ہے ۔ (سامان خواہ کوئی بھی چیز ہو، تجارتی ہو یا تجارت کے علاوہ، اگر وہ استعمال میں نہ ہو تو اسے بھی نصاب میں شامل کیا جائے گا، لہٰذا اگر مذکورہ سب چیزیں ملاکر یا بعض ملاکر مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو اس کے مالک پر بھی قربانی واجب ہوگی ۔)

نیز قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم ، یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں، ذوالحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے مالک ہوجائے تو اس پر قربانی واجب ہے، چنانچہ اگر قربانی کے تین دنوں میں سے آخری دن (۱۲ذی الحجہ) کو بھی کسی صورت سے نصاب کے برابر مال یا ضرورت  واستعمال سے زائد سامان کا مالک ہوجائے تب بھی اس پر قربانی واجب ہے ۔  ہاں عید الاضحٰی کے دنوں تک  جو قرض یا اخراجات واجب الادا ہیں، اتنی مقدار منہا کرکے نصاب کا حساب کیا جائے گا۔
بنا بریں جس کے پاس رہائشی مکان کے علاوہ زائد مکانات موجود ہیں ، ضروری مکان کے لیے پلاٹ کے علاوہ دیگر پلاٹ ہیں ، ضروری سواری کے علاوہ دوسری گاڑیاں ہیں، خواہ یہ سب تجارت کے لیے ہو یا نہ ہو ، بہر حال ایسا شخص قربانی کے حق میں صاحبِ نصاب ہے ، اور اس پر قربانی کرنا شرعاً واجب ہے ۔ 
نیزواضح رہے کہ ایسا شخص گھر میں ایک ہو یا ایک سے زائد ، درج بالا شرائط کی موجودگی کی وجہ سے اگر ایک گھر میں متعدد صاحبِ نصاب لوگ پائے جاتے ہوں تو سب پر علیحدہ علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے ، اور ایسی صورت میں از روئے شرع ایک ہی قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی۔

’’الدر المختار‘‘ میں ہے : 

’’و شرائطها الإسلام والإقامة و الیسار الذي یتعلق به وجوب ( صدقة الفطر ) ... (لا الذکورۃ فتجب علی الأنثى)."

قال في الرد:

(قوله: و شرائطها) أي شرائط وجوبھا، ولم یذکر الحریة ... و لا العقل والبلوغ لما فیھما من الخلاف ... (قوله: والیسار) بأن ملك مائتي درهم أو عرضًا یساویها غیر مسکنه و ثیاب اللبس أو متاع یحتاجه إلى أن یذبح الأضحیة و لو له عقار یستغله فقیل: تلزم لو قیمته نصابًا ... فمتى فضل نصاب تلزمه و لو العقار وقفًا، فإن واجب له فی أیامھا نصاب تلزم و صاحب الثیاب الأربعة لو ساوی الرابع نصابًا غنی و ثلاثة فلا، والمرأۃ موسرۃ بالمعجل لو الزوج ملیًّا وبالمؤجل لا.‘‘

(رد المحتار ، ج:۶، ص:۳۱۲

مسجد میں قربانی کی کھال دینا

 قربانی کی کھالوں کی قیمت ان کے فروخت کرنے کے بعد ازروئے شریعت صدقہ کرنا واجب اور ضروری ہے،لہذا جب اس کی قیمت کو صدقہ کردینا واجب ہے،تو اس کی مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے مصارف ہیں اور چوں کہ زکوۃ، دیگر صدقات میں تملیک فقیرضروری ہے اس لئے ان کو مسجد وغیرہ میں صرف کرنا ہر گز جائز نہیں۔ کیوں کہ تعمیر مسجد میں تملیک  فقیرنہیں پائی جاتی۔

لما في التنوير مع الدر:
’’(والصدقة كالهبة) بجامع التبرع، ..... لأن المقصود فيها الثواب لا العوض‘‘. (كتاب الهبة، فصل في مسائل المتفرقة: 205/3، رشيدية)
وفیہ أیضاً:
’’لایصرف إلی بناء نحو مسجد إلخ‘‘.
(قولہ:نحو مسجد کبناء القناط والسقیات إلخ) وکل مالاتملک فیہ‘‘.(کتاب الاضحیۃ:62/2،بیروت).
وفي التاتار خانية:
وكذلك لا يشترى به اللحم، ولا بأس ببيعة بالدارهم ليتصدق بها، وليس له أن يبيعها بالدارهم لينفقه على نفسه، وفي الخانية: أو عياله، م: ولو فعل ذلك تصدق بثمنها“. (كتاب الاضحية، الفصل: الانتفاع بالاضحية:440/17، فاروقية)
( وكذا في الهندية:كتاب الاضحية، الباب السادس، في بيان ما يستحب في الاضحية والاتنفاع بها:347/5، دار الفكر)
وفي التنويرمع الدر:
’’(فإن بيع اللحم أو الجلد به) أي بمستهلك (أو بدارهم تصدق بثمنه)‘‘.(كتاب الاضحية:543/9، رشيدية)

سعودی عرب میں رھنے والے ھندوستانی کہاں کےباعتبار سے قربانی کریں گے

 اگر آدمی خود کسی اور ملک میں ہو اور قربانی کے لیے کسی کو  دوسرے ملک میں وکیل بنائے تو اس صورت میں قربانی کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قربانی دونوں ممالک کے مشترکہ ایام میں ہو، یعنی جس دن قربانی کی جائے وہ دن دونوں ممالک میں قربانی کا مشترکہ دن ہو، 

إن سبب وجوب الأضحیۃ الوقت وہو أیام النحر، والغني شرط الوجوب (فتح القدیر ۹؍۵۱۹ زکریا)

ویعتبر مکان المذبوح لا مکان المالک۔ (خانیۃ علی ہامش الہندیۃ ۳؍۳۴۵)

منھ دکھائی میں دی ہوئی چیزیں واپس نہیں ہوں گی

 

طلاق کے بعد منہ دکھائی اور دیے گئے تحائف واپس مانگنے کا حکم


سوال

شادی پر لڑکی کو لڑکے کی طرف سے جو منہ دکھائی دی جاتی ہے، اور جو دوسرے لوگوں کی طرف سے تحائف دیے جاتے ہیں، کیا وہ طلاق کے بعد واپس کرنے ہوتے ہیں؟ میری بیٹی کو طلاق ہوگئی ہے اور لڑکے کی والدہ ہم سے  مذکورہ چیزوں کا مطالبہ کررہی ہے، لہٰذا اس سلسلے میں ہماری شرعی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سائل کی بیٹی کو جو لڑکے کی طرف سے منہ دکھائی ملی تھی، اور جو دیگر رشتہ داروں نے لڑکی کو تحائف دیے تھے، وہ سب سائل کی بیٹی کی ملکیت ہے، اور اس کی سابقہ ساس کا طلاق کے بعد ان چیزوں کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے، تاہم زیورات کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ جو زیورات لڑکی کو اُس کے میکے سے  ملتے ہیں وہ اُس کی ملکیت ہوتے ہیں ، اور جو زیورات لڑکی کو اُس کے سسرال والوں کی طرف سے دیے جاتے ہیں اُن کا حکم یہ ہے کہ اگر دیتے وقت مالک بنانے کی صراحت کردی تھی تو لڑکی مالک ہوگی اور اگر صرف استعمال کی صراحت کرکے دیے تھے تو لڑکے والے مالک ہوں گے اور اگر کچھ صراحت نہیں کی تھی تو اس صورت میں لڑکے والوں کے عرف ورواج کا اعتبار ہوتا ہے، یعنی اگر سسرال والوں کا عرف لڑکی کو بطور عاریت کے زیورات دینے کا ہو تو وہ لڑکی کی ملکیت نہیں ہوتے اور دینے والوں کو واپس طلب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، اور اگر سسرال والوں کا رواج بطور ملکیت کے دینے کا ہو یا کوئی رواج نہ ہو، تو وہ زیورات لڑکی کی ملکیت ہوتے ہیں، اور ان کا واپس طلب کرنا درست نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

 "قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٣، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"(‌جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعد أن سلمها ذلك  في صحته) بل تختص به (وبه يفتى) وكذا لو اشتراه لها في صغرها ولوالجية."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٥، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣ /١٥٧، ط: سعید)