https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 1 October 2024

 

The muakkadah Sunnah is the Sunnah of  which the Messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him) always performed, and he never left it without any serious excuse, while the non-muakkadah Sunnah is the Sunnah of the which the Messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him) performed,And sometimes performed it and sometimes left it without any excuse.

The Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) himself  emphasized to performed twelve rak'ahs of Sunnah during the day and night. Those twelve rak'ahs are: 

Two rak'ats before Fajr, four rak'ats before Dhuhr and two rak'ats after Dhuhr, two rak'ats after Maghrib and two rak'ats after Isha.

  The difference between  Muakkadah and non-muakkadah is that performance of Sunnah muakkadah is obligatory and whoever skips this prayer without any excuse is a sinner, while performing the non-Muakkadah Sunnah gets a lot of reward but there is no sin in skipping it without any excuse.  Since the Sunnah is in the status of unconfirmed nafl prayer, only the rulings of nafl prayer are issued on it.

The method of performance of muakkadah And non-Muqedah Sunnah is the same, as  there is no significant difference between the two, it is wajib to recite Surah Fatiha in each rak'ah , and three short verses or one long verse along with it.  However, the only difference is that in the four rak'ahs of the non-mutual Sunnah, every two rak'ahs is a permanent prayer;  Therefore, it is better to recite Durood Sharif and Dua in the Qaada of the second rakat, then to stand up for the third rakat, and after standing for the third rakat, recite Sana and Tawz before Surah Al-Fatihah.  Tasmiyyah should also be recited, but this method is preferable, it is not necessary, so if someone recites the non-Muqedah Sunnah and recites only Tahiyat in the first Qadah like Sunnah Muqedah and does not recite Sanaa in the third rakat, his prayer will be valid.  While it is necessary to stand for the third rak'at immediately after reciting tashahhud in the first qa'dah of the four-rak'at sunnah muqedah, in case of reciting Durood Sharif by mistake or omission, sajdah sahu will be required due to the delay in standing.  Similarly, in Sunnah Muqidah, Sanaa is recited only in the first Rak'at.

Another difference is that since each intercession (two rak'ats) of Sunnah non-Muqedah is permanently separate and the Qada of each intercession is counted as the last Qa'dah, therefore, in the four-rak'at Sunnah non-Muqedah prayer, if in the first intercession,  If you don't sit in Qa'da (for reciting tashahhud), that intercession will be invalid, however, if you do not sit in the Qa'da of the first Qa'da, but do Sajdah in the last Qa'da, then the prayer will be valid.

نماز کن فیکون کا حکم



کن فیکون والی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ یا بزرگان دین میں سے کسی سے ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ لوگوں کی اپنی طرف سے بنائی ہوئی ہے، لہذا اس سے بچنا چاہیئے، اور حاجت روائی کے لیے سنت کے مطابق دو رکعت صلاۃ الحاجت پڑھ کر دعا مانگنی چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذي: (أبواب الوتر، رقم الحدیث: 344، 344/2، ط: شركة مكتبة و مطبعة مصطفى البابي)
عن عبد الله بن أبي أوفى، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كانت له إلى الله حاجة، أو إلى أحد من بني آدم فليتوضأ وليحسن الوضوء، ثم ليصل ركعتين، ثم ليثن على الله، وليصل على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم ليقل: لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين، أسألك موجبات رحمتك، وعزائم مغفرتك، والغنيمة من كل بر، والسلامة من كل إثم، لا تدع لي ذنبا إلا غفرته، ولا هما إلا فرجته، ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين "

انگلیوں کے عربی نام

 انگلی کو عربی میں    "إِصْبَع"اور"أُصْبُع"کہتے ہیں،  جس کی جمع  "أصابعُ"آتی ہے یعنی انگلیاں۔ نیز یہ لفظ عربی میں نو طرح پڑھا جاتاہے، یعنی:

إِصْبَعُ و أُصْبَعُ و أَصْبَعُ و إِصْبِعُ و أُصْبِعُ و أَصْبِعُ و إِصْبُعُ و أُصْبُعُ و أَصْبُعُ

پانچوں انگلیوں کے نام ترتیب وار درج ذیل ہیں:

الإبْهامُ: انگوٹھا۔

السَّبَّابَةُ: انگوٹھے کے برابر والی انگلی، جسے شہادت کی انگلی یا اشارہ کرنے والی انگلی بھی کہتے ہیں۔

الوُسْطى: شہادت کی انگلی کے برابر والی انگلی، جو بالکل درمیان میں ہوتی ہے اور اس کے دائیں بائیں دو دو انگلیاں ہوتی ہیں۔

البِنْصِرُ: درمیانی اور سب سے آخری انگلی کے بیچ والی انگلی۔

الخِنْصِرُ: سب سے آخری چھوٹی والی انگلی، جسے چھنگلی بھی کہتے ہیں۔

التَّلخِيص في مَعرفَةِ أسمَاءِ الأشياء (ص:61، ط:دار طلاس للدراسات والترجمة والنشر، دمشق):

’’و الأصابع، الواحدة إصبع، و هي الإبهام ثم السبابة ثم الوسطى ثم البنصر ثم الخنصر.‘‘

مجمع البحرين لليازجي (ص:412، ط:المطبعة الأدبية، بيروت):

قل: أول الأصابع الإبهام ... و بعدها سبابة تقام

و بعدها الوسطى، يليها البنصر ... و بعدها الصغرى أخيراً خنصر

تیمم کا طریقہ

 اگر پانی موجود نہ ہو یا کسی شرعی عذر کی بنا پر پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو  تو شریعتِ مطہرہ نے پاکی کے لیے تیمم کا طریقہ تجویز فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

﴿فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ﴾(  المائدہ : 6)

ترجمہ: تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ اس زمین (کی جنس)  پر  سے (مار کر) پھیر لیا کرو"۔

تیمم کا طریقہ:

اولاً نیت کر لیں،  پھر پاک مٹی پر دونوں ہاتھ مار کر جھاڑ لیں، پھر پورے  چہرے پر ایک مرتبہ اس طرح پھیریں کہ کوئی جگہ  باقی نہ رہے، پھر دوسری مرتبہ اسی طرح زمین پر  ہاتھ ماریں اور  دونوں ہاتھوں پر کہنیوں سمیت اس طرح  ہاتھ پھیریں کہ کوئی جگہ باقی نہ رہے اور  انگلیوں کے درمیان بھی  خلال  کریں۔

تیمم کے فرائض:

۱۔ایک مرتبہ پاک مٹی پر ہاتھ مار کر سارے چہرہ پر ہاتھ پھیرنا۔
۲۔ دوسری مرتبہ پھر ہاتھ مار کر دونوں ہاتھوں پر کہنیوں تک ہاتھ پھیرنا۔

تیمم کی شرائط:

نیت کرنا۔

ہاتھوں کا پھیرنا۔

تین یا زائد انگلیوں کا ستعمال۔

مٹی یا زمین کی جنس سے تعلق رکھنے والی کسی چیز سے تیمم کرنا۔

جس چیز (مٹی وغیرہ) سے تیمم کیا جارہا ہو اس کا پاک ہونا۔

پانی کا نہ ہونا۔


تیمم کی سنتیں:

شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔
ہاتھوں کوہتھیلیوں کی طرف سے  مٹی (یا اس کی جنس پر) مارنا۔
دونوں ہاتھ مٹی پر رکھنے کے بعد آگے کھینچنا۔
پھر دونوں ہاتھوں کو مٹی پر رکھتے ہوئے پیچھے کو کھینچنا۔
پھر دونوں ہاتھوں کو جھاڑنا۔
ہاتھ مارتے وقت انگلیوں کو کشادہ کرنا۔

ترتیب کا خیال رکھنا۔
پے درپے کرنا۔

تیمم  کے نواقض:

تیمم کو ہر وہ چیز توڑ دیتی ہے جو وضو کو توڑ دیتی ہے، اس کے علاوہ پانی کے استعمال پر قادر ہونا بھی تیمم کے  لیے ناقض ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 231):

"و سننه ثمانية: الضرب بباطن كفيه، و إقبالهما، و إدبارهما، و نفضهما؛ و تفريج أصابعه، و تسمية، و ترتيب و ولاء".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 230):

"و شرطه ستة: النية، و المسح، و كونه بثلاث أصابع فأكثر، و الصعيد، و كونه مطهرًا، و فقد الماء."

الفتاوى الهندية (1/ 26):

Friday 27 September 2024

عصرکی نماز شافعی مسلک کے مطابق اول وقت پرپڑھنا

 اگر کسی جگہ   کوئی ایسی مسجد موجود ہو جہاں حنفی مذہب کے مطابق وقت داخل ہونے کے بعد  عصر کی نماز ہوتی ہو تو وہیں جاکر نماز پڑھنا ضروری ہوگا، اسی طرح اگر وہاں حنفی متبعین اپنی جماعت خود کراسکتے ہیں تب بھی مثلِ ثانی کے بعد ہی عصر کی نماز پڑھنا لازم ہوگا، اور  اگر ایسی صورت نہیں، بلکہ اس ملک میں  مثلِ اول کے بعد عصر کی  نماز پڑھنے کا تعامل ہو اور  دو مثل  کے بعد نماز پڑھنے کی صورت میں مستقل طور پر جماعت کا ترک لازم آتا ہو، یعنی قریب میں کوئی اور مسجد نہ ہو جہاں عصر کی نماز مثلین کے بعد پڑھی جاتی ہو اور نہ ہی اپنی مرضی سے خود جماعت کراسکتا ہو تو  اکیلےنمازپڑھنےکےبجائےمثلِ ثانی میں عصر کی نماز کی گنجائش ہوگی،بالخصوص حرمین شریفین میں توجماعت کےساتھ ہی نمازپڑھناچاہئے۔

کتاب الاصل للامام محمد:

"قلت: أرأيت رجلا مريضا صلى صلاة قبل وقتها متعمدا لذلك مخافة أن يشغله المرض عنها، أو ظن أنه في الوقت ثم علم بعد ذلك أنه صلى قبل الوقت؟ قال: لا يجزيه في الوجهين جميعا، وعليه أن يعيد الصلاة."

(كتاب الصلاة باب صلاة المريض في الفريضة،ج:1،ص:189،ط:دارابن حزم بيروت)

المبسوط للسرخسی:

"وأداء ‌الصلاة ‌قبل ‌وقتها لا يجوز."

(كتاب الصلاة باب مواقيت الصلاة،ج:1،ص:154،ط:دارالمعرفة)

Tuesday 24 September 2024

تقسیم وراثت عبد الحمید پانچ لڑکوں میں

  مرحوم  کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے   حقوقِ  متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو  تو کل ترکہ سے  قرضہ ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرکے  باقی کل  منقولہ و غیر منقولہ ترکہ  کومرحوم عبد الحمید کے پانچ لڑکوں میں تقسیم کیا جایے گا ۔اور ایک ایک حصہ سبھی پانچوں بھایوں میں تقسیم کردیاجائے گا ۔اس کے عبد النعیم کے چونکے دولڑکے اور دو لڑکیاں ہیں لہذا وہ اپنے حصے کو چھ جگہ تقسیم کرکے دودو حصے لڑکوں کو اور ایک ایک حصہ لڑکیوں کو للذکر مثل حظ الانثیین تقسیم کریں۔عبد الجمیل کے چونکہ ایک لڑکی ہے لھذا نصف کی وہ حقدار ہے اوربقیہ نصف بھی اسی کو مل جایے گا کیونکہ اور کوئی حصّہ دار نہیں ہے ۔عبدالجلیل کے حصہ میں سے آٹھواں حصہ بیوی کو دینے کے بعد سات حصے کیے جاییں گے کیونکہ ان کی ایک بیوی اور چھ لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے لھذا ایک ایک حصہ لڑکیوں کو اور دو حصے لڑکے کو باقاعدہ للذکر مثل حظ الانثیین دیاجائے ۔عبد الرؤوف کامعاملہ عبد الجمیل کی طرح ہے اور عبدالمعر وف کے تین لڑکے اورایک لڑکی ہے لھذا وہ اپنا حصہ سات جگہ تقسیم کرکے دودو حصے لڑکوں کو اور ایک حصہ لڑکی کو باقاعدہ للذکر مثل حظ الانثیین دیاجائے ۔

فقط

Saturday 21 September 2024

بیری کے درخت کا حکم

 بیر کا درخت کسی کی ملکیت ہو تو بوقتِ ضرورت اسے کاٹ سکتے ہیں، ایک حدیث شریف میں بیری کے درخت کے کاٹنے پر جو وعید آئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن حبیش کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص بیری کا درخت کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے الٹے سر دوزخ میں ڈالے گا ۔

 اس حدیث سے متعلق بذل المجہود میں یہ وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص حدود حرم میں بیری کا درخت کاٹے گا اس کے لیے یہ وعید ہے، بعضوں نے کہا ہے کہ یہاں مدینہ کی بیری کا درخت مراد ہے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جنگل میں وہ بیری کا درخت مراد ہے جس کے سائے میں مسافر اور جانور راحت پاتے ہیں، اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس وعید کا تعلق اس شخص سے ہے جو کسی دوسرے شخص کا بیری کا درخت ازراہِ ظلم وزیادتی کاٹ ڈالے۔لہذا اپنی ملکیت میں جو بیری کا درخت ہو اسے اپنی ضرورت کے لیے کاٹنا جائز ہے۔

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (13/ 627):
(قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع سدرةً صوب الله رأسه في النار") (1) وفي نسخة: سئل أبو داود عن معنى هذا الحديث، قال: معناه: من قطع سدرة في فلاة يستظل بها ابن السبيل والبهائم عبثًا وظلمًا بغير حق يكون فيها، صوّب الله رأسه في النار، أي: نكّسه.
وقال البيهقي في "سننه": قال أبو ثور: سألت أبا عبد الله الشافعي عن قطع السدرة، قال: لا بأس به، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم  أنه قال: اغسلوه بماء وسدر، وقيل: أراد به سدرة مكة لأنها حرم، وقيل: سدرة المدينة،نهى عن قطعها فيكون أنسًا وظلالًا لمن يهاجر إليها، قال: وقرأت في كتاب أبي سليمان الخطابي أن المزني سئل عن هذا فقال: وجهه أن يكون صلى الله عليه وسلم سئل عمن هجم على قطع سدر لقوم أو ليتيم أو لمن حرم الله أن يقطع عليه [فتحامل عليه] بقطعه فاستحق ما قاله، فتكون المسألة سبقت السامع، فسمع الجواب ولم يسمع السؤال، ونظيره.
فقط 

مردہ پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ

 اگر بچہ مردہ پیدا ہو  یعنی پیدائش کے وقت زندگی کی کوئی علامت اس میں موجود نہ ہو، لیکن سارے اعضاء بن چکے ہوں تو ایسے بچے کا حکم یہ ہے کہ اس بچے کو غسل بھی دیا جائے گا اور نام بھی رکھا جائے گا، لیکن باقاعدہ مسنون کفن نہیں دیا جائے گا اور جنازہ کی نماز بھی نہیں پڑھی جائے گی، بلکہ یوں ہی کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 228):

"(وإلا) يستهل (غسل وسمي) عند الثاني، وهو الأصح، فيفتى به على خلاف ظاهر الرواية إكراماً لبني آدم، كما في ملتقى البحار. وفي النهر عن الظهيرية: وإذا استبان بعض خلقه غسل وحشر هو المختار (وأدرج في خرقة ودفن ولم يصل عليه).

 (قوله: وإلا يستهل غسل وسمي) شمل ما تم خلقه، ولا خلاف في غسله وما لم يتم، وفيه خلاف. والمختار أنه يغسل ويلف في خرقة، ولا يصلى عليه كما في المعراج والفتح والخانية والبزازية والظهيرية شرنبلالية. وذكر في شرح المجمع لمصنفه أن الخلاف في الأول، وأن الثاني لا يغسل إجماعاً. اهـ.

واغتر في البحر بنقل الإجماع على أنه لايغسل فحكم على ما في الفتح والخلاصة من أن المختار تغسيله بأنه سبق نظرهما إلى الذي تم خلقه أو سهو من الكاتب. واعترضه في النهر بأن ما في الفتح والخلاصة عزاه في المعراج إلى المبسوط والمحيط اهـ وعلمت نقله أيضاً عن الكتب المذكورة. وذكر في الأحكام أنه جزم به في عمدة المفتي والفيض والمجموع والمبتغى اهـ فحيث كان هو المذكور في عامة الكتب فالمناسب الحكم بالسهو على ما في شرح المجمع لكن قال في الشرنبلالية: يمكن التوفيق بأن من نفى غسله أراد غسل المراعى فيه وجه السنة، ومن أثبته أراد الغسل في الجملة كصب الماء عليه من غير وضوء وترتيب لفعله كغسله ابتداء بسدر وحرض. اهـ. قلت: ويؤيده قولهم: ويلف في خرقة حيث لم يراعوا في تكفينه السنة فكذا غسله (قوله: عند الثاني) المناسب ذكره بعد قوله الآتي وإذا استبان بعض خلقه غسل لأنك علمت أن الخلاف فيه خلافاً لما في شرح المجمع والبحر (قوله: إكراماً لبني آدم) علة للمتن كما يعلم من البحر، ويصح جعله علة لقوله فيفتى به (قوله: وحشر) المناسب تأخيره عن قوله هو المختار لأن الذي في الظهيرية والمختار أنه يغسل. وهل يحشر؟ عن أبي جعفر الكبير أنه إن نفخ فيه الروح حشر، وإلا لا. والذي يقتضيه مذهب أصحابنا أنه إن استبان بعض خلقه فإنه يحشر، وهو قول الشعبي وابن سيرين. اهـ. ووجهه أن تسميته تقتضي حشره؛ إذ لا فائدة لها إلا في ندائه في المحشر باسمه. وذكر العلقمي في حديث: «سموا أسقاطكم فإنهم فرطكم» الحديث.

Thursday 19 September 2024

دوطلاق کے بعد رجوع

 اگر بیوی کو طلاق کے صریح الفاظ کے ساتھ ایک  یا دو طلاق دی تو ایسی طلاق کو ''طلاقِ رجعی'' کہتے ہیں، طلاقِ رجعی کے بعد  شوہر کے لیے اپنی بیوی کی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) میں رجوع  کرنے کا حق ہوتا ہے، اگر عدت میں قولاًوفعلاً  رجوع کرلیا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا کہ میں نے رجوع کرلیا ہے  یا ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو اس سے رجوع درست ہوجائے گا  اور نکاح برقرار  رہے گا، اور اگر شوہر نے عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی طلاقِ بائنہ سے نکاح  ٹوٹ جائے گا، میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا، بعد ازاں  اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی  گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا، اور دونوں صورتوں میں(عدت میں رجوع کرے یا عدت کے بعد نکاحِ جدید کرے) شوہر نے اگر اس  سے پہلے کوئی اور طلاق نہ دی ہو تو ایک طلاقِ رجعی دینے کی صورت میں اس کو مزید دو طلاقوں کا اختیار ہوگا، اور اگر دوطلاقیں صریح دیں تو آئندہ ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا۔

اور طلاقِ بائن کے ذریعے  ایک یا دو طلاق دی ہو  تو پھر عدت میں رجوع کا حق نہیں ہوگا، البتہ  باہمی رضامندی سے تجدیدِ نکاح کرکے دوبارہ ساتھ رہا جاسکتا ہے۔

صورت مسئولہ میں شوھرنے پہلی طلاق رجعی کے بعد عدت کے دوران رجوع کرلیا پھر کچھ عرصے کے بعد ایک طلاق  رجعی دیدی اور دوران عدت رجوع کرلیاتو نکاح برقرار رہاالبتہ اب شوھر صرف ایک طلاق کے مالک رہے اگر آیندہ ایک طلاق دیدی تو تین طلاق مکمل ہوجائیں گی اور کوئی گنجائش رجوع  یا تجدید نکاح کی باقی نہیں رہے گی ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

 (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".


Wednesday 11 September 2024

عقیقہ کونسے دن کریں

 پیدائش کے ساتویں روز عقیقہ کرنا مسنون ہے، اگر کسی وجہ سے ساتویں روز نہ کر سکیں، تو چودہویں روز کر لیا جائے، اگر چودہویں روز بھی نہ کرسکیں تو اکیسویں روز کر لیا جائے، اگر اکیسویں روز بھی عقیہ نہ کر سکے تو اس کے بعد عقیقہ کرنا مباح ہے، اگر کرلے تو ادا ہوجاتا ہے، تاہم جب بھی عقیقہ کرے بہتر یہ ہے کہ پیدائش کے دن کے حساب سے ساتویں دن کرے،یعنی اگر بالفرض جمعہ کو پیدائش ہوئی ہو تو آئندہ جمعرات کے دن عقیقہ کرے۔

لڑکے کی طرف سے دو چھوٹے جانور (دو بکرے یا بکری )اور لڑکی کی طرف سے ایک چھوٹا جانور( ایک بکرا یا  بکری ) کرنا مستحب ہے، تاہم اگر لڑکے کے عقیقہ میں دو چھوٹے جانور (دو بکرے یا بکری )کی وسعت نہ ہو تو ایک چھوٹا جانور ( ایک بکرا یا  بکری ) کرنے سے بھی عقیقہ ہوجائے گا۔

اسی طرح سے بڑے جانور کو ذبح کرنے سے بھی عقیقہ ہوجائے گا، اور اگر کئی بچوں کا عقیقہ ایک ساتھ کرنے کا ارادہ ہو تو بڑے جانور میں سات تک حصہ کیے جا سکتے ہیں، اور ہر حصہ ایک چھوٹے جانور کی طرف سے کافی ہوگا، یعنی بچی کے لیے ایک حصہ اور بچے کی طرف سے دو حصے کرنے سے مسنون عقیقہ ادا ہوجائے گا۔

عقیقہ کے جانور کی وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کی ہیں۔

عقیقہ کے جانور کا سارا کا سارا گوشت گھر والے کھا سکتے ہیں، اور اگر چاہیں تو سارا گوشت صدقہ بھی کر سکتے ہیں، یا رشتہ داروں میں تقسیم بھی کر سکتے ہیں، اسی طرح گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ اپنے لیے، ایک حصہ رشتہ داروں کے لیے اور ایک حصہ غرباء میں تقسیم کرنا زیادہ بہتر ہے۔

عقیقہ کے جانور کے ذبح کے بعد نومولود کے سر کے بال صاف کردیے جائیں، اور بالوں کے وزن کے بقدر چاندی یا سونا تول کر اس کی قیمت صدقہ کردی جائے، اور بالوں کو کوڑا کرکٹ میں نہ پھینکا جائے، بلکہ کسی جگہ دفن کر دینا مستحب ہے،اور دل چاہے تو زعفران سر پر لگائیں۔

اعلاء السنن میں ہے:

’’أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘.

(17/117، باب العقیقة، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة

Sunday 8 September 2024

خریدوفروخت کے بنیادی اسلامی اصول

 خرید وفروخت کے متعلق بنیادی ہدایات

خرید وفروخت کا جومعاملہ بھی ہو، اس میں تین چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں :
1. معاملہ کرنے والے فریقین
2. وہ چیز جس کا سودا کیا جا رہا ہو
3. چیز کی قیمت

شریعت ِمطہرہ نے ہر ایک کے لیے الگ الگ ہدایات دی ہیں :
فریقین کے لیے ہدایات
معاملہ باہمی رضامندی سے طے پانا چاہیے
بیع کی شرطِ اوّل یہ ہے کہ فریقین کا نہ صرف ذہنی توازن درست ہو اور وہ معاملات کی سوجھ بوجھ رکھتے ہوں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سودے پریکساں طور پر رضامندہوں ۔ چنانچہ لین دین کے وہ تمام معاملات جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہ پائی جاتی ہو ناجائز ہیں ۔اِرشاد باری تعالیٰ ہے :
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوالَا تَأْكُلُوٓا أَمْوَ‌ٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَـٰطِلِ إِلَّآ أَن تَكُونَ تِجَـٰرَ‌ةً عَن تَرَ‌اضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوٓاأَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَ‌حِيمًا ...﴿٢٩﴾...سورة النساء
''اے ایمان والو !ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھاؤمگر یہ کہ تجارت ہو تمہاری باہمی رضامندی سے۔اور اپنے نفسوں کو قتل نہ کروبلا شبہ اللہ تمہارے ساتھ رحم کرنے والا ہے۔''

سورہ نساء کی یہ آیت تجارتی اور معاشی تعلقات کے متعلق بنیادی اُصول پیش کر رہی ہے کہ وہ کاروباری اور تجارتی معاملات جن پر دونوں فریق یکساں مطمئن اور راضی نہ ہوں ، باطل ہیں ۔ یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ لین دین میں فریقین کی باہمی رضامندی لازم ہے ۔ شریعت ِاسلامیہ اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی کسی کو اپنی چیز بیچنے پر مجبور کرے یا زبر دستی اپنی پسند کی قیمت پر حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔اسلام نے ایک دوسرے کی جان ، مال اور عزت کویکساں محترم قرار دیا ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لاٹھی جیسی معمولی چیز کی زبر دستی خرید وفروخت کو بھی قابل حرمت قرار دیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد ہے :
''کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کی لاٹھی( بھی) اس کی قلبی خوشی کے بغیر لے۔''6

بطورِ خاص خرید و فروخت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح فرمان ہے :
(إنما البیع عن تراض)7
''بیع صرف باہمی رضامندی سے ہوتی ہے۔''

واضح رہے کہ یہ رضا مندی حقیقی ہونی چاہیے نہ کہ مصنوعی۔لہٰذاکسی دباؤکے تحت یا غلط تاثرکی بنیادپریادوسرے فریق کوچیز کی حقیقت سے بے خبریا اصل قیمت سے دھوکے میں رکھ کر حاصل کی گئی رضامندی قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ یہ مصنوعی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے شریعت نے اس قسم کی دھوکہ دہی کی صورت میں متاثرہ فریق کو معاملہ منسوخ کرنے کا اختیار دیا ہے۔

اسی طرح ایک شخص اگر انتہائی بے بسی اور مجبوری کی بنا پر اپنی چیز بیچ رہا ہوتو ایسے شخص سے مارکیٹ ریٹ سے بہت کم پر خریدنا، اگرچہ بظاہر وہ اس پر راضی بھی ہوناجائز ہے، درست نہیں ۔ معمولی کمی بیشی کی تو گنجائش ہے لیکن بہت زیادہ فرق درست نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قلبی خوشی کی تاکید فرمائی ہے اور یہ بات طے ہے کہ مجبور شخص خوش دلی سے غیر معمولی کم ریٹ پربیچنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں مجبور شخص سے سستے داموں خریدنے کو ترجیح دی جاتی ہے، یہ ناپسندیدہ رویہ ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔

البتہ بعض صورتوں میں حکومت یا کوئی مجاز اتھارٹی مالک کو اس بات پر مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اپنی چیز فروخت کرے :


 پہلی صورت یہ ہے کہ مقروض اپنے ذمے قرض ادا نہ کر رہا ہو اور اس کے پاس نقد رقم بھی موجود نہ ہو تو عدالت اس کو اپنی جائیداد فروخت کر کے قرض ادا کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ اگر وہ عدالتی حکم کے باوجود لیت و لعل سے کام لے تو عدالت قرض خواہ کی داد رسی کے لیے خود بھی اس کی جائیداد مارکیٹ ریٹ پرفروخت کر سکتی ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شخص نے جائیداد رہن رکھ کر قرض لے رکھا ہو اور وہ متعدد مرتبہ کی یاد دہانی کے باوجود ادائیگی نہ کر رہا ہو تو قرض خواہ رہن شدہ جائیداد فروخت کر کے اپنا حق وصول پا سکتا ہے، چاہے مقروض اس پر راضی نہ بھی ہوبشرطیکہ عدالت اورقرض خواہ منصفانہ قیمت پربیچنے کو یقینی بنائیں ،اپنی رقم کھری کرنے کے لالچ میں کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے کی اجازت نہیں ہے۔

تیسری صورت جب مالک کو اپنی اشیا فروخت کرنے پر مجبور کیا سکتا ہے، یہ ہے کہ جب غذائی اشیا کی قلت ہو اور کچھ لوگ ذخیرہ اندوزی کر رہے ہوں تو حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تاجروں کو ذخیرہ کی گئی اشیا فروخت کرنے کا حکم دے، اگر وہ تعمیل نہ کریں توحکومت ان کی مرضی کے خلاف خود بھی مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر سکتی ہے، جیسا کہ الموسوعة الفقهية میں ہے :
إذا خیف الضّرر علی العامّة أجبر بل أخذ منه ما احتکرہ وباعه وأعطاہ المثل عند وجودہ أو قیمته وهذا قدر متّفق علیه بین الأئمة ولا یعلم خلاف في ذلك8
''جب عوام کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو توحاکم ذخیرہ اندوز کو مجبورکرے گا بلکہ اس سے ذخیرہ شدہ مال لے کر فروخت کر دے گااور اس کو اس مال کا مثل جب موجود ہو یا اس کی قیمت دے گا۔اتنی بات تمام ائمہ میں متفق علیہ ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔''


 کسی کی چیز زبر دستی لینے کی چوتھی صورت یہ ہے کہ حکومت کو عوامی مقاصد کے لیے کسی جگہ کی حقیقی ضرورت ہو اور مالکان بیچنے پر آمادہ نہ ہوں تو حکومت وہ جگہ زبردستی بھی حاصل کر سکتی ہے، تاہم حکومت پر فرض ہو گا کہ مالکان کو مارکیٹ ریٹ کے حساب سے ادائیگی کرے۔حکومت بازاری قیمت ادا کئے بغیر کسی شہری کو جائیدا د سے محروم نہیں کر سکتی۔

خریدنے سے پہلے بیچنا ممنوع ہے !
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تلقین بھی فرمائی ہے کہ بیچنے والا فقط اسی چیز کا سودا کرے جس کا وہ کلی طورپر مالک بن چکا ہو۔بعض دفعہ کاروباری حضرات کے پاس چیز موجود نہیں ہوتی مگر و ہ اس اُمید پر سودا طے کر لیتے ہیں کہ بعد میں کہیں سے خرید کر فراہم کر دینگے، ایساکرنا منع ہے،کیونکہ ممکن ہے مالک وہ چیز بیچنے پر آمادہ ہی نہ ہو یا وہ اس کی قیمت فروخت سے دگنی قیمت طلب کر لے اور یہ نقصان سے بچنے کے لیے خود ہی خریدنے پر تیار نہ ہو۔ اس طرح فریقین کے ما بین تنازعات جنم لینے کا اندیشہ ہے ، لہٰذاشریعت ِاسلامیہ نے ان کے سد باب کے لیے یہ اُصول بنا دیا ہے کہ وہ متعین چیزجوفی الحال فروخت کنندہ کی ملکیت میں نہ ہو، اس کا سودا نہ کیا جائے، جیساکہ جناب حکیم بن حزامؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :
''میرے پاس ایک آدمی آتا ہے اور وہ مجھ سے ایسی چیز کا سودا کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی۔ کیا میں اس سے سودا کر لوں پھر وہ چیز بازار سے خرید کر اسے دے دوں ۔''

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابافرمایا :
(لَا تَبِعْ ما لَیْسَ عِنْدَکَ)9
''جو (متعین )چیز تیرے پاس موجود نہیں ، وہ فروخت نہ کر۔''

حضرت حکیم بن حزام ؓکا سوال متعین چیز کی فروخت کے متعلق ہی تھا۔متعین کا معنی ہے کسی مخصو ص پلاٹ یا گاڑی وغیرہ کا سودا کرنامثلاً یوں کہنا کہ میں فلاں سکیم کا فلاں نمبر پلاٹ آپ کو اتنے میں بیچتا ہوں جبکہ وہ اس وقت اس کی ملکیت نہ ہو، ایسا کرنا ناجائز ہے جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے واضح ہے ۔ لیکن اگر تعین کی بجائے صرف مخصوص صفات بیان کی جائیں ، مثلاً یوں کہا جائے کہ میں تمہیں اتنی مدت بعدان صفات کی حامل فلاں چیز مہیا کرنے کی ذمہ داری لیتا ہوں تویہ صورت جائز ہے بشرط کہ مکمل قیمت پیشگی ادا کر دی جائے، اس کو بیع سَلَم کہتے ہیں ۔مکمل قیمت کی پیشگی ادائیگی لازمی شرط ہے، اس کے بغیر یہ جائز نہیں ہو سکتی ۔

ملکیت سے قبل فروخت کی بعض صورتیں
بعض ہاؤسنگ اسکیمیں اپنی ملکیّتی زمین سے زیادہ تعداد میں پلاٹس کی فائلیں فروخت کر دیتی ہیں مثلاً ابھی تک اسکیم کے پاس زمین صرف ایک ہزار پلاٹس موجود ہیں لیکن فائلیں دو ہزار پلاٹس کی بیچ دی جاتی ہیں اور ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ بقیہ زمین بعد میں خرید لی جائے گیــ۔ اس طرح اسکیم مالکان کو کچھ مدت کے لیے لوگوں کی دولت سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے اور یہی جلب ِمنفعت ان کا مطمح نظر ہوتا ہے۔یہ طریقہ سراسر خلافِ شریعت ہے کیونکہ اسکیم نے ایک ہزار پلاٹس کی جو زائدفائلیں فروخت کی ہیں ، اُن کی زمین ابھی اس کی ملکیت میں نہیں آئی،لہٰذا اسکیم مالکان کو ان کی فروخت کا حق بھی نہیں پہنچتا ۔


(مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلاَ یَبِعْهُ حَتَّی یَسْتَوْفِیَهُ )10
''جو غلہ خریدے، وہ قبضہ سے قبل فروخت نہ کرے۔''

جناب عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں :
کُنَّا فِي زَمَانِ رَسُولِ اﷲِ ﷺ نَبْتَاعُ الطَّعَامَ فَیَبْعَثُ عَلَیْنَا مَنْ یَأْمُرُنَا بِانْتِقَالِهِ مِنَ الْمَکَانِ الَّذِي ابْتَعْنَاہُ فِیهِ إِلَی مَکَانٍ سِوَاہُ قَبْلَ أَنْ نَبِیعَهُ 11
''ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں غلہ خریدتے تو آپ ہمارے پاس ایک شخص کو بھیجتے جو ہمیں حکم دیتا کہ ہم بیچنے سے قبل جہاں سے خریدا ہے، وہاں سے اُٹھا کر دوسری جگہ لے جائیں ۔''

سیدنا زید بن ثابت ؓسے روایت ہے :
نَهی أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَیْثُ تُبْتَاعُ حَتَّی یَحُوزَها التُّجَّارُ إِلَی رِحَالِهمْ 12
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس سے منع فرمایا کہ سامان کو وہاں بیچا جائے جہاں سے خریدا گیا تھاحتیٰ کہ تاجر اسے اپنے مقامات پر منتقل کر لیں ۔''

جو تاجر اس حکم کی تعمیل نہ کریں ان کے خلاف تادیبی کار روائی بھی کی جاسکتی ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں :
رَأَیْتُ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ الطَّعَامَ مُجَازَفَةً یُضْرَبُونَ عَلَی عَهدِ رَسُولِ اﷲِ أَنْ یَبِیعُوہُ حَتَّی یُئْوُوْہُ إِلَی رِحَالِهم 13
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تخمینے سے اناج خریدنے والوں کی پٹائی ہوتی دیکھی یہاں تک کہ وہ اس کواُٹھاکر اپنے ٹھکانوں میں منتقل کر دیں پھر فروخت کریں ۔''

       امام غزالیؒ نے مسلم تاجر کے لیے سات اصول اور نصائح بیان فرمائے ہیں ، ہم اختصار کے ساتھ ان کو نقل کرتے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں : إنّما تَتِمُّ شفقۃُ التاجرِ علی دینِہ بِمُرَاعَاۃِ سَبْعَۃِ أُمُوْرٍ۔ یعنی تاجر کا اپنی ذات اور نفس پر مہربان ہونا سات چیزوں کی رعایت کرنے سے تام اور مکمل ہوگا۔

            (۱)  تجارت کی ابتدا میں حسنِ نیت اور حسنِ عقیدہ ہو۔ پس تاجر تجارت شروع کرنے کے وقت سوال سے بچنے، لوگوں سے حرص وطمع سے  رکنے،رزق حلال کے ذریعہ لوگوں سے استغنائ، کمائے گئے مال کے ذریعہ دین پر استعانت اور اپنے اہل وعیال کی کفایت وکفالت کے قیام کی نیت کرے۔

            (۲)  تاجر اپنی صنعت اور تجارت میں فروضِ کفایہ میں سے ایک فرض کفایہ کے ادا کرنے کی نیت کرے؛ اس لیے کہ صنعتیں اور تجارتیں اگر بالکلیہ چھوڑ دی جائیں تو معیشتیں باطل ا ور تباہ ہوجائیں گی اور اکثر لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ یعنی تجارت کرنا فرض کفایہ ہے؛ لہٰذا قوم میں ایک طبقہ ایسا ہونا ضروری ہے، جو تجارت میں لگا رہے ، اس لیے کہ اگر سارے ہی لوگ صنعت وتجارت چھوڑدیں گے تو اکثر لوگ ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جائیں گے، اس لیے اپنی تجارت کی شروعات میں یہ نیت کرے کہ میں ایک فرض کفایہ کو ادا کررہا ہوں ۔ اس طرح وہ اجر وثواب کا بھی مستحق ہوجائے گا۔

            (۳)  تاجر کو دنیا کا بازار آخرت کے بازار سے نہ روک دے، اور آخرت کے بازار مساجد ہیں ؛ اس لیے مناسب ہے کہ دن کے اول حصہ کو بازار میں داخل ہونے کے وقت تک اپنی آخرت کے لیے صرف کرے، اس وقت کومسجد میں گزارے اور اوراد ووظائف کو لازم پکڑے۔

            (۴)  اوراسی پر اکتفاء نہ کرے ،بلکہ بازار میں بھی اللہ سبحانہ وتعالی کے ذکر کو لازم پکڑے اور تسبیح وتہلیل میں مشغول رہے۔ اس لیے کہ بازار میں غافلوں کے درمیان اللہ کا ذکر کرنا افضل ہے۔

            (۵)  تاجر بازار اور تجارت پر بہت زیادہ حریص نہ ہو،اس کی علامت یہ ہے کہ سب سے پہلے بازار جائے اور سب سے اخیر میں وہاں سے لوٹے۔ یہ کاروبار میں بہت زیادہ حریص ہونے کی دلیل ہے۔

            (۶)  تاجر کے لیے حرام چیزوں کی تجارت سے بچنا لازم اور ضروری؛ لیکن صرف حرام سے اجتناب پر اکتفاء نہ کرے؛ بلکہ مواقعِ شبہات اور شک و تہمت کے مقام سے بھی احتراز کرے اوربچے۔

            (۷)  تاجر کو چاہیے کہ وہ جن لوگوں سے معاملات کر رہا ہے، ان کے بارے میں ہر وقت یہ خیال رکھے اور فکر مند رہے کہ ان میں سے ہر صاحبِ معاملہ اس سے حساب لے گا کہ خرید وفروخت میں اس نے کسی کا حق مار تو نہیں لیا، لہٰذا تاجر کو اپنے ہر قول اور عمل کے بارے میں حساب و عقاب کے دن (روز محشر)کے لیے جواب تیار رکھناچاہیے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ اگر ایک شخص نے ہزاروں آدمیوں سے خرید وفروخت کیا ہے تو ان ہزاروں آدمیوں کا حق اس سے وابستہ ہے، اگر اس نے کسی کے حق میں بھی کچھ کوتاہی اور گڑبڑی کی ہے تو وہ صاحبِ حق اس کی وصولی کے لیے قیامت کے دن اس تاجر خائن کے پاس حاضر ہوجائے گا اور اس سے اپنا حق وصول کرے گا؛ اس لیے ہر تاجر اپنی تجارت میں اس بات کو ملحوظ رکھے کہ اس کو قیامت کے دن ہر حساب لینے والے کا حساب دینا ہوگا۔  (احیاء العلوم:۲/۸۳-۸۷)

آن لائن تجارت نہ تو مطلقاً ناجائز ہے اور نہ مطلقاً جائز بلکہ اس کی بعض صورتیں جائز ہیں اور بعض ناجائز ہیں :

آن لائن تجارت:

آن لائن تجارت میں اگر "مبیع" (جوچیزفروخت کی جارہی ہو)بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار ،تصویردکھلاکر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں "مبیع" موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنی ہو اس کا شرعاًبائع کی ملکیت میں ہونا  ضروری  ہے۔

اس کے جواز کی صورتیں درج ذیل ہیں:

1۔ بائع مشتری سے یہ کہہ دے کہ یہ سامان میری ملکیت میں نہیں ، اگر آپ کو چاہیے تو میں اسے خرید کرآپ کو اتنی قیمت میں فروخت کرسکتاہوں، یوں بائع اس سامان کوخرید کر اپنے قبضہ میں لے کر باقاعدہ سودا کرکے مشتری کو فروخت کرے تو یہ درست ہوگا۔

2۔ آن لائن کام کرنے والا کسی سے آرڈر لے اورمطلوبہ چیز کسی دوسرے  سے لے کر خریدار تک پہنچائے اور اس عمل کی اجرت مقرر کرکے لے تو یہ بھی جائز ہے۔ یعنی بجائے اشیاء کی خرید وفروخت کے بروکری کی اجرت مقرر کرکے یہ معاملہ کرے۔

3۔ اگر مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو اور تصویر دکھلا کر سودا کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں بھی آن لائن خریداری شرعاً درست ہوگی۔ البتہ جواز کی ہر صورت میں خریدار کو مطلوبہ چیز ملنے کے بعد خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، یعنی جب "مبیع" خریدار کو مل جائے تو دیکھنے کے بعد اس کی مطلوبہ شرائط کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں اسےواپس کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔

حدیث میں ہے :

"عن حكيم بن حزام، قال: يا رسول الله، يأتيني الرجل فيريد مني البيع ليس عندي، أفأبتاعه له من السوق؟ فقال: "لا تبع ما ليس عندك ."

(سنن ابی داؤد،باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ،ج:۵،ص:۳۶۲،دارالرسالۃ العالمیۃ)

آن لائن اسٹورز :

خرید و فروخت سے متعلق اصولی طور پر یہ بات واضح رہے کہ جس وقت آپ کسی چیز کو بیچتے ہیں خواہ دکان پر بیچیں یا کسی آن لائن پلیٹ فارم پر بیچیں، شریعت کی رو  سے یہ ضروری ہے کہ وہ چیز آپ کی ملکیت میں ہو، آپ کے قبضے میں ہو اور آپ خریدار کو وہ چیز حوالے کرنے پر قدرت رکھتے ہوں، اگر ایسی چیز کو بیچا جائے جو اب تک بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے یا ملکیت میں تو ہے لیکن اس نے خود خریدنے کے بعد اب تک اس پر قبضہ نہیں کیا یا وہ خریدار کو وہ چیز حوالے کرنے پر قدرت نہیں رکھتا تو یہ صورتیں شریعت کی نظر میں ناجائز ہیں۔

آن لائن کاروبار میں بکثرت غیر مملوک (یعنی جو چیز ملکیت میں نہیں ہے) یا غیر مقبوض (جس چیز پر قبضہ نہیں ہے) اشیاء  کی خرید و فروخت کی جاتی ہے،لہذا اس سے بچنا ضروری ہے۔ البتہ اگر غیر مملوک یا غیر مقبوض چیز کو فوراً نہ  بیچا جائے بلکہ اس کے بیچنے کا وعدہ کیا جائےیعنی اپنے آن لائن گاہک کو یہ پیغام دیا جائے کہ ہم یہ چیز آپ کو فروخت کر دیں گے تو یہ صورت جائز ہے، پھر جب وہ چیز بیچنے والے کی ملکیت میں آجائے یا اس پر قبضہ ہو جائے تب اس چیز کو بیچ دیا جائے۔

کرپٹوکرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی:

کرپٹوکرنسی یاکسی اورڈیجیٹل کرنسی کی شکل میں انٹرنیٹ  اور الیکٹرانک مارکیٹ میں خرید و فروخت کے نام سے جو کاروبار چل رہا ہےوہ حلال اورجائز نہیں ہے،کیوں کہ کرپٹوکرنسی  محض ایک فرضی کرنسی ہے،اس میں حقیقی کرنسی کےبنیادی اوصاف اورشرائط بالکل موجود نہیں ہیں،یہاں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا،صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں؛لہٰذاصورتِ مسئولہ میں کرپٹوکرنسی اور ڈیجیٹل کرنسی میں  سرمایہ کاری(ٹریڈنگ) کرنا جائز نہیں ہےاوراس  سےحاصل ہونےوالانفع بھی  شرعاًجائز نہیں ہے۔

  باقی  فیوچر ٹریڈ  ( Future Trade) (بیاعات مستقبلیات)  درجِ ذیل امور کی وجہ سے جائز نہیں ہے:

1: قبضہ کرنے سے پہلے خرید وفروخت  کرنا:

فیوچر ٹریڈنگ میں ایک بڑی شرعی خرابی یہ ہے کہ اس میں ایسی چیز کو آگے فروخت کیاجاتاہے جو مالک کے قبضے میں موجود نہیں ہوتی، فیوچر ٹریڈنگ میں یہ خرابی صرف ایک جگہ نہیں بلکہ بار بار اور تسلسل کے ساتھ آتی رہتی ہے ، کیوں کہ سب سے پہلا فروخت کنندہ نہ سامان کا مالک ہوتا ہے اور نہ وہ اس کے قبضے  میں ہوتا ہے، اس کے باوجود وہ اسے مستقبل کی کسی تاریخ کے لیے کسی تاریخ کے لیے کسی کو فروخت کردیتا ہے،  چیز کو خریدنے والا بھی اس پر قبضہ کیے بغیر اسے کسی اور کو فروخت کردیتا ہے،  چیز کو خریدنے والا بھی اس پر قبضہ کیے بغیر اسے کسی اور کو فروخت کردیتا ہے اور وہ کسی اور کو۔ چنانچہ مقررہ تاریخ آنے تک بے شمار لوگ درمیان میں بائع اور مشتری  بن چکے ہیں لیکن سامان ا ن میں سے کسی نے دیکھا تک نہیں ہوتا،  چہ جائیکہ اس پر کسی نے قبضہ کیا ہو، جس کا شرعی حکم یہ ہے کہ جو چیز قبضے میں موجود نہ ہو اسے آگے فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں۔ 

2: : سامان اور قیمت دونوں کا ادھار معاملہ کرنا:

فیوچر ٹریڈنگ میں ایک بڑی شرعی خرابی یہ ہے کہ اس میں سامان اور اس کی قیمت دونوں ادھار میں ہوتے ہیں کیونکہ سامان خریدار کو فوراً نہیں ملتا بلکہ مستقبل کی تاریخ کے آنے کے بعد ملتا ہے،  اسی طرح خریدار اس چیز کی قیمت ابھی نہیں دیتا بلکہ مستقبل کی تاریخ کے آنے کے بعد دیتا ہے، گویاکہ اس معاملہ میں دونوں طرف سے ادھار ہے، اور اس قسم کی ادھار کی بیع کو بیع الکالی بالکالی کہا جاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے ایسی خرید وفروخت سے منع فرمایا ہے۔

3: یہ معاملہ قمار پر بھی مشتمل ہے:

اس طرح کے معاملے میں قمار بھی ہے، کیوں کہ حقیقت میں خریدوفروخت مفقود ہے، محض ایک کاغذی کاروائی کی بنیاد پر نفع ونقصان ہوتا ہے، اور قمار والا معاملہ بھی شرعاً جائز نہیں ہے

قرآن مجید میں ہے:

"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ."(المائدة:90)

"ترجمہ:اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں ہیں، شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔(بیان القرآن)"

قسطوں پر سوفیصد نفع کمانا:

1۔ ہر شخص  کے  لیے اپنی مملوکہ  چیز  کو  اصل قیمت میں کمی زیادتی کے ساتھ نقد  اور ادھار دنوں طرح  فروخت کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور جس طرح ادھار پر سامان  فروخت کرنے والا اپنے سامان کی قیمت یک مشت وصول کرسکتا ہے ، اسی  طرح اس کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے  کہ وہ اس رقم کو قسط وار وصول کرے،  اسے اصطلاح میں ”بیع بالتقسیط“ یعنی قسطوں پر خریدوفروخت  کہتے ہیں۔

2۔ قسطوں پر خرید وفروخت میں  درج ذیل  شرائط کا لحاظ  اور رعایت کرنا ضروری ہے:

قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار،  اور عقد کے وقت مجموعی قیمت مقرر ہو، اور ایک شرط یہ بھی  ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے، اور جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی عقد میں مشروط نہ ہو۔  اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا، ان شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدوفروخت کرنا جائز ہے۔

3۔ کسی بھی چیز کو اپنی ملکیت میں آنے سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی بھی منقولی چیز کو خریدنے کے بعد اس پر قبضہ کرنے پہلے اسے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔

 ڈیجیٹل تجارت کے چند اسلامی طریقے:

مضاربت)((١)

شرعی طور پر جائز مضاربہ میں ایک فریق کی طرف سے سرمایہ ہوتا ہے اور دوسرے فریق کی جانب سے عمل اور محنت ہوتی ہے،جس کے بنیادی اصول درج ذیل ہیں۔مضاربہ میں سرمایہ اور کروبار حلال ہو۔معاملہ میں کوئ شرطِ فاسد نہ ہو۔ہر فریق کو اختیار ہوگا کہ کاروبار ختم ہونے کے بعد آئندہ جاری رکھے یا ختم کر دے۔منافع دونوں فریقوں میں فیصد کے حساب سے طے شدہ ہوں ۔ کسی ایک فریق کے لئے مخصوص اورمتعین رقم کی شرط لگانا جائز نہیں۔نقصان کی صورت میں سرمایہ کار نقصان برداشت کرے گا اور مضارب کی محنت رائیگاں جائے گیمضارب امین کی حیثیت سے کام کرے گا، لہذا رب المال جس نوعیت کے کام کی اجازت دے اسی طرح کا کام ۲۔کرسکتا ہے، ورنہ خیانت ہوگی، البتہ اگر مضارب نے کسی خاص کاروبار کی شرط لگانے کے بجائے عام اجازت دی ہو تو پھر مضارب ہر طرح کا جائز کام کر سکتا ہے۔مضاربہ میں نقصان کی صورت میں ابتداء اس نقصان کی تلافی نفع سے کی جائےگی، اگر نقصان نفع سے بھی زیادہ ہو تو پھر نفع کے بعد باقی نقصان کی تلافی اصل سرمائے سے کی جائے گی۔۔۳اگر رب المال نے عام اجازت دی ہو تو مضارب آگے کسی اور کو بھی مضاربت پر مال دے سکتا ہے۔


بیع مساومہ میں فروخت کنندہ (Seller)اپنی اصل لاگت اور اُس میں شامل منافع بتانے کا پابند نہیں ہوتا اور نہ ہی خریدار اُسے بتانے پرمجبور کر سکتا ہے، بس اُس نے قیمت فروخت بتا دی ہے، اب اگر خریدار خریدنا چاہےتو خریدلے ورنہ نہ خریدے،شرعی اعتبارسے کاروبار کی یہ شکل   درست   اور جائز ہے۔

مساومہ 

 بیع مساومہ  کی اسلام میں اجازت ہے،جس کے تعریف یہ ہے ،کہ بائع اور مشتری جس قیمت پر اتفاق کر لیں اس قیمت پر بیچنے کا نام بیع مساومہ ہے۔

مرابحہ 

مرابحہ، ایک مخصوص قسم کی تجارت ہے، جو اسلامی بینکاری نظام میں   (Legal Device) استعمال ہوتی ہے۔ اس میں ایک فروخت کنندہ اپنا مال بیچنے سے پہلے صاف طور پر یہ کہہ دیتاہے کہ اس نے اس شے کو کس قیمت پر خریدا تھا اور یہ فروخت کنندہ اس شے پر اس کو حاصل ہونے والے منافع کا اظہار بھی خریدنے والے پر کر دیتا 

Saturday 7 September 2024

عصروفجرکے بعد سجدہ تلاوت

 نماز فجر کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے تک اور عصر کے بعد سورج کے زرد ہونے تک  سجدہ تلاوت کی ادائیگی درست ہے۔البتہ عین طلوع اور عین غروب کے اوقات میں سجدہ تلاوت جائز نہیں، الا یہ کہ اسی وقت آیتِ سجدہ کی تلاوت کی تو اس سجدہ تلاوت کی ادائیگی کی اجازت ہوگی۔''فتاوی ہندیہ'' میں ہے:

''( الفصل الثالث في بيان الأوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها ) ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة: إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب''۔(2/257)

Friday 30 August 2024

ممیز بچی کاخلع

 بچی اگرممیز ہے تو اس کے خلع پررضامندی سے طلاق رجعی پڑے گی۔اوراس کے ذمہ معاوضہ کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی ۔طلاق اس لیے پڑجائے گی کیونکہ طلاق بیوی کی قبولیت پر موقوف تھی اورممیز ہونے کی بنا پر قبولیت کی اہلیت اس میں موجود ہےالبتہ بدل خلع کا معاوضہ اس لیے لازم نہیں ہوگاکیونکہ وہ ابھی نابالغ ہے اور مالی معاملات کے لیے بالغہ ھونا ضروری ہے ۔بچی اگر غیر ممیز ہوتو اس کاخلع معتبر نہیں اگر اس کے مطالبہ پر شوھر نے طلاق دے بھی دی توواقع نہی ہوگی کیونکہ طلاق بیوی کی قبولیت پر موقوف تھی اور غیرممیز ہونے کی بنا پر اس میں اہلیت نہیں ۔البتہ مالکیہ کے نزدیک نابالغہ کےوالد کو خلع کا اختیار ہے

۔

فقہ السنہ ٣/٥٨