عاقلہ بالغ لڑکی ولی کے بغیر اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے لیکن یہ پسندیدہ نہیں، شرع میں یہ مطلوب ہے کہ ولی کی اجازت سے نکاح کیا جائے، بعض احادیث میں ولی کی اجازت کے بغیر لڑکی کے کیے ہوئے نکاح کو باطل قرار دیا گیا ہے، حنفیہ کے یہاں اگرچہ باطل نہیں ہے، صحت کی شرائط کے ساتھ نکاح منعقد ہو جاتا ہے لیکن بہرحال یہ مستحسن نہیں کہ لڑکی از خود اقدام کرے، اسے چاہئے کہ نکاح کا معاملہ اولیاء کے حوالہ کردے، اگر لڑکی نے اپنی مرضی سے غیر کفو میں نکاح کرلیا تو ایسی صورت میں ولی کو اعتراض کا حق بھی ہوتا ہے یعنی ولی اگر چاہے تو بذریعہ شرعی پنچایت اس نکاح کو ختم بھی کرواسکتا ہے
حنفی علماء کے نزدیک ولایت کا مدار صغر پر ہے، یعنی ان کے نزدیک ولی کو عورت کی اجازت کے بغیر نکاح کر دینے کا حق اسی صورت میں حاصل ہو گا جب کہ وہ کم سن یعنی نابالغ ہو، خواہ وہ باکرہ کنواری ہو یا ثیب بیوہ ہو، جب کہ شافعی علماء کے نزدیک ولایت کا مدار بکارت پر ہے، یعنی ان کے نزدیک ولی کو عورت کی اجازت کے بغیر نکاح کر دینے کا حق اس صورت میں حاصل ہوگا جب کہ وہ باکرہ ہو خواہ بالغ ہو یا نابالغ ہو ۔ لہذا یہ حدیث حنفیہ کے نزدیک بالغہ پر محمول ہے، خواہ وہ ثیب ہو یا باکرہ ہو، اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی حدیث: "ولاتنکح البکر حتی تستأذن" (کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کر لی جائے) شوافع کے قول کے خلاف ایک واضح دلیل ہے"۔
باقی وہ روایات جو حضرات شوافع کا مستدل ہیں، جن میں نبی کریم ﷺنے نکاح کو ولی کی اجازت پر موقوف قرار دیا ہے، یا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیا ہے، احناف کے نزدیک ان روایا ت کا تعلق یا تو نابالغہ اور غیر عاقلہ سے ہے، یعنی کم سن لڑکی اور جنون میں مبتلا دیوانی عورت کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا۔اور اگر ان روایات کو ان کے ظاہری الفاظ کے ساتھ عموم پر محمول کریں تو اس صورت میں امام ابوحنیفہ ؒکے ہاں ان روایات میں کمال کی نفی کی گئی ہے، یعنی یہ روایات نفیِ کمال پر محمول ہیں کہ اصل نکاح منعقد ہوجائے گا، لیکن افضل اور بہتر یہ ہے کہ عورت ولی کی اجازت سے اپنا نکاح کرے۔
نیز محدثین نے اِن روایات پر جن میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیاگیا ہے، فنی اعتبار سے بھی کلام کیاہے۔اور ان کی حیثیت یہ لکھی ہے کہ یہ روایات اس درجہ کی نہیں ہیں کہ انہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے موقف کے مقابلے میں بطور دلیل اختیار کیا جا سکے۔ جیساکہ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں تفصیل موجود ہے۔
فقہی عبارات درج ذیل ہیں :
فتاوی شامی میں ہے:
"(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا". (3/ 55، کتاب النکاح ، باب الولی، ط: سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض". (2/ 247،کتاب النکاح، فصل: ولایة الندب والاستحباب في النکاح، ط: سعید )
(فتاوی عالمگیری، ۱/۲۹۲، کتاب النکاح، الباب الخامس في الأکفاء في النکاح، ط: رشیدیة)