اگروہ خلع پربھی راضی نہہو تو اس صورت میں عورت کسی مسلمان جج کی عدالت سے شوہر کے نان نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مقدمہ دائر کرسکتی ہے،جس کاطریقہ یہ ہے کہ عورت اولاً عدالت میں شرعی گواہوں کے ذریعے اپنے نکاح کو ثابت کرے ،اس کے بعد شرعی گواہوں کے ذریعے شوہر کے نان نفقہ نہ دینے کو ثابت کرے،اگر عورت عدالت میں گواہوں کے ذریعے اپنے دعوی کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائےاورعدالت کے بلانے اور سمن جاری کرنے کے باوجود شوہر حاضر نہ ہوتو عدالت اس نکاح کو فسخ کردے،جس کے بعد عدت گزار کر عورت کادوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا ۔
ردالمحتار میں ہے:
"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا. قال: فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لأنه زنى كما في القنية و غيرها اهـ ."
(کتاب النکاح ،مطلب في النكاح الفاسد،3/132،ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج."
(کتاب النکاح،القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير: ص:280، ج: 1ط:دارالفکر)
فقہ السنۃ میں ہے:
"والخلع يكون بتراضي الزوج والزوجة."
(کتاب الطلاق:ج:2، ص:299 ط: دارالکتاب العربی)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."
( کتاب الطلاق،الفصل الأول فی شرائط الخلع: ج:1، ص:488، ط:رشیدیه)
حیلۂ ناجزۃ میں ہے :
"والمتعنت الممتنع عن الإنفاق ففی مجموع الأمیر ما نصه : إن منعھا نفقة الحال فلها القیام، فإن لم یثبت عسرہ
No comments:
Post a Comment