https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 2 August 2021

درودشریف کے فضائل

 درود شریف کے فضائل

- ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا)
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘ [ مسلم : ۴۰۸]
- ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ) [ صحیح الجامع : ۶۳۵۹ ]
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔‘‘
- درود شریف کثرت سے پڑھا جائے تو پریشانیوں سے نجات ملتی ہے ۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :
’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ پر زیادہ درود پڑھتا ہوں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ میں آپ پر کتنا درود پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ جتنا چاہو۔ میں نے کہا : چوتھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہواور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : آدھا حصہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : دو تہائی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّک یعنی جتنازیادہ سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔میں نے کہا : میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إِذًا تُکْفٰی ہَمَّکَ ، وَیُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ تب تمھیں تمھاری پریشانی سے بچا لیا جائے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ایک روایت ہے میں ہے :إِذَنْ یَکْفِیْکَ اﷲُ ہَمَّ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِتب تمھیں اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت کی پریشانیوں سے بچا لے گا۔‘‘ [ ترمذی : ۲۴۵۷ ، وصححہ الالبانی ]
روزِ قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب وہی ہو گا جو سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا تھا ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَکْثَرُہُمْ عَلَیَّ صَلاَۃً)
’’ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجے گا۔‘‘
[رواہ الترمذی وابن حبان وابو یعلی وغیرہم]

درودشریف کے فوائد

 علامہ ابن قیم ؒ نے درود شریف پڑھنے کے ۳۹ فوائد ذکر کئے ہیں ، ان میں سے چند اہم فوائد یہ ہیں :

 درود شریف پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔
 دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔
دس گناہ معاف کردییجاتے ہیں ۔
دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔
دعاسے پہلے درود شریف پڑھنے سے دعا کی قبولیت کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
 اذان کے بعد کی مسنون دعا سے پہلے درود شریف پڑھا جائے تو قیامت کے روز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی۔
درود شریف کثرت سے پڑھنے سے پریشانیاں ٹل جاتی ہیں ۔
قیامت کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب ہو گا۔
 درود شریف پڑھنے سے مجلس بابرکت ہو جاتی ہے۔
جب انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا ہے تواللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اس کی تعریف کرتا ہے۔
 درود شریف پڑھنے والے شخص کی عمر اس کے عمل اور رزق میں برکت آتی ہے۔
 درود شریف کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔
 درود شریف پڑھنے سے دل کو ترو تازگی اور زندگی ملتی ہے۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حقوق ادا کرنے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے کی توفیق دے ۔ اور روزِ قیامت ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور آپ کے ہاتھوں حوضِ کوثر کا پانی نصیب کرے ۔ آمین ثم آمین
٭٭٭٭٭

قسم کاکفارہ

 اگر کوئی شخص یہ قسم کھا لے کہ ’’میں فلاں شخص سے بات نہیں کروں گا‘‘ اور اب وہ فلاں شخص  اس سے بات کرتا ہے لیکن یہ اس سے بات نہیں کرتا تو اس صورت میں یہ حانث نہ ہوگا اور اگر وہ فلاں شخص بات کرے اور یہ اسے جواب دے یا یہ اس سے بات کرے تو اس صورت میں یہ شخص حانث ہو جائے گا اور اس پر قسم کا کفارہ لازم آئے گا۔

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دیں  یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دیں ( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو دیں تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دیں،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دیں۔ اور اگر مالی حالت ایسی ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتے ہیں اور نہ کپڑے دے سکتے ہیں تو مسلسل تین روزے رکھیں، اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھیں۔

﴿ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾(المائدة: 89)

Sunday 1 August 2021

یارسول اللہ اور لبیک یاحسین کہنا

  اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حاضر و ناظر ذات صرف باری تعالی کی ذاتِ اقدس ہے، اس کے علاوہ کائنات میں کوئی بھی ایسی ذات نہیں جو ہر جگہ موجود ہو اور سب کچھ دیکھ اور سن رہی ہو، یہاں تک کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم بھی حاضر و ناظر نہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حاضر و ناظر کا عقیدہ رکھنا بتصریحاتِ فقہاء کفر ہے، جیساکہ فتاوی قاضی خان میں ہے:

"رجل تزوج بإمرأة بغير شهود، فقال الرجل للمرأة: ’’خدائے را و پیغمبر را گواہ کردیم‘‘قالوا: يكون كفراً؛ لأنه اعتقد أن رسول الله صلي الله عليه وسلم يعلم الغيب، و هو ما كان يعلم الغيب حين كان في الأحياء فكيف بعد الموت". ( ٢ / ١٨٥)

ترجمہ: کسی آدمی نے بغیر گواہوں کے کسی خاتون سے شادی کی اور کہا کہ: اللہ اور پیغمبر کو گواہ بنایا، فقہاء نے کہا کہ یہ کفر ہے؛ اس  لیے کہ اس نے یہ اعتقاد رکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں، حال آں کہ وہ ( پیغمبر علیہ السلام) اپنی حیاتِ دنیوی میں غیب نہیں جانتے تھے تو موت کے بعد کیسے غیب جان سکتے ہیں۔

نیز اہلِ سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں حیات ہیں، اور جو شخص روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہوکر سلام پیش کرتا ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس اسے سنتے اور جواب دیتے ہیں، جس کی وجہ سے روضہ رسول پر کھڑے ہو کر ندا و صیغہ خطاب کے ذریعہ سلام پیش کرنا جائز ہے، البتہ روضہ مبارک کے علاوہ دنیا کے کسی اور مقام سے درود پڑھا جائے تو اللہ رب العزت کی جانب سے مامور فرشتے پڑھے جانے والے درود کو پڑھنے والے کے نام کے ساتھ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے ہیں، جیساکہ احادیث میں ہے:

"٩٣٤ - وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا أُبْلِغْتُهُ»". رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ: فِي: "شُعَبِ الْإِيمَانِ ". (مشكاة، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ)

"٩٣٤ - (وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ» ) : أَيْ [سَمْعًا] حَقِيقِيًّا بِلَا وَاسِطَةٍ، قَالَ الطِّيبِيُّ: هَذَا لَايُنَافِي مَا تَقَدَّمَ مِنَ النَّهْيِ عَنِ الِاعْتِيَادِ الدَّافِعِ عَنِ الْحِشْمَةِ، وَلَا شَكَّ أَنَّ الصَّلَاةَ فِي الْحُضُورِ أَفْضَلُ مِنَ الْغَيْبَةِ. انْتَهَى. لِأَنَّ الْغَالِبَ حُضُورُ الْقَلْبِ عِنْدَ الْحَضْرَةِ وَالْغَفْلَةُ عِنْدَ الْغَيْبَةِ، ("وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا ") ، أَيْ: مِنْ بَعِيدٍ كَمَا فِي رِوَايَةٍ: أَيْ بَعِيدًا عَنْ قَبْرِي (" أُبْلِغْتُهُ ") : وَفِي نُسْخَةٍ صَحِيحَةٍ: بُلِّغْتُهُ مِنَ التَّبْلِيغِ، أَيْ: أُعْلِمْتُهُ كَمَا فِي رِوَايَةٍ، وَالضَّمِيرُ رَاجِعٌ إِلَى مَصْدَرِ صَلَّى كَقَوْلِهِ تَعَالَى: {اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى} [المائدة: ٨]، (رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ)  قَالَ مِيرَكُ نَقْلًا عَنِ الشَّيْخِ: وَرَوَاهُ أَبُو الشَّيْخِ، وَابْنُ حِبَّانَ فِي كِتَابِ: ثَوَابِ الْأَعْمَالِ، بِسَنَدٍ جَيِّدٍ". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابح، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ)

"  ٩٢٤ - وَعَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِيَ السَّلَامَ» "، رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَالدَّارِمِيُّ". (مشكاة، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثاني)

"٩٢٤ - (وَعَنْهُ) ، أَيْ: عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (قَالَ: «قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً» ") ، أَيْ: جَمَاعَةً مِنْهُمْ (" سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ ") ، أَيْ: سَيَّارِينَ بِكَثْرَةٍ فِي سَاحَةِ الْأَرْضِ مِنْ سَاحَ: ذَهَبَ، فِي الْقَامُوسِ: سَاحَ الْمَاءُ جَرَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، (" يُبَلِّغُونِي ") : مِنَ التَّبْلِيغِ، وَقِيلَ: مِنَ الْإِبْلَاغِ، وَرُوِيَ بِتَخْفِيفِ النُّونِ عَلَى حَذْفِ إِحْدَى النُّونَيْنِ، وَقِيلَ: بِتَشْدِيدِهَا عَلَى الْإِدْغَامِ، أَيْ: يُوَصِّلُونَ (" مِنْ أُمَّتِيَ السَّلَامَ ") : إِذَا سَلَّمُوا عَلَيَّ قَلِيلًا أَوْ كَثِيرًا، وَهَذَا مَخْصُوصٌ بِمَنْ بَعُدَ عَنْ حَضْرَةِ مَرْقَدِهِ الْمُنَوَّرِ وَمَضْجَعِهِ الْمُطَهَّرِ، وَفِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى حَيَاتِهِ الدَّائِمَةِ وَفَرَحِهِ بِبُلُوغِ سَلَامِ أُمَّتِهِ الْكَامِلَةِ، وَإِيمَاءٌ إِلَى قَبُولِ السَّلَامِ حَيْثُ قَبِلَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَحَمَلَتْهُ إِلَيْهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَسَيَأْتِي أَنَّهُ يَرُدُّ السَّلَامَ عَلَى مَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ، (رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَالدَّارِمِيُّ) : قَالَ مِيرَكُ: وَرَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ، وَلَيْسَ فِي رِوَايَتِهِمَا " فِي الْأَرْضِ ". وَاعْلَمْ أَنَّ الْمَفْهُومَ مِنْ كَلَامِ الشَّيْخِ الْجَزَرِيِّ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ مَرْوِيٌّ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، وَظَاهِرُ إِيرَادِ الْمُصَنِّفِ يَقْتَضِي أَنَّهُ مَرْوِيٌّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَتَأَمَّلْ. قَالَ ابْنُ حَجَرٍ: وَرَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، وَالْبَيْهَقِيُّ، وَذَكَرَ ابْنُ عَسَاكِرَ طُرُقًا مُتَعَدِّدَةً وَحَسَّنَ بَعْضَهَا، ثُمَّ قَالَ: وَفِي رِوَايَةٍ بِسَنَدٍ حَسَنٍ إِلَّا أَنَّ فِيهِ مَجْهُولًا، " «حَيْثُمَا كُنْتُمْ فَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي» ". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ)

مذکورہ بالا تمہید کے بعد  جواب یہ ہے کہ ”یارسول اللہ“ کہنا مطلقاً ممنوع نہیں ہے، بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، ان صورتوں کے اعتبار سے اس کا حکم بھی مختلف ہوگا:

1- غائبانہ اس عقیدے سے کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  یا امام حسین یا حضرت علی رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کی طرح ہرجگہ حاضر وناظر ہیں، ہماری ہرپکار اور فریاد کو سننے والے ہیں، حاجت روا ہیں؛ ناجائز اور شرک ہے۔ (فتاوی رحیمیہ: ۲/۱۰۸، کتاب السنة والبدعة، ط: دار الاشاعت، پاکستان)

2- روضہٴ اطہر کے سامنے کھڑے ہوکر ’’السلام علیکم یا رسول الله‘‘یا ’’السلام علیك یا رسول الله‘‘یا ’’الصلاة والسلام علیك یا رسول الله‘‘  کہنا جائز ہے، اس لیے کہ لفظ ”یا“ کے ذریعے اسی کو مخاطب کیا جاتا ہے، جو سامنے حاضر ہو،اور روضہ اطہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف حیات ہیں، بلکہ سلام کا خواب بھی دیتے ہیں، لہٰذا سامنے موجود ہونے کی صورت میں خطاب درست ہے۔

3- صحیح عقیدہ ( کہ  میرا سلام فرشتے پہنچا دیں گے) کے ساتھ دور سے "الصلاة والسلام علیك یا رسول الله" پڑھنے کی اگرچہ اجازت ہے، تاہم اس طرح پڑھنے سے لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اہلِ بدعت کی طرح) حاضر وناظر سمجھ کر اس طرح پڑھا جارہاہے، دل کا حال کسی کو معلوم نہیں، اس لیے روضۂ رسول ﷺ کے علاوہ دیگر جگہوں میں اس جملہ سے احتیاط بہتر ہے، اس لیے علمائے کرام غائبانہ اس لفظ کے ذریعہ درود و سلام پڑھنے سے منع کرتے ہیں، لہذا درود و سلام کا وہ طریقہ اپنانا چاہیے، جس میں کسی قسم کا شبہ شرک نہ ہو،۔  اور ایسے الفاظ میں درود و سلام بھیجنا جو  رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوں، زیادہ بہتر ہے

ماتم کرناکیساہے

 واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ  پاک میں مصیبت کے وقت صبر کی تلقین فرمائی ہے اور صبر کرنے والوں کے لیے انعامات کا ذکر فرمایا ہے،جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

ترجمہ: اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لو۔ بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور اللہ تعالی کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم کو شعور نہیں۔

(سورۃ البقرۃ: 153،154)

اسی  طرح   قرآن  مجید  میں ایمان والوں کی صفت یوں بیان ہوئی:

ترجمہ: اور خوش خبری دیجیے صبر کرنے والوں کو جب ان پر کوئی مصبت پڑے تو کہیں:  ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے،  یہی ہے وہ لوگ  جن پر ان کے رب کی خصوصی عنایات ہیں اور رحمت، اور یہی لوگ راہ پر ہیں۔

(سورہ بقرہ:156،157) 

جب کہ مروجہ ماتم قرآنِ مجید میں  دیے گئے حکمِ  صبر کے  بھی خلاف  ہے اور احادیثِ مبارکہ میں دیے گئے احکام کے صریح خلاف ہے۔

بصورتِ  مسئولہ رنج وغم ایک غیراختیاری چیز ہے جس  پر شریعتِ مطہرہ  میں مؤاخذہ نہیں ہے،البتہ کسی کے انتقال پر آواز سے رونا،چیخنا،سینہ کوبی کرنا، اور لباس  چیر کر سے اس غم کا اظہار کرنا، ماتم کرنا شرعًا ناجائز اور حرام ہے، رسول اکرم ﷺ  نے اس سےمنع فرمایا ہے،  چنانچہ حضرت  عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"جو منہ پر طمانچے مارے ، گریبان چاک کرے اور زمانۂ  جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے  وہ ہمارے دین پر نہیں ۔"

نیز  جس طرح ماتم کرنا اور اس میں شریک ہونا  گناہ اور ناجائز ہے، اسی طرح اسے دیکھنے کے  لیے جانا کثرت کا سبب بننے کی وجہ سے   ناجائز اور گناہ ہے،کیوں کہ دیکھنے والا اگرچہ اس میں شریک نہیں ہے لیکن دوسرے لوگ یہی سمجھیں گے کہ یہ شریکِ  ماتم ہے،لہذا ماتم  دیکھنے کے لیے جانا بھی ناجائز ہے۔

تحفة الأحوذي لمحمد المباركفوري میں ہے:

"قال النووي: أي يبعثون مختلفين على قدر نياتهم فيجازون بحسبها، وفي هذا الحديث من الفقه التباعد من أهل الظلم والتحذير من مجالستهم ومجالسة البغاة ونحوهممن المبطلين لئلايناله مايعاقبون به، وفيه: إن من كثر سواد قوم جرى عليهم حكمهم في ظاهر عقوبات الدنيا انتهى."

(باب ماجاء في الخسف، ج:6، ص:347، ط: دار الكتب العلمية،بيروت)

نصب الراية برهان الدين المرغيناني میں ہے:

"عن عمرو بن الحارث أنّ رجلًا دعا عبد الله بن مسعود إلى وليمة فلما جاء ليدخل سمع لهوًا، فلم يدخل فقال له: لم رجعت؟ قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من كثر سواد قوم فهو منهم، ومن رضى عمل قوم كان شريك من عمل به. انتهى ورواه علي بن معبد في كتاب الطاعة والمعصية."

(باب مايوجب القصاص، ج:4، ص:346، ط:مكتبة الريان،لبنان)

یوم مسلم خواتین کی حقیقت

 تین طلاق کا قانون مسلم خواتین کے لئے سخت نقصاندہ


مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)  کا بیان


نئی دہلی، یکم اگست 2021ء

مرکزی حکومت نے آج تین طلاق قانون کے پس منظر میں یوم مسلم خواتین منانے کا اعلان کیا ہے، یہ چوری اور سینہ زوری کا مصداق ہے، اس قانون نے مسلمان عورتوں کی دشواریوں کو بڑھا دیا ہے؛ کیونکہ حکومت اس کو طلاق تسلیم نہیں کرتی اور مسلم سماج شریعت کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کو طلاق تصور کرتا ہے، اس کے نتیجہ میں ایسی عورتیں قانون کی رو سے دوسرا نکاح کرسکتی ہیں، اور مسلم سماج میں کوئی ان سے نکاح کے لیے تیار نہیں ہوتا اور کوئی بھی فرد اپنے سماج سے سے کٹ کر زندگی نہیں گزار سکتا، اس قانون میں مطلقہ عورت کو شوہر کی طرف سے نفقہ کا مستحق قرار دیا گیا ہے،  دوسری طرف مرد کے لیے تین سال جیل کی سزا رکھی گئی ہے، سوال یہ ہے کہ جب شوہر جیل میں ہوگا تو یہ بیوی کا نفقہ کیسے ادا کرے گا، پس یہ قانون تضاد سے بھرا ہوا ہے، اور عورتوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے؛ اسی لیے بڑے پیمانہ پر خواتین اس قانون کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہیں، اس لئے حکومت کو چاہیے کہ علماء کے مشورہ سے اس میں مناسب ترمیم کا بل لائے۔

Friday 30 July 2021

نذریامنت ماننا

 منت ماننا شرعاً جائز ہے اور منت کے  لازم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ:

1-   منت اللہ رب العزت کے نام کی مانی جائے، پس غیر اللہ کے نام کی منت صحیح نہیں۔

2- منت صرف عبادت کے کام کے لیے ہو، پس جو کام عبادت نہیں اس کی منت بھی صحیح نہیں۔

3- عبادت ایسی ہو  کہ اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے: نماز، روزہ، حج، قربانی وغیرہ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو اس کی منت بھی صحیح نہیں۔ اسی طرح جو عبادت پہلے سے فرض ہے (مثلاً پنج وقتہ نماز، صاحبِ نصاب کے لیے زکاۃ، رمضان کا روزہ اور صاحبِ استطاعت کے لیے حج)، اس کی نذر ماننا بھی صحیح نہیں، کیوں کہ یہ پہلے سے ہی فرض ہیں۔

اور منت کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے ہونے پر منت مانی جائے اور وہ کام ہو جائے تو اس منت کا پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون قربةً فلايصح النذر بما ليس بقربة رأسا كالنذر بالمعاصي بأن يقول : لله عز شأنه علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلاناً أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: {لا نذر في معصية الله تعالى}، وقوله : عليه الصلاة والسلام: {من نذر أن يعصي الله تعالى فلايعصه}، ولأن حكم النذر وجوب المنذور به، ووجوب فعل المعصية محال، وكذا النذر بالمباحات من الأكل والشرب والجماع ونحو ذلك؛ لعدم وصف القربة لاستوائهما فعلاً وتركاً."

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، ج: 5، صفحہ: 82، ط: دار الكتب العلمية)

تعزیر بالمال یامالی جرمانہ لگاناجائز ہے کہ نہیں

 احناف کے نزدیک تعزیر بالمال یعنی مالی جرمانہ کسی پر لگانا یا کسی سے لینا جائز نہیں، خواہ وہ دینی علوم کا طالب علم ہو یا عصری علوم کا طالب علم ہو، اگر کسی نے ایسا جرمانہ وصول کیا ہے تو اسے واپس کرنا ضروری ہے: وفی شرح الآثار التعزیر بالمال کان فی ابتداء الإسلام ثم نسخ، والحاصل المذہب عدم التعزیر بالمال (شامي: ۳/۱۷۹)

Thursday 29 July 2021

ماسک نہ پہننے کا جرمانہ سودی رقم سے اداکرنا

 بصورتِ مسئولہ حکومت کی طرف سے ماسک نہ پہننے پر جو ہزار روپے بطور جرمانہ لیتے ہیں یہ تعزیر بالمال کہلاتا ہے، اور احناف کے نزدیک تعزیر بالمال جائز نہیں ہے، لہذا مذکورہ جرمانہ میں سودی رقم منہا کرنا جائز ہے، بشرطیکہ سودی رقم کسی سرکاری بینک وغیرہ سے ملی ہو، البتہ اگر سود کی رقم سرکاری بینک وغیرہ سے وصول نہیں کی گئی،  بل کہ کسی پرائیویٹ بینک یا کسی عام انسان سے وصول کی گئی ہے، تو اس رقم سے مذکورہ جرمانہ دینا جائز نہیں ہے۔

واضح رہے کہ از روئے فتویٰ سودی اکاؤنٹ کھولنا یا سود وصول کرنا غیر مسلم ملک میں بھی جائز نہیں ہے، اور اگر مجبورًا یا غیر اختیاری طور پر سودی اکاؤنٹ کھول دیا جائے تو حکم یہ ہے کہ حتی الوسع یہ رقم اکاؤنٹ سے نہ نکالی جائے، تاکہ سود لینے کے گناہ سے بھی بچا جاسکے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:385، ط:ايج ايم سعيد)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)

Tuesday 27 July 2021

غدیر خم کی حقیقت

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’حجۃ الوداع‘‘سے مدینہ منورہ واپسی کے موقعہ پر غدیرخُم (جومکہ اورمدینہ کے درمیان ایک مقام ہے)پر خطبہ ارشادفرمایاتھا، اوراس خطبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت ارشادفرمایاتھا:  "من کنت مولاه فعلي مولاه"یعنی جس کامیں دوست ہوں علی بھی اس کادوست ہے۔

اس کا پس منظر یہ تھا کہ ’’حجۃ الوداع‘‘ سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف والی/ عامل بناکر بھیجا تھا، وہاں کے محصولات وغیرہ وصول کرکے ان کی تقسیم اور بیت المال کے حصے کی ادائیگی کے فوراً بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے پاس حج کی ادائیگی کے لیے پہنچے۔ اس موقع پر محصولات کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے بعض حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ  پر اعتراض کیا، اور یہ اعتراض براہِ راست نبی کریم ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوکر دوہرایا، آپ ﷺ نے انہیں اسی موقع پر انفرادی طور پر سمجھایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تصویب فرمائی، بلکہ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ علی کا اس سے بھی زیادہ حق تھا، نیز آپ ﷺ نے انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا حکم دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں دل میں کدورت اور میل رکھنے سے منع فرمایا، چناں چہ ان حضرات کے دل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بالکل صاف ہوگئے، وہ خود بیان فرماتے ہیں کہ  نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کے بعد ہمارے دلوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ محبوب ہوگئے۔ البتہ اسی حوالے سے کچھ باتیں سفرِ حج سے واپسی تک قافلے میں گردش کرتی رہیں،  آپ ﷺ نے محسوس فرمایا کہ اس حوالے سے آپ ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت اور ان کا حق ہونا بیان فرمائیں، چناں چہ سفرِ حج سے واپسی پر مقام غدیرِ خم میں نبی کریم ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں بلیغ حکیمانہ اسلوب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق واضح فرمایا، اور جن لوگوں کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکوہ یا شبہ تھا اسے یوں ارشاد فرماکر دور فرمادیا: «اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»، قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ" یعنی اے اللہ! جو مجھے دوست رکھے گا وہ علی کو بھی دوست رکھے گا/میں جس کا محبوب ہوں گا علی بھی اس کا محبوب ہوگا، اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ، اور جو علی سے دشمنی رکھے تو اس کا دشمن ہوجا۔ آپ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملے تو فرمایا: اے ابن ابی طالب! آپ کو مبارک ہو! آپ صبح و شام ہر مؤمن مرد اور ہر مؤمنہ عورت کے محبوب بن گئے۔ حضراتِ شیخین سمیت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پہلے سے تھی، جن چند لوگوں کے دل میں کچھ شبہات تھے آپ ﷺ  کے اس ارشاد کے بعد ان کے دل بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت سے سرشار ہوگئے۔ اس خطبہ سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامقصود یہ بتلاناتھاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب اورمقرب بندے ہیں ، ان سے اورمیرے اہلِ بیت سے تعلق رکھنامقتضائے ایمان ہے،اوران سے بغض وعداوت یانفرت وکدورت ایمان کے منافی ہے۔

مذکورہ پس منظر سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا  غدیرخُم  میں "من کنت مولاه فعلي مولاه"ارشادفرمانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اعلان کے لیے نہیں، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدرومنزلت بیان کرنے اور معترضین کے شکوک دور کرنے کے لیے تھا نیز  حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طورپر امت کی ذمہ داری قراردینے کے لیے تھا ۔ اورالحمدللہ!اہلِ سنت والجماعت اتباعِ سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت کواپنے ایمان کاجز سمجھتے ہیں، اور بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اہلِ ایمان ہی محبت رکھتے ہیں۔

مذکورہ خطبے اور ارشاد کی حقیقت یہی تھی جو بیان ہوچکی۔ باقی  ایک گم راہ فرقہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت بلافصل ثابت کرتاہے، اور چوں کہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشادفرمایاتھا، اس لیے ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے عید مناتاہے، اوراسے ’’عید غدیر‘‘ کانام دیاجاتاہے۔اس دن عید کی ابتدا  کرنے والاایک حاکم معزالدولۃ گزراہے، اس شخص نے 18ذوالحجہ 351ہجری کو بغدادمیں عیدمنانے کا حکم دیاتھا اوراس کانام"عید خُم غدیر" رکھا۔

اولاً تو اس عیدِ غدیر کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں ہے، دوسری طرف ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو خلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہے۔ ان کی مخالفت میں بھی بعض بدنصیب لوگ اس دن اپنے بغض کا اظہار کرتے ہیں۔ اہلِ ایمان و اسلام کو چاہیے کہ اس طرح کی خرافات سے دور رہیں۔ 

الغرض! دینِ اسلام میں صرف دوعیدیں ہیں:  ایک عیدالفطر اوردوسری عیدالاضحیٰ ۔  ان دوکے علاوہ دیگرتہواروں اورعیدوں کاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں ، اس لیے نہ مناناجائزہے اورنہ ان میں شرکت درست ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ، فَذَكَرُوا عَلِيًّا، فَنَالَ مِنْهُ، فَغَضِبَ سَعْدٌ، وَقَالَ: تَقُولُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي» ، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ»". (رقم الحديث: ١٢١، فضل علي بن أبي طالب رضي الله عنه ١/ ٤٥)

"فضائل الصحابة لأحمد ابن حنبل" میں ہے:

"حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، نا عَفَّانُ قال: ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: أنا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا بِغَدِيرِ خُمٍّ، فَنُودِيَ فِينَا: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، وَكُسِحَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ شَجَرَتَيْنِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ وَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»، قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ". ( رقم الحديث: ١٠١٦، فضائل علي رضي الله عنه ، ٢/ ٥٩٦،ط: مؤسسة الرسالة بيروت)

"المعجم الكبير للطبراني" میں ہے:

"حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ح وَحَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: ثنا شَرِيكٌ، عَنْ حَنَشِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ رِيَاحِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: بَيْنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ جَالِسٌ فِي الرَّحَبَةِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ وَعَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مَوْلَايَ، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: أَبُو أَيُّوبَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»". (رقم الحديث: ٤٠٥٢، ٤/ ١٧٣، ط: مكتبة ابن تيمية)

"شرح ابن ماجة للسيوطي" میں ہے:

"«من كنت مَوْلَاهُ فعلي مَوْلَاهُ» قَالَ فِي النِّهَايَة: الْمولى اسْم يَقع على جمَاعَة كَثِيرَة، فَهُوَ الرب الْمَالِك، وَالسَّيِّد، والمنعم، وَالْمُعتق، والناصر، والمحب التَّابِع، وَالْجَار، وَابْن الْعم، والحليف، والصهر، وَالْعَبْد، وَالْمُعتق، والمنعم عَلَيْهِ. وَهَذَا الحَدِيث يحمل على أَكثر الْأَسْمَاء الْمَذْكُورَة، وَقَالَ الشَّافِعِي: عَنى بذلك وَلَاء الْإِسْلَام، كَقَوْلِه تَعَالَى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾،[محمد:١١] وَقيل: سَبَب ذَلِك أن أُسَامَة قَالَ لعَلي رَضِي الله عنه: لستَ مولَايَ، إنما مولَايَ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك". ( باب اتباع السنة، ١/ ١٢ ،ط: قديمي)

"قوت المقتذي علي جامع الترمذي"میں ہے :

"من كُنْتُ مَوْلاَهُ فعَليٌّ مَوْلاهُ". أراد بذلك ولاء الإسلام، كقوله تعالى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِينَ اٰمَنُوا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾ [محمد:١١]وقيل: سبب ذلك أن أسَامة قال لعَلي: لسْتَ مولاي، إنما مولاي رسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقال صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذلك''. (أبواب المناقب 2/1002 ط: رسالة الدكتوراة بجامعة أم القري)

"مرقاة المفاتيح"میں ہے:

"(وَعَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ) ذِكْرُهُ تَقَدَّمَ (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» ") . قِيلَ: مَعْنَاهُ: مَنْ كُنْتُ أَتَوَلَّاهُ فَعَلِيٌّ يَتَوَلَّاهُ، مِنَ الْوَلِيِّ ضِدِّ الْعَدُوِّ أَيْ: مَنْ كُنْتُ أُحِبُّهُ فَعَلِيٌّ يُحِبُّهُ، وَقِيلَ مَعْنَاهُ: مَنْ يَتَوَلَّانِي فَعَلِّيٌّ يَتَوَلَّاهُ، كَذَا ذَكَرَهُ شَارِحٌ مِنْ عُلَمَائِنَا. وَفِي النِّهَايَةِ: الْمَوْلَى يَقَعُ عَلَى جَمَاعَةٍ كَثِيرَةٍ، فَهُوَ الرَّبُّ، وَالْمَالِكُ، وَالسَّيِّدُ، وَالْمُنْعِمُ، وَالْمُعْتِقُ، وَالنَّاصِرُ، وَالْمُحِبُّ، وَالتَّابِعُ، وَالْخَالُ، وَابْنُ الْعَمِّ، وَالْحَلِيفُ، وَالْعَقِيدُ، وَالصِّهْرُ، وَالْعَبْدُ، وَالْمُعْتَقُ، وَالْمُنْعَمُ عَلَيْهِ، وَأَكْثَرُهَا قَدْ جَاءَتْ فِي الْحَدِيثِ، فَيُضَافُ كُلُّ وَاحِدٍ إِلَى مَا يَقْتَضِيهِ الْحَدِيثُ الْوَارِدُ فِيهِ، وَقَوْلُهُ: « مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ» يُحْمَلُ عَلَى أَكْثَرِ هَذِهِ الْأَسْمَاءِ الْمَذْكُورَةِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: يَعْنِي بِذَلِكَ وَلَاءَ الْإِسْلَامِ كَقَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِينَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾ [محمد:١١] وَقَوْلِ عُمَرَ لِعَلِيٍّ: أَصْبَحْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ [أَيْ: وَلِيَّ كُلِّ مُؤْمِنٍ]، وَقِيلَ: سَبَبُ ذَلِكَ أَنَّ أُسَامَةَ قَالَ لِعَلِيٍّ: لَسْتَ مَوْلَايَ إِنَّمَا مَوْلَايَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ». " قُضِيَ " قَالَتِ الشِّيعَةُ: هُوَ مُتَصَرِّفٌ، وَقَالُوا: مَعْنَى الْحَدِيثِ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَسْتَحِقُّ التَّصَرُّفَ فِي كُلِّ مَا يَسْتَحِقُّ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّصَرُّفَ فِيهِ، وَمِنْ ذَلِكَ أُمُورُ الْمُؤْمِنِينَ فَيَكُونُ إِمَامَهُمْ. أَقُولُ: لَا يَسْتَقِيمُ أَنْ تُحْمَلَ الْوِلَايَةُ عَلَى الْإِمَامَةِ الَّتِي هِيَ التَّصَرُّفُ فِي أُمُورِ الْمُؤْمِنِينَ، لِأَنَّ الْمُتَصَرِّفَ الْمُسْتَقِلَّ فِي حَيَاتِهِ هُوَ هُوَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا غَيْرُ، فَيَجِبُ أَنْ يُحْمَلَ عَلَى الْمَحَبَّةِ وَوَلَاءِ الْإِسْلَامِ وَنَحْوِهِمَا. وَقِيلَ: سَبَبُ وُرُودِ هَذَا الْحَدِيثِ كَمَا نَقَلَهُ الْحَافِظُ شَمْسُ الدِّينِ الْجَزَرِيُّ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ أَنَّ عَلِيًّا تَكَلَّمَ فيه بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهُ بِالْيَمَنِ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّهَ، خَطَبَ بِهَا تَنْبِيهًا عَلَى قَدْرِهِ، وَرَدًّا عَلَى مَنْ تَكَلَّمَ فِيهِ كَبُرَيْدَةَ، كَمَا فِي الْبُخَارِيِّ. وَسَبَبُ ذَلِكَ كَمَا رَوَاهُ الذَّهَبِيُّ، وَصَحَّحَهُ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَهُ إِلَى الْيَمَنِ، فَرَأَى مِنْهُ جَفْوَةَ نَقْصِهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَتَغَيَّرُ وَجْهُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَيَقُولُ: «يَا بُرَيْدَةُ أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَفِي الْجَامِعِ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ : عَنِ الْبَرَاءِ، وَأَحْمَدُ عَنْ بُرَيْدَةَ، وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالضِّيَاءُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. فَفِي إِسْنَادِ الْمُصَنِّفِ الْحَدِيثَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ إِلَى أَحْمَدَ وَالتِّرْمِذِيِّ مُسَامَحَةٌ لَاتَخْفَى، وَفِي رِوَايَةٍ لِأَحْمَدَ وَالنَّسَائِيِّ وَالْحَاكِمِ عَنْ بُرَيْدَةَ بِلَفْظِ: «مَنْ كُنْتُ وَلِيُّهُ». وَرَوَى الْمَحَامِلِيُّ فِي أَمَالِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَفْظُهُ: «عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ مَوْلَى مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ». وَالْحَاصِلُ أَنَّ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ لَا مِرْيَةَ فِيهِ، بَلْ بَعْضُ الْحُفَّاظِ عَدَّهُ مُتَوَاتِرًا؛ إِذْ فِي رِوَايَةٍ لِأَحْمَدَ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُونَ صَحَابِيًّا، وَشَهِدُوا بِهِ لِعَلِيٍّ لَمَّا نُوزِعَ أَيَّامَ خِلَافَتِهِ، وَسَيَأْتِي زِيَادَةُ تَحْقِيقٍ فِي الْفَصْلِ الثَّالِثِ عِنْدَ حَدِيثِ الْبَرَاءِ". (باب مناقب علي بن أبي طالب، ج:٩ ط: دار الفكر)

"شرح أصول اعتقاد أهل السنة و الجماعة"میں ہے:

" أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: أنا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ، قَالَ: نا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، قَالَ: نا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: نا هِلَالُ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّمْلِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي بِسْطَامٍ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ: أَرَأَيْتَ قَوْلَ النَّاسِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَقَعَ بَيْنَ أُسَامَةَ وَبَيْنَ عَلِيٍّ تَنَازُعٌ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «يَا عَلِيُّ، يَقُولُ هَذَا لِأُسَامَةَ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّهُ» . وَقَالَ لِأُسَامَةَ: «يَا أُسَامَةُ، يَقُولُ هَذَا لِعَلِيٍّ، فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»". (رقم الحديث: ٢٦٤٠، ٨/ ١٤٥٩، ط: دار طيبة)

"الاعتقاد للبيهقي"میں ہے:

"فَقَدْ ذَكَرْنَا مِنْ طُرُقِهِ فِي كِتَابِ الْفَضَائِلِ مَا دَلَّ عَلَى مَقْصودِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ أَنَّهُ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيمَنِ كَثُرَتِ الشَّكَاةُ عَنْهُ، وَأَظْهَرُوا بُغْضَهُ، فَأَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَذْكُرَ اخْتِصَاصَهُ بِهِ وَمَحبَّتَهُ إِيَّاهُ، وَيَحُثُّهُمْ بِذَلِكَ عَلَى مَحَبَّتِهِ وَمُوَالِاتِهِ وَتَرْكِ مُعَادَاتِهِ، فَقَالَ: «مِنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَعَلِيٌّ وَلِيَّهُ»، وَفِي بَعْضِ الرُّوَايَاتِ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمْ وَالِ مِنْ وَالِاهُ وَعَادِ مِنْ عَادَاهُ». وَالْمُرَادُ بِهِ وَلَاءُ الْإِسْلَامِ وَمَودَّتُهُ، وَعَلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يوَالِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، وَلَا يُعَادِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا، وَهُوَ فِي مَعْنَى مَا ثَبَتَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ «أَنَّهُ لَا يُحِبُّنِي إِلَا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُنِي إِلَّا مُنَافِقٌ» . وَفِي حَدِيثِ بُرَيْدَةَ شَكَا عَلِيًّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَبْغِضُ عَلِيًّا؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: لَا تُبْغِضْهُ، وَأَحْبِبْهُ وَازْدَدْ لَهُ حُبًّا، قَالَ بُرَيْدَةُ: فَمَا كَانَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إليَّ مِنْ عَلِيٍّ بَعْدَ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"

اس روایت کی صحت و ضعف کو لیکر علماء اہل سنت میں اختلاف رہا ہے جبکہ اہل تشیع اس کے تمام مندرجات کے ساتھ متواتر گردانتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے خلاف ہے . إمام زیلعی حنفی رحمہ اللہ اور علامہ ابن تیمیہ رحمہما اللہ وغیرہما نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، امام زیلعی فرماتے ہیں " وكم من حديث كثرت رواته و تعددت طرقه وهو حديث ضعيف كحديث" من كنت مولاه فعلي مولاه "( نصب الراية في تخريج الهداية :1/189) یعنی کتنی ہی ایسی احادیث ہیں جن کے راوی اور سندیں بہت ہیں حالانکہ وہ ضعیف ہیں جیسے حدیث" من کنت مولاہ......... ،
علامہ إبن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛ ( وأما قوله من كنت مولاه فعلي مولاه فليس هو في الصحاح لكن هو مما رواه العلماء وتنازع الناس في صحته فنقل عن البخاري وإبراهيم الحربي وطائفة من أهل العلم بالحديث انهم طعنوا فيه... وأما الزيادة وهي قوله اللهم وال من والاه وعاد من عاداه الخ فلا ريب انه كذب) منهاج السنة 7/319) اور جہاں تک بات ہے " من کنت مولاہ فعلی مولاہ" کی تو یہ صحیح روایات میں سے نہیں ہے لیکن یہ علماء کی ان روایات میں سے ہے جن کی صحت کے سلسلے میں لوگوں نے کافی اختلاف کیا ہے پس امام بخاری، ابراہیم حربی اور حدیث کے ماہرین  علماء کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ وہ اس میں طعن کرتے ہیں، اور جہاں تک بات" أللهم وال من والاه و عاد من عاداه" کی ہے تو یہ جھوٹ ہے،
ان اقوال کے علاوہ بعض دوسرے علماء اہل سنت نے اس روایت کے اوپر منقول الفاظ کو صحیح قرار دیا ہے علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "له طرق يصدق بعضها بعضاً" ( تاريخ الإسلام:3/632 ) یعنی اس کئی طرق ہیں جو ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سندوں پر بحث کرنے کے بعد فرمایا " ذكرت وخرجت ما تيسر لي منها مما يقطع الواقف عليها بعد تحقيق الكلام على أسانيدها بصحة الحديث يقينا، وإلا فهي كثيرة جدا، وقد استوعبها ابن عقدة في كتاب مفرد، قال الحافظ ابن حجر: منها صحاح ومنها حسان. وجملة القول أن حديث الترجمة حديث صحيح بشطريه، بل الأول منه متواتر عنه صلى الله عليه وسلم كما ظهر لمن تتبع أسانيده وطرقه، وما ذكرت منها كفاية. (السلسلة الصحيحة :4/343) یعنی اس حدیث کے طرق میں سے جو مجھے میسر ہوئے ان کو میں نے ذکر کر دیا ہے جن کی اسانید پر واقفیت رکھنے والے پر تحقیق کے بعد قطعی یقین ہو جاتا ہے کہ ان کی اسانید صحیح ہیں، ورنہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے إبن عقدہ نے ان کو تفصیلاً ایک مستقل کتاب میں ذکر کیا ہے اور ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے ان اسانید میں کچھ صحیح جبکہ کچھ حسن بھی ہیں، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اپنے دونوں مضمون (من کنت مولاہ...... اور اللہم وال من والا...........) کے اعتبار سے صحیح ہے بلکہ پہلا مضمون تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر ہے جیسا کہ اسانید کا تتبع کرنے والے پر ظاہر ہے اور جو میں نے ذکر کیا وہ کافی ہے.

مسجد کی زمین پردوکانیں بنانا

 واضح رہے کہ اگر وقف زمین پر مسجد  کی تعمیر  سے  پہلے سے  نیچے والے حصے میں مسجد کے تقدس و احترام اور اَحکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے مسجد کے مصالح اور آمدنی کے لیے دکانیں بنائی جائیں تو اس کی  گنجائش ہے، اور ایسی صورت میں اوپر والی جگہ شرعی مسجد کے حکم میں ہوگی۔

 اور اگر  نیچے اور اوپر مسجد کی  تعمیر مکمل  ہوجائے تو بعد میں دوبارہ جدید تعمیر  یا کسی اور صورت کے تحت نچلے حصہ میں (جو مسجد بن چکاتھاوہاں)  دکانیں نہیں بنائی جاسکتی ہیں،  اور نہ ہی وضوخانہ بنایا جاسکتا ہے، مسجد میں  جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے مختص  کی جائے وہ  ہمیشہ کے لیے "تحت الثریٰ"  (زمین کی تہہ) سے  آسمان تک سب مسجد کے حکم میں ہو تی ہے، اس میں کوئی اور چیز تعمیر نہیں کی جاسکتی۔

جب وقف زمین پر  مطلق مسجدتعمیر شدہ تھی اور وہ جگہ  نماز پڑھنے کے لیے متعین ہوگئی تھی وہ ہمیشہ کے لیے "تحت الثری" سے  آسمان تک ہمیشہ کے لیے مسجد بن گئی تھی، اب جدید تعمیر میں وہاں  کسی قسم کی اور چیز بنانا جائز نہیں ہے، لہذ ا اگر مسجد کی نئی تعمیر میں مذکورہ دکانیں  پرانی مسجد کی نماز کے لیے مخصوص کی گئی جگہ کی حدود میں یا اس کے نیچے بنائی گئی ہے تو شرعاً ایسا کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ اس حصہ کو بھی  مسجد میں شامل کرنا ضروری ہے۔

البحر الرائق  میں ہے:

"حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لايضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح.

فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره، هل له ذلك؟  قلت: قال في التتارخانية: إذا بنى مسجداً وبنى غرفة وهو في يده، فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لايتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لايصدق". اهـ (  کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد ـ. 5/ 271 ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

''وإذا جعل تحته سرداباً لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس (ولو جعل لغيرها  أو) جعل (فوقه بيتاً وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجداً. (قوله: وإذا جعل تحته سرداباً) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره، كذا في الفتح. وشرط في المصباح أن يكون ضيقاً، نهر (قوله: أو جعل فوقه بيتاً إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجداً فيما إذا لم يكن وقفاً على مصالح المسجد، وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفاً عليه صار مسجداً. اهـ. شرنبلالية.((4/ 357، کتاب الوقف، ط: سعید)

Sunday 25 July 2021

تکبیرات تشریق ایک بار پڑھنی ہیں یاتین بار

 تکبیر تشریق نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی عصر تک ہرفرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے، تین بار کا قول بھی ہے، لیکن وہ ضعیف ہے، مشہور قول ایک بار ہی کا ہے: [ویجب تکبیرُ التشریق في الأصح للأمر بہ مرةً وإن زاد علیھا یکن فضلاً، وفي رد المحتار: أفاد أن قولہ : [مرةً] بیان للواجب، لکن ذکر أبو السعود أن الحموي نقل عن القراحصاري أن الإتیان بہ مرتین خلاف السنة إھ قلت: وفي الأحکام عن البرجندي ثم المشہور من قول علمائنا أنہ یکبر مرة، وقیل ثلاث مرات](شامي: زکریا:۳/۶۱)

شہرآشوب یاآشوب قیامت

آج کل

حرم تقریباً خالی، حج تقریباً معطل، مقاماتِ مقدّسہ جانے پر 10 ہزار ریال جرمانہ اور عمرہ بھی بند ۔۔۔۔۔ 

《 لیکن 》

سینما ہالز فُل۔۔۔فلم فیسٹیوَل شروع۔۔۔ (7 جولائی تک جاری رہا) ۔ کورونا کے دوران 20 نئے سینما کھل گئے۔۔۔ 

صرف ایک میٹا(META)مستند ذرائع کے مطابق  40 ہفتوں میں 73 ملین ڈالر کے سینما ٹکٹس فروخت ہونے کا ریکارڈ قائم ہوا

جبکہ اس دوران 

2020 پوری دنیا کی فلمی صنعت زبوں حالی کا شکار رہی۔ لیکن سرزمینِ وحی میں اسے عروج حاصل ہورہا۔۔

اناللہ و انا الیہ راجعون 

،● گزشتہ ماہ جدہ میں پندرہ دن کے وقفے سے دو بڑے میوزیکل کنسرٹ Musical۔Concerts ہوئے جن میں سعودی مرد و خواتین بغیر کسی قسم کے ایس۔او۔پیز  کے ناچ گانے کے مخلوط پروگرام میں شریک رہے۔۔۔۔

👈🏻 *ایک لاکھ سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوکر سٹیڈیم میں فٹ بال کا میچ دیکھ سکتے ہیں لیکن حرمین شریفین  میں نہیں آ سکتے*‼️

سعودی حکمراں طبقہ پر *وَھَنْ* مسلّط ہے تو ہم پر کس بات کا جبر ؟؟ 

ہم ان یکطرفہ بندشی قوانین کی بھر پور مذمّت کرتے ہیں ۔ تمہارا یہ رعب و دبدبہ تمہیں مبارک۔۔۔

*تمام مسلم ممالک مل کر  حج و عمرہ کھلوائیں۔۔ عوام اپنے اپنے ملکوں پر دباؤ بڑھائیں*

*خانۂ کعبه و مدینةالرسول(ص) آل سعود کی جاگیر نہیں۔۔پوری امتِ مسلمہ کا ورثہ ہے* ۔۔۔

پہلے بھی ایسے مواقع پر بین الاقوامی کانفرنسیں اور عالمی علما کی نشستیں ہوتی رہی ہیں ،،، اب کیا مصیبت یا مُردَنت مسلّط ہوگئی ہے کہ سب فیصلے  اسلام دشمن طاقتوں سے کروائے جارہے ہیں اور اربوں مسلمان صرف رو پیٹ رہے ہیں یا بس سو رہے ہیں ⁉️

لوگ حج کو بھولتے جارہے ہیں :

موذی کرونا سے پہلے لوگ سال بھر حج اور عمرہ کی باتوں اور کوشش میں مصروف رہتے  تھے ، ایام حج میں لوگوں کا شوق و ذوق مزید بڑھ جاتا تھا۔ 

کرونا کی اڑ  میں پرنس "ایم بی ایس" کا غلط اور غلیظ فیصلہ ۔۔۔۔۔۔ عالم اسلام رفتہ رفتہ قبول کرتا جارہا ہے ، سعودی کے اس "کافرانہ اور ظالمانہ"  فیصلے کیخلاف دنیا کے کسی بھی حصے سے احتجاج بلند نہیں ہورہا ہے ،   سعودی کے سینما ھال کھل گئے ہیں جہاں کوئی "ایس او پیز"  لاگو نہیں  ، کیسینوز میں وہی چہل پہل ہیں ، ہوٹلز اور شاپنگ مالز میں وہی رونقیں ہوتی ہیں مگر حرمین بند پڑے ہیں ۔

 تعجب کی بات ہے ، یورپ بھر میں  "یوروکپ فٹ بال ٹورنمنٹ" کے دوران  وہی پرانی جوش وخروش دیکھنے میں اتی ہے لیکن حرمین پر ابھی تک کویڈ 19 کی نخوست کا سایہ ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ کرونا نہیں ہے یا ویکسین ضروری نہیں ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ 

جب یورپ و امریکہ میں کھیل کے میدانوں میں عوام کا ھجوم دیکھتے ہیں ، دوسری طرف سعودی اور امارات میں کاروباری ، تفریحی اور "انٹرٹینمنٹ" والی مقامات پر وہی پرانی سرگرمیاں ، وہی رونقیں ، وہی نظارے اور وہی چہل پہل نظر اتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ، 

تو ۔۔۔۔۔  "حرمین" کی بے بسی اور بیکسی پر رونا آتا ہے ۔۔۔۔۔۔ !!

 روایت ہے کہ 

" خانہ کعبہ بنانے کے بعد جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وحی آئی کہ اب اعلان کرو تو آپ نے تعجب سے فرمایا اس صحرا سے میری  آواز دنیا تک کیسے پہنچے گی تو جبریل نے  فرمایا ، یہ آپکا کام نہیں ہے آپ صرف اعلان کریں آواز پہنچانا "ہمارا"  کام ہے"-