https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 13 April 2024

استصحاب

 



استصحاب فقہ اِسلامی کی ایک اصطلاح ہے۔ اِسے استدلال کی ایک جزوی قسم سمجھا جاتا ہے۔

اشتقاقیاتترمیم

استصحاب کا مادہ صحب ہے، اس کے لغوی معنی مصاحبت کے طلب کرنے کے بھی ہیں اور صحبت و رفاقت کے طلب کرنے کے بھی ہیں اور صحبت و رفاقت کے استمرار کے بھی[1]،استصحاب میں چونکہ سابق حکم کااستمرار و تسلسل باقی رہتا ہے ، اس لیے علما اصول نے اس اصطلاح کو استعمال کیاہے۔

تعریفترمیم

فقہا نے استصحاب کی مختلف تعریفیں کی ہیں ، چند تعبیرات یہاں ذکر کی جاتی ہیں :

(1) دلیل کے نہ ہونے کی وجہ سے کسی حکم کی نفی یا جو بات دلیل سے ثابت ہو اس کے باقی رہنے پر استدلال کرنا[2]۔

(2) جو چیز زمانۂ اول میں ثابت ہو اس کو آئندہ زمانہ میں بھی ثابت ماننا ، کیونکہ تغیر حال پر کوئی دلیل موجود نہیں[3]

(3)کسی دلیل عقلی یا دلیل شرعی کو اس بنیاد پر اختیار کرنا کہ باوجود تلاش کے اس حکم میں تغیر کی کوئی دلیل موجود نہ ہو، یہ امام غزالی کی تعریف کا خلاصہ ہے[4]

(4)جو حکم ثابت ہو اس کو ثابت اور جس بات کی نفی ثابت ہو ، اس بات کی نفی کا حکم اس وقت تک برقرار رکھنا جبتک کہ تبدیلئ حکم پر کوئی دلیل نہ آجائے، یہ ابن قیم کی تعریف ہے[5]

(5) جو بات متحقق ہو چکی ہو اور اس کے ختم ہونے کا گمان نہ ہو، اس کے باقی رہنے کا ظنی حکم، یہ تعریف علامہ ابن ہمام اور ان کے شارحامیر بادشاہ کی ہے [6]

(6) جب تک تبدیلی پر کوئی دلیل موجود نہ ہو حکم کو باقی قرار دینا [7]

(10) جوحکم ماضی میں کسی دلیل سے ثابت ہو اس کے بر خلاف حکم نہ ہونے کی وجہ سے زمانۂ حال میں بھی اس حکم کو باقی قرار دینا یہ تعریف شیخ عبد الوہاب الخلاف نے کی ہے[8]

ان تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کے ذریعہ کوئی حکم پہلے سے ثابت ہو اور کوئی صرح دلیل اس حکم کے آئندہ باقی رہنے پر موجود ہواور نہ اس حکم کے ختم ہو جانے پرایسی صورت میں اس حکم کو باقی اور مسلسل قرار دینے کا نام استصحاب ہے، خواہ ماضی کے حکم کو حال میں یا حال کے حکم کو مستقبل میں یا ماضی میں  موجود سمجھا جائے۔

فقہی تشریحترمیم

اِستِصحاب کے لغوی معنی ہیں: ’’باقی رکھنا‘‘۔ ازروئے استدلال یہ طے کرنا کہ کسی چیز کا وجود یا عدمِ وجود علیٰ حالہٖ قائم رہے، تا آنکہ تبدیلیٔ حالات سے اِس میں تبدیلی پیدا نہ ہوجائے۔ یہ گویا وہ عقلی دلیل ہے جس کی بنا نہ تو نص پر ہے، نہ اجماع پر اور نہ ہی قیاس پر ہی ہے۔ جیسا کہ علی بن محمد الآمدی (متوفی 631ھ) نے کہا ہے کہ: ’’ھُوَ عِبَارَۃٌ عَنْ دَلِیْلِِ لَا یَکُوْنُ نَصًّا وَ لَا اِجْمَاعًا وَ لَا قِیَاسًا ۔[9]

استدلال کی 2 اِقسام ہیں: اول استدلال منطقی، جس کو مثال سے یوں پیش کیا جا سکتا ہے کہ بیع کا ایک معاملہ ہے اور یہ ہر معاملے کا سب سے بڑا جزو کہلاتا ہے، یعنی رضا مندی۔ جسے اگر تسلیم کر لیا جائے تو یہ ایک ایسا قول ہوگا جس کے ساتھ ایک دوسرا قول بھی تسلیم کرنا پڑے گا اور وہ یہ کہ بیع کا سب سے بڑا جزو رَضا مندی ہے، کیونکہ یہ منطقی نتیجہ ہے قولِ اَول کا، جس پر ازروائے عقل کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا اور جسے اِس لیے من و عن صحیح ماننا پڑے گا۔ استدلال کے دوسری قسم ’’استدلال عقلی‘‘ ہے جسے اصطلاحاً اِستصحاب الحال کہا جاتا ہے اور اِس کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ:’’ یہ وہ دلیل عقلی ہے کہ کوئی اگر اور دلیل (یعنی نص، اجماع اور قیاس کی) موجود نہیں تو پھر اِس (یعنی اِستصحاب) سے کام لیا جائے گا۔مثلاً اِس صورت میں جب کسی چیز کے وجود یا عدمِ وجود کو باقی رکھنا مقصود ہے حتیٰ کہ حالات تبدیل ہوجائیں یا بدل جائیں۔ امام شافعی کے متّبعین میں سے اکثر یعنی المزنی، الصیرفی، امام غزالی اور ایسے ہی امام احمد بن حنبل اور اُن کے اکثر پیرو اور اِسی طرح شیعہ امامیہ بھی خاص خاص صورتوں میں استصحاب کے قائل ہیں۔ البتہ احناف میں سے بعض کو اور متکلمین کی ایک جماعت کو اِس سے اِنکار ہے۔[10]

امام ابن قَیَّم الجوزیہ کا قولترمیم

امام ابن قَیَّم الجوزیہ (متوفی 751ھ) نے اِستصحاب کی تعریف اِن الفاظ میں کی ہے کہ: ’’جو ثابت ہے، اُس کا اثبات اور جس کی نفی ہو چکی ہے، اُس کی نفی کو قائم رکھنا ہے اور اِس کی تین اِقسام ہیں: ’’اسْتِدَامَۃُ إثْبَاتِ مَا کَانَ ثَابِتًا اَوْ نَفْیُ مَا کَانَ مَنْفِیًا وَ ھُوَ ثَلَاثَۃُ اَقْسَامِِ۔[11]

استصحاب کی صورتیںترمیم

علما اصول نے استصحاب کی پانچ صورتیں ذکر کی ہیں،

(1) جو حکم شرعی پہلے سے سے ثابت ہو جب تک اس میں تبدیلی کی کوئی دلیل نہ آجائے ، اس کے باقی رہنے کا حکم لاگایا جائے، جیسے نکاح صحیح کے ذریعہ جب مردو عقرت ایک دوسرے کے لیے حلال ہو گئے، تو جب تک نکاح کے ختم ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو وہ ایک دوسرے کی لیے حلال ہی رہیں گے۔

(2)بعض احکام وہ ہیں جو عقل اور شریعت دونوں ہی کے ثبوت و استمرار کا تقاضا کرتے ہیں، مثلا کسی شخص نے دوسرے سے قرض لیا یا ادھار سامان خریدا، تو جب تک دین ادا نہ کر دے یا دوسرا فریق بری نہ کر دے،  اس وقت تک اس کی ذمہ داری باقی رہے گی۔

(3) کوئی حکم عام ہو تو جب تک تخصیص پر کوئی دلیل نہ آجائے وہ عام رہے گا، اسی طرح  جب کوئی نص وارد ہو تو جب تک دلیل نسخ نہ آجئے وہ حکم باقی رہے گا۔

ان تینوں صورتوں کے معتبر ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے۔

(4) جب تک کسی امر کے بارے میں نص وارد نہ ہو اس وقت تک وہ جائز شمار کیا جائے، انسان اسی وقت مکلف ہوگا ، جب اس کو کسی حکم کا مکلف قرار دینے پر نص موجود ہو۔

(5) اختلافی مسئلہ میں اتفاقی مسئلہ کے حکم کو باقی رکھا جائے، جیسے ایک شخص نے تیمم کیا اور نماز شروع کردی ، تو اگر پانی نظر آنے سے پہلے اس نے اپنی نماز پوری کرلی تو بالاتفاق نماز پوری ہوجائے گی اور اگر نماز کے ختم ہونے سے پہلے پانی نظر آجائے تو اس صورت میں اختلاف ہے ، اس اختلافی صورت میں پانی نظر آنے سے پہلے والے حکم کو باقی رکھا جائے یہ بھی استصحاب کی ایک قسم ہے، جس کو استصحا اجماع کہتے ہیں، حافظ ابن قیم کے بقول ان میں سے آخری دو صورتوں کے بارے میں اختلاف ہے اور باقی صورتوں کے معتبر ہو نے کے سلسلہ میں اصولی طور پر اتفاق ہے۔[12]

استحسان

 

استحسان ایک دلیل کا نام ہے جو قیاس کے مخالف ہوتا ہے۔ جب یہ قیاس سے اقوٰی ہو تو اسی پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس کو استحسان اسی لیے کہتے ہیں کہ عموماً یہ قیاس سے اقوٰی ہوتا ہے ۔[1]

استحسان کی تعریفترمیم

ائمہ احناف نے استحسان کی تعریف مختلف الفاظ میں کی ہیں :

  • 1۔ ایک قیاس سے دوسرے قیاسِ قوی کی طرف عدول کرنے کا نام استحسان ہے۔
  • 2۔ قیاس کو کسی قوی دلیل کے ساتھ خاص کرنے کا نام استحسان ہے۔
  • 3۔ اس دلیل کا نام استحسان ہے جومجتہد کے دل میں بطورِ اشکال پیدا ہوتی ہے اور الفاظ چونکہ اس دلیل کا ساتھ نہیں دیتے ؛اس لیے مجتہد اس کوظاہر کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔
  • 4۔ ابو الحسن کرخیؒ فرماتے ہیں کہ استحسان کا مطلب یہی ہے کہ مجتہد ایک مسئلہ میں جوحکم لگاچکا ہے جب اسی طرح کا دوسرا مسئلہ آجائے تواس میں وہی حکم صرف اس لیے نہ لگائے کہ کوئی قوی دلیل ایسی موجود ہو جس کی وجہ سے پہلے جیسا حکم لگانا مناسب نہ ہو۔

استحسان کی حقیقت پر جتنی تعریفات احناف نے کی ہیں ان سب میں زیادہ واضح تعریف امام ابوزہرہ نے اسی کو قرار دیا ہے ؛ کیونکہ یہ استحسان کے تمام انواع کو شامل ہے، خلاصہ یہ ہے کہ استحسان قوی ترین دلیل کو اختیار کرنے کا نام ہے، مالکیہ کے نزدیک بھی استحسان کی یہی تعریف ہے۔

معنی و مفہومترمیم

لغت میں استحسان کے معنی کسی بھی شے کے بارے میں حسن کا اعتقاد رکھنا، چاہے وہ واقع کے مطابق ہو یا اس کے خلاف ہو اور شرعی نقطۂ نظر سے استحسان وہ چیز کہلاتی ہے جس کی حجتِ شرعیہ تقاضا کرتی ہے چاہے اس کا دل اس کو مستحسن سمجھے یا نہ سمجھے۔ فقہ اسلامی کی رُو سے ایک ایسی اصطلاح ہے جسے فقہ حنفی میں بمقابلۂ قیاسِ جلی‘ قیاسِ خفی پر محمول کیا جاتا ہے اور جس کی حیثیت ایک ایسی دلیل کی ہے جو مجتہد کے دل پر تو نقش ہوتی ہے لیکن وہ الفاظ میں اِسے ظاہر نہیں کرسکتا۔ شمس الائمہ سرخسی (متوفی 483ھ) نے استحسان کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’ ھُوَ تَرکُ الْقِیَاسِ والْاَخْذُ بِمَا ھُواَوْفَقُ لِلنَّاسِ ‘‘[2]۔ ڈاکٹر صبحی محمصانی نے بھی یہی تعریف کی ہے[3]۔ یعنی قیاس کی جگہ کوئی ایسی بات اِختیار کرنا جو انسانوں کے لیے زیادہ نفع بخش ہو۔ استحسان گویا وہ دلیلِ شرعی ہے جسے خاص خاص حالات میں قیاس پر ترجیح دی جاتی ہے، لیکن اِن خاص حالات کی تعیین اگر ذاتی رائے سے ہوئی جس میں ظاہر ہے کہ طرح طرح کے رجحانات کارِ فرماء ہوں گے، تو اُسے دلیلِ شرعی کیسے تسلیم کیا جائے گا؟۔ یہی سبب ہے کہ مذہبِ شافعی میں اِسے دلیلِ شرعی تسلیم نہیں کیا گیا اور اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دلائل شرعیہ میں صرف دلیلِ استحسان ہی کو استحسان کیوں کہا جائے؟۔ کیونکہ شریعت میں تو ہر کہیں استحسان ہی استحسان ہے۔ لہٰذا دلائلِ شرعیہ میں ایک نئی دلیل کا اِضافہ بے محل ہے۔ پھر اگر یہ بھی کہا جائے کہ استحسان کا تعلق قیاس سے ہے تو بقول امام ابن قَیِّم الجوزیہ : ’’شریعت میں کوئی شے خلافِ قیاس نہیں اور اگر ہے تو دو حالتوں سے خالی نہیں: یا تو قیاس ہی فاسد ہوگا؛ یا کوئی ایسا حکم شرعی ہوگا جو نص سے ثابت نہیں ہوتا[4]۔

انتباہ انتباہ: درجۂ چہارم سے قبل درجۂ سوم کی سرخی لازمی ہے۔ (مزید تفصیلات)

فقہ شافعی میں استحسان کی مخالفتترمیم

امام شافعی (متوفی 204ھ) کہتے ہیں: ’’ مَنِ اسْتَحْسَنَ فَقَدْ شَرَعَ‘‘ [5]۔ گویا امام شافعی کے نزدیک استحسان عبارت ہے شریعتِ اسلامیہ میں ایک نئی تشریح سے ‘ جو ظاہر ہے کہ ناقابلِ قبول ہوگی۔ متکلمین میں بھی علمائے اُصول امام شافعی سے متفق الرائے ہیں اور اِسے دلیلِ فاسد ٹھہراتے ہیں، لہٰذا اِس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل امام شافعی کو یہ اندیشہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ استحسان حدودِ شریعت سے تجاوز کا ذریعہ بن جائے۔ یوں ایک ہی مسئلہ میں مختلف اور من مانے فیصلوں کا راستہ کھلتا چلا جائے گا اور مفتیانِ شرع جیسا چاہیں گے، فتویٰ دیں گے اور ہم اُن کی اِطاعت پر مجبور ہوجائیں گے۔ حالانکہ اِطاعت کا حق تو اُسی کو پہنچتا ہے جس کی اِطاعت اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے، خواہ صراحۃً، خواہ ایسے دلائل کی بنا پر جن سے یہ حکم ثابت ہوجائے۔حُجَّۃ الاسلام امام محمد الغزالی (متوفی 505ھ) نے بھی استحسان پر یہی اعتراض کیا ہے کیونکہ وہ بھی شافعی المذہب تھے۔ امام غزالی کے نزدیک استحسان کا مطلب یہ ہوگا کہ باوجود ایک دلیلِ قوی کے ہم قیاس کو ترک کر رہے ہیں[6]۔

قاضی بیضاوی (متوفی 685ھ)، سیف الدین الآمدی (متوفی 631ھ)، تاج الدین سبکی (متوفی 771ھ) جو علمائے مذہب شافعیہ ہیں، نے بھی امام شافعی کی رائے کو قبول کیا ہے اوراستحسان سے متعلق کوئی نیا نظریہ پیش نہیں کیا۔ اِن تمام علمائے شوافع کا کہنا ہے کہ: استحسان کی اجازت صرف اُس صورت میں دی جا سکتی ہے جب اُسے تخصیص کے تحت لایا جاسکے، یعنی کسی جزئی حکم کو کلّی حکم پر ترجیح دی جائے؛ لیکن تخصیص چونکہ نظریۂ قیاس میں پہلے سے ہی شامل ہے، اِس لیے استحسان غیر ضروری ہے۔ بقول سیف الدین الآمدی: اِختلا ف اِس میں نہیں کہ لفظ استحسان کا اِطلاق جائز ہے کیونکہ وہ کتاب و سنّت میں موجود ہے اور اہلِ لُغت بھی اِسے استعمال کرتے ہیں؛ اختلاف اُس میں ہے جو ائمہ سے اِس بارے میں منقول ہے کہ استحسان کی سند قرآن کی آیت ’’ اَلَّـذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٝ‘‘ ہے[7][8]۔

مذہبِ حنفی میں استحسان کا مفہومترمیم

متذکرہ ٔ بالا تمام اُن تعریفوں کے مذہبِ حنفی میں استحسان کا وہ مطلب ہرگز نہیں جو مخالفین نے سمجھا ہے کہ یہ محض ایک قولِ بے دلیل یا ایسا قول ہے جو ہوائے نفس پر مبنی ہے، بلکہ وہ ایک ایسا قیاس ہے جو کسی دوسرے قیاس سے متعارض نہ ہو؛ لہٰذا مذہبِ حنفی میں جب قیاس سے اِنحراف کیا جاتا ہے تو کسی ذاتی رجحان یا رائے کی وجہ سے نہیں بلکہ بعض ایسی مضبوط اورٹھوس دلیلوں کی بنا پر جن کی گنجائش قانون میں موجود ہے۔ استحسان گویا ایک طرح کا قیاسِ خفی ہے، یعنی ایک ظاہری قیاس (جسے قیاسِ جلی بھی کہتے ہیں) سے ایک باطنی اور مشروط بالذَّات قیاس کی طرف اِنحراف اور وہ بھی اِس صورت میں جب استحسان کی بنا کسی ایسی عِلَّت پر ہو، جو کتاب و سنَّت اور اجماع میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اِس مسئلہ میں زیادہ غور و تفحُّص سے کام لیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ استحسان میں نہ تو حدودِ شریعت سے تجاوز کا اِمکان ہے (جیسا کہ مخالفین کو اندیشہ تھا) اور نہ اِس اَمر سے انکار کیاجاسکتا ہے کہ اِس قسم کا استدلال دوسرے مذاہبِ فقہ نے بھی جائز ٹھہرایا ہے مثلاً استصلاح کہ استحسان ہی سے ملتی جلتی ایک دلیل ہے جبکہ نزاع جو کچھ بھی ہے‘ محض لفظی ہے۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ اِس نوع کی دلیل سے تو اِنکار نہیں کیا جا سکتا؛ اِنکار تو اِس اَمر سے کہ : ’’کیا اِسے استحسان کہا جائے یا کچھ اور؟‘‘ [9]۔
احناف کے مشہور فقیہ بدر الدین شوکانی (متوفی 1250ھ) نے لکھا ہے کہ: ’’استحسان قیاس ہی کی ایک شکل ہے‘‘ مزید لکھا کہ: ’’ العُدُولُ مِنْ اِلٰی قِیَاسٍ اَقْویٰ‘‘ (کسی قیاس سے اِنحراف زیادہ قوی قیاس کی طرف)، ورنہ اگر کوئی مسئلہ مختلف فیہٖ ہے تو اِس میں استحسان کام نہیں دے گا اور اگر مختلف فیہٖ نہیں تو پہلے ہی سے ازروئے کتاب و سنَّت اور اجماع ثابت ہے[10]۔یوں استحسان بھی دو اِقسام میں منقسم ہوجاتا ہے: ایک وہ جس کی تاثیر مخفی ہے، دوسرا وہ جس کی صحت تو ظاہر ہے لیکن فساد مخفی۔ ایسے ہی قیاس کی بھی دو اِقسام ہیں: ایک جس کی تاثیر میں ضعف ہے؛ دوسرا وہ جس کا فساد تو ظاہر ہے لیکن صحت مخفی۔لہٰذا جب یہ چاروں اَشکال باہم متعارض ہوں تو استحسان کی پہلی قسم کو سب سے زیادہ قوی سمجھا جائے گا، پھر قیاس کی شکلِ اَوَّل کو، پھر قیاس کی شکل دؤم اور پھر استحسان کی شکل دؤم کو قوی سمجھا جائے گا۔[11]

استحسان کی ضرورت کب پیش آتی ہے؟ترمیم

استحسان کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے جب کوئی قیاس اِس سے متعارض ہو۔ قیاس کے بغیر استحسان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ ہم اِسے ایک ایسے قیاس پر جو موجودہے (یعنی جلی)، اِس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ ایک دوسرا قیاس (یعنی قیاسِ خفی)۔ اِس سے متعارض ہے اور بسببِ صحت و اثر قیاسِ جلی سے بہتر ہے۔اندریں صورت یہ اندیشہ غلط ہے کہ استحسان کے باعث شریعت کی مقررہ حدود سے تجاوز کا اِمکان پیدا ہوجاتا ہے۔ البتہ شروع شروع میں اِس اَمر کی پیش بندی ضروری تھی اور اِس لیے اوائل اسلام کے فقہا نے اِس کی سخت مخالفت کی تاکہ ایسا نہ ہو کہ دلائلِ شرعیہ میں کسی ایسی دلیل کا اِضافہ ہوجائے جس کا ثبوت کتاب و سنّت میں نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے اَحناف نے اِس باب میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے جیسے کہ ابن ہمام(متوفی 861ھ)، ابن امیر الحاج (متوفی 879ھ)، محب اللہ بہاری (متوفی 1708ء)،بحرالعلوم محمد عبد العلی نظام الدین (متوفی 1810ء)، اِن علما نے استحسان پر بڑی شرح و بَسط اور دقّتِ نظر سے بحث کی ہے۔[12][13][14]

کتابیاتترمیم