https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 7 November 2020

 مفتی رشیداحمدمالپوری رحمہ اللہ

ڈاکٹرمفتی محمدعامرالصمدانی 

قاضئ شریعت دارالقضاء

 آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ علی گڑھ


حضرت مولانامفتی رشید احمد مالپوری رحمہ اللہ میوات کے ممتازعلماء وفقہاء کے سرخیل ,اپنے وقت کے جید ومستند عالم تھے,ان کے والد گرامی حضرت مولاناعبداللہ مالپوری قدس سرہ  بھی  میوات میں اپنے وقت کے بے نظیر و جید عالم دین باکمال مناظرومصلح اور میوات کے محسنین میں سے تھے وہ موضع دھیرنکی یا دھیرنکا میں پیداہوئے تقریبا بیس باییس سال کی عمر میں میوات کے ایک بزرگ سے 'رسالۂ بے نمازاں' سن کر مشرف بہ اسلام ہوئے اور 'سین' کے بجائے عبداللہ نام رکھا مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں ابتدائ عربی فارسی پڑھی ڈابھیل میں علامہ انور شاہ کشمیری کی خدمت میں شرف تلمذ حاصل کیامشہور مفسر قرآن مولاناعبیداللہ سندھی کے شاگرد رشید مولانا احمد علی کی خدمت میں لاہور گئےدارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوکرمیوات میں اصلاح المسلمین کابیڑااٹھایا .گوت پال کی رسوم باطلہ کے خلاف آوازاٹھائی ,جبکہ میوات کے مسلم معاشرہ میں گوت بچاکرہندوانہ طرزپرشادی کرناضروری سمجھاجاتاتھا اور اس کے خلاف  اٹھنے والی  ہرآواز کے خلاف پوری میو قوم  متحد ہوجاتی تھی ایسے وقت اس جاہلانہ طریق کے خلاف بات کرناجوئے شیرلانے سے کم نہ تھا 

میرے والد صاحب مرحوم ان کی خداترسی للہیت اور مناظروں کا ذکراکثرفرماتے تھے . ایک مرتبہ فریق مخالف مولاناعبداللہ سے حوالہ دینے کے باوجود باربار مطالبہ کرتے رہے اس پر آپ نے فرمایا:"لایوچھورا اینٹ البحرے"مراد یہ تھاکہ یہ لاتوں کے یار باتوں سے نہیں مانیں گےاور اس کے لئے بحررائق کے محاذی "اینٹ البحر"کی اصطلاح فی الفور وضع کردی والد صاحب فرماتے تھے کہ میں نے انہیں اونٹ پر سواری کرتے بارہادیکھاتھا.بہرکیف مفتی صاحب انہی کے فرزندرشید تھے. میل کھیڑلا کے سالانہ اجلاس میں اکثر ان کی شرکت ہوتی تھی .میں نے دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا میں ہی پہلی بارانہیں دیکھا تھا.میری طالبعلمی کازمانہ تھا,مدرسہ میں ششماہی یاسالانہ امتحانات چل رہے تھے.مفتی صاحب کی شہرت علمی اورتفوق سے نہ صرف ہم لوگ واقف تھے بلکہ  ممتحن ہونے کی وجہ سے ان کےنام سےسہمے ہوئے بھی تھے.ان کاقیام کتب خانہ میں رکھاگیاتھا,مولاناعلی محمد صاحب (ہرواڑی )مرحوم نے میری ڈیوٹی لگائی کہ کتب خانہ میں کتابوں کوترتیب سے صاف کرکے لگادوں.مفتی رشیداحمد صاحب یہاں قیام کریں گے اور ہدایہ اولین کاامتحان لیں گے.میں نے کتابیں ترتیب سے لگائیں .اس وقت کتب خانہ مولاناعلی محمدصاحب رحمہ اللہ( ہرواڑی) کےحجرے سے متصل قدیم بلڈنگ میں تھا اس کے نیچے اناج کاگودام ہواکرتاتھا.مدرسہ کی وہ سب سے قدیم عمارت تھی اس میں نیچے مطبخ ,گودام پولی,اوراوپردفترنظامت واہتمام تھا.جس میں اکثرحضرت مولانامحمدعثمان روپڑاکا مدظلہ  بیٹھتے تھے.کبھی کبھی مہتمم صاحب رحمہ اللہ  بھی تشریف فرماہوتے تھے.مفتی رشید صاحب نے ہماراہدایہ اولین کا امتحان لیا. ہدایہ اولین مولاناسعیدالرحمان بستوی پڑھایاکرتے تھے وہ اسی سال دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوکرآئے تھے.عربی زبان وادب سے انہیں خصوصی دلچسی تھی.مولاناوحیدالزماں کیرانوی علیہ الرحمہ کے خاص شاگرد تھے.مجھ پر ان کی خصوصی شفقت وعنایات تھیں.عطیۃ الابراشی کی ایک افسانوی کتاب بھی انہوں نے مجھے خاص طورپر پڑھائی تھی.وہ ہدایہ کی عربیت کے بہت مداح اوراردوشروحات کے مخالف بلکہ متنفر تھے,متن پرخاص توجہ دیتے لمبی چوڑی تقریرات سے گریز کرتے خدامعلوم حیات ہیں یاحیات جاویدکے زیرسایہ ابدی نیند سوگئے,حل عبارت پر توجہ مرکوز رکھتے تھے.مفتی صاحب نے کتاب الطہارۃ سے عبارت پڑھنے کا حکم دیا کسی سے صرف عبارت پڑھوائی کسی سے ترجمہ کرایا میں نے اپنی باری پرعبارت پڑھی ترجمہ کیا .میں آج بھی اس عبارت کو نہیں بھولتاجواب سے تقریبا تیس سال پہلے میری زبان پرایسی آئی کہ بھلائے نہیں بھلتی چونکہ اس کاتعلق وضوسے ہے اس لئے اب بھی اکثرزبان پر آجاتی ہے .عبارت یہ تھی: والوعیدلعدم رؤیتہ سنۃ.مفتی صاحب نے فرمایا اس کا ترجمہ کرومطلب بتاؤ.میں نے بین السطور حواشی کی مدد سے اس کاترجمہ اور مطلب بتایا,فرمایارؤیتہ میں ضمیر کامرجع کیا ہے؟میں نے عرض کیا الثلاث.,پھرجلدی سے حاشیہ پڑھنے کے بعد مطلب بتایاکہ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے,سوال یہ ہے کہ  اگر کسی نے تین مرتبہ سے زیادہ یاکم اعضاء وضوکودھویاتویہ بھی جائزہے, البتہ تین مرتبہ دھونے کوسنت نہ سمجھناخلاف سنت ہونے کی بنا پرگناہ ہے  حدیث میں اس پر وعید بھی آئی ہے.اور عبارت کا ترجمہ یہ ہے:وعید تین مرتبہ اعضاء وضودھونے کو سنت  نہ سمجھنے کی بناپر ہے.مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ مفتی صاحب نے پچاس اعلی ترین نمبرات میں سے مجھے 51نمبرات سے نوازا.تب سے یہ عبارت ذہن میں ایسی رچ بس گئ کہ نوک زبان رہتی ہے. اس کے بعدمفتی صاحب سے تقریب بہرملاقات کا سلسلہ  اللہ کی طرف سے ایسا مقررہواکہ جب بھی علی گڑھ سے میوات جاناہوتا اکثرملاقات کے لئے میں حاضرہوجاتا.ایک مرتبہ میں مدرسہ عبدیہ ہتھین میں حاضرہواتوخیریت معلوم کرنے بعد پوچھاپچانکامیں تمہاری سسرال کس خاندان میں ہے.؟میں نے تفصیل بتائی توفرمایامیری بھی سسرال پچانکامیں ہے.پھرکئ نام ذکرکئے .ان کے برادرخوردمولانانورالدین مرحوم سے بھی اکثرملاقات ہوتی تھی.مدرسہ کے کتب خانہ میں تذکرہ علماء پنجاب مطبوعہ لاہور میں نے مطالعہ کے لئے لی تومولانانے دریافت کیا پنجاب ہی کے علماء کا تذکرہ کیوں آپ پڑھ رہے ہیں ؟میں نے بتایاکہ علی گڑ مسلم یونیورسٹی سے مجھے یہ ریسرچ کا موضوع ملا ہے:'مشرقی پنجاب کا عربی زبان وادب میں حصہ,ایک تنقیدی مطالعہ 1947تک'اس لئے اس کامطالعہ کررہاہوں .مفتی صاحب سے میں نے ان کے والد گرامی سے متعلق دریافت کیاکہ عربی زبان میں بھی ان کی کوئی تصنیف ہے؟فرمایانہیں.

مفتی صاحب کے چھوٹے بھائی مولانابشیراحمد راشد الامینی  علیہ الرحمہ میرے والد محترم  مولانا رحیم بخش رحمہ اللہ (متوفی 28مئ 2005)کے ہم جماعت تھے.ان سے بھی دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا میں اکثر شرف نیاز ہوتارہتاتھا.ایک مرتبہ مہتمم صاحب حضرت مولانا محمدقاسم نوراللہ مرقدہ نے وفاق میوات کے نام سے ایک تنظیم بنائی اس کا پہلا اجلاس میل کھیڑلا میں ہوا مدعووین میں سبھی مشاہیر وسرکردہ علما ء میوات تھے :ان میں مفتی رشید احمد مالپوری ,مولانابشیراحمد راشدالامینی ,مولامحمدقاسم شیرپنجاب,مفتی جمال الدین الوری رحمہم اللہ ,وغیرہ قابل ذکرہیں.

اب انہیں ڈھونڈوچراغ رخ زیبا لے کر.

میرے ذمہ استقبالیہ میں مہمانان گرامی کے نام پتے درج کرنے اور مہمان خانہ تک پہنچانے کی خدمت سپرد تھی,اس لئے سبھی سے تعارف ہوگیاتھا.

مفتی صاحب ان دنوں بھی دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا کے کتب خانہ ہی میں منہمک نظر آئے. مفتی رشید احمد کوجوبات عام علماء میوات سے ممتاز کرتی تھی وہ ان کا تبحرعلمی زہد وتدین اور انہماک کتب تھا.مدرسہ عبدیہ ہتھین میں ان کا کتب خانہ نایاب ونادرذخیرۂ کتب پر مشتمل ہے.فقہ وفتاوی کی زیادہ ترمعروف ومتداول کتابیں وہاں موجود ہیں.انہوں نے مدرسے کی تعمیرات پرکبھی زورنہیں دیالیکن کتابوں کے بارے میں ان کا رویہ بالکل مختلف تھا.مالپوری میں ان کاذاتی ذخیرۂ کتب اور بھی عظیم الشان ہے.اس جلالت علمی کے باوجود ان کی سادگی بے نفسی وبے نیازی قابل دید تھی.مالپوری میں انہیں اس نہایت سادگی میں دیکھ کردل کوجلاء ملتی تھی,مدرسہ عبدیہ ہتھین ہمارے زمانے میل کھیڑلاہی کی طرح تعلیمی اعتبارسے مشہورومعروف ادارہ تھا.لیکن اساتذہ وطلباء کے مابین ایک حادثہ پیش آگیابڑی جماعت کے طلباء نے ایک استاذ کی شان میں گستاخی کردی اس کے بعد سے ہی مفتی صاحب مرحوم نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پرمزیدزوردینے کا عہد کیااور عربی کے طلباء کے بجائے تجوید و قرأت اور مکتب کی تعلیم کوترجیح دی.

1989میں جب میراداخلہ دارالعلوم دیوبند میں ہواتووہاں طلباء میوات کی انجمن اصلاح البیان کی الماری میں انجمن کے اصول و ضوابط پرمشتمل ایک کتابچہ چلا آتاتھاجومفتی رشید احمد مالپوری علیہ الرحمہ نے اپنے ہاتھ سے کتابت کیاتھا.ہم اراکین انجمن اسے احتیاط سے محفوظات قدیمہ میں رکھتے تھے.خدامعلوم وہ تحریراب محفوظ ہے یانہیں!

میں نے انہیں حضرت مولانامسیح اللہ خان صاحب جلال آبادی رحمہ اللہ کی خدمت میں ان دنوں دیکھا تھا جب میں دارالعلوم دیوبند میں درجۂ ششم کا طالب علم تھا.یہ 1989کا واقعہ ہے.اس کے بعد میں نے بھی حضرت مسیح الامت کی خدمت میں دیوبند سے گاہے گاہے جانا شروع کردیا,حضرت کوچندخطوط بھی لکھے آپ کے جوابی گرامی نامے آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں.

مجھے یہ جان کرسخت افسوس ہواکہ حضرت مفتی صاحب قدس سرہ کو حضرت مسیح الامت سے خلافت نہیں ملی.جبکہ مفتی صاحب سالہاسال آپ کی خدمت میں باریاب رہے.اوربالآخر جامعہ  اشرفیہ لاہور کے استاذ حدیث حضرت مولاناوکیل خان شیروانی رحمہ اللہ (متوفی 2016)نے خلافت دی جواپنے والد مولانا عبدالجلیل خان شروانی رحمہ اللہ کے واسطے سےحضرت تھانوی کے سلسلۂ بیعت وارشادکے رکن رکین تھے.

 مفتی رشید احمد علیہ الرحمہ عرصۂ دراز سے صاحب فراش تھے,عالمی وباکوروناوائرس کے سال 2020میں جن مقتدرعلمی دینی اور ملی شخصیات نے وفات پائی ان میں ایک نام مفتی رشید احمد نوراللہ مرقدہ کا بھی ہے.

افسوس آج جبکہ میں یہ تحریر سپرد قرطاس کررہاہوں بروز جمعرات بتاریخ 5نومبر2020مطابق 15ربیع الاول1442ھ بوقت 3بجے سہ پہرہمارے چچاجان مولاناعبداللہ کاشفی بن الحاج چندرخاں کا طویل علالت کے بعد سنگار میوات میں انتقال ہوگیا.مرحوم 40سال سے زیادہ عرصہ تک گوڑیانی ضلع ریواڑی وعلاقۂ جھججر ہریانہ میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے.

مولاناعبداللہ مالپوری رحمہ اللہ کے زہدوتقوی اورشہرت دوام کی بناپرہی ان کا نام عبداللہ رکھاگیاتھا رحمہ اللہ رحمۃ.

حوادث اور تھے پران کاجانا

عجب اک سانحہ ساہوگیاہے

اب میوات کی سنگلاخ سرزمین سے ایسے صاحب تقوی وطہارت بے لوث و بے نفس بزرگ عالم دین کی نشونماکے آثارناممکن تو نہیں البتہ مفقودضرورنظر آتے ہیں.حضرت مولانا محمدقاسم نوراللہ مرقدہ مہتمم دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا کی وفات کے بعد مفتی صاحب کی وفات علاقۂ میوات کے لئے سب سے بڑا سانحہ ہے.

مقدور ہوتو خاک سے پوچھوں کہ او لئیم

تونے وہ گنجہائے گرامایہ کیا کیئے

***

Monday 2 November 2020

سیرت نبوی میں مزاح وظرافت کے واقعات


 

        حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی , آپ نے فرمایا: میں تمہیں سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا , سائل نے عرض کیا : میں اونٹنی کے بچے کا کیاکروں گا ؟ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ بھی کسی کو جنتی ہے؟

 (عن أنس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رجلاً استحمل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم فقال انی حاملک علی ولد ناقةٍ فقال ما اصنع بولد الناقةِ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہل تلد الابل الا النوق (مشکوٰة ص۴۱۶)

                 یہاں نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل سے مزاح بھی فرمایا اور اس میں حق اور سچائی کی رعایت بھی فرمائی سواری طلب کرنے پر آپ نے جب اونٹنی کا بچہ مرحمت فرمانے کا وعدہ فرمایاتو سائل کو تعجب ہوا کہ مجھے سواری کی ضرورت ہے اوراونٹنی کا بچہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس پر سواری کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تعجب کو دور کرتے ہوئے اور اپنے مزاح کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں تجھے سواری کے قابل اونٹ ہی دے رہا ہوں مگر وہ بھی تو اونٹنی ہی کا بچہ ہے۔

               

                (حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے دوکان والے)(مشکوٰة ص۴۱۶)

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت انس سے ”اے دو کان والے“ کہنا بھی ظرافت اور خوش طبعی کے طورپر تھا۔  ظرافت کا یہ انداز  ہمارے عرف میں بھی رائج ہے ,مثلاً کبھی اپنے بے تکلف دوست سے یا ذہین طالب علم سے ناراضگی کا اظہار اس انداز میں کیاجاتا ہے کہ ایک چپت رسید کروں گا تو تمہارا سر دوکانوں کے درمیان ہوجائے گا۔ حالانکہ وہ پہلے سے وہیں پر ہوتا ہے۔

                عن انسٍ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لامرأةٍ عجوزٍ انہ لاتدخل الجنة عجوزٌ فقالت مالہن وکانت تقرء القرآن فقال لہا ما تقرئین القرآن اِنَّا انشئناہن انشاءً فجعلنٰہنّ ابکارًا(مشکوٰة ص۴۱۶)

                (حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ نے ایک ضعیفہ سے فرمایاکہ: 'بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوگی' وہ عورت قرآن پڑھی ہوئی تھی اس نے عرض کیا بوڑھی کے لئے کیا چیز دخولِ جنت سے مانع ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا ہم جنتی عورتوں کو پیدا کریں گے پس ہم ان کو کنواری بنادیں گے۔)

                ایک اور روایت میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ اس صحابیہ عورت نے جو بوڑھی تھیں آپ سے دخولِ جنت کی دعا کی درخواست کی اس پر آپ نے مزاحاً فرمایا کہ:' بڑھیا تو جنت میں داخل نہیں ہوگی'، یہ سن کر بڑھیا کو بڑا رنج ہوا اور روتے ہوئے واپس چلی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاکر اس عورت کو کہہ دو کہ عورتیں بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ”اِنَّا انشئناہن انشاءً فجعلنٰہنّ ابکارًا“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح اس واقعہ میں بھی مبنی برحق تھا مگرآپ نے ایک سچی بات کو مزاحیہ انداز میں بیان کرکے امت کو یہ تعلیم دی کہ کبھی کبھار مذاق اور دل لگی بھی کرلینی چاہئے۔

                 حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک بدوی صحابی زاہر بن حرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ دیہاتی اشیاء بطور ہدیہ لایا کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی واپسی پر انہیں  کچھ شہری اشیاء ہدیتہ عنایت فرماتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے زاہر ہمارا باہر کا گماشتہ ہے اور ہم اس کے شہر کے گماشتہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم زاہر سے بڑی محبت فرماتے تھے ویسے زاہر ایک بدصورت آدمی تھے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بازار تشریف لے گئے تو زاہر کو اپنا سامان بیچتے ہوئے پایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیچھے سے اپنے ساتھ اس طرح چمٹالیا کہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے بغلوں کے نیچے سے لیجاکر اس کی آنکھوں پر رکھ دئیے تاکہ وہ پہچان نہ پائے , زاہر نے کہا کہ کون ہے؟ چھوڑ مجھے۔ (پھر اس نے کوشش کرکے) مڑ کر دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا (اور پہچانتے ہی) اپنی پیٹھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہٴ مبارک سے مزید چمٹانے لگا ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ صدا بلند کرنے لگے کہ ارے کوئی اس غلام کا خریدار ہے؟ اس پر زاہر نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول بخدا آپ مجھے کھوٹا سکّہ پائیں گے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن تم اللہ تعالیٰ کے نزدیک کھوٹا سکّہ نہیں ہو۔ (مشکوٰة ص۴۱۶) 

                عن عوف بن مالک الاشجعی قال اتیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی غزوة تبوک وہو فی قبةٍ من ادمٍ فسلمت فردّ علیّ وقال فقلت أکلی یا رسول اللّٰہ قال کلّک فدخلت (مشکوٰة ص۴۱۷)

                (حضرت عوف بن مالک اشجعی سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ غزوئہ تبوک کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم چمڑے کے خیمہ میں تشریف فرماتھے میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے جواب دیا اور فرمایا کہ اندر آجاؤ میں نے (مزاح کے طور پر) عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا میں پورا اندر داخل ہوجاؤں؟ تو آپ نے فرمایا ہاں پورے داخل ہوجاؤ، چنانچہ میں داخل ہوگیا)

                اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے اسقدر بے تکلف تھے کہ صحابہ بھی آپ سے مزاح کرلیا کرتے تھے۔

                ایک انصاری صحابیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا جا جلدی سے اپنے خاوند کے پاس اس کی آنکھوں میں سفیدی ہے وہ ایک دم گھبراکرخاوند کے پاس پہنچی تو خاوند نے پوچھا کیا مصیبت ہے؟ اس طرح گھبراکر دوڑی کیوں چلی آئی؟ اس نے کہا کہ مجھے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ تمہاری آنکھوں میں سفیدی ہے اس نے کہاٹھیک ہے مگر سیاہی بھی تو ہے تب اسے اندازہ ہوا کہ یہ مزاح تھا اور ہنس کر خوش ہوئی اور فخر محسوس کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے اس قدر بے تکلف ہوئے کہ میرے ساتھ مزاح فرمایا (لطائف علمیہ ص۱۰) اس کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح کے بہت سے واقعات کتب احادیث میں موجود ہیں جو مزاح کے سنتِ مستحبہ ہونے پر دال ہیں۔ لیکن یہ تمام واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ مزاح سچائی پر مبنی ہونا چاہئے اوراس میں ایذاء رسانی اور دل شکنی کا پہلو نہ ہو بلکہ مخاطب کی دلجوئی اورنشاط آوری مقصود ہونی چاہئے۔

ایک مرتبہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں کھجوریں کھائی گئیں۔ آپ نے ازراہ مزاح گھٹلیاں سیدنا علیؓ کے سامنے رکھ دیں اور فرمایا کہ ساری کھجوریں تم کھا گئے؟ علیؓ نے فرمایا کہ میں نے تو کھجور گھٹلیوں سمیت نہیں کھائیں (جبکہ آپ تو گھٹلیاں بھی  کھا چکے ہیں)۔ (متفق علیہ) 

                حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ سے بھی مزاح کے بے شمار واقعات مروی ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق، فاروق اعظم اور علی مرتضیٰ ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے اس طرح چلے جارہے تھے کہ حضرت علی بیچ میں تھے اور دونوں حضرات دونوں طرف۔ حضرت علی ان دونوں کے مقابلہ میں کچھ پستہ قد تھے، حضرت عمر نے مزاحاً فرمایا: ”علیٌّ بیننا کالنون فی لنا“ یعنی علی ہم دونوں کے بیچ میں ایسے ہیں جیسے ”لنا“ کے درمیان نون ہے یعنی لنا کے ایک طرف کا لام اور دوسری طرف کا الف لمبے اور درمیان میں نون پستہ قد ہے اس طرح ہم دونوں طویل القامت اور بیچ میں علی پستہ قامت ہیں۔ اس پر حضرت علینے برجستہ جواب دیا: ”لولا کنت بینکما لکنتما لا“ یعنی ”اگر میں تمہارے درمیان نہ ہوتا تو تم لا ہوجاتے اور کچھ بھی نہ رہتے“ کیونکہ لنا کے بیچ سے نون ہٹادیاجائے تو وہ ”لا“ رہ جاتا ہے

Thursday 29 October 2020

توہین رسالت اور ہندوستانی حکومت

 ہندوستان میں فرقہ پرست حکومت جس کی کلید آرایس ایس کے ہاتھ میں ہے مسلمانوں کی اہانت و تذلیل کاکوئی موقع نہیں چھوڑتی ہر وقت درپئے آزار رہتی ہےیہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ نہایت حساس اور خالص مذہبی معاملہ ہے کہ محسن انسانیت کی توقیر مسلمانوں کے نزدیک اپنی جان مال عزت آبرو سے عزیز تر ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک لفظ بھی ناقابل برداشت اور ناقابل معافی جرم ہے. اس معاملہ میں کسی تیسرے فریق کودخل دینے کا کوئی حق نہیں یہ سب جانتے ہوئے بھی حکومت نے فرانس کے صدر کی حمایت کرکے اپنی پھٹیچرذہنیت کادیوالیہ نکالا ہے.یہ وہی حکومت ہے جسے یواے ای اورسعودی بادشاہت نے  اپنے اعلی ترین سویلین ایوارڈز سے نوازاتھااس کے باوجود حکومت نے مائکرون کی حمایت کرکےکھلم کھلا مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے.عرب حکمران اور بعض عوام  اس کے باوجود خواب خرگوش میں مبتلاہیں وہ محمدبن سلمان کی لامذہبی اصلاحات  وقوانین کے نفاذ سےواقفیت کے باوجودرجب طیب اردغان کی لیڈرشپ پر امریکہ ویورپ کے ذہنی غلامان یعنی محمدبن سلمان,شاہ سلمان بن عبدالعزیز,اور یواے ای کے عیاشان اقتدارکوترجیح دیتے ہیں حالاں کہ عالم اسلام کوان ملاحدہ سے جونقصان پہنچاہے اس کاخمیازہ پوری امت صدیوں جھیلے گی.انہیں صرف اپنے اقتدار سے محبت ہے اس کے علاوہ سب کچھ ہیچ اور ثانوی ہے.یہی حیثیت ہندوستان میں موجودہ فرقہ پرست حکومت کی ہے یہ ہندتواکے بہانے اقتدار سے چمٹے رہناچاہتے ہیں حقیقتاََ انہیں نہ ہندوتواکاحقیقی علم ہے ناہی محبت .اگر محبت ہے تو اپنی انا اور اقتدار سے,کیونکہ ہندوازم میں کسی کی توہین  خواہ وہ براہ راست ہو یابالواسطہ قبیح جرم ہے.ہندوازم سبھی مذاہب کا احترام سکھاتاہے.اورجوکوئی  کسی کے مذہب کی توہین کرے اور اپنے آپ کو ہندومذہب کا علمبردار کہے وہ حقیقتاََ بہروپیہ اور مذہب کا دشمن ہے وہ ہندوتہذیب وثقافت سے بھی نابلد ہے.ہندوازم کا ایک عظیم نکتہ مخلوقات میں خالق کاپرتویا اس کاوجود ہے اسی لئے دریاوپہاڑحجرواشجاران کے نزدیک قابل پرستش اور عبادت کے لائق ہیں لہذاکسی مخلوق کی دل آزاری سے ہندومت کاکوئی تعلق نہیں بلکہ یہ فرقہ پرستی صرف سیاسی بازی گری اور ہندوستانی اکثریت کو بے وقوف بنانا ہے.غور کیاجائے توحقیقتاََ یہ اپنے مذہب وضمیر کی پامالی اور اپنی رعایاکی توہین ہے

Thursday 22 October 2020

اسلام میں توہین رسالت کی سزا

 اسلام میں دیگرمذاہب کی محترم شخصیات کی توہین  نہ کرنے اور ان کی بے ادبی نہ کرنے کی باربار تلقین کی وجہ یہی ہے کہ اس سے باہمی استہزاء واہانت کا دروازہ کھلتا ہے فرمایا:.ولاتبسوالذین یدعون من دون اللہ فیسب اللہ عدوا بغیرعلم

(القرآن)

جن کویہ لوگ اللہ کے علاوہ پکارتے ہیں تم ان کو برا نہ کہوپھروہ جواباََ .دشمنی میں اپنی لاعلمی سے اللہ کو براکہیں گے

ا نَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينََ

(سورۃ الاحزاب ۔آیت57)

: ترجمہ

 بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صل اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں ، اللہ ان پر دنیا اور اخرت میں لعنت کرتا ہے۔اور انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔


:نیز اللہ فرماتا ہے 


﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اﷲِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (التوبہ:61

: ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کو جو لوگ ایذا دیتے

ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔


:اللہ مزید فرماتا ہے 


﴿وَاِنْ نَکَثُوْا أَیْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوْا آئِمَّةَ الْکُفْرِِ اِنَّهُمْ لَا أَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ﴾ (التوبہ :12

ترجمہ:اگر یہ لوگ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو کفر کے لیڈروں سے قتال کرو اس لئے کہ ان کی قسمیں (قابل اعتبار) نہیں ہیں تاکہ یہ (اپنی شرارتوں اور توہین آمیز خاکے بنانے سے) باز آجائیں۔


ابن کثیر﴿وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ﴾کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :


أی عابوه وانتقصوه ومن هاهنا أخذ قتل من سب الرسول صلوات اﷲ وسلامه علیه أو من طعن فی دین الاسلام او ذکره بتنقص (ابن کثیر:3؍359، بتحقیق عبدالرزاق مهدی

ترجمہ:یعنی تمہارے دین میں عیب لگائیں اور تنقیص کریں۔ یہاں سے ہی یہ بات اخذ کی گئی ہے کہ جو شخص رسول اللہﷺ کو گالی دے یا دین اسلام میںطعن کرے یا اس کا ذکر تنقیص کے ساتھ کرے تو اسے قتل کردیاجائے۔

  :بخاری شریف میں ہے

قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَايَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ أَنَا فَأَتَاهُ فَقَالَ أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ فَقَالَ ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ قَالَ فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُ أَبْنَاءَنَا فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ فَيُقَالُ رُهِنَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ قَالَ سُفْيَانُ يَعْنِي السِّلَاحَ فَوَعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ فَقَتَلُوهُ ثُمَّ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ

(صحیح بخاری باب الرہن)

 ترجمہ: حضرت عمروبن العاص روایت کرتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے سنا کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون کھڑا ہوگا کعب بن اشرف کیلئے کیونکہ اس نے اللہ اور اسکے رسول کو تکلیفیں دی ہیں تو محمد بن مسلمہ اٹھ کھڑے ہوےاورپھر جا کر اس کو قتل کردیا۔اور پھر حضور صل اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے اس کو قتل کردیا۔


اس حدیث کے ذیل میں فتح الباری نے لکھا ہے کہ یہاں اللہ اور اس کے رسول کو اذیت  سے مراد یہ ہے کہ اس نے اپنے اشعار کے ذریعے نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دی تھیں اور مشرکوں کی مدد کی تھی۔ حضرت عمرو سے روایت ہے کہ یہ کعب بن اشرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور قریش کومسلمانوں کے خلاف ابھارتا تھا۔ یہ یہودی نبی صل اللہ علیہ وسلم کو اور انکے واسطے سے اللہ کو اذیت دیتا تھا تو نبی صل اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا اعلان کیا اور محمد بن مسلمہ نے اس کو قتل کرکے حضور صل اللہ علیہ وسلم کو اس کے قتل کی اطلاع دے دی۔



بعث رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم الیٰ ابی رافع الیھودی رجالا من الانصاروامر علیھم عبد اللہ بن عتیق وکان ابو رافع یؤذی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم و یعین علیہ ۔ ترجمہ: رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کیلئے چند انصار کا انتخاب فرمایا ، جن کا امیر عبد اللہ بن عتیق مقرر کیا ۔یہ ابو رافع نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کی مدد کرتا تھا۔

(صحیح بخاری)




عن انس بن مالک ان النبی صل اللہ علیہ وسلم دخل مکہ یوم الفتح و علی راسہ المغفر فلما نزعہ جاء رجل فقال ابن خطل متعلق باستار الکعبہ فقال اقتلہ۔

(صحیح بخاری

قال ابن تیمیہ فی الصارم المسلول وانہ کان یقول الشعر یھجو بہ رسول اللہ ویامرجاریتہ ان تغنیابہفھذا لہ ثلاث جرائم مبیحۃ الدم، قتل النفس ، والردۃ ، الھجاء۔(الصارم۔صفحہ 135) امر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم بقتل القینتین(اسمھما قریبہ و قرتنا)

 (اصح السیر ۔صفحہ 266) 

ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک پر خود پہنا ہوا تھا۔جب آپ نے خود اتارا تو ایک آدمی اس وقت حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردو ں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو قتل کردو۔

(صحیح بخاری)

علامہ ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں لکھا ہے کہ ابن خطل اشعار کہہ کر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور اپنی باندی کو وہ اشعار گانے کیلئے کہا کرتا تھا،تو اسکے تین جرم تھے جس کی وجہ سے وہ مباح الدم قرار پایا ، اول ارتداد دوسرا قتل اور تیسرا حضور صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی.

اسلام میں دیگرمذاہب کے کسی بھی مذہبی نشان, اشیاء,اورشخصیات کی توہین کی اجازت نہیں. اس کے ساتھ ہی کسی بھی پیغمبرکی توہین گستاخی یاتنقیص بھی ناقابل معافی جرم ہے.جس کی سزا توبہ کے باوجود بھی قتل ہے.

آجکل فرانس میں آزادئ اظہار کے نام پر نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بناکر آزادئ اظہار کی جوتشریح کی جارہی ہے اس نے سبھی کوورطۂ حیرت میں  ڈال رکھا ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کسی بھی مسلمان کے لئے ناقابل برداشت اور انتہائی اشتعال انگیز عمل ہے. اس گھناؤنی حرکت سے تنگ آکر جب کوئی باغیرت اپنے جوش وجذبہ پرقابونہ رکھتے ہوئے انتہائی قدم اٹھالیتا ہے تویہ نام نہاد مہذب سماج مل کر بیک زبان شورشرابہ کرتااور اسے اسلامی دہشت گردی کانام دیتا ہے حالاں کہ اس کے ساتھ ہی آزادئ اظہار کی حدود وثغوربھی متعین کرناضروری ہیں.سب سے پہلے ان لوگوں کوروکنا بھی ضروری ہے جوبلاوجہ پیغمبر اسلام کی توہین کرکے مسلمانوں کو اشتعال دلاتے اور امن عالم کو خطرہ میں ڈالتے ہیں .

:گستاخ رسول کاحکم

اگرچہ اہانت رسول ایک ناقابل معافی جرم ہے لیکن قانون کواپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے انفرادی طورپرامت مسلمہ کے کسی شخص کے  ذریعہ گستاخ رسول کوسزادینے کی اجازت نہیں بلکہ اس کے لئے حکمراں طبقہ گستاخ رسول کو سزادلانے کی کوشش کرے.اور عدلیہ یاحکومت اس پر کارروائی کرے گی.لیکن مسلم ممالک کی بے حسی کہیئے کہ آج تک کسی نے عالمی طورپرفرانس کے چارلی ہیبڈوجریدے کویہ بات سمجھانے کی کوشش نہیں کی.اور وہ اپنی گستاخانہ کارٹون دکھانے میں اپنے ملک وملت اور آزادئ اظہارکی  خدمت عظیمہ سمجھ کرلگا ہوا ہے.صدرفرانس نے اپنی دوغلی پالیسی جاری رکھتے ہوئے اس جریدے کے کام کوسراہا ہے اور اس کے خلاف اٹھنے والی آواز کو اسلامی دہشت گردی قرار دیا ہےمسلم امہ کا یہ فریضۂ منصبی ہے کہ سبھی مسلم ممالک متحد ہوکر یواین او میں توہین رسالت کاقانون  عالمی طورپرمنظور کرائیں.

اہانت رسول کی سزا پرپوری امت مسلمہ متحد ہے کہ گستاخ رسول کو  کیفرکردارتک پہنچاناضروری ہے  خواہ وہ توبہ کرلے.اگرکوئی  غیرمسلم توہین رسالت کامرتکب ہوالیکن گرفتاری کے بعد اس نے توبہ کرلی اور اسلام قبول کرلیاتب بھی اس کو سزاءََ قتل کیاجائے گاالبتہ اس کے حلقہ بگوش اسلام ہونےکی وجہ سے اس کی تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ بحیثیت مسلمان کی جائے گی.

:محقق ابن ہمام علیہ الرحمہ

«کل من أبغض رسول الله ﷺ بقلبه کان مرتدًا فالساب بطریق أولى ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبل توبته في إسقاط القتل.... وإن سبّ سکران ولا یعفی عنه»

فتح القدیرجلد 5صفحہ332)
''ہر وہ شخص جو دل میں رسول ﷺ سے بغض رکھے، وہ مرتد ہے اور آپ کو سب و شتم کرنے والا تو بدرجہ اولیٰ مرتد ہے اسےقتل کیا جائے گا۔ قتل کے ساقط کرنے میں اسکی توبہ قبول نہیں۔ اگرچہ حالت ِنشہ میں کلمۂ گستاخی بکا ہو ، جب بھی معافی نہیں دی جائے گی۔''
2. علامہ زین الدین ابن نجیم علیہ الرحمہ
«کل کافر فتوبته مقبولة في الدنیا والآخرة إلا جماعة الکافر بسب النبي وبسبّ الشیخین أو إحداهما.... لا تصح الردة السکران إلا الردة بسب النبي ولا یعفی عنه.... وإذا مات أو قتل لم یدفن في مقابر المسلمین، ولا أهل ملته وإنما یلقی في حفیرة کالکلب»

الأشباہ والنظائر:158,159)
''ہر قسم کے کافر کی توبہ دنیا و آخرت میں مقبول ہے، مگر ایسے کفار جنہوں نے حضورﷺ  یاشیخین میں سے کسی کو گالی دی تو اُس کی توبہ قبول نہیں۔ ایسے ہی نشہ کی حالت میں ارتداد کو صحیح نہ مانا جائے گا مگر حضورﷺ کی اہانت حالتِ نشہ میں بھی کی جائے تو اُسے معافی نہیں دی جائے گی۔ جب وہ شخص مرجائے تو اسے مسلمانوں کے مقابر میں دفن کرنے کی اجازت نہیں، نہ ہی اہل ملت (یہودی نصرانی) کے گورستان میں بلکہ اسے کتے کی طرح کسی گڑھے میں پھینک دیا جائے گا۔''
3. امام ابن بزار علیہ الرحمہ
«إذا سبّ الرسول ﷺ أو واحد من الأنبیاء فإنه یقتل حدًا فلا توبة له أصلًا سواءً بعد القدرة علیه والشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه کالزندیق لأنه حد واجب فلا یسقط بالتوبة ولا یتصور فیه خلاف لأحد لأنه حق تتعلق به حق العبد فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین وکحد القذف لا یزول بالتوبة»

رسائل ابن عابدین 2/327
''جو شخص رسول اللہ ﷺ کی اہانت کرے یا انبیا میں سے کسی نبی کی گستاخی کرے تو اسےبطورِ حد قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ کا کوئی اعتبار نہیں، خواہ وہ تائب ہوکر آئے یا گرفتار ہونے کے بعد تائب ہو اور اس پر شہادت مل جائے تو وہ زندیق کی طرح ہے۔اس لیے کہ اس پر حد واجب ہے اور وہ توبہ سے ساقط نہیں ہوگی۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں، اس لیے کہ یہ ایسا حق ہے جو حق عبد کےساتھ متعلق ہے، جو بقیہ حقوق کی طرح توبہ سے ساقط نہیں ہوتا جیسے حد ِقذف بھی توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔''
4. علامہ علاء الدین حصکفی علیہ الرحمہ
«الکافر بسبّ النبي من الأنبیاء لا تقبل توبته مطلقًا ومن شكّ في عذابه و کفره کفر»

درمختار6/356
''کسی نبی کی اہانت کرنے والا شخص ایسا کافر ہے جسے مطلقاً کوئی معافی نہیں دی جائے گی، جو اس کے کفر و عذاب میں شک کرے، وہ خود کافر ہے۔''
5. علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ
«واعلم انه قد اجتمعت الأمة علی أن الاستخفاف بنبینا وبأي نبي کان من الأنبیاء کفر، سواء فعله فاعل ذلك استحلالا أم فعله معتقدًا بحرمته لیس بین العلماء خلاف في ذلك، والقصد للسب وعدم القصد سواء إذ لا یعذر أحد في الکفر بالجهالة ولا بدعوی زلل اللسان إذا کان عقله في فطرته سلیما»

روح البیان3/394
''تمام علماے اُمت کااجماع ہے کہ ہمارے نبی کریمﷺ ہوں یا کوئی اور نبی علیہ السلام ان کی ہر قسم کی تنقیص و اہانت کفر ہے، اس کا قائل اسے جائز سمجھ کر کرے یا حرام سمجھ کر، قصداً گستاخی کرے یا بلا قصد، ہر طرح اس پر کفر کافتویٰ ہے۔ شانِ نبوت کی گستاخی میں لا علمی اور جہالت کا عذر نہیں سنا جائے گا، حتیٰ کہ سبقت ِلسانی کا عذر بھی قابل قبول نہیں، اس لیے کہ عقل سلیم کو ایسی غلطی سے بچنا ضروری ہے۔''
6. علامہ ابوبکر احمد بن علی رازی علیہ الرحمہ
«ولا خلاف بین المسلمین أن من قصد النبي ﷺ بذلك فهو ممن ینتحل الإسلام أنه مرتد فهو یستحق القتل»

احکام القرآن3/112
''تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جس شخص نےنبی کریم ﷺ کی اہانت اور ایذا رسانی کا قصد کیا وہ مسلمان کہلاتا ہو تو بھی وہ مرتد مستحق قتل ہے۔''
ذمی شاتم رسول کا حکم
جو شخص کافر ہو اور اسلامی سلطنت میں رہتا ہوں، ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اسے حکومت تحفظ فراہم کرتی ہے، مگر جب وہ اہانت ِرسول کا مرتکب ہو تو اس کا عہد ختم ہوجاتا ہے اور اس کی سزا بھی قتل ہے۔
7. امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ
علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«فإن الذمي إذا سبه لا یستتاب بلا تردد فإنه یقتل لکفره الأصلي کما یقتل الأسیر الحربی»

الصارم المسلول260
''اگر کوئی ذمی نبی کریمﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر قتل کردیں گے کیونکہ اسے اس کے کفر اصلی کی سبب قتل کیا جائے گا جیسے حربی کافر کو قتل کیا جاتا ہے۔''
8. امام محقق ابن الہمام علیہ الرحمہ
''میرے نزدیک مختار یہ ہے كہ ذمی نے اگر حضورﷺ کی اہانت کی یا اللہ تعالی جل جلالہ کی طرف غیر مناسب چیز منسوب کی، اگر وہ ان کے معتقدات سے خارج ہے جیسے اللہ تعالی کی طرف اولاد کی نسبت یہ یہود و نصاریٰ کا عقیدہ ہے، جب وہ ان چیزوں کا اظہار کرے تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کردیا جائے گا۔''

فتح القدیرجلد5/303
9. علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ
«فلو أعلن بشتمه أو إعتاده قُتل ولو امرأة وبه یفتٰی الیوم»

ردالمحتارجلد6/301
''جب ذمی علانیہ حضورﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے قتل کیا جائے گا، اگرچہ عورت ہی ہو او راسی پر فتویٰ ہے۔''
حرفِ آخر
قاضی عیاض مالکی اور علامہ ابن تیمیہ رحمہما اللہ ،دونوں نے امام ابوسلیمان خطابیؒ کا موقف نقل کرتے ہوئے لکھا:
«لا أعلم أحدا من المسلمین اختلف في وجوب قتله»
''میں نہیں جانتا کہ مسلمانوں میں سے کسی نے شاتم رسول کے قتل میں اختلاف کیا ہو۔''
علامہ ابن تیمیہؒ مزید لکھتے ہیں:
«إن الساب إن کان مسلما فإنه یکفرویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الأئمة الأربعة وغیرهم»

الصارم المسلول ص24
''بے شک حضور نبی کریمﷺ کو سب و شتم کرنے والا اگرچہ مسلمان ہی کہلاتا ہو، وہ کافر ہوجائے گا۔ ائمہ اربعہ اور دیگر کے نزدیک اِسےبلا اختلاف سزاءََ قتل کیا جائے گا۔''

شیخ الاسلام تقی الدین ابو العباس احمد بن عبد العلیم بن عبد السلام الحرانی الدمشقی المعروف بابن تیمیہ نے اپنی مشہور " کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول" میں نقل فرمایاہے:

 «ان من سب النبی صلی الله علیه وسلم من مسلم او کافر فانه یجب قتله، هذا مذهب علیه عامة اهل العلم۔ قال ابن المنذر: أجمع عوام أهل العلم علی أن حد من سب النبی صلی الله علیه وسلم : القتل ، وممن قاله مالک واللیث واحمد واسحق وهو مذهب الشافعی ، وقد حکیابوبکر الفارسی من اصحاب الشافعی اجماع المسلمین علی ان حد من سب النبی صلی الله علیه وسلم القتل».1

ترجمہ : عام اہلِ علم کا مذہب ہے کہ جو شخص خواہ مسلمان ہو یا غیرمسلم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو براکہتاہے اس کاقتل  شرعا واجب ہے۔ ابن منذر نے فرمایا کہ عام اہل علم کا اجماع ہے کہ جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شب وستم کرے، اس کی حد قتل ہے اور اسی بات کو امام مالک، امام لیث، امام احمد، امام اسحاق نے بھی اختیار فرمایا ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے.اور ابوبکر فارسی نے اصحابِ شافعی سے اس پرمسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حد قتل ہے۔

«وقال محمد بن سحنون: اجمع العلماء علی ان شاتم النبی صلی الله علیه وسلم والمُتَنَقِّص له کافر، والوعید جاء علیه بعذاب الله له وحکمه عند الامة القتل، ومن شک فی کفره وعذابه کفر۔» 2

محمد بن سحنون نے فرمایا: علماء کا اجماع ہے کہ شاتم رسول اور آپ کی توہین وتنقیصِ  کرنے والا کافر ہے اور حدیث میں اس کے لیے سخت سزا کی وعید آئی ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک اس کا شرعی حکم ،قتل ہے۔ اور جو آدمی اس شخص کے کفر اور عذاب کے بارے میں شک و شبہ کرے گا وہ بھی کافر ہو گا۔

مذکورہ بالا عبارات سے یہ بات  واضح ہوگئی کہ باجماعِ امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تنقیص  کفر ہے اور اسے سزاءََ قتل کرنا واجب ہے۔ اور آخرت میں اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اور جو اس کے کفر  اورمستحقِ عذاب ہونے میں شک کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا؛ کیوں کہ اس نے ایک کافر کے کفر میں شبہ کیا ہے۔

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےابن سحنون سے مزید نقل کیا ہے :« ان الساب ان کان مسلما فانه یکفر ویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الائمة الأربعة وغیرهم۔»3

اگر براکہنے  والا مسلمان ہے تو وہ کافر ہوجائے گا اور بلا اختلاف سزاءََ اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اور یہ ائمہ اربعہ وغیرہ کا مذہب ہے۔

اور امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے کہ:«قال احمد بن حنبل: سمعت ابا عبد الله یقول :کل من شتم النبی صلی اللّٰه علیه وسلم او تنقصه مسلما کان أوکافرا فعلیه القتل، وأری أن یقتل و لایستتاب.»4

جوبھی خواہ مسلمان ہو یا کافر اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے یا ان کی توہین و تنقیص کرتاہے اس کاقتل واجب ہے ۔اور میری رائے یہ ہے کہ اس کو توبہ کرنے کے لیے  مہلت نہیں دی جائے گی بلکہ فوراً ہی سزاءََقتل کردیا جائے گا۔

"الدرالمختار "میں ہے: وفی الاشباه ولا تصح ردة السکران الا الردة بسب النبی صلی الله علیه وسلم فانه یقتل ولا یعفی عنه۔» 5

"اشباہ " میں ہے کہ نشہ میں مست آدمی کی ردّت کا اعتبار نہیں ہے ،البتہ اگر کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے کی وجہ سے مرتد ہوجاتاہے تو اس کو قتل کردیا جائے گا اور اس گناہ کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

امام احمد رحمہ اللہ اور "اشباہ "کی عبارات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ توہین رسالت کا جرم  قابل معافی نہیں  اور اس کی شرعی سزا قتل ہے. لیکن یہ کسی بھی فردواحد کا کام نہیں بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے.

اور جو  شخص حالت ارتدادپر بدستور قائم رہتاہے یا بار بارمرتد ہوتا رہتاہے اس کو فوراً قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ "فتاوی شامی" میں ہے:

«وعن ابن عمر وعلی: لا تقبل توبة من تکر رت ردته کالزندیق، وهو قول مالک واحمد واللیث، وعن ابی یوسف لو فعل ذلک مراراً یقتل غیلة۔» 6

حضرت عبد اللہ بن عمراورحضرت علی رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ متعددبارمرتدہونے والے کی توبہ قابل قبول نہیں، جیساکہ زندیق کی توبہ قبول نہیں کی جاتی اور یہ امام مالک، احمد اورلیث کا مذہب ہے، امام ابویوسف سے مروی ہے کہ اگر کوئی مرتد ہونے کا جرم بابار کرے تواسے سزاءََ حیلہ سے بے خبری میں قتل کردیا جائے۔

اسی طرح "در مختار " میں ہے:  «وکل مسلم إرتد فتوبته مقبولة إلا جماعة من تکررت ردته علی ما مر۔ والکافر بسب نبی من الانبیاء فانه یقتل حدا ً ولا تقبل توبته مطلقاً۔» 7

ہر وہ مسلم جو نعوذ باللہ مرتد ہوجاتاہے اس کی توبہ قبول ہوتی ہے ، مگر وہ جماعت جس کا ارتداد مکرربار بار ہوتا ہو، ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اور جو آدمی انبیاء میں سے کسی نبی کو براکہنے یاگالی دینے کی وجہ سے کافر ہوجائے اس کو قتل کر دیاجائے گا اور اس کی توبہ کسی حال میں بھی قبول نہیں کی جائے گی۔

ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ  توہین رسالت اتنا بڑا جرم ہے کہ بہ فرض محال اگر کوئی نشہ میں مست آدمی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہے گا یا آپ کی توہین و تحقیر کرے گا تو اسے سزاءََ قتل کردیا جائے گا۔

1۔ الصارم المسلول علی شاتم الرسول،لتقی الدین ابن تیمیه-المتوفی ۷۲۸ھ المسئلة الاولی : ۳،۴ ط: نشر السنة  ملتان ۔  2۔ المرجع السابق۔ ۳،۴  ۔3۔الصارم المسلول - ۳،۴۔   4۔المرجع السابق․ ص:۴

5۔الدر المختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-۴۲۲۴․ ط:سعید کراچی۔     6 ۔رد المحتارعلی الدرالمختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-مطلب مایشک فی انه ردة لایحکم بها - ۴۲۲۵۔ ط:سعید کراچی۔  7۔ الدر المختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-۴۲۳۱،۲۳۲، ط:سعید۔کراچی۔8۔ رد المحتارعلی الدر المختار -کتاب الجهاد-باب المرتد-۴۲۳۷․ط:سعید ،کراچی۔   9۔ الد رالمختار -کتاب الحدود-باب التعزیر-۴۶۴․ط: ایچ ،ایم ،سعید کراچی۔

Thursday 15 October 2020

رولے اب دل کھول کے اے دیدۂ خوننابہ بار:سرہند کاذکر

 سرہند مشرقی پنجاب میں فتح گڑھ صاحب کے قریب ایک تاریخی قصبہ ہے.عہداسلامی میں اسے مرکزی حثییت حاصل تھی.یہاں مشاہیرعلما,شعراء,مؤرخین,صوفیاء ,امراء,وزراء, پیداہوئے.اگرچہ یہ فیروزشاہ تغلق کے عہد میں آباد ہوالیکن شہرت کے بام عروج پرعہداکبری میں پہنچا. عہد بابری میں مغل سلطنت کے بنیاد گزار شہنشاہ بابر, بقول مصنف گلزار ابرار'اس دور کے نامور عالم اور شیخ طریقت مولانا مجدالدین سرہندی سے سرہند ملنے آیا.

عہداکبری کے مشاہیرعلماء میں  طبقات اکبری کے مصنف شیخ نظام الدین  احمدان کے استاد شیخ علی شیر سرہندی,مولاناعبدالقادر,مولاناالہدادبن صالح سرہندی,بہت مشہور ہیں.

عہد جہانگیری کا ایک اہم نام جوتزکیہ وسلوک کے عظیم سلسلۃ الذہب کے بانی مبانی ہیں شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی کا ہے .ان کی سوانح ,شخصیت,علوم ومعارف مکاتیب اور تصانیف وشروحات ,خلفاء اورتلامذہ اور مستفیدین ,اور اس خانوادۂ علمی کی تاریخ پرہزارہاکتب ,معتبرمصنفین ومحققین نے لکھی ہیں.اس پرفیض خانوادۂ مشاہیر کے آثارآج بھی سرہند کی زینت ہیں.آپ کی مساعئ جمیلہ سےاسلامی دنیا میں انقلاب برپاہوا.بدعات وخرافات کی آپ نے بیخ کنی کی اور اتباع سنت کی تلقین کی.

:آپ کی اولاد میں 

شیخ  محمد صادق سرہندی ,خواجہ محمدسعید سرہندی,خواجہ محمد معصوم,خواجہ محمدیحی عرف شاہ جیو بہت مشہور ہیں.

:خلفاء میں

 خواجہ میرمحمد نعمان بدخشی,شیخ احمد برکی,شیخ آدم بنوری, خواجہ محمد ہاشم کشمی,شیخ حسن برکی,ملاعبدالحکیم سیالکوٹی,شیخ محمد طاہرلاہوری,شیخ بدیع الدین,شیخ بدالدین ابراہیم سرہندی شیخ احمد دیوبندی  وغیرہ سے اہل علم بخوبی واقف ہیں

بہرکیف سرہند اپنی عظمت رفتہ کی بناپر مؤرخین کی نظر میں خاص مقام کاحامل ہے.سرہند کی چندقابل ذکرشخصیات کی صرف فہرست درج ذیل کی جاتی ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ یہاں عہد اسلامی میں کیسے کیسے آفتاب وماہتاب پیداہوئے عہداسلامی میں یہاں 360سے زاید مساجدمدارس اور خانقاہیں آباد تھیں .آج  فقط چند آثارہیں.ابوالفضل نے آئین اکبری میں لکھاکہ سرہند دہلی کی ایک سرکار ہے جس کے تحت 31محل اور پرگنہ جاہیں.اس کاقدیم نام سہرند(شیروں کاجنگل)تھا جب غزنوی بادشاہوں نے غزنی سے سرہند تک کاعلاقہ اپنے زیراقتدار کرلیاتوسرِہند یعنی ہندوستان کاسرمشہورہوگیا. شاہجہاں نے کابل سے قرا باغ غزنی تک کا وسیع و عریض علاقہ فتح کرلیاتوحکم جاری کیا کہ سہرند ہی لکھا جائے لیکن اس کے باوجود سرہند ہی زبان زد خاص وعام رہا.(سرو آزاد مؤلفہ مولانا غلام علی آزاد بلگرامی ,ص128 سرہندکو جغرافیائی لحاظ سے گیٹ وے آف انڈیا کہا جاتاتھا.اسی لئے ہربادشاہ نے اس کو بہت زیادہ اہمیت دی.1415ء/818ہجری میں دہلی کے اولین سید حکمراں خضر خان نے اپنے بیٹے  ملک مبارک کو سرہند کاگورنراورملک سادہوناکو اس معاون مقررکیا.لیکن وہ 1416ء میں ترکوں کے ہاتھوں قتل ہوا

١۴٥١ء میں سرہند ہی میں ملک بہلول لودھی نے سلطان کالقب اختیار کیا.

١٥٥٥ء میں سرہند ہی میں ہمایوں نےسکندرسوری کوشکست دی. جب بیرم خان نے بغاوت کی تو اکبر نے١٥٦۰ء میں سرہندہی میں اس کی سرکوبی کی.اورنگ زیب اور داراشکوہ کے درمیان جانشینی کی جنگ میں دارا شکوہ نے دس ہزار افواج کے ساتھ سرہند کی طرف مارچ کیاتھا

تاکہ اورنگ زیب کی پیش قدمی کو روکاجاسکے

چند مشاہیر کے صرف نام درج کئے جاتے ہیں تاکہ قارئین کوسرہند کی عظمت رفتہ  کا بخوبی احساس ہوسکے

:علما وصلحاء

شیخ مجدالدین محمد,شیخ الہداد بن صالح,شیخ بہاء الدین,مولانابدرالدین صاحب حضرات القدس,مولاناعلی شیرسرہندی مقدمہ نویس غیرمنقوط عربی تفسیر سواطع الالہام,شیخ عبدالاحد ,سیدیاسین,مولاناعثمان ,شیخ نورالدین ترخان,شیخ عبدالرحمان صوفی,شیخ سلطان رخنہ ہروی,شیخ عبدالصمد حسینی,مولاناقطب الدین سرہندی مولاعبدالمالک, مولانا مظفر,ملاابوالخیر,شیخ علی رضا سرہندی,شیخ نعمۃ اللہ وغیرہ.

:مشاہیر خاندان مجددیہ

شیخ احمد سرہندی

خواجہ محمد سعید بن شیخ مجدد الف ثانی, متعدد عربی فارسی کتابوں کے مصنف

خواجہ محمد معصوم ولد شیخ مجدد الف ثانی صاحب مکتوبات معصومی.

شیخ سیف الدین 

شیخ بدرالدین ابراہیم

شیخ صبغۃ اللہ

شیخ محمد نقشبند

خواجہ محمد عبید اللہ

خواجہ محمد اشرف

شیخ محمد صدیق

شیخ محمد ہادی

شیخ یوسف

شیخ ابوالفیض کمال الدین محمد احسان

شیخ زین العابدین

مولانافرخ شاہ سرہندی

شیخ محمد راشد

شیخ محمد عیسی سرہندی

:فہرست مؤرخین

یحی بن احمد بن عبداللہ سرہندی, صاحب تاریخ مبارک شاہی

شیخ الہ داد فیضی سرہندی

شیخ ابراہیم سرہندی ,صاحب رزم نامہ

عبداللہ نیازی سرہندی

مولاناامان اللہ سرہندی

مولاناعبدالقادر سرہندی

عبدالحق سجاول سرہندی

سیف خا فقیراسرہندی

شیخ فضل اللہ سرہندی

غلام محی الدین سرہندی

شیخ قطب الدین سرہندی 

شیخ محمد عابد سرہندی 

ولی سرہندی

شیخ عبدالاحدوحدت سرہندی نبیرۂ شیخ مجدد,استادشاہ افضل (جو شاہ ولی اللہ (محدث دہلوی کے استاذ ہیں

:فہرست شعرا سرہند

ناصرعلی سرہندی

راسخ سرہندی

محمدافضل سرخوش

میرمحمدحسن ایجاد

 سعادت یارخان رنگین

مولاناصفائی سرہندی

شیری سرہندی

عیشی حصاری

فائض سرہندی

فضل اللہ خوشتر

میرعلی رضاحقیقت

مرزاغازی شہید

میرمفاخرحسین ثاقب

میاں علی عظیم

میرمعصوم وجدان

سرآمدسرہندی

میراحمدحسین مخلص

اجابت سرہندی

وسعت سرہندی

شاہجہاں بادشاہ نے سرہند میں ایک باغ تعمیر کرایا ان کی ایک ملکہ سرہندی بیگم کاتعلق سرہند سے تھا.

عہد سلطنت میں سرہند ہمیشہ شاہان دہلی کا مرکز رہا. فیروزشاہ نے اسے فیروزپور کانام دیا.

:شیخ مجددالف ثانی کے مشہور شاگردخواجہ ہاشم کشمی کہتے ہیں

کزان قندیکہ شیریں ترزجان است

کنوں درخطۂ ہندوستان است

الاسودائیاں شہریست درہند

کہ اندر پائے او بنہاد سرہند

سوادش زلف رخسارفتوح است

غبارش توتیائے چشم روح است

ازاں شہرے کہ نامش مضمرآمد

بعہدے ماعجب کانے برآمد

(روضۃ القیومیہ اردو صفحہ 27جلد اول)

Wednesday 14 October 2020

چین کے ایغور مسلمانوں کی داستان

 چین کاوہ خطہ جسے سنکیانگ یاچینی ترکستان کہتے ہیں چین میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی ایک عظیم یادگار.ہے یہاں عرصۂ درازتک مسلمانوں کی حکمرانی رہی اس کے دارالسلطنت کاشغرمیں اب بھی عہد اسلامی کے سینکڑوں مساجدومدارس اپنے باوقار ماضی کی داستان بیان کررہے ہیں.چینی زبان لکھنےکےلئے ترکی اور اردوکی طرح مسلمانوں کا یہاں اپناایک خاص رسم الخط تھا جواب صرف مسلمانوں میں رائج ہے.چین کی کمیونسٹ حکومت نے عرصہ سے مسلمانوں پرظلم وبربریت کی انتہاکررکھی ہے.نمازروزہ اوردیگراسلامی شعائرپرپابندی ہے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کوری ایجوکیشن سینٹر کے نام سے مراکزمیں قید کرکے ان کوظلم وعدوان کانشانہ بنایاجاتاہے.ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے,جائزوناجائزکی تمیزکوختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.بہت سے مسلمان کسی طرح سے چین سے سعودی عرب اور مصرہجرت میں کامیاب ہوگئے لیکن ان کی حرماں نصیبی دیکھئے بی بی سی عربی کے مطابق سادہ وردی میں ملبوس چینی خفیہ پولیس نےسعودی حکومت کی مدد سے انہیں گرفتار کرکے چین بھیج دیا.یہی مصرہجرت کرنے والے چینی مسلمانوں کے ساتھ ہوا.افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب ان نام نہاد مسلم حکمرانوں کے ذریعے ہوا جوپوری دنیا میں اپنی اسلامیت کاڈھنڈوراپیٹتے ہیں. سعودی حکومت کی ابلیسانہ تزویرات سے پوری دنیاواقف ہے کہ وہ کس طرح اپنے خادم الحرمین الشریفین کی آڑمیں اپنے مخالفین کوصفحۂ ہستی سے مٹادیتاہے اور اندرون خانہ اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کے لئے کوشاں ہے.جمال خاشقجی کاپراسرار قتل اس کی مشہور مثال ہے.جس سے پور ی دنیا واقف ہے واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار کو اپنی بیباکی اور صداقت کی جان گواں کرگراں قدر قیمت چکانی پڑی. مصرکا ظالم  وجابرعبدالفتاح سیسی ظلم وبربریت کی ساری حدیں پارکرتے ہوئے اپنے مخالفین کوبرسرعام تہہ تیغ کررہاہے اخوان المسلمین کے کارکنان پرستم ڈھائے جارہے ہیں.اور یہ سلسلہ جاری ہے.سعودی شہنشاہیت اپنے زوال کی طرف گامزن کیونکہ اس نے اپنے مخالفین کوصفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے سارے ہتھکنڈے اپنانے شروع کردیئے مرکزاسلام پراپنے اقتدار کوتادیرقائم رکھنے کے لئے اپنے آقا ممالک متحدہ امریکہ کی نگرانی میں سینما اور فحاشی کے دیگرذرائع کی ترویج بھی اب سعودی اقتدار کے اہم نکات میں شامل ہے لیکن مقصود سب کاشہنشاہیت کی بقا ہے جو ایک دن مکڑی کے جالے کی طرح حرف  غلط کی طرح مٹ جائے گی.  ایغور مسلمانوں کو سعودی ومصری حکومت نے چینی حکام کوسونپ کر کھلے عام چینی ظالم حکومت کی مدد کی ہے .یہ ایک ایساعمل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے.

چین میں ہزاروں مسلمانوں کو حراستی کیمپ میں قید رکھنے کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔ انسانی حقوق کے علبرداروں اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ شمال مغربی علاقے شن جیانگ میں ہزاروں مسلمانوں کی حراست چین میں کئی دہائیوں کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی کی سب سے خراب صورت حال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 2012 میں برسر اقتدار آنے کے بعد چین کے صدر شی جن پن نے چین پر آمرانہ تسلط قائم کر لیا اور مغربی چین میں ایغور اور تبت کے لوگوں کے خلاف وسیع پیمانے پر ظلم و ستم کیا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے اتوار کے روز ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ چین میں انسانی حقوق کی حالیہ خلاف ورزیاں 1966-1976 کے دوران رونما ہونے والے چین کے ثقافتی انقلاب کے بعد سے سنگین ترین ہیں۔ اس رپورٹ میں شن جیانگ کے 58 سابق شہریوں کے انٹرویو شامل کئے گئے ہیں جنہوں نے چین کے اعلیٰ حکام پر پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ حتمی پابندیوں کا اعلان وزارت خزانہ اور حکومت کے دیگر شعبوں کے علاوہ کانگریس سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔

حراست میں لئے گئے مسلمانوں کو زبردستی روزانہ منعقد ہونے والی کلاسوں میں جانے، اسلام کے بعض پہلوؤں سے انکار کرنے، چین کی ثقافت کا بغور جائزہ لینے اور کمیونسٹ پارٹی سے وفاداری کے اعلان پر مجبور کیا جاتا ہے۔ رہا ہونے والے کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اُنہیں سیکیورٹی اہلکاروں نے اذیت کا نشانہ بنایا۔

چین نے اس عمل کو ’’تعلیم کے ذریعے تبدیلی‘‘ یا ’’انتہاپسندی کی مدافعت میں تعلیم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ تاہم، اُنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو حراست میں رکھنے کا الزام مسترد کر دیا ہے۔

چین میں اسلامی تاریخ

 چین میں داخلہ ٔ اسلام کی ایک غیر مستند روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہہجرت حبشہ کے زمانہ میں دو صحابیٔ رسول جعفر ابن ابی طالب اور سعد بن ابی وقاص چین آئے تھے۔ اِس روایت کے متعلق کوئی تاریخی شہادت تاریخ میں نہیں ملتی کیونکہ اِن دونوں صحابیوں کا مدفن جزیرہ عرب ہے۔ایک دوسری روایت کے مطابق سعد بن ابی وقاص چین کے تیسرے اور اپنے آخری دورے میں 650ء سے 651ء کی وسطی مدت میں چین آئے جو خلیفہ سومعثمان غنی کا عہدِ خلافت تھا۔ اگر یہ تاریخی روایت درست ہو تو یہ واقعہ چینکے شہنشاہ گاؤژونگ کے عہد کا ہے جو 649ء سے 683ء تک شہنشاہ چینتھا۔

تانگ خاندان

تانگ خاندان کے دور میں چین کی خوشحالی کی راہیں برقرار ہوئیں تو لوگوں کے اذہان تجارتی اور ذہنی ترقی کی جانب مائل ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں مغربی ایشیا کے مختلف مذاہب کا اثر چین کی زندگی پر پڑنا شروع ہوا۔ بدھ مت، عیسائیت اور یہودیت بھی اِسی زمانے میں چین میں داخل ہوئے۔ اسلامجو ابتداً خلافت راشدہ کے دور میں جزیرہ عرب سے نکل کر ایشیاء میں منتقل ہو رہا تھا، وہ ما وراء النہر میں پہنچتا ہوا چین میں داخل ہوا۔ تقریباً تیس سال کے عرصے میں مسلم آبادیاں ایشیا میں قائم ہوچکی تھیں اور مسلمان جب ما وراء النہر میں داخل ہوتے ہوئے مشرقی ترکستان پہنچے تو وہاں کے باشندے بھیاسلام سے فیض یاب ہوئے اور منجملہ اُن سب قبائل کے جنہوں نے اسلامقبول کیا، اُن میں ایک قبیلہ ’’ہوئی چِہی‘‘ بھی تھا۔ وہ لوگ قتیبہ بن مسلم کے زمانہ میں حلقہ ٔ اسلام میں داخل ہوئے اور آج چینی زبان میں ان مسلمانوں کو ’’ہوئی ہوئی‘‘ کہتے ہیں، جس کی اصل ’’ہوئی چِہی‘‘ تھی اور یہ نام غیر مسلمانوں نے اُن مسلمانوں کے لیے تجویز کیا تھا جو عہد تانگ خاندان میںاسلام لائے۔ کیونکہ اُن کے اکثر افراد اُس زمانے میں ’’ہوئی چِہی‘‘ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، لیکن یوآن خاندان یعنی ابتدائی مغلوں کے زمانہ میں ان مسلمانوں نے ’’ہوئی چِہی‘‘ کے نام سے اِجتناب کیا اور ’’ہوئی چِہی‘‘ کو ’’ہوئی ہوئی‘‘ میں تبدیل کر دیا، کیونکہ یہ لفظ اُن کے نزدیک بالکل اسلام کا مفہوم ادا کرتا ہے اور مشرق بعید میں آج تک وہ اِسی نام سے مشہور ہیں۔

سونگ خاندان

907ء میں تانگ خاندان کی سلطنت ختم ہو گئی تو سونگ خاندان برسر اِقتدار آیا۔ تانگ خاندان کے عہد میں تبلیغ اسلام اپنے عروج پر رہی اور مختلف قبائل نے اسلام قبول کرکے چینی علاقوں اور صوبوں میں آبادیاں قائم کیں۔ سونگ خاندان کے دوسرے حکمران شہنشاہ تائی ژونگ (دور حکومت: 976ء تا997ء) کے زمانہ ٔ حکومت میں کاشغر کے حاکم بغرا خان نے چینی ترکستان پر لشکرکشی کردی، کیونکہ بغرا خان والی ٔ خراسان کے ماتحت تھا اور اِس لشکرکشی کے بعد بغرا خان نے چینی ترکستان کو اپنے ماتحت کر لیا اور وہاں کے باشندوں کو غلام بنا لیا اور شمال و جنوب میں ’’یتان و شان‘‘ کو اُن کی سکونت کے لیے مقرر کر دیا، چونکہ اُن میں سے اکثر مسلمان تھے، اِس لیے اُن کو آزاد کر دیا اور اُن کو یہ اختیار دِیا گیا کہ جہاں اُن کا جِی چاہے، وہ وہاں مقیم ہوسکتے ہیں۔ آج چینی ترکستان اور کانسو میں ایک مسلم قبیلہ ’’جوتون گان دل‘‘ (دونغان) کے نام سے مشہور ۔ موجودہ لوگوں کا بیان ہے کہ یہ قبیلہ اُن لوگوں کی اولاد ہے جن کو بغرا خان نے 976ء سے 987ء کے زمانہ میں قید کر دیا تھا.1068 ءمیں صفر خان حاکم بخارا نے جو غز ترک قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا،چین کے دار الحکومت آیا اور شہنشاہ چین سے ملاقات کی جس کی وجہ سے حکمران چین اور مسلمانوں کے تعلقات مضبوط ہوئے۔ سونگ خاندان کے چوتھے حکمران رین ژونگ نے اُس کا شاندار استقبال کیا اور دربارِ چین میں اُس کو خاص مہمان کی حیثیت سے رکھا اور اُن کی دوستی و تعلقات ایسے بندھے کہ بعد میں کشیدہ نہیں ہوئے۔

یوآن خاندان

یوآن خاندان کے امرا میں مسلمانوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔ تاریخ یوآن میں درج ہے کہ شہنشاہ شین چونگ (عہد حکومت: 1312ء) نے ایک شخص حسن نامی کو اپنا وزیر مقرر کیا مگر اُس نے پہلے عہدہ قبول نہ کیا کیونکہ حسن مغل دستور سے واقف تھا کہ دربار میں عموماً دو وزیر ہوتے تھے، ایک وزیر ایمن اور دوسرا ایسر۔ وزیر ایمن کا مرتبہ وزیر ایسر سے بلند ہوتا تھا اور چونکہ شہنشاہ کو اصرار تھا کہ حسن کو وزیر بنایا جائے، اِسی لیے حسن نے صرف وزیر ایسر کا عہدہ قبول کر لیا۔ وزیر ایمن کے لیے شہنشاہ نے ایک دوسرے شخص بطاش نامی ترک کو منتخب کیا تھا۔ یوآن خاندان کے عہد میں مجلسِ شوریٰ جو صوبہ جاتی حکومتوں سے متعلق ہوتی تھی، شہنشاہ عموماً اُس میں مغل مسلمانوں کو مقرر کیا کرتا تھا۔ اگر اُن میں کوئی قابل اور لائق آدمی نہ مل سکتا تو ترک مسلمان منتخب کر لیا جاتا۔ اور اگر ترک مسلمان بھی اِس عہدے کے لائق نہ ملتے تو تب ہان مسلمانوں کا انتخاب ہوتا تھا۔ عام طور پر ہانیوں کو چینی مسلمان کہتے ہیں۔ 1258ء میں سقوط بغداد میں خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوا اور بغدادہلاکو خان کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ دولت اسلامیہ کے مرکز میں چونکہ علمی زِندگی بالکل فنا ہوچکی تھی اور سوائے کھنڈر شہر کے بغداد کی حیثیت کچھ بھی باقی نہ رہ گئی تھی۔ ایسی حالت میں چین میں تبلیغ اسلام وسیع پیمانے پر جاری رہی۔ اِس زمانے میں عربی علوم و فنون کو چین میں مروج ہوئے اور علم طب، علم نجوم اور فنِ سپہ گری کے شعبہ جات پر مسلمان فائز ہوتے رہے۔ یوآن خاندان کے میں محکمہ ٔ تاریخ نویسی پر جو 1227ء میں قائم کیا گیا تھا، میں جب کام بڑھتا گیا تو شہنشاہ نے چینیوں اور مسلمانوں سے پانچ افسران منتخب کرکے اِس ادارے میں مقرر کیے کہ تاریخ مرتب کرنے میں وہ مدد کریں۔1314ء میں مسلمانوں کے لیے دارالاستفتاء کی بنیاد رکھی گئی جن میں بڑے بڑے مسلمان علما مقرر ہوئے۔ محکمہ ٔ فوج میں بھی ہزاروں مسلمان کام کرتے تھے جو فن سپہ گری سے واقف تھے۔ 1346ء میں توپچی کا عہدہ بھی مسلمانوں کے سپرد کر دیا گیا اور 1353ء میں محکمہ الفوج والبحر بھی قائم ہوا جس میں مسلمان فوجوں کے لیے درجہ ٔ اول کے دستے موجود تھے۔ 

منگ خاندان

منگ خاندان کے ہم عصر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت اور عرب سمیت افریقہ اور یورپی ممالک کے ایک حصہ پر سلطنت عثمانیہ قائم تھیں۔ منگ خاندان کے عہد میں مسلمانوں نے نہ صرف فوجی ملازمتوں میں حصہ لیا بلکہ تمدنی اور عمرانی عہدوں پر بھی اپنی استعداد اور ذہانت ظاہر کی۔1383ء میں علامہ ٔ زمان کو تقویم ہجری کے متعلق کرۂ ارض کے طول و عرض کے متعلق جو کتبعربی زبان میں مل سکیں، اُن کو چینی زبان میں ترجمہ کرنے پر مقرر کیا گیا۔ دراصل یہ بات تھی کہ ابتدا میں جب امیرالفوج نے دار السلطنت پر قبضہ کیا تھاتو یوآن خاندان کے شاہی کتب خانوں میں بہت سی ایسی کتب پائی گئیں تھیں جو غیر ملکی زبانوں میں تھیں اور اُن کتابوں کے متعلق لوگ بیان کیا کرتے تھے کہ وہ قدیم علما اور حکما کی تصانیف ہیں جن میں عقل اور حکمت آمیز اقوال موجود ہیں اور عام گمان یہ تھا یہ کسی چینی کو یہ طاقت نہیں کہ اُن اقوال کی تاویل کرسکے۔ چونکہ شہنشاہ تائی چُو ایک دانشمند اور سمجھدار دانا شہنشاہ تھا، لہٰذا اُس نے اُن کتب کو محفوظ رکھنے کا حکم دِیا آخر کار تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ سب کتب عربی زبان میں تھیں۔ شہنشاہ تائی چو نے علاقہ ہویہ چونگ اور لی زَن اور شیخ المشائخ کو حکم دِیا کہ اِن کتب کا ترجمہ عربی زبان سے چینی زبان میں منتقل کر دیں تاکہ تقویم عالم کی تدوین میں اِن کتب سے مدد مل سکے۔ یہ واقعات تاریخ منگ خاندان کے سینتیسویں حصہ میں مندرج ہیں۔ بعد ازاں اِن کتب پر تحقیق جاری رہی کہ یہ ترجمہ شدہ کتب کہاں چلی گئیں؟۔ مذکورۂ بالا بیانات سے واضح ہے کہ منگ خاندان میں اِسلامی علوم و فنون کو خاص اہمیت حاصل تھی، نہ صرف حکام اِن سے دلچسپی لیتے تھے، بلکہ شہنشاہِ وقت بھی اِن کے پھیلانے میں حتیٰ الامکان کوششیں اور اِمداد کیا کرتے تھے 

ایک روایت یہ ہے کہ

تیسرے خلیفۂ راشد حضرت عثمان بن عفانؓ نے ۶۵۱ء میں چانگ آن میں ایک وفد بھیجا تھا۔ ’چانگ آن‘ اس زمانے میں چین کا دارلحکومت تھا اورتانگ قاؤ تسنگ کے زیرمملکت تھا، جس کا تعلق تانگ کے شاہی خاندان سے تھا۔ اس وفد نے چینی شہنشاہ سے ملاقات کی ۔ اسے خلافت اسلامیہ اوراسلام کے احوال نیز مسلمانوں کے رہن سہن سے واقف کرایا۔مورخین اسی واقعے کو چین میں اسلام کی آمد کا آغاز مانتے ہیں۔البتہ عملی طورپرچین میں اسلام کی نشرواشاعت عرب اورایران سے آنے والے مسلمان تاجروں کے ذریعے ہوئی جووہاں خشکی اوربحری دونوں راستوں سے پہنچے تھے۔چین کے مغربی سرحدی علاقوں میں اسلام خشکی کے راستے ترکستان کے توسط سے پہنچا تھا۔ ترکستان میں اسلام اموی دورخلافت میں ہی پہنچ چکا تھا، کیوں کہ اسے اسی زمانے میں فتح کر لیا گیا تھا۔اس راستے سے اسلام کے چین میں داخلے میں اہم کردار اس شاہراہ کا بھی رہا ہے جسے شاہراہِ ریشم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قافلے مغربی ایشیا اور چین کے درمیان آمد و رفت کے لیے اسی شاہراہ کا استعمال کرتے تھے۔مشرقی چین میں اسلام بحری راستے سے داخل ہوا۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کے زمانۂ خلافت میں (۲۱ ہجری ) مسلمانوں کا ایک وفد اسی راستے سے چین میں آیا تھا۔
اس کے بعد لگاتار کئی وفد چین گئے یہاں تک کہ ۳۱ ہجری/۶۵۱ عیسوی سے ۱۸۴ ہجری /۸۰۰ عیسوی کے دوران چین جانے والے وفود کی تعداد اٹھائیس ( ۲۸) تک پہنچ گئی۔ان تمام تفصیلات کا ذکر تاریخِ تانگ میں بھی ملتا ہے بلکہ اس میں ۶۱۸ء سے ۹۰۷ء تک چین میں جانے والے عرب وفود کی تعداد تیس ( ۳۰) بتائی گئی ہے۔اسی زمانے میں باہر سے آنے والے مسلمان داعیوں نے کچھ مسجدیں بھی تعمیرکی تھیں، جن میں سے ایک گوانگ زاو (Guang Zhou)کے مقام پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا نام’ مسجد گوانگ تا‘ تھا۔اس کے علاوہ ایک مسجد قوان زاو(Quan Zhou) شہر میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا نام مسجد قِنگ زین (Qing Zhen) تھا۔اسی شہر کو ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں شہر زیتون کہا ہے۔ یہ دونوں مسجدیں آج بھی موجود ہیں۔
چین میں اسلام کی اتنی قدیم تاریخ ہونے کے باوجود چینی مسلمان ایک عرصے تک دنیا کی نظروں سے اس طرح اوجھل رہے کہ شاید ہی کوئی ان کے بارے میں کچھ جانتا رہا ہو۔امیر شکیب ارسلان نے اپنی کتاب حاضر العالم الاسلامی میں چینی مسلمانوں کی قدیم تاریخ کے تعلق سے لکھا ہے : ’’گویا چین کے مسلمان اس دنیا میں تھے ہی نہیں۔‘‘ معروف مصری صحافی نے ۱۹۸۰ء میں اپنے سفر چین کے بعد وہاں کے مسلمانوں کے حالات لکھتے ہوئے کہا: ’’چین کے مسلمان عالم اسلام کی ’’ایک گم شدہ فائل‘‘ کی طرح تھے۔‘‘
آغاز میں عرب اورایران سے چین جاکر اسلام کی دعوت دینے والے مسلمانوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ چین میں کنفیوشزم، تاؤزم اور بدھ مت کا غلبہ تھا۔ وہاں کے مسلمانوں میں قرآن کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے انھوں نے چینی زبان سیکھی اور چینیوں کوعربی کی تعلیم دی تاکہ لوگ عربی زبان میں قرآن کو پڑھ سکیں۔
تہذیبی ارتقا
تاریخ چین کے عہد وسطی میں چین کی مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے اسلامی تہذیب کو جنم دیا، جس کی بنیاد دین کے اصولوں پر قائم تھی۔اس تہذیب نے انسانی زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ اسلام ان کے لیے ایک خدائی پیغام و نصیحت ہے۔ لیکن اسلام سے مسلمانوں کے اس تعلق میں بتدریج کمی آتی چلی گئی، جس کے اسباب بہت واضح تھے۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اسلامی تعلیمات سے متعلق جو بھی کتابیں میسر تھیں وہ عربی اور فارسی زبان میں تھیں۔ جب تک ان دونوں زبان سے راست استفادہ کرنے والے مسلمان موجود رہے، ان کا رشتہ اسلام کی تعلیمات سے قائم رہا۔ لیکن جب یہ لوگ دنیا سے رخصت ہونے لگے تو ان کا متبادل تیار کرنے کی کوئی کوشش مسلمانوں نے نہیں کی۔ انجام کار ان کتابوں سے استفادہ کرنے والے کم ہوتے ہوتے آخر کار ختم ہو گئے۔ ان کتابوں کو چینی زبان میں منتقل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ چنانچہ اب چین کے غیر مسلموں کے لیے اسلام کے بارے میں جاننے کا واحد ذریعہ اس کے سوا کوئی نہیں بچا کہ وہ مسلمانوں کی عملی زندگی پر نظر ڈالیں۔اس بات کی تائید تاریخی دستاویزوں سے بھی ہوتی ہے، جن میں اس جانب اشارہ ملتا ہے کہ اس وقت کا غیر مسلم تعلیم یافتہ طبقہ اسے بدھ مت کا ہی حصہ تصور کرتا تھا۔اسی صورت حال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ملیشیا کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے استاذ ڈاکٹر یونس عبداللہ ماچنگ بین ، جن کا تعلق چین سے ہی ہے، لکھتے ہیں:
’’چینی آمر کانگ ژی (Kang Xi)کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ مسلمانوں کی علمی حالت کی عکاسی کرتا ہے۔ ۱۶۷۹ء میں راجا کان شی نے اسلام کے بارے میں سنا تو اس نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ قرآن میں کیا تعلیمات دی گئی ہیں۔اس نے معلوم کیا کہ کیا چینی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ موجود ہے ؟ تاکہ وہ اسے پڑھ اور سمجھ سکے؟؟لیکن افسوس کہ اسے ایک بھی مسلمان ایسا نہیں مل سکا جو اس آرزو کو پوری کر سکتا۔ اسی طرح ۱۶۸۳ء میں جب ایک عربی وفد اس کے پاس آیا اور اس نے راجا کو قرآن تحفے میں پیش کیا تو اس نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا کوئی ایسا شخص اس کی سلطنت میں موجود ہے جو اس کے لیے اس کا ترجمہ کر سکے۔ لیکن اس بار بھی اسے ایسا کوئی شخص نہیں مل سکا۔‘‘)
آگے وہ لکھتے ہیں کہ چینی زبان میں اسلامی لٹریچر کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسلام ایک مخصوص گروہ کا مذہب بن کر رہ گیا۔البتہ بعد کے دور میں اس پر توجہ دی جانے لگی۔ اور قرآن کے ترجمے کے علاوہ دیگر اسلامی لٹریچر چینی زبان میں تیار کیا جانے لگا ہے۔
چین میں مسلمانوں کی تعداد
برّصغیر ایشیا میں ہندستان کے بعد چین دوسرا ملک ہے جہاں مسلمان اپنے ملک کی سب سے بڑی اقلیت شمار کیے جاتے ہیں۔چین میں چھپّن (۵۶) قومیتیں آباد ہیں ، جن میں سے دس قومیتیں مسلمانوں کی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی مسلم قومیت ’’ہوی‘‘ ہے۔یہ وہ مسلمان ہیں جو وسطی ایشیا اور بلاد فارس سے ہجرت کرکے چین میں آباد ہوگئے تھے۔باقی مسلم قومیتیں اس طرح ہیں: ایگور، قازق، قرغیز، اوزبک، تاتار، دونگسیانگ، باؤ آلان، سالار اور تاجک۔ان سب پر اسلام کے اثرات بہت واضح اور نمایاں ہیں جوزندگی کے تمام پہلوؤں میں اسلامی تعلیمات سے ان کی وابستگی، کھانے، پینے ،لباس اور گھروں کی ہیئت اور مذہبی اجتماعات اور تہواروں سے ظاہرہیں۔
چینی قومیت والے ہان قبیلے کی آبادی چورانوے ( ۹۴) فی صد ہے، جب کہ باقی دوسری قومیتیں، جو اقلیتی قومیتیں کہلاتی ہیں، ان کی آبادی کل چھ (۶ )فی صد ہے۔چین میں مسلمانوں کی تعداد صحیح طور پر معلوم نہیں ہے ۔چین کے مسلمانوں کے حالات پر تحقیق کرنے والوں نے اگرچہ اس سلسلے میں ممکنہ حد تک اعداد و شمار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بھی صحیح تعداد معلوم نہیں کر سکے۔اس کا بنیادی سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ چین میں آبادی کے اعداد وشمار مذہب کی بنیاد پر نہیں، بلکہ صرف قومیت کی بنیاد پر تیار کیے گئے ہیں۔ مسلم قومیتوں کے سلسلے میں بھی جو اعداد وشمار دیے جاتے ہیں وہ محض اندازے ہی ہیں۔ اکثر محققین کی نظر سے یہ بات چوک گئی کہ وہاں کے مسلمانوں کی اکثریت ان دس مسلم قومیتوں کے علاوہ دوسری قومیتوں سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ان لوگوں نے اسلام قبول کرنے کے باوجود اپنی قومی شناخت کو باقی رکھا، جو شاید ان کی مجبوری بھی تھی، کیوں کہ چین میں مردم شماری مذہب کی بنیاد پر نہیں، بلکہ قومیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔اسی لیے مردم شماری کے دوران انھیں مسلمان قومیت شمار نہیں کیاجاتا۔
مسلم آبادی والے علاقے
چین میں مسلمان پورے ملک کے اندر پھیلے ہوئے ہیں اوراپنے مخصوص محلوں یا علاقوں میں سب جمع ہوتے ہیں جو ان کا خاص امتیاز ہے۔گویا وہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہونے کے باوجود یکجا اور متحد ہیں۔زیادہ تر مسلمان شمال مغربی چین میں آباد ہیں۔ شمال مغربی چین کا علاقہ پانچ صوبوں پر مشتمل ہے: فانسو، شنگھائی، شینکیانگ، شانسی اور نینگشیا۔ جنوبی چین کے علاقے میں مسلمان بہت کم ہیں، حالاں کہ تجارتی راستے سے چین میں داخل ہونے کے لیے مسلمانوں کا پہلا پڑاؤ یہی علاقہ تھا،کیوں کہ اس علاقے کی طرف برّی اور بحری دونوں راستے پہنچتے تھے۔
مختلف حکومتوں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات
منگولی عہد:منگولی حکومت کے تحت مسلمانوں نے بہت سی رعایتیں حاصل کیں اور بہت تیزی سے اوپر اٹھے۔ان کے اندر پائے جانے والے اوصاف: مساوات، امانت داری، حسن اخلاق اور انتظامی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے حکمراں قبلائی خاندان نے عام ریاستوں میں ان کی خدمات حاصل کیں اور انھیں بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا۔اتنا ہی نہیں بلکہ وہ مشرقی اور مغربی ترکستان سے آنے والے مسلمانوں سے بھی خدمات لیا کرتے تھا۔بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ چین کی اصلاًبارہ ( ۱۲) ریاستوں میں سے آٹھ ( ۸) پر مسلمان قائدین کی حکم رانی رہی۔اس دور کے مشہور ترین اور سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھنے والے مسلمانوں میں سے ایک شمس الدین عمر تھے جو منگول حکم راں کے فوجی افسر سے ترقی کر کے تائی یوان شہر اور پھر بعد میں بنیانگ کے فوجی گورنرکے عہدے پر فائز ہوئے۔اس کے بعد بکین شہر کے قاضی مقرر ہوئے، پھر اسی شہر کے گورنر بھی بنائے گئے جو کہ چین کا دارالحکومت تھا۔اس مسلم گورنر نے چین میں بڑی تعداد میں مدارس اور دینی ادارے قائم کرنے کا اہتمام کیا۔ اور شاید اس وقت چین میں موجود مساجد میں سے بیش تر مساجد وہ ہیں جو عہد منگولیہ میں ہی تعمیر کی گئیں۔یہ سب اس باعزت مقام ومرتبے کے طفیل ہوا جو اس زمانے میں مسلمانوں کو حاصل تھا۔
خاندان مِِنگ کا عہد: منگولی عہد کے خاتمے کے بعد چین اورمشرقی ترکستان کے اندر مسلمانوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور مسلمان گزشتہ عہد حکومت میں جن سہولتوں سے فیض یاب ہو رہے تھے وہ سب انھیں اس دوران حاصل رہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی نیا حکم راں خاندان یعنی مِنگ بھی اسی منگولی قبلائی خاندان کے طرز پر حکومت کر رہا تھا۔ اس خاندان کے حکم رانوں نے بھی علمی، ثقافتی اور معاشی اعتبار سے نمایاں مسلمانوں کو حکومت کے اعلیٰ مناصب پر فائز کیا۔ ۱۰۵۲ھ / ۱۴۶۲ء تک یہ صورت حال برقرار رہی۔
عہد مانشوری:یہ دور مسلمانوں پر انتہائی ظلم وبربریت کا رہا ہے۔دراصل مانشوری حکم راں مسلمانوں کے اثرونفوذ سے گھبرانے لگے تھے۔چنانچہ انھوں نے مسلمانوں پر ظلم کا ایک سلسلہ شروع کیا اور انھیں ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کی وجہ سے مانشوری خاندان کوترقی کا موقع ملا۔اس نے پانچ ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا اور مشرقی ترکستان میں ان کا خاتمہ کرنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر کارروائیاں کیں۔ یہ دور ۱۹۱۱ء میں مانشوری عہد کے خاتمے تک جاری رہا۔
جمہوری نظام حکومت: مانشوری عہد کے خاتمے کے بعد ملک میں جمہوری نظام کا دور آیا۔ اس زمانے میں اگر چہ انھیں کھلے ظلم کی پالیسی سے نجات مل چکی تھی اور اب ان کے لیے ملک کے اندر سکون اور اطلینان کی سانس لینا قدرے آسان ہو گیا ہے، تاہم یہ کوئی عام صورت حال نہیں ہے۔ موجودہ وقت کا کمیونسٹ نظام آج بھی ان مسلمانوں سے خائف ہے۔ چنانچہ مشرقی ترکستان کے مسلمان آج بھی چین کے کمیونسٹ نظام کے مظالم جھیل رہے ہیں ۔ یہ وہ علاقہ ہے جوچین کے قبضے میں ہے اوروہاں کی جمہوریت پسند کمیونسٹ حکومت کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر ترکستان کو آزادی کو موقع دیا گیا تو وہاں کے باشندے چینی حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔اسی وجہ سے چین میں مذہبی آزادی بھی صرف ہوی قبیلے کے مسلمانوں یا مہاجرین کو ہی حاصل ہے، لیکن ترکستان کے ترک ایگور قبیلے کو اس حق سے محروم کر دیا گیاہے ۔اہلِ ترکستان کا قافیہ تنگ کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ علاقہ مسلم اکثریتی ہونے کے باوجود چین کے لیے کئی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ترکستان پٹرول اور معدنی ذخائر سے مالا مال ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس طبیعی گیس کے ذخائر بھی موجود ہیں، اسی طرح اس علاقے میں سونا بھی بہت ہے۔ عمدہ ترین قسم کا یورینیم ترکستان ہی میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہاں بے شمار معدنی ذخائر موجود ہیں۔اس لیے چین اپنے لیے بہتر یہی سمجھتا ہے کہ مشرقی ترکستان اس کے تابع رہے۔نیز یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ قرغیزستان اور مرکزی ایشیا میں پائے جانے والے تیل اور گیس کے میدانوں تک براہ خشکی ترکستان سے گزر کر ہی پہنچا جا سکتا ہے۔اسی طرح بین الاقوامی تجارت کے فروغ میں ترکستان کا کردار بنیادی اور کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے کیوں کہ مشہورشاہ راہِ ریشم ترکستان ہی سے ہو کر گزرتی ہے۔ مشرقی ترکستان کا رقبہ اتنا بڑا ہے کہ تنہا یہ ملک چین کے پانچویں حصے پر مشتمل ہے۔اس کا اپنا رقبہ فرانس کے رقبے سے پانچ گنا زیا دہ ہے، جو کہ یوروپی ممالک میں سب سے زیادہ رقبہ والا ملک ہے۔ رقبے کے اعتبار سے دنیا میں اس کا نمبر انیسواں ہے۔اس کی آبادی تقریباً دو کروڑ پچاس لاکھ ہے جس کی اکثریت مسلمان ہے۔اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر ترکستان نہ ہوتا تو چین معاشی اعتبار سے رو بہ زوال ہو گیا ہوتا۔

مسلمانوں کی صورت حال
چین میں اسلام کی جڑیں دیگر مذاہب مثلاً عیسائیت کے برعکس بہت گہری ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اسلام یہاں بہت پہلے پہنچ چکا تھا اور اس وقت سے آج تک موجود چلا آ رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ملک کی حیثیت سے چین کی سیاست و معیشت کی ترقی میں استطاعت بھر اپنا حق دیا کیا ہے۔اس کے باوجود اسلام وہاں زیادہ نہ پھیل پانے کی ایک وجہ تو یہ رہی کہ مسلمانوں نے اس جانب بہت بعد میں توجہ دی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دعوتی مشن کو وہاں اس طرح مادی تقویت حاصل نہیں ہو سکی جس طرح عیسائیت کو حاصل ہے۔ مغربی چرچوں بالخصوص ویٹی کن سے عیسائی مشنریوں کو وہاں ہر طرح کی کمک فراہم کی جاتی ہے۔
اس وقت چینی مسلمانوں میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں: ایک وہ جو دوسرے مسلم ممالک کے ربط میں رہ کر یا وہاں کی اسلامی یونیورسٹیوں سے فیض یاب ہو کر آئے ہیں اور چین میں اسلام کی ایک معتدل تصویر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔چین کے سیاسی ، معاشرتی اور اقتصادی میدان میں جس حد تک گنجائش ہے، اس حد تک مسلم اقلیت کو ملنے والے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اسلام کے تئیں والہانہ جذبہ تو رکھتے ہیں لیکن اپنی اسلامی شناخت کو کھو چکے ہیں۔ ان کے اندر اسلام کا دفاع کرنے کا جذبہ تو موجود ہے، لیکن وہ اسلام کی تعلیمات او راس کے بنیادی ارکان تک سے ناواقف ہیں۔اگر کوئی شخص ان کے سامنے یہ کہہ دے کہ اسلام اچھا مذہب نہیں ہے تو انھیں غصہ آ جائے گا اور اس کا دفاع کرنے کے لیے آستینیں چڑھا لیں گے، لیکن اگر آپ ان سے پوچھ لیں کہ اسلام ہے کیا؟ تو وہ آپ کو کوئی جواب نہیں دے پائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے چین کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے جہاں تعلیم ابتدائی، ثانوی اور یونیورسٹی مراحل سے گزرنے کے دوران کمیونزم کو ان ذہنوں میں اچھی طرح نچوڑ دیا گیا ہے۔
دینی و علمی کوششیں
چینی عوام کے درمیان اسلام کو متعارف کرانے کے لیے علمی کام کرنے اوردینی لٹریچر کو چینی زبان میں منتقل کرنے کی ضرورت تو پہلے بھی تھی، لیکن برسوں تک اس ضرورت کی تکمیل نہ ہوپانے کی وجہ سے اسلام کی اشاعت اور ارتقا میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو ئی تھی۔لیکن بعد میں مسلمان علماء نے چینی تہذیب وثقافت کو سامنے رکھتے ہوئے تعارف اسلام کی غرض سے لٹریچر تیار کرنا شروع کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسلام ،جو محض ایک عقائد اورچند مخصوص عبادات کا مجموعہ سمجھا جاتا تھا ، اب دین اور نظام حیات کے طور پر جانا جانے لگا۔ اسلام کی اخلاقی قدروں سے بھی لوگ واقف ہونے لگے ۔انیسویں صدی کے آغاز تک قرآن کا مکمل ترجمہ نہیں کیا جا سکا تھا، البتہ انیسویں صدی کے اواخر میں قرآن کے بعض انگریزی تراجم چین پہنچے تو ان سے چین کے مسلمانوں کو بھی تحریک ملی اورانھوں نے ترجمے کا کام شروع کیا۔چینی زبان میں قرآن کا قدیم ترین ترجمہ جاپانی زبان سے کیا گیا تھا۔ یہ ترجمہ ایک غیرمسلم نے کیا تھا جو ۱۹۲۷ء میں بیکین سے شائع ہوا تھا۔ایک اور ترجمہ ۱۹۳۱ء میں ہوا تھا۔ اسے بھی ایک غیر مسلم جی جیو می (Ji Jue Mi)نے کیا تھا۔یہ سب ترجمے چوں کہ براہ راست عربی زبان کے بجائے انگریزی سے کیے گئے تھے، اس لیے ان میں بہت سی غلطیاں در آئی تھیں۔ چنانچہ ان کی اشاعت کو زیادہ فروغ نہیں دیا گیا۔بیسیویں صدی میں بیجنگ، تیان جن اور شنگھائی میں براہ راست عربی زبان سے قرآن کا ترجمے کے کام کا آغاز ہوا۔چنانچہ ۱۹۱۴ء میں ایک مسلم عالم شیخ یعقوب وانگ جینگ چائی نے اس کام کو شروع کیا اور یہ ۱۹۴۶ء میں شنگھائی سے شائع ہوا۔لیو جین بیاؤ کا ترجمہ بھی اسی سال بیجنگ سے شائع ہوا۔بانگ چنگ مینگ نے بھی ایک ترجمہ کیا جو ۱۹۴۷ء میں شائع ہو۔ آخری ترجمہ محمد مکین ما جیان نے کیا جو ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا۔ یہ ترجمہ عربی زبان کے اصل مفہوم سے زیادہ قریب تر سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح حدیث کے میدان بھی علمی و تحقیقی کام کیا گیا۔ احادیث کے مجموعوں کے تراجم تو نہیں ہو سکے البتہ منتحب احادیث کے بعض مجموعے چینی زبان میں شائع ہو چکے ہیں۔ان میں مشکوۃ المصابیح کے علاوہ بخاری کا خلاصہ بھی شامل ہے۔اسلام کے ان بنیادی مآخذ، بالخصوص قرآن کے تراجم مہیا ہونے کی وجہ سے اہلِ چین کے لیے اسلام کا تعارف حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے۔
مسلمانوں کی تعلیم
مسلم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے چین میں مدارس بھی قائم ہیں، جن میں ابتدائی، ثانوی اور اعلی، تین مرحلوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ان مراحل میں ناظرقرآن سے لے عربی زبان، تفسیر، علم حدیث و فقہ وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔البتہ اسلامی کتب اب بھی اس معیار اور مقدار میں نہیں ہیں کہ ان کے ذریعے بچوں کی مکمل تربیت کا کام انجام دیا جا سکے۔ جو کتابیں ہیں ان پر بھی نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔لیکن ابھی اس میدان میں چین کے مسلمانوں کو بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام کے بارے میں غیر مسلموں کے تصورات
ایک سروے کے ذریعے ملیشا میں موجود غیر مسلم چینیوں سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ اسلام کے بارے میں ان کے تصورات کیا ہیں؟ اس کے نتیجے میں تین الگ الگ تصورات سامنے آئے۔ ایک تصور تو یہ سامنے آیا کہ اسلام ملاؤں اور عربوں کا دین ہے۔ وہ عورتوں کے ساتھ عدل نہیں کرتا ہے، تشدد اور غیر مسلموں سے نفرت کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ اسلام کا یہ تصور انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ رہ کر اخذ کیا ہے یا پھر میڈیا نے انھیں یہ معلومات فراہم کی ہیں۔ یہ تصور عام طور پر ان غیر مسلم چینیوں کے ذہنوں میں پایا جاتا ہے جو تعلیم یافتہ ہیں۔ ایک دوسرا طبقہ عام چینی باشندوں کا ہے۔ ان کے ذہنوں میں اسلام کا جو تصور پایا جاتا ہے وہ بھی تقریباً وہی ہے جو تعلیم یافتہ طبقے کا ہے۔وہ اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ اسلام کا عقیدہ کیا ہے؟ معاشرے سے برائی کے خاتمے کے لیے اس نے کیا احکام دیے ہیں؟ وہ ان سب چیزوں سے بے خبر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو اسلام کے بارے میں کافی معلومات رکھتا ہے، لیکن ان کی معلومات کا ذریعہ مسلمان نہیں بلکہ ان کا شوقِ مطالعہ و تحقیق ہے۔ انھوں نے اسلام کے بارے میں یہ ساری معلومات کتابوں کے ذریعے حاصل کی ہیں۔

چینی ادب عالیہ اردو قالب میں

صحیفہ چین کے متعدد نسخے ملتے ہیں اور نسخوں کے اسی اختلاف کی بنا پر یہ کتاب قدیم زمانہ سے ادبی تنازع کا باعث رہی ہے۔ "نیا متن" نامی نسخے کو چن شی ہوانگ کے جاری کردہ فرمان کتابیں جلا دو اور علماء کو زندہ دفن کردوسے بچا کر فو شینگ نے محفوظ کر رکھا تھا۔ جبکہ "پرانا متن" کا نسخہ دوسری صدی ق م کے اواخر میں کنفیوشس کے خاندانی مکان کی منہدم دیوار سے ملا جو قوفو میں واقع تھا۔ بعد ازاں یہ نسخہ ہان خاندان کے زوال کے وقت گم ہو گیا جو پھر چوتھی صدی عیسوی میں دستیاب ہوا۔ ابتدا میں یہی نسخہ رائج اور مقبول تھا لیکن جب چنگ خاندان کے ایک محقق یان روکو نے یہ انکشاف کیا کہ تانگ خاندان نے اپنے عہد حکومت یعنی تیسری یا چوتھی صدی عیسوی میں صحیفہ چین میں الحاقات کیے تھے تو اس کا استناد مجروح ہو گیا۔

صحیفہ کے ابواب چار حصوں میں منقسم ہیں جو چار مختلف عہد کی تاریخ کا احاطہ کرتے ہیں: یو اعظم کا نیم افسانوی عہد حکومت، شیا خاندان، شانگ خاندان اورژؤ خاندان کے عہد۔ صحیفہ کا بڑا حصہ ژؤ خاندان کے کوائف پر مشتمل ہے۔ نیز "نیا نسخہ" نامی متن کے کچھ ابواب میں چینی نثر کے ابتدائی نمونے بھی ملتے ہیں جن میں گیارہویں صدی ق م کے اواخر کے ژؤ شاہی خاندان کی تقریریں قابل ذکر ہیں۔

اردو ترجمہ

سنہ 1937ء میں سید اسد انوری فریدآبادی نے "صحیفۂ چین" کے نام سے اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا جو مکتبہ جامعہ دہلی سے شائع ہوا۔ ڈبلیو گورن اولڈ کا انگریزی ترجمہ بک آف ہسٹری مترجم کے پیش نظر رہا۔ مترجم نے اصل کتاب کے ترجمہ کے علاوہ اس میں اپنی جانب سے تین ضمیمے شامل کیے ہیں۔ پہلا ضمیمہ کنفیوشس کے حالات اور اس کے فلسفہ و اخلاقیات سے بحث کرتا ہے۔ دوسرے میں چین کے معلق عام اور کارآمد معلومات درج کی گئی ہیں، اسی ضمن میں تاریخ چین کا ایک مختصر خلاصہ بھی پیش کر دیا گیا ہے۔ تیسرا ضمیمہ شاہان چین کی سنہ وار فہرست پر مشتمل ہے۔