https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 13 April 2024

اجماع امت اور اقوال صحابہ

            ائمہ سلف وخلف اور تمام اہل السنۃ والجماعت کااس عقیدہ پر اجماع چلا آرہا ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ بغیر کسی استثناء کے عادل اور واجب التعظیم والاحترام ہیں، ان کی روایت بلا چون وچرا قابلِ قبول اور واجب التسلیم ہے، ان میں سے کسی پر بھی طعن کرنا جائزنہیں۔ ان کے آپس کے مشاجرات کی بحث سے رکنا چاہیے۔ ہاں! ان کے دامن کی صفائی بیان کرنے کے ذکر میں کوئی مضائقہ نہیں؛ جب کہ نیت صحیح ہو۔ ان کی اجتہادی خطائوں کی صحیح تاویلیں ہیں۔

            نیز یہ کہ اس پر بھی وہ ماجور ہوں گے؛ کیونکہ حدیث نبوی میں ہے کہ جب مجتہد اجتہاد کرے؛ اگر اجتہاد صحیح نکلے تو اس کو دواجر ملیں گے اوراگر غلط ہوجائے تو اس کو ایک اجر ملے گا۔ (بخاری ومسلم) صحابۂ کرامؓ میں سے حضرت علی المرتضیٰؓ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت براء بن عازبؓ کے صراحتاً اور بقیہ صحابہؓ کے احادیث نبویہ کے ضمن میں کئی ارشادات منقول ہیں، اس باب کا افتتاح ہم سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعود المتوفی ۳۳ھ رضی اللہ عنہ کے اس سنہری فرمان سے کرتے ہیں:

            عن ابن مسعود قال من کان مستنًا فلیستن بمن قد مات فان الحی لا تؤمن علیہ الفتنۃ أولٰئک أصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا أفضل ہذہ الأمۃ وأبرہا قلوبا وأعمقہا علما وأقلہا تکلفًا اختارہم اللّٰہ لصحبۃ نبیہ ولإقامۃ دینہ فاعرفوالہم فضلہم اتبعوہم علی أثرہم وتمسکوا بما استطعتم من أخلاقہم وسیرہم فإنہم کانوا علی الہدی المستقیم۔ (رواہ رزین بحوالہ مشکوٰۃ، ص۳۲)

            ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص سنت کا اتباع کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ فوت شدہ بزرگانِ دین کے نقش قدم پر چلے؛ اس لیے کہ زندہ پر فتنہ کا اندیشہ رہتا ہے۔ ایسے بزرگان دین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ ہی ہیں جو سب امت سے افضل، سب امت سے زیادہ پاکیزہ دلوں والے سب امت سے بڑھ کر گہرے اور ٹھوس علم والے اور سب سے کم تکلف والے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی کی صحبت کے لیے اور دین کی اقامت اور سربلندی کے لیے چن لیا۔ ان کی فضیلت کو پہچانو، ان کے نقش قدم کی پیروی کرو اور ان کے اخلاق اور سیرت کو حتی الوسع اپنانے کی کوشش کرو کہ وہ سیدھی راہ پر گامزن تھے۔

چارمذاہب کے ائمہ کی شہادت

            اب حضرات ائمہ اربعہ متبوعینؒ کے اقوال ملاحظہ ہوں:

             امام اعظم نعمان بن ثابت ابوحنیفہؒ المتوفی (۱۵۰ھ) قرآن وسنت کے بعد بلا استثناء صحابۂ کرامؓ کے اقوال کو دین میں حجت سمجھتے تھے۔ کسی مسئلہ میں اگر کسی صحابیؓ سے کچھ مروی ہوتاتو اپنا اجتہاد ورائے چھوڑ دیتے تھے۔ امام ابوحنیفہؒ کا یہ قول مشہور ہے:

            اٰخذ بکتاب اللّٰہ فإن لم أجد فبسنۃ رسول اللّٰہ فإن لم أجد فبقول الصحابۃ اٰخذ بقول من شئت منہم ولا أخرج عن قولہم الٰی غیرہم۔ (تہذیب التہذیب، ج۱، ص۴۵۰ ومناقب ابی حنیفہؒ للذہبی)

            ترجمہ: میں پہلے کتاب اللہ سے استدلال کرتا ہوں اگر اس میں مجھے دلیل نہ ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیتا ہوں اور اگر اس میں بھی مجھے دلیل نہ ملے تو میں حسب مرضی صحابۂ کرامؓ کے اقوال سے استدلال کرتاہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کے قول کی طرف نہیں جاتا۔

            سنن الکبری للبیہقی میں امام شافعیؒ المتوفی (۲۰۴ھ) سے منقول ہے:

            امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ کسی مسئلہ میں جب تک قرآن وسنت میں دلیل موجود ہو تو اس کا علم رکھنے والے کو قرآن وسنت کی اتباع کے بغیر چارہ نہیں اور اگر قرآن وسنت میں دلیل نہ ہوتو ہم صحابۂ کرامؓ کے سب اقوال کی طرف یا ان میں سے کسی ایک کے قول کی طرف رجوع کریں گے۔

            (کچھ آگے فرماتے ہیں) جب ائمہ (خلفاء راشدینؓ) سے کچھ ثبوت نہ ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہؓ دین کے امین ہیں،ہم ان کے اقوال لیں گے اور صحابۂ کرامؓ کی اتباع دوسروں کی اتباع کی بہ نسبت ہمیں زیادہ مناسب ہے۔ (ازالۃ الخفا، ج۱، ص۶۴، فصل دوم لوازم خلافت خاصہ)

            حنفیہؒ کی اصول سرخسی جلد۲ ص۱۰۶ پر امام مالکؒ المتوفی (۱۷۶ھ) کا بھی یہی مذہب بتایا ہے۔ امام مالکؒ کو صحابہؓ کی تکریم کا خاص اہتمام تھا؛ چنانچہ قاضی عیاض اور ملا علی قاریؒ شرح شفا میں فرماتے ہیں:

’’امام مالک فرماتے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں سے کسی کو برا بھلا کہا خواہ ابوبکر،عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم ہوں یا حضرت معاویہؓ اور عمرو بن العاصؓ ہوں اگر یوں کہا کہ وہ کافر اور گمراہ تھے تو یہ واجب القتل ہے اوراگر عام لوگوں جیسی گالی دے تو اسے سخت سزا دی جائے۔‘‘ (شرح شفاء لملاعلی قاری، ج۲، ص۵۵۶)

            الصارم المسلول علی شاتم الرسول، ص۵۷۳ پر علامہ ابن تیمیہؒ امام احمد بن حنبلؒ المتوفی (۲۴۱ھ) سے نقل فرماتے ہیں:

            خیر الأمۃ بعد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أبوبکر وعمر بعد أبی بکر وعثمان بعد عمر و علی بعد عثمان و وقف قوم وہم خلفاء راشدون مہدیون ثم أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد ہؤلاء الأربعۃ خیر الناس لا یجوز لأحد أن یذکر شیئًا من مساوریہم ولا یطھعن علی أحد منہم بعیب ولا نقص فمن فعل ذلک فقد وجب تأدیبہ۔ (قال فی الرسالۃ التی رواہا ابوالعباس محمد بن یعقوب الاصطخری)

            ترجمہ: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکرؓ ہیں، ابوبکرؓ کے بعد عمرؓ ہیں، عمرؓ کے بعد عثمانؓ ہیں، عثمان ؓ کے بعد علیؓ ہیں۔ (رضی اللہ عنہم)

            (آخری قول میں) ایک جماعت نے توقف کیاہے یہ ہدایت یافتہ خلفاء راشدینؓ تھے پھر چار حضرات کے بعد سب صحابۂ کرامؓ سب سے افضل ہیں کسی کو جائز نہیں کہ ان کی برائی کرے، کسی میں کوئی عیب اور نقص کی وجہ سے اعتراض نہ کرے جس نے ایسا کیا اسے سزا دینی واجب ہے۔

            یہ تصریحات عدالت صحابۂ کرامؓ کو متضمن اورمستلزم ہیں کما لا یخفی۔

محدثین کرامؒ کی شہادت

                        امام سفیان ثوریؒ المتوفی (۱۶۷ھ) سے منقول ہے:

            قال عبد اللّٰہ بن ہاشم الطوسی حدثنا وکیع قال سمعت سفیان یقول فی قولہ تعالیٰ قل الحمد للّٰہ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ، قال ہم أصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم (الاصابہ لحافظ بن حجر، ج۱، ص۱۳)

            ترجمہ: عبداللہ بن ہاشم طوسی کہتے ہیں کہ ہم سے وکیع بن الجراح نے سفیان ثوری سے یہ نقل کیاہے کہ اس آیت کا مصداق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ ہیں‘‘ آپ کہیے سب تعریفیں اللہ ہی کیے لیے ہیں اور اللہ کے ۔۔۔۔ پر سلامتی ہو جن کو اس نے پسند کرلیا ہے۔

            سہل بن عبد اللہ تستریؒ المتوفی کہتے ہیں جو علم وزہد اور جلالۃ شان میں مشہور ہیں کہ جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی تعظیم نہیں کی وہ صحیح طورپر حضور علیہ السلام پر ایمان نہیںلایا۔  (رسالہ تائید مذہب اہل سنت، ص۵۲ از مجدد الف ثانیؒ)

            علامہ مبارک بن محمد بن اثیر جزریؒ المتوفی (۶۰۶ھ) لکھتے ہیں:

            الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم أجمعین عدول بتعدیل اللّٰہ عز وجل ورسولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یحتاجون إلی بحث عن عدالتہم وعلیٰ ہذا القول معظم المسلمین من الأئمۃ والعلماء من السلف والخلف۔ (جامع الاصول من احادیث الرسول، ج۱، ص۷۳)

            ترجمہ: سب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعدیل کردی ہے ان کی عدالت کے متعلق بحث کرنے کی حاجت نہیں اسی اعتقاد پر مسلمانوں کے سربرآوردہ ائمۂ کرامؓ اور متقدمین متاخرین علماء کرام چلے آرہے ہیں۔

            حافظ محی الدین ابوزکریا بن شرف النوریؒ المتوفی (۶۷۱ھ) رقم طراز ہیں۔

            ولہذا اتفق أہل الحق ومن یعتد بہ فی الإجماع علی قبول شہاداتہم وروایاتہم وکمال عدالتہم رضی اللّٰہ عنہم اجمعین۔ (شرح مسلم، ج۲، ص۲۷۲)

            ترجمہ: اس لیے اہلِ حق جماعت اور جن کا اجماع معتبر ہے صحابۂ کرامؓ کی مروی احادیث کی قبولیت ان کی شہادت کی صداقت اور کامل عدالت پر متفق ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوچکا۔

            حافظ ابوعمرو یوسف بن عبد اللہ المعروف بابن عبدالبرؒ المتوفی (۴۶۳ھ) ’’الاستیعاب فی معرفتہ الاصحاب‘‘ کے آغاز میں لکھتے ہیں۔

’’سنن نبویہ کی حفاظت اور معین اسباب میں سے ان حضرات کی معرفت بھی ہے جنھوں نے سنن نبویہ (علی حبہا الصلوٰۃ والتسلیم) کو اپنے نبی سے نقل کرکے سب لوگوں تک پہنچایا اور اس کی کما حقہ حفاظت اور تبلیغ کی ہے۔ وہ لوگ آپ کے صحابۂ کرامؓ اور حواری ہیں کہ انھوں نے سنت کو محفوظ کیا اور اسلام ومسلمانوں کی خیرخواہی سمجھ کر اس فریضہ کو ادا کیا حتیٰ کہ ان کی نقل اورروایت سے دین مکمل ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کی حجت مسلمانوں پر ثابت ہوگئی۔ یہی لوگ سب سے افضل اور سب امت سے بہتر تھے جو لوگوں کی تبلیغ کے لیے بھیجی گئی۔  ان تمام کی عدالت ثابت ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف بیان کی ہے ان لوگوں سے بڑھ کر کوئی عادل نہیں ہوسکتا جن کو اللہ نے اپنے نبی کی صحبت اور مدد کے لیے چن لیا۔ اس سے بڑھ کر نہ کوئی تزکیہ کا مقام ہوسکتا ہے اور نہ ثبوتِ عدالت اس سے اکمل طریقے سے ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں محمد رسو اللہ الخ‘‘

            آگے اسی کتاب کے ،ص۹ پر لکھتے ہیں۔

            وإن کان الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم قد کفینا البحث عن أحوالہم الجماع أہل الحق من المسلمین وہم أہل السنۃ والجماعۃ علیٰ أنہم عدول۔

            ترجمہ: اگرچہ سب صحابہؓ کے بارے میں ہم کافی بحث کرچکے ہیں؛کیونکہ اہل حق مسلمانوں کا جو اہل السنۃ والجماعۃ ہی ہیں اس پراجماع ہے کہ سب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عدول ہیں۔

            حافظ ابن حجر عسقلانیؒ المتوفی (۸۵۲ھ) الاصابہ، ج۱، ص۱۰ پر لکھتے ہیں:

            وقال أبو محمد ابن حزمؒ الصحابۃ کلہم من أہل الجنۃ قطعا۔ قال اللّٰہ تعالیٰ لا یستوی منکم من أنفق من قبل الفتح وقاتل الآیۃ وقال تعالیٰ إن الذین سبقت لہم منا الحسنٰی۔ أولئک عنہا مبعدون فثبت أن الجمیع لأہل الجنۃ لأنہم یخاطبون بالآیۃ السابقۃ۔

            ترجمہ: علامہ ابو محمد حافظ بن حزمؒ کہتے ہیں کہ سب صحابۂ کرامؓ اہل جنت ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے فتحِ مکہ سے پہلے انفاق وقتال کیا، وہ اس کے برابر نہیں جس نے بعد میں انفاق وقتال کیا، الآیہ۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جن لوگوں سے ہماری طرف سے بھلائی کا وعدہ ہوچکا ہے، یہ لوگ آگ سے دور رکھے جائیںگے، پس ثابت ہوا کہ تمام صحابہؓ اہلِ جنت میں سے ہیں؛ اس لیے کہ آیتِ سابقہ میں وہی (فتح مکہ سے قبل اور بعد والے مومن) مخاطب ہیں۔

            اور یہ سوال کیا جائے کہ آیت مذکورہ میں انفاق اور قتال کی قید اور ایسے ہی احسان کی قید  ہے کہ جو صحابی ان صفات سے موصوف نہ ہو یہ آیت اسے شامل نہ ہو؛ حالانکہ صحابہؓ کے ۔۔۔ ہونے کے لیے یہ صریح آیتیں ہیں اسی لیے تو مازری نے شرح برہان میں لکھا ہے کہ ’’الصحابۃ عدول‘‘ سے ہر وہ صحابی مراد نہیں جسے ایک دن یا کبھی ایک ساعت آپؐ کی زیارت نصیب ہوئی یا کسی اور غرض سے آپؐ کی خدمت میں آیا اور چلاگیا ہو؛ بلکہ اس سے وہ صحابہؓ مراد ہیں جو کافی عرصہ آپؐ کی خدمت میں رہے آپؐ کی توقیر اور نصرت کی اور آپؐ پر نازل شدہ نور کی پیروی کی تو علامہ بن حزمؒ اس کا جواب یہ دیتے ہیں۔

            والجواب عن ذلک ان التقییدات المزکورۃ أخرجت تحرج الغالب وإلا فالمراد بالإنفاق والقتال بالفعل  والقوۃ۔

            ترجمہ: اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ قیدیں تغلیبی طور پرلگائی گئی ہیں کہ اکثر صحابۂ کرامؓ انفاق اور قتال کرتے تھے) ورنہ انفاق وقتال سے مراد عام ہے۔ بالفعل کیا ہو یا بالقوۃ کرنے کی طاقت رکھتے ہوں۔

            اور حافظ بن حجرؒ بھی اس قول کا تخطیہ یوں کرتے ہیں۔

’’کہ مازری کے اس قول کی کسی نے موافقت نہیں کی؛ بلکہ محققین اور فضلاء کی ایک جماعت نے اس پر طعن کیا ہے، شیخ صلاح الدین علائی کہتے ہیں کہ مازری کا یہ قول نادر ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ بہت سے صحابۂ کرامؓ جو صحابیت اور روایت میں مشہور ہیں ان کو عادل نہ کہا جائے، جیسے وائل بن حجر مالک بن الحویرث اور عثمان بن ابی العاص وغیرہم رضی اللہ عنہم۔ جو آپؐ کی خدمت میں وفد کی صورت میں حاضر ہوئے تھے اور تھوڑی دیر ٹھہر کر چلے گئے تھے اور اسی طرح اس قول سے وہ صحابہؓ  بھی عادل نہ ہوںگے جن کی روایت حدیث صرف ایک ہے یا آپؐ کی خدمت میں ان کی مقدارِ صحبت معلوم نہیں جیسے عرب کے قبائل وغیرہ‘‘۔

            والقول بالتعمیم ہو الذی صرح بہ الجمہور وہو المعتبر (الاصابہ، ج۱، ص۱۱)

            ترجمہ: تمام صحابۂ کرامؓ کو عادل کہنے کی ہی جمہور علماء امت نے تصریح کی ہے اور یہی معتبر مسلک ہے۔

            خطیب بغدادی ’’الکفایہ فی علوم الروایہ‘‘ میں عدالتِ صحابہؓ پر آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’عدالتِ صحابہؓ کے موضوع پر احادیث بہت کثرت سے مروی ہیں ان تمام کا تقاضا یہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ (منافی عدالت امور سے) طاہر ہوں اور قطعاً عادل اور برائیوں سے منزہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی ان کی عدالت پر شہادت کے بعد۔ جوان کے باطن سے واقف ہے۔ کوئی صحابیؓ ثبوت عدالت میں کسی مخلوق کی تعدیل کا محتاج نہیں اور وہ اسی وصفت پر سمجھے جائیں گے تاآنکہ کسی سے ایسے جرم کا ثبوت ہوجائے جو نافرمانی کے قصد ہی سے – بلا احتمال غیر ہوسکتا  ہو اور تاویل کی کوئی گنجائش نہ رہے تو عدالت کی نفی تسلیم کی جائے گی؛ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے جرم کے ارتکاب سے بری اور ان کی شان کو اس سے برتر بنایا ہے۔ علاوہ ازیں بالفرض خدا اور رسولؐ کی جانب سے ان کی مذکورہ ثنا وتعدیل نہ بھی ہوتی تو بھی ان کی مندرجہ ذیل سیرت ان کے قطعی عادل اور گناہوں سے صاف ہونے پر قوی شہادت تھی۔ مثلاً ہجرت، جہاد فی سبیل اللہ، نصرۃ رسول اپنی جان واموال کی قربانی، اپنے آبا واجداد کو اور اولاد کو قتل کرنا، دین کی خیرخواہی اور ایمان میں قوت اور پختگی وغیرہ۔

خلاصۂ کلام یہ کہ ان کے بعد آنے والوں میں جن جن کا تزکیہ اور شہادت عدالت دی جائے گی ان سب سے وہ افضل ہیں۔ یہی مذہب تمام علماء امت اور قابل اعتماد فقہاء کا ہے۔‘‘

            اسد الغابہ فی معرفتہ الصحابہ، ج۱، ص۲ پر علامہ جزریؒ لکھتے ہیں کہ

             صحابۂ کرامؓ سب امور میں عام رواۃ کی صفات (حفظ اتقان وغیرہ) میں شریک ہیں؛ مگر جرح تعدیل میں نہیں؛کیونکہ وہ سب کے سب عادل ہی ہیں ان پر جرح کی کوئی سبیل نہیں؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پاک صاف اور عادل قرار دیا ہے اور یہ مشہور چیز ہے جس کے ذکر کی حاجت نہیں۔

            علامہ قرطبی مالکی محمد بناحمد الانصاریؒ المتوفی (۶۱۱ھ) لکھتے ہیں۔

            قلت فالصحابۃ کلہم عَدول أولیاء اللّٰہ تعالیٰ وأصفیائہ وحیرتہ من خلقہ بعد أنبیائہ ورسلہ ہذا مذہب أہل السنۃ والذی علیہ الجماعۃ من أئمۃ ہذہ الأمۃ۔

            ترجمہ: میں کہتاہوں سب صحابۂ کرامؓ عادل اللہ تعالیٰ کے دوست اس کے برگزیدہ بندے اورانبیاء اور رسول کے بعد اس کی سب مخلوقات سے افضل ہیں یہی اہل السنۃ والجماعۃ کا مذہب ہے اور اس پر اس امت کے ائمہ کی ایک بڑی جماعت کا اعتقادہے۔ (تفسیر قرطبی، ج۱۶، ۲۹۹)

علماء اصول حدیث کی شہادت

            امام نووی اور جلال الدین سیوطیؒ المتوفی (۹۱۱ھ) فرماتے ہیں۔

            الصحابۃ کلہم عدول مَن لَابَسَ الفِتَنَ وغیرہم فإجماع من یعتد بہ وقالت المعتزلۃ عدول إلا من قاتل علیہا وقیل اذا انفرد وقیل إلا المقاتل والمقاتل لہ۔ وہذا کلہ لیس بصواب إحسانا للظن بہم وحملا لہم فی ذلک علی الاجتہاد الماجور فیہ کلہم منہم۔ (تقریب مع شرح تدریب الراوی، ص۴۰۰)

            ترجمہ: سب صحابۂ کرامؓ عادل ہیں فتنہ سے دوچار ہونے والے بھی اور دوسرے بھی اس پر معتمد ترین علماء کا اجماع ہے۔ معتزلہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ سے لڑنے والوں کے سوا سب عدول ہیں ایک قول یہ ہے کہ جب صحابیؓ تنہا روایت کرے (تو عادل شمار نہ ہوگا) ایک قول یہ بھی ہے کہ آپس میں لڑائی کرنے والے عادل نہیں۔ یہ سب اقوال درست نہیں؛ تاکہ صحابیؓ سے حسن ظنی باقی رہے اور ان مشاجرات کو اس خطِ اجتہادی پر محمول کیاجائے جس میں ہر ایک کو اجر و ثواب ملے گا۔

            سید قاسم  الامذجافی المصباح، ص۲۱۱ھ پر لکھتے ہیں۔

            والصحابۃُ کلہم عَدُولٌ رضی اللہ عنہم سواء في ذلکَ مَنْ لَابَسَ الفِتَنَ ومن لم یُلَابِسْہا وذلک مما لا یشتبہُ أحدٌ من المسلمین الذین انتہت علیہم زِعامۃ وعنہم تَصْدُر الاراء والحُجَج۔

            ترجمہ: سب صحابۂ کرامؓ عادل ہیں خواہ فتنہ میںشریک ہوئے ہوں یا نہ  اور یہ وہ عقیدہ ہے جس میں کسی ایسے مسلمان کو اشتباہ نہیں جن پرمسلمانوں کی قیادت ختم ہے اورانہی سے شرعی دلائل اور آراء منقول ہوتی ہیں۔

            علامہ ابن صلاح ابوعمر وعثمان بن عبد الرحمنؒ المتوفی (۶۴۳ھ) اپنے رسالہ ’’علوم الحدیث‘‘ المعروف بمقدمہ ابن صلاح، ص۲۶۴ میںلکھتے ہیں۔

            الثانیۃ للصحابۃ بأسرہم خصیصۃ وہی أنہ لا یُسئل عن عدالۃ أحد منہم بل ذلک أمر مفروغ عنہ لکونہم علی الإطلاق معدلین بنصوص الکتاب والسنۃ وإجماع من یعتد بہ فی الاجماع من الامۃ۔

            ترجمہ: (دوسرا فائدہ) سب صحابۂ کرامؓ کی ایک خصوصیت ہے وہ یہ کہ کسی کی عدالت کے متعلق (باز پرس کا) سوال پیدا نہیں ہوتا؛ بلکہ یہ مسئلہ طے شدہ ہے کیونکہ وہ مطلق کتاب وسنت کی نصوص اور تصریحات اورامت کے قابل اعتماد علماء کے اجماع سے عادل ہیں۔

            پھر چند احادیث اورآیات قرآنیہ پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔

’’تمام صحابہ کرامؓ کی عدالت پر سب امت متفق ہے اورجو فتنہ میں مبتلا ہوئے اجماع میں قابل اعتماد علماء کے اجماع سے وہ بھی عادل ہیں ان پر حسن ظنی رکھتے ہوئے اور جو کچھ ان کے لیے فضائل منقول ہیں ان پرنظر رکھتے ہوئے یہ عقیدہ ضروری ہے  گویا اللہ تعالیٰ نے ان کی عدالت پر اجماع قائم کرادیا؛ کیونکہ وہ شریعت کے نقل کرنے والے ہیں۔ (علوم الحدیث، ص۲۶۵)

            علی بن محمد علامہ سخاویؒ المتوفی (۶۶۳ھ) فتح المغیث جلد۴،ص۳۵ پر رقم طراز ہیں۔

            إن للصحابۃ شرفا عظیما یمنع ما حبہا میزۃ خاصۃ وہی أن جمیع الصحابۃ عند من یعتد بہ من أہل السنۃ سواء من لابس الفتن منہم ولم یلابس عدول۔ (کما فی باعث المحیثث، ص۲۰۵)

            ترجمہ: صحابہ کرامؓ کے لیے ایک بڑا شرف ہے۔ جو صحابیؓ کو خاص امتیاز بخشتا ہے وہ یہ ہے کہ جمیع صحابۂ کرامؓ قابل اعتماد علماء اہل سنت کے نزدیک عادل ہیں خواہ فتنہ سے دوچار ہوئے ہوں یا نہ۔

            علامہ محمد بن اسماعیل حسنیؒ (امیر یمانی) المتوفی ۱۱۸۲ھ لکھتے ہیں۔

            ومن مہمات ہذ الباب ای باب معرفۃ الصحابۃ القول بعدالۃ الصحابۃ کلہم فی الظاہر اعلم انہ استدل الحافظ بن حجر فی اول کتاب الإصابۃ علی عدالۃ جملۃ الصحابۃ اتفق أہل السنۃ علی أن الجمیع عدول ولم یعالو فی ذلک الاشذوذ من المبتدعۃ۔ (توضیح الافکار، ج۲، ص۲۳۴)

            ترجمہ: معرفتہ الصحابہ کے باب کے اہم مسائل میں سے یہ مسئلہ بھی ہے کہ ظاہراً تمام صحابہؓ کی عدالت کا اعتقاد رکھا جائے۔ جاننا چاہیے کہ حافظ بن حجر نے ’’اصابہ‘‘ کے شروع میں تمام صحابۂ کرامؓ کی عدالت پر (آیات قرآنیہ سے) استدلال کیا ہے، تمام اہل سنت اس عقیدہ پر متفق ہیں کہ تمام صحابہ کرامؓ عادل ہیں اور اس میں اہل سنت سے اختلاف صرف اہلِ بدعت کے چند افراد نے کیا ہے۔

            مولانا عبدالعزیز فرہاروی المتوفی (۱۳۰۰ھ) کوثر النبی، ص۷۹ میںلکھتے ہیں۔

            اجمع اہل السنت علی ان الصحابۃ کلہم عدول۔

            تمام اہل السنۃ والجماعۃ کا اجماع ہے کہ سب صحابہ کرامؓ عادل ہیں۔

علماء اصول فقہ کی شہادت

             شیخ محمد خضریؒ کی کتاب اصول فقہ ، ص۲۱۸ پر ہے۔

            الصحابۃ کلہم عدول۔

            سب صحابہ کرامؓ عدول ہیں۔

             مسلم الثبوت، ص۱۹۴ میں علامہ بہاریؒ لکھتے ہیں۔

            الأکثر الأصل فی الصحابۃ العدالۃ۔

            اکثر امت کا مذہب ہے کہ صحابہؓ میں عدالت اصل ہے۔

            علامہ ابن حاجبؒ کی تالیف شرح ’’مختصرالمنتہی‘‘ ج۲،ص۶۷ پر ہے۔

            الأکثر علی عدالۃ الصحابۃ أقول أکثر الناس علی أن الصحابۃ عدول۔

            امت کی اکثریت عدالتِ صحابہؓ کی قائل ہے میں کہتاہوں کہ اکثر لوگوں کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہؓ عادل ہیں۔

            یہاں الاکثر اور اکثر الناس سے مراد جمیع امت کی اکثریت ہے اہل سنت کی اکثریت مراد نہیں کیونکہ اہل سنت تو سب کے سب عدالت جمیع صحابہؓ کے قائل ہیں۔

             مسلم الثبوت کی شرح فواتح الرحموت، ج۲، ص۴۰۱ پر ہے۔

            إن عدالۃ الصحابۃ مقطوعۃ لاسیما أصحاب بدر و بیعۃ الرضوان کیف لا وقد اثنی اللّٰہ تعالیٰ علیہم فی مواضع عدیدۃ من کتابہ وبین رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فضائلہم غیر مرۃ۔

            ترجمہ: صحابۂ کرامؓ کی عدالت قطعی ہے خصوصاً اصحابِ بدر اور بیعت رضوان والوں کی قطعی کیوں نہ ہو؛ جب کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر ان کی تعریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مرتبہ ان کے فضائل بیان فرمائے ہیں۔

            اسی کتاب میں دوسرے مقام پر بحث عدالتِ صحابہؓ میں فرماتے ہیں:

’’جاننا چاہیے کہ ان تمام صحابۂ کرامؓ کی عدالت قطعی ہے جو جنگ بدر اور بیعت رضوان میں شریک رہے۔ کسی مومن کے لائق نہیں کہ ان کی عدالت میں شک کرے؛ بلکہ جو لوگ فتحِ مکہ سے قبل ایمان لائے وہ بھی قطعی عادل اور مہاجرینؓ وانصارؓ میں داخل ہیں۔ البتہ فتح مکہ کے دن اسلام لانے والوں میں اشتباہ ہے؛ کیونکہ کچھ ان میں مؤلفۃ القلوب (جن کو مال دے کر اسلام کی طرف مائل کیاگیا) ہیں اور انہی کے بارے میں اختلاف ہے ہمارے ذمے واجب ہے کہ انکا ذکر بھلائی ہی سے کریں، خوب سمجھ لو!‘‘

            لیکن ہم پہلے ثابت کرچکے ہیں کہ فتح مکہ کے دن اسلام قبول کرنے والوں کا معاملہ متوقف اور مشتبہ ہونا صحیح نہیں ہے کیونکہ سورئہ حدید کی آیت کریمہ  ’’لا یستوی منکم من اتفق الخ‘‘  قطعیت سے ان کے جنتی ہونے پر دلالت کرتی ہے اور مؤلفۃ القلوب بھی کامل الایمان تھے۔

            اولاً: اس لیے کہاگر ان کو مذبذب یا مشکوک الایمان سمجھا جائے تو وہ زکوٰۃ کا مصرف کیسے ہوسکتے ہیں؛ جب کہ مصارف زکوٰۃ کے لیے مسلم ہونا شرط ہے۔

            ثانیاً :اس لیے کہ تالیفِ قلوب کے اس طرز نے ان کو مزید پختہ اوراسلام کا وفادار بناہی دیا ورنہ تالیف قلوب کی مشروعیت اوراس پر عمل درآمد کا کوئی فائدہ نہیں (فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمۃ)

علماء علمِ عقائد وکلام کی شہادت

            اب علماء متکلمین وعقائد کے چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔

             محقق ابن ہمامؒ کی تحریر الاصول اوراس کی شرح تقریر الاصول ، ج۲، ص۲۶۰ پر ہے۔

            علی أن ابن عبد البرؒ حکی إجماع أہل الحق من المسلمین وہم أہل السنۃ والجماعۃ علی أن الصحابۃ کلہم عدول۔

            ترجمہ: علاوہ ان دلائل کے علامہ ابن عبدالبرؒ نے اہل حق مسلمانوں کا۔ جو اہل السنۃ والجماعۃ ہی ہیں۔ اس عقیدہ پر اجماع نقل کیا ہے کہ سب صحابہ کرامؓ عادل ہیں۔

            پر آگے لکھتے ہیں۔

وقال السبکی: والقول الفصل إنا نقطع بعدالتہم من غیر التفات الیٰ ہذیان الہاذین وزیغ المبطلین وقد سلف اکتفائنا فی العدالۃ بتزکیۃ الواحد منا فکیف بمن زکاہم علام الغیوب الذی لا یعزب عن علمہ مثقال ذرۃ فی الأرض ولا فی السماء فی غیر آیاتہ۔ اھـ

            ترجمہ: علامہ سبکی المتوفی(۷۷۱ھ) کہتے ہیں کہ فیصلہ کن بات یہ ہے کہ ہم صحابۂ کرامؓ کی عدالت کے قطعیت کے ساتھ قائل ہیں اور بکواسیوںکی بکواس اور باطل پرستوں کی گمراہی کی طرف ذرہ توجہ نہیں کرتے۔ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ہمارے جیسے ایک آدمی کے تزکیہ کرنے سے راوی عادل سمجھا جاتا ہے پس وہ لوگ کیسے عادل نہ ہوں جن کا تزکیہ اس علام الغیوب نے کئی آیات میں کیا ہے جس کے علم سے ذرہ برابر کوئی چیز زمین یا آسمان میں مخفی نہیں۔

            ملا علی قاریؒ المتوفی ۱۰۱۴ھ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں۔

            ولذلک ذہب جمہور العلماء إلی أن الصحابۃ کلہم عدول قبل فتنۃ عثمان وعلی وکذا بعدہا ولقولہ علیہ السلام أصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم۔

            ترجمہ: اسی لیے جمہور علماء کا یہی مذہب ہے کہ سب صحابۂ کرامؓ عادل ہیں حضرت علی وعثمان (رضی اللہ عنہما) کے فتنہ سے پہلے والے بھی اور اسی طرح بعد والے بھی اور نیز اس لیے بھی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے میرے ساتھی ستاروں کی مثل ہیں جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پائوگے۔

            علامہ ابن کمال الدینؒ المتوفی ۸۰۶ھ اور کمال الدین بن شریف المتوفی ۸۰۴ھ ’’المسامرہ شرح مسایرہ‘‘ ص۳۱۳ میں لکھتے ہیں۔

            واعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم وجوبا باثبات العدالۃ منہم والکف عن الطعن علیہم اثنی اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ الیہم۔

            ترجمہ: تمام اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ سب صحابۂ کرامؓ یقینی طور پر تزکیہ شدہ اور عادل ہیں ان کی بدگوئی سے رکنا واجب ہے۔ ان کی تعریف کرنی ضروری، جیسے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔

            علامہ بن حجر ہیثمیؒ المتوفی ۹۷۴ھ لکھتے ہیں۔

’’معلوم ہونا چاہیے کہ جس مسئلہ پر اہل السنۃ والجماعۃ کا اجماع ہے وہ یہ ہے کہ ہر مسلم پر واجب ہے کہ تمام صحابۂ کرامؓ کا تزکیہ (اور احترام) یوں کرے کہ ان کے لیے عدالت کا اعتقاد رکھے۔ ان کی بدگوئی سے رکے۔ ان کی مدح وثنا کرتا رہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بہت سی آیات میں ان کی تعریف کی ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے ’’(اے صحابہ) تم سب امت سے بہتر ہو جو لوگوں (کی ہدایت) کے لیے بنائی گئی ہے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے تمام امتوںپر ان کی فضیلت ثابت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ان کی فضیلت پر اس شہادت کے برابر کوئی شہادت نہیں ہوسکتی؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اور ان سے صادر ہونے والے جمیعِ اعمالِ حسنہ کو خوب جانتے ہیں؛ بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں سب امتوں سے افضل ہونے کی گواہی دی تو ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ اس پر اعتقاد رکھے اوراس پرایمان لائے ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس خبر دینے میں تکذیب کرے گا اور بلاشبہ جو شخص بھی کسی ایسی چیز کی حقیقت میں – جس کی خبر اللہ اور اس کے رسولؐ نے دی ہے۔ شک کرے تو وہ تمام مسلمانوں کے نزدیک کافر ٹھہرے گا۔‘‘ (الصواعق المحرقۃ لاہل الزندقۃ)

            قارئین کرام! خوف ہے کہ ایک ہی قسم کے اقوال آپ پڑھتے پڑھتے کہیں اکتا نہ جائیں بقول شاعر۔؎

اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم                    کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است

            اس لیے ہر صنف کے علماء کے اقوال میں سے صرف دو چار کے لکھنے پراکتفا کیا ہے اور عقل مند آدمی کے لیے یہی کافی ہیں اور ہٹ دھرم اور معاند کے لیے دفتر کے دفتر بھی بے کار ہیں ورنہ صحابۂ کرامؓ کی عدالت اور ان کی عزت وتکریم کے ضروری ہونے پر اسی اکثیرت سے علماء امت کی تصریحات موجود ہیں کہ ان کو جمع کرنے سے ایک ضخیم جلد تیار تو ہوجائے؛ مگر وہ ختم نہ ہوں۔ اس مختصر سے مضمون میں اتنی گنجائش ہی کہاں؟ کہ صحابۂ کرامؓ کے فضائل ومحامد پر مشتمل مواد کا عشر عشیر بھی سمیٹ سکے۔؎

دامانِ نگاہ تنگ گلِ حسن تو بسیار                        گل چین بہار تو ز دامن گلہ دارد

            الغرض ہر مکتب فکر کے علماء امت نے صحابۂ کرامؓ کے دربار میں خراجِ تحسین پیش کیاہے۔ مفسرین و محدثین نے اس لیے کہ ذخیرئہ حدیث وتفسیر کے راویان اول اور انھیں حدیث وتفسیر سے ربط آشنائی دینے والے صحابۂ کرامؓ ہی ہیں۔فقہاء اور علماء اصول نے اس لیے کہانھوں نے صحابۂ کرامؓ کی مرویات اور اقوالِ طیبہ سے خوشہ چینی کرکے اجتہاد واستنباط کا ملکہ پایا اوران کے متعلق قوانین مدون کیے۔

            متکلمین اور علماء عقائد نے اس لیے بحث کی تاکہ قرآن وسنت کے ان پاسبانوں کو دشمن کے حملہ سے محفوظ رکھا جائے اوراہلِ حق کا اہلِ باطل سے امتیاز بھی ہوجائے۔ علماء رجال اورمورخین نے اس لیے مدح سرائی کی کہ صحابۂ کرامؓ کی سوانح نگاری اوران کے پاکیزہ حالات نے ان کے فن اور خدمات کو جلا بخشی اور دنیا میں ان کا نام روشن کرایا بقول حضرت حسانؓ۔

ما إن مدحتُ محمدًا بمقالتی          لکن مدحتُ مقالتی بمحمدٖ

            میں نے اپنی نظم میں حضورؐ کی تعریف نہیں کی ہاں آپؐ کے ذکر خیر سے اپنی نظم کی تعریف کردی ہے۔

            رضی اللّٰہ تعالیٰ ورسولہ عنہم اجمعین۔

            تمام علماء اصول حدیث میں سے صرف صاحب تنقیح الازہار۔ جو شیعی زیدی مسلک کے ہیں اور اس کے شارح ابراہیم وزیر یعنی امیریمانی نے ایک دو صحابہؓ کو عدالت سے مستثنیٰ کیا ہے؛ چنانچہ  ’’الصحابۃ کلہم عدول‘‘  سے استثناء کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔  إلا من قام الدلیل علی أنہ فاسق تصریح (توضیح الافکار، ج۲، ص۴۳۶)

            (سب صحابہؓ عادل ہیں) مگر جس پر کوئی دلیل قائم ہوجائے کہ وہ صریح بے حکم تھا۔

            پھر حضرت ولید بن عقبہؓ اور یسر بن ابی ارطاۃؓ کا ذکر کیا ہے اورامیریمانی ’’روض الباسم فی الذب عن سنتہ ابی القاسم، ص۱۲۰‘‘ پر بھی عدالتِ صحابہؓ کی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’محدثین نے جو یہ کہا ہے کہ سب صحابہؓ عادل ہیں تو ہ ظاہری سیرت کے اعتبار سے ہے جیسے ہم بیان کرچکے ہیں اور یہ ظاہر کی قید اس لیے ہے، تاکہ جس نے بغیر تاویل کبیرہ کا ارتکاب کیا وہ نکل جائے، جیسے ولید بن عقبہؓ اور محدثین نے کہا ہے کہ سب صحابہ علی الاطلاق عادل ہیں؛ اس لیے کہ تقریباً سبھی ایسے تھے اور بہت معمولی نادر اس سے مستثنیٰ ہوسکتے ہیں۔ پس ایسا فاسق جس نے اس زمانہ میں اپنے عمل کی کوئی تاویل ظاہر نہیں کی وہ ایسا ہی ہے، جیسے سفید رنگ کے بیل میںایک آدھا بال کالا بھی ہو۔‘‘

            مگرہم کہتے ہیں کہ ان کا یہ قول مردود ہے؛ کیونکہ خلافِ جمہور خلاف اجماع اہلِ حق ہے کسی نے بھی استثناء کو جائز قرار نہیں دیا اور حضرت ولیدؓ یا حضرت بسر بن ابی ارطاۃؓ کو جن تاریخی روایات کی بنا پر غیر عادل کہا جاتا ہے وہ روایات مخدوش ہیں؛ بلکہ اکثر مواد دشمنانِ اسلام و صحابہؓ روافض کی من گھڑت ہے نیز وہ نصوصِ قطعیہ قرآنیہ اور احادیث صحیحہ- جو جمیع صحابۂ کرامؓ کی عدالت پر روشن دلیلیں ہیں- کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ اگر کوئی روایت قابلِ اعتماد بھی ہو تب بھی وہ مؤول اور مصروف عن الظاہر ہوگی اوراس کا کوئی جائز مقصداق اور محمل ہوگا؛ کیونکہ اس کے ظاہری وظنی مفہوم کی بدولت قرآن وحدیث اور اجماع کے قطعی الثبوت وقطعی الدلالت مفہوم کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

            علاوہ ازیں ہمارے معاصر محققین بھی یہ ثابت کرچکے ہیں کہ حضرت ولیدؓ بن عقبہ پر شراب نوشی کا الزام کوفہ کے شریروں نے انتقامی طور پر لگایا تھا اور حضرت عثمانؓ کے سامنے انھوں نے گواہی دی تب ان پر حد جاری ہوئی بہرحال اصل الزام غلط ہے۔ (دیکھیے عادلانہ دفاع حصہ اول از مولانا نورالحسن شاہ صاحب بخاری)۔

            ایسے ہی بسر بن ابی ارطاۃ ؓ کے متعلق ظلم وستم،بچوں کو قتل کرنے مسلمانوں کو اسیربنانے کی روایات وضعی داستان سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتیں جن کے موجد شیعہ ہیں۔

            ایسی غیرمعتبر روایات پراعتماد کرکے ہم کیسے ایک صحابیؓ سے بدظن ہوں یا ان سے عدالت ساقط کردیں؛ جب کہ سب امت کا فیصلہ سب صحابۂ کرامؓ کی عدالت کا ہے۔

            مورخین کی ایسی ہی رطب ویابس روایات کے متعلق حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلویؒ المتوفی (۱۲۳۹ھ) فرماتے ہیں

            لان المؤرخینَ ینقلون ما خَبُثَ وطابَ ولا یُمَیِّزُوْن بین الصحیح والموضوع والضعیف وأکثرہم حَاطِبُ لیلٍ وَلَا یَدْرِی ما یَجْمَعُ فالاعتماد علی ذلک فی مثلِ ہذا المقامِ الخَطْرِ والطریقِ الوَعْرِ وَالمہمۃِ القَفَرِ التی تَضِلُّ فیہ القَطَا وتَقْصُرُ دونہ الخُطَا مما لا یلیق بشأن عاقلٍ فضلا عن فاضل (مختصر التحفہ الاثنی عشریہ، ص۲۸۲)

            ترجمہ: (حضرت معاویہؓ پر سب علیؓ کے الزام کی طرف توجہ ہی نہ کی جائے) کیونکہ مورخین پاک ناپاک سب نقل کرتے ہیں۔ صحیح، من گھڑت اور کمزور روایات میں فرق نہیں کرتے ان کی اکثریت رات کو لکڑیاں جمع کرنے والے کی طرح ہے جو نہیںجانتا کہ (خشک وتر) کیا جمع کررہا ہے۔ ایسے پرخطر مقام، سنگین راستے اور بیاباں جنگل میں جس میں پرندے بھی گم ہوجاتے ہیں اور قدم وہاں پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایسی روایات پر اعتماد عقل مند کی شان نہیں

سدذریعہ/سدذرایع


'الذريعة'' وسیلہ کو کہتے ہیں، جیسے کہ کہا جاتا ہے [تذرع فلان بذريعةٍ أي توسل] یعنی: فلان نے کوئی ذریعہ بنایا یعنی وسیلہ پکڑا۔ اور ذریعہ کی جمع ذرائع ہے۔ اور ذریعہ دریئہ کی مثل ہے اور دریئہ اس اوںٹ کو کہتے ہیں جس کے ذریعے شکار کو دھوکا دیا جاتا ہے؛ کیونکہ شکاری اس اونٹ کے پہلو میں چلتا رہتا ہے اور جس وجہ سے وہ شکار سے چھپا رہتا ہے اور جب اس کیلئے ممکن ہوتا ہے تو شکار کو نشانہ بنا لیتا ہے، اور اسی طرح ذریعہ بھی کسی شئی کے لئے سبب بنتا ہے جس کی اصل یہی اونٹ ہے؛ کہا جاتا ہے فلاں تیرے تک پہں۔
سد ذرائع کی اصطلاحی تعریف: امام الباجی رحمہ اللہ اپنی کتاب "إحكام الفصول" (2/ 695-696، ط. دار الغرب) میں فرماتے ہیں: یہ ایسا مسئلہ ہے جو ظاہرا تو مباح ہوتا ہے لیکن یہ کسی فعلِ محظور کا سبب بنتا ہے۔
امام ابنِ عربی رحمہ اللہ اپنی کتاب "أحكام القرآن" (2/ 265، ط. دار الكتب العلمية) میں فرماتے ہیں: یہ ہر وہ عقد ہے جو ظاہری طور پر جائز ہوتا ہے لیکن کسی فعلِ محظور کا یا تو سبب بنتا ہے یا اس کے ذریعے سے کسی فعلِ محظور تک پہنچنا ممکن ہو جاتا ہے۔
اس مسئلے کا حکم یہ ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہوتی ہے، اور جس چیز میں فساد نادر ہو اور اس سے عدم ممانعت پر اجماعِ امت ہو اس میں سد الذرائع پرعمل کرنا احتیاطِ مذموم ہے، جیسا کہ امام قرافی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے؛ چونکہ اس سے پیدا ہونے والا نقصان نادر ہوتا ہے اور نادر چیز پر کوئی حکم نہیں لگتا اور یہ بات فقہ میں امر مسلم ہے، اور اس لئے بھی کہ فعل یہاں پر فساد سے خالی ہوتا ہے اور شارع نے امرِ نادر کا اعتبار نہیں کیا بلکہ غلبہ مصلحت کا ہی اعتبار کیا ہے؛ لہذ جس ''ذریعہ'' کا فساد نادر ہو وہ اپنی اصلِ اباحت پر ہی باقی رہے گا اور جس نے اسے اختیار کرنے سے منع کیا ہے اس کی بات کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا؛ جس طرح گرم ممالک میں دھاتی برتنوں میں دھوپ سے گرم ہو جانے والا پانی، پس جب اس پانی کے علاوہ پانی موجود ہو تو اس پانی کا استعمال اس وقت مکروہ ہو گا تاکہ اس کام سے بھی بچا جا سکتا جس کا ضرر نادر ہوتا ہے، اور اگر اس کے علاوہ پانی موجود نہ ہو تو اسی پانی کا استعمال متعین ہو جاتا ہے؛ کیونکہ اس کا صحیح سلامت ہونا نقصان دہ ہونے پر غالب ہوتا ہے۔ فسادِ نادر کے وقوع کی وجہ سے غالب مصالح کو معطل کرنا جائز نہیں ہے، اور اس کی مزید مثالیں یہ ہیں: شراب کے خوف سے انگور کاشت کرنے سے منع کرنا اور زنا کے خوف سے گھروں میں پڑوسگی سے منع کرنا۔ یہ سب کے سب ایسے ذرائع اور ایسے وسائل ہیں جن سے نہ تو رُکا جائے گا اور نہ ہی انہیں چوڑا جائے گا۔ دیکھیے: "قواعد الأحكام في مصالح الأنام" لسلطان العلماء العز بن عبد السلام (1/ 100، ط دار الكتب العلمية)، و"الفروق" للإمام القرافي (2/ 32، ط. عالم الكتب).
اسی طرح ان سدِ ذرائع میں احتیاط پر عمل صرف اسی صورت میں کیا جائے گا جب یہ اکثر اوقات فساد کا سبب بنتے ہوں لیکن جب غالبًا یا نادرًا بنتے ہوں تو احتیاط پر عمل نہیں کیا جائے گا؛ اس لئے کہ بنیادی اصول یہ ہے کہ اشیاء اذنِ صحیح یعنی اباحت پر محمول ہیں، جیسا کہ شافعی وغیرہ کا مذہب ہے، اور اس لئے بھی کہ فساد کے واقع ہونے کا یقین اور ظن دونوں موجود نہیں ہیں؛ کیونکہ اس کے واقع ہونے اور نہ ہونے کا صرف احتمال موجود ہے، اور دونوں جانبوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کیلئے کوئی قرینہ بھی موجود نہیں ہے، اور فساد اور نقصان دینے کا امکانِ قصد نفسِ قصد کے قائم مقام نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کا تقاضا کرتا ہے؛ کیونکہ غفلت وغیرہ جیسی چیزیں فساد کے موجود ہونے یا موجود نہ ہونے سے عارض آ جاتی ہیں۔ دیکھیے: "الموافقات" للشاطبي (2/ 361، ط. دار المعرفة).
اس کی دلیل یہ ہے کہ تمام چیزوں کے متعلق بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ مباح ہیں، لہٰذا کسی قوی دلیل کے بغیر کوئی چیز حرام نہیں ہو سکتی۔ حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ اللهَ فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيِّعُوهَا، وَحَدَّ حُدُودًا فَلَا تَعْتَدُوهَا، وَحَرَّمَ أَشْيَاءَ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا، وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ رَحْمَةً لَكُمْ مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا. [اسے امام دار قطنی وغيره رحمھم اللہ نے روایت کیا ہے، اور امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے: یہ حدیث حسن ہے.[ ترجمہ: اللہ تعالی نےکچھ چیزیں فرض کی ہیں انہیں ضائع مت کرو اور کچھ حدود وضع کی ہیں ان سے تجاوز مت کرو اور کچھ چیزیں حرام کی ہیں ان کے قریب مت مت جاو اور کچھ چیزوں سے خاموشی اختیار کی ہے تم پر رحمت کرتے ہوئے نہ کہ بھول کر، ان کے متعلق سوال مت کیا کرو۔
حافظ ابن رجب اپنی کتاب "جامع العلوم والحكم" (2/ 170، ط. مؤسسة الرسالة) میں فرماتے ہیں: جن چیزوں سے اللہ تعالی نے سکوت اختیار فرمایا ان کے بارے میں آپ ﷺ کے فرمان: «رَحْمَةً مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ» کا مطلب ہے: وہ صرف اپنے بندوں کے لیے رحمت اور ان پر احسان کے طور پر ان اشیاء کا ذکر کرنے سے خاموش رہا، یعنی اس نے ان چیزوں کو حرام ہی نہیں کیا کہ ان کے کرنے پر لوگوں کو سزا دے اور نہ ہی انہیں واجب نہیں کیا کہ ترک کرنے پر سزا دے، بلکہ انہیں زائد بنا دیا کہ اگر لوگوں نے ان چیزوں کو اختیار کیا تو ان پر کوئی حرج نہ ہو اور اگر اختیار نہ کیا تو بھی کوئی گناہ نہ ہو۔ سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حدیث میں ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: ﴿وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا﴾ [مريم: 64]. ترجمہ: تیرا رب بھولنے والا نہیں۔ اسی طرح اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فرمان ہے: ﴿لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى﴾ [طه: 52]. ترجمہ:میرا رب نہ غلطی کرتا ہے اور نہ ہی بھولتا ہے۔ اور آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےفرمان: «فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا» (ان چیزوں کے بارے میں سوال مت کیا کرو) میں یہ احتمال ہے کہ بحث کی یہ ممانعت نبی اکرم آ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے ساتھ خاص ہو کیونکہ جس چیز کا ذکر نہیں کیا گیا تھا اس زمانے میں اس کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق اور سوالات اسے واجب کرنے یا حرام کرنے کی وجہ بن سکتے تھے۔ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث اسی پر دلالت کرتی ہے۔ اور اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ نہی عام ہو، اور سلمان سے مروی آپ ﷺ کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ جس چیز کا حکم واجبات اور محرمات میں مذکور نہ ہو اس کے بارے میں زیادہ تحقیق کرنے اور سوالات کرنے سے کبھی ان کے ایجاب یا تحریم کا اعتقاد ثابت ہو جاتا ہے؛ کیونکہ یہ چیزیں بھی بعض واجبات یا محرمات کے مشابہ ہوتی ہیں، پس اس میں عافیت کو قبول کرنے اور اس بارے میں تحقیق اور سوال کو ترک کرنے میں خیر اور بھلائی ہے اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں داخل ہے: «هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ» یعنی: متنطعون ہلاک ہو گئے۔ یہ بات آپ ﷺ نے تین بار دہرائی. [اسے امام مسلم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنھما کی حدیث سے مرفوعا روایت کیا ہے]، اور''الْمُتَنَطِّعُ'' لا یعنی چیزوں کے بارے بہت گہرائی سے تحقیق کرنے والے شخص کو کہتے ہیں۔ اس سے وہ لوگ بھی دلیل پکڑ سکتے ہیں جو ظاہریہ کی طرح لفظ کے صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں اور معانی اور قیاس کی نفی کرتے ہیں۔
اور اس بارے میں تحقیق - وَاللهُ أَعْلَمُ - یہ ہے کہ وہ چیز جس کے بارے میں کوئی خاص یا عام نص موجود نہ ہو اس کے متعلق بحث وتحقیق کرنے کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: یہ تلاش کر رہا ہو مسکوت عنہ چیز نصوصِ صحیحہ کی دلالات یعنی فحوی الکلام، مفہوم اور صحیح ظاہر قیاس میں داخل ہے کہ نہیں؛ یہ تحقیق صحیح ہے اور یہ ان کاموں میں سے ہے جو شرعی احکام کو جاننے کے لیے مجتہدین کو کرنے چاہیں۔
دوسری قسم: غور وفکر کرنے والا بہت باریک بینی سے متماثل چیزوں کے درمیان فروقِ مستبعدہ میں غور وفکر کر رہا ہو اور دو متماثل چیزوں کے درمیان کسی ایسی وجہ سے تفریق کر رہا جس کا کوئی شرعی اثر نہ ہو، جبکہ ایسے اوصاف بھی موجود ہوں جو دونوں کو ایک حکم میں جمع کرنے کا تقاضا کرتے ہوں۔ یا وہ دو متفرق چیزوں کو صرف ان عارضی اوصاف کی وجہ سے جمع کر رہا ہو جو نہ تو مناسب ہوں اور نہ ہی شریعتِ مطہرہ میں کوئی دلیل ان کی تاثیر پر دلالت کر رہی ہو، لہذا ایسی تحقیق اور غور وفکر رضا الٰہی سے خالی اور غیر محمود ہوتی ہے، اس کے باوجود کہ فقہاء کے کچھ گروہ اس کے درپے ہوئے ہیں۔ قابلِ تعریف تحقیق وہ ہے جو صحابہ کرام مثلا ابن عباس وغیرہ رضی اللہ تعالی عنھم اور ان کے بعد فضیلت والی صدیوں میں ہونے والی تحقیق کے موافق ہو، شاید ابنِ مسعود رضی اللہ تعالی عنھما کی اپنے ارشاد سے یہی مراد ہو آپ نے فرمایا: "إِيَّاكُمْ وَالتَّنَطُّعَ، إِيَّاكُمْ وَالتَّعَمُّقَ، وَعَلَيْكُمْ بِالْعَتِيقِ" (لایعنی چیزوں کے بارے میں تحقیق کرنے سے بچو، اور لایعنی چیزوں کے بارے میں گہری سوچ سے اجتناب کرو، اور امرِ اول کو لازم پکڑو) یعنی جس پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم تھے۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ "الإحكام في أصول الأحكام" (6/ 3، ط. دار الآفاق الجديدة) میں فرماتے ہیں: مشتبہات یقینا حرام نہیں ہیں، اور جب یہ ان محرمات میں سے نہیں ہیں جن کی تفصیل بیان کر دی گئی ہے تو یہ چیزیں اللہ تعالى کے اس فرمان کی وجہ سے حکمِ حلال پر قائم ہیں: ﴿وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَإِنَّ كَثِيرًا لَيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ﴾ [الأنعام: 119] ترجمہ: ''کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو حالانکہ وہ واضح کر چکا ہے جو کچھ اس نے تم پر حرام کیا ہے ہاں مگر وہ چیز جس کی طرف تم مجبور ہو جاؤ، اور بہت سے لوگ بہکاتے ہیں اپنے خیالات کی بناء پر بے علمی میں، بے شک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے''۔ پس جس چیز کی تفصیل بیان نہیں کی گئی وہ چیز اللہ تعالى کے اس فرمان کی وجہ سے حلال ہے: ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ [البقرة: 29] ترجمہ: ''اللہ وہ ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا ہے، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو انہیں سات آسمان بنایا، اور وہ ہر چیز جانتا ہے''۔ اور نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے بھی حلال ہے: «أَعظَمُ النَّاسِ جُرمًا فِي الإِسْلَامِ مَن سَألَ عَن شَيءٍ لَم يحَرّمْه فحَرم مِن أجْلِ مَسْألتِهِ»] اسلام کے اندر لوگوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جسے اللہ تعالی نے حرام نہیں کیا تھا تو اس کے پوچھنے کی وجہ سے وہ چیز حرام کر دی گئی اهـ.

سد ذریعہ کے قائلیں میں سے سب سے مشہور مالکی مذہب اور حنبلی مذہب ہے؛ امام حطاب رحمہ اللہ "مواهب الجليل" (1/ 26، ط. دار الفكر) میں امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کے بارے میں فرماتے ہیں: آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا مذہب سدِ ذرائع اور شبہات سے اجتناب کرنے پر مبنی ہے، یہ مذہب سب مذاہب سے زیادہ شبہات سے دور ہے۔
حنبلی مذہب کے بارے میں امام ابن نجار رحمہ اللہ "مختصر التحرير شرح الكوكب المنير" (4/ 434، ط. مكتبة العبيكان) میں فرماتے ہیں: سد ذرائع کا مطلب وہ افعال یا اقوال ہیں جو ظاہرا مباح ہوں لیکن وہ کسی حرام چیز تک رسائی کا ذریعہ بن رہے ہوں۔ ان سے روکنے کا معنی ہے: ان کے حرام ہونے کی وجہ سے ان کے کرنے سے منع کر دینا۔
امام زركشي رحمہ اللہ "البحر المحيط" للزركشي (8/ 90، ط. دار الكتبي) میں فرماتے ہیں: امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: سدِ ذرائع امام مالک اور ان کے ساتھیوں کا مذہب ہے اور اکثر لوگوں نے اصل پر عمل کرتے ہوئے آپ سے اختلاف کیا ہے اور اپنے اکثر فروعی مسائل میں انہوں نے اس پر تفصیل کے ساتھ عمل کیا ہے، پھر موضع اختلاف بیان کیا اور فرمایا: جان لو کہ جو چیز حرام کام میں پڑنے کا سبب بنتی ہے یا تو قطعی طور پر اس سے حرام میں پڑنا لازم آتا ہے یا لازم نہیں آتا، پہلی قسم اس باب میں داخل نہیں بلکہ [ما لا خلاص من الحرام إلا باجتنابه، ففعله حرام] کے باب میں سے ہے یعنی جس چیز سے اجتناب کیے بغیر حرام سے نجات ممکن نہ ہو تو اس کا کرنا حرام ہوتا ہے؛ اس لئے کہ جس چیز کے بغیر واجب مکمل نہ ہو وہ بھی واجب ہوتی ہے۔ اور دوسری قسم جس سے فعلِ محظور میں پڑنا لازم نہیں آتا وہ یا غالبا فعل محظور کا سبب بنتی ہو گی، یا غالبا نہیں بنتی ہوگی یا اس میں دونوں صورتوں کا احتمال برار ہو گا اور یہی قسم ہمارے نزدیک سدِ ذرائع کہلاتی ہے۔ تینوں صورتوں میں سے پہلی میں سدِ زرائع کا لحاظ کرنا ضروری ہے، دوسری اور تیسری میں ہمارے اصحاب کے درمیان اختلاف ہے، ان میں سے بعض اس کا لحاظ کرتے ہیں اور بعض نہیں کرتے اور وہ بعض اوقات اسے (التُّهمة البعيدة والذرائع الضعيفة) کا نام دے دیتے ہیں۔
سدِ ذرائع کے قائل کتاب و سنت سے استدلال کرتے ہیں اور قرآنِ مجید میں سے اللہ تعالى کا یہ فرمان ان کی دلیل ہے: ﴿وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ [الأنعام: 108] ترجمہ: ''اور جن کی یہ اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں انہیں برا نہ کہو ورنہ وہ بے سمجھی میں زیادتی کر کے اللہ کو برا کہیں گے، اس طرح ہر ایک جماعت کی نظر میں ان کے اعمال کو ہم نے آراستہ کر دیا ہے، پھر ان سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر آنا ہے تب وہ انہیں بتلائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے''۔
امام ابن عربي "أحكام القرآن" (2/ 265) میں فرماتے ہیں: علماءِ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیتِ کریمہ کا معنی ہے: کفار کے معبودوں کو گالی نہ دو ورنہ وہ تمارے معبودِ حق کو گالی دیں گے۔ اور یہ بھی اس کی مانند ہے؛ کیونکہ بغیر حجت کے گالی دینا ذلیل لوگوں کا کام ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: «لَعَنَ اللهُ الرَّجُلَ يَسُبُّ أَبَوَيْهِ». قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ يَسُبُّ أَبَوَيْهِ؟ قَالَ: «يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ، وَيَسُبُّ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ». ترجمہ: اللہ تعالی کی لعنت ہو اس شخص پر جو اپنے والدین کو گالی دیتا ہے، عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ کوئی اپنے والدین کو کیسے گالی دے سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ شخص کسی آدمی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ بھی اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، اور یہ کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ بھی اس کی ماں کو گالی دیتا ہے''۔ اس لئے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اس جائز فعل سے بھی منع فرما دیا جو فعلِ محظور کا سبب بنتا ہے؛ اسی لئے سدِ ذرائع کے باب میں ہمارے علماءِ کرام اس آیتِ کریمہ کے در پے ہوئے ہیں اور یہ ہر وہ عقد ہے جو ظاہرا جائز ہو لیکن فعلِ محظور کا سبب بن رہا ہو، یا اس کے ذریعے سے اس محظور تک پہنچنا ممکن ہو۔۔۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مشرکین نے کہا تھا: اگر تم لوگ ہمارے معبودوں کو گالی دینے سے باز نہ آئے تو ہم بھی تمہارے معبود کو گالی دیں گے، تو اللہ تعالی نے یہ آیتِ کریمہ نازل فرمائی۔
سنتِ مطہرہ میں شبہات سے بچنے اور تقوی اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے؛ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شبہات میں پڑ گیا، وہ ایک دن حرام میں بھی پڑ جائے گا، جیسا کہ چرا گاہ کے قریب جانور چرانے والا اس بات کے قریب ہوتا ہے کہ اس کا جانور اس چراگاہ میں بھی چرنے لگ جائے، خبردار!، ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہوتی ہے، اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سنن ابنِ ماجہ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس چیز کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالے اور اسے اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے۔ اسے مام ترمذی اور امام نسائی رحمھما اللہ نے روایت کیا ہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم ناپسند کرو کہ لوگوں کو اس کا پتہ چلے ۔ (اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے)۔ امام شوکانی نے ان احادیث کو اس باب کی بہترین دلیلیں قرار دیا۔ دیکھیے: "إرشاد الفحول" للشوكاني (2/ 196، ط. دار الكتاب العربي).
مگر جو فقہاءِ عظام سدِ ذریعہ کو نہیں مانتے ان کی رائے یہ کہ اس باب میں ذکر کئے گئے دلائل اجمالی اور عام ہیں جو اس باب کے تمام افراد کا احاطہ نہیں کرتے؛ کیونکہ وسیلہ کی ایک قسم نہیں بلکہ کئی اقسام ہیں، لہٰذا ان پر پانچوں احکام تکلیفیہ لاگو ہوں، پھر یہ غیر منضبط ہیں، اور جو اس میں غور وفکر کرتا ہے اس پر یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ مالکی فقہاء میں سے ایک فقیہ اس معاملے کی وضاحت کر رہا ہے۔ یعنی امام قرافی مالکی رحمہ اللہ "الفروق" (3/ 266) میں فرماتے ہیں: جان لو کہ ذریعہ کسی چیز کے لئے کسی وسیلہ کو کہتے ہیں اور اس کی تین قسمیں ہیں: ایک وہ جس سے منع کرنے پر علماءِ کرام کا اتفاق ہے، اور دوسری جس سے منع نہ کرنے پر علماءِ کرام کا اتفاق ہے ، اور تیسری جس سے منع کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں علماءِ کرام کے درمیان اختلاف ہے.
جس سے منع نہ کرنے پر اجماع ہے؛ جیسے شراب کے ڈر سے انگور کی کاشت کرنے سے منع کرنا اور زنا کے ڈر سے گھروں میں پڑوسگی سے منع کرنا، ان میں سے کسی چیز سے منع نہیں کیا گیا اگرچہ وہ چیز حرام کا وسیلہ ہو۔
اور جس ذریعہ سے منع کرنے پر اجماع ہے؛ جیسے اس شخص کے پاس بتوں کو گالی دینے سے منع کرنا جس کا پتا ہو کہ وہ شخص اللہ سبحانہ وتعالی کو گالی دے گا۔ العیاذ باللہ۔ اور جیسے مسلمانوں کے راستے میں کنواں کھودنا جب یقین ہو یا ظن ہو کہ وہ اس میں گر جائیں گے، اور ان کے کھانے میں زہر ملانا جب معلوم ہو یا ظن ہو کہ وہ اسے کھائیں تو ہلاک ہو جائیں گے۔
جس سے منع کرنے یا منع نہ کرنے کے بارے میں علماءِ کرام کا اختلاف ہے اس کی مثال: عورت کی طرف دیکھنا؛ کیونکہ یہ زنا کا سبب بنتا ہے، اور اسی طرح اس سے بات کرنا، اور اسی طرح بیع مؤجل کی اقسام بھی امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک۔ اور امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ سدِ ذرائع انہیں کے ساتھ خاص ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اس کی کچھ صورتیں ایسی ہیں جن پر اجماع ہے جیسے کہ گزر چکا ہے، جب ایسا ہے تو پتا چلا کہ ہمارے اصحاب یعنی مالکیہ کو شافعیہ کے خلاف سدِ ذرائع کے بارے میں ان آیاتِ مبارکہ: ﴿وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ [الأنعام: 108]،اور﴿وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ﴾ [البقرة: 65] سے استدلال کرنے میں کوئی فائدہ نہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ان کی مذمت اس لئے کی ہے کہ وہ جمعہ کے دن شکار کو روک کر حرام کیے گئے ہفتہ کے دن شکار کرنے کا ذریعہ بنایا کرتے تھے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالی کی لعنت ہو یہود پر؛ ان پر چربی حرام کی گئی تو وہ اسے بیچ کر اس کی قیمت کھانے لگے''۔ امام قرافی رحمہ اللہ نے یہاں تک کہا کہ یہ تمام صورتیں جن سے مالکی فقہاءِ کرام اسدلال کرتے ہیں دلیل کا فائدہ نہیں دیتیں، کیونکہ یہ تو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ان میں شریعت نے سدِ ذرائع کا فی الجملہ اعتبار کیا ہے، اور اس بات پر تو پہلے ہی اجماع ہو چکا ہے، اختلاف خاص ذرائع میں ہے وہ ہیں بیوعِ آجال وغیرہ، تو چاہیے یہ کہ خاص محل نزاع کے دلائل ذکر کیے جائیں ورنہ ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اگر وہ ان متفق علیہ ذرائع پر قیاس کرنا چاہتے ہیں تو ان کی دلیل خاص طور پر قیاس ہونی چاہیے۔ تو اس صورت میں ان پر پھر یہ لازم آتا ہے کہ جامع یعنی قدر مشترک بیان کریں تاکہ ان کے مخالف فارق (قدرِ غیر مشترک) کے ذریعے ان کی دلیل کو رد کرے اور ان کی ایک ہی دلیل ہو جو کہ قیاس ہے، اور وہ نہیں مانتے کہ ان کا محلِ دلیل یہی نصوص ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے پس اس میں غور وفکر کیجئے، بلکہ انہیں چاہیے کہ وہ ان کے علاوہ دوسری نصوص ذکر کریں جو بیوع آجال کے ذرائع کے ساتھ خاص ہوں، لیکن وہ انہی نصوص پر اقتصار کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ اس باب میں مذکورہ احادیث تقویٰ پر دلالت کرتی ہیں اور تقوی ایسا امر ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں۔ کیونکہ تقویٰ کا معاملہ وسیع اور مرغوب فیہ ہے لیکن اس پر عمل کرنا مستحسن ہے، واجب نہیں۔ اس کا ثبوت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی ہے؛ انہوں نے فرمایا: میں نے ایک عورت سے نکاح کیا۔ پھر ایک کالی عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں ( میاں بیوی ) کو دودھ پلایا ہے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے فلانی بنت فلاں سے نکاح کیا ہے۔ اس کے بعد ہمارے یہاں ایک کالی عورت آئی اور مجھ سے کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، حالانکہ وہ جھوٹی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک مجھ سے پھیر لیا۔ پھر میں آپ ﷺ کے سامنے آیا اور عرض کیا وہ عورت جھوٹی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بیوی سے اب کیسے نکاح رہ سکے گا جبکہ یہ عورت یوں کہتی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، اس بیوی کو اپنے سے الگ کر دو“۔ اس حدیث کو امام بخای رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔
امام عینی رحمہ اللہ "عمدة القاري" (11/ 167، ط. دار إحياء التراث العربي) میں فرماتے ہیں: "التلویح" کے مصنف نے کہا: جمہور علماء کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شبہ سے بچتے ہوئے یہ فتویٰ دیا اور شرمگاہ پر اقدام کے خوف سے اسے شک سے بچنے کا حکم دیا اس پر اقدام میں ڈر ہوتا ہے کہ یہ حرام کا ذریعہ نہ بن جائے۔ کیونکہ وہ شخص عورت کی بات کر کے تحریم کی دلیل قائم کر چکا تھا لیکن یہ دلیل قاطع نہیں تھی اور نہ ہی قوی تھی۔۔۔ لیکن آپ نے زیادہ احتیاط والے کام کا مشورہ دیا، اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جب جب عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی اکرم ﷺ کو اس معاملے کی خبر دی تو آپ ﷺ نے ان سے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا، پس اگر یہ فعل حرام ہوتا تو آپ ﷺ اپنا چہرہ اقدس نہ پھیرتے بلکہ اسے جوابًا حرام قرار دیتے، لیکن جب عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بار بار اس بات کو دہرایا تو آپ ﷺ نے جواب میں انہیں تقوی اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔
سدِ ذرائع کا انکار کرنے والے یہ جواب بھی دیتے ہیں کہ وسیلہ کی ایک ہی قسم نہیں بلکہ کئی اقسام ہیں، اس لئے ان پرپانچوں احکامِ تکیلفی لاگو ہوں گے اور پھر یہ غیر منضبط ہیں، اور یہ بات فروعات میں غور وفکر کرنے والوں پر ظاہر ہوتی ہے۔ اسی طرح دوسری رائے والوں نے ان فروعات کے برعکس جو فروعات کا ذکر کی ہیں ان میں سدِ ذرائع کو بطور دلیل نہیں لیا گیا، بلکہ امرِ ظاہر ان کی دلیل ہے، اور جو کچھ انہوں نے ذکر کیا ہے اس کو تسلیم کر لینے سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ "سد الذريعة" غیر منضبط ہے، جس کی وجہ سے اسے ایک مستقل فقہی دلیل کے طور پر لینا مشکل ہے۔
خلاصہ: اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جس ذریعہ سے روکنے کیلئے شرعی نصوص موجود ہیں اس میں ان کی تعمیل کرنا واجب ہے، اور اسی پر اجماع ہے، مثلاً مشرکین کے معبودوں کی توہین کرنے سے ممانعت تاکہ ان کی توہین اللہ تعالیٰ کی توہین کا باعث نہ بنے، اور مخصوص اوقات میں نماز کی ممانعت۔ اور راجح یہی ہے کہ "سدِ ذرائع" ایسی مستقل دلیل نہیں کہ مجتہد فروعی مسائل میں حکم لگاتے وقت جس پر انحصار کرتا ہے۔ اور جب اس میں دلیل بننے کی صلاحیت نہیں ہے تو ترجیح کے عمل میں بھی اسے کوئی دخل نہیں کیونکہ ترجیح کسی چیز کے معتبر ہونے کی فرع ہوتی ہے۔
اور مذکورہ بالا وضاحت کی بنیاد پر: "سدِ ذرائع" مختلف فیہ ادلہ میں سے ایک ہے، اس پر ان چیزوں میں عمل کیا جائے گا جو بالاجماع حرام ہیں، لیکن جن چیزوں میں ضرر نادر اور نایاب ہو یا جن میں فساد کا وہم ہو ان میں "سدِ ذرائع" پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

علت

 


شرعی حکم کے لیے حکمت کے اصول کو علت کہا جاتا ہے۔ حکمت سے مراد مصلحت کی تحصیل یا اس کی تکمیل یا مفسدہ کا دفع یا اس کی تقلیل۔ گویا حکم کی مشروعیت کو جس وصف کے ساتھ وابستہ کیا جائے اسے علت کہتے ہیں۔ سبب اور حکم کے درمیان علت کا توسط ضروری ہے۔

وہ معتدد امور جو معقول معنی نہیں ہیں اور جن پر قیاس جاری نہیں ہوتا ہے۔ ان میں حکم کا مدار جس وصف پر ہوتا ہے۔ احناف اسے علت نہیں بلکہ سبب کہتے ہیں، اس لیے علت میں وصف حکم کے ساتھ ایسی مناسبت ضروری ہے جو سمجھ میں آسکے۔

شرائط علتترمیم

علت کی متعد شرائط میں سے چند شرائط حسب ذیل ہیں۔

  1. ظاہر ہو - یعنی علت کو ایسا واضع ہونا چاہیے جس کا ادراک ممکن ہو سکے۔ مثلأئ صغیر پر ولایت کے ثبوت کے لیے علت صغیر یا حرمت میں نشہ۔
  2. منضبط ہو - یعنی اس طرح محدود ہو کہ اشخاص، زمان اور احوال کے اختلاف سے مختلف نہ ہو۔ مثلاً مقتول کی میراث سے محرومی میں وارث کو اپنے مورث کو قتل کرنا کہ یہ مضبوط اور محدود وصف

ہے، جو قاتل اور مقتول کے اختلاف سے مختلف نہیں ہو تا ہے۔ یا حرمت خمرمیں وہ شدد جو سکر کی حد کو پہنچ جائے، وصف محدود ہے۔

  1. متعدی ہو - اصل پر مقصود نہ ہو، یعنی صحت قیاس کے لیے علت کا تعد یہ سب کے نزدیک بالاتفاق شرط ہے۔ مثلاً رمضان میں مسافر یا مریض کے لیے فطر کی اباحت کہ چونکہ اس اباحت کی

علت سفر یا مرض ہے، جو صرف مسافر یا مریض میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے جو شخص اعمال شاقہ میں مشغول ہو اسے مسافر اورمریض پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

  1. حکم میں مؤثر ہو - اس کی تعبیر اس طرح کی جاتی ہے کہ حکم کے لیے باعث اور مناسب ہو اور حکم جس مقصد کے لیے شروع ہوا ہے اس کے لیے محرک اور مقتضیٰ ہو۔
  2. نقض - کسی موقع پر علت سے حکم سے تخلف کو نقض کہتے ہیں۔ نقض سے علت باطل ہوجاتی ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔ لیکن اکثر اصولین کے نزدیک کسی مانع کی وجہ سے نقض جائز ہے۔
  3. کسر - کسی حکمت کے ماتحت، نہ کہ کسی علت کی وجہ سے، حکم کے تخلف کو اصطلاحاً کسر کہتے ہیں، کسر سے علت باطل ہوتی ہے یا نہیں اس میں بھی اختلاف ہے۔ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ باطل نہیں ہوتی ہے۔

مثلا سفر کی حکمت مشقت ہے، یہ حکمت صنائع شاقہ میں موجود ہے، لیکن حکم رخصت موجود نہیں اور اس سے علت رخصت باطل نہ ہوگی۔

  1. ترکیب - بعض حضرات کے نزدیک علت کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ ذات وصف واحد ہو۔

مثلاً تحریم خمر کی تعلیل نشہ ہے، لیکن جمہور علت کے لیے اس شرط کے قائل نہیں۔ چنانچہ محدد سے وجوب قیاس کی تعلیل قتل عمد عددان سے کی جاتی ہے اور یہ علت مجموعہ اوصاف ہے۔

مسالک علتترمیم

علت کی دریافت کے طریقوں کو مسالک علت کہتے ہیں۔ مسالک علت کی تعداد میں اختلاف ہے جن میں چند حسب ذیل ہیں، جو عام اصول کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ اجماع، نص، ایما، مناسبت، سیروتقسیم، طر یا دوران، شبہ، تنفیح مناط۔ ان میں سے اول الذکر تین مسالک اصل یا نقلی اور باقی استنباطی ہیں۔

  1. اجماع - علت کی دریافت کایہ طریقہ ہے کہ کسی عصر میں اس پر اجماع ہو جائے کہ فلاں وصف کی علت ہے۔ مثلاً مال میں ِ صغیر پر، ولایت کے لیے صفر کا علت ہونا۔

جمہور اصلین اجماع کو مسالک علت مانتے ہیں۔ اجماع کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ قطعی ہو، ظنی اجماع بھی مسالک علت ہو سکتا ہے۔

  1. نص صریح - نص صریح کی علت کی دلالت کی دو صورتیں ہیں۔
  • نص صریح ایسے الفاظ پر مشتمل ہو، جو صرف علت کے لیے وضع کیے گئے ہیں اور جن میں علت کے سوا کوئی احتمال نہ ہو۔ مثلاً لعلۃ کذا، لسبب کذا، لاضل یا من اجل کذا، کی، اذن۔
  • نص میں ایسے الفاظ ہو ں جو صرف علیت کے لیے وضع نہیں کیے گئے ہوں اور ان میں علت کے سوا دوسرا احتمال بھی ہو۔ مثلاً لام، باء،فاء، وغیرہ۔
  • نص کی دونوں صورتوں میں پہلی صورت اعلیٰ سمجھی جاتی ہے اور جمہور اصولین انھیں مانتے ہیں۔
  1. ایما - احناف اسے مستقل مسلک علت نہیں مانتے ہیں بلکہ اس مسلک نص کے تحت درج کرتے ہیں۔ اس کی متعدد صورتیں ہیں جنہیں جمہور اصولین تقریباً تسلیم کرتے ہیں اور اسے علت کی دلالت پرایک مستقل مسالک سمجھتے ہیں۔
  2. مناسبت - فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ نص (حکم) کے تمام اوصاف کا حکم میں اثر نہیں ہوتا ہے اور نص میں جتنے اوصاف ہیں وہ کل کے کل علت نہیں بنتے ہیں۔ مثلاً رسول اللہﷺ نے کوئی بات کسی ااعرابی سے فرمائی تو وصف اعرابی کا حکم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
  3. سیر و تقسیم - اوصاف کا وصف یہ تقسیم کہلاتا ہے اور ان اوصاف کو پرکھنا کہ ان میں سے جن اوصاف میں علت بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے، انھیں دلائل سے باطل کیا جاتا ہے اور جو وصف باقی

رہے جاتا ہے وہ علت کے لیے متعین ہوجاتا ہے۔

  1. طرد اور دوران - وجود وصف سے وجود حکم طرد ہے اور انتفاء وصف سے انتفاء حکم عکس ہے اور دوران طرد و عکس کا دوسرا نام ہے۔

مثلاً خمر جب سکر ہو تو حرام ہوتی ہے اور جب اس کا اثر زائل ہو جائے تو یعنی کے سرکہ بن جائے تو یہ حرام نہیں رہتی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ تحریم وجود و عدم سکر کے ساتھ دائر ہے۔

  1. شبہ - شبہ اس وصف کو کہتے ہیں جو مناسب لذاتہ نہیں، لیکن اس میں مناسبت کا وہم ہوتا ہے۔
  2. تحقیق، تنقیح اور تخریج مناط - یعنی علت پر تین طرح سے نظرڈالی جائے۔ اس کی تحقیق میں، اس کی تنقیح میں، اس کی تخریج میں۔ مثلاً اعرابی کا قصہ، وقاع کہ اگرچہ نص علت کی طرف ایسا کرتا

ہے، لیکن غیر معتبر اوصاف کے حذف کے ذریعہ علت معینہ کی دریافت رائے اجتہاد کی محتاج ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اس حکم میں متعدد اوصاف سامنے رکھے جائیں، اس کا اعرابی ہونا، اس کا شخص معین ہونا، اس زمانہ یا اس مقام یا اس خاص دن میں ہونا، موطوعتہ کا ذوجہ یا معین عورت ہونا۔ ان تمام اوصاف کا تاثیر میں کوئی دخل نہیں لہذا نہار رمضان میں وقاع یہ وصف موثر ہوگا۔

تحقیق مناطترمیم

نص یا اجماع استنباط سے علت معلوم ہو جانے بعد آحاد صور یعنی جزیات میں وجود علت کی معارفت کی کوشش کرنے کو تحقیق مناط کہتے ہیں۔ مثلاً تحریم شرب خمر کے لیے، شدت مطربہ کے وصف علت کے لیے، اثباط یا محدد میں وجوب قصاص کے لیے، قتل عمد عددان کا علت ہونا۔

تنقیح مناطترمیم

وصف کے ساتھ مختلط غیر معتبر اوصاف کے حذف و الغاء کے ذریعہ اس وصف کی تعیین میں نظر جس کے علت ہونے پر تعیین کے بغیر نص دلالت کرتا ہے۔

تخریج مناطترمیم

نص یا اجماع کسی حکم پر دلالت کریں تو اس حکم کی علت کے اسباب میں نظر و اجتہاد تخریج مناط کہلاتا ہے۔